جماعت اسلامی از اول تا آخر ایک دینی و فکری تحریک ہے جس کی عمارت اس کی تنظیم اور تربیتی نظام پر کھڑی ہے۔ اقامت دین کی تحریک ہونے کی وجہ سے بدرجۂ اولیٰ یہ اس کی ذمہ داری قرارپاتی ہے کہ جو لوگ اس کے ساتھ چل رہے ہیں، ان کے تزکیۂ نفس کے لیے اور زندگی کے تمام گوشوں کو روشن اور منور رکھنے اور انھیں اندھیروں سے بچانے کے لیے ان کی تربیت کاخصوصی اہتمام و انتظام کرے۔ انبیاے کرام ؑکا مشن بھی اصلاً تزکیۂ نفس ہی تھا اور اسلامی تحریکیں معاشرے کے اندر جو انقلاب لانا چاہتی ہیں اس کا مقصود بھی یہی ہے۔اگرچہ اجتماعی دائرے کا انقلاب زندگی کے تمام دائروں پر محیط ہوتاہے لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک فرد کی اصلاح ، اور اس کے اندر انقلابیت، یعنی ایثارو قربانی اور اپنے آپ کی نفی کرتے ہوئے معاشرے کا اثبات کرنے کی صلاحیت موجود نہ ہو۔ اسلامی تحریکیں معاشرے کے اندر نئے انسان اور رویے پیدا کرتی ہیں، پرانے انسانوں کے ہیولے سے نئے انسان جنم لیتے ہیں،اور ان نئے انسانوں سے ایک نیا معاشرہ ترتیب و تشکیل پاتا ہے۔
پرانے انسان سے نئے انسان کیسے وجود میں آتے ہیں؟ اس کی سب سے بہترین مثال تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے کردار سے سامنے آتی ہے۔ حضرت عمرفاروق ؓ کے قبول اسلام کا واقعہ تو مشہور و معروف ہے کہ کس طرح گھر سے نعوذباللہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے ارادے سے نکلتے ہیں مگر آیات قرآنی کی تلاوت سنتے ہی دل کی دنیا تبدیل ہو جاتی ہے۔ اسی طرح حضرت عمرو بن العاصؓ فرماتے ہیں کہ میری زندگی کے دو ادوار ہیں۔ ایک وہ دورکہ جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کانام تک سننا بھی گوارا نہ تھا، اور حضوؐرکا نام سننا بھی طبیعت پر بوجھ تھا،کبھی کبھی جس کو اتارنے کو دل چاہتا تھا، جب کہ دوسرا دور وہ ہے کہ جس میں میری محبوب ترین ہستی اگر کوئی تھی تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی تھی۔ آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر نشست میں شریک ہوتا تھا اور قدرے فاصلے پر بیٹھتا تھا ۔ کبھی آپؐ کو آنکھ بھر کے دیکھا نہ جی بھر کے، اس لیے کہ نگاہیں آپؐ کے چہرے پر ٹھیرتی ہی نہ تھیں ۔ اگر کوئی مجھ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک کے بارے میںپوچھے تو میںنہیں بتاسکتا۔ ایک اور صحابیِ رسولؐ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں حالت ِجاہلیت میںقریش کو کوستا تھا کہ انھوں نے آپؐ کے لیے سب آزمایشیں تو کھڑی کیں لیکن جوکام کرناتھا وہ توکیا ہی نہیں، چنانچہ اپنے گھر سے ا س ارادے سے نکلا کہ آپؐ پر حملہ آور ہوجاؤں۔ گھر سے نکلا تودیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم طواف میں مصروف ہیں۔ بس موقعے کو غنیمت جانا اورخود بھی طواف میں شریک ہوگیا اور اس انتظار میں رہا کہ مناسب موقع اور وقت ہاتھ آئے توآپؐ پر وار کروں ۔اسی اثنا میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو آواز دے کر اپنے پاس بلایا۔ قریب پہنچا تو دریافت کیا کہ تمھارا کیا ارادہ ہے؟ یہ سنتے ہی میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی کہ شاید آپؐ کومعلوم ہوگیا ہے کہ میں کس ارادے سے آیا ہوں؟ لیکن اس کے باوجود میں نے عرض کیا کہ طواف کر رہاہوں، اور کوئی دوسراارادہ نہیں ہے۔ یہ سن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور اپنا دایاں ہاتھ میرے سینے پر رکھا اور ابھی ہاتھ آپؐ نے اٹھایا نہ تھا کہ دل و دماغ کے تمام بندھن کھل گئے اور اسلام کی سیدھی اور شفاف شاہراہ مجھے نظر آنے لگی۔ لمحوں میں تزکیے کی وہ کیفیت حاصل ہو گئی جو ناقابل یقین ہے۔
