مولانا محمد جرجیس کریمی


نائن الیون کے افسوس ناک واقعے کے بعد امریکا نے ’دہشت گردی‘ کے اس واقعے کو ایک ’جرم‘ قرار دینے کے بجائے ’جنگ‘ کا نام دیا۔ پھر دُنیا بھر میں جنگ کا بگل بجانے کے ساتھ اسی امریکا نے ملکی اور بین الاقوامی قوانین کو بالکلیہ نظرانداز کر دیا اور آگے بڑھ کر دومسلم ملکوں: افغانستان اور عراق پر اندھادھند فوج کشی کر دی۔ تمام مغربی ممالک میں دہشت گردی کے خلاف قانون سازی کا ایک نہ رُ کنے والا سلسلہ شروع ہو گیا ۔محض شبہہ کی بنیاد پر گرفتاریاں، ملک بدری، قانون نافذ کر نے والے اداروں کے ہاتھوں لوگوں کا اغوا، تفتیش میں تو ہین آمیز اور انسانیت سوز سلوک، حق دفاع سے محرومی، دوسرے ممالک کی حاکمیت اور آزادی کی پامالی،قومی مفادات کے تحفظ کے نام پر وحشیانہ فوج کشی، کارپٹ بم باری اور سرحدوں کے عالمی ضابطوں کی خلاف ورزی کا راستہ اختیار کیا گیا۔ پہلے تو عالمی برادری امریکی غصّے سے خوف زدہ ہوکر ان اقدامات کو خاموش تماشائی بن کر دیکھتی رہی، مگر ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر یہ سلسلہ جوں جوں طول کھینچنے لگا تو اس کے خلاف آوازاُٹھنے لگی۔

 ۲۰۰۹ء میںجنیوا میں قانون دانوں کے عالمی کمیشن کے آٹھ رکنی پینل نے ۱۵۰ صفحات پر مشتمل ایک نہایت قیمتی رپورٹ شائع کی تھی:War on Terror for Eroding Human Rights۔ اس پینل کی سر براہ آئر لینڈ کی سابق صدر اور اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی ہائی کمشنر میری رابن سن (Marry Robinson) تھیں۔ ان کے ہمراہ دُنیا کے کئی ماہرین قانون اور نیک نام سابق جج تھے۔ اس رپورٹ میں ان قوانین پربھر پور گرفت کی گئی ہے، جو دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے نام پر بنائے گئے ہیں، اور جن کی زد بین الاقوامی قانون کے مسلّمہ اصولوں پر پڑ رہی ہے۔ رپورٹ میں دہشت گردی کو ’جنگ‘ نہیں، بلکہ ایک ’جرم‘ اور انسانیت کے لیے خطرے سے تعبیر کیا گیا ہے، ساتھ ہی یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ اس کے انسداد کے نام پر قانون اور بنیادی حقوق کے مسلّمہ اصولوں سے انحراف کا کوئی جواز نہیں ہے۔

دہشت گردی کے خلاف امریکی قوانین پر گرفت

ذیل میں اس رپورٹ کے چند اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں، جن سے انسداد دہشت گردی کے قوانین کا بھی پتا چلتا ہے اور ان کی خامیوں پر بھی روشنی پڑتی ہے:

’’دہشت گردی سے جو خطرات در پیش ہیں، ان کو ہلکا سمجھنا ایک غلطی ہوگی۔ان خطرات کا مقابلہ ریاستی سطح پر لازم ہے، مگر دہشت گردی کی مخالفت کے نام پر کیے جانے والے موجودہ متعدد اقدامات نہ صرف غیر قانونی ہیں، بلکہ ان کے منفی نتائج رونما ہور ہے ہیں۔ ان کی وجہ سے انسانی حقوق کے قوانین کی بنیادوں کو جو نقصان پہنچ رہا ہے وہ اندازے سے بہت زیادہ ہے۔ دہشت گردی مخالف قوانین، پالیسیوں اور طریقوں سے جو نقصان ہوا ہے، اس کا تدارک کر نے کے لیے عالمی،علاقائی اور قومی سطحوں پر اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔

’’بہت سی ریاستیں اس آڑ میں خوداپنے معاہداتی اور روایتی قانون کے تقاضوں سے انحراف کی راہوں پر بے دھڑک دوڑ رہی ہیں، جس کے نتیجے میں ایک خطرناک صورت پیدا ہوگئی ہے۔ نتیجہ یہ سامنے آرہا ہے کہ دہشت گردی اور اس کے خوف نے عالمی حقوق انسانی کے بنیادی قانون (بشمول پہلے سے طے شدہ اصول: ٹارچر،ظالمانہ اور غیرانسانی تو ہین آمیز سلوک،افراد کا اغوا اور غیر منصفانہ مقدمات کی ممانعت) کو پامال کر دیا ہے۔

’’لبرل جمہوری ریاستیں ماضی میں انسانی حقوق کے اصولوں کا دفاع کرتی رہی ہیں، مگر اب وہ ان اصولوں کی خلاف ورزی کر کے عالمی قانون کو رفتہ رفتہ کم زورکر رہی ہیں۔ یہ حکومتیں دوسری حکومتوں کی ان کا رروائیوں میں، جوحقوق کی پامالی کا ذریعہ ہیں، شریکِ کار ہیں، یا کم از کم خاموش رہ کران کی سرگرم ساتھی بن رہی ہیں۔

’’دہشت گردی کا مقابلہ کر نے کے لیے فوج داری قانون ہی مقابلے کا اوّلین ذریعہ ہونا چاہیے۔ ہماری تحقیقات اور مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ ریاستوں نے دہشت گردی کی دھمکیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مروجہ قوانین وضوابط اور آزمودہ طریقوں کو اپنانے سے تو احتراز ہی کیا ہے، لیکن اس کی جگہ دوسری انتہا کو اختیار کرنے کے وسیلے اور بہانے تلاش کیے ہیں۔ تاہم، اگر ریاستوں کو عوام کی زندگی اور سلامتی کے تحفظ کی ذمہ داری ادا کر نا ہے، تو دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے مروّجہ فوج داری عدالتی نظام ہی اوّلین فریم ورک ہونا چاہیے۔

’’نائن الیون کے بعد بہت سے قوانین اور پالیسیوں کو غیر متعین مدت کے لیے بلامقد مہ حراست اور فوجی عدالتوں وغیرہ کے ذریعے استعمال کیا جار ہا ہے، حالاں کہ ماضی میں بھی یہ حربے آزمائے گئے اور اکثر وبیش تر نا کام رہے ہیں۔ مثلاً یہ نہایت ضروری ہے کہ ایک آزادسویلین عدلیہ برقرار رکھی جائے، جو دہشت گردی کے خلاف اقدامات پر جواب دہی کو یقینی بنائے۔

’’ریاستوں نے احتیاطی تدابیر مثلاً: ملک بدری، پابندیوں کے احکام، دہشت گرد افراد اور تنظیموں کی فہرست پر انحصار بڑھادیا ہے۔ ہم کوتشویش ہے کہ غیر مصدّقہ شواہد اور ناقص خفیہ معلومات کوافراداورتنظیموں کے خلاف اقدام کر نے کے لیے استعمال کیا گیا ہے، اور اپیل کا حق سلب کیا گیا ہے، جس کے بڑے تباہ کن اثرات مرتب ہور ہے ہیں۔

’’پوری دنیا میں خفیہ ایجنسیوں نے نئے اختیارات اور خطرناک حد تک مؤثر وسائل و آلات حاصل کر لیے ہیں، جب کہ قانونی اور سیاسی جواب دہی بالکل ہی مفقود ہے۔ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ قابلِ اعتمادخفیہ معلومات بلاشبہہ ضروری ہیں، لیکن ساتھ ہی جواب دہی بھی ضروری ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ عالمی خفیہ اداروں کے باہمی تعاون کے لیے واضح پالیسیاں اور طریق کار طے کیے جائیں۔

’’بہت سی ریاستوں میں مشتبہ دہشت گردوں کی حراست اور تفتیش پر راز داری کا پردہ پڑا ہوا ہے، جس سے ٹارچر، ظالمانہ،غیرانسانی اور توہین آمیز طر یقوں کو راستہ ملتا ہے، جب کہ ایسی خلاف ورزیوں پر سزا کا خوف بھی نہیں ہے۔ اس صورت میں عدالتوں اور وکلا تک تیز رفتار اور مؤثررسائی ممکن بنائی جانی چاہیے، تا کہ اس قسم کی قانونی خلاف ورزیوں سے نجات مل سکے۔

’’امریکا کی قیادت میں اعلان کردہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ نے عالمی انسانی حقوق کے بنیادی اصولوں اور انسان دوست قانون (Humanitarian Law)کوبہت سخت نقصان پہنچایا ہے۔ امریکا کو استحصال پرمبنی قوانین، پالیسیوں اور طریقوں کو، جو دہشت گردی کے خلاف جنگ سے وابستہ ہیں، واضح طور پر مستر دکر نا چا ہیے۔ ماضی کی خلاف ورزیوں پر شفاف اور جامع تحقیقات کروانی چا ہیے اورمتاثر افرادکومناسب تلافی دینی چا ہیے‘‘۔

۲۵۰ صفحات پرمشتمل رپورٹ کے یہ چند اہم نکات ہیں۔ ان سے نائن الیون کے بعد انسداد دہشت گردی سے متعلق بنائے جانے والے عالمی قوانین میں موجود خامیوں اور حکومتوں کی فسطائیت کا پتا چلتا ہے۔ اسی رپورٹ کی روشنی میں قرآنی تعلیمات کا جائزہ لینے کی کوشش کی جارہی ہے:

