پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد | مئی ۲۰۱۲ | مطالعہ کتاب
مغرب میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں بالعموم منفی تاثر پایا جاتا ہے جو مبنی برحقیقت نہیں۔ مسلمانوں کو مسلسل ’بنیاد پرست، ’دقیانوس‘، ’دہشت گرد‘، انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا جاتا ہے۔ مزید یہ الزام بھی دیا جاتا ہے کہ مسلمان جمہوریت کو ناپسند کرتے ہیں اور دنیا پر شریعت مسلط کرنا چاہتے ہیں، نیز مغرب کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اسی طرح ایک طویل عرصہ سے جہاد کے بارے میں بھی مغرب میں غلط فہمی پائی جاتی ہے۔ ان غلط مفروضوں اور مبہم اور غیرحقیقی تصورات کی بنیاد پر مغرب کی عالمِ اسلام کے بارے میں بنائی جانے والی حکمت عملی مزید غلط فہمیوں کو پھیلانے اور نتیجتاً مسلمانوں کے ساتھ محاذآرائی کی شکل اختیار کرچکی ہے جس سے دنیا کا امن بھی متاثر ہو رہا ہے۔ ان حالات میں یہ سمجھنا بہت ضروری ہوگیا ہے کہ مسلمانوں کا حقیقی موقف کیا ہے، اور ان کا پُرتشدد ردعمل کن وجوہات کی بنا پر سامنے آرہا ہے؟ بالکل اسی طرح مغرب کی حکمت عملی کا حقیقت پسند اور غیرجانب دار جائزہ، نیز مسائل کے حل کے لیے مبنی برانصاف لائحہ عمل کی ضرورت شدت سے محسوس ہورہی ہے۔ اس پس منظر میں اگر مغربی مفکرین کی طرف سے کوئی معروضی مطالعہ سامنے آئے تو ایسے جائزے کو عالمی امن کے قیام کی کوششوں کی طرف ایک صحت مند اقدام سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
راجر ہارڈی نے اپنی کتاب The Muslim Revolt [مسلم بغاوت ] میں سیاسی اسلام کے تناظر میں مذکورہ بالا مسائل کے پیش نظر جامع تجزیہ پیش کیا ہے اور سوڈان، سعودی عرب، ترکی، انڈونیشیا، ملایشیا، پاکستان اور ایران میں درپیش مسائل کا غیر جانب داری سے جائزہ لیا ہے۔ مصنف بی بی سی سے وابستہ ہونے کی وجہ سے مسلم مفکرین، سرگرم لوگوں (activists) اور عوام سے براہِ راست رابطے میں رہا ہے۔ ہارڈی نے بہت سے عصری سیاسی و سماجی مسائل پر مسلم اسکالروں، عوام اور حکمران طبقے کے ردعمل پر مبنی قیمتی معلومات تنقیدی نقطۂ نظر سے پیش کی ہیں۔
’سیاسی اسلام‘ کا سفر اسلام کو بطور معاشرہ اور تہذیب کے طور پر متعارف کرانے کی کوشش سے ہوتا ہے۔ عمومی تاثر کے برعکس ہارڈی یہ محسوس کرتا ہے کہ عربوں نے اصولی طور پر اسلام کو تلوار کے زور پر مسلط نہیں کیا۔ ان کی زبان عربی منصفانہ انداز میں بتدریج پھیلی اور مذہب مزید آہستگی سے اب بھی پھیل رہا ہے۔ یہ صرف ۱۰ویں اور ۱۳ویں صدی عیسوی کا زمانہ ہی نہ تھا جب مشرق وسطیٰ کے باشندوں نے اسلام قبول کیا....عملی مقاصد کے حصول کے لیے ریاست نے ایک خالص عرب مہم جوئی کے بجاے بطور مسلم ریاست کردار ادا کیا۔ (ص ۱۱-۱۲)
