’میرا سلطان‘ ایک ترک ڈراما ہے جو اُردو ترجمے کے ساتھ پاکستان میں بھی دکھایا جارہا ہے اور اکثر لوگ اسے ذوق و شوق سے دیکھ رہے ہیں۔گذشتہ دنوں ترک وفد نے پاکستان کا دورہ کیا۔ اس موقع پر اس وفد نے اس ڈرامے کے بارے میں بھی اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ ترک وفد کے ارکان کا کہنا تھا کہ: ’میرا سلطان‘ میں خلافت عثمانیہ کے دسویں سربراہ سلطان سلیمان کی زندگی کے متعلق حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ سلطان سلیمان نے۱۵۲۰ء سے ۱۵۶۶ء تک یورپ اور افریقہ کے کئی ممالک کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا تھا۔ اس نے اپنی ایک کنیز سے شادی ضرور کی تھی لیکن سلطان سلیمان کے خاندان کی عورتیں کھلے گریبان والا لباس پہننے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھیں،بلکہ اس زمانے میں ترکی کے کسی علاقے میں عورتیں اس طرح کا غیر مہذب لباس نہیں پہنتی تھیں جو ’میرا سلطان‘ میں دکھایا جاتاہے۔ اس موقع پرترکی کے صدر عبداللہ گل نے کہا کہ ’’اگر ان کا بس چلے تو اس ڈرامے پر پابندی لگادیں‘‘۔ (’میرا سلطان‘، حامد میر، جنگ، ۱۰؍اکتوبر ۲۰۱۳ء)
معاشرے پر میڈیا کے جو دور رس اثرات ہیں وہ محتاجِ بیان نہیں۔ ایک جانب اگر میڈیا تعلیم اور شعور و آگہی کے فروغ میں اپنا کردار ادا کررہا ہے، تو وہاں اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ معاشرے میں حرص و ہوس، دولت و شہرت کی دوڑ، دوسروں کو نیچا دکھانے کی کوششیں، حسد و رقابت کے جذبات کے فروغ میں(ڈراموں اور فلموں بالخصوص ہندستانی اور ترک ڈراموں کی صورت میں)بھی میڈیا کا ایک بڑا کردار ہے۔ میڈیا کے ذریعے ڈراموں کی صورت میں (بالخصوص’میرا سلطان‘ کے ذریعے)شعوری طور پر ایک منظم طریقے سے دنیا بھر کے ناظرین کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ عثمانی سلاطین عیش و عشرت کے دلدادہ تھے۔ اسلام کے ساتھ ان کا تعلق رسمی تھا۔ عثمانیوںکی تاریخ___ اسلام سے وابستہ نہیں ہے بلکہ ان کا رشتہ لادینیت سے ہے۔ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ کا ان کی ذاتی زندگی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ آزادیِ اظہارو خیال، تفریح اور روشن خیالی کے نام پرکم از کم پاکستانی میڈیا کو تاریخ کو مسخ کرنے کی ان کوششوں کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا جو وسیع دائرہ اثر رکھتا ہے ، اس پر بھاری ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔ اگر کوئی ڈراما کسی تاریخی شخصیت سے متعلق ہے تو نہ صرف اخلاقیات بلکہ قانون کے مطابق بھی یہ ضروری ہے کہ تاریخی واقعات کودرست انداز میں پیش کیا جائے نہ کہ شعوری طور پر لوگوں کے لاشعور میںتاریخ کو مسخ کرکے راسخ کیا جائے۔ عموماً لوگوں کی تاریخ سے واقفیت اور دل چسپی کم ہی ہوتی ہے۔ آج سے چند ماہ پہلے اگر کسی سے سلطان سلیمان اعظم کے بارے میں دریافت کیا جاتا تو غالب امکان یہی ہے کہ وہ سلطان سلیمان کے نام سے بھی ناواقف ہوتا۔ لیکن آج کسی عام فردسے بھی دریافت کرکے دیکھ لیا جائے ، سلطان سلیمان سے وہ خوب واقف نکلے گا اور اس کا ماخذ ہوگا ’میرا سلطان‘۔ جب تاریخ کا ماخذ ’میرا سلطان‘ اور اسی طرح کے دیگر ڈرامے ہوں تو تاریخی شعور وآگہی کی علمی سطح کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے ع
ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے
راقم الحروف تاریخ کے ایک طالبِ علم کی حیثیت سے یہ سمجھتا ہے کہ ترکی کے صدر عبداللہ گل کا اس ڈرامے کے حوالے سے اظہارِ ناپسندیدگی بالکل بجا ہے۔ مذکورہ بالا الفاظ ان کے تاریخی و سماجی شعور کا پتا دیتے ہیں۔آج کل متعدد پاکستانی چینلوںپراسی طرح کے کئی ترک ڈرامے اردو ترجمے کے ساتھ نشر کیے جارہے ہیں اور پاکستانی ناظرین کی ایک بڑی تعداد بالخصوص خواتین ان ڈراموں کو دیکھ رہی ہیں۔ نہ صرف عام گھریلو خواتین بلکہ ممتاز سیاسی و سماجی شخصیات بھی ان ڈراموں سے متاثر ہیں۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ اس موقعے پر تاریخ کے کچھ اوراق پلٹ کر دیکھ لیے جائیں۔
۱۲۸۸ء میں اناطولیہ میں عثمانی ترکوں نے ایک ریاست کی بنیاد رکھی، جو اناطولیہ سے یورپ کے قلب تک پھیل گئی۔عثمانی حکومت کا آغاز ایک چھوٹی سی ریاست سے ہوا، جو بڑھتے بڑھتے تین براعظموں اور سات سمندروں کو محیط ہوگئی۔ عثمانی ترکوں کی یہ حکومت ۱۹۲۴ء تک خلافت عثمانیہ کی حیثیت سے قائم رہی ۔ سلیم اوّل کی وفات کے بعد ۱۵۲۰ء میں اس کا بیٹا سلیمان ۲۶ سال کی عمر میں تخت نشین ہوا، جسے عثمانی ترکوں کا سب سے بڑا حکمران یعنی ’سلیمان اعظم‘ اور ’سلیمان ذی شان‘ اور ’سلیمان عالی شان‘ کہا جاتا ہے ۔سلیمان نے اپنی وفات (۱۵۶۶ء) تک تقریباً نصف صدی انتہائی شان و شوکت کے ساتھ حکومت کی ۔ سلطان سلیمان کادور نہ صرف عثمانی تاریخ بلکہ تاریخ عالم کا ایک نہایت اہم دور ہے۔
سلیمان اعظم کا دور عثمانی سلطنت کی توسیع و فتوحات کا دور تھا۔اس نے اپنے وقت کی بڑی طاقتوں سے صف آرا ہوکر نہ صرف سلطنتِ عثمانیہ کے وجود کو برقرار رکھا بلکہ اسے مزید مستحکم کیا۔ ۱۵۲۱ء میں سلیمان نے ہنگری کے مشہور شہر بلغراد کو فتح کیا۔بلغراد ایک انتہائی اہم شہر تھا جو دریاے ڈینوب پر اہل یورپ کا دفاعی مورچہ تھا۔ ۱۵۲۲ء میں روڈس کے جزیرے کا محاصرہ کیا گیا جو پانچ ماہ تک جاری رہا۔ جب سلیمان نے دیکھا کہ محصورین کی قوت مزاحمت ختم ہوچکی ہے تو سلطان نے انتہائی فراخ دلانہ شرائط کی پیش کش کی ۔ اس نے اہل روڈس کو اس کی اجازت دے دی کہ ۱۲دن کے اندر اپنے تمام اسلحے اور سامان کے ساتھ اپنے جہازوں میں ہی جاسکتے ہیں (لیکن یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اکثریت نے ترکوں کے ماتحت جزیرے میں ہی رہنا منظور کیا)۔ انھیں مکمل مذہبی آزادی دی گئی۔ پانچ سال کے لیے ان کے ٹیکس معاف کردیے گئے ۔ روڈس کی فتح کے بعدبہادر نائٹوں کی خاندانی روایات کی حامل ڈھالیں جو ان کے مکانوں پر آویزاں تھیں ویسے ہی لگی رہنے دی گئیں۔
