سوال: الحمدللہ میں ایک دین دار گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں۔ میری پانچ بچیاں ہیں۔ جب پہلی بچی ہوئی تو سسرال میں خوب خوشیاں منائی گئیں، دوسری اور تیسری بچی کی ولادت کے موقع پر بھی خوشی کااظہار کیاگیا ،لیکن کم کم، پھر جب چوتھی بچی ہوئی تو سسرال کے لوگوں کا انداز بدلنے لگا۔ کسی نے کھلے الفاظ میں کچھ کہا تو نہیں، لیکن دبی زبان میں اس خواہش کااظہار ہونے لگا کہ اب لڑکا چاہیے لیکن اللہ تعالیٰ نے پھرلڑکی دے دی۔ اب میرے ساتھ اس طرح برتاؤ کیاجانے لگا، گویا لڑکیوں کی پیدایش کی میں ہی قصوروار ہوں۔ اس طرح کے مشورے بھی کانوں میںپڑنے لگے کہ اگر لڑکا چاہیے تو میرے شوہر کو دوسری شادی کرلینی چاہیے۔ بہ راہِ کرم میری راہ نمائی فرمائیں۔
جواب:اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں جن نعمتوں سے نوازا ہے ان میں سے ایک نعمت اولاد ہے۔ اولاد انسان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہے۔ انھیں پاکر وہ خوشی محسوس کرتا ہے، ان کے دم سے اس کی زندگی کی رنگینیاں قائم رہتی ہیں۔ ان کی کفالت کے لیے معاشی جدوجہد کرنا اس پر بار نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ وہ بعض انسانوں کو اولاد عطا کرتا ہے اور بعض کو کسی مصلحت یا آزمایش کے مقصد سے اس سے محروم رکھتا ہے۔ پھر جن کو اولاد عطا کرتا ہے ان میں سے بعض کو لڑکے اور لڑکیاں دونوں دیتا ہے، بعض کو صرف لڑکے اور بعض کو صرف لڑکیاں۔ کوئی مرد صاحب ِاولاد ہوگا یا نہیں،کوئی عورت بچہ جنے گی یا بانجھ ہوگی، کسی کے یہاں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہوں گی یا صرف لڑکے یا صرف لڑکیاں ، کسی کے صرف ایک اولاد ہوگی، وہ بھی لڑکا یا لڑکی ، یہ سب اللہ تعالیٰ کی طے کی ہوئی تقدیر پر منحصر ہے۔ اس میں کسی مرد یا عورت کی خواہش یا کوشش کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ سورئہ شوریٰ میں اس بات کو قطعی اور دو ٹوک الفاظ میں بیان کیاگیا ہے:
لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَخْلُقُ مَا یَشَآئُ یَہَبُ لِمَنْ یَّشَآئُ اِِنَاثًا وَّیَہَبُ لِمَنْ یَّشَآئُ الذُّکُوْرَ o اَوْ یُزَوِّجُھُمْ ذُکْرَانًا وَّاِِنَاثًا وَیَجْعَلُ مَنْ یَّشَآئُ عَقِیْمًا اِِنَّہٗ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ o (الشورٰی۴۲: ۴۹-۵۰) اللہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا مالک ہے جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے، جسے چاہتاہے لڑکے دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں ملا جلا کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کردیتا ہے۔ وہ سب کچھ جانتا اور ہر چیز پر قادر ہے۔