فتنہ وفساد کے خاتمے کاالٰہی قانون

 اللہ تعالیٰ اس کائنات کا مالکِ حقیقی ہے ۔ وہ دنیا میں امن وسلامتی چاہتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ اس کے بے قصور بندوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جائے۔ طاقت ور کم زوروںکا حق ماریں اور ان کا جینا دوبھر کر دیں۔ دنیا میں ظلم وفسادا ورقتل وغارت گری کا بازار گرم ہواور لوگوں پر جبراً اپنی مرضی مسلط کی جائے، دھن دولت، لا لچ ،ہوس،جہاں گیری اور کشور کشائی کے لیے انصاف کا خون بہایا جائے۔ چنانچہ ایک طرف اللہ تعالیٰ نے انسانی جان کومحترم ٹھیراتے ہوئے ’’ایک بے گناہ انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قراردیا ہے‘‘(المائدہ۵:۳۲)۔دوسری طرف فتنہ وفساد کوقتل سے بڑھ کرسنگین جرم قرار دیاہے۔(البقرۃ۲: ۱۹۱)

اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بر پافتنہ وفساد کا ازالہ مختلف طریقوں سے کیا ہے:

وَلَوْلَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ۝۰ۙ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلٰكِنَّ اللہَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ۝۲۵۱ (البقرۃ۲:۲۵۱) ،اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے دفع نہ کرتا تو ز مین فساد سے بھر جاتی، مگر دنیاوالوں پر اللہ بڑ افضل والا ہے۔

اسی طرح بھڑکنے والے جنگ کے شعلوں کوا پنی ربوبیت کی تدابیر کے ذریعے سردکرتا ہے:

كُلَّمَآ اَوْقَدُوْا نَارًا لِّـلْحَرْبِ اَطْفَاَہَا اللہُ ۝۰ۙ وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا۝۰ۭ وَاللہُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِيْنَ۝۶۴(المائدہ  ۵:۶۴) یہ لوگ جب بھی جنگ اور خون ریزی کی آگ بھڑ کا تے ہیں تو اللہ اس کو بجھادیتا ہے۔ یہ لوگ زمین میں فساد بر پا کر نے کی کوشش کرتے ہیں، مگر اللہ تعالی مفسدوں کو پسند نہیں کرتا۔

ایک جگہ یہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے ہٹاتاہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو عبادت گا ہیں تک محفوظ نہ رہتیں اور وہ منہدم کر دی جاتیں، مگر اللہ تعالیٰ انسانوں میں سے بعض لوگوں کو دوسرے لوگوں کے خلاف کھڑا کر دیتا ہے، تا کہ فساد رُک جائے۔ (الحج۲۲:۴۰)

دہشت گردی جرم ہے، جنگ نہیں

 جولوگ دہشت گر دی پھیلا نے کے لیے معصوم شہریوں کی جانیں لیتے ہیں، ان کے ساتھ خطرناک مجرموںجیسا برتاؤ کیا جانا چا ہیے۔ ان کو وہ مقام ہر گز نہیں دیا جانا چاہیے، جو ان جنگجوئوں کا ہوتا ہے جور یاستوں سے بر سرِ جنگ ہوں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی نوعیت بھی یہی ہے۔  برطانیہ کا قانون دان کوئیس کونسل جیفرے را برٹسن اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے :

 ایک احساس یہ ہے کہ بین الاقوامی قانون نا کام ہو چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کی دفعہ ۱۵ کا اطلاق صرف ان حملوں پر ہوتا ہے جو دوسری ریاستیں کر یں نہ کہ دہشت گرد گروپ۔ کسی نے بھی اب تک جنگ اور قانون کے اس معاملے پر دہشت گردی کا اطلاق کر نے کا نوٹس نہیں لیا۔ جنیوا کنونشن اور معمول کے حقوق کا دہشت گر داور قانون نافذ کر نے والے پر یکساں اطلاق ہونا چاہیے۔

مراد یہ ہے کہ قرآن مجیدنے دہشت گردانہ افعال کوفساد فی الارض سے تعبیر کیا ہے اور اس کے انسداد کے لیے تمام ممکن وسائل وذرائع اختیار کر نے کی ہدایت کی ہے:

اِنَّمَا جَزٰۗؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُّقَتَّلُوْٓا اَوْ يُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُـقَطَّعَ اَيْدِيْہِمْ وَاَرْجُلُہُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ۝۰ۭ (المائدہ  ۵:۳۳) جولوگ اللہ اوراس کے رسولؐ سے لڑتے ہیں اور ز مین میں اس لیے تگ ودوکر تے پھرتے ہیں کہ فساد بر پا کریں، ان کی سزا یہ ہے کہ قتل کیے جائیں، یا سولی پر چڑھائے جائیں، یا ان کے ہاتھ اور پائوں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں، یا وہ جلا وطن کر دیے جائیں۔

اس سخت ترین سزا کا دائرۂ مجرمین تک محدود ہے۔ قانون کا یہ مسلّمہ اصول ہے کہ کسی فردیار یاست کو کسی دوسرے کے جرم کی پاداش میں سزانھیں دی جاسکتی۔انٹرنیشنل لا کمیشن نے اس سلسلے میں واضح قوانین وضع کیے ہیں، جنھیں دنیا کے تمام ممالک بشمول امریکا وبرطانیہ تسلیم کرتے ہیں۔ اس قانون کی دفعہ ۱۱کے مطابق فرد یا گروہ کا ایسا طرز عمل جوکسی ریاست کی جانب سے نہ ہو، بین الاقوامی قانون کے تحت ریاست کا اقدام نہیں سمجھا جائے گا۔

قرآن مجید نے دوسری قوموں سے کیے گئے معاہدوں کی پاس داری کی تلقین کی، حتیٰ کہ جنگی حالات میں بھی صلح کوتر جیح دی جائے۔ اگر دشمن صلح کے لیے ہاتھ بڑھائے تو اس سے صلح کرلی جائے۔ چنانچہ اگر کسی قوم سے مسلمانوں کا کوئی معاہدہ ہواور وہ قوم اپنے یہاں کے مسلمانوں پر ظلم ڈھارہی ہوتو اس کے خلاف جنگ چھیڑ نا درست نہیں ہوگا ،جب تک کہ معاہدے کو ختم کر نے کا اعلان نہ کر دیا جائے:

وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا وَتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ۝۰ۭ اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۝۶۱ وَاِنْ يُّرِيْدُوْٓا اَنْ يَّخْدَعُوْكَ فَاِنَّ حَسْـبَكَ اللہُ۝۰ۭ ہُوَالَّذِيْٓ اَيَّدَكَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِيْنَ۝۶۲ۙ (الانفال۸:۶۱-۶۲) اوراے نبیؐ! اگر دشمن صلح و سلامتی کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے لیے آمادہ ہو جاؤ اور اللہ پر بھروسا کرو، یقینا وہی سب کچھ سننے اور جانے والا ہے۔ اور اگر وہ دھو کے کی نیت رکھتے ہوں تو تمھارے لیے اللہ کافی ہے۔ وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعے سے تمھاری تائیدکی۔

وَاِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِيَانَۃً فَانْۢبِذْ اِلَيْہِمْ عَلٰي سَوَاۗءٍ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْخَاۗىِٕنِيْنَ۝۵۸ۧ (الانفال۸: ۵۸)’’اور اگر کبھی تمھیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہوتو اس کے معاہدے کو علانیہ اس کے آ گے پھینک دو۔ یقینا اللہ خائنوں کو پسند نہیں کرتا۔

شبہات کی بنیاد پر جرم ثابت نہیں ہوگا

دنیا کا ایک مسلّمہ قانون یہ ہے کہ اگر کسی پر الزام لگایا جا ئے تو جب تک وہ الزام ثابت نہ ہو جائے اسے مجرم نہیں قرار دیا جاسکتا اورنہ ا سے سزا کامستحق سمجھا جاسکتا ہے۔ کسی کو پھانسی دینے سے پہلے عدالت میں اس کا جرم ثابت کرنا ہوگا۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ افغانستان کا کوئی جرم نہ امریکا کی طرف سے دنیا کے سامنے لایاگیا، اور نہ بین الاقوامی عدالت میں اسے ثابت کیا جا سکا، بلکہ اسے سرے سے پیش ہی نہیں کیا گیا ،بلکہ اس کے بغیر اس کے خلاف فوج کشی کر دی گئی۔ جس کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں عام آبادی،معصوم بچے،عورتیں، بوڑھے اور مریض ہلاک ہوئے۔

 امریکا نے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ ‘کے نام پر نہ صرف افغانستان کو تاراج کر دیا، بلکہ اس نے افغانستان کے علاوہ بھی مختلف ممالک میں ڈرون حملوں کے ذریعے وہاں کی عام آ بادی کو نشانہ بنایا ،چنانچہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ مارے گئے۔بہت پہلے امریکی ادارے’امریکن سول لبرٹیز یونین‘ (ACLU)نے اپنی ایک رپورٹ میں اس امر کا اظہار کیاتھا کہ یمن، صومالیہ اور پاکستان میں امریکا ڈرون حملوں کے نتیجے میں ۴ ہزار سے زیادہ افراد مارے گئے ہیں اور ہلاک ہونے والوں میں بڑی تعداد شہریوں کی ہے۔ محض شبہے کی بنیاد پر یا لباس اور داڑھی کے جرم میں امریکا کی نگاہ میں مشتبہ علاقوں میں کسی بھی ایسے مردیا مردوں کے اجتماع کو ہدف بنایا جا سکتا ہے۔

قرآن مجید تمام فوج داری جرائم کو ثابت کر نے کے لیے گواہی کا اصول بیان کرتا ہے:

وَالَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَاْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُہَدَاۗءَ فَاجْلِدُوْہُمْ ثَمٰنِيْنَ جَلْدَۃً وَّلَا تَــقْبَلُوْا لَہُمْ شَہَادَۃً اَبَدًا۝۰ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ۝۴ۙ (النور۲۴:۴) اور جولوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں، پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں، ان کو اسّی (۸۰) کوڑے مارواوران کی شہادت کبھی قبول نہ کرو،اور وہ خودہی فاسق ہیں۔

