عینی شاہد بیان نہ کرتے، تصاویر او رویڈیو نہ دکھا دیتے تو یقین نہ آتا۔ آپ خود ہی دیکھ کر بتادیجیے کہ کیا اشرف المخلوقات ایسا کرسکتا ہے؟ یہ کپڑے پر بنی بشار الاسد کی جہازی سائز کی ایک تصویر ہے ، جسے بیچ میدان کے زمین پر بچھا دیا گیا ہے، اس کے چاروں کناروں پر اس کے درجنوں حامی اور فوجی اس تصویر کے سامنے سجدے میں پڑے ہیں اور درو دیوار پر لکھا ہے:لا الٰہ الا بشار۔ ایک اور منظر میں گھنی داڑھی والے ایک باریش نوجوان پر تشدد کیا جارہا ہے۔ لاٹھیوں، ٹھوکروں اور تھپڑوں کی بارش ہورہی ہے اور ایک سورما، زمین پر گرے اس نوجوان کی گردن پر اس طرح پاؤںجمائے کھڑا ہے کہ سنت نبوی مکمل طور پر جوتے کے نیچے روندی جارہی ہے، اس عالم میں نوجوان کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ کہے: بالروح بالدم نفدیک یا بشار،’’میرا جسم و جان تم پر فدا یا بشار‘‘۔ اس طرف دیکھیں یہ ایک طویل قطار ہے۔ یہ صرف بچوں کی لاشوں کی قطارہے اور ان سب کو گولیاں مار کر نہیں، باقاعدہ گردنیں کاٹ کر ذبح کیا گیا ہے۔ اور یہ دیکھیں یہ ایک لمبی کھائی ہے، لیکن یہ کھائی نہیں ایک اجتماعی قبر ہے، جس میں درجنوں لاشیں دفن کی جارہی ہیں___ آخر کون کون سا منظر دیکھیں گے، نہ دیکھنے کا یارا ہے اور نہ بیان کرنے کا حوصلہ!
یہ کوئی ایک آدھ دن کی بات نہیں، ۱۵ مارچ ۲۰۱۱ئسے لے کر آج تک گزرنے والا ہر لمحہ، مسلمان شامی عوام کے لیے قیامت کا لمحہ ہے۔ گھر، مسجدیں، بازار اور انسان، اور تواور باغات، مویشی، کھیت اور کھلیان کچھ بھی اور کہیں بھی محفوظ نہیں ہے۔ لیکن ۴۹ برس کی ڈکٹیٹر شپ کے بعد یہ پہلا موقع آیا ہے کہ قتل و غارت کے نتیجے میں لوگ خوف زدہ ہوکر نہیں بیٹھ گئے۔ پہلی بار عوام نے خوف کی فصیلوں کو ریزہ ریزہ کردیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر اب ان تمام قربانیوں کو رائیگاں جانے دیا گیا، تو پھروہ کبھی ایک آزاد شہری کی حیثیت سے سانس نہ لے سکیں گے۔
شام کے موجودہ حالات کا جائزہ لینے سے پہلے آئیے ذرا گذشتہ صدی کا سرسری جائزہ لیں۔ ۹مئی ۱۹۱۶ء کو ہونے والے سایکس پیکو معاہدے کے تحت پورے مشرق وسطیٰ کو ٹکڑیوں میں بانٹ دیا گیا۔ ۳۰ستمبر ۱۹۱۸ء کو آخری عثمانی افواج بھی شام سے نکل گئیں۔ فرانس قابض ہوگیا۔ اپریل ۱۹۴۶ء میں فرانسیسی استعمار سے بھی نجات مل گئی۔ اپریل ۱۹۴۷ء میں وہاں بعث پارٹی کی باقاعدہ تاسیس عمل میں آئی۔ اسی سال ملک میں انتخابات ہوئے تو بعث پارٹی کے بانی میشل عفلق اور صلاح بیطار جیسے اس کے تمام لیڈر ناکام ہوگئے۔
