قرآن مجید کے ترجمے اور تفسیر پر انگریزی میں بھی بہت سا علمی کام ہوچکا ہے۔ اس کے باوجود انگریزی خواں حلقوں میں قرآنی تعلیمات سے عمومی غفلت اور بطور تذکیر و یاد دہانی عام فہم ترجمانی کی ضرورت ہے۔ زیرتبصرہ ترجمۂ قرآن اور مختصر تفسیر اسی ضرورت کے پیش نظر عام فہم زبان میں لکھی گئی ہے۔ اس کے مخاطب بنیادی طور پر طالب علم ہیں۔ اسی لیے بہت سے علمی مباحث کو زیربحث نہیں لایا گیا۔ مفسر کی کوشش ہے کہ آیاتِ قرآنی کے الفاظ اور مفہوم تک بات کو محدود رکھا جائے، اور تلاوتِ قرآن سے قاری کے ذہن میں جو تصویر اُبھرتی ہے، دل پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں، ان پر توجہ مرکوز کی جائے۔ سورتوں کے باہم ربط اور نظم کو بھی واضح کیا گیا ہے۔ انگریزی ترجموں اور تفاسیر کے عمومی اسلوب سے ہٹتے ہوئے آیات کا ترجمہ ایک تسلسل سے پیراگراف کی صورت میں دیا گیا ہے تاکہ قاری پر ایک مسلسل تحریر کا تاثر قائم ہوسکے۔ ترجمہ اور تفسیر کے بعد آخر میں خلاصے کے طور پر سورہ کے مرکزی مضمون اور اہم نکات کو اختصار سے بیان کردیا گیا ہے۔ ابتدا میں قرآن سے استفادے کے لیے بنیادی اصول بھی بیان کیے گئے ہیں۔ اس طرح قاری قرآنی تعلیمات سے عام فہم انداز میں بآسانی آگاہ ہوجاتا ہے اور عمل کے لیے رہنمائی حاصل کرتا ہے۔ کہیں کہیں تفسیر میں طویل پیراگراف ہیں جنھیں مختصر کرنے کی ضرورت ہے۔
حامد عبدالرحمن الکاف مدرسۃ الاصلاح اعظم گڑھ، بھارت سے فارغ التحصیل ہیں۔ آیاتِ قرآنی کے نظم پر تحقیقی کام کرچکے ہیں۔ متعدد کتب کے مصنف ہیں۔ یہ عام فہم ترجمہ و تفسیر سکول اور کالج کے طلبہ کے علاوہ عام انگریزی خواں طبقے کو قرآن کے پیغام اوراس کی روح سے آشنا کرنے کے لیے مفید ہے۔ (امجد عباسی)
شیخ ابوبکر جابر الجزائری نے کتب سیرت کے گلستان رنگارنگ و خوشبودار میں ھذا الحبیب محمدؐ یامحب کے نام سے ایک اچھا اضافہ کیا ہے۔ قبل ازیں مصنف کی کتاب منہاج المسلم عالمِ اسلام سے داد پاچکی ہے۔ سیرتِ حبیبؐ کے بارے میں مصنف کا کہنا ہے کہ سیرت کے فن پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے لہٰذا مَیں نے اس کتاب کی جمع و ترتیب میں تکرار، طول اور اختصار سے اجتناب کیا، اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ایک ایسا طریقۂ کار اختیار کیا ہے جو تقسیم ابواب اور تفصیل کلام کے حُسن و جمال کے ساتھ ساتھ نہایت جامع، بڑا واضح، بہت آسان اور اس فن میں ایک مثال ہے۔ کتاب کا ایک امتیازی وصف یہ بھی ہے کہ اس کے ہر گوشے کو نتائج و عبر کے تذکرے سے مزین کیا گیا ہے اور کوئی گوشہ بھی غالباً اس سے خالی نہیں۔ (ص۱)
عرب تہذیب و تمدن اور سیاسی و سماجی پس منظر کے ساتھ ہجرت سے وصالِ رسولؐ تک کے واقعات کو سنہ وار بیان کیا گیا ہے۔ رسولؐ اللہ کی ذات والاصفات کے زیرعنوان آپؐ کے شمائل، خصائل، معجزات، آداب اور آپؐ کے خاندان، اصحابِ خاص، آپؐ سے متعلق اشیا کا ذکر ہے۔ آخر میں رسولؐ اللہ کے ۱۰ حقوق بیان کیے گئے ہیں۔