۱۵۲۶ء میں سلیمان اعظم نے ہنگری کی جانب قدم بڑھایا جو اس کی فتوحات میں تیسرا بڑا محاذ تھا۔ ہنگری کو فوجی نقطۂ نظر سے عیسائیوں کی ایک مضبوط طاقت خیال کیا جاتا تھا۔ دو گھنٹے سے بھی کم وقت میں ہنگری کی قسمت کا فیصلہ ہوگیا اور ہنگری سلطنت عثمانیہ کا حصہ بن گیا۔ ۱۵۲۹ء میں سلیمان نے آسٹریا کی جانب پیش قدمی کی۔ آسٹریا جرمنی کی سلطنت کا ایک حصہ تھا۔ سلیمان کے دور میں چارلس پنجم یورپ کا سب سے بڑا حکمران تھا۔ اس نے اپنے بھائی فرڈیننڈ کو آسٹریا کا حکمران مقرر کیا ہوا تھا۔ ستمبر ۱۵۲۹ء کو سلیمان اعظم آسٹریا کے دارالحکومت ویانا تک پہنچ گیا۔آسٹریا نے ہر دسویں آدمی کو فوجی خدمت کے لیے طلب کرلیا۔ ہمسایہ ریاستوں سے امدادی دستے طلب کرلیے۔ شہرکے اندر پرانی فصیل کے ساتھ ایک نئی فصیل بنائی گئی۔ اپنے دفاع کو مزید تقویت دینے کے لیے شہر کے نواحی علاقے بھی تباہ کردیے تاکہ ترک ان علاقوں سے فائدہ اٹھاکرپایۂ تخت ویانا کو فتح نہ کرسکیں۔ لیکن ان تمام تر دفاعی تیاریوں کے باجود سلیمان نے ویانا کا محاصرہ کرلیا۔ فرڈیننڈ محاصرے سے پہلے ہی فرار ہوگیا۔ ۲۷ستمبر سے ۱۴؍اکتوبر ۱۵۲۹ء تک ویا نا کا محاصر ہ جاری رہا۔اگرچہ بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر (ایک طویل عرصے سے جنگ میں مصروف رہنے، موسم کی شدت، ینی چری٭ کی حکم عدولی اور اپنی قوت کو مزید ضائع ہونے سے بچانے کے لیے) سلیمان اعظم کو یہ محاصر ہ اٹھا ناپڑا لیکن اس کی فتوحات نے اب وسطی یورپ میں اپنی آخری حد مقرر کردی تھی۔
سلیمان اعظم کے عہد میں عثمانی ترک خشکی کی طرح سمندروں میں بھی ایک ناقابل تسخیر قوت بن کر سامنے آئے۔ یورپی ممالک کے بحری بیڑے عثمانیوں کے مقابلے میں آنے سے کترانے لگے۔ وینس کی صدیوں پرانی بحری طاقت کا بھی خاتمہ ہوگیا۔ سلیمان کے امیر البحر خیرالدین باربروسا نے بحرروم کے علاقے میں پری ویسا کی مشہور بحری جنگ لڑی اور اتحادیوں کو زبردست شکست دے کر اپنی بحری برتری ثابت کردی۔ اپنی بحری طاقت کی بدولت سلیمان نے الجزائر اور طرابلس کے صوبے اور بحر ایجین کے کئی جزیرے فتح کر کے سلطنت عثمانیہ میں شامل کرلیے۔
۱۵۳۵ء میں فرانس کے حکمران فرانسس اوّل نے سلیمان اعظم سے دوستی، امن اور تجارت کا معاہدہ کیا جس کے نتیجے میں سلطنت عثمانیہ کی سطوت و اقتدار کو یورپ میں تسلیم کیا گیا۔ ۱۵۴۷ء میں ایک معاہد ہ ہوا جس میں شہنشاہ چارلس، پوپ، فرانس کا بادشاہ اور جمہوریہ وینس فریق تھے۔ جس کی رُو سے فرڈیننڈ نے سلطان کو ۳۰ ہزار دوکات سالانہ بطور خراج ادا کرنے کا وعدہ کیا اور اپنے آقا سلطان کے وزیر کا بھائی کہلوانے پر فخر کیا۔
سلیمان کی سلطنت کی وسعت کا ایک بڑا سبب اس کی فوجی قوت اور نظام تھا۔ مشہور مؤرخ ایڈورڈکریسی (Edward Creasy) لکھتا ہے:’’سلیمان اپنی فوجوں کے جسمانی آرام اور اخلاقی نگرانی پر جس قدر توجہ دیتا تھا، اس کو اس بے پروائی سے کوئی مناسبت نہ تھی جو اس کے حریفوں کے لشکر میں بد نصیب سپاہیوں کے ساتھ برتی جاتی تھی‘‘۔
سلیمان اعظم کا عہد نہ صرف فتوحات کا دور تھا بلکہ سلطنت عثمانیہ اپنی وسعت ، قوت و طاقت اور خوشحالی کے اعتبار سے بھی بامِ عروج کو پہنچ چکی تھی۔ سلیمان نے ملکی نظم و نسق کی طرف بھی اتنی ہی توجہ دی جتنی فتوحات کی طرف دی تھی۔ اس عظیم الشان سلطنت کو ۲۱ ولایتوں (صوبوں) میں تقسیم کیا۔ ان ولایتوںکو سنجقوں(ضلعوں) میں تقسیم کیا جن کی تعداد ۲۵۰ تھی ۔ ہرولایت اور سنجق کا نظام مقرر کیا جن کی نگرانی حکومت کے مقرر کردہ افسران کرتے تھے۔ سلیمان نے جاگیرداری نظام کی طرف بھی توجہ دی اور بدعنوانیوں کے خاتمے کے لیے قانون سازی کی۔ رعایا کے لیے جو قوانین بنائے گئے وہ قانونِ رعایا کہلائے۔ سلیمان نے اپنی غیر مسلم رعایا کے لیے جو قوانین بنائے تھے وہ اس کی رواداری اور روشن خیالی کی ایک مثال تھے۔مشہور مورخ لارڈ ایورسلے سلیمان کی قوانین سازی کے بارے میں لکھتا ہے: ’’یہ بات قابل غور ہے کہ سلیمان کو ’اعظم‘ کا لقب اس کے یورپی ہم عصروں نے دیا تھا۔ ترکی میں وہ’ القانونی‘ کے نام سے مشہور تھا۔ اس کا دور قانون کی تمام شاخوں میں کی جانے والی اصلاحات کے سبب نمایاں ہے جن کا مقصد عدل کا قیام تھا‘‘۔
سلیمان کا عہد علم وادب کے حوالے سے بھی یادگار ہے۔ سلطنت عثمانیہ کا سب سے بڑا شاعر عبدالباقی اسی دورسے تعلق رکھتا تھا۔ سلیمان اہلِ علم کا نہایت قدر دان اور خود بھی شاعراور مصنف تھا۔ اس کے علمی ذوق کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ وہ دورانِ جنگ روزمرہ کے واقعات تحریر کرتا رہتا تھا ۔ اس کے یہ روزنامچے سلطنت عثمانیہ کی تاریخ کے ایک ماخذ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
سلیمان کو تعمیرات سے بھی دل چسپی تھی ۔ اسی کے عہد میں سلیمانیہ مسجد تعمیر ہوئی جو ترکی فنِ تعمیر کا بے مثال نمونہ ہے۔ اس کے علاوہ سلیمان نے قسطنطنیہ ، بغداد، قونیہ اور دیگر شہروں میں بھی نہایت خوب صورت اور عالی شان عمارات تعمیر کرائیں۔ قسطنطنیہ میں ایک بڑی نہر بنوائی اور تمام بڑے شہروں میں ہسپتال بھی اس کے دور میں تعمیر ہوئے۔
جہاں تک سلیمان اعظم کی ذاتی زندگی کا تعلق ہے، اس کی صفات اس کی عظمت کی حامل ہیں۔ اس کی دانش مندی، منصف مزاجی، فیاضی، نرم دلی اور خوش اخلاقی ضرب المثل تھی۔ اس کی خداداد ذہنی صلاحیتیں اس کے کردار کی تکمیل تھیں۔ایڈورڈ کریسی نے سلیمان کے کردار کی عکاسی ان الفاظ میں کی ہے: ’’بطور ایک انسان وہ پرجوش اور مخلص تھا اور ہوس پرستی سے باعزت طور پر پاک تھا جس نے اس کی قوم کے بہت سے لوگوں کو بدنام کیا تھا۔ اس کی شان دار جرأت، فوجی ذہانت، اس کی اعلیٰ مہم جوئی، جو ش و ولولہ، اس کی علم و فن کی حوصلہ افزائی، فتوحات اور عقل مندانہ قانون سازی کو یاد رکھنا چاہیے‘‘۔
ایورسلے تحریر کرتا ہے: ’’ اس کی ذاتی زندگی میں کوئی تعیش نہ تھا‘‘۔ماہر ترکیات ڈاکٹر عزیر لکھتے ہیں: ’’ اس کی خانگی زندگی بالکل بے داغ تھی ۔ وہ اپنے رحم و کرم کے لیے خاص طور پر مشہور تھا۔ انصاف اس کا مخصوص شیوہ تھا اور اس کی عدالت میں نسل، رنگ اور مذہب کی کوئی تفریق نہ تھی۔ رعایا کی فلاح و بہبود اس کا مطمح نظر تھا‘‘۔ سلطان سلیمان اعظم قانونی حکومت کے فرمانروا کی حیثیت سے بھی اور اپنے کردار کے لحاظ سے بھی آنے والے حکمرانوں کے لیے ایک بہترین مثال چھوڑ کرگیا۔