۳۰مارچ ۱۹۴۹ء کو حسنی الزعیم کی سربراہی میں فوجی انقلاب آگیا، پورے عالم عرب میں یہ پہلا انقلاب تھا۔ پھر ایک کے بعد دوسرا سفاک خود کو قوم کا محبوب ترین لیڈر ثابت کرنے پر تلا رہا۔ حسنی الزعیم کو ہی دیکھ لیجیے۔اگست ۱۹۴۹ء میں ۹۹ئ۹۹ فی صد ووٹ حاصل کرلینے والے بزعم خود ’ہر دل عزیز‘ لیڈر کا اگلے ہی مہینے نہ صرف تختہ اُلٹ گیا، بلکہ اسے پھانسی پر لٹکادیا گیا۔ ۱۵نومبر ۴۹ء کو دوبارہ عام انتخابات ہوئے، حکمران پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کی۔ ان انتخابات کی خاص بات یہ ہے کہ ان میں الاخوان المسلمون کو چار نشستیں حاصل ہوئیں جن میں شام میں اخوان کے بانی مصطفی السباعی بھی شامل تھے، جب کہ بعث پارٹی کا صرف ایک رکن منتخب ہوا۔ اسی ایک سال کے اندر اندر دسمبر ۴۹ء میں وہاں تیسرا انقلاب آگیا۔
۱۹۵۲ء میں الاخوان المسلمون سمیت اکثر سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دے دیا گیا اور پھر مسلسل کئی انقلابات کے بعد ملک سے بعث پارٹی کے علاوہ باقی تمام جماعتوں اور مذاہب و ادیان کا ناطقہ بند کردیا گیا۔ ۱۹۶۳ء میں بعثی انقلاب نے اقتدار سنبھالا، حافظ الاسد اس کا اہم حصہ تھا۔ ۱۹۶۶ء میں اس نے مزید اختیارات کے لیے پارٹی قیادت کے خلاف بغاوت کردی، خود وزیردفاع بن بیٹھا، اور پھرنومبر ۱۹۷۰ء میں ایک اور انقلاب کے ذریعے مکمل اقتدار سنبھال لیا۔ وہ دن اور آج کا دن، اسد خاندان کا اصرار ہے کہ شامی عوام سانس بھی اس کی مرضی اور اجازت سے لیں۔
مکافات عمل ملاحظہ ہو کہ دو سال بعد حافظ الاسد بیمار ہوا تو اسی رفعت الاسد نے اپنی اسی سیکورٹی فورس کے ذریعے بھائی کا تختہ الٹنے کی کوشش کی جو ناکام رہی۔ رفعت کو فرار ہوکر یورپ میں پناہ لینا پڑی، اس کی خصوصی فوج ختم کردی گئی۔
اس خاندان کے دور جرائم کی تفصیل بہت طویل ہے۔ لیکن صرف ڈیڑھ دو سال کے عرصے میں ہونے والے درج بالا چند واقعات ۴۹ برس پر محیط درندگی کی ہلکی سی جھلک دکھا رہے ہیں۔ اس قتل عام کے علاوہ اسد خاندان کا اصل ہدف اور اولین ترجیح ملک میں بعث ازم کی جڑیں گہری کرنا تھی۔ یہ نظریہ عرب قومیت اور اشتراکیت کا ملغوبہ ہے۔ بعث ازم کو (نعوذ باللہ) اللہ اور اس کے رسولؐ سے بھی بالاتر درجہ دے دیا گیا تھا۔ حافظ الاسد کا ایک شاعر ہرزہ سرائی کرتا ہے:
آمَنْتُ بِالْبَعْثِ رَبًا لَا شَرِیْکَ لَہٗ
وَبِالْعُرُوبَۃِ دِیْنًا مَالَہٗ ثَانِی
(میں بعث ازم کے رب لا شریک ہونے، اور عرب ازم کے لاثانی دین ہونے پر ایمان لایا)۔ بعث پارٹی کا شعار ہے: أمۃ عربیۃ واحدۃ ذات رسالۃ خالدہ ،’’ ابدی پیغام رکھنے والی عرب اُمت واحدہ‘‘۔ پورے ملک کا نظام اسی بعثی مرکز و محور کے گرد گھومتا ہے۔ دستور کی دفعہ ۸ کے مطابق’’ بعث پارٹی ریاست اور معاشرے کی اکلوتی رہنما پارٹی ہے‘‘۔ کسی دوسرے کو پارٹی بنانے کی اجازت نہیں ۔ دستور کی دفعہ ۸۳ کے مطابق صدارتی انتخاب کا طریق کار یہ بتایا گیا ہے کہ ’’بعث پارٹی کے علاقائی ذمہ داران کسی ایک شخص کو صدارتی اُمیدوار نامزد کریں گے، پھر وہی صاحب خود عوامی ریفرنڈم منعقد کرواتے ہوئے منتخب صدر کہلائیں گے‘‘۔