سیرتِ حبیبؐ ایک ایمان افروز، محبت انگیز اور مستند کتاب ہے۔ترجمہ اچھا ہے، تاہم کچھ چیزیں دورانِ مطالعہ روانی کو متاثر کرتی ہیں۔بعض جگہوں پر اشعارکا ترجمہ چھوڑدیا گیا ہے۔ عربی عبارات پر اعراب نہیں لگائے گئے۔ نقشہ جات کسی دوسری عربی کتاب سے لیے گئے ہیں لیکن اُن کا ترجمہ نہیں کیا گیا۔ پروف کی اغلاط اور ٹائپ کاری کا اسلوب بھی توجہ طلب ہے۔ کتاب کی باب بندی بھی نہیں کی گئی۔ اگر ان امور پر توجہ دی جاتی تو کتاب کی پیش کش مزید بہتر ہوجاتی۔ اعلیٰ کاغذ پر عمدہ طباعت ہے۔(ارشاد الرحمٰن)
محمد بن قاسمؒ کے ہاتھوں سندھ کی فتح کے بعد، اسلامی دور میں سندھ میں اسلامی علوم کی ترویج و اشاعت کے کام کا بھرپور آغاز ہوا۔ عرب علما کی آمد کے علاوہ مقامی اہل علم نے بھی اس علمی تحریک میں حصہ لیا اور دینی علوم اور عربی زبان میں مہارت بہم پہنچائی۔ علماے سندھ کے تذکرے ہمارے کلاسیکل عربی ذخیرے میں جا بجا بکھرے ہیں۔ عہد قریب اور بعید کے سیرو سوانح کے تذکرے کی کتابوں میں انھیں یک جا کرنے کی کاوشیں بھی کی گئیں۔ قدیم تذکروں میں میرمعصوم شاہ بکھری کی تاریخ معصومی، میر علی شیر قانع کی تحفۃ الکرام، معیار سالکان:طریقت اور مقالات الشعراء ،اور زمانہ قریب میں مولانا عبدالحی حسنی کی نزھۃ الخواطر، مولانا دین محمد وفائی کی تذکرہ مشاہیر سندھ (تین جلدیں، سندھی) اور مولانا قاضی اطہر مبارک پوری کی رجال السند والھند الی القرن السابع نمایاں ہیں۔ سندھ میں فقہی ادب کے ارتقا پر سندھ یونی ورسٹی کے استاد ڈاکٹر قاضی یار محمد (م:۱۹۸۶ئ) نے سندھ یونی ورسٹی میں۱۹۷۹ء میں ڈاکٹریٹ کی سطح کا مقالہ بھی پیش کیا تھا جو سندھی لینگویج اتھارٹی حیدر آباد سے ۱۹۹۲ء میں شائع ہوا۔
زیر نظر تذکرہ الفقہ فی السند بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے ، جس میں مؤلف نے خطۂ سندھ، اس کے شہروں اورحکمر ان خاندانوں کے اجمالی تعارف اور پھر علم فقہ کے تعارف کے بعد منتخب فقہاے سندھ اور ان کی فقہی تالیفات کا تذکرہ کیا ہے۔ عصر حاضر میں تالیف کی گئی متعد دکتب اور ان کے مؤلفین کو بھی شامل کیا گیا ہے ، مگر کئی کتابوں کے متعلق معلومات بہت مختصر اور مبہم ہیں۔ اس موضوع پر تالیف سے قاری کو یہ امید ہوتی ہے کہ سندھ کے قدیم علما نے جو تالیفی خدمات انجام دی ہیں، ان کا تفصیلی تعارف اور جائزہ پیش کیا جائے، مگر یہاں دورِ جدید کے علما کی تالیفات زیادہ نمایاں ہیں۔ نیز علمِ فقہ کے تعارف میں بھی ایک حد تک تفصیل سے کام لیا گیا ہے۔ علامہ جعفر بوبکانی کی المتانۃ فی مرمۃ الخزانۃ کا نو صفحات (ص ۱۲۲ تا ۱۳۰)پر پھیلا ہوا تعارف پورے کا پورا محمداسحاق بھٹی کی برصغیر پاک و ہند میں علم فقہ سے حرف بہ حرف لیا گیا ہے مگر کہیں بھی اس کا حوالہ نہیں دیا گیا۔ مؤلف اس سرقے کا کیا جواز پیش کریں گے؟ مجموعی طور پر کتاب سے اجمالاً ہی سہی، موضوع کا اچھا تعارف ہو جاتاہے ۔ (ڈاکٹر عبدالحی ابڑو)