 الزامِ زنا کے ثبوت کے لیے چار گواہوں کی شرط رکھی گئی اور الزام ثابت نہ ہو نے پر اسّی (۸۰)کوڑوں کی سزا متعین کی گئی ہے۔ اس سے اندازہ لگایاجا سکتا ہے کہ دہشت گردی کے اثبات کے لیے کتنی سخت شرائط ہونی چاہییں۔

 بے گناہوں کو طویل عرصے تک قید رکھنا

مغرب نے حقوق انسانی اور آزادی کا جتنا چر چا کیا، اس کے مقابلے میں اس نے حقوق پامال کیے اور آزادانسانوں کو قید خانوں میں برسوں ڈالے رکھا۔ اس کی بدترین مثال گوانتاناموجیل کے بے گناہ قیدی ہیں، جنھیں عر صہ تک قیدرکھاگیا اور ان پر مقد مہ چلائے بغیر رکھا گیا۔

قرآن مجید، تمام انسانوں کے حقوق کی پاس داری کی یکساں تعلیم دیتا ہے۔انسانی جان کی حُرمت کو وہ سب کے لیے یکساں طور پر ہمیشہ اور ہر جگہ تسلیم کرتا ہے:

مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِي الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا۝۰ۭ وَمَنْ اَحْيَاہَا فَكَاَنَّمَآ اَحْيَا النَّاسَ جَمِيْعًا۝۰ۭ (المائدہ ۵:۳۲) جوکوئی کسی نفس کو قتل کرے، بغیر اس کے کہ اس نے کسی کوقتل کیا ہو، یازمین میں فساد پھیلا یا ہوتو اس نے گویا سب انسانوں کوقتل کیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔

 مساوات انسان کا بنیادی حق ہی نہیں ہے، بلکہ تمام حقوق کی اصل بنیاد ہے۔ حقوق انسانی کے عالمی منشور میں جن حقوق کا ذکر کیا گیا ہے ان کے متعلق کہاگیا ہے کہ یہ حقوق سب کو یکساں حاصل ہوں گے۔ ان میں نسل، رنگ، جنس (مرداورعورت)، زبان، مذہب، سیاسی یا دیگر افکاروخیالات، سماجی ومعاشی حیثیت اور جائے پیدائش کی بنیاد پرفرق وامتیاز نہیں کیا جائے گا۔

فرعون کے بارے میں قرآنِ عظیم میں کہا گیا ہے:

اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَہْلَہَا شِيَعًا يَّسْتَضْعِفُ طَاۗىِٕفَۃً مِّنْہُمْ يُذَبِّحُ اَبْنَاۗءَہُمْ وَيَسْتَحْيٖ نِسَاۗءَہُمْ۝۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِيْنَ۝۴  (القصص ۲۸:۴) بے شک فرعون نے ارضِ مصر میں سرکشی کی راہ اختیار کی اور وہاں کے باشندوں کو فرقوں میں تقسیم کر دیا۔ ان میں ایک فرقہ (بنی اسرائیل) کو کمزور بنائے رکھتا،ان کے بیٹوں کو ذبح کر دیتا اوران کی عورتوں کوزندہ رکھتا۔بے شک وہ فساد کرنے والوں میں سے تھا۔

انسانوں کے درمیان مساوات کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ سب کے ساتھ عدل وانصاف ہو اور کوئی بھی شخص ظلم وزیادتی کا ہدف نہ بننے پائے:

لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ۝۰ۚ (الحدید۵۷: ۲۵) ہم نے اپنے رسولوں کو دلائل کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی، تا کہ لوگ انصاف پر قائم رہیں۔

وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا۝۰ۭ اِعْدِلُوْا۝۰ۣ  ہُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى۝۰ۡ وَاتَّقُوا اللہَ ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۝۸(المائدہ۵:۸)کسی قوم کی دشمنی تمھیں اس پر ہرگز آمادہ نہ کرے کہ تم عدل سے پھر جائو۔ عدل کرو، یہ تقویٰ سے قریب تر ہے۔اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک اللہ جو کچھ تم کرتے اس سے باخبر ہے۔

اسلامی قانونِ شہادت کے تحت کسی شخص کو قید و بند کی سزا اس وقت دی جائے گی، جب قابلِ اعتمادشہادتوں سے ثابت ہوجائے کہ واقعتاً اس نے جرم کا ارتکاب کیا ہے اور اس سزا کا مستحق ہے۔ قرآن مجید میں یہود کے ان مظالم کا حوالہ دیا گیا ہے جو وہ ایک دوسرے کے خلاف کرتے تھے۔ وہ ایک گروہ کوان کے گھروں سے نکالتے، انھیں قید کرتے،پھران سے فد یہ وصول کرتے تھے۔اللہ تعالیٰ نے ان کی مذمت کی ہے اور اسے میثاقِ الٰہی کو توڑنے کے مترادف قرار دیا ہے۔(البقرۃ۲:۸۳-۸۵)

 انسانیت سوز سزائیں دینا

گذشتہ برسوں میں عالمی ذرائع ابلاغ نے ابوغریب(عراق)اور گوانتانا موبے کے قیدخانوں میں قیدیوں کی تذلیل وتو ہین او را نسانیت سوز ٹار چر کے جومناظر دکھائے تھے، وہ روح فرسا،  اذیت ناک اور خون کے آ نسور لانے والے تھے۔ قیدیوں کو ما در زادننگا کر کے انھیں ایک دوسرے پرایسے ڈھیر کردیا جاتا تھا، جیسے وہ انسان نہیں کوڑا کرکٹ ہوں۔ بے لباس قیدیوں کوز نجیروں کے ذریعے دیوار سے باندھ کران پر کتّے چھوڑے جاتے تھے اوران کی بے بسی پر قہقہے لگائے جاتے تھے۔ ان کے ساتھ جنسی حرکات کرتے ہوئے تصویرکشی کی جاتی تھی۔ گوانتا نا مو بے کے قیدیوں کو خاص طور سے گز بھرمربع جگہ میں رکھاگیااور ان کے چاروں طرف خار دار تار وںمیں بجلی کا کرنٹ دوڑا دیاگیا۔ان جیلوں میں کیا کچھ ہوا اس کی محض چند جھلکیاں ہی مہذب دنیا کے سامنے آسکیں، ورنہ بہت کچھ پردئہ خفا ہی میں رہا۔

قرآن مجید میں حدود و قصاص کے ضمن میں بعض سزاؤں کا تذکرہ کیا گیا ہے، جن پر مغرب نے ہمیشہ اعتراضات کیے اور ان کوحقوقِ انسانی کے خلاف باور کرانے کی کوشش کی، مگر دہشت گردی کے انسداد کے نام پر اس نے ایسی ایسی سزائیں ایجاد کی ہیں کہ خدا کی پناہ! بہرحال قرآن مجید ایسی سزاؤں کی کسی بھی صورت میں اجازت نہیں دیتا۔ قرآن مجید میں حد ودو قصاص کے ضمن میں واضح اصول بیان کیے گئے ہیں اوران کا نفاذمتعین طور پر صرف مجرموں پر ہوتا ہے۔ وہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ مشتبہ افراد کو غیر معینہ مدت تک انسانیت سوز سزائیں دی جاتی رہیں۔

 ڈکیتی وغیرہ کی متنوع سزاؤں کے باوجودقر آن نے یہ صراحت بھی کی ہے کہ اگر مجرم گرفت میں آنے سے پہلے تو بہ کر لے تو اس سے سز اساقط ہو جائے گی:

اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَيْہِمْ۝۰ۚ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۳۴ (المائدہ ۵:۳۴) مگر جو لوگ توبہ کر لیں قبل اس کے کہ تم ان پر قابو پاؤ۔ تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔

اسلام میںارتداد کی سخت سزا رکھی گئی ہے، یعنی قتل، مگر اس کے باوجوداس کو تو بہ کی مہلت دی جائے گی۔اگر وہ تو بہ کرلے تو اسے کسی قسم کی سزا نہیں دی جائے گی۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ  مجرم اگر اصلاح پر آمادہ ہوتواسے اس کا موقع دیا جائے گا۔جن مجرمین پر سزا کا نفاذ ہونا ہوان کی تذلیل وتحقیر کی اجازت نہیں دی گئی ہے، بلکہ جومتعین سزا (حدود یا قصاص) بیان کی گئی ہے صرف وہی نافذ کی جائے گی۔ یہ سزائیں صرف ان لوگوں پر نافذ کی جائیں گی، جوحقیقت میں مجرم ہوں اور جرم ثابت کرنے کے لیے تمام عدالتی کارروائیاں پوری غیر جانب داری کے ساتھ انجام پائی ہوں اور جرم اپنے جملہ شرائط کے ساتھ ثابت ہو چکا ہو لیکن اگر ثبوت میں کسی بھی پہلو سے اشتباہ ہوتو یہ سزائیں نافذنہیں ہوں گی، البتہ ریاست کو مجرم کی تعزیر کا حق ہے۔

تصورِامن اور اخلاقیات

امن کے اصل معانی نفس کے مطمئن اور بے خوف ہو جانے کے ہیں۔ اسی سے امانت ہے، جو خیانت کی ضد ہے۔ امین کو امین اس لیے کہا جا تا ہے، کہ اس کی نیک معاملگی پر دل مطمئن ہو تا ہے۔ جواُونٹ قوی اور مضبوط جسم کا ہوا سے’ مامون‘ کہا جا تا ہے۔ جنگ بدر کے موقع پر مسلمانوں کی نیند کے لیے قرآن مجید نے اَمَنۃً نُعَاسًا  کے الفاظ استعمال کیے ہیں ۔ان کے معنیٰ ہیں ایسی نیند جس سے دماغ کو راحت وسکون اور دل کو اطمینان حاصل ہو۔ امن خوف کی ضد ہے، یعنی مستقبل میں کسی بھی ناخوش گوار واقعہ سے دو چار ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔ اسی سے مستامن ہے، جس کا اطلاق اس حربی پر ہوتا ہے جواسلامی حکومت سے امان نامہ حاصل کر کے دارالاسلام میں بے خوف ہوکر رہتا ہو۔ گویا امن ایسے حالات کا نام ہے، جن میں ہرشخص یا فریق اپنے تحفظ کے سلسلے میں دوسرے کی طرف سے بالکل بے خوف اور مطمئن ہو۔ سلم،سلام اور اسلام کے الفاظ کا استعمال امن کے مترادف کے طورپرہوتا ہے۔