جبر پر مبنی تدبیریں دوام دے سکتیں توفرعون کا اقتدار اور قارون کی دولت کبھی ختم نہ ہوتی۔ ظلم کا نظام بظاہربہت محکم لیکن حقیقتاً بہت بودا ہوتا ہے، بالآخر ظالم ہی کی گردن ناپتا ہے: وَ لَا یَحِیْقُ الْمَکْرُالسَّیِّیُٔ اِلَّا بِاَھْلِہٖ(الفاطر ۳۵:۴۳)،’’بُری چال بالآخر چلنے والے ہی کے گلے پڑتی ہے‘‘۔ زین العابدین، حسنی، قذافی اور علی عبداللہ صالح پر بھی یہی حقیقت صادق آئی۔گذشتہ ۱۴ماہ میں بشارحکومت نے بھی عوامی تحریک کچلنے کی بھرپور کوششیں کیں، لیکن تحریک ختم ہونے کے بجاے مضبوط سے مضبوط تر ہوئی۔ یہ ۱۹۸۲ء نہیں ہے کہ پورا شہر تہ تیغ کردیں اور ذرائع ابلاغ کو قریب تک نہ پھٹکنے دیں۔ ۲۰۱۲ء کی عوامی تحریک کا اصل ہتھیار کیمرا، موبائل فون اور انٹرنیٹ ہے۔ پل پل کی خبر سیٹلائٹ فون کے ذریعے دنیا کے سامنے آجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہادتوں کی تعداد ’صرف‘ جی ہاں صرف ۱۵ ہزار افراد سے زائد ہے۔ ذرائع ابلاغ نہ ہوتے تو اقتدار کی خاطر پوری قوم بھی موت کی نذر کرنا پڑتی، تو سفاک بعثی نظام دریغ نہ کرتا۔
شامی عوام کی اصل بدقسمتی یہ نہیں کہ ان پر ایک درندہ نظامِ حکومت مسلط ہے، ان کے بقول ان کی اصل محرومی یہ ہے کہ ان کے بھائیوں نے انھیں تنہا چھوڑ دیا ہے۔ الاخوان المسلمون کے سربراہ محمد ریاض شقفہ کے بقول انھوں نے پہلے دن سے اپنی تحریک کو پُرامن رکھنے پر زور دیا ہے۔ لاکھوں عوام کا ۹۵ فی صد غیر مسلح ہے اور عوامی طاقت کے ذریعے ہی تبدیلی لاناچاہتا ہے۔ سفاک حکمران روز اول سے طاقت استعمال کررہا ہے۔ اب ایک طرف ٹینک اور وحشیانہ بمباری ہے اور دوسری جانب خالی ہاتھ عوام۔ یہ درست ہے کہ بے تیغ عوام کو آتش و آہن شکست نہیں دے سکا، لیکن ا ب معاملات فیصلہ کن موڑ تک آن پہنچے ہیں۔ شامی فوج کی ایک بہت بڑی تعداد بشار کا ساتھ چھوڑ کر ’الجیش الحر‘ آزاد فوج کے نام سے منظم ہوچکی ہے، لیکن ان کی اکثریت بھی ہتھیاروں کے بغیر ہے۔ مسلم دنیا کسی عملی مدد سے عاجز ہے۔ رہا امریکا اور عالمی برادری تو اس کے بیانات اور اجلاس تو بہت ہیں لیکن اس کے اہداف کی فہرست میں کہیں یہ بات نہیں ہے کہ عوام کو بچانا اور ان کی مدد کرنا ہے۔ اسرائیل کا پڑوسی ہونے کی وجہ سے ان کا اصل ہدف یہ ہے کہ بشار کے بعد بھی وہاں اپنی گرفت کیسے مضبوط کی جائے۔ ان کی حکمت عملی یہ ہے کہ قتل عام کو طول ملے یہاں تک کہ بشار کے بجاے بذات خود شیطان بھی آجائے تو شامی عوام اسے قبول کرلیں۔ ایک کے بعد دوسرے اجلاس اور مسلسل وفود ارسال کرنے کا نتیجہ مزید خوں ریزی کی صورت میں ہی نکل رہاہے۔ لاکھوں ڈالر کے خرچ اور ابلاغی طوفان کے بعد سیکورٹی کونسل نے ۲۱؍اپریل کو ۳۰۰ غیر مسلح فوجی مبصرین بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ نگران تین مہینے تک اس امر کا جائزہ لیں گے کہ بشار انتظامیہ نے عوام کو کچلنے کے لیے کہیں بھاری اسلحہ تو استعمال نہیں کیا۔ گویا مزید تین مہینے تک تباہ و برباد کرنے کا لائسنس دے دیا گیا۔ اقوام متحدہ کے اسی طرح کے نگران ۱۹۴۸ء سے کشمیری عوام کے ’تحفظ‘ کا فریضہ بھی سر انجام دے رہے ہیں۔