معروف عالم، نقاد، اور دانش ور ڈاکٹر تحسین فراقی نے تدریسی ملازمت سے سبک دوشی کے بعد، مباحث کے نام سے ایک علمی شش ماہی مجلہ (یا کتابی سلسلہ) شروع کیا ہے۔ یہ سالہا سال سے ان کی اس سوچ بچار کا نتیجہ ہے کہ ایک ایسے تنقیدی، تحقیقی اور تجزیاتی مجلے کی ضرورت ہے جو ادب اور تہذیب کے منظرنامے پر اُبھرنے والے کچھ پریشان کن سوالوں سے قاری کو دوچار بھی کرے اور جوابات کی صورت میں اسے کچھ سوچنے پر مجبور بھی کرے۔ (اداریہ)
زیرنظر پہلے شمارے میں تنقید، تحقیق، پاکستانیات اور معاصر ادب کے تجزیوں پر مشتمل دو درجن سے زائد مقالات اور تبصراتی مضامین شامل ہیں۔ امجدطفیل نے ’پاکستان کا تشخص اسلامی یا سیکولر‘ کے عنوان سے نہایت تفصیلی مضمون میں کہا ہے کہ پاکستان کا آئین پاکستان کو ایک اسلامی جمہوری فلاحی ریاست قرار دیتا ہے۔ انھوں نے سیکولر لبرل ’دوستوں‘سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنے موقف کی تائید میں حقائق اور بیانات کو مسخ نہ کریں۔ طیبہ تحسین نے ہولوکاسٹ کے موضوع پر جناب ہارون یحییٰ کی کتاب The Holocaust Violenceکا تفصیلی مطالعہ پیش کیا ہے۔ خودتحسین فراقی نے معروف جرمن مستشرق این میری شمل کی غالب شناسی پر مفصل تنقید پیش کی ہے جس میں ان کی علمی کاوشوں کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ان کی عاجلانہ افتادِ طبع اور اس کے نتیجے میں ان سے سرزد ہونے والے تسامحات کی نشان دہی کی ہے۔ مجلے کے ایک حصے میں بعض نادر اور قدیم ادبی کتابوں کا تعارف شامل ہے۔ ایک حصے میں مولوی عبدالحق، سید سلیمان ندوی، ڈاکٹر محمدحمیداللہ، مشفق خواجہ اور فیض احمد فیض کے غیرمطبوعہ خطوط شامل ہیں۔ (سیّد سلیمان ندوی کے بعض مکاتیب قبل ازیں فاران میں چھپ چکے ہیں)۔ متعدد اہم کتابوں پر تبصرے بھی دیے گئے ہیں۔
بحیثیت مجموعی مباحث اُردو کے علمی اور ادبی مجلّوں میں ایک مختلف نوعیت کا مجلہ ہے جسے بڑی توجہ اور محنت سے مرتب کیا گیا ہے۔ فقط ذاتی ذوق و شوق اور کسی ادارے کی اعانت یا سرپرستی کے بغیر انفرادی کاوش سے ایسا مجلہ شائع کرنا ایک بڑی جسارت مگر بے حد قابلِ قدر اقدام ہے۔ کتابت، طباعت اور پیش کش معیاری اور مدیر کے صاحب ِ ذوق ہونے کی دلیل ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