قرآن مجید میں فرد کی تربیت پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے، تا کہ وہ ربّ کی مرضی اور امن وسلامتی کی راہ پر گام زن ہو سکے ۔ اسلام امن وسلامتی انفرادی اور سماجی سطح پرہی نہیں، بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی قائم کرنا چاہتا ہے، تا کہ ہرمتنفس اس سے فائدہ اٹھا سکے۔ قرآن مجید میں مختلف اخلاقی اوصاف کا تذکرہ کیاگیاہے، مثلاً ذکر، شکر، تقویٰ، توکل، صبر، توبہ واستغفار،شرم وحیا، احسان، صداقت، خوش اخلاقی، ایفائے عہد، امانت، عدل وانصاف، تواضع، رحم دلی، عفوودرگزر، خیر خواہی،مساوات، وغیرہ۔ اسی طرح فضول خرچی، سودخوری، رشوت، بدکاری، کبر وغرور،جھوٹ، فریب، غصہ ،خیانت ،چوری، شراب نوشی، جوا وغیرہ سے بچنے کی ہدایت کی گئی ہے۔اگر افراد میں یہ اعلیٰ صفات پیداہوں تو ایک پُرامن معاشرہ وجود میں آئے گا۔

اسلام کی رُو سے سماج میں پائے جانے والے تمام طبقات اور گروہوں کے درمیان باہمی تعاون، رحمت و محبت اورامن وسلامتی کا تعلق پایا جا تا ہے۔اس کی بنیاد حقوق وفرائض کے متوازن اور معتدل تصور پر قائم ہے۔ قرآن مجید میں حقوق وفرائض کی صرف قانونی دفعات ہی مذکورنہیں ہیں، بلکہ حقیقی معنوں میں لوگوں کے درمیان اخوت ومحبت پیدا کر نے کی تدابیر بھی بیان ہوئی ہیں۔

معاشرے میں ایک دوسرے کے خلاف بغض ونفرت اور خوف و ہراس پیدا کر نے کے ذرائع سے بچنے کی تا کید کی گئی ہے۔ اظہارِ کبر،بے رخی برتنے اور کرخت آواز میں بات کرنے سے منع کیاگیاہے۔ برائی کا بدلہ بھلائی سے دینے کی تعلیم دی گئی ہے اور کہاگیاہے کہ اس طرح دشمن بھی دوست بن سکتا ہے۔(حم السجدۃ ۴۱:۳۴)

اصولی طورپر یہ بات بہت واضح انداز میں بیان کردی گئی ہے کہ باہمی تعاون ہمیشہ اچھے، نیک ،بھلائی اور خداترسی کے کاموں میں کیاجائے اور فتنہ وفساد، ظلم وزیادتی اور بغاوت وسرکشی کے کاموں میں ہرگز نہ کیاجائے(المائدہ۵:۲)۔ایسے طبقات کی نشان دہی کی گئی ہے جو تقویٰ اور حُسن سلوک کے مستحق ہیں اور جن کی مالی معاونت معاشرے میں امن وامان کے قیام کا ذریعہ ہوتی ہے۔ (الضحٰی ۹۳:۹-۱۰،الذاریات۵۱:۱۹)

اس حکم کے ساتھ تعاون باہمی میں رکاوٹوں کا بھی سدّباب کیاگیاہے۔ مثال کے طورپر خودغرضی باہمی تعاون میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس کے ازالے کے لیے ایثار کا حکم دیا گیاہے(الحشر۵۹:۹)۔خود غرضی کی سب سے نمایاں مثال سود ہے، اس لیے اسے حرام قرار دیا گیا ہے(البقرۃ۲:۲۷۵)۔اس کے ساتھ ناپ تول میں کمی بیشی کو بھی ممنوع قرار دیاگیاہے (المطفّفین۸۳:۱-۳)، کیوں کہ یہ سب چیزیں بدامنی پیداکرتی ہیں اور اس سے پورا معاشرہ متاثر ہوتاہے۔قرآن مجید میں ایسے تمام افعال کو فساد فی الارض قرار دیاگیاہے، جن سے لوگوں کے مال واسباب میں خسارہ ہو۔(الشعراء۲۶:۱۸۳)

درج بالاتعلیمات، قرآن مجید میں عام پیرایے میں بیان ہوئی ہیں،جن کے مخاطب افراد بھی ہیں اور جماعتیں بھی اور حکومتیں اور ریاستیں بھی۔ اس کے ساتھ ہی قرآن مجید معاشرے میں امن وسلامتی قائم کرنے کے لیے اجتماعی جدوجہد کی بھی تلقین کرتاہے اور زمین سے فتنہ وفساد کے خاتمے کو پوری امت کی ذمہ داری ٹھیراتا ہے(اٰل عمرٰن۳:۱۰۳)۔ وہ مسلمانوں پر بحیثیت خیرِ اُمت یہ ذمہ داری بھی ڈالتاہے کہ روئے زمین سے فتنہ وفساد کی ممکنہ تمام شکلوں کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔اس کے لیے وہ جہاد فی سبیل اللہ کا حکم دیتاہے(النساء۴:۷۵)۔ اس کے ساتھ وہ حکومت اور قانون کو بھی بروئے کارلانے کی تاکید کرتاہے، تاکہ تمام شہریوں کو سماجی اور سیاسی عدل وانصاف حاصل ہواور امن وامان کا ماحول باقی رہے (النساء۴:۵۸، الحدید۵۷:۲۵)۔اسلامی ریاست کے فرائض میں امن وامان کو یقینی بنانے کے لیے حدود وقصاص کے نفاذ کا حکم دیاگیاہے۔

اسلام جس امن وامان کو انفرادی اور قومی سطح پر قائم کرنا چاہتاہے اس کو وہ بین الاقوامی سطح پر بھی قائم ودائم دیکھنا چاہتاہے۔ چنانچہ وہ مختلف اقوام سے امن معاہدات کرنے اور امن کی پابندیوں کو کرنے کا حکم دیتاہے:

 يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۝۰ۥۭ  (المائدہ۵:۱) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے عہد وپیمان پورے کرو۔

وَاَوْفُوْا بِعَہْدِ اللہِ اِذَا عٰہَدْتُّمْ (النحل۱۶: ۹۱) اور اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو، جب کہ تم اسے باندھ چکے ہو پورا کرو۔

اسلامی تعلیمات پر عمل کیا جائے تو انفرادی، قومی اور بین الاقوامی سطحوں پر امن و امان کو فروغ ہوگا، افراد اپنے بنیادی حقوق سے بہرہ ور ہوں گے، ہر ایک کے ساتھ عدل و انصاف کیا جائے گا، ظالموں کی سرکوبی اور مظلوموں کی داد رسی ہوگی، اور ایک پُر امن معاشرہ وجود میں آئے گا۔

اسلام کی مختلف خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ دین مصلحتوں اور حکمتوں پر مبنی ہے۔ اس کے لیے ’دین میں مصالح‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو احکام دیے ہیں ان میں انسانوں کے لیے بے پناہ فوائد پوشیدہ ہیں۔ اگر ان احکام پر عمل نہ کیا جائے اور دین کو ترک کردیا جائے تو ان فوائد سے محرومی کے ساتھ طرح طرح کے نقصانات لاحق ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمَا جَعَلَ عَلَیْْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ (الحج ۲۲:۷۸) ’’اور اللہ نے تمھارے لیے دین میں کوئی حرج نہیں بنایا ہے‘‘۔

اسلام میں مصالح اور علما کی آرا

قرآن و حدیث میں ایسی بے شمار نصوص ہیں جن میں احکام میں مصالح اور حکمتوں کی وضاحت کی گئی ہے اور علما نے اس پر مستقل کتابیں تصنیف کی ہیں، جن میں اسرار شریعت اور احکام کی علتوں کو بیان کیا گیا ہے۔ ۱؎  علماے اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ حکیم ہے اور اس کے احکام میں حکمت و مصلحت پائی جاتی ہے ۔ امام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں:  تمام اَئمہ و فقہا احکام شرع میں حکمت و مصالح کے اثبات کے مسئلے پر متفق ہیں۔ اس سلسلے میں قیاس کو نہ ماننے والوں اور کچھ دوسرے لوگوں نے اختلاف کیا ہے۔ ۲؎

جو لوگ احکام میں مصالح اور حکمتوں کا انکار کرتے ہیں ان کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے امام موصوف لکھتے ہیں:’’اہل سنت اللہ تعالیٰ کے احکام میں تعلیل (علت) کے قائل ہیں۔  وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی چیز کو پسند کرتا ہے اور وہ راضی ہوتا ہے، جیسا کہ قرآن و سنت سے ثابت ہے۔ ان کے نزدیک پسند کرنا اور راضی ہونا مطلق طور پر کسی چیز کا ارادہ کرنے کے مقابلے میں زیادہ خاص ہے (یعنی کسی حکم کی بجاآوری رضاے الٰہی کے لیے ہونا اس کی علت قرار دی جاسکتی ہے)۔ بے شک اللہ تعالیٰ کفر ، فسق اور عصیان کو پسند نہیں کرتا، اگرچہ اللہ کی مشیّت و ارادے کے بغیر   کوئی شخص ان افعال کو انجام نہیں دے سکتا‘‘۔(منھاج السنۃ النبویۃ، ابن تیمیہ،ج۱، ص۱۴۱)

ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ احکام میں علّت تسلیم کرنے کی صورت میں تسلسل اور دور لازم آئے گا اور اللہ تعالیٰ حکمت کا تابع قرار پائے گا ، جس سے وہ برتر و بالا ہے۔ اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے امام موصوف لکھتے ہیں:’’یہ تسلسل مستقبل میں واقع ہونے والے واقعات کے بارے میں لازم آتاہے نہ کہ گذشتہ واقعات کے بارے میں ۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے کسی کام کو کسی حکمت کے لیے انجام دیا تو حکمت اس فعل کے بعد حاصل ہوگئی۔ اب اگر اس حکمت سے دوسری حکمت چاہی جائے تو یہ تسلسل مستقبل میں پیش آئے گا۔ اور وہ حاصل شدہ حکمت اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ اور ایک دوسری حکمت کا سبب ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ایسی حکمتیں پیدا کرتا رہتا ہے جن کو وہ پسند کرتا ہے اور ان کو دوسری حکمتوں کا سبب بھی بناتا رہتا ہے۔ جمہور مسلمان اور دوسرے فرقوں کے لوگ مستقبل میں تسلسل کے قائل ہیں، ان کے نزدیک جنت اور جہنم میں ثواب و عذاب ایک کے بعد ایک تسلسل کے ساتھ حاصل رہے گا‘‘۔(ایضاً)

امام موصوف دین میں مصالح اور حکمتوں کی موجودگی کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’جب فرد کو معلوم ہوگیا کہ فی الجملہ اللہ تعالیٰ کے دین (اوامر و نواہی) میں عظیم حکمتیں ہیں تو اتنی ہی بات اس کے لیے کافی ہے، پھر جوں جوں اس کے ایمان و علم میں اضافہ ہوگا اس پر حکمت اور رحمت الٰہی کے اسرار کھلتے جائیں گے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا ہے:  سَنُرِیْھِمْ آیٰـتِنَا فِیْ اْلآفَاقِ وَفِیْ أَنفُسِھِمْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَھُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ (حٰم السجدہ۴۱:۵۳) ’’عن قریب ہم ان کو ا پنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی، یہاں تک کہ ان پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ یہ قرآن برحق ہے‘‘۔ یا جیساکہ ایک حدیث میں اس مفہوم کو مزید واضح کیاگیاہے: ’’اللہ بندوں کے حق میں اس سے زیادہ رحیم ہے، جتنا ماں اپنے بچے کے لیے رحم دل ہوتی ہے‘‘۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ، ج۸، ص۹۷)

شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اپنی کتاب حجۃ اللّٰہ البالغۃ میں ان لوگوں کی پُرزور تردید کی ہے جنھوں نے احکام میں مصلحتوں کا انکار کیا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ احکام شرعیہ قطعاً حکمتوں اور مصلحتوں پر مشتمل نہیں ہیں … یہ خیال سراسر فاسد ہے اور سنت اور اجماعِ امت سے اس کی تردید ہوتی ہے‘‘۔ (حجۃ اللّٰہ البالغۃ، ص ۴-۵)

مصالح کے فوائد

شاہ ولی اللہ ؒنے ان مصالح اور حکمتوں کو جاننے کے فوائد بھی تفصیل سے بیان کیے ہیں ۔ ان میں سے بعض اہم فوائد درج ذیل ہیں:

۱- اس سے معجزۂ قرآن کی طرح (جس کے معارضے سے انسان عاجز ہوگئے) شریعت کے معجزے کا اظہار ہوتا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت تمام شریعتوں سے کامل تر ہے، اور اس میں ایسی مصلحتیں پیش نظر رکھی گئی ہیں جن کی رعایت کسی اور طریقے پر ممکن نہیں۔ یہ کامل شریعت ایک نبی اُمی کی طرف سے پیش کی گئی ہے۔

۲- شریعت ِاسلامیہ پر کامل ایمان ویقین کے ساتھ اگر اس کی مصلحتیں بھی معلوم ہوجائیں تو اطمینانِ قلبی حاصل ہوتا ہے اور یہ طمانیت شرعاً مطلوب ہے، جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایمان کامل کے باوجود اللہ تعالیٰ سے اس کا مطالبہ کیا تھا ۔ چنانچہ اس کے لیے ان کے سامنے ایک معجزہ دکھا دیا گیا۔ ( البقرہ ۲: ۲۶۰)

۳- فروعی مسائل میں فقہا کے درمیان اختلافات رونما ہوئے ہیں۔ مصالح کے علم سے ان اختلافات میں کسی ایک مسئلے کو ترجیح دینے میں مدد ملتی ہے۔

۴-  شریعت کے بعض مسائل میں بعض فرقوں کو شک ہے۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ    ان میں شریعت کا حکم خلافِ عقل ہے اور جو چیز عقل کے خلاف ہو، اسے رد کردینا چاہیے، جیسے عذابِ قبر کے بارے میں معتزلہ کو شک ہے۔ اسی طرح قیامت میں حساب کتاب اور اعمال کے تولے جانے کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ علیم و خبیر ہے، اسے حساب لینے اور اعمال کو تولنے کی کیا ضرورت؟ غرض کہ اس طرح کے اور دیگرمسائل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خلافِ عقل ہیں۔ اس کا سدّباب اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ ان کے بارے میں مصلحتوں اور حکمتوں کو بیان کیا جائے، تاکہ شک کا ازالہ ہو۔(حجۃ اللّٰہ البالغۃ، ص ۸)

امام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں کہ: شرعی احکام میں تین طریقوں سے مصالح ثابت ہوتے ہیں:

۱-متعلق فعل میں مصلحت شامل ہو، اگرچہ شریعت میں اس کی وضاحت نہ کی گئی ہو، جیسے عدل و انصاف کی مصلحت دنیامیں امن و امان کا قیام ہے اور ظلم اور ناانصافی فسادِ عالم کا سبب ہے۔ یہ مصلحت عقل اور شرع دونوں سے ثابت ہے۔

۲- شریعت نے جب کوئی حکم دیا تو اس کی بجا آوری ہی میں مصلحت ہے اور کسی چیز سے منع کیا تو اس سے احتراز کرنا ہی تقاضاے مصلحت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شارع کے حکم سے حسن و قبح کا تعین ہوتا ہے۔

۳- اللہ تعالیٰ کسی حکم کے ذریعے بندے کا محض امتحان لینا چاہتا ہو کہ وہ اس کی اطاعت کرتا ہے یا نہیں؟ حقیقت میں حکم کی تعمیل مقصود نہ ہو، جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے کی قربانی کا حکم دینا، یا بنی اسرائیل کے تین افراد (گنجا، برص زدہ اور اندھے) کی آزمایش کہ وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی خصوصی نعمتوں کا اعتراف کریں اور راہ حق میں خرچ کریں۔ اس صورت میں حکمت نفسِ حکم میں ہے نہ کہ اس کی تعمیل کرنے میں‘‘۔ (مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ، ج ۸، ص ۴۳۵- ۴۳۶)

علامہ ابواسحاق الشاطبیؒ فرماتے ہیں:’’احکام شریعت کا اصل مقصد دنیا و آخرت میں بندوں کے مصالح کی حفاظت ہے‘‘۔(الموافقات فی اصول الشریعۃ، ج۲، ص۶)

علامہ ابن قیم الجوزیۃؒ لکھتے ہیں:’’شریعت کی بنا اور اساس بندوں کے دنیوی و اُخروی مصالح اور حکمتیں ہیں اور وہ پوری کی پوری عدل، رحمت، حکمت اور مصلحت ہے‘‘۔(اعلام الموقعین عن رب العالمین، ج۳، ص ۳)

مصلحت کا مفھوم

صَلُح ، یصلح ، صلاحاً وصلوحاً و صلاحیۃ کے معنٰی درست او رٹھیک ہونے کے ہیں۔ اسی سے مصلحت ہے اور اس کی جمع مصالح ہے۔ اس کی ضد فساد اور مفسدۃ ہے، جس کے معنی بگاڑ اور خرابی کے آتے ہیں۔ اس کے اصطلاحی معنٰی ہیں احکامِ شرع کا مصالح کے مطابق ہونا۔ اس میں جلبِ منفعت اور دفعِ مضرت دونوں پہلو شامل ہوتے ہیں ۔ علما نے مصالح کی تشریح مختلف زاویوںسے کی ہے۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں:

’’منفعت کا حصول اور مضرت کا دفع کرنا مخلوق کی بنیادی ضروریات میںسے ہے اور خلق کی اصلاح اس امر پر ہے کہ ان کے مقاصد پورے کیے جائیں۔ یہاں اصلاح سے مراد وہ اصلاح ہے، جوشریعت کا مقصود ہے اور خلق کے حق میں شریعت کا مقصود پانچ امور ہیں: دین کی حفاظت، نفس کی حفاظت، عقل کی حفاظت، نسل کی حفاظت اور مال کی حفاظت۔ لہٰذا ہر وہ حکم یا طریقہ جو ان پانچ اصولوں کا ضامن ہوگا، مصلحت اور اصلاح کہلائے گا اور جس سے یہ اصول فوت ہوتے ہیں وہ طریقۂ مفسدہ کہلائے گا اور مفسدہ کو دفع کرنا واجب و لازم ہے‘‘۔(المستصفٰی فی علم الاصول، ج۱، ص ۲۸۶)

علامہ آمدیؒ مصلحت کی تشریح ان الفاظ میں کرتے ہیں:’’حکم کی مشروعیت کا مقصود یا تو کسی مصلحت و فائدہ کو حاصل کرنا ہے، یا کسی مضرّت کو دور کرنا، یا دونوں ہی مقصود ہیں‘‘۔(امام شاطبی کے ذکر کردہ مقاصدی قواعد- ایک تجزیاتی مطالعہ، ڈاکٹر عبدالرحمن ابراہیم کیلانی، ص۴۳، بحوالہ الإحکام للآمدی، ج۳، ص ۲۷۹)