اس طرح کے کئی دوسرے واقعات اس بات کا پتا دیتے ہیںکہ معاشرے میں ہمیشہ ایسے انسان موجود رہیں گے جو لمحوں کے اندر اپنا پورا تزکیہ کرنے کی صلاحیت سے آراستہ و پیراستہ ہوں گے۔ معاشرے کے اندر جولوگ دعوت دین کا فریضہ انجام دیتے ہیں، یہ بات ان کے پیش نظر رہنی چاہیے کہ میدانِ دعوت میںایسے لوگ بھی ملیں گے جن پر آپ برسہا برس کام کریں گے مگر وہ آپ کا ساتھ نہ دیں گے، اور ایسے لوگ بھی ملیں گے جو لمحوں کے اندراس راہ کے راہی بن جائیں گے۔
انسان اضدادکے مجموعے کا نام ہے۔ نیکی کے جذبات کا ایک سمندر ہے جو اس کے اندر پنہاں ہے اوربدی کا ایک طوفان ہے جو اس کے اندر پناہ لیے ہوئے ہے۔ وہی انسان ہے جو نہایت خونخوار ہے اور انتقام لینے پر آئے تو سیکڑوں لوگوں کو لقمۂ اجل بنادیتا ہے، اور وہی انسان ہے جو انسانوں کی ہمدردی میں بڑے بڑے دریا اور سمندر عبور کرلیتا ہے۔ ایک ہی انسان کے اندر کئی کئی انسان موجود ہیں۔ ایک ہی انسان کئی کئی کشتیوں میں سوار، کئی کئی منزلوں کی طرف گامزن اور رواں دواں ہے ۔ان تضادات کو رفع کرنا، اسے یکسوئی اور طمانیت کی دولت سے مالا مال کرنا، اور اپنے رب سے رجوع کرنے کی دعوت دینا، فی الحقیقت تربیت ہے، تزکیۂ نفس ہے، تعمیر سیرت ہے، کردار سازی ہے ۔ اسلامی تحریکیں اپنی معیت میں چلنے والے انسانوں کی زندگی تبدیل کرنے کے لیے اس طرح کوشاں ہوتی ہیں کہ واقعی ان کی سیرت و کردار ، رویے، طور طریقے ،ذہن و فکر کے سانچے ،نکتہ ہاے نظراور زاویہ ہاے نگاہ بدل جاتے ہیں اور ایک نیا انسان وجود میں آجاتا ہے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طریقے سے لوگوں کومخاطب کیا، ساتھ ملایا ، ہم نوا بنایا، وہ ہمارے لیے تو لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ کے مصداق بہترین نمونہ ہے مگرقرآن پاک کا بھی بڑا اہم رول ہے۔ اسی لیے یزکیہم سے پہلے تلاوتِ آیات کی بات آئی ہے۔ تلاوتِ آیات کا بلاشبہہ یہ مفہوم بھی ہے کہ قرآن پاک کو خوش الحانی کے ساتھ پڑھا اور حفظ کیا جائے، لیکن تلاوتِ آیات وہ مطلوب ہے جو دل کے اندر اُتر جائے اور جس کے نتیجے میں عقائد کی اصلاح ہو، رویے تبدیل ہوں، اعمال کے اندر تبدیلی واقع ہو، اور زندگی اور اس کی ترجیحات بدل جائیں۔ جس قرآن کو پڑھنے کے نتیجے میں آدمی نہ بدلے اور’ خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں‘ کا عنوان بن جائے، ظاہر ہے کہ وہ تزکیہ اور تربیت کی تعریف میں نہیں آتا۔ قرآن پاک کے ساتھ ایک خاص قسم کے شغف کی ضرورت ہے جس کی مثال حضورنبی اکرمؐ کے اسوے میں موجود ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓروایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مسجد میں تشریف لائے، منبر پر تشریف فرماہوئے ، اور فرمایاعبداللہ مجھے قرآن سناؤ۔ میں قدرے حیران ہوا اورسوال کیا کہ حضوؐر قرآن پاک تو آپؐ پر نازل ہوا ہے، آپؐ کے ذریعے سے ہم تک پہنچا ہے ، آپؐ سے ہم نے سنا اور سمجھا ہے، میںبھلاآپؐ کوکیا قرآن سناؤں گا؟