بعض معاشروں میں لڑکیوں کو لڑکوں سے کم تر حیثیت دی جاتی ہے۔ اسی بنا پر ان کی پیدایش پر نہ صرف یہ کہ خوشی کااظہار نہیں کیا جاتا، بلکہ انھیں بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ زمانہ نزول قرآن میں عرب کے بعض قبیلوں کا یہی حال تھا۔ ان کے یہاں لڑکی پیدا ہوتی تو وہ بڑی خفت محسوس کرتے اور ان میں سے بعض اسے زندہ زمین میں گاڑ دیتے تھے۔ قرآن نے اس کانقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے:
وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُھُمْ بِالْاُنْثٰی ظَلَّ وَجْھُہٗ مُسْوَدًّا وَّ ھُوَ کَظِیْمٌ o یَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓئِ مَا بُشِّرَ بِہٖ اَیُمْسِکُہٗ عَلٰی ھُوْنٍ اَمْ یَدُسُّہٗ فِی التُّرَابِ o (النحل ۱۶:۵۸-۵۹) جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خوش خبری دی جاتی ہے تو اس کے چہرے پر کَلَونس چھا جاتی ہے اور وہ بس خون کا سا گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے۔ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کہ اس بُری خبر کے بعد کیا کسی کو منہ دکھائے۔ سوچتا ہے کہ ذلّت کے ساتھ بیٹی کو لیے رہے یامٹی میں دبادے؟
لڑکیوں کے معاملے میں عہد جاہلیت کے بعض قبیلوں کی جو سوچ تھی، موجودہ دَور کے بہت سے معاشروں کی سوچ اس سے مختلف نہیں ہے۔ ان کے یہاں لڑکی کو بوجھ سمجھا جاتا ہے، اسی بنا پر اس کی پیدایش کی خبر سن کر پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے۔ نکاح کے مسائل اور اس کے ہوش ربا مصارف، جہیز کی فراہمی کے لیے مطلوبہ خطیر رقم وغیرہ کے بارے میں سوچ کر آدمی کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے یہاں لڑکی پیدا ہی نہ ہو۔لڑکی پیداہونے پر قدیم زمانے میں اسے زندہ درگور کرکے اس سے پیچھا چھڑا لیا جاتا تھا۔ جدید جاہلیت نے اس کام کے لیے نئی نئی تکنیکیں دریافت کرلی ہیں، جن کی مدد سے دورانِ حمل میں ہی جنین کی جنس معلوم کرلی جاتی ہے اور لڑکی ہونے کی صورت میں ولادت کی نوبت ہی نہیں آنے دی جاتی، پہلے ہی اسقاط (abortion)کروادیا جاتا ہے۔ لڑکیوں کو لڑکوں سے کم تر سمجھنے کی سوچ، افسوس ہے کہ مسلمانوں میں بھی سرایت کررہی ہے۔کسی خاندان میں کئی لڑکیاں پیدا ہوجائیں تو عموماً اس کا ذمہ دار عورت کو سمجھا جاتا ہے۔ یہ تصور کرلیا جاتا ہے کہ یہ عورت صرف لڑکیاں جننے والی ہے۔ اسی بنا پر اس طرح کا مشورہ دیا جاتا ہے کہ اگر لڑکا چاہیے تو مرد کو دوسری شادی کرلینی چاہیے، تبھی لڑکا پیدا ہوسکتا ہے۔ حالانکہ لڑکاپیدا ہونے میں نہ مرد کااختیار ہوتا ہے نہ عورت کا اور لڑکی پیداہونے میں عورت کا، کوئی قصور نہیں ہے۔ اسی طرح یہ بھی ایک خام تصور ہے کہ موروثی طور پر کوئی عورت صرف لڑکیاں پیدا کرنے والی ہوتی ہے اور کسی عورت سے لڑکے زیادہ پیدا ہوسکتے ہیں۔ اوپر قرآن کریم کی صراحت گزری کہ کسی کے لڑکا یا لڑکی پیدا ہونا محض اللہ تعالیٰ کی قدرت، توفیق اور تقدیر پر منحصر ہوتاہے۔اس سلسلے میں جدید میڈیکل سائنس سے جو معلومات حاصل ہوئی ہیں وہ بہت سوں کے لیے حیرت واستعجاب کا باعث ہوں گی۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑکا یا لڑکی پیداہونے میں اصل کردار عورت کا نہیں، بلکہ مرد کا ہوتا ہے۔
