اسلام کی مختلف خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ دین مصلحتوں اور حکمتوں پر مبنی ہے۔ اس کے لیے ’دین میں مصالح‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو احکام دیے ہیں ان میں انسانوں کے لیے بے پناہ فوائد پوشیدہ ہیں۔ اگر ان احکام پر عمل نہ کیا جائے اور دین کو ترک کردیا جائے تو ان فوائد سے محرومی کے ساتھ طرح طرح کے نقصانات لاحق ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمَا جَعَلَ عَلَیْْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ (الحج ۲۲:۷۸) ’’اور اللہ نے تمھارے لیے دین میں کوئی حرج نہیں بنایا ہے‘‘۔
قرآن و حدیث میں ایسی بے شمار نصوص ہیں جن میں احکام میں مصالح اور حکمتوں کی وضاحت کی گئی ہے اور علما نے اس پر مستقل کتابیں تصنیف کی ہیں، جن میں اسرار شریعت اور احکام کی علتوں کو بیان کیا گیا ہے۔ ۱؎ علماے اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ حکیم ہے اور اس کے احکام میں حکمت و مصلحت پائی جاتی ہے ۔ امام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں: تمام اَئمہ و فقہا احکام شرع میں حکمت و مصالح کے اثبات کے مسئلے پر متفق ہیں۔ اس سلسلے میں قیاس کو نہ ماننے والوں اور کچھ دوسرے لوگوں نے اختلاف کیا ہے۔ ۲؎
جو لوگ احکام میں مصالح اور حکمتوں کا انکار کرتے ہیں ان کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے امام موصوف لکھتے ہیں:’’اہل سنت اللہ تعالیٰ کے احکام میں تعلیل (علت) کے قائل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی چیز کو پسند کرتا ہے اور وہ راضی ہوتا ہے، جیسا کہ قرآن و سنت سے ثابت ہے۔ ان کے نزدیک پسند کرنا اور راضی ہونا مطلق طور پر کسی چیز کا ارادہ کرنے کے مقابلے میں زیادہ خاص ہے (یعنی کسی حکم کی بجاآوری رضاے الٰہی کے لیے ہونا اس کی علت قرار دی جاسکتی ہے)۔ بے شک اللہ تعالیٰ کفر ، فسق اور عصیان کو پسند نہیں کرتا، اگرچہ اللہ کی مشیّت و ارادے کے بغیر کوئی شخص ان افعال کو انجام نہیں دے سکتا‘‘۔(منھاج السنۃ النبویۃ، ابن تیمیہ،ج۱، ص۱۴۱)
ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ احکام میں علّت تسلیم کرنے کی صورت میں تسلسل اور دور لازم آئے گا اور اللہ تعالیٰ حکمت کا تابع قرار پائے گا ، جس سے وہ برتر و بالا ہے۔ اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے امام موصوف لکھتے ہیں:’’یہ تسلسل مستقبل میں واقع ہونے والے واقعات کے بارے میں لازم آتاہے نہ کہ گذشتہ واقعات کے بارے میں ۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے کسی کام کو کسی حکمت کے لیے انجام دیا تو حکمت اس فعل کے بعد حاصل ہوگئی۔ اب اگر اس حکمت سے دوسری حکمت چاہی جائے تو یہ تسلسل مستقبل میں پیش آئے گا۔ اور وہ حاصل شدہ حکمت اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ اور ایک دوسری حکمت کا سبب ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ایسی حکمتیں پیدا کرتا رہتا ہے جن کو وہ پسند کرتا ہے اور ان کو دوسری حکمتوں کا سبب بھی بناتا رہتا ہے۔ جمہور مسلمان اور دوسرے فرقوں کے لوگ مستقبل میں تسلسل کے قائل ہیں، ان کے نزدیک جنت اور جہنم میں ثواب و عذاب ایک کے بعد ایک تسلسل کے ساتھ حاصل رہے گا‘‘۔(ایضاً)