مصالح دین کو مقاصدِ شریعت بھی کہا جاتا ہے۔ شیخ طاہر بن عاشورؒ مقاصدِ شریعت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’مقاصد شریعت ان معانی اور حکمتوں کو کہتے ہیں جنھیں شارع نے قانون سازی کے تمام یا اکثر حالات میں ملحوظ رکھا ہے، اس طور پر کہ اسے شریعت کے کسی خاص قسم کے حکم کے ساتھ مخصوص نہیں رکھا گیا ہے۔ لہٰذا اس میں شریعت کے وہ عمومی اوصاف اور اہداف بھی آتے ہیں جنھیں ملحوظ رکھنے سے شریعت پہلوتہی نہیں کرتی‘‘۔ (ایضاً، بحوالہ مقاصد الشریعۃ الاسلامیۃ، طاہر بن عاشور، ص۵۱)

استاذ علال الفاسیؒ فرماتے ہیں:’’مقاصد شریعت ، شریعت کے اہداف اور ان اسرار و رموز کو کہتے ہیں جنھیں شارع نے تمام احکام میں ملحوظ رکھا ہے‘‘۔(ایضاً، بحوالہ مقاصد الشریعۃ ومکارمھا، علال الفاسی، ص۳)

ڈاکٹر یوسف حامد العالم نے مصالح کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے:’’مقاصد شریعت ان مصالح و فوائد کو کہتے ہیں جو بندوں کو دنیا و آخرت میں حاصل ہوتے ہیں، خواہ یہ فوائد      جلبِ منفعت کے ذریعے حاصل ہوں، یا دفعِ مضرّت کے ذریعے‘‘۔(ایضاً، بحوالہ المقاصد العامۃ للشریعۃ الاسلامیۃ، ڈاکٹر یوسف العالم، ص۷۹)

مصلحت کی قسمیں

مصلحت کی بنیادی طورپر دو قسمیں ہیں: اُخروی اور دنیاوی۔ اخروی مصلحت سے مراد موت کے بعد آخرت میں اللہ کی رضا کا حصول، جنت میں داخلہ اور جہنم سے نجات ہے۔ دنیاوی مصلحت کا تعلق دنیاکی زندگی میں منفعت کے حصول یا دفعِ مضرّت سے ہے۔ جمہور فقہا نے دنیاوی مصالح کی تین قسمیں بیان کی ہیں: ۱- ضروریہ، ۲-حاجیہ، ۳- تحسینیہ۔ (الموافقات فی اصول الشریعۃ، ج ۲، ص ۸)

۱- مصلحتِ ضروریہ

مصلحت ضروریہ کا معنیٰ ہے: وہ مصلحت جس کی رعایت کے بغیر انسان کی صحت مندانہ زندگی کا تصور ممکن نہ ہو۔ عصری اصطلاح میں اسے انسان کے بنیادی حقوق بھی کہہ سکتے ہیں۔ مصلحت ضروریہ کا دائرہ پانچ چیزوں پر محیط ہے: ۱- دین، ۲- جان، ۳- نسل، ۴- مال، ۵- عقل۔ ذیل میں ان کی اہمیت سے متعلق اسلام کا نقطۂ نظر پیش کیا جاتا ہے:

  • دین و عقیدہ کی حفاظت: اسلام کے نزدیک انسان کی زندگی دین و عقیدہ کے بغیر بے معنیٰ ہے۔ وہ اس بات کو ہرگز پسند نہیں کرتا کہ آدمی ایمان و عقیدہ سے عاری زندگی گزارے۔ ایسی صورت میں وہ اس بات کو کیسے پسند کرسکتا ہے کہ وہ دوسرے کے دین و عقیدہ میں خلل ڈالنے کا باعث ہو، یا خود ا پنے ایمان سے پھر جائے۔ شریعت کی نگاہ میں یہ قابل سزا جرم ہے۔ دوسرے معنیٰ میں اسلام معاشرے کو مذہبی خلفشار سے بچانا چاہتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ آدمی خود گم راہ ہو اور دوسروں کی گم راہی کا بھی سبب بنے۔ اس کے سدِّ باب کے آخری ذریعے کے طور پر سزاے مرتد متعین کی گئی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جو اپنے دین کو تبدیل کرلے (یعنی اسلام سے پھر جائے) اسے قتل کردو‘‘۔(بخاری، کتاب الجہاد، باب لایعذب بعذاب اللّٰہ) 

دین کی حفاظت کا تعلق صرف مرتد اور بدعتی کے حوالے سے ہی نہیں، بلکہ کفار و مشرکین کے حوالے سے بھی مطلوب ہے۔ چنانچہ ان میں سے جو لوگ مسلمانوں کے خلاف جنگ پر آمادہ ہوں ان سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ دین کی حفاظت ہے، تاکہ کفر و شرک اور باطل ادیان غالب ہوکر مسلمانوں کے لیے فتنے کا باعث نہ ہوں۔وَاقْتُلُوھُمْ حَیْْثُ ثَقِفْتُمُوھُمْ وَأَخْرِجُوھُمْ مِّنْ حَیْْثُ أَخْرَجُوکُمْ وَالْفِتْنَۃُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ (البقرہ ۲: ۱۹۱)، ’’ان سے لڑو جہاں بھی تمھارا ان سے مقابلہ پیش آئے اور انھیں نکالو جہاں سے انھوں نے تم کو نکالا ہے، اس لیے کہ قتل اگرچہ بُرا ہے، مگر فتنہ اس سے بھی زیادہ بُرا ہے‘‘۔ حفاظت دین کے مفہوم میں شعائر دین ، مساجد، جماعت، سنت کی حفاظت اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر بھی شامل ہے۔

  • جان کی حفاظت:کرۂ ارضی کی ساری آبادی ، یہاں کی بہاریں اور سرگرمیاں انسانوں کے دم سے ہیں اور ان کی زندگی کی بقا کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ ایک دوسرے کی جان کے درپے نہ ہوں، ورنہ یہ دنیا ویران ہوجائے گی اور یہاں کی ساری رونق جاتی رہے گی۔ اسی لیے اسلام میں ایک آدمی کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ جو شخص ناحق کسی کی جان لیتا ہے وہ صرف ایک ہی فرد پر ظلم نہیں کرتا، بلکہ اس کا عمل یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ اس کا دل حیاتِ انسانی کے احترام سے خالی ہے۔ لہٰذا وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا ہو۔ انسانی جان کی قدر و قیمت کا تقاضا ہے کہ آدمی خود بھی اپنی جان کو ختم کردینے کے درپے نہ ہو ۔ اس لیے اسلام میں خود کشی حرام ہے۔ ارشاد ربانی ہے: وَلاَ تَقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا (النساء ۴:۲۹)’’اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ یقین مانو کہ اللہ تمھارے اوپر مہربان ہے‘‘۔

حفاظتِ جان کے مدِّنظر ہی شریعت میں قصاص کے احکام دیے گئے ہیں، جس میں نہ صرف جان کے بدلے جان کی دفعہ بیان کی گئی ہے، بلکہ معمولی چوٹ اور زخم ، حتیٰ کہ تھپڑ پر بھی قصاص کو مشروع کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَکَتَبْنَا عَلَیْْھِمْ فِیْھَا اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْْنَ بِالْعَیْْنِ وَالأَنفَ بِالأَنفِ وَالأُذُنَ بِالأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ (المائدہ ۵:۴۵)، ’’اور ہم نے یہودیوں کے ذمہ تورات میں یہ بات مقرر کردی تھی کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت، اور زخموں کا بھی برابر کا بدلہ ہے‘‘۔

ساتھ ہی قصاص کو انسانوں کے لیے حیات بخش قرار دیا گیا ہے: وَلَکُمْ فِیْ الْقِصَاصِ حَیوٰۃٌ یٰـآولِیْْ الأَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَo (البقرہ ۲: ۱۷۹)،’’عقل و خرد رکھنے والو، تمھارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔ امید ہے کہ تم اس قانون کی خلاف ورزی سے پرہیز کروگے‘‘۔

  • نسل کی حفاظت: نسل کی حفاظت در حقیقت نوع انسانی کی حفاظت ہے، کیوں کہ دوسری صورت میں انسانی معاشرہ خلفشار کا شکار ہوجائے گا ۔ شریعت کی نگاہ میں ضروری ہے کہ ہربچہ اپنے والدین کی نگرانی میں تربیت پائے اور وہی ان کا وارث بنے۔ یہ مقاصد چونکہ صرف ازدواجی زندگی سے حاصل ہوتے ہیں۔ اس لیے اسلام میں نکاح کو مشروع قرار دیا گیا ہے اور دیگر ہر طرح کے جنسی تعلقات کو حرام کیا گیا ہے اور ان پر حد مقرر کی گئی ہے۔ (النور ۲۴:۲)

حفاظتِ نسل کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ کسی کے نسب کو متہم کیا جائے نہ بغیر پختہ ثبوت کے اس پر زنا کا الزام لگایا جائے، کیوں کہ اس صورت میں نسب کے تعین میں شبہہ پیدا ہوگا اور پیدا شدہ بچے کے مصالح فوت ہوں گے، نیز متہم شخص کی سماجی زندگی متاثر ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:وَالَّذِیْنَ یَرْمُونَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَأْتُوا بِأَرْبَعَۃِ شُھَدَاء فَاجْلِدُوھُمْ ثَمَانِیْنَ جَلْدَۃً وَلَا تَقْبَلُوا لَہُمْ شَھَادَۃً أَبَداً  (النور ۲۴:۴)، ’’اور وہ لوگ جو پاک دامن عورتوں پر زنا کا الزام لگاتے ہیں اگر وہ چار گواہ نہ لاسکیں تو انھیں ۸۰ کوڑے مارے جائیں اور ان کی گواہی ہمیشہ کے لیے ناقابل اعتبار سمجھی جائے‘‘۔