شامی عوام کی تباہی پر سب سے زیادہ مسرت صہیونی ریاست کو ہے۔ اس کا واضح اندازہ ۲۲؍ اپریل کے صہیونی روزنامہ یدیعوت احرونوت سے ہوتاہے ۔ وہ اپنے ادارتی نوٹ میںلکھتا ہے کہ شام میں کوئی خانہ جنگی نہیں، ایک دینی جنگ ہے۔ اس کے بقول ۱۳۰۰ سال پرانا شیعہ سنی جھگڑا جو عثمانی خلافت کی کئی صدیوںتک دبا رہا ،اب دوبارہ زندہ ہوگیا ہے۔ ایک فریق مشرق وسطیٰ کو شیعہ بنانا چاہتا ہے اور دوسرا ۸۵ فی صداہل سنت کو ان کا فطری مقام دلوانا چاہتا ہے۔ اس تمہید کے بعد اخبار یہ نتیجہ نکالتا ہے: ’’اب ہمارے لیے یہ بات سمجھنا آسان ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ۱۰۰سال سے کم عرصے پر محیط جھگڑا، ساتویں صدی عیسوی سے جاری شیعہ سنی جھگڑے کی نسبت کس قدر ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ گویا اب ہمارے سامنے صرف شام کاکوئی اندرونی نزاع نہیں، جیسا کہ بعض اسرائیلی سمجھتے ہیں بلکہ مشرق وسطیٰ کا ایک بڑا دینی انتشار ہے۔ اس تنازعے کا اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں اور یہی سب سے اچھی بات ہے‘‘۔
اسد خاندان غلو کی حد کو پہنچے ہوئے علوی فرقے سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ کسی دینی نہیں بلکہ شخصی بتوں پر قائم بعثی ریاست کا بانی خاندان ہے۔ لیکن حالیہ تحریک میں ایران کی طرف سے بشارانتظامیہ کی ہمہ پہلو امداد نے پورے مسئلے کوفرقہ وارانہ رنگ دینے والوں کا کام آسان کردیا ہے۔ بشار اور اس کا باپ شاہِ ایران سے بد تر ڈکٹیٹر ہیں ۔ ایران کو اس کا ساتھ دینے کے بجاے مظلوم عوام کا ساتھ دینا چاہیے۔ خود ایران کے کئی اعلیٰ سطحی ذمہ داران بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیںلیکن بدقسمتی سے اس وقت عملاً بشار انتظامیہ کا سب سے بڑا مددگار ایران ہے اور اس کے بعد روس اور چین۔ یہ دونوں ملک اپنے اپنے اندرونی حالات کے تناظر میں عوامی تحریکات کا ساتھ نہیں دے رہے۔ تیونس اور مصر میں بھی ان کی پالیسی یہی تھی۔ لیکن کوئی صہیونی اور امریکی تجزیہ نگار روس اور چین کی مدد کے باعث شام کی تحریک کو، کمیونزم یا سوشلزم کے خلاف تحریک نہیں کہہ رہا، کیونکہ وہ شیعہ سنی آگ بھڑکانا چاہتے ہیں۔ یہ طوفان اب عراق اور خلیج تک محدود نہیں رہا، شام اور پاکستان سمیت کئی ملکوں میں اسی جلتی پر تیل چھڑکا جارہا ہے۔ اس طوفان کو اسی صورت روکا جاسکتا ہے کہ اُمت کی توجہ اصل مسائل پر مرکوز رہے۔ اصل مسئلہ ظلم کا خاتمہ ، ڈکٹیٹر شپ سے نجات اور عوام کو ان کے حقوق دینا ہے۔ یہ قرآنی فیصلہ سب کے سامنے رہنا چاہیے کہ وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَیَّ مُنقَلَبٍ یَّنقَلِبُوْنَ o(الشعراء ۲۶:۲۲۷)’’اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں‘‘۔