امام موصوف دین میں مصالح اور حکمتوں کی موجودگی کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’جب فرد کو معلوم ہوگیا کہ فی الجملہ اللہ تعالیٰ کے دین (اوامر و نواہی) میں عظیم حکمتیں ہیں تو اتنی ہی بات اس کے لیے کافی ہے، پھر جوں جوں اس کے ایمان و علم میں اضافہ ہوگا اس پر حکمت اور رحمت الٰہی کے اسرار کھلتے جائیں گے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا ہے: سَنُرِیْھِمْ آیٰـتِنَا فِیْ اْلآفَاقِ وَفِیْ أَنفُسِھِمْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَھُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ (حٰم السجدہ۴۱:۵۳) ’’عن قریب ہم ان کو ا پنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی، یہاں تک کہ ان پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ یہ قرآن برحق ہے‘‘۔ یا جیساکہ ایک حدیث میں اس مفہوم کو مزید واضح کیاگیاہے: ’’اللہ بندوں کے حق میں اس سے زیادہ رحیم ہے، جتنا ماں اپنے بچے کے لیے رحم دل ہوتی ہے‘‘۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ، ج۸، ص۹۷)
شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اپنی کتاب حجۃ اللّٰہ البالغۃ میں ان لوگوں کی پُرزور تردید کی ہے جنھوں نے احکام میں مصلحتوں کا انکار کیا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ احکام شرعیہ قطعاً حکمتوں اور مصلحتوں پر مشتمل نہیں ہیں … یہ خیال سراسر فاسد ہے اور سنت اور اجماعِ امت سے اس کی تردید ہوتی ہے‘‘۔ (حجۃ اللّٰہ البالغۃ، ص ۴-۵)
۱- اس سے معجزۂ قرآن کی طرح (جس کے معارضے سے انسان عاجز ہوگئے) شریعت کے معجزے کا اظہار ہوتا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت تمام شریعتوں سے کامل تر ہے، اور اس میں ایسی مصلحتیں پیش نظر رکھی گئی ہیں جن کی رعایت کسی اور طریقے پر ممکن نہیں۔ یہ کامل شریعت ایک نبی اُمی کی طرف سے پیش کی گئی ہے۔
۲- شریعت ِاسلامیہ پر کامل ایمان ویقین کے ساتھ اگر اس کی مصلحتیں بھی معلوم ہوجائیں تو اطمینانِ قلبی حاصل ہوتا ہے اور یہ طمانیت شرعاً مطلوب ہے، جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایمان کامل کے باوجود اللہ تعالیٰ سے اس کا مطالبہ کیا تھا ۔ چنانچہ اس کے لیے ان کے سامنے ایک معجزہ دکھا دیا گیا۔ ( البقرہ ۲: ۲۶۰)
۳- فروعی مسائل میں فقہا کے درمیان اختلافات رونما ہوئے ہیں۔ مصالح کے علم سے ان اختلافات میں کسی ایک مسئلے کو ترجیح دینے میں مدد ملتی ہے۔
۴- شریعت کے بعض مسائل میں بعض فرقوں کو شک ہے۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ ان میں شریعت کا حکم خلافِ عقل ہے اور جو چیز عقل کے خلاف ہو، اسے رد کردینا چاہیے، جیسے عذابِ قبر کے بارے میں معتزلہ کو شک ہے۔ اسی طرح قیامت میں حساب کتاب اور اعمال کے تولے جانے کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ علیم و خبیر ہے، اسے حساب لینے اور اعمال کو تولنے کی کیا ضرورت؟ غرض کہ اس طرح کے اور دیگرمسائل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خلافِ عقل ہیں۔ اس کا سدّباب اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ ان کے بارے میں مصلحتوں اور حکمتوں کو بیان کیا جائے، تاکہ شک کا ازالہ ہو۔(حجۃ اللّٰہ البالغۃ، ص ۸)
۱-متعلق فعل میں مصلحت شامل ہو، اگرچہ شریعت میں اس کی وضاحت نہ کی گئی ہو، جیسے عدل و انصاف کی مصلحت دنیامیں امن و امان کا قیام ہے اور ظلم اور ناانصافی فسادِ عالم کا سبب ہے۔ یہ مصلحت عقل اور شرع دونوں سے ثابت ہے۔