ہارڈی مسلمانوں میں عالمی سطح پر پائی جانے والی اسلامی ریاست یا شریعہ بطور قانون کے نفاذ کی خواہش کو جاننے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ اس نے قائداعظم محمد علی جناح کے تصورِ پاکستان کو جس سادگی سے پیش کیا ہے اس پر اسے موردِ الزام نہیں ٹھیرایا جاسکتا۔ اس کے تجزیے میں بھی قائداعظم کے بارے میں عمومی غلط فہمی پائی جاتی ہے، یعنی یہ کہ وہ سیکولر اور لبرل تھے (ص ۵۹)۔ اگرچہ حقیقت یہ ہے کہ قائداعظم نے قیامِ پاکستان سے قبل اور اس کے وجود میں آجانے کے بعد پاکستان کے ایک اسلامی ریاست ہونے کے تصور کو بارہا پیش کیا (دیکھیے: امریکی عوام سے خطاب، ۲۳ فروری ۱۹۴۸ئ)۔ اپنے ایک دوسرے بیان میں انھوں نے ان لوگوں کو متنبہ کیا ہے جنھوں نے مسئلے کو اُلجھانے کی کوشش کی ہے: ’’بلاشبہہ جب ہم اسلام کے بارے میں بات کرتے ہیں تو بہت سے لوگ اس کی تحسین نہیں کرتے۔ اسلام محض اصولوں، روایات اور روحانی طریقوں کا نام نہیں ہے۔ اسلام ہرمسلمان کا ضابطۂ حیات بھی ہے جو اس کی زندگی اور رویے کو ترتیب دیتا ہے، حتیٰ کہ سیاست اور اقتصادیات کو بھی۔ یہ عزت و احترام، اعلیٰ اخلاقی اقدار، صحیح رویے اور سب کے لیے انصاف جیسے اعلیٰ اصولوں پر مبنی ہے‘‘۔
ہارڈی کا یہ نقطۂ نظر کہ مذہبی جماعتیں پارلیمنٹ میں زیادہ نشستیں نہیں جیت سکتیں اور ان کے ووٹ بنک کا موازنہ جب دیگر سیاسی جماعتوں سے کیا جاتا ہے تو محدود ہے، تنقیدی تجزیہ چاہتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ایک عام ووٹر کو کبھی بھی سیکولر اور ’مذہبی‘ گروہوں کے درمیان انتخاب کا مرحلہ درپیش نہیں آیا۔ حتیٰ کہ وہ جو ’سیکولر‘ کہلاتے ہیں ہمیشہ عوام کی اسلام سے وابستگی کو استعمال کر کے ان کا استحصال کرتے رہے اور ان کی حمایت حاصل کرتے رہے۔ اس کی نمایاں مثال پاکستان پیپلزپارٹی ہے جس کے راہنما ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی جذبات کو سیاسی طور پر اس وقت استعمال کیا جب انھوں نے جمعہ کی چھٹی کا اعلان کیا، قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دیا اور پاکستان میں شراب کی کھلے عام فروخت اور استعمال پر پابندی عائد کی تھی۔ ۱۹۷۳ء کے دستور میں بھی جو متفقہ طور پر ان کے دورِ امارت میںمنظور کیا گیا، پاکستان کو اسلامی جمہوریہ قرار دیا گیا اور دستوری طور پر ریاست کو اس بات کا قانوناً پابند کیا گیا کہ ۱۰ سال کے اندر اندر پاکستان کا قانونی نظام مکمل طور پر اسلامی کردیا جائے گا۔ان تاریخی حقائق کے تناظر میں جب ضیاء الحق کو پاکستان میں اسلامائزیشن کا علَم بردار (چیمپئن) قرار دیا جاتا ہے تو یہ ان کے ساتھ غیرضروری فیاضی اور بے جا تحسین کے مترادف ہے۔ (ص۳۱-۶۳)
ہارڈی مسلمانوں کے ساتھ مغرب کے دہرے اخلاقی معیار پر بھی کڑی تنقید کرتا ہے۔ اس کے خیال میں یہ کہنے میں کہ قانون کا احترام کرنے والے اور محنتی مسلمانوں کے ساتھ عام شہریوں کی طرح پیش آیا جاتا ہے، ناگزیر حد تک تضاد پایا جاتا ہے۔ ان کی مساجد کی نگرانی کی جاتی ہے، ان پر دبائو ڈالا جاتا ہے کہ وہ انفرادی اور خاندانی رویوں میں تبدیلی لائیں، اور ریاستی سطح پر دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر قانون سازی میں سختی کے نتیجے میں شہری آزادیاں متاثر ہورہی ہیں۔ مغرب کے اس دہرے اخلاقی معیار کے نتیجے میں وہ اسلام کا نیا حریف بن گیا ہے۔ ہارڈی کی یہ تصنیف کثیرثقافتی باہمی بقا کا بھی ایک اہم مطالعہ ہے۔ (ص۱۸۵)