  • مال کی حفاظت : مال زندگی کی بنیادی ضروریات میں سے ہے۔ اس کے بغیر انسان کو خوراک ، لباس اور مکان کے سلسلے میں کوئی چارہ نہیں۔ مال نہ ہو تو آدمی غربت و افلاس کا شکار ہوجائے۔ اس لیے شریعت نے مال کمانے، رکھنے اور خرچ کرنے کے ساتھ اس کو چوری ، غصب اور ڈاکا زنی سے محفوظ رکھنے کے احکام دیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَأْکُلُواْ اَمْوَالَکُمْ بَیْْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَن تَکُونَ تِجَارَۃً عَن تَرَاضٍ مِّنکُمْ (النساء ۴:۲۹)، ’’اے ایمان والو، ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے نہ کھاؤ، مگر یہ کہ کوئی مال باہمی رضامندی سے تجارت کے ذریعے حاصل ہوجائے ‘‘۔

ناجائز طریقے سے دوسرے کا مال کھانے کے مفہو م میں ہر وہ طریقہ شامل ہے جو شریعت اور عرف عام میں ناجائز ہو، چاہے وہ عیاں ہو یا خفیہ ۔ ایک حدیث میں ہے کہ: ’’جس نے چوری کا مال خریدا، یہ جانتے ہوئے کہ یہ چوری کا ما ل ہے، وہ اس کے گناہ اور برائی میں شریک ہوا‘‘   (فیض القدیر شرح الجامع الصغیر للمناوی، ج۶، ص ۶۴)۔ حفاظتِ مال کی غرض سے شریعت اسلامیہ میں چوری اور ڈاکا زنی کی سزا متعین کی گئی ہے۔ (المائدہ: ۳۳، ۳۸)، اور سود، جوا،  ناپ تول میں کمی بیشی، بیع، غرر ، ذخیرہ اندوزی اور وہ تمام طریقے حرام قرار دیے گئے ہیں جن سے کسی فرد کو مالی نقصان لاحق ہوسکتا ہے۔

  •  عقل کی حفاظت:عقل کی حفاظت سے مراد یہ ہے کہ اس کو ایسی چیزوں سے بچایا جائے جو انسان کے فتور کا باعث ہوں، اسے آفتوں میں مبتلا کردینے والی ہوں اور ان کی وجہ سے وہ اذیت میں مبتلا ہو۔ چنانچہ شریعت میں شراب اور دوسری تمام نشہ آور اشیا حرام ہیںاور ان کے استعمال پر سزا نافذ کی جاتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من شرب الخمر فاجلدوہ ، ’’جو شخص شراب نوشی کرے اسے کوڑے لگاؤ‘‘۔(مسند احمد ، ج۲، ص ۱۶۶، ابوداؤد، کتاب الحدود، ترمذی، کتاب الحدود)

شریعت کے یہی وہ پانچ مصالح ہیں جنھیں ’مصالحِ ضروریہ‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ان کی حفاظت کو شریعت نے لازم قرار دیا ہے اور ان کو پامال کرنے والے کے خلاف سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں:’’ان پانچ اصولوں کی حفاظت ضروریاتِ انسانی میں شمار ہوتی ہیںاورمصالح خلق کا یہ اعلیٰ ترین درجہ ہے… ان مصالح کی حفاظت کی تاکید دنیاکے ہرمذہب اور مہذّب سوسائٹی نے کی ہے‘‘۔(المستصفٰی فی علم الاصول، الغزالی، ج۱، ص ۲۸۷- ۲۸۸)

علامہ ابواسحاق الشاطبیؒ ان مصالح کی اہمیت سے متعلق لکھتے ہیں:’’دین و دنیا کے مصالح کے قیام کے لیے یہ ضروری ہیں۔ اگر یہ مفقود ہوں تو سلامتی کے ساتھ مصالح دنیا قائم نہیں رہ سکیں گے، بلکہ انسانی زندگی میں فساد اور خلفشار رونما ہوگا اوراُخروی زندگی میں نجات و کامیابی سے محرومی ہاتھ آئے گی، جو سراسر نقصان اور خسران ہے‘‘۔(الموافقات فی اصول الشریعۃ، ج۲، ص۸)

۲- مصلحتِ حاجیہ

مصلحت کی دوسری قسم، جس کی شریعت نے رعایت کی ہے، مصلحتِ حاجیہ ہے۔ اس سے مراد وہ مصلحت ہے جس کی رعایت سے انسانی زندگی میں سہولت پیدا ہو اور عدمِ رعایت سے تنگی اور مشقت لاحق ہو، مگر اس درجے میں نہ ہو، جیسا کہ مصالح ضروریہ کے فوت ہونے سے لاحق ہوتی ہے۔ امام شاطبیؒ لکھتے ہیں:’’حاجیات کے معنیٰ یہ ہیں کہ ان کی ضرورت توسّع کے حصول اور تنگی کے ازالے کے مقصد سے ہوتی ہے کہ اگر وہ پوری نہ ہوں تو حرج اور مشقت لاحق ہو اور اگر ان کی رعایت ملحوظ نہ رکھی جائے تو مکلّف افراد فی الجملہ حرج اور مشقت میں مبتلا ہوجائیں، مگر وہ      اس درجے میں نہ پہنچے کہ ان سے فساد روٗنما ہو، جیسا کہ مصالحِ ضروریہ کے نہ پائے جانے سے  فساد رُونما ہوتا ہے‘‘۔(ایضاً، ۲/۱۰-۱۱، المستصفٰی،ج ۱، ص۲۸۹-۲۹۰)

اس تعریف کی روشنی میں علما نے مصلحت ِحاجیہ کی دو قسمیں بیان کی ہیں: حاجیہ اصلیہ، حاجیہ مکمّلہ۔ یہ دونوں قسمیں تمام احکام، عبادات، معاملات، عادات اور جنایات میں موجود ہیں۔ عبادات میں مصلحت حاجیہ کی رعایت کی مثال احکام کی تعمیل میں رخصتوں کی موجودگی ہے، جیسے مجبور کے لیے کلمۂ کفر کہنے، اضطراری حالت میں مردار کھانے، پانی کی عدم موجودگی یا مرض کی صورت میں تیمم کرنے اور حیض و نفاس کی حالت میں نماز ترک کرنے کی رخصت دی گئی ہے۔ اسی طرح مریض ، مسافر، حاملہ اور مُرضعہ (بچے کو دودھ پلانے والی عورت)کو روزے دوسرے ایام میں رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔

معاملات میں مصلحت ِحاجیہ کی مثالوں میں کم سن بچی کے نکاح کے انعقاد کے لیے ولی کی شرط، خریدو فروخت ، اجارہ، مساقاۃ اور قرض کے لین دین کے معاملات کو پیش کیا جاسکتا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی چیز مصلحتِ ضروریہ میں سے نہیں ہے کہ اس پر عمل نہ کرنے سے انسان کے بنیادی حقوق پامال ہوتے ہوں، مگر زندگی کی بقا کے لیے یہ چیزیں ضروری ہیں۔ عادات میں مصلحتِ حاجیہ کی مثال شکار کا جائز ہونا اور کھانے پینے میں پاکیزہ چیزوں سے لطف اندوزی کا درست ہونا ہے۔

یہ مثالیں مصلحتِ حاجیہ اصلیہ کی ہیں۔ مصلحتِ حاجیہ مکمّلہ کی مثالوں میں مسافر اور مریض کے لیے دو نمازوں کو ایک وقت میں ادا کرنے اور حالتِ سفر میں قصر کی اجازت ، صغیرہ کے نکاح میں کفو کی رعایت، مہر مثل، قرض و رہن میں گواہی وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

۳- مصلحتِ تحسینیہ

مصلحت کی تیسری قسم تحسینیہ ہے۔ اس سے مراد وہ مصلحت ہے جس کی رعایت سے احکام و اعمال میں حسن او رخوبی پیدا ہو اور عقلِ سلیم اس کا تقاضا کرے، لیکن عدمِ رعایت سے حرج اور  تنگی پیدا نہ ہو۔ یہ مصلحت بھی عبادات، معاملات ، عادات اور جنایات میں پائی جاتی ہے۔ اس کی مثالیں یہ ہیں: نجاست کو زائل کرنا، پردہ کرنا، زیب وزینت اختیار کرنا، صدقہ و خیرات کرنا،  کھانے پینے میں آداب ملحوظ رکھنا، غیر پاکیزہ چیزیں کھانے سے پرہیز کرنا، اسراف اور فضول خرچی سے بچنا، گندگی کی خرید و فروخت سے منع کرنا یا زائد پانی یا گھاس سے روکنا، غلام کو گواہی اور  امامت و خلافت کے لیے نااہل قرار دینا۔ اسی طرح عورت کو امامت کے لیے نااہل قرار دینا، یا  اس کے ازخود نکاح کرنے کی ممانعت، یا غلام کے بدلے آزاد کو قتل کرنے کی ممانعت، یا جہاد میں بچوں ، بوڑھوں اور عورتوں کو مارنے کی حرمت وغیرہ۔ (الموافقات، ج ۱، ص ۱۱-۱۲)

اُخروی مصلحت کے حوالے سے ایک بات یہ بھی جاننی چاہیے کہ اس میں رضاے الٰہی کا حصول، جنت میں داخلہ اور جہنم کی آگ سے نجات کے ساتھ تزکیہ و تربیت ِنفس، تہذیبِ اخلاق ، عبادات پر مشقتوں کی برداشت کی تربیت اور قواے شہوانیہ و غضبیہ پر کنٹرول وغیرہ مطلوب و مراد ہیں۔

مصالح کی تینوں قسموں میں مصلحت ِضروریہ بنیادی اہمیت کی حامل ہے اور باقی دونوں قسمیں اس کی تابع ہیں۔ اگر مصلحت ِضروریہ مفقود ہوگی تو بہ درجہ اولیٰ مصلحت ِحاجیہ و مصلحت ِتحسینیہ بھی مفقود ہوں گی، لیکن اس کے برعکس کا وقوع لازم نہیں۔ مصالح کے حوالے سے دوسری اہم اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ خواہشاتِ نفسانی کی تابع نہیں ہیں، یعنی خواہشِ نفس کو مصلحت قرار  نہیں دیا جاسکتا، کیوں کہ شریعت اسی لیے آتی ہے کہ لوگوں کو ہواے نفس کی جکڑبندیوں سے نکال کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف لائے۔ (الموافقات، ج ۲، ص ۳۷-۳۸)