۲- شریعت نے جب کوئی حکم دیا تو اس کی بجا آوری ہی میں مصلحت ہے اور کسی چیز سے منع کیا تو اس سے احتراز کرنا ہی تقاضاے مصلحت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شارع کے حکم سے حسن و قبح کا تعین ہوتا ہے۔
۳- اللہ تعالیٰ کسی حکم کے ذریعے بندے کا محض امتحان لینا چاہتا ہو کہ وہ اس کی اطاعت کرتا ہے یا نہیں؟ حقیقت میں حکم کی تعمیل مقصود نہ ہو، جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے کی قربانی کا حکم دینا، یا بنی اسرائیل کے تین افراد (گنجا، برص زدہ اور اندھے) کی آزمایش کہ وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی خصوصی نعمتوں کا اعتراف کریں اور راہ حق میں خرچ کریں۔ اس صورت میں حکمت نفسِ حکم میں ہے نہ کہ اس کی تعمیل کرنے میں‘‘۔ (مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ، ج ۸، ص ۴۳۵- ۴۳۶)
علامہ ابواسحاق الشاطبیؒ فرماتے ہیں:’’احکام شریعت کا اصل مقصد دنیا و آخرت میں بندوں کے مصالح کی حفاظت ہے‘‘۔(الموافقات فی اصول الشریعۃ، ج۲، ص۶)
علامہ ابن قیم الجوزیۃؒ لکھتے ہیں:’’شریعت کی بنا اور اساس بندوں کے دنیوی و اُخروی مصالح اور حکمتیں ہیں اور وہ پوری کی پوری عدل، رحمت، حکمت اور مصلحت ہے‘‘۔(اعلام الموقعین عن رب العالمین، ج۳، ص ۳)
صَلُح ، یصلح ، صلاحاً وصلوحاً و صلاحیۃ کے معنٰی درست او رٹھیک ہونے کے ہیں۔ اسی سے مصلحت ہے اور اس کی جمع مصالح ہے۔ اس کی ضد فساد اور مفسدۃ ہے، جس کے معنی بگاڑ اور خرابی کے آتے ہیں۔ اس کے اصطلاحی معنٰی ہیں احکامِ شرع کا مصالح کے مطابق ہونا۔ اس میں جلبِ منفعت اور دفعِ مضرت دونوں پہلو شامل ہوتے ہیں ۔ علما نے مصالح کی تشریح مختلف زاویوںسے کی ہے۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں:
’’منفعت کا حصول اور مضرت کا دفع کرنا مخلوق کی بنیادی ضروریات میںسے ہے اور خلق کی اصلاح اس امر پر ہے کہ ان کے مقاصد پورے کیے جائیں۔ یہاں اصلاح سے مراد وہ اصلاح ہے، جوشریعت کا مقصود ہے اور خلق کے حق میں شریعت کا مقصود پانچ امور ہیں: دین کی حفاظت، نفس کی حفاظت، عقل کی حفاظت، نسل کی حفاظت اور مال کی حفاظت۔ لہٰذا ہر وہ حکم یا طریقہ جو ان پانچ اصولوں کا ضامن ہوگا، مصلحت اور اصلاح کہلائے گا اور جس سے یہ اصول فوت ہوتے ہیں وہ طریقۂ مفسدہ کہلائے گا اور مفسدہ کو دفع کرنا واجب و لازم ہے‘‘۔(المستصفٰی فی علم الاصول، ج۱، ص ۲۸۶)
علامہ آمدیؒ مصلحت کی تشریح ان الفاظ میں کرتے ہیں:’’حکم کی مشروعیت کا مقصود یا تو کسی مصلحت و فائدہ کو حاصل کرنا ہے، یا کسی مضرّت کو دور کرنا، یا دونوں ہی مقصود ہیں‘‘۔(امام شاطبی کے ذکر کردہ مقاصدی قواعد- ایک تجزیاتی مطالعہ، ڈاکٹر عبدالرحمن ابراہیم کیلانی، ص۴۳، بحوالہ الإحکام للآمدی، ج۳، ص ۲۷۹)
مصالح دین کو مقاصدِ شریعت بھی کہا جاتا ہے۔ شیخ طاہر بن عاشورؒ مقاصدِ شریعت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’مقاصد شریعت ان معانی اور حکمتوں کو کہتے ہیں جنھیں شارع نے قانون سازی کے تمام یا اکثر حالات میں ملحوظ رکھا ہے، اس طور پر کہ اسے شریعت کے کسی خاص قسم کے حکم کے ساتھ مخصوص نہیں رکھا گیا ہے۔ لہٰذا اس میں شریعت کے وہ عمومی اوصاف اور اہداف بھی آتے ہیں جنھیں ملحوظ رکھنے سے شریعت پہلوتہی نہیں کرتی‘‘۔ (ایضاً، بحوالہ مقاصد الشریعۃ الاسلامیۃ، طاہر بن عاشور، ص۵۱)
استاذ علال الفاسیؒ فرماتے ہیں:’’مقاصد شریعت ، شریعت کے اہداف اور ان اسرار و رموز کو کہتے ہیں جنھیں شارع نے تمام احکام میں ملحوظ رکھا ہے‘‘۔(ایضاً، بحوالہ مقاصد الشریعۃ ومکارمھا، علال الفاسی، ص۳)