جسم انسانی کے تولیدی خلیّات (reproductive cells) میں ایک جوہر پایا جاتا ہے، جسے کروموسوم (chromosome) کہتے ہیں۔ ان میں تمام موروثی خصوصیات موجود ہوتی ہیں۔ حتیٰ کہ انھی کے ذریعے بالوں کے رنگ، آنکھوں کے رنگ اور جنس کا تعیین ہوتا ہے۔ تولیدی خلیے میں کرو موسوم کے جوڑے پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک جوڑا جنس (sex)کے تعیین کے لیے مخصوص ہوتاہے۔اسے sex chromosomeکہاجاتا ہے۔ یہ جوڑا دو طرح کے کروموسوم پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک کو X کروموسوم اور دوسرے کو Yکروموسوم کہتے ہیں۔
عورت کے بیضہ (ovum) میں سیکس کروموسوم کاجوجوڑا پایا جاتا ہے اس کے دونوں کروموسوم Xنوعیت کے ہوتے ہیں۔ اسی بنا پر انھیں homogameticکہا جاتا ہے، جب کہ مرد کے نطفے (sperm) میں پایاجانے والا سیکس کروموسوم کا جوڑا دو الگ الگ نوعیت کے (X اورY) کروموسوم پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسی بنا پر انھیں Hetrogameticکہا جاتا ہے۔
استقرار حمل (fertilization) کے وقت عورت کے بیضے سے ایک کروموسوم نکلتا ہے، اسی طرح مرد کے نطفے سے ایک کروموسوم نکلتا ہے اور دونوں کے اتصال سے استقرار کا عمل انجام پاتا ہے۔ عورت کے بیضہ سے نکلنے والا کروموسوم ہر حال میں Xہوتا ہے، جب کہ اس سے ملنے والا نطفہ مرد کا کروموسومXبھی ہوسکتا ہے اور Yبھی۔ اگر عورت کے Xکروموسوم سے مرد کا Xکروموسوم ملتا ہے تو اس صورت میں لڑکی پیداہوتی ہے۔ اور اگر اس سے مرد کا Yکروموسوم ملتا ہے تو لڑکا پیدا ہوتا ہے۔ اب عورت کے Xکروموسوم سے مرد کا (XاورY میں سے)کون سا کروموسوم ملے؟ اس میں انسانی کوشش کا کچھ بھی دخل نہیں ہوتا، یہ محض تقدیر الٰہی پر منحصر ہوتا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ جو کروموسوم جنین(foetus) کی جنس متعین کرتا ہے اور جس سے طے ہوتا ہے کہ آیندہ پیداہونے والا بچہ لڑکا ہوگا یا لڑکی، وہ مرد سے حاصل ہوتا ہے ،نہ کہ عورت سے۔
قرآن کریم نے اس سلسلے میں جو لطیف تعبیر اختیار کی ہے اس سے مذکورہ بالا سائنسی بیان کی تصدیق ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: نِسَآؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ (البقرہ۲:۲۲۳) ’’تمھاری عورتیں تمھاری کھیتی ہیں‘‘۔کھیتی کا کام یہ ہوتاہے کہ اس میں جو بیج ڈالاجائے اسے پروان چڑھائے اور اس کی اچھی پیداوار کرے۔ اگر کسی کھیت میں گیہوں کے بیج ڈالے جائیں گے تو اس سے گیہوں ہی پیدا ہوگا۔ اگر اس میں چنا یا جوار کے بیج ڈالے جائیں گے تو چنایاجوار ہی اُگے گا۔ یہ ناممکن ہے کہ بیج تو چنا یا جوار کا ڈالا جائے اور امید گیہوں اُگنے کی رکھی جائے اور جب گیہوں نہ اُگے تو کھیت کو قصور وار قرار دیا جائے۔مفسرین کرام نے آیت مذکورہ کی تفسیر میں یہی بات کہی ہے۔