آخر میں ایک اورکالم نگار اور پولیس افسر ذوالفقار احمد چیمہ کے کالم کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے۔ وہ اپنے حالیہ دورۂ ترکی کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’ترکی میں بہت سے نوجوانوں، دانش وروں، پی ایچ ڈی ڈاکٹروں اور پولیس افسروں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ عالمی حالات، سائوتھ ایشیا،پاکستان کے مسائل، دہشت گردی، ترکی کی بے مثال ترقی پر بات ہوتی رہی اور چلتے چلتے پاکستان میں دکھائے جانے والے عثمانی سلطنت اور سلطان سلیمان اور حورم پر بنائے جانے والے ڈرامے پر جاپہنچی۔ کوشش کے باوجود ڈرامے کے بارے میں مثبت راے رکھنے والا کوئی شخص نہ مل سکا۔ ہر شخص نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ کسی نے ڈرامے کو rubbish [فضول، بکواس]کسی نے nonsense [نامعقول]کہا اور زیادہ تر نے distortion of history [تاریخ کو مسخ کرنا] قرار دیا۔ ایک باخبر شخص نے بتایا کہ ڈرامے کی مصنفہ (جو وفات پاچکی ہیں) نے وصیت کی تھی کہ اسے بعد از مرگ دفنانے کے بجاے جلادیا جائے۔اس سے آپ موصوفہ کے خیالات اور اسلام اور مسلم حکمرانوں کے بارے میں ان کے جذبات کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ڈرامے میں جس طرح کی خرافات دکھائی گئی ہیں یہ عظیم الشان حکمران کی شخصیت کے ساتھ گھٹیا اور بھونڈا مذاق ہے۔ یہ تاریخ نہیں یہ صرف مصنفہ کے پراگندا ذہن کی پیداوار ہے‘‘۔ (روزنامہ جنگ، ۴ دسمبر ۲۰۱۳ء)
مقالہ نگار جامعہ کراچی ،شعبہ اسلامی تاریخ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں
اقبال کے مردِ مومن کو اگر مجسم دیکھنا ہو تو ٹیپو سلطان شہید کو دیکھا جاسکتا ہے۔ برعظیم پاک وہند کی تاریخ میں ٹیپو سلطان(۱۷۵۱-۱۷۹۹ئ) کو ایک لازوال اہمیت حاصل ہے۔ دنیا کی تاریخ بمشکل اس اولوالعزم سلطان کی نظیر پیش کر سکے گی۔ٹیپو سلطان نہ صرف ایک مردِ مجاہد تھا،بلکہ حقیقی معنوں میں اقبال کا ایک مردِ مومن تھا۔ عالم فاضل، عابد و زاہد، بہترین سپہ سالار، بہترین منتظم ، تجربہ کار سیاست دان ، غیر معمولی بصیرت رکھنے والا عوامی رہنما اور قائد۔
جس وقت عنانِ حکومت ٹیپو سلطان کے ہاتھ آئی تو اس نے دو اہم کام کیے۔ ایک جانب اپنی پوری توجہ اتحاد بین المسلمین اور اتحاد بین الاقوام ہند پر مرکوز کی ۔دوسری جانب ملک کی صنعت و حرفت پر پوری توجہ دی۔ سلطان کے یہی عزائم و ارادے تھے جس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو سلطان کا مخالف بنادیا، اور اسی مخالفت نے اس کو تمام عمر جنگوں میں مصروف رکھا۔ اس کے باوجود سلطنتِ خداداد میسور نے صنعت و حرفت اور دیگر فنون میں جو ترقی کی وہ میسور کو کبھی حاصل نہ ہوسکی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی جان چکی تھی کہ اگر ٹیپو سلطان اپنے ارادوں میں کامیاب ہوگیا تو پھر ہندستان پر ہرگز قبضہ نہیں ہوسکتا۔(محمود بنگلوری، تاریخ سلطنت خداد (میسور)ص ۱۴-۱۵)
ٹیپوسلطان کے خطرے کو ختم کرنے کے لیے انگریز، نظام اور مرہٹے سب متحد ہوگئے۔ انگریز اسے ہندستان پر اپنے اقتدارِ کامل میں سب سے بڑی، بلکہ واحد رکاوٹ سمجھتے تھے (اُردو دائرہ معارف اسلامیہ، دانش گاہِ پنجاب، لاہور، ج۶، ص ۹۸۳)۔ اس اتحاد ثلاثہ کے مقصد کو مزید کامیاب بنانے اور راے عامہ کی اخلاقی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے انگریزوں نے ٹیپو سلطان کی مفروضہ چیرہ دستیوں کو اس انداز میں دور تک پہنچادیا کہ خود اپنے بھی اس سے نفرت کرنے لگے ۔ فورٹ ولیم کی دیواروں پر کھڑے ہوکر اعلان کردیا گیا کہ ٹیپوسلطان سفاکی میں چنگیز خان اور ہلاکو سے کہیں زیادہ ہے۔(باری علیگ، کمپنی کی حکومت، طیب پبلشرز، لاہور، ص ۱۲۹ )