ڈاکٹر یوسف حامد العالم نے مصالح کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے:’’مقاصد شریعت ان مصالح و فوائد کو کہتے ہیں جو بندوں کو دنیا و آخرت میں حاصل ہوتے ہیں، خواہ یہ فوائد جلبِ منفعت کے ذریعے حاصل ہوں، یا دفعِ مضرّت کے ذریعے‘‘۔(ایضاً، بحوالہ المقاصد العامۃ للشریعۃ الاسلامیۃ، ڈاکٹر یوسف العالم، ص۷۹)
مصلحت کی بنیادی طورپر دو قسمیں ہیں: اُخروی اور دنیاوی۔ اخروی مصلحت سے مراد موت کے بعد آخرت میں اللہ کی رضا کا حصول، جنت میں داخلہ اور جہنم سے نجات ہے۔ دنیاوی مصلحت کا تعلق دنیاکی زندگی میں منفعت کے حصول یا دفعِ مضرّت سے ہے۔ جمہور فقہا نے دنیاوی مصالح کی تین قسمیں بیان کی ہیں: ۱- ضروریہ، ۲-حاجیہ، ۳- تحسینیہ۔ (الموافقات فی اصول الشریعۃ، ج ۲، ص ۸)
مصلحت ضروریہ کا معنیٰ ہے: وہ مصلحت جس کی رعایت کے بغیر انسان کی صحت مندانہ زندگی کا تصور ممکن نہ ہو۔ عصری اصطلاح میں اسے انسان کے بنیادی حقوق بھی کہہ سکتے ہیں۔ مصلحت ضروریہ کا دائرہ پانچ چیزوں پر محیط ہے: ۱- دین، ۲- جان، ۳- نسل، ۴- مال، ۵- عقل۔ ذیل میں ان کی اہمیت سے متعلق اسلام کا نقطۂ نظر پیش کیا جاتا ہے:
دین کی حفاظت کا تعلق صرف مرتد اور بدعتی کے حوالے سے ہی نہیں، بلکہ کفار و مشرکین کے حوالے سے بھی مطلوب ہے۔ چنانچہ ان میں سے جو لوگ مسلمانوں کے خلاف جنگ پر آمادہ ہوں ان سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ دین کی حفاظت ہے، تاکہ کفر و شرک اور باطل ادیان غالب ہوکر مسلمانوں کے لیے فتنے کا باعث نہ ہوں۔وَاقْتُلُوھُمْ حَیْْثُ ثَقِفْتُمُوھُمْ وَأَخْرِجُوھُمْ مِّنْ حَیْْثُ أَخْرَجُوکُمْ وَالْفِتْنَۃُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ (البقرہ ۲: ۱۹۱)، ’’ان سے لڑو جہاں بھی تمھارا ان سے مقابلہ پیش آئے اور انھیں نکالو جہاں سے انھوں نے تم کو نکالا ہے، اس لیے کہ قتل اگرچہ بُرا ہے، مگر فتنہ اس سے بھی زیادہ بُرا ہے‘‘۔ حفاظت دین کے مفہوم میں شعائر دین ، مساجد، جماعت، سنت کی حفاظت اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر بھی شامل ہے۔
حفاظتِ جان کے مدِّنظر ہی شریعت میں قصاص کے احکام دیے گئے ہیں، جس میں نہ صرف جان کے بدلے جان کی دفعہ بیان کی گئی ہے، بلکہ معمولی چوٹ اور زخم ، حتیٰ کہ تھپڑ پر بھی قصاص کو مشروع کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَکَتَبْنَا عَلَیْْھِمْ فِیْھَا اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْْنَ بِالْعَیْْنِ وَالأَنفَ بِالأَنفِ وَالأُذُنَ بِالأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ (المائدہ ۵:۴۵)، ’’اور ہم نے یہودیوں کے ذمہ تورات میں یہ بات مقرر کردی تھی کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت، اور زخموں کا بھی برابر کا بدلہ ہے‘‘۔
ساتھ ہی قصاص کو انسانوں کے لیے حیات بخش قرار دیا گیا ہے: وَلَکُمْ فِیْ الْقِصَاصِ حَیوٰۃٌ یٰـآولِیْْ الأَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَo (البقرہ ۲: ۱۷۹)،’’عقل و خرد رکھنے والو، تمھارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔ امید ہے کہ تم اس قانون کی خلاف ورزی سے پرہیز کروگے‘‘۔