علامہ زمخشریؒ (م:۵۳۸ھ) فرماتے ہیں:’’یہ مجاز ہے۔ اس آیت میں عورتوں کو کھیت سے تشبیہ دی گئی ہے اور ان کے رحم میں ڈالے جانے والے نطفے کو، جس سے نسل انسانی کا سلسلہ چلتا ہے، بیج کے مشابے قرار دیاگیا ہے‘‘ (الکشاف، ص ۴۳۴) ۔ امام فخر الدین رازیؒ (م:۶۰۶ھ) نے لکھا ہے:’’اس آیت میں عورتوں کوکھیتی بہ طور تشبیہ کہا گیا ہے ۔ گویا عورت زمین کے مثل ہے جس میں کاشت کی جاتی ہے، نطفہ بیج کے مثل ہے اور پیدا ہونے والا بچہ پیداوار کے مثل ہے‘‘(التفسیر الکبیر، ج۶،ص ۷۵)۔ یہی تشریح بعض دیگر مفسرین ، مثلاً علامہ قرطبی (م:۶۷۱ھ) اور علامہ ابوحیان (م:۷۴۵ھ) نے بھی کی ہے۔ (ملاحظہ کیجئے: الجامع لاحکام القرآن للقرطبی، ج ۴، ص ۷، البحر المحیط لابی حیان الاندلسی، ج۲،ص ۱۸۱)
علامہ راغب اصفہانی (م: ۵۰۲ھ) نے اس موقع پر ایک نکتے کی بات کہی ہے: کھیتی کے لیے عربی زبان میں دو الفاظ مستعمل ہیں: ایک حرث اور دوسرا زرع۔ دونوں الگ الگ معنوں میں مستعمل ہیں۔ حرث کہتے ہیں زمین میں بیچ ڈالنے اور اسے کاشت کے لیے تیار کرنے کو۔ اور زرع کہتے ہیں زمین سے جو کچھ اُگے اس کی دیکھ بھال کرنے کو۔ سورۂ واقعہ کی آیات ۶۳-۶۴ میں یہ دونوں الفاظ الگ الگ معنوں میں آئے ہیں۔ یہاں سورۂ بقرہ کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے زرع کا لفظ نہیں، بلکہ حرث کا لفظ استعمال کیا ہے۔ گویا عورتیں کھیتی کے مثل ہیں، جس میں مرد بیج ڈالتے اور پیداوار چاہتے ہیں۔ (تفسیر الراغب الاصفہانی، ج ۱،ص ۴۵۸)
لڑکیوں کا وجود ان کے والدین کے لیے باعث خیر وبرکت ہوتا ہے۔ اس دُنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ وہ زمانہ گیا جب تعلیم کو صرف لڑکوں کا حق سمجھا جاتا تھا اور لڑکیوں کو اس سے محروم رکھا جاتا تھا۔ یہ خیال کیاجاتا تھا کہ لڑکے بڑے ہوں گے تو کماکر لائیں گے اور لڑکیاں بڑی ہوں گی تو خود ان پر خرچ کرنا پڑے گا۔ اب لڑکیاں تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ رہی ہیں تو وہ دُنیاوی اعتبار سے اپنے والدین کے لیے بسااوقات لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ فائدہ مند ثابت ہورہی ہیں۔ جہاں تک آخرت کا معاملہ ہے، لڑکیوں کی پرورش وپرداخت پر ان کے والدین کوجنت کی بشارت دی گئی ہے، جب کہ لڑکوں کی پرورش پر ایسی کوئی بشارت نہیں ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے دو لڑکیوں کی ان کے بالغ ہونے تک کفالت کی وہ روزِ قیامت مجھ سے اتنا قریب ہوگا۔ یہ فرماتے ہوتے آپؐنے اپنی دو انگلیاں ملائیں‘‘(مسلم: ۲۶۳۱) ۔ حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: ’’جس شخص کی دو لڑکیاں ہوں اور وہ جب تک اس کے پاس رہیں وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرتا رہے تو وہ اس کے جنت میں داخلے کا ذریعہ بنیں گی‘‘۔(ابن ماجہ:۳۶۷۰)