مصنف دہشت گردوں اور اسلام پسندوں کو ہدف بنانے کے نام پر بے گناہ شہریوں پر قوت کے استعمال اور ڈرون حملوں کو بھی تنقیدی نظر سے دیکھتا ہے۔ وہ مراد ہوف مین کے نقطۂ نظر کی تائید کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’سرد جنگ کی طرح یہ نئی جنگ بھی ایک نظریاتی جہت رکھتی ہے جوکہ ’سوفٹ پاور‘ (سفارت کاری، انٹیلی جنس، پروپیگنڈا، اقتصادی امداد وغیرہ) جیسے ہتھیاروں کے حساس استعمال کی متقاضی ہے لیکن سرد جنگ اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے درمیان ایک اہم فرق ہے۔ ناٹو اور وارسا پیکٹ کا جب موازنہ کیا جاتا ہے تو امریکا کی لازمی طور پر حکومتوں سے محاذآرائی تھی نہ کہ عوام سے جو اتحادی یا امکانی اتحادی تھے۔ اب امریکا ریڈیکل اسلام کے خلاف جسے ہمیشہ عوام کی تائید حاصل ہوتی ہے، غیرمقبول مسلم حکومتوں کا اتحادی ہے۔ یہ پوری دلجمعی کے ساتھ کسی جدوجہد کو جاری رکھنے کے لیے زیادہ کمزور موقف ہے‘‘۔ (ص ۱۸۷-۱۸۸)
ہارڈی عالمی جہاد کا بھی جائزہ لیتا ہے۔ اس کے نزدیک اس کا سبب انسانیت کی تذلیل پر مبنی روایات ہیں۔ ان روایتوں کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ مغرب___ روایتی فوجی اور اقتصادی طاقت اور عالم گیریت کے نئے ہتھیار سے مسلح___ اسلام کے ساتھ حالت ِ جنگ میں ہے۔ (ص۱۹۱)
مغرب کی جارحیت فلسطین، عراق، افغانستان، کشمیر اور وسطی ایشیا کی جمہوریائوں سے محاذآرائی پر مبنی خطے میں پوری طرح عیاں ہے۔ جہاد کے حمایتی تشدد کو مغربی جارحیت سے نجات کا ذریعہ قرار دیتے ہیں اور اس کا جواز مذہب سے مہیا کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تذلیل سے نجات دلاتا ہے اور ندامت کو فخر سے اور بے بسی کو قوت میں بدل دیتا ہے (ص ۱۹۲)۔ اس موقف کا اظہار بھرپور تاثر کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ہارڈی کی راے میں جڑواں ٹاور پر حملہ جہادیوں کے اس مضبوط موقف کی تسکین کا باعث تھا۔القاعدہ کا نقطۂ نظر مسلم نوجوانوں کو تشخص، نظریہ اور ایک ایسا ذریعہ فراہم کرنا ہے جو انھیں یہ بتاتا ہے کہ وہ کون ہیں، انھیں کیوں اس پر عمل کرنا چاہیے،اور کیا کرنا چاہیے۔ (ص ۱۹۳)
امریکا کی ۲۰۰۱ء میں افغانستان اور ۲۰۰۳ء میں عراق پر جارحیت نے مغرب کی اسلام کے خلاف عالمی جنگ کے القاعدہ کے موقف کی تصدیق کردی۔ اس کی مزید تائید ابوغرائب جیل میں قیدیوں کی تذلیل کے قصے اور گوانتاناموبے جیل میں قیدیوں کے ساتھ توہین آمیز رویے نے کردی۔ اس سب نے نام نہاد القاعدہ کے حربوں اور حکمت عملی کے لیے جلتی پر تیل کا کام کیا اور امریکی پالیسیوں کی مسلم دنیا میں ناپسندیدگی اور حمایت سے محرومی میں اضافہ کیا۔
ہارڈی کے تجزیے کی روشنی میں ۲۰۰۹ء میں وائٹ ہائوس کی مسلم دنیا سے متعلق حکمت عملی میں ایک واضح تبدیلی نظر آتی ہے، اوّلاً: سی آئی اے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کو تیزی سے اس کے صحیح مقام پر واپس لانے میں زیادہ سرگرمِ عمل دکھائی دیتی ہے۔یہ افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں متعین اہداف پر حملوں پر توجہ مرکوز کر رہی ہے۔ یہ حکمت عملی القاعدہ کو اپنے دفاع پر مجبور کردیتی ہے۔ دوم: سرکاری بیانات میں ’جہادی‘ یا ’مسلم‘ دنیا کی اصطلاحات سے اجتناب کرتے ہوئے ’دنیا میں پائے جانے والے مسلمان‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ گو، اس سے حتمی تجزیے کے طور پر امریکا کے مسلمانوں کے بارے میں رویے میں امریکا اور بیرونِ امریکا میں کوئی بڑا تغیر واقع نہیں ہوا، اور نہ مسلمانوں کے امریکا کے مسلمانوں کے مفادات کے خلاف محاذ آرائی اور تصادم کے تصور میں ہی کوئی تبدیلی آئی ہے۔ سوم: ان حالات پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے جو تشدد اور انتہاپسندی میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ چنانچہ غربت کے خاتمے اور شرحِ خواندگی میں اضافے کے پروگراموں نے توجہ حاصل کرلی ہے۔ چہارم: امریکی حکام اور ماہرین پر یہ بات بھی عیاں ہوتی جارہی ہے کہ مسائل کو فوجی قوت کے استعمال سے حل نہیں کیا جاسکتا۔ مسلم دنیا کے پسے ہوئے مسلمانوں کی سماجی، اقتصادی اور سیاسی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی حل بھی تلاش کیا جانا چاہیے۔ پنجم: امریکا کو مسلم دنیا میں اپنی حکمت عملی کے نفاذ کے لیے عالمی دبائو بڑھانے کے لیے دنیا کی دیگر اقوام کو بھی اس میں شریک کرنا چاہیے۔ناٹو افواج کی افغانستان ، عراق اور لیبیا وغیرہ میں براہِ راست مداخلت نام نہاد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کو ایک کثیرقومی جدوجہد بنادیتی ہے۔ ششم: عراق، افغانستان اور پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کے لیے غیرمعمولی کاوشیں لازماً کی جانی چاہییں۔ یہ نئی حکمت عملی ایک عام آدمی میں اس یقین کو پختہ کرتی ہے کہ مسلم دنیا میں آمر حکمران، اسلام پسندوں، بنیاد پرستوں اور جہادیوں کو پیدا کرنے کا سبب ہیں، جب کہ امریکا اور اس کے اتحادی آزادی، حریت ، انسانی حقوق اور جمہوریت کے علَم بردار ہیں۔ تاہم کوئی بھی اس زمینی حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ مصر، تیونس، مراکش، یمن وغیرہ کے جابروں اور آمروں کو امریکا کی مسلسل حمایت حاصل رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا اور اس کے مغربی اتحادی جنگ ِ عظیم کے بعد مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں آمر حکمرانوں کی تخلیق کے پیچھے تھے۔
نائن الیون کے بعد نام نہاد لبرل جمہوری معاشرے کے ودیعت کردہ تضادات مزید نمایاں ہوکر سامنے آئے۔ نہ صرف مسلم دنیا میں بلکہ امریکا اور یورپ میں پیدا ہونے اور پلنے بڑھنے والے مسلمانوں کو بھی پہلے سے قائم تصورات کی بنا پر ’ماڈریٹ‘، ’ریڈیکل‘، ’لبرل‘،’دقیانوسی‘یا ’بنیاد پرست‘ قرار دیا گیا۔ اس طرح سے مسلمانوں کے بارے میں قائم کیا گیا تاثر ان کی شخصیت کا حقیقی عکس نہیں ہے۔ یہ عمومی تاثر کہ ’مسلمان جمہوریت سے نفرت‘ کرتے ہیں یا ’مسلمان ہماری آزادی سے نفرت‘ کرتے ہیں، جیساکہ بش نے دعویٰ کیا تھا، اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں حقیقی تصور کو جاننے میں ایک رکاوٹ ثابت ہو رہا ہے۔
لاعلمی یا حقیقی مسائل کو پوری طرح قصداً جانے بغیر کیے جانے والے فیصلے صحیح پالیسی فیصلوں کے نہ ہونے کا باعث بنتے ہیں۔ ہارڈی کا یہ تاثر مبنی برحقیقت ہے: ’’مسلم دنیا کے مرکز سے لے کر موریتانیہ سے مینڈانائو تک بیش تر علاقوں میں مسلمانوں کو بُری حکمرانی کا سامنا ہے، ان کے انسانی حقوق کا استحصال کیا جا رہا ہے، اور ان کی معاشی ترقی روک دی گئی ہے۔ یہ مسائل حقیقی ہیں اور مغرب کو ان کا براہِ راست ذمہ دار بھی نہیں ٹھیرایا جاسکتا۔ لیکن بیرونی قوتوں کے کردار کو نظرانداز کرنا___ ان کی غوروفکر سے عاری مداخلت، ان کی آمر حکمرانوں پر عنایات، ان کا انسانی حقوق اور جمہوریت کے بارے میں دہرا معیار___ مسئلے کے ایک اہم پہلو سے آنکھیں بند کرلینے کے مترادف ہے‘‘۔ (ص ۲۰۱)