حفاظتِ نسل کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ کسی کے نسب کو متہم کیا جائے نہ بغیر پختہ ثبوت کے اس پر زنا کا الزام لگایا جائے، کیوں کہ اس صورت میں نسب کے تعین میں شبہہ پیدا ہوگا اور پیدا شدہ بچے کے مصالح فوت ہوں گے، نیز متہم شخص کی سماجی زندگی متاثر ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:وَالَّذِیْنَ یَرْمُونَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَأْتُوا بِأَرْبَعَۃِ شُھَدَاء فَاجْلِدُوھُمْ ثَمَانِیْنَ جَلْدَۃً وَلَا تَقْبَلُوا لَہُمْ شَھَادَۃً أَبَداً (النور ۲۴:۴)، ’’اور وہ لوگ جو پاک دامن عورتوں پر زنا کا الزام لگاتے ہیں اگر وہ چار گواہ نہ لاسکیں تو انھیں ۸۰ کوڑے مارے جائیں اور ان کی گواہی ہمیشہ کے لیے ناقابل اعتبار سمجھی جائے‘‘۔
ناجائز طریقے سے دوسرے کا مال کھانے کے مفہو م میں ہر وہ طریقہ شامل ہے جو شریعت اور عرف عام میں ناجائز ہو، چاہے وہ عیاں ہو یا خفیہ ۔ ایک حدیث میں ہے کہ: ’’جس نے چوری کا مال خریدا، یہ جانتے ہوئے کہ یہ چوری کا ما ل ہے، وہ اس کے گناہ اور برائی میں شریک ہوا‘‘ (فیض القدیر شرح الجامع الصغیر للمناوی، ج۶، ص ۶۴)۔ حفاظتِ مال کی غرض سے شریعت اسلامیہ میں چوری اور ڈاکا زنی کی سزا متعین کی گئی ہے۔ (المائدہ: ۳۳، ۳۸)، اور سود، جوا، ناپ تول میں کمی بیشی، بیع، غرر ، ذخیرہ اندوزی اور وہ تمام طریقے حرام قرار دیے گئے ہیں جن سے کسی فرد کو مالی نقصان لاحق ہوسکتا ہے۔
شریعت کے یہی وہ پانچ مصالح ہیں جنھیں ’مصالحِ ضروریہ‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ان کی حفاظت کو شریعت نے لازم قرار دیا ہے اور ان کو پامال کرنے والے کے خلاف سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں:’’ان پانچ اصولوں کی حفاظت ضروریاتِ انسانی میں شمار ہوتی ہیںاورمصالح خلق کا یہ اعلیٰ ترین درجہ ہے… ان مصالح کی حفاظت کی تاکید دنیاکے ہرمذہب اور مہذّب سوسائٹی نے کی ہے‘‘۔(المستصفٰی فی علم الاصول، الغزالی، ج۱، ص ۲۸۷- ۲۸۸)
علامہ ابواسحاق الشاطبیؒ ان مصالح کی اہمیت سے متعلق لکھتے ہیں:’’دین و دنیا کے مصالح کے قیام کے لیے یہ ضروری ہیں۔ اگر یہ مفقود ہوں تو سلامتی کے ساتھ مصالح دنیا قائم نہیں رہ سکیں گے، بلکہ انسانی زندگی میں فساد اور خلفشار رونما ہوگا اوراُخروی زندگی میں نجات و کامیابی سے محرومی ہاتھ آئے گی، جو سراسر نقصان اور خسران ہے‘‘۔(الموافقات فی اصول الشریعۃ، ج۲، ص۸)
مصلحت کی دوسری قسم، جس کی شریعت نے رعایت کی ہے، مصلحتِ حاجیہ ہے۔ اس سے مراد وہ مصلحت ہے جس کی رعایت سے انسانی زندگی میں سہولت پیدا ہو اور عدمِ رعایت سے تنگی اور مشقت لاحق ہو، مگر اس درجے میں نہ ہو، جیسا کہ مصالح ضروریہ کے فوت ہونے سے لاحق ہوتی ہے۔ امام شاطبیؒ لکھتے ہیں:’’حاجیات کے معنیٰ یہ ہیں کہ ان کی ضرورت توسّع کے حصول اور تنگی کے ازالے کے مقصد سے ہوتی ہے کہ اگر وہ پوری نہ ہوں تو حرج اور مشقت لاحق ہو اور اگر ان کی رعایت ملحوظ نہ رکھی جائے تو مکلّف افراد فی الجملہ حرج اور مشقت میں مبتلا ہوجائیں، مگر وہ اس درجے میں نہ پہنچے کہ ان سے فساد روٗنما ہو، جیسا کہ مصالحِ ضروریہ کے نہ پائے جانے سے فساد رُونما ہوتا ہے‘‘۔(ایضاً، ۲/۱۰-۱۱، المستصفٰی،ج ۱، ص۲۸۹-۲۹۰)
اس تعریف کی روشنی میں علما نے مصلحت ِحاجیہ کی دو قسمیں بیان کی ہیں: حاجیہ اصلیہ، حاجیہ مکمّلہ۔ یہ دونوں قسمیں تمام احکام، عبادات، معاملات، عادات اور جنایات میں موجود ہیں۔ عبادات میں مصلحت حاجیہ کی رعایت کی مثال احکام کی تعمیل میں رخصتوں کی موجودگی ہے، جیسے مجبور کے لیے کلمۂ کفر کہنے، اضطراری حالت میں مردار کھانے، پانی کی عدم موجودگی یا مرض کی صورت میں تیمم کرنے اور حیض و نفاس کی حالت میں نماز ترک کرنے کی رخصت دی گئی ہے۔ اسی طرح مریض ، مسافر، حاملہ اور مُرضعہ (بچے کو دودھ پلانے والی عورت)کو روزے دوسرے ایام میں رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔
معاملات میں مصلحت ِحاجیہ کی مثالوں میں کم سن بچی کے نکاح کے انعقاد کے لیے ولی کی شرط، خریدو فروخت ، اجارہ، مساقاۃ اور قرض کے لین دین کے معاملات کو پیش کیا جاسکتا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی چیز مصلحتِ ضروریہ میں سے نہیں ہے کہ اس پر عمل نہ کرنے سے انسان کے بنیادی حقوق پامال ہوتے ہوں، مگر زندگی کی بقا کے لیے یہ چیزیں ضروری ہیں۔ عادات میں مصلحتِ حاجیہ کی مثال شکار کا جائز ہونا اور کھانے پینے میں پاکیزہ چیزوں سے لطف اندوزی کا درست ہونا ہے۔
یہ مثالیں مصلحتِ حاجیہ اصلیہ کی ہیں۔ مصلحتِ حاجیہ مکمّلہ کی مثالوں میں مسافر اور مریض کے لیے دو نمازوں کو ایک وقت میں ادا کرنے اور حالتِ سفر میں قصر کی اجازت ، صغیرہ کے نکاح میں کفو کی رعایت، مہر مثل، قرض و رہن میں گواہی وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
مصلحت کی تیسری قسم تحسینیہ ہے۔ اس سے مراد وہ مصلحت ہے جس کی رعایت سے احکام و اعمال میں حسن او رخوبی پیدا ہو اور عقلِ سلیم اس کا تقاضا کرے، لیکن عدمِ رعایت سے حرج اور تنگی پیدا نہ ہو۔ یہ مصلحت بھی عبادات، معاملات ، عادات اور جنایات میں پائی جاتی ہے۔ اس کی مثالیں یہ ہیں: نجاست کو زائل کرنا، پردہ کرنا، زیب وزینت اختیار کرنا، صدقہ و خیرات کرنا، کھانے پینے میں آداب ملحوظ رکھنا، غیر پاکیزہ چیزیں کھانے سے پرہیز کرنا، اسراف اور فضول خرچی سے بچنا، گندگی کی خرید و فروخت سے منع کرنا یا زائد پانی یا گھاس سے روکنا، غلام کو گواہی اور امامت و خلافت کے لیے نااہل قرار دینا۔ اسی طرح عورت کو امامت کے لیے نااہل قرار دینا، یا اس کے ازخود نکاح کرنے کی ممانعت، یا غلام کے بدلے آزاد کو قتل کرنے کی ممانعت، یا جہاد میں بچوں ، بوڑھوں اور عورتوں کو مارنے کی حرمت وغیرہ۔ (الموافقات، ج ۱، ص ۱۱-۱۲)
اُخروی مصلحت کے حوالے سے ایک بات یہ بھی جاننی چاہیے کہ اس میں رضاے الٰہی کا حصول، جنت میں داخلہ اور جہنم کی آگ سے نجات کے ساتھ تزکیہ و تربیت ِنفس، تہذیبِ اخلاق ، عبادات پر مشقتوں کی برداشت کی تربیت اور قواے شہوانیہ و غضبیہ پر کنٹرول وغیرہ مطلوب و مراد ہیں۔
مصالح کی تینوں قسموں میں مصلحت ِضروریہ بنیادی اہمیت کی حامل ہے اور باقی دونوں قسمیں اس کی تابع ہیں۔ اگر مصلحت ِضروریہ مفقود ہوگی تو بہ درجہ اولیٰ مصلحت ِحاجیہ و مصلحت ِتحسینیہ بھی مفقود ہوں گی، لیکن اس کے برعکس کا وقوع لازم نہیں۔ مصالح کے حوالے سے دوسری اہم اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ خواہشاتِ نفسانی کی تابع نہیں ہیں، یعنی خواہشِ نفس کو مصلحت قرار نہیں دیا جاسکتا، کیوں کہ شریعت اسی لیے آتی ہے کہ لوگوں کو ہواے نفس کی جکڑبندیوں سے نکال کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف لائے۔ (الموافقات، ج ۲، ص ۳۷-۳۸)
مصالحِ دین انھی اقسام میں محدود نہیں ہیں: دین میں مصالح اور حکمتوں کی تشریح میں علما نے عام طور پر انھی پنج گانہ مصالح کا تذکرہ کیا ہے اور ان میں تین درجات (ضروریہ، حاجیہ اور تحسینیہ) قائم کیے ہیں۔ مگر بعض علما نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ مصالحِ دین انھی اقسام میں محدود و محصور نہیں ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی مصالح کی اقسام میں توسیع کے قائل ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے امام ابن تیمیہؒ اورابنِ قیمؒ کے اقوال نقل کیے ہیں۔
علامہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:’’بعض لوگ مصالح مرسلہ کو جان، مال، عزت و آبرو، عقل اور دین کے تحفظ میں محصور کردیتے ہیں، مگر ایسا کرنا صحیح نہیں ہے، بلکہ مصالح مرسلہ یہ ہیں کہ منافعے حاصل کیے جائیں اور مضرتیں دور کی جائیں … دنیا میں (جلب منفعت کی مثال) وہ معاملات اور سرگرمیاں ہیں جن میں عامۃالناس کی بھلائی مضمر ہو، خواہ ان سے متعلق کوئی حد شرعی مقرر کی گئی ہو یا نہ کی گئی ہو، اور دین میں (جلب منفعت کی مثال) وہ احوال و معارف، عادات اور زہد کی باتیں ہیں جن میں انسانوں کی بھلائی مضمر ہے جس سے شریعت نے منع نہ کیا ہو۔ جن لوگوں نے مصالح کو ان سزاؤں سے وابستہ کردیا جو فساد کو دور رکھنے کے لیے مقرر کی گئی ہیں یا جو اموال یا جسم انسانی کو محفوظ رکھنے کے لیے مقرر کی گئی ہیں، ان میں انھوں نے کوتاہی برتی ہے‘‘۔(مقاصد شریعت، ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی، ص۳۰)
ڈاکٹر موصوف نے روایتی فہرست میں اضافے کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے: ’’ایک خیال یہ بھی ہے کہ مقاصد کی روایتی فہرست پنج گانہ دین، جان، عقل، نسل اور مال میں خود اتنی وسعت ہے کہ بہت سے نئے مقاصد اسی فہرست میں داخل سمجھے جاسکتے ہیں۔ مثلاً عدل و انصاف دین میں اور ازالۂ غربت اور کفالت ِعامہ حفظ جان میں شامل سمجھے جاسکتے ہیں۔ ہمیں دو وجہوں سے اس فکر و سوچ سے اتفاق نہیں ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ، جیسا کہ ابنِ تیمیہ نے کہا ہے کہ مقاصد شریعت کے بیان میں تحفظ سے آگے بڑھ کر ترقی دینے اور بڑھوتری کو بھی شامل کرنا ضروری ہے۔ روایتی فہرست میں سارا زور دفع مضرت پر ہے، جلب منفعت کا پہلو دب گیا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ موجودہ عالمی اور قومی سطح کے مسائل میں ماحولیاتی آلودگی پر کنٹرول، کائنات کے قدرتی وسائل کا بچاؤ، عمومی اور کُلّی تباہی مچانے والے اسلحوں کے استعمال اور ان کی پیداوار پر پابندی اور موجودہ نیوکلیائی ہتھیاروں، نیز کیمیاوی اور حیاتیاتی اسلحوں کا تلف کیا جانا، اور اقوام عالم کے باہم امن و چین سے رہ سکنے کے دوسرے تقاضے پورے کرنے کے لیے یہ بہتر ہے کہ ان امور سے مناسبت رکھنے والی اسلامی تعلیمات کو اہمیت کے ساتھ پیش کیا جائے‘‘۔(ایضاً، ص۳۸-۳۹)
موصوف نے روایتی فہرست میں درج ذیل مصالح کے اضافے کی تجویز رکھی ہے اور ان پر قرآن و حدیث سے دلائل دیے ہیں: ۱- انسانی عز وشرف، ۲- بنیادی آزادیاں، ۳- عدل وانصاف، ۴- ازالۂ غربت اور کفالت ِعامّہ، ۵- سماجی مساوات اور دولت وآمدنی کی تقسیم میں پائی جانے والی ناہمواری کو بڑھنے سے روکنا، ۶- امن و امان اور نظم و نسق، ۷- بین الاقوامی سطح پر باہم تعامل و تعاون۔(ایضاً، ص۳۹)