آپؐ نے فرمایا کہ نہیں عبداللہ! آج تو یہ جی چاہتا ہے کہ کوئی سنائے، اور میں سنوں۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓنے سورۃالنساء کی تلاو ت شرو ع کی، جب اس آیت پر پہنچے کہ فَکَیْفَ اِذَاجِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍم بِشَھِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰٓؤُلَآئِ شَھِیْدًاo (النساء۴:۴۱) ’’پھر سوچو کہ اس وقت یہ کیا کریں گے جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور ان لوگوں پر تمھیں گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے‘‘، تواسی دوران میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کواندازہ ہوا کہ جیسے آپؐ ہاتھ کے اشارے سے روک رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ عبداللہ ٹھیر جائو۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓنے سراُٹھا کردیکھا تو نبی اکرمؐ زارو قطار رو رہے ہیں ، اور جواب دہی کے احساس سے ریش مبارک اور آنکھیں آنسوؤں سے تر ہیں ۔
ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ نبی اکرمؐ تہجد کے وقت حالتِ قیام میں تھے، جب سورۂ ابراہیم کی اس آیت پر پہنچے: رَبِّ اِنَّھُنَّ اَضْلَلْنَ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ ج فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّہٗ مِنِّیْ وَمَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o(ابراھیم ۱۴:۳۶) ’’پروردگار ان بتوں نے بہتوں کو گمراہی میں ڈالا ہے (ممکن ہے کہ میری اولاد کو بھی یہ گمراہ کر دیں، لہٰذا ان میں سے جو) میرے طریقے پر چلے وہ میرا ہے اور جو میرے خلاف طریقہ اختیار کرے تو یقینا تُو درگزر کرنے والا مہربان ہے‘‘، تواس آیت پر رک گئے اور پڑھتے جاتے تھے، روتے جاتے تھے تاآںکہ اللہ تعالیٰ نے جبریل ؑامین کو بھیجا ۔ انھوں نے آکر سوال کیا کہ کیا ماجرا ہے ؟ آپؐ فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ نے تو اپنی اُمت کے لیے سب کچھ مانگ لیا،جو گناہ گار ہیں، ان کو مغفرت کے حوالے کر دیا جو اطاعت شعار ہیں ان کے لیے وعدے کا ذکر کیا ہے۔ان کی دعا کو پڑھتا ہوں تو اپنی امت کا خیال اور احساس مجھے ستاتا اور ڈراتا ہے۔ حضرت جبریل ؑواپس جاتے ہیں اور پھریہ خوش خبری لے کر واپس آتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپؐ کو بھی اپنی امت کے حوالے سے حضرت ابراہیم ؑ کی طرح مطمئن اور خوش کر دے گا۔ نبی اکرمؐ کے اسوے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن پاک سے شغف کا معنی اورمفہوم کیا ہے؟ اس سے تعلق کیسے جوڑا جائے، کیسے بڑھایااور برقرار رکھا جائے؟ آیات کے مفہوم سے کس طرح آشنا ہوا جائے، اور ان کے اندر جو حکم پنہاں ہے، اپنے آپ کو اس کا مصداق کیسیبنایاجائے۔
اسی طرح قرآن مجید نے ہدایت کی ہے کہ انقلاب ِامامت جیسے عظیم کام کی انجام دہی کے لیے ضروری ہے کہ صبر اور نماز سے مدد حاصل کی جائے، وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ (البقرہ۲:۴۵)۔ اسلامی تحریک کا ہر کارکن نماز کے ساتھ ایسا رشتہ استوار کرے کہ جس کے نتیجے میں نماز باجماعت پڑھنے کی ویسی حرص پیدا ہو جائے جیسے دولت و شہرت اور دنیاکی حرص ہوتی ہے اور انسان اس کے لیے پاگل ہو کر ہر جائز و ناجائزاورصحیح و غلط کام کر گزرتاہے ۔ نماز باجماعت پڑھنے کی حرص پیدا ہوگی تو طبیعتوں کے اندرسے اضمحلال دُور ہوگا، سکینت اور سکون کی کیفیت پیدا ہوگی اور ایک نیا انسان وجود میں آئے گا۔اسی طرح صبرکا معاملہ ہے۔اپنی پوری زندگی میںحق کواپنانا اور جسم و جان کو اس پر لگا دینا صبر ہے۔ حق کے معاملے میں اگرآدمی خود کسی الجھاؤ میں مبتلاہوجائے اور’ کہیں ایسا نہ ہوجائے کہیں ویسا نہ ہوجائے‘ کی گردان کرنے لگے تو وہ خود بھی کمزور پڑجاتا ہے اوراپنے اردگرد فضا کوبھی مسموم کرتا ہے۔