مصالحِ دین انھی اقسام میں محدود نہیں ہیں: دین میں مصالح اور حکمتوں کی تشریح میں علما نے عام طور پر انھی پنج گانہ مصالح کا تذکرہ کیا ہے اور ان میں تین درجات (ضروریہ، حاجیہ اور تحسینیہ) قائم کیے ہیں۔ مگر بعض علما نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ مصالحِ دین انھی اقسام میں محدود و محصور نہیں ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی مصالح کی اقسام میں توسیع کے قائل ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے امام ابن تیمیہؒ اورابنِ قیمؒ کے اقوال نقل کیے ہیں۔

علامہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:’’بعض لوگ مصالح مرسلہ کو جان، مال، عزت و آبرو، عقل اور دین کے تحفظ میں محصور کردیتے ہیں، مگر ایسا کرنا صحیح نہیں ہے، بلکہ مصالح مرسلہ یہ ہیں کہ منافعے حاصل کیے جائیں اور مضرتیں دور کی جائیں … دنیا میں (جلب منفعت کی مثال) وہ معاملات اور سرگرمیاں ہیں جن میں عامۃالناس کی بھلائی مضمر ہو، خواہ ان سے متعلق کوئی حد شرعی مقرر کی گئی ہو یا نہ کی گئی ہو، اور دین میں (جلب منفعت کی مثال) وہ احوال و معارف، عادات اور زہد کی باتیں ہیں جن میں انسانوں کی بھلائی مضمر ہے جس سے شریعت نے منع نہ کیا ہو۔ جن لوگوں نے مصالح کو  ان سزاؤں سے وابستہ کردیا جو فساد کو دور رکھنے کے لیے مقرر کی گئی ہیں یا جو اموال یا جسم انسانی کو محفوظ رکھنے کے لیے مقرر کی گئی ہیں، ان میں انھوں نے کوتاہی برتی ہے‘‘۔(مقاصد شریعت، ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی، ص۳۰)

ڈاکٹر موصوف نے روایتی فہرست میں اضافے کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے: ’’ایک خیال یہ بھی ہے کہ مقاصد کی روایتی فہرست پنج گانہ دین، جان، عقل، نسل اور مال میں خود اتنی وسعت ہے کہ بہت سے نئے مقاصد اسی فہرست میں داخل سمجھے جاسکتے ہیں۔ مثلاً عدل و انصاف دین میں اور ازالۂ غربت اور کفالت ِعامہ حفظ جان میں شامل سمجھے جاسکتے ہیں۔ ہمیں دو وجہوں سے اس فکر و سوچ سے اتفاق نہیں ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ، جیسا کہ ابنِ تیمیہ نے کہا ہے کہ مقاصد شریعت کے بیان میں تحفظ سے آگے بڑھ کر ترقی دینے اور بڑھوتری کو بھی شامل کرنا ضروری ہے۔ روایتی فہرست میں سارا زور دفع مضرت پر ہے، جلب منفعت کا پہلو دب گیا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ موجودہ عالمی اور قومی سطح کے مسائل میں ماحولیاتی آلودگی پر کنٹرول، کائنات کے قدرتی وسائل کا بچاؤ، عمومی اور کُلّی تباہی مچانے والے اسلحوں کے استعمال اور ان کی پیداوار پر پابندی اور موجودہ نیوکلیائی ہتھیاروں، نیز کیمیاوی اور حیاتیاتی اسلحوں کا تلف کیا جانا، اور اقوام عالم کے باہم امن و چین سے رہ سکنے کے دوسرے تقاضے پورے کرنے کے لیے یہ بہتر ہے کہ ان امور سے مناسبت رکھنے والی اسلامی تعلیمات کو اہمیت کے ساتھ پیش کیا جائے‘‘۔(ایضاً، ص۳۸-۳۹)

موصوف نے روایتی فہرست میں درج ذیل مصالح کے اضافے کی تجویز رکھی ہے اور ان پر قرآن و حدیث سے دلائل دیے ہیں: ۱- انسانی عز وشرف، ۲- بنیادی آزادیاں، ۳- عدل وانصاف، ۴- ازالۂ غربت اور کفالت ِعامّہ، ۵- سماجی مساوات اور دولت وآمدنی کی تقسیم میں  پائی جانے والی ناہمواری کو بڑھنے سے روکنا، ۶- امن و امان اور نظم و نسق، ۷- بین الاقوامی سطح پر باہم تعامل و تعاون۔(ایضاً، ص۳۹)

مصالحِ دین اور عقل

احکامِ دین میں مصالح اور حکمتوں کی دریافت عقل کرتی ہے، لیکن بعض اوقات عقل کی بنیاد پر شریعت کا حکم بھی مستنبط کیا جاتا ہے۔ جیساکہ معلوم ہے کہ شریعت کا چوتھاماخذ قیاس ہے،اس میں مسئلہ زیر بحث سے متعلق نص نہ ہونے کی وجہ سے عقل کی بنیاد پر شریعت کا حکم معلوم کیا جاتا ہے۔ جمہور فقہا نے قیاس کو شریعت کی ایک اصل قرار دیا ہے (الموسوعۃ الفقھیۃ، ج۳۴، ص۹۱)۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد مواقع پر عقل کی بنیاد پر دیے گئے مشوروں کو قبول فرمایا ہے۔۳؎  اسی طرح صحابہ کرامؓ اور تابعین عظام نے قیاس و عقل سے شریعت کے احکام وضع کیے ہیں ۔ امام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں: شرعی احکام میں متعلق و مطلوب حکم کی تحقیق کے بارے میں مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ شریعت میں حکم بمعنی عام کی تعلیق کی جائے گی (یعنی اس کے مصداق کی تحقیق کی جائے گی) اور افراد پر حکم کے اطلاق یا کسی خاص نوع میں اثبات کے لیے غورو فکر کیا جائے گا‘‘۔(منہاج السنۃ النبویۃ،ج ۶،ص ۴۷۴)

امام موصوف آگے اس کی مزید تشریح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ’’مختلف امور، جیسے انصاف کرنا، یا استقبال کعبہ یا جیسے شراب، جوا، مردہ، خون اور خنزیر کے حرام ہونے سے متعلق قرآن و حدیث میں عام حکم ہے، مگر شخص خاص سے متعلق طے کرنا کہ اس نے احکام کی خلاف ورزی کی یا نہیں، یا فلاں چیز حرام کردہ اشیا کی تعریف میں آتی ہے یا نہیں؟ یہ سب باتیں قیاس کے ذریعے ہی طے کی جاتی ہیں‘‘۔ (ایضاً)

احکام پر عمل حکمتوں کے جاننے پر موقوف نھیں

بلاشبہہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ دین مصالح اور حکمتوں پر مبنی ہے، مگر احکام دین پر عمل حکمتوں کے جاننے پر موقوف نہیں ہے، کیوں کہ عقل انسانی محدود ہے اور ضروری نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تمام حکمتوں کو جان لے ۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ لکھتے ہیں: احکام شرعیہ پر عمل کرنے میں، جب کہ وہ صحیح روایت سے ثابت ہوجائیں، ان کی مصلحتوں کے جاننے تک توقف کرنا جائز نہیں۔ کیوںکہ بہت سے انسانوں کی عقلیں بہت سی حکمتوں کو بطور خود نہیں سمجھ سکتیں اور نبی کریم ؐ کی ذات ہمارے نزدیک ہماری عقلوں سے کہیں زیادہ قابل اعتمادہے۔(حجۃ اللّٰہ البالغۃ، ص۶)

خلاصۂ بحث یہ ہے کہ اللہ رب العالمین کا عطا کردہ دین بندوں کے دینی و دنیاوی مصالح اور حکمتوں پر مبنی ہے، اس لیے اس سے بڑھ کر او رکوئی طریقہ انسانوں کے لیے مفید اور انجام کے اعتبار سے قابل اطمینان و موجب فلاح و نجات نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا اس دین کو ترک کرنا اور اس کو ازکار رفتہ قرار دینا انسان کی نادانی پر مبنی ہے، جس کے سنگین نتائج ہوسکتے ہیں۔

حواشی

۱-            مثال کے طور پر دیکھیے: محاسن الشریعۃ، امام محمد بن اسماعیل (م:۳۶۵ھ)، محاسن الاسلام، ابوعبداللہ بن عبدالرحمن البخاری (م:۳۴۶ھ)، الاعلام بمناقب الاسلام، ابوالحسن العامری (م:۳۸۱ھ)، حجۃ اللّٰہ البالغہ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (م:۱۱۷۶ھ)۔

۲-            منھاج السنۃ النبویۃ، ابن تیمیہ، تحقیق الدکتور محمد رشاد سالم ، ادارۃ الثقافۃ والنشر، جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیۃ، سعودی عرب ، ج۱، ص ۱۴۱۔ امام ابن تیمیہؒ نے لکھا ہے کہ بعض منکرین قیاس اور ایک دودیگر لوگ احکام میں علّت و حکمت کاانکار کرتے ہیں، ورنہ جمہور امت اس کے قائل ہیں۔

۳-            آپؐ نے بعض جنگوں میں میدان جنگ کے انتخاب میں بعض صحابہؓ کے مشورے کو قبول فرمایا۔ ایک صحابیؓ کے مشورے سے آپؐ نے انگوٹھی میں محمدؐ رسول اللہ کا نام کندہ کرایا اور اس کو مہر کے طورپر استعمال کیا۔ اذان کا طریقہ بھی مشورے کی بنیاد پر طے کیا گیا۔ پیاز اور لہسن کھاکر مسجد میں آنے کی ممانعت ایک ضرر کی وجہ سے کی گئی ۔ جمعہ کے دن غسل پسینے سے پیدا ہونے والی بدبو سے بچنے کے لیے مشروع کیا گیا، وغیرہ۔