احکامِ دین میں مصالح اور حکمتوں کی دریافت عقل کرتی ہے، لیکن بعض اوقات عقل کی بنیاد پر شریعت کا حکم بھی مستنبط کیا جاتا ہے۔ جیساکہ معلوم ہے کہ شریعت کا چوتھاماخذ قیاس ہے،اس میں مسئلہ زیر بحث سے متعلق نص نہ ہونے کی وجہ سے عقل کی بنیاد پر شریعت کا حکم معلوم کیا جاتا ہے۔ جمہور فقہا نے قیاس کو شریعت کی ایک اصل قرار دیا ہے (الموسوعۃ الفقھیۃ، ج۳۴، ص۹۱)۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد مواقع پر عقل کی بنیاد پر دیے گئے مشوروں کو قبول فرمایا ہے۔۳؎ اسی طرح صحابہ کرامؓ اور تابعین عظام نے قیاس و عقل سے شریعت کے احکام وضع کیے ہیں ۔ امام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں: شرعی احکام میں متعلق و مطلوب حکم کی تحقیق کے بارے میں مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ شریعت میں حکم بمعنی عام کی تعلیق کی جائے گی (یعنی اس کے مصداق کی تحقیق کی جائے گی) اور افراد پر حکم کے اطلاق یا کسی خاص نوع میں اثبات کے لیے غورو فکر کیا جائے گا‘‘۔(منہاج السنۃ النبویۃ،ج ۶،ص ۴۷۴)
امام موصوف آگے اس کی مزید تشریح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ’’مختلف امور، جیسے انصاف کرنا، یا استقبال کعبہ یا جیسے شراب، جوا، مردہ، خون اور خنزیر کے حرام ہونے سے متعلق قرآن و حدیث میں عام حکم ہے، مگر شخص خاص سے متعلق طے کرنا کہ اس نے احکام کی خلاف ورزی کی یا نہیں، یا فلاں چیز حرام کردہ اشیا کی تعریف میں آتی ہے یا نہیں؟ یہ سب باتیں قیاس کے ذریعے ہی طے کی جاتی ہیں‘‘۔ (ایضاً)
بلاشبہہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ دین مصالح اور حکمتوں پر مبنی ہے، مگر احکام دین پر عمل حکمتوں کے جاننے پر موقوف نہیں ہے، کیوں کہ عقل انسانی محدود ہے اور ضروری نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تمام حکمتوں کو جان لے ۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ لکھتے ہیں: احکام شرعیہ پر عمل کرنے میں، جب کہ وہ صحیح روایت سے ثابت ہوجائیں، ان کی مصلحتوں کے جاننے تک توقف کرنا جائز نہیں۔ کیوںکہ بہت سے انسانوں کی عقلیں بہت سی حکمتوں کو بطور خود نہیں سمجھ سکتیں اور نبی کریم ؐ کی ذات ہمارے نزدیک ہماری عقلوں سے کہیں زیادہ قابل اعتمادہے۔(حجۃ اللّٰہ البالغۃ، ص۶)
خلاصۂ بحث یہ ہے کہ اللہ رب العالمین کا عطا کردہ دین بندوں کے دینی و دنیاوی مصالح اور حکمتوں پر مبنی ہے، اس لیے اس سے بڑھ کر او رکوئی طریقہ انسانوں کے لیے مفید اور انجام کے اعتبار سے قابل اطمینان و موجب فلاح و نجات نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا اس دین کو ترک کرنا اور اس کو ازکار رفتہ قرار دینا انسان کی نادانی پر مبنی ہے، جس کے سنگین نتائج ہوسکتے ہیں۔
۱- مثال کے طور پر دیکھیے: محاسن الشریعۃ، امام محمد بن اسماعیل (م:۳۶۵ھ)، محاسن الاسلام، ابوعبداللہ بن عبدالرحمن البخاری (م:۳۴۶ھ)، الاعلام بمناقب الاسلام، ابوالحسن العامری (م:۳۸۱ھ)، حجۃ اللّٰہ البالغہ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (م:۱۱۷۶ھ)۔
۲- منھاج السنۃ النبویۃ، ابن تیمیہ، تحقیق الدکتور محمد رشاد سالم ، ادارۃ الثقافۃ والنشر، جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیۃ، سعودی عرب ، ج۱، ص ۱۴۱۔ امام ابن تیمیہؒ نے لکھا ہے کہ بعض منکرین قیاس اور ایک دودیگر لوگ احکام میں علّت و حکمت کاانکار کرتے ہیں، ورنہ جمہور امت اس کے قائل ہیں۔
۳- آپؐ نے بعض جنگوں میں میدان جنگ کے انتخاب میں بعض صحابہؓ کے مشورے کو قبول فرمایا۔ ایک صحابیؓ کے مشورے سے آپؐ نے انگوٹھی میں محمدؐ رسول اللہ کا نام کندہ کرایا اور اس کو مہر کے طورپر استعمال کیا۔ اذان کا طریقہ بھی مشورے کی بنیاد پر طے کیا گیا۔ پیاز اور لہسن کھاکر مسجد میں آنے کی ممانعت ایک ضرر کی وجہ سے کی گئی ۔ جمعہ کے دن غسل پسینے سے پیدا ہونے والی بدبو سے بچنے کے لیے مشروع کیا گیا، وغیرہ۔