جماعت اسلامی بنیادی طور پر ایک فکری اور علمی تحریک ہے ۔ جو لوگ اس تحریک کے افکار و نظریات سے واقف نہیں ہیں، اس کے لٹریچر، بنیادی اصولوں اور قواعد و ضوابط سے آگاہ نہیں ہیں، وہ اس میں کچھ عرصے کے لیے فعال اور متحرک تورہ سکتے ہیں لیکن دیر تک اور دُور تک اس کے ساتھ چلنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا نہیں کرسکتے۔مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ کے مطابق جب لوگ مطالعے کے بغیر معاشرے میں متحرک دکھائی دیتے ہیںتو ان کے پاس بالآخر کہنے کے لیے کوئی مواد یا لوازمہ باقی نہیں رہ جاتا۔ اگر وہ مطالعے سے اپنا رشتہ توڑ لیتے ہیں تو جس طرح کنویں سے رفتہ رفتہ پانی کے بجاے کیچڑ نکلنے لگتا ہے، بلا مطالعہ انسان بھی اس کیفیت سے دوچار ہونے لگتے ہیں۔ ایک علمی تحریک سے وابستہ لوگ اگر مطالعے سے دُور ہوجائیں گے اور اپنے رویوں کے اندر اس کی کوئی اہمیت و مقام نہیں پائیں گے، تو ڈر ہے کہ وہ پھرایک ایسے مقام پر کھڑے ہوں گے کہ جہاں اپنی تحریک کی صحیح اور مؤثر ترجمانی نہ کرسکیں گے، اورنہ اس کو بیان کرسکیں گے کہ ہماری تحریک کیا ہے؟
جماعت اسلامی کے ہر ذمہ دار اور کارکن کے بارے میں حسن ظن کی بنیاد پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ وہ مطالعے کا خوگر ہوتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا تیزی سے تبدیل ہورہی ہے، معاشرے سے پرانی اقدار رخصت ہوتی جارہی ہیں اورنئی اقدار جنم لے رہی ہیں ۔ایسے عالم میں لوگوں کو مطالعے کی طرف متوجہ کرنا فی الحقیقت ایک مشکل کام ہے۔ اگر انسان مطالعے کا خوگر ہو جائے تو اس کے نتیجے میں ہر رطب و یابس پڑھ جاتا ہے، جو رسالہ ہاتھ آیا اس کو چٹ کر لیا، جو مضمون دیکھا اس پر اول تا آخر نظر ڈال لی۔ پڑھتے پڑھتے بالآخرانسان کے اندر ایک ذوق بھی پیدا ہونے لگتا ہے کہ وہ کوئی کتاب اٹھاتاہے، کوئی رسالہ اس کے ہاتھ آتا ہے تو چند لمحوں کے اندرورق گردانی اور اس کی سرخیاں دیکھ کر اندازہ کر لیتا ہے کہ یہ میرے کام کی چیزہے یا نہیں۔میں جن مقاصد، زندگی کے جس نصب العین، اور معاشرے کو تبدیل کرنے کے لیے جو زادِراہ جمع کررہاہوں اس میں یہ مفید اور معاون ہے یانہیں ۔ اگر مفید ہوتا ہے تو وہ اس سے پورا فائدہ اٹھاتا ہے، اور جب دیکھتا ہے کہ اس کے لیے نفع بخش نہیں ہے تو اس کو چھوڑدیتاہے۔ اس کے نتیجے میں صرف انھی چیزوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے جواس کی کارکردگی میں بہتری اور جوش و خروش اور وابستگی میں بڑھوتری کا ذریعہ بنے۔
جماعتی مجالس میں اب غیر فعال کارکن کا ذکر ہونے لگا ہے، اورکہیں کہیں ارکان کے بارے میں بھی یہی کہا جانے لگا ہے۔ غیر فعال بھی اور کارکن بھی، حالانکہ کارکن تو نام ہی میدان کے اندر موجود متحرک، فعال اور بیدار شخصیت کا ہے۔ یہ متضاد اصطلاح اس لیے سنائی دیتی ہے کہ بہت سے لوگ ہنگامی طور پر بہت کام کرتے ہیں جس کی قدر کرنی چاہیے،اور بعض اوقات وہ معمول کے کارکن سے زیادہ حصہ بٹاتے ہیں اور بڑے پیمانے پر پرجوش اور متحرک دکھائی دیتے ہیںاور کچھ کرگزرنے کی صلاحیت سے آراستہ و پیراستہ ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ایسے غیر فعال کا رکنوں کی ایک فہرست بنائی جائے جنھوں نے ہنگامی طور پر بہت کام کیا مگر جماعت اسلامی ان کے جسم و جان اور ان کی سوچ و فکر کے اندراُتار ی نہ جا سکی، تو اس کی بڑی وجہ یہی نظر آئے گی کہ وہ بنیادی لٹریچر جو فی الحقیقت جماعت اسلامی جیسی انقلابی تحریک کی اساس ہے، اس کے مطالعے کی طرف ان کی طبیعت کو مائل نہ کیا جا سکا اور وہ اس فکر کو حرزِ جاں نہ بنا سکے جو جماعت اسلامی کی بنیاد ہے۔
