گفتگو کا موضوع عالمِ اسلام ہو یا اُمت ِمسلمہ، ایک بنیادی سوال یہ اُٹھایا جاتا ہے کہ ہم بات کس اُمت مسلمہ کی کر رہے ہیں اور کیا اس کا کوئی حقیقی وجود بھی پایا جاتا ہے یا یہ محض ایک نظری مسئلہ ہے؟ گو، گذشتہ چند ماہ میں پیش آنے والے واقعات نے نہ صرف اُمت مسلمہ کے وجود کے عینی شواہد فراہم کر دیے ہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اس بات کو بھی پایۂ ثبوت تک پہنچا دیا ہے کہ اُمت مسلمہ میں جان ہے، حرکت ہے، فعّالیت ہے اور وقت کے جباروں اور بیرونی قوتوں کے پروردہ حکمرانوں اور ان کے ظالمانہ نظام کو اُکھاڑ پھینکنے کی صلاحیت بھی پائی جاتی ہے۔ یہ اُمید کا دمکتا سورج بھی اگر بعض مایوس ذہنوں میں جو زندگی کا صرف تاریک پہلو دیکھنے کے عادی ہوں اُمید کی کرن روشن نہ کرسکے اور عوامی صحافت کے مایوس کن تبصروں کے زیراثر قنوطیت کے طلسم سے نہ نکال سکے، تو قصور روشنی کا نہیں ان کی اپنی فکرونگاہ ہی کا ہوسکتا ہے۔
اُمت مسلمہ وہ اُمت ہے جسے روزِ اول سے اس کے خالق و مالک نے توحید کے اصول کے پیش نظر دو حوالوں سے اپنے کلام عزیز میں بیان فرمایا ہے۔ اوّلاً: کل بنی نوع آدم کو حضرت آدم علیہ السلام کی ذُریت ہونے کی بنیاد پر اُمت واحدہ فرما کر اس عالم گیر اصول کی تشریح کر دی کہ تمام انسان اصلاً ایک خاندان سے ہیں۔ ان کے رنگوں کا اختلاف، زبانوں میں فرق کا پایا جانا، ان کے قد، غذا، لباس وغیرہ میں بظاہر تنوع پایا جانا ایک ظاہری معاملہ ہے۔ قرآنی عمرانیات اور علم الانسان میں نہ کسی گورے کو کسی کالے پر، نہ کسی امیر کو کسی غریب پر، نہ کسی نام نہاد اعلیٰ منصب والے کو کسی بظاہر کم حیثیت والے فرد پر کوئی فوقیت حاصل ہے۔ تمام انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں ، اس لیے تمام انسانیت ایک اُمت واحدہ ہے:
وَ مَا کَانَ النَّاسُ اِلَّآ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَاخْتَلَفُوْا ط (یونس ۱۰:۱۹) ابتدائً سارے انسان ایک ہی اُمت تھے، بعد میں انھوں نے مختلف عقیدے اور مسلک بنا لیے۔
یٰٓـاََیُّھَا النَّاسُ اِِنَّا خَلَقْنٰـکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْاط اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ ط اِِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ o (الحجرات ۴۹:۱۳) لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمھاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔
گویا اُمت ِمسلمہ نہ کسی زبان سے وابستہ لسانی گروہ ہے، جس کا غلط اعادہ اکثر مغربی تجزیوں میں بجاے اُمت مسلمہ کے ’عرب دنیا‘ کہہ کر کیا جاتا ہے۔ نہ یہ کوئی نسلی اُمت ہے کہ اسے عرب یا عجم کے کسی قبیلے سے منسوب کیا جائے، اور نہ یہ کوئی جغرافیائی اُمت ہے کہ اسے ایشیائی، افریقی یا وسط ایشیائی لوگ کہا جائے۔
قرآن کریم اس اُمت کو صرف اس کے اللہ کی بندگی اور حق و صداقت پر قائم ہوجانے کی بنا پر اس کے اخلاقی عمل کی بنیاد پر اُمت مسلمہ قرار دیتا ہے۔ اسی بنا پر یہ بات فرمائی گئی ہے کہ اس میں بڑائی کا معیار تقویٰ، پرہیزگاری، عملِ صالح اور عملِ خیر ہے۔ جو ان صفات میں دوسروں سے بڑھ کر ہوگا وہ اللہ کی نگاہ میں عزت کا مستحق ہوگا اور وہی اس دنیا میں اللہ کا زیادہ محبوب بندہ ہوگا۔