ٹیپو سلطان کی شہادت اور سلطنت خداداد کے زوال کے بعد انگریزوں کے مقابلے کے لیے کوئی بڑی طاقت نہیں رہ گئی تھی۔ ان کے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں ٹیپو سلطان ہی سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔ اس کی شہاد ت کے بعد ہی ان کی زبان سے پہلی دفعہ یہ معنی خیز جملہ نکلا کہ ’’آج سے ہندستان ہمارا ہے۔‘‘ (محمد الیاس ندوی، سیرت ٹیپو سلطان شہید، ص ۴۲۶-۴۲۷)
حیرت ہوتی ہے کہ جس فرماں رو ا کی زندگی کا ایک ایک لمحہ شہزادگی سے شہادت تک مسلسل خوف ناک لڑائیوں میں گزرا، اسے ان معاملات پر توجہ دینے کا وقت کیوں کر ملتا تھا۔ حق یہ ہے کہ سلطان حکومت کو خدا کی طرف سے امانت سمجھتا تھا اور اس امانت کا حق ادا کرنے کی جیسی عملی مثال اس نے پیش کی، اس کی نظیریں بہت کم ملیں گی۔(اُردو دائرہ معارف اسلامیہ، ج۶ ، ص ۹۹۴)
ٹیپو سلطان نے تخت نشینی کے بعداپنی رعایا کے نام جو پہلا سرکاری فرمان جاری کیا اس میں بلاتفریقِ مذہب و ملت اپنی رعایا کی اخلاقی اصلاح، ان کی خوشحالی ، معاشی و سیاسی ترقی، عدل و انصاف ، جاگیرداروں اور زمین داروں کے ظلم وستم سے نجات ، مذہبی و لسانی و طبقاتی عصبیت کا خاتمہ ، اور دفاع وطن کے لیے جان کی بازی لگادینے کا عزم کیا (محمد الیاس ندوی، سیرت ٹیپو سلطان شہید،ص ۱۸۰)۔ ملک کے قدیم طرز حکمرانی کو یکسر بدل دیا۔سلطنت کے امور میں عوام کو زیادہ سے زیادہ حصہ دینے کے لیے کوشاں رہا۔ اس نے جمہوری تقاضوں کے پیش نظر ایک مجلس شوریٰ قائم کی جس کا نام ’مجلس غم نباشد‘تھا۔
ٹیپوسلطان نے تخت نشین ہونے کے بعد دو نئے آئین بنائے۔ ایک فوج کے لیے جس کا نام ’فتح المجاہدین‘ تھا، اور دوسرا عوام کے لیے جس کا نام ’ملکی آئین ‘ تھا (محمود بنگلوری،ٹیپو سلطان، لاہور، ص۷۶)۔ سرنگا پٹم میں جامع الامور کے نام سے ایک یونی ورسٹی قائم کی جہاں بیک وقت دینی و دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم دی جاتی تھی ۔ حکومت کی طرف سے مختلف علوم و فنون کے ماہرین کو بھاری مشاہرے پر یہاں مقرر کیا گیا تھا ۔( سیرت ٹیپو سلطان شہید،ص ۲۲۸ )
ٹیپو سلطان کو جدت و اختراعات کا خاص شوق تھا۔کئی شہروں کے نام بدل ڈالے، مثلاً بنگلور کا نام دارالسرور، کالی کٹ کا اسلام آباد، میسور کا نظر آباد ، اور مینگلور کا جمال آباد رکھا۔ وزن اور پیمانوں کے نام بھی تبدیل کیے۔نیا روپیہ جاری کیااور مختلف نسبتوں سے ان کے نام رکھے، مثلاً احمدی، صدیقی، فاروقی، حیدری وغیرہ(اُردو دائرہ معارف اسلامیہ، ج۶، ص ۹۸۶)۔ نئی وضع کی بندوقیں اور توپیں بنوائیںاور ایسی ڈھالیں تیار کرائیں جن پر تیر یا گولی کا اثر نہیں ہوتا تھا(ایضاً، ص ۹۹۳)۔ جرائم کی بیخ کنی کے لیے ایک نئے طرز کی سزاسوچی۔ ہر مجرم کو اس کے جرم کی مناسبت سے ایک درخت اگانے کا حکم دیا۔ معمولی جرم کے لیے ایسا درخت تجویز پاتا جس کے لیے کم محنت و مہلت درکار ہوتی اور سنگین جرم کے لیے ایسا درخت اگانے کی ذمہ داری، جس کے لیے کافی محنت و مہلت درکار ہوتی۔ سلطان معمولی سے معمولی مسئلے میں بھی پور ی توجہ ظاہر کرتا تھا۔ علوم و فنون ، طب ، تجارت، معاملات مذہبی ، تعمیر، فوجی محکمات اور بے شمار دوسرے امور پر سلطان یکساں مہارت سے قطعی راے دیتا تھا۔(سید امجد علی اشہری ، ٹیپو سلطان، دہلی، ص ۱۵۲)
ہندستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ٹیپو سلطان نے مردم شماری کرائی۔پنچایت راج کی بنیاد رکھی۔ اسی کے حکم سے فرانسیسی ماہرین نے پانی سے چلنے والا ایک ایسا انجن تیار کیا جس سے توپوں میں بآسانی سوراخ کیا جاسکتا تھا۔ دنیا میں میزائیل ایجاد کرنے کا سہرا بھی اسی کے سر تھا، حتیٰ کہ امریکیوں نے بھی اس کو راکٹ کے بانیوںمیں شمار کیا ہے۔ وہ جب بھی اپنی سلطنت کے کسی کارخانے میں جاتا تو نئے طرز یا جدید انداز کی کوئی چیز بنانے کا حکم ضرور دیتا۔(الیاس ندوی، سیرت ٹیپو سلطان شہید،ص ۵۲۵ )
ٹیپو سلطان نے ہر ہر شہر، قصبے اور قلعے کے چار دروازے مقرر کیے، جہاں پہرے دار مقرر کیے کہ ملک میںبغیر اطلاع و اجازت کوئی آنے نہ پائے اور ہر مقام کی رُودادپر فوری اطلاع کا انتظام کیا گیا(سید امجد علی اشہری ، ٹیپو سلطان،ص۷۶)۔ جس مقام پر چوری ہوجاتی، وہاں کے پولیس افسر کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جاتا۔ اگر مجرم گرفتار نہ ہوسکتا تو پولیس افسران کی تنخواہ سے اس کی تلافی کی جاتی۔ ان مقامات پر جہاں ڈاکوئوں کے حملے کا خطرہ رہتا تھا ، وہاں کے رہنے والوں کو آتشیں اسلحہ رکھنے کی عام اجازت دی جاتی۔عدل و انصاف کا یہ عالم تھا کہ ہر شہر میں قاضی اور ہر گائوں میں پنچائت مقدموں کا فیصلہ کرتی۔ اگر فریقین میں سے کسی ایک کو ابتدائی عدالتوں کے فیصلہ پر شک ہوتا تو مقدمہ صدر عدالت (ہائی کورٹ) میں دائر کیا جاتا۔ سلطان نے افسرانِ ضلع کے نام حکم جاری کررکھا تھا کہ وہ ہر سال سرنگا پٹم (دارالحکومت) میں جمع ہوکر انتظامی امور کے متعلق مشورہ کیا کریں۔(باری علیگ، کمپنی کی حکومت،ص ۱۸۵- ۱۸۶)
ٹیپو سلطان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ اردو اخبار کا بانی تھا۔ ۱۷۹۴ء میں اس نے اپنی ذاتی نگرانی و سرپرستی میں ایک ہفت روزہ جاری کیا ۔ اس میں سلطنت کے مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے سپاہیوں کے نام سلطان کی ہدایات شائع ہوتی تھیں۔ یہ ہفت روزہ سلطان کی شہادت تک مسلسل پانچ سال پابندی سے شائع ہوتا رہا۔(سیرت ٹیپو سلطان شہید، ص۲۹۵)
اقتصادی مسائل پر قابو پانے کے بعدٹیپو سلطان نے ایک نئی تجارتی پالیسی وضع کی جس کے تحت بیرونی ممالک ایران، ترکی اور حجاز وغیرہ سے مسلم تاجروں کو سلطنت خداداد میںآکر تجارت کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے خصوصی رعایتوں سے نوازا گیا۔ خود حکومت کی زیرسرپرستی ایک بڑی تجارتی کمپنی بھی قائم کی گئی جس میں اس کی رعایا میں سے ہر کوئی بلاتفریق مذہب اپنا سرمایہ لگا کر نفع و نقصان کے اسلامی اصولوں کی بنیاد پر شریک ہوسکتا تھا(ایضاً، ص ۲۸۷)۔ وسط ایشیائی ریاست آرمینیہ سے غیر ملکی تاجروں کو میسور کی حدود میں لاکر بسایا گیا۔میسور سامان تجارت لانے والے چینی سوداگروں کو ملیبار کے ڈاکو تنگ کرتے تھے۔ سلطان نے ان کی حفاظت کے لیے کئی جہاز مقرر کردیے(ایضاً، ص ۵۶۴)۔ سلطان کی ان کوششوں کے نتیجے میں سلطنت خداداد میں تجارت اور صنعت و حرفت نے بہت زیادہ ترقی کی۔