جماعت اسلامی کی تنظیم میںضلع سب سے اہم اکائی ہے۔ اس کی فعالیت ،سرگرم اور پُرجوش ہونا پورے ملک کے اندر جماعت کی تنظیم کا متحرک ہونا شمار ہوتا ہے ۔اس کی اچھائیاں اور خوبیاں پورے ملک کے اندر جماعت کی اچھائیاں اور خوبیاں تصور کی جاتی ہیں، اوراس کی کمزوری اور کوتاہی پوری جماعت کی کمزوری اور کوتاہی کے مترادف ہے۔ اضلاع کی اس اہمیت کے پیش نظر وہاں سب سے اہم کام مناسب اور سرگرم ٹیم بنانا ہے۔ جب کوئی فرد ذمہ داری کا بار اٹھاتا ہے، تو اسے اپنا ہاتھ بٹانے ، اپنی صلاحیت کی کمی کو دُور کرنے، اور اپنے بعض معاملات کو زیادہ بہتر طریقے سے انجام دینے کے لیے ایک ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ کس فرد میںکیا صلاحیت اور کیا استعداد ہے، اورکس طریقے سے وہ تنظیم اور جماعت کے کام آسکتاہے اور معاملات میں دل چسپی لے کر ہاتھ بٹاسکتا ہے۔ لیکن ٹیم کے نام پرگروہ بنا لینا، اپنے ہم نواو ہم خیال اکٹھے کر لینا، ایسے لوگوں کو جمع کرلینا جوہاں میں ہاں ملاتے ہوں،درست نہیں ہے جس سے بچنا اولیٰ ہے۔ انسانوں کی تنظیم اور اکائی میں ہمیشہ اس بات کی گنجایش رہی ہے کہ اس حوالے سے کوئی کمزوری اپنا راستہ بنالے لیکن اگر ذمہ داران جماعت اپنے رویوں پر از سر نو غورکریں اور تنظیم کواس حوالے سے صاف اور روشن بنادیں، تو پھر لوگوں کے لیے کام کرنا آسان اور سہل بھی ہوجائے گا اوران کے ذوق و شوق میں بھی اضافہ ہوگا، نیز بہترین صلاحیت کے حامل ساتھی قیادت کی ذمہ داریاں ادا کرسکیں گے۔
بطور تنظیم، جماعت اسلامی کی ایک کمزوری حالیہ انتخابات میں ایک دفعہ پھر ظاہر ہوئی ہے۔ جماعت کے پاس کارکنان اوراس کے جلو میں چلنے والے لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ فہم قرآن کے اجتماعات میں ۵۰،۶۰ ہزار لوگ آتے ہیں اور بڑے شوق سے جماعت کی دعوت اور ذمہ داران کی گفتگو سنتے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں جہاں خواتین کے ووٹ دینے نہ دینے کی بحث ہوتی ہے اور جہاں لوگ عورتوں کو گھروں سے باہر نہیںجانے دیتے، وہاں فہم قرآن کے اجتماعات میں ہزارہا ہزار خواتین شامل ہوتی ہیں،اوررات کے وقت بھی شریک ہوتی ہیں اور دن کو بھی، کیونکہ لوگ اس کو ثواب اور دین کاکام سمجھتے ہیں۔ جماعت نے ہزارہا ہزار بلکہ لاکھوں لوگوں کو پورے ملک کے اندرفہم قرآن کے حوالے سے جمع کیاہے۔ یہی معاملہ الخدمت فائونڈیشن کا ہے کہ ہم لاکھوں لوگوں تک الخدمت کے ذریعے پہنچے ہیں اور بلا تفریق مسلک و مذہب اور زبان، ان کی خدمت کی ہے۔ان دونوں صورتوں میں رجوع کرنے والوں کو ووٹ کی صورت میں تبدیل نہیں کیا جا سکا۔یہ اگر ووٹر نہیں بن سکے تو اس میں ان کے بجاے تنظیم اور اس کے کارکنوں کی کمزوری کا دخل ہے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ اجتماعات میں لاکھوں لوگ شریک ہوتے ہیں ، جماعت اور اس کی قیادت سے عقیدت کا اظہار کرتے ہیں مگر ووٹر نہیں بن پاتے ۔ انتخابات سے پہلے کے تین مہینوں میں جماعت نے جگہ جگہ بڑے بڑے جلسے کیے، ان میںحاضری کی کوئی کمی نہیں ہوتی تھی۔لیکن وقت اور حالات نے بتایاکہ ان جلسوں میں آنے والے لوگ جنھوں نے اپناوقت اور پیسہ صرف کرکے ہمارا موقف سنا، مقررین اور انتخابی نمایندوں کودیکھا ، اس پر قائل نہ ہو سکے کہ ووٹ بھی ہمیں دیں۔اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ رابطۂ عوام میں تسلسل نہیںہے ۔ ایک رابطے کے ذریعے لوگ اجتماعات میں آجاتے ہیں،سیلاب و زلزلہ زدہ علاقوں میں ہماری خدمات سے فائدہ اٹھاتے ہیں، تعلیم و صحت اور معاشرتی فلاح و بہبود کے کاموں میں ہم سے مستفید ہوتے ہیں،مگر جماعت کا کارکن انھیں اس درجہ ہم نوا نہیں بنا پاتا کہ بالآخر وہ ہمارا ووٹر بھی بن جائے۔ نچلی سطح تک اس موضوع کو زیر بحث لانا چاہیے کہ ہماری تعریف کرنے والے اورمعاشرے میں ہمارے ہم نوا لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ہمارے موقف سے اتفاق کرنے والے بھی بہت بڑی تعداد میں ہیں اور ہمیں پسند کرنے اور ہمارے حق میں دعائیں کرنے والے بھی کم نہیں ہیں، اگر یہ سب لوگ ووٹر بن جائیں تو وہ انقلاب جو بہت دُور نظر آتا ہے بہت پہلے برپاہوسکتا ہے۔
آنے والے بلدیاتی انتخابات پھر اس کا موقع فراہم کرنے والے ہیں کہ جماعت اسلامی کی تنظیم اور کارکن بہتر حکمت عملی کے ساتھ میدان میں آئے اور اس حمایت کو سیاسی قوت میں بدلنے کی بھرپور کوشش کرے۔ سیاسی و بلدیاتی دائرے کے اندر فعال ہونا کئی حوالوں سے جماعت کی بھی ضرورت ہے اور عوام کی بھی۔اس میں کم سے کم کامیابی پیش نظر رہنی چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ جہاں پانچ سیٹوں میں سے ہمیں ایک سیٹ مل سکتی ہے وہاں دو کی کوشش نہ کریں، ورنہ وہ ایک بھی ہاتھ سے جاسکتی ہے اور ماضی میں اس طرح کے تجربات سے ہم گزر چکے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات میں سب سے اہم رول اضلاع کا ہے۔ صوبوں کا رول اس میں ثانوی ہے کیونکہ ان کو معلوم نہیں کہ کس جگہ پر کیا حالات ہیں ۔ اضلاع کو یہ بات بہتر طور پرمعلوم ہے کہ کون کون سے مقامات ایسے ہیں جہاں انھیں زیادہ توجہ دینی چاہیے۔
بلدیاتی انتخاب ایک بہترین موقع ہے کہ نوجوان قیادت کو سامنے لایا جائے۔یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ نوجوان زیادہ متحرک اور پرجوش ہوتے ہیںاور کم و قت میں زیادہ کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایسے ہی نوجوان تحریکوں کے لیے سرمایہ ہوتے ہیں۔ نظم جماعت کو بلدیاتی انتخابات میںایسے نوجوانوں کو سامنے لانا چاہیے ، ان کے مشوروں اور تجاویز سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور انھیں ضروری آزادیِ عمل دینی چاہیے تاکہ وہ تحریک کے لیے بہترین نتائج دے سکیں۔ اس تناظر میں یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ نوجوانوں کا سب سے بڑا اورمنظم گروہ جماعت اسلامی کے ساتھ ہے۔ ان کا تعلق اسلامی جمعیت طلبہ سے ہو، جمعیت طلبہ عربیہ سے ہو، شباب ملی سے ہو یا کسی بھی دوسری برادرتنظیم سے۔ یہ نوجوان اس ملک کے اندر انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں۔ قرآن و سنت کی بالادستی اور شریعت کا نفاذ، حکومت الٰہیہ کا قیام اور زندگی کے تمام دائروں میں اسلام کے احکامات اور اس کی ہدایات پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔ان کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ بحیثیت ذمہ دار اور کارکن یہ کوشش کی جانی چاہیے کہ نوجوانوں کو بامقصد بنائیں، زندگی کے نصب العین کے لیے جدوجہد کرنے کا عنوان ان کے دل و دماغ میں سجائیں اور زندگی اس ملک میں جن راہوں سے گزر رہی ہے، جتنے بڑے پیمانے پر دہشت گردی ہے ، حکمرانوں کے اللے تللے، لوٹ مار اور کرپشن کے کلچر کا سامنا ہے، اس کا مقابلہ نوجوانوں کی طاقت اور صلاحیت سے ہی ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ نوجوانوں کو متحرک، فعال اور بیدار کر کے جدوجہد کاخوگر بنایا جائے۔
ویسے تو بالعموم لیکن بلدیاتی انتخابات کے پیش نظر بالخصوص ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے جماعت سے وابستہ ہر فرد کو کم از کم ملک کے سب سے بڑے صوبے کی حد تک حکمران جماعت کا منشور اپنی جیب میں رکھنا چاہیے تاکہ لوگوں کوبتایا جا سکے کہ انھوں نے اپنے منشور میں لکھا یہ تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے ،کہا یہ تھا کہ کشکول توڑ دیا ہے ،اور اپنی شرائط پر قرضہ لیں گے لیکن کام اپنے منشور سے بالکل مختلف کر رہے ہیں۔جس پارٹی کو یقین ہوکہ وہ الیکشن جیت رہی ہے تووہ اچھے ہوم ورک کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ مسلم لیگ ن کویہ معلوم تھا کہ الیکشن جیتتے ہی اسے بجٹ لانا پڑے گا اور اگر تیاری نہ ہوئی تو ٹیکسوں کی بھرمار کرنی پڑے گی۔حکومت کی پانچ ماہ کی کارکردگی سے واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ یا تو وہ منشور ہاتھی کے دانت کی مانند تھا جن کا معاملہ اس پہ ہوتا ہے کہ دکھانے کے اور کھانے کے اور ، یا دعوے کے مطابق ان کے پاس کوئی ٹیم نہیں تھی جو اس پر عمل درآمد کے لیے سوچ بچار کرتی اور کام کر کے لوگوں کو مشکلات سے بچاتی۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر قرض لینے کا مطلب ہی یہ ہے کہ بجلی و گیس کی قیمتیں بڑھتی چلی جائیں، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہواور قومی ادارے نجکاری کا شکار ہوتے چلے جائیں۔ اس تناظر میں مسلم لیگ ن کے منشور کے حوالے سے جماعت اسلامی کے ہر ذمہ دار اور کارکن کا اچھا ہوم ورک ہونا چاہیے۔ مناظرے یا جھگڑے کی کیفیت نہ ہو لیکن یہ بات فیلڈ میںبہ تکرار، بصداصرار اور ایک بار نہیں سوبار کہنی چاہیے کہ انھوں نے عوام سے جو وعدے کیے تھے، انھیں پورا نہیں کیا ہے۔
وقت نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ الیکشن سے احتساب نہیں ہوتا۔ بعض لوگ یہ کہہ کر اپنا دامن چھڑا لیتے ہیں کہ انتخاب ہی سب سے بڑا احتساب اور فیصلہ کن امر ہے، مگرمشاہدہ یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں جو آتا ہے وہ چوروں کے بادشاہ، علی بابا کا رُوپ دھار لیتا ہے اور چالیس چوروں پر سوار ہوکر حکمرانی کرتا ہے۔ عوام الناس کو یہ بتانا چاہیے کہ چوروں کو ووٹ دے کر قسمت نہیں سنور سکتی، مستقبل تابناک اور روشن نہیں ہوسکتا، حالات میں کوئی بہتری پیدا نہیں ہوسکتی۔چوروں کو ووٹ دے کر اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ چوروں کے ہاتھ کاٹے جائیں گے اورکرپٹ لوگوں کو ووٹ دے کر اگر کوئی سمجھتا ہے کہ کرپشن کا خاتمہ ہوجائے گا، تو اسے بسم اللہ کے اس گنبد سے باہر نکلنا چاہیے۔ ان بنیادی حقائق کی روشنی میں ہرصوبے میں وہاں کے حالات کے مطابق انتخابی حکمت عملی اور ووٹر کو مخاطب کرنے کے لیے صحیح بیان تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ ملکی، صوبائی اور مقامی تمام حالات اور ضرورتوں کو سامنے رکھ کر ہمیں اپنی انتخابی مہم کو مرتب اور منظم کرنا ہوگا۔