پاکستان کا قیام جن مقاصد کے تحت عمل میں آیا، ان کے حصول کی کوششیں اوّل روز سے جاری ہیں۔ چنانچہ قیامِ پاکستان کے دو ہی مہینے بعد نومبر ۱۹۴۷ء میں وزارتِ تعلیم و تربیت کے زیراہتمام پہلی تعلیمی کانفرنس منعقد ہوئی، جس کی قراردادوں کے یہ الفاظ لائق توجہ ہیں: ’’پاکستان میں تعلیمی نظام کی بنیادیں دینی قدروں، اسلامی عالم گیر اخوت، رواداری اور عدل و انصاف پر استوار ہونی چاہییں‘‘۔ اس کے بعد پاکستان میں بننے والی تقریباً تمام تعلیمی پالیسیوں میں، اسلامی نظریۂ حیات کی حفاظت، اسلامی اصولوں کے مطابق نظامِ تعلیم کی تشکیل، اسلامی اقدار کے نفاذ، اسلام اور پاکستان سے وفاداری، اسلام اور قرآن کے مطابق عملی قواعد کی بنیاد پر نصاب سازی، اور نظامِ تعلیم کی تیاری کو اساسی حیثیت حاصل رہی۔ زیرتبصرہ کتاب میں پاکستان کے نظامِ تعلیم کے اسلامی تشخص کی تفہیم کی کوشش کی گئی ہے۔
مصنف نے ۲۱ عنوانات کے تحت علم، تعلیم، مقاصد تعلیم،ذریعہ تعلیم، اسلامی تصورِتعلیم، مغربی تصورِتعلیم، نظام ہاے تعلیم کے تقابلی مطالعے، تعلیم کے جامع تصور اور مروجہ تعلیمی نظام کے اخلاقی انحطاط اور دیگر عنوانات پر نہایت موثر اور مدلل طریقے سے حقائق بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان میں ہر نئی حکومت نے مقاصد کی حد تک نظامِ تعلیم کی اسلامی شناخت برقرار رکھی ہے لیکن عملاً پاکستان میں تعلیم پہلے سرکاری تحویل میں تھی، پھر نجی ادارے قومیا لیے گئے۔ کچھ عرصے بعد نجی اداروں کی اجازت دے دی گئی، بعدازاں مالی منفعت کی خاطر تجارت بن گئی۔ اس تغیر و تبدل نے نظامِ تعلیم کو اُن مقاصد سے ہم آہنگ نہیں ہونے دیا، جو تعمیرپاکستان کی اسلامی بنیادوں میں کارفرما ہیں۔
اس بات پر تعجب کا اظہار کیاگیا ہے کہ پاکستان کے نظامِ تعلیم کی اسلامی سمت موجود ہونے اور اُسے آج تک باقی رکھنے کے بعد اب پورے نظامِ تعلیم کو سیکولر کیوں بنایا جا رہا ہے؟ آج جو لوگ پاکستان کے نظامِ تعلیم کی سیکولر تشکیل کی کوشش کر رہے ہیں، ان کا یہ عمل غیرآئینی اور غیرمنطقی ہے۔کتاب نہایت سلیقے اور ترتیب سے تحریر کی گئی ہے۔ کتاب کے مضامین کی یاد دہانی کے لیے تعلیمی اصولوں کو مدّنظر رکھا گیا ہے۔ قرآنی آیات، احادیث، ماہرین تعلیم کی آرا اور مغربی مفکرین تعلیم کے اقوال سے مزین ہے۔(ظفرحجازی)
مصنف معاشیات کے استاد رہے ہیں۔ اسی دوران پاکستان کی معیشت کے مطالعے میں ان کی خصوصی دل چسپی پیدا ہوئی۔ ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد انھوں نے اردو کے ایک موقر روزنامے میں پاکستانی معیشت کے مسائل پر لکھنے کا آغاز کیا۔ ان کے کالموں میں پاکستانی معیشت کے بڑھتے ہوئے مسائل کی نشان دہی بھی موجود ہے اور ان کے حل کے لیے عملی تجاویز بھی۔ معاشی مسائل کے ساتھ ساتھ پروفیسر صاحب نے ملک کے سماجی مسائل اور تعلیمی شعبے پر بھی خوب لکھا۔اس حوالے سے انھوں نے قوموں کے عروج زوال میں تعلیم کے کردار پر بھی بحث کی اور کھلی منڈی کی معیشت کے تعلیم پر اثرات کا جائزہ بھی لیا۔ معاشرے کی تعمیر میں استاد کے کردار اور ان کی ذمہ داریوں پر بھی لکھا اور حکومت کی طرف سے پیش کی جانے والی تعلیمی پالیسیو ں کاتجزیہ بھی پیش کیا۔نصاب سازی اور نصابات کی بہتری کے لیے تجاویز اور کوالٹی ایجوکیشن کے لیے اپنی تجاویز بھی پیش کیں۔ یہ مضامین معلومات اور ملکی معاشی مسائل سے آگاہی کا ذریعہ بنے۔