سلطان نے جہاں جاگیرداری کو ختم کیا ، وہاں سرمایہ داری کے خاتمے کے لیے بھی اقدامات کیے۔ تمام سلطنت میں، رعایا، تاجروں اور کاشت کاروں کے لیے بنک جاری کیے۔ ان میں خاص بات یہ تھی کہ غریب طبقے اور چھوٹے سرمایہ داروں کو زیادہ منافع دیا جاتا تھا(کمپنی کی حکومت، ص۱۸۶)۔ ان تمام اصلاحات اور سلطان کی جدوجہد کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندستان کے تمام علاقوں میں میسور سب سے زیادہ خوش حال اور سرسبزو شاداب علاقہ ہوگیا۔ میسور کی تیسری جنگ میں انگریز جب اس علاقے میںداخل ہوئے تو ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ (ٹیپو سلطان، ص ۷۷)
رفت سلطاں زیں سراے ہفت روز
نوبتِ او در دکن باقی ہنوز
ایک زمانہ تھا کہ تقسیم ہند سے قبل کسی نوجوان کے لیے سب سے اعلیٰ اور قابل رشک مقام آئی سی ایس (انڈین سول سروس) میں داخل ہونا تھا۔ یہی وہ طبقہ تھا جو دراصل ہندستان پر حکومت کررہا تھا۔علامہ عبداللہ یوسف علی اور مولانا محمد علی جوہر تقریباً ایک دوسرے کے ہمعصر تھے۔ مولانا محمد علی جوہر کی بھی خواہش تھی کہ وہ آئی سی ایس آفیسر بنیں لیکن وہ امتحان میں کامیاب نہیں ہوئے۔ حال ہی میں شائع ہونے والی عبداللہ یوسف علی کی سوانح حیات (Searching for Solace) کے مصنف ایم اے شریف نے اس بارے میں لکھاہے : ’’وجہ یہ تھی کہ انڈین ہسٹری جیسے مضامین کے پرچے میں ایسے سوال شامل کیے جاتے تھے جن سے امیدواروں کے ذہنی رویوں اور جذباتی تعلق کا اندازہ لگایا جاسکے۔ اس طرح امیدواروں کے بارے میں یہ جانچنے کا موقع مل جاتا تھا کہ آیا وہ برطانوی راج کے وفادار بن سکتے ہیں یا نہیں، مثلاً ’’بتائیے آپ ٹیپو سلطان کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟‘‘ جیسا سوال، جو برٹش انڈیا کی ہسٹری کے پرچہ میں۱۸۹۵ء میں پوچھا گیا تھا ، بڑی آسانی سے یہ بات سامنے لے آتا تھا کہ امتحان میں شریک امیدوار کس حد تک اس مسلم حکمران کی ان کارروائیوں کی تائید کرتا ہے جو اس نے برطانیہ کے خلاف کی تھیں‘‘۔(سکون کی تلاش مترجم: زبیر بن عمر ، ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد، ص۵۰ )
درج بالا اقتباس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت برطانیہ ٹیپو سلطان سے کس حد تک خوف زدہ تھی۔ ساتھ ہی حکومت برطانیہ کے تعصب اور تنگ نظری کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔ یہ دل چسپ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ ٹیپو سلطان کی شخصیت وہ پیمانہ ہے جس پر انگریز اپنے وفاداروں کا انتخاب کیا کرتے تھے۔دوستوں اور دشمنوں کو جانچا کرتے تھے۔کسی نے خوب کہا ہے کہ کچھ برگزیدہ شہید ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی آزمایش ، عقوبتِ مطّہرہ اور شہادتِ عظمیٰ ان کی موت کے ساتھ ختم نہیں ہوتی ۔ربِّ جلیل انھیں شہادتِ جاریہ کی سعادت سے سرفراز فرماتا ہے۔
مقالہ نگار شعبہ اسلامی تاریخ، جامعہ کراچی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ ای-میل: sascom7@yahoo.com