جماعت اسلامی نے زمام کار کی تبدیلی کے لیے جمہوریت اور انتخاب کا راستہ اختیار کیا ہے۔ جمہوریت کے حوالے سے عمومی طور پر دنیا بھر میں ایک قاعدہ کلیہ اور اصول بیان کیا جاتا ہے کہ جمہوریت کو چلانے کے لیے سیکولرازم اتنا ہی ضروری ہے جتنا خود جمہوریت۔ اگر سیکولرازم نہ ہو تو جمہوریت ناکام ہوجاتی ہے۔ اس لیے کہ جمہوریت کا اپناکوئی مذہب نہیں ہے کہ اکثریت تو مذہب نہیں ہواکرتی۔ اسی حوالے سے ہمارے ہاں بھی یہ بات کہی جارہی ہے کہ فیصلہ سازی شریعت کے بجاے اکثریت کے حوالے کر دی گئی ہے۔پاکستان کے تناظر میں یہ ایک بڑامغالطہ ہے۔ اسی لیے مثال دینی پڑتی ہے کہ شراب کی حرمت اوراس پر پابندی کے خلاف اگر اکثریت فیصلہ کرتی ہے توہم اسلامی جمہوریت کے قائل ہیں، اس کو تسلیم نہیں کریںگے۔ لیکن اس کو دوسرے طریقے سے بھی سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ جماعت اسلامی کی حیثیت پہلے دن سے اسٹریٹ پاور کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔ جن چیلنجوں کا مقابلہ کیا گیا اور اہداف کا حصول ممکن ہو پایا ، اور مختلف حوالوں سے پارلیمنٹ نے جو فیصلے کیے، مثلاً قرار داد مقاصداورختم نبوت، تو اس کے پیچھے ایک تحریک اور سٹریٹ پاور تھی،اوراس میں جماعت اسلامی پیش پیش تھی۔ اگر نظام مصطفیؐ کی تحریک کو لوگ سب سے مضبوط اور بڑی تحریک قرار دیتے ہیں تو اصلاً وہ اسٹریٹ پاور تھی جس نے اس کو یہاں تک پہنچایا۔ پاکستان قومی اتحاد کاقیام نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نہیں تھا۔ اس کے ابتدایئے، تمہید اور اہداف میں کہیں نظام مصطفیؐ کا ذکر نہیں ملے گالیکن کیونکہ عوامی سطح پر ایک بڑی تحریک تھی اور جماعت اسلامی ، اس کا کارکن اور اس کی تنظیم اس میں پیش پیش تھی تو وہ نظامِ مصطفی ؐؐ کی تحریک بن گئی۔اور کسی کے اندراتنا دم خم نہیں تھا کہ وہ سوال کر سکے کہ یہ نظامِ مصطفیؐ کہاں سے آگیا۔
ہم جمہوریت اس لیے چاہتے ہیں کہ حق کو حق اور باطل کو باطل کہہ سکیں۔ آنے والے دنوں میں یہ مسائل پھردرپیش ہوں گے۔ جولوگ کہتے ہیں کہ سیکولرازم کے بغیر جمہوریت اور حکومت نہیں چلتی، وہ نت نئے مسائل سامنے لاتے رہتے ہیں۔ جیسے آج کل یہ بات بہت زیر بحث ہے اور کچھ عرصے تک اسمبلیوں کے اندر آجائے گی کہ سزاے موت کوختم کردیا جائے۔ ظاہر ہے کہ یہ بات خلافِ شریعت ہے۔ جماعت اسلامی کا کارکن اس کو شریعت کے نقطۂ نظر سے میدان عمل میں لے کر آئے کہ ہمیں کسی کو مارنے سے دل چسپی نہیں ہے لیکن شریعت کی سزائوں کا تحفظ مطلوب ہے، تو بالکل ایک دینی تحریک اُٹھ کھڑی ہوگی اور پھر اس میں سزاے موت کا معاملہ ہی نہیں بلکہ پورا دینی ایجنڈا شامل ہوجائے گا۔
شریعت اور جمہوریت کے تعلق کی نسبت سے ایک بنیادی بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ پاکستان کی آبادی کا ۹۵ فی صدی مسلمان ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان رکھتا ہے اور اسے اپنی زندگی کے قانون اور ضابطے کی حیثیت سے تسلیم کرتا ہے، اور پاکستان کا دستور اس بنیاد پر قائم ہے کہ ریاست اور معاشرہ دونوں کے لیے اسلام رہنما اصول کی حیثیت رکھتا ہے اور قانون سازی کا منبع قرآن و سنت ہیں۔ شریعت کوئی باہرسے لائی جانے والی چیز نہیں بلکہ جمہور کا اصل منشا اور مقصود اور ان کے دل کی آواز