یہ خبر ملاحظہ کیجیے: ’’اسلام آباد میں آج کل واشنگٹن کی اس تجویز پر غور ہو رہا ہے کہ افغانستان میں مقیم امریکا اور ناٹو افواج کا مالی بوجھ اُٹھانے میں مسلم ممالک بھی شرکت کریں‘‘۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ایک اہل کار نے ۱۹؍اپریل ۲۰۱۲ء کو یہ بات دی ایکسپریس ٹربیون کو بتائی۔امریکی منصوبے میں یہ تجویز پیش کی گئی ہے: پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک ہرسال ایک خاصی رقم افغان سیکورٹی فنڈ میں دیں تاکہ ۲۰۱۴ء تک اور ممکنہ طور پر اس کے بعد بھی افغانستان کی قومی سلامتی کی افواج (ANSF) پر صرف کی جاسکے۔
’’وزارتِ خارجہ کے اہل کار نے نام نہ بتانے کی شرط پر تجویز کے مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ امریکا اور ناٹو نے یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ بین الاقوامی برادری افغانستان میں ’دہشت گردی‘ جڑ سے اکھاڑنے میں مالیات فراہم کرکے حصہ لے۔ اس اہل کار کے مطابق پاکستان افغانستان میں امن و استحکام کی کوشش میں حصہ لینے کے لیے رضامند ہے۔ لیکن وہ تنبیہہ کرتا ہے کہ ملک کو اس تجویز پر غور کرنے میں خصوصی احتیاط (extra care) کرنا پڑے گی، کیوں کہ ہم دہشت گردی کے خلاف امریکا کی عالمی لڑائی کی حمایت کرنے کی وجہ سے پہلے ہی تحریکِ طالبان پاکستان اور دوسرے جنگجوئوں کے غیض و غضب کا سامنا کر رہے ہیں۔
’’مئی ۲۰۱۲ء میں شکاگو میں جو سربراہ کانفرنس ہورہی ہے اس میں طے کیا جائے گا کہ اے این ایس ایف کو اپنے فرائض ادا کرنے کے لیے کس قسم کی مدد دی جائے۔ افغان افواج کی حیثیت، ان کی تربیت کے انتظامات اور دیگر متعلقہ مسائل پر اس کانفرنس میں غور کیا جائے گا۔ افغانستان میں متعین ناٹو کی زمینی افواج کا بل ادا کرنے کے لیے یورپی ریاستوں کی نارضامندی آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے۔ یہ کام وہ تقریباً ایک عشرے سے کر رہے ہیں۔ ناٹو کے سیکرٹری جنرل نے اپنی ۲۰۱۱ء رپورٹ میں تسلیم کیا ہے کہ ممبر ممالک بجٹ میں اپنا مالی حصہ کم کررہے ہیں ۔ اپنی قسم کی اس پہلی رپورٹ میں انھوں نے کہا ہے کہ حالیہ معاشی بحران کی وجہ سے دفاعی اخراجات غیرمعمولی طور پر کم ہوئے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ۲۸ میں سے ۱۸ حلیف ممالک کے دفاعی سالانہ بجٹ ۲۰۱۱ء میں ۲۰۰۸ء سے بھی کم ہیں۔ مزید کمی کا اعلان کیا جاسکتا ہے، یا ان کے بارے میں پیش گوئی کی جاسکتی ہے، جب کہ ناٹو سے باہر بہت سے ممالک کی دفاعی صلاحیت اور بجٹ میں اضافہ ہو رہا ہے۔
’’آسٹریلیا کے نیشنل ٹائمز نے لکھا ہے کہ’’امریکا نے بتایا ہے کہ افغان افواج اور پولیس کے لیے ۱ئ۴ ارب ڈالر سالانہ درکار ہوں گے، لیکن افغانستان میں کئی سال سے کافی کچھ خرچ کرنے کے بعد ناٹو ممالک اپنا ہاتھ کھینچنا چاہتے ہیں‘‘۔ (دی ایکسپریس ٹربیون، لاہور، ۲۰؍اپریل)
یہ خبر کسی تبصرے کی محتاج نہیں ہے۔ ہمارے حکمرانوں کے لیے مسئلہ امریکا کی چاکری نہیں، اس چاکری کو پاکستان کے غیور عوام کا قبول نہ کرنا ہے۔ اگر عوام کا غیظ و غضب قابو کیا جاسکے تو وہ ہر طرح حاضر ہیں۔ ہمارے نادان دوست سمجھاتے ہیں کہ ہم امریکا سے اپنے اخراجات وصول کرلیں گے، کنٹینروں پر ٹیکس سے کمائی کرلیں گے، سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ کی مد میں کچھ مانگ لیں گے، لیکن شاطر امریکا تو آیندہ کئی برس تک اپنا خرچ بھی ہمارے کندھوں پر ڈالنا چاہتاہے، اور ہم اس کے لیے تیار ہیں!
امریکا ہمارا کیسا دوست اور حلیف ہے، اس کا اندازہ اس سے کیجیے کہ وزیر خارجہ امریکا نے فرمایا ہے کہ اگر پاکستان نے ایران سے پائپ لائن تعمیر کرنے کی ’کوشش‘ کی تو ہم اس پر پابندیاں لگادیں گے جس سے اس کی ڈگمگاتی معیشت مزید بے حال ہوجائے گی۔
ہم ایران پر پابندیاں لگائیں اور پاکستان اس سے معاہدہ کرے، یہ مجال!
اب بولیں ہماری وزیر خارجہ حنا ربانی کھر صاحبہ!!