’پارلیمنٹ اور پاکستان کو درپیش چیلنج‘ (اپریل ۲۰۱۰ئ) جماعت اسلامی، اُس کے سینیٹرز اور خصوصاً پروفیسر خورشیداحمد صاحب کی کارکردگی، امانت و دیانت سے فرائض کی بجاآوری، متعین وقت کے بھرپور استعمال اور عوام اور بالخصوص اسلام کی بہترین ترجمانی کا ایک عکس ہے۔ کیا خوب ہوتا اگر ایم ایم اے دور کے (۲۰۰۲ئ-۲۰۰۸ئ) دوران جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکان بھی اپنی کارکردگی کو انھی خطوط پر ضبط ِ تحریر میں لاتے تاکہ دوسری جماعتوں خصوصاً اتحادی جماعتوں کے ساتھ تقابل کیا جاسکتا۔
’فرقہ واریت، زہرقاتل‘ (اپریل ۲۰۱۲ئ) اتحادِ اُمت کے حوالے سے اہم تحریر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اتحاداُمت کے حوالے سے سب سے بڑی ذمہ داری خود وارثانِ منبرومحراب پر عاید ہوتی ہے کہ وہ ہرقسم کے اختلافات کو بالاے طاق رکھتے ہوئے قرآن و سنت کے پیغام کو عام کریں اور اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ اپنائیں۔
’تبدیلی کی سمت اور منزل - مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست‘ (مارچ ۲۰۱۲ئ) میں لکھا گیا ہے کہ ’’خلافتِ راشدہ کے دور میں اگر کوئی شخص بیت المال کی کوئی رقم غلط خر چ کرتا تھا تو اس پر سخت کارروائی کی جاتی تھی، اور حضرت عمرؓ نے تو حضرت خالدؓ بن ولید جیسے جرنیل تک کو ۱۰ہزار درہم غلط طور پر استعمال کرنے کے جرم میں معزول کردیا تھا ‘‘ (ص ۸)۔ میرے نزدیک یہ بات درست نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت خالدؓ نے جس وقت وہ رقم شاعر کو انعام دی تھی اُس وقت حضرت ابوعبیدہؓ امین الامت سپہ سالار تھے اور بیت المال اُن کی نگرانی میں تھا۔ پوری فوج کے سامنے جب حضرت خالدؓ سے اقرار کرایا گیا تھا تو انھوں نے بیت المال کے بجاے ذاتی جیب سے خرچ کرنے کا اعتراف کیا تھا جسے اسراف تو کہا جاسکتا ہے لیکن بیت المال کی رقم کا غلط خرچ نہیں کہا جاسکتا ۔ (الفاروق، شبلی نعمانی)
صوبہ پنجاب میں اُردو کے بطور ذریعۂ تعلیم پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ اس سال سے پورے صوبے کے پرائمری اور مڈل امتحان صرف انگریزی میڈیم کے تحت لیے گئے ہیں۔قومی اور مادری زبان میں تعلیم کی اہمیت سے ہم بخوبی آگاہ ہیں۔ اُردو ذریعۂ تعلیم پر پابندی کے نتیجے میں انگریزی میں حصولِ تعلیم میں دقّت کی وجہ سے بچے تعلیمی ادارے چھوڑ رہے ہیں۔ تعلیم مہنگی اور مشکل تر ہورہی ہے۔ اس کے نتیجے میں ہماری تہذیبی روایات کو نقصان پہنچنے کا بھی اندیشہ ہے۔ اس اہم مسئلے کی طرف توجہ دلانے اور ’اُردو ذریعۂ تعلیم‘ پر پابندی کے مضمرات سے آگاہی کے لیے ترجمان میں تجزیاتی مضمون کی اشاعت کی ضرورت ہے۔ اس سے قبل تعلیم سے متعلق ہر اہم مسئلے پر مضامین آتے رہے ہیں۔
قارئین کی آرا کسی بھی مجلے کے لیے اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ اسی اہمیت کی بنا پر انھیں رسالے میں جگہ بھی دی جاتی ہے۔ ترجمان میں ’مدیر کے نام‘ سے کالم اگرچہ اس غرض کے لیے مختص ہے لیکن اس کے لیے صفحات کم ہیں۔ ان میں اضافے کی ضرورت ہے۔ اُردو میگزینوں میں ترجمان کی ویب سائٹ بھی ایک اچھی ویب سائٹ کے طور پر جانی جاتی ہے۔