اللہ نے جن لوگوں کو صرف لڑکیوں سے نوازا ہو اور وہ لڑکوں کے بھی خواہش مند ہوں، انھیں اپنی بیویوں کو قصور وار ٹھیرانے کے بجاے اللہ سے دُعا کرنی چاہیے کہ وہی حقیقی عطا کرنے والا ہے۔اولاد یا لڑکے یا لڑکیاں عطا کرنا اسی کے اختیار میں ہے۔ (ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی)
ڈاکٹر محمد عمر چھاپرا اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ اور اسلامک ڈویلپمنٹ بنک، جدہ کے سینیر ایڈوائزر ہیں۔ ان سے کسی مجلس میں سوال کیا گیا کہ اپنے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں علمی و تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے کچھ ضروری مشورے دیں۔ افادۂ عام کے لیے یہاں پیش ہیں۔ (ادارہ)
پہلی چیز جو ہماری نگاہ میں رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا o اِنَّ مَعَ العُسْرِ یُسْرًا o (الم نشرح ۹۴: ۵-۶)’’پس حقیقت یہ ہے کہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔ بے شک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے‘‘۔ تنگی یا مشکل سے مراد ہے محنت، کیونکہ محنت کرنا ایک مشکل کام ہے۔ اگر آدمی محنت کرتا ہے تو اس کے بعد اس کا پھل ملتا ہے۔ اس کے بغیر زندگی میں کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے محنت کو اپنی عادت بنائیں، مثلاً اگر عربی نہیں آتی تو اسے سیکھنے کی کوشش کریں۔ اس کے لیے ضروری نہیں ہے کہ کسی ادارے میں جا کر ہی سیکھی جائے، گھر میں بیٹھ کر بھی سیکھی جاسکتی ہے۔ عربی سیکھنا تو ویسے بھی بہت ہی ضروری ہے کیونکہ جب تک آپ عربی نہیں جانیں گے تو قرآن کی مٹھاس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکیں گے۔ ترجمہ پڑھنا تو ایسا ہی ہے کہ آپ کے پاس شہد آیا اور کسی نے اُس کی شیرینی نکال دی اور باقی آپ کو دے دیا۔ عربی سیکھنا کچھ زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔کتاب عربی کا معلّم جو کہ چار جلدوں پر مشتمل ہے، اس کام کے لیے انتہائی موزوں ہے۔ آج کل تو عربی سیکھنے کے جدید طریقے سامنے آگئے ہیں جن سے عربی سیکھنا اور بھی آسان ہوگیا ہے۔ قرآن و حدیث کو عربی میں سمجھے بغیر کام نہیں چل سکتا۔ عام آدمی کے لیے تو یہ نہیں کہا جاسکتا لیکن جو لوگ اسلامک اسٹڈیزمیں کام کر رہے ہیں،ان کے لیے عربی کے بغیر کوئی مفر نہیں ہے۔ اگر آپ عربی نہیں سیکھ رہے ہیں تو آپ اسلام کی اچھی طرح خدمت نہیں کرسکتے۔