غلط تصورات پر مبنی خارجہ پالیسی کسی بھی ابلاغی خلا کو پُر نہیں کرسکتی، اور نہ باہمی اعتماد ہی کو قائم کرسکتی ہے۔ امریکا اور یورپی حکومتی پالیسیوں کی عالمی سطح پر مسلمانوں کی طرف سے مخالفت کی ایک بڑی وجہ ان کی ناقص ڈھل مل خارجہ پالیسی، اور یہ تصور ہے کہ فوج، طاقت اور دولت ہی مسئلے کا حل ہیں۔ سابق برطانوی خارجہ سیکرٹری ڈگلس ہرڈ یہ کہنے میں پوری طرح حق بجانب تھے: ’’ہم نے غزا، فلوجا اور چیچنیا میں بہت سے لوگوں کو ہلاک کر کے دہشت گردی کو فروغ دیا ہے۔ ان علاقوں میں اپنے رویے سے اسرائیلی، امریکی اور روسی ہر وقت دہشت گردوں کو تیار کر رہے ہیں‘‘۔ (بی بی سی ریڈیو- ۴، ۲۲؍اپریل ۲۰۰۴ئ)
مسلمان ممالک پر طولانی قبضہ اور ڈرون حملے صورت حال کو مزید خراب کرنے کا باعث بنیں گے، جب تک کہ دہشت گردی کو فروغ دینے کا یہ سلسلہ بند نہ کیا جائے، اور تعلیم کے ذریعے مسلمانوں کا ذہن تبدیل کرنے کی نرم پالیسی نہیں اپنائی جاتی۔ ایسے میں محض متاثرہ علاقوں میں سماجی ترقی کے لیے دی جانے والی خیراتی امداد کوئی بہتری نہیں پیدا کرسکتی۔
مغرب اور عالمی مسلم کمیونٹی کے باہمی تعلقات کے مستقبل کا انحصار نام نہاد امن افواج کے انخلا میں ہے جو کہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر عوام پرکھلم کھلا حملوںمیں ملوث ہے۔ یورپ اور امریکا کی اسرائیل، افغانستان، عراق، لیبیا، یمن اور پاکستان کے بارے میں خارجہ پالیسی ایک حقیقی تبدیلی مسلمانوں اور مغرب کے درمیان اعتماد پیدا کرنے کے لیے راہ ہموار کرسکتی ہے۔ یہ مغرب اور بنی نوع انسان کے مفاد میں ہے کہ عالمی امن کے حصول کے لیے اور مسلم دنیا میں مجروح عوام کے احترام اور حقوق کی بحالی کے لیے مزاحمت اور تصادم کو کم کرے۔
زیرتبصرہ کتاب امریکا اور اس کے اتحادیوں کی عالم اسلام کے بارے میں خارجہ پالیسی میں مثالی تبدیلی تجویز کرتی ہے۔ مغرب کی جمہوریت، آزادی (لبرلا ئزیشن) اور عالم گیریت کے نام پر مسلم دنیا کے معاملات میں بلاجواز مداخلت مسلمانوں کو مزید برگشتہ کرے گی اور پُرامن بقاے باہمی کے امکانات کو مزید کم کرے گی۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی مسلم دنیا میں غیرمقبول، کرپٹ آمر حکومتوں کی خفیہ یا کھلی حمایت اور سرپرستی بھی بند ہونی چاہیے۔ اگر ہم دنیا میں ایک پُرامن عالمی نظام چاہتے ہیں تو مسلمانوں کے ذہن اور نفسیات، اسلامی اقدار اور تمدن کو سمجھنے کے لیے ایک مخلصانہ سوچ کو سب سے پہلے سامنے آنا چاہیے۔ اس لیے کہ ’’ایک نئی سوچ کے بغیر جو کہ اسلام کے تصورِ حیات اور عالمِ اسلام کے عدم اطمینان کی وجوہات پر یقینی گرفت رکھتی ہو یہ ممکن نہیں۔ دوسری صورت میں مسلمانوں کی بغاوت صدیوں تک جاری رہے گی‘‘ (ص ۲۰۲)۔ (تبصرہ: مسلم ورلڈ بک ریویو، برطانیہ، جلد ۳۲، شمارہ ۲، ۲۰۱۲ئ۔ ترجمہ: امجد عباسی)
The Muslim Revolt: A Journey Through Political Islam )
راجر ہارڈی، ناشر: C.Hurst & Co ، لندن، ۲۰۱۰ئ، ISBN: 9781849040327، صفحات: ۲۳۹)