مصنف نے پاکستانی معیشت کے تقریباً ہر پہلو پر قلم اٹھایا ہے۔ معیشت میں خود انحصاری کی ضرورت و اہمیت ،اس کے طریق کار، پاکستان میں ہونے والی زرعی اصلاحات اور ان کے نتائج، زرعی شعبے کے مسائل ، دیہی سطح پر پائی جانے والی غربت، سرمایہ کاری کے راستے کی رکاوٹیں اور ان کا حل ، ملک میں توانائی کے ذرائع ، خصوصا بجلی و گیس کی قلت، اور ان کی کمی پر قابو پانے کے لیے اقدامات ، بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور ان کے افراطِ زر پر اثرات ، پاکستان کی صنعتی پس ماندگی کی وجوہات، پاکستان پر بڑھتے ہوئے ملکی و غیر ملکی قرضے اور ان سے نجات کے طریق کار ، پاکستان کی کپڑے کی صنعت اور معیشت میں اس کے کردار، پاکستان کی معیشت پر سیاسی اثرات ، بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے سمیت معیشت کے تقریباً ہر شعبے کے بارے میں اعدادو شمارکی روشنی میں اظہار خیال کیا گیا ہے۔یہ کتاب جہاں معاشیات کے طلبہ اور اساتذہ کے لیے مفیدہے وہاں عام قارئین کے لیے بھی معلومات افزا ہے۔(میاں محمد اکرم)
عبیداللہ کیہر ایک تجربہ کار مسافر اور سیاح ہیں۔ ان کے سفرناموں میں کچھ مطبوعہ ہیں اور کچھ مشین بند یعنی ڈجی ٹل سفرنامے۔ ان میں سے ایک مطبوعہ سفرکہانیاں کے عنوان سے ہمارے سامنے ہے جس میں تقریباً ۳۰،۳۵ سفرنامچے جمع کیے گئے ہیں۔ یہ پاکستان، چین، ایران، آذربائیجان، سعودی عرب اور ترکی کے نئے پرانے اسفار اور مختلف اوقات میں عبیداللہ کیہر کی سیاحتوں کی مختصر رودادیں (یا مضامین) ہیں۔
یہ بے ساختہ تحریریں پانچ پانچ، سات سات صفحوں کی ہیں۔ ان میں باہمی ربط اور تسلسل نہیں کیوں کہ یہ الگ الگ علاقوں کی کہانیاں ہیں اور کہانیاں بھی ایسی جو کبھی کبھی اَدھوری رہ جاتی ہیں اور کیہرصاحب اُنھیں انجام تک نہیں پہنچاتے۔ روداد یا کہانی فقط بیانیے تک محدود رہتی ہے۔
عبیداللہ کیہر ایک خالص اور خوش باش سیاح ہیں۔وسط ایشیا یا چین کی طرف جانے والے سیاح، عام طور سے اِدھر سے جاتے ہوئے اور اُدھر سے آتے ہوئے کچھ نہ کچھ سامانِ تجارت لے چلتے ہیں، اس طرح وہ کچھ اخراجاتِ سفر نکال لیتے ہیں (حج کے مقدس سفر میں بھی ایک حد تک تجارت کی گنجایش ہوتی ہے) مگر شرعی و قانونی اجازت کے باوجود، عبیداللہ کیہر کے ’مذہب ِ سیاحت‘ میں اخراجاتِ سفر نکالنے کے لیے سامانِ سفر لے چلنا جائز نہیں۔ ان مختصر رودادوں کا تنوع قاری کے لیے دل چسپی کا باعث ہے مگر ان کا ادھورا پن لکھنے والے کی بے نیازانہ طبیعت کا مظہر ہے۔ عبیداللہ کیہر کی طبیعت میں نظیراکبرآبادی کے قلندرانہ مزاج کی کچھ کچھ جھلک نظر آتی ہے۔ جب وہ سیاحت کے لیے نکلتے ہیں تو جو سواری مل جائے، لے لیتے ہیں، جہاں سے جیسا کھانا میسر آئے، کھالیتے ہیں، البتہ کاروباری لوگوں اور حساب کتاب رکھنے والے ہم راہیوں سے انھیں پریشانی ہوتی ہے۔ ان کا اسلوب کہیں کہیں انگریزی الفاظ کے غیرضروری استعمال کی وجہ سے کھردرا ہے مگر مجموعی طور پر یہ سفرکہانیاں سادہ اور رواں بیانیے میں لکھی گئی ہیں۔
منظرنگاری کے اچھے نمونے بھی ملتے ہیں مثلاً ص ۵۰، ۷۲، ۷۶ وغیرہ ۔اگر وہ اپنے بقیّہ ڈجی ٹل (مشینی؟) سفرناموں کو بھی کاغذ پر اُتار کر کتابوں کی صورت میں پیش کریں اور زبان و بیان کی طرف تھوڑی سی توجہ دیں تو ان کا شمار اُردو کے قابلِ لحاظ اور معتبر سفرنامہ لکھنے والوں میں ہوگا، کیوں کہ ان کے ہاں ہمارے بعض نام وَر اور سفرناموں کے ڈھیر لگادینے والوں کی طرح کی بناوٹ اور تصنّع نہیں ہے۔ (ر- ہ)
سلمیٰ یاسمین نجمی معروف ادیب، افسانہ و ناول نگار اور نقاد ہیں۔ ان دنوں خواتین کے ماہانہ عفت کی ادارت بھی ان کے سپرد ہے۔
علامہ اقبال کی شاعری کا مطالعہ اس دور کی ضرورت ہے اور مختلف حلقوں کی طرف سے تفہیم اقبال کا تقاضا بھی کیا جاتا ہے۔ سلمیٰ صاحبہ نے اقبال کی بعض مختصر اور طویل نظموں کی تشریحات کا سلسلہ عفت میں شروع کیا تھا۔ اب اسے کتابی شکل میں مرتب کیا گیا ہے۔ یہ تشریحات، کلیاتِ اُردو کی ۱۲ منتخب نظموں کی ہیں۔ ہرنظم کا مختصر تعارف دینے کے بعد شعر بہ شعر تشریح کی گئی ہے۔ پاورقی حواشی میں مشکل الفاظ کے معنی دیے گئے ہیں، البتہ بہت سے مشکل الفاظ کے معنی (شاید انھیں آسان سمجھ کر) نہیں دیے گئے۔ نظموں کا پس منظر بھی مختصر ہے۔ قدرے زیادہ وضاحت ہوتی تو تفہیم نسبتاً آسان ہوتی۔
تشریحات سے پہلے سلمیٰ صاحبہ نے تمہیدی مضمون بعنوان ’ہمیں علامہ اقبال کو کیوں پڑھنا چاہیے‘ میں بتایا ہے کہ علامہ اقبال کی شخصیت اور فکر اور شاعری ایک جنریٹر کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ ہمیں ظلمات اور اندھیروں سے روشنیوں کی طرف لے آتی ہے۔ وہ کہتی ہیں اندھیرے سے روشنی میں آنا چاہتے ہو تو پھر علامہ کا کلام ہمارا بہت بڑا مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ یہی اس کتاب کا جواز ہے اور یہی اس کا محرک ہے۔ ان کے خیال میں علامہ کو پڑھنا اور ان کی شاعری کو سمجھنا اس لیے ضروری ہے کہ اُمت مسلمہ سوز وسازِ رومی اور پیچ و تاب رازی سے تہی دامن ہوچکی ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ ہم میں وہی اضطراب اور قوتِ عمل پیدا ہوجائے جو علامہ کو بے چین اور بے قرار رکھتی تھی۔ تشریحات میں ایک توازن ہے، عام فہم ہیں اور راست فکری پر مبنی ہیں۔ (ر- ہ )