جہاں تک تحقیق کا تعلق ہے تو اس کام میں محنت کے بغیر کچھ نہیں ہے۔ اگر آپ اس کے لیے تیار نہ ہوں اور گھنٹوں کے حساب سے ٹیلی ویژن پر وقت صرف کریں، تو زندگی میں کچھ حاصل نہیں ہوسکتا اور خصوصیت سے علمی کام تو ہو ہی نہیں سکتا۔ ٹیلی ویژن سے حاصل شدہ معلومات محض وقتی ہوتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں آپ کوئی کتاب پڑھتے ہیں تو وہ آپ کو یاد رہتی ہے۔ اگر کچھ پڑھا ہوا بھول گئے ہیں تو دوبارہ کتاب میں دیکھ سکتے ہیں۔ جتنا زیادہ مطالعہ کرسکیں، کیجیے۔ مطالعے کا بھی طریقہ یہ ہے کہ پڑھنے کے بعد نوٹس لیں۔ اگر لائبریری کی کتاب ہے تو اپنے کارڈ پر یا کسی اور جگہ نوٹس لے لیں ۔ اگر آپ کوئی مقالہ لکھ رہے ہیں تو اس کے نوٹس بنائیے۔ موضوع کی مناسبت سے پڑھیں اور نوٹس لیں۔ اس کے بعد اپنے خاکے(outline) کی مناسبت سے لکھیں۔ ہمارے ہاں بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ تحریر کے معاملے میں پہلی کوشش ہی کافی ہے اور اس سے زیادہ بہتر تو لکھا ہی نہیں جا سکتا۔ اگر تکبّر کا عنصر آجائے تو وہاں علم کا خاتمہ ہو جاتا ہے، کیونکہ تکبّر اور علم ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ اپنے لکھے ہوئے کوکئی مرتبہ دہرائیں۔ گیل وریتھ جو کہ ایک بہت بڑا مصنف ہے، اُس کا کہنا ہے کہ میںاپنی تحریر کو کئی مرتبہ دہرانے کے بعد مطمئن ہوتا ہوں۔ اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ اس کام میں بہت وقت اور محنت لگتی ہے لیکن اس کے بغیر کام بھی نہیں بنتا۔ لکھے ہوئے کو خود بھی دہرائیں اور دوسروں کو تبصرے کے لیے دیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ تبصرے کے لیے دیتے ہیں تو صرف تعریف کی اُمید رکھتے ہیں۔ اگر آپ نے ان پر کوئی تنقید کردی تو ان کا پارہ چڑھ جاتا ہے۔ یہ رویّہ ہوتو بہت زیادہ سیکھا نہیں جاسکتا۔ اس کے لیے بھی تیار ہونا چاہیے کہ اگر کوئی غلط قسم کی تنقید بھی کر دے تب بھی ناراض نہ ہوں۔ اچھی طرح غور کرکے دیکھیں کہ اس کی تنقید درست ہے یا نہیں۔ درست ہے تو اپنی تحریر کو بہتر بنائیں اور صحیح نہیں ہے تو اس کو چھوڑ دیں۔
کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اچھے رسالے کے لیے مقالہ لکھیں اور محنت سے لکھیں۔ اس کے بعد بھی اس چیز کے لیے تیار رہیں کہ مبصرین کے جو تبصرے آئیں گے اس کی مناسبت سے آپ اس میں بہتری لائیں گے۔ گویا سب سے پہلے محنت، بہت سا مطالعہ کرنا، اور خاص طور سے اگر کوئی مضمون لکھناہے تو اس سے متعلق چیزوں کا مطالعہ کرنا، نوٹس لینا، پھر مقالہ لکھنا، اس کو کئی بار دہرانا، لوگوں کو تبصرے کے لیے دینا، اور تبصروں کی مناسبت سے دہرانا ہے۔ پھر فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا کے مصداق آپ کو آپ کی محنت کا صِلہ مل جائے گا۔ آپ کو خوشی ہوگی جب آپ کا مقالہ کسی عمدہ رسالے میں چھپے گا، لوگ اس پر اچھے تبصرے کریں گے اور آپ کی عزت بڑھے گی۔ جو محنت کرنے اور تنقید سننے کے لیے تیار نہیں ہے وہ عالم نہیں بن سکتا۔ ایک تحقیقی ادارے سے وابستہ افراد کے لیے تو اور بھی ضروری ہے کہ وہ اپنا مطالعہ و سیع تر کریں۔ اگر ٹی وی دیکھتے ہیں تو اس کے دورانیے کو کم کریں اور وہ وقت مطالعے میں صرف کریں۔ شام کو گھر پر جا کر ضرور مطالعہ کریں۔ پڑھنے لکھنے والوں کے لیے تو فارغ وقت ہوتا ہی نہیں، انھیں سارا وقت محنت کرنی ہے۔ گھر جا کر بھی پڑھنا ہے، دفتر میں بھی مطالعہ کرنا ہے۔ چھٹی والے دن اور معمول کے دنوں میں بھی، فرق صرف یہ ہونا چاہیے کہ چھٹی کے دن آدمی گھر میں کام کرے اور اس کا دفتر آنے جانے کا وقت بچے۔ زندگی میں اپنے سامنے اسے نشانِ راہ کے طور پر رکھیں: ’’محنت کے بغیر کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا، اور محنت کے ذریعے سب کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے‘‘۔
باہر کے ممالک میں تحقیق کے لیے لوگ بہت زیادہ محنت کرتے ہیں جو ہمارے ہاں نہیں ہے۔یہاں لوگ محنت کرنے کو تیارنہیں ہیں۔ دوسرے ممالک میںلوگ اپنے مقالہ جات کو خود باربار پڑھتے ہیں، لوگوں کو بتاتے ہیں، تبصرے لیتے ہیں، لوگوں کے ساتھ اس پر تبادلۂ خیال کرتے ہیں اور اس دوران میںنوٹس لیتے رہتے ہیں۔ ان کی روشنی میں مقالے کو مزید بہتر کرتے ہیں۔ یہ ایک اسکالر کی صفات ہیں۔ بعض اوقات آپ کی تحریر پر بہت سخت قسم کی تنقید بھی ہو سکتی ہے لیکن تنقیدکرنے والے سے ناراض ہوکر کام نہیں چل سکتا۔
بعض اوقات دفتروں کے اندر بھی لوگ ٹانگ کھینچتے ہیں، اور سازشیں بھی کرتے ہیں۔ ان چیزوں سے گھبرانا نہیں چاہیے کیونکہ مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ جب تک اللہ نہ چاہے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، اور جب تک اللہ نہ چاہے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ قرآن میں کئی مقامات پر اس کی تعلیم دی گئی ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بظاہر آپ کے خلاف کسی نے سازش ہی کی ہو، لیکن بعد میں آپ کو پتا چلے کہ یہ تو آپ کے حق میں بہت بہتر ہوگیا ۔ وَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْج(البقرہ ۲:۲۱۶)،’’ممکن ہے تم ایک چیزکو ناپسند کرو اور وہ تمھارے حق میں اچھی ہو‘‘۔ خود میرے ساتھ بہت سے مواقع پر ایسا ہوا کہ شروع میں محسوس ہوا کہ جیسے یہ بہت بُرا ہوا لیکن بالآخر اس کا نتیجہ میرے حق میں ہی رہا۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ کو ترقی نہ ملے اور آپ اپنے افسر کو بُرا بھلا کہنے لگیں لیکن ترقی دینے والا آپ کا افسر بالا نہیں بلکہ اللہ کی ذات ہے۔ اگر اللہ نے چاہا تو آپ کی ترقی کو کوئی روک نہیں سکتا، اور اگر اللہ نے نہ چاہا تو کوئی ترقی دے نہیں سکتا۔ ہمارا یہ عقیدہ مضبوط ہو کہ جتنا ہمیں ملے گا، اللہ ہی کی ذات سے ملے گا، اور اسی کے سامنے آدمی دستِ طلب بھی دراز کرے، اوراُسی کی دی ہوئی تعلیمات پر عمل کرے تو زندگی میں ترقی ہی ترقی ہے۔