قرآن کریم نے اُمت مسلمہ کے اس صفاتی پہلو کے پیش نظر اُمت مسلمہ کی تعریف ہی یہ بیان کی ہے کہ یہ وہ اُمت ہے جو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے مقصد سے وجود میں لائی گئی ہے: کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ (اٰل عمران ۳:۱۱۰) ’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ اس سے قبل اسی سورۂ مبارکہ میں فرمایاگیا تھا: وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَo (اٰل عمران ۳:۱۰۴) ’’تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں، اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے‘‘۔
ان دونوں آیات پر اس تناظر میں غور کیا جائے کہ آغاز میں اُمت ِانسانی ایک تھی۔ ایک ماں باپ کی اولاد کا نظریۂ حیات، عقیدہ اور عمل مختلف نہیں ہوسکتا لیکن وقت کے گزرنے اور تعداد میں اضافہ ہونے اور فطری طور پر سیروسفر اور ضروریاتِ زندگی کی تلاش و حصول کے نتیجے میں دُوردراز علاقوں میں جاکر بس جانے کی بنا پر عقیدہ و عمل کے اختلاف صدیوں کے عمل کی بناپر وجود میں آگئے۔ انسانیت کو دوبارہ قریب لانے کے لیے یہ امر منطقی ہے کہ اسے پھر اپنے خالقِ حقیقی کی طرف بلایا جائے اور اس کی بندگی کی دعوت دے کر دلوں کو جوڑا جائے۔ اس غرض کے لیے اللہ تعالیٰ نے اُمت مسلمہ کا مقصدِ وجود ہی یہ بیان فرمایا کہ یہ وہ اُمت ہے جو بھلائی، خیر، معروف اور حق کی طرف بلاتی ہے اور برائی، ظلم، ناانصافی اور جہالت کو دُور کرنے اور مٹانے کے لیے اپنے تمام وسائل کا استعمال کرتی ہے۔ گویا قرآن کریم نے اُمت مسلمہ کی تعریف بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے مقصد کو بھی واضح طور پر بیان فرما دیا کہ اس کا مقصد محض اقتدار، محض دولت، محض تسلط نہیں ہے بلکہ معروف اور حق کا پھیلانا اور برائی کا مٹانا ہے۔ یہ ایک مشن رکھنے والی اُمت ہے، اور اگر اسے وسائلِ حیات پر قدرت اور حکومت و اقتدار کے حصول کی دعوت دی گئی ہے تو وہ بھی اس مقصد کے حصول کے لیے طریقہ اور تدبیر کی حیثیت سے ہے۔
اس اصولی وضاحت کے بعد قرآن کریم اُمت مسلمہ کے نصب العین کے حوالے سے واضح رہنمائی کرتا ہے اور اسے ایک متحرک، بااصول اور بامقصد افراد کی جماعت قرار دیتے ہوئے نیکی کے قیام، حق و صداقت، عدل و اخوت کے نظام، اللہ رب العزت کی حاکمیت کے قیام یا دوسرے الفاظ میں اقامت دین کو اُمت مسلمہ کا نصب العین قرار دیتا ہے۔
قرآن کریم کا یہ امتیاز ہے کہ وہ ایک اصطلاح یا ایک مختصر جملے میں علم و عرفان کے ایک ذخیرے کو بیان کردیتا ہے۔ چنانچہ جب وہ یہ کہتا ہے کہ اقامت دین کی جائے تو ان دو الفاظ میں ایک انقلابی منشور فراہم کردیتا ہے جس کا شعور حاصل کرنا اور جسے عملاً اللہ کی زمین پر عملاً نافذ کرنا اُمت مسلمہ کا نصب العین اور ہدف قرار پاتا ہے۔
قرآن کریم اس نصب العین کو مسلمان کے بنیادی عقیدے سے وابستہ کرتا ہے اور اللہ پر ایمان کا پہلا تقاضا قرار دیتا ہے۔ ایک فرد جب شعوری طور پر اِس بات کا اعلان کرتا ہے کہ اس نے اردگرد کے بے شمار خدائوں کو چھوڑ کر، ان سے اپنے آپ کو کاٹ کر صرف اور صرف خالق کائنات کی بندگی میں دے دیا ہے، تو پھر یہ اقرارِ عظمت و حاکمیت اُس کے دل و دماغ کی دنیا تک محدود نہیں رہتا۔ پھر اس کا کھانا پینا اوڑھنا بچھونا، آرام کرنا اور سعی و عمل، دوستیاں اور دشمنیاں، پسند و ناپسند، غرض ذاتی معاملات ہوں یا معاشی اور معاشرتی، یا سیاسی اور بین الاقوامی، ہرہرمعاملے کا فیصلہ کرتے وقت یہ دیکھنا ہوگا کہ ایسا کرنے سے رب کریم، حاکم ارض و سما ناراض ہوگا یا خوش۔ وہ شعوری طور پر پکار اُٹھے: قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo لَا شَرِیْکَ لَـہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَo (الانعام ۶: ۱۶۲-۱۶۳) ’’کہو، میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے، جس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا اور سب سے پہلے سرِاطاعت جھکانے والا مَیں ہوں۔
حدیث شریف میں ایک شخص کے ایمان لانے کو اُس کے عمل سے وابستہ کرتے ہوئے یوں فرمایا گیا ہے کہ: ’’جس نے اللہ کے لیے دوستی کی اور اللہ کے لیے دشمنی کی اور اللہ کے لیے دیا اور اللہ کے لیے روک رکھا، اس نے اپنے ایمان کی تکمیل کرلی‘‘(عن ابوامامہ، بخاری)۔ گویا ایک شخص کا قول و عمل ہی نہیں بلکہ اس کی پسند و ناپسند کا اللہ تعالیٰ کی خوشی کاتابع ہو جانا ہی اس کے عبد اور بندے ہونے کا ثبوت ہے، ورنہ وہ مسلمانوں جیسے نام کے باوجود اپنے رب کا باغی ہی رہتا ہے۔
خاندان پر اس جواب دہی اور مسئولیت کو ایک حدیث صحیح میں یوں بیان فرمایا گیا ہے: ’’تم میں سے ہرشخص محافظ و نگران ہے، اور اس سے ان لوگوں کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی جو اس کی نگرانی (مسئولیت) میں دیے گئے ہیں۔ پس امیر جو لوگوں کا نگران ہے، اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی اور مرد اپنے گھر والوں کی نگران ہے، پس اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی اور بیوی شوہر کے گھر اور اولاد کی نگران ہے، اور اس سے اولاد کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی (عن ابن عمر، بخاری، مسلم)۔ گویا انفرادی سطح پر اقامت دین کے ساتھ ساتھ اپنے گھر اور اہلِ خانہ کے حوالے سے دین کی ہدایات کا نفوذ اُمت مسلمہ کے ہر فرد کا نصب العین ہے۔
حدیث شریف نے اس اصلاحِ معاشرہ کے فریضے کو واضح الفاظ میں یوں سمجھایا ہے کہ ’’وہ شخص جو اللہ کے احکام کو توڑتا ہے اور وہ جو اللہ کے احکام کو توڑتے ہوئے دیکھتا ہے مگر اسے ٹوکتا نہیں، اس کے ساتھ رواداری برتتا ہے، ان دونوں کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کچھ لوگوں نے ایک کشتی لی اور قرعہ ڈالا۔ اس کشتی میں اُوپر نیچے مختلف درجے ہیں۔ چند آدمی اُوپر کے حصہ میں بیٹھے اور چندنچلے حصے میں۔ جو لوگ نچلے حصہ میں بیٹھے تھے وہ پانی کے لیے اُوپر والوں کے پاس سے گزرتے تاکہ دریا سے پانی بھریں تو اُوپر والوں کو اس سے تکلیف ہوتی۔ آخرکار نچلے حصے کے لوگوں نے کلھاڑی لی اور کشتی کے پیندے کو پھاڑنے لگے۔ اُوپر والے حصے کے لوگ ان کے پاس آئے اور کہا: تم یہ کیا کرتے ہو؟ انھوں نے کہا: ہمیں پانی کی ضرورت ہے اور دریا سے پانی اُوپر جاکر ہی بھرا جاسکتا ہے اور تم ہمارے آنے جانے سے تکلیف محسوس کرتے ہو، تو اب کشتی کے تختوں کو توڑ کر دریا سے پانی حاصل کرلیتے ہیں۔ حضوؐر نے یہ مثال بیان کر کے فرمایا: اگر اُوپر والے نیچے والوں کا ہاتھ پکڑ لیتے اور سوراخ کرنے سے روک دیتے تو انھیں بھی ڈوبنے سے بچا لیتے اور اپنے آپ کو بھی بچا لیتے۔ اور اگر انھیں ان کی حرکت سے نہیں روکتے اور چشم پوشی کرتے ہیں تو انھیں بھی ڈبوئیں گے اور خود بھی ڈوبیں گے۔ (عن نعمان بن بشیر، بخاری)
اس خوب صورت مثال سے واضح ہے کہ اگر معاشرے میں برائی پھیلے گی ، وہ فحاشی ہو، بدامنی ہو، چوری ہو، بداخلاقی ہو، یا جھوٹ اور بے ایمانی ہو، تو معاشرے کا ہر فرداس سے متاثر ہوگا۔ اگر معاشرے میں بھلائی، معروف اور حق پھیلے گا تو معاشرے کے ہر فرد کو اس سے فائدہ پہنچے گا۔ اسی طرح اگر نفسانفسی کی بنا پر معاشرے کی اصلاح نہ کی گئی تو جو لوگ چشم پوشی کر رہے ہیں وہ بھی اپنے آپ کو عذاب کا مستحق بنا لیں گے۔
قرآن کریم بار بار اپنے ماننے والوں کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ کدھر جارہے ہیں، این تذھبون۔ اصل حاکم و مالک کو بھول کر عارضی اور بذاتِ خود مجبور ’خدائوں‘ کی طرف کیوں مدد کے لیے دیکھتے ہیں، جب کہ اصل حامی و ناصر، قوت والا اور تمام انسانوں کی ضروریات پورا کرنے والا صرف اور صرف اللہ رب کریم ہے، جس کے ہاں تمام انسانوں کی حاجات پوری کرنے کے بعد بھی کمی واقع نہیں ہوتی۔ اللہ کی طرف رجوع اور زمین پر اس کی حاکمیت و اقتدار کو قائم کرنا، گویا اُمت مسلمہ کے نصب العین کا چوتھا تقاضا ہے اور اس کی تکمیل کے بغیر وہ اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتی۔
اسلام جس تبدیلیِ نظام کی دعوت دیتا ہے، وہی انبیاے کرام ؑکی دعوت کا نقطۂ آغاز رہا ہے۔ چنانچہ تمام انبیاے کرام نے ایک ہی بات کی دعوت دی: یعنی وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ (النحل ۱۶:۳۶) ’’ہم نے ہر اُمت میں ایک رسول بھیج دیا، اور اس کے ذریعے سے سب کو خبردار کردیا کہ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو‘‘۔ اگر اُمت مسلمہ اپنے نصب العین کے حصول کے لیے یکسو ہوکر جدوجہد کرے گی تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اس کو کم تعداد میں ہونے کے باوجود باطل قوتوں کی کثرت پر بھی غلبہ دے گا۔ قَالَ الَّذیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوا اللّٰہِ کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً م بِاِذْنِ اللّٰہِ ط وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ o (البقرہ ۲:۲۴۹)’’لیکن جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ انھیں ایک دن اللہ سے ملنا ہے، انھوں نے کہا: بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے۔ اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے‘‘۔
اقامت دین کے لیے جدوجہد میں بالعموم کفر اور ظلم کی کثرت کو دیکھ کر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ حق اتنے بڑے ہجوم پر کیسے غالب آئے گا؟ شیطان وساوس کے ذریعے اس احساس کو بعض اوقات نفسیاتی یقین تک پہنچا دیتا ہے۔ قرآن کریم اس کارد کرتے ہوئے ہمیں متوجہ کرتا ہے کہ اہلِ ایمان کو اس مقابلۂ حق و باطل میں دل مضبوط کر کے اپنے رب پر اعتماد کر کے اپنی قوت کو بازی پر لگانے میں کوئی تردّد نہیں کرنا چاہیے۔ یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِ ط اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ وَ اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّائَۃٌ یَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ o (انفال ۸:۶۵) ’’اے نبیؐ! مومنوں کو جنگ پر اُبھارو۔ اگر تم میںسے ۲۰ آدمی صابر ہوں تو وہ ۲۰۰ پر غالب آئیں گے اور اگر ۱۰۰آدمی ایسے ہوں تو منکرینِ حق میں سے ہزار آدمیوں پر بھاری رہیں گے کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے‘‘۔
پہلا یہ کہ کفر کی کثرت انھیں حق کے قیام اور دین کی سربلندی کی جدوجہد سے غافل نہ کردے۔ اس لیے فرمایاگیا کہ اے نبیؐ! انھیں مسلسل جدوجہد اور جہاد پر اُبھاریے۔
دوسری بات یہ سامنے آتی ہے کہ اُمت مسلمہ کا اپنے نصب العین کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا ایک بابرکت عمل ہے کہ اس میں اللہ کی مدد سے ۲۰ صابر و باشعور ۲۰۰ بے شعور افراد پر غالب آئیں گے۔ گویا اصل بنیاد تعداد (quantity)نہیں ہے بلکہ کیفیت (quailty) ہے۔ اسی لیے جو اصطلاح مجاہدین کے لیے یہاں استعمال کی گئی وہ صابروں کی ہے، یعنی وہ اسلامی کارکن جو مقصدِحیات کے شعور کے ساتھ مسلسل مشکلات میں اپنے کام میں لگے رہتے ہیں، جو مخالف قوتوں کی تعداد سے خائف نہیں ہوتے بلکہ اللہ پر بھروسا کرتے ہوئے مستقلاً استقامت کے ساتھ اپنے کام میں لگے رہتے ہیں۔ یہی وہ صابرین، مجاہدین اور متقین ہیں جن کی کامیابی کا وعدہ اللہ رب العالمین فرماتے ہیں۔
آخری بات یہاں یہ سمجھائی جارہی ہے کہ مخالف افراد وہ ہیں جو شعور نہیں رکھتے، جب کہ اقامت دین کی جدوجہد میں شامل افراد کو زندگی کے مقصد کا شعور ہے، اور وہ نصب العین سے آگاہ ہیں۔ وہ حدِ نگاہ تک نہ صرف اپنے مقصد و ہدف سے آگاہ ہیں بلکہ مستقل طور پر منزل پر نگاہ جمائے ہوئے ہیں۔ اس میں کوئی شبہہ اور تذبذب نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت پر پورے اعتماد کے ساتھ اپنے وسائل کی کمی کے باوجود انھیں اس دنیا اور آخرت میں کامیابی پر پورا یقین ہے۔
نصب العین کا یہ ادراک اور وژن کا نہ صرف واضح ہونا بلکہ اس پر عین الیقین ہی وہ بنیاد ہے جو عمل میں تبدیل ہوتی ہے تو مشکلات کے پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجاتے ہیں، اور ظلم و طغیان کی آندھیاں زمین بوس ہوجاتی ہیں، اور اللہ کی نصرت دائیں سے اور بائیں سے، اُوپر سے اور نیچے سے آکر اپنے صابر بندوں کو کامیابی سے ہم کنار کرتی ہے۔
اہلِ کتاب کے سیاق و سباق میں قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی نصرت و رحمت کے حوالے سے غور کرنے والوں کے لیے اہم مواد فراہم کرتا ہے:
وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْکِتٰبِ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَکَفَّرْنَا عَنْھُمْ سَیِّاٰتِھِمْ وَ لَاَدْخَلْنٰھُمْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ o وَلَوْ اَنَّھُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ مِّنْ رَّبِّھِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِھِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِھِمْ طمِنْھُمْ اُمَّۃٌ مُّقْتَصِدَۃٌ ط وَ کَثِیْرٌ مِّنْھُمْ سَآئَ مَا یَعْمَلُوْنَo (المائدہ ۵: ۶۵-۶۶) اگر (اس سرکشی کے بجاے)یہ اہلِ کتاب ایمان لے آتے اور خداترسی کی رَوِش اختیار کرتے تو ہم ان کی بُرائیاں اِن سے دُور کردیتے اور اِن کو نعمت بھری جنتوں میں پہنچاتے۔ کاش انھوں نے تورات اور انجیل اور اُن دوسری کتابوں کو قائم کیا ہوتا جو اِن کے رب کی طرف سے اِن کے پاس بھیجی گئی تھیں۔ ایسا کرتے تو ان کے لیے اُوپر سے رزق برستا اور نیچے سے اُبلتا۔ اگرچہ ان میں کچھ لوگ راست رَو بھی ہیں، لیکن ان کی اکثریت سخت بدعمل ہے۔
گویا اعتصام بالقرآن والسنہ وہ نسخہ ہے جس کے نتیجے میں اُمت مسلمہ اپنے کھوئے ہوئے مقام کو حاصل کرسکتی ہے۔ اللہ کا جو وعدہ اہلِ کتاب سے ہے وہی اُمت کے ان افراد سے ہے جو نصب العین کا شعور رکھتے ہوں اور صبرواستقامت کے ساتھ اقامت دین کی جدوجہد میں مصروف ہوں۔
قرآن و سنت کے مثبت اور تعمیری نقطۂ نظر پر غور کیا جائے تو بعض اوقات شیطان انسان کو جن حیلوں، بہانوں سے اقامت دین کی جدوجہد کے حوالے سے مایوسی، نااُمیدی اور نصب العین کے بارے میں شکوک میں مبتلا کرنا چاہتا ہے، ان کی قلعی کھل جاتی ہے۔ کبھی وہ یہ کہتا ہے کہ کفروطاغوت اور فحاشی کی بڑھتی ہوئی تعداد کا مقابلہ اتنی مختصر جماعت کے ساتھ کب تک کرو گے؟ بہتر ہے وقت کے دھارے کے ساتھ بہنا سیکھو۔ جو جھوٹ، مکر اور فریب کی سیاست عام سیاسی بازی گر کرتے ہیں، تم بھی وہی کرو کہ کامیابی کا راستہ یہی ہے۔ کبھی وہ کہتا ہے کہ اس فتنے کے دور میں اضطراری طور پر ایسے بہت سے کام کیے جاسکتے ہیں جو عام حالات میں شریعت کے منافی ہیں۔ کبھی وہ اس طرف لے جانا چاہتا ہے کہ مکمل دین کی اقامت کی جگہ دین کی بعض وہ تعلیمات جن پر کسی کو اعتراض نہ ہو، انھیں اختیار کرلیا جائے۔ چنانچہ اُمت مسلمہ کے ادوارزوال میں عموماً روحانیت اور قلبی کیفیات پر زیادہ توجہ ہوجاتی ہے، اور طاغوتی نظام کو ایک مجبوری کے طور پر پہلے گوارا اور بعد میں بلااِکراہ قبول کرلیا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا دائرہ نماز کے فرائض و واجبات اور مکروہات کی تفصیل تک محدود ہوجاتا ہے اور معاشی، معاشرتی، ثقافتی معاملات میں شیطان اور اس کی ذُریت کو چھا جانے کا پورا موقع فراہم کردیا جاتا ہے۔
اقامتِ دین کا مفہوم مکمل دین کی اقامت ہے، یعنی چاہے کوئی معاملہ ذاتی زندگی سے متعلق ہو یا معاشرت سے یا معاش و سیاست سے، ہرہرشعبۂ حیات میں قرآن و سنت کی ہدایات و تعلیمات کو بغیر کسی معذرت کے نافذ کرنا ہی اقامت ِ دین ہے۔ اقامت دین کے جن پانچ مراحل کا ذکر اُوپر کیا گیا ہے، یہ الگ الگ کرنے کا کام نہیں ہے بلکہ ان سب کو متوازی طور پر کرنے کا نام اقامت دین ہے۔ نصب العین کا شعور، ترجیحات کا تعین، حکمت عملی کی تشکیل اور قریب المیعاد اور طویل المیعاد منصوبہ بندی وہ ذرائع ہیں جو اقامت دین کی جدوجہد کو کامیابی سے ہم کنار کر سکتے ہیں۔ تحریکِ اسلامی کے لیے اس پُرآشوب دور میں اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ اپنے نصب العین کے پیش نظر ایسی حکمت عملی وضع کرے جو بغیر کسی مفاہمت، معذرت یا مقصدِحیات سے انحراف کے، قوم کو اعتماد، یک جہتی اور صبرواستقامت کے ساتھ ترقی کی طرف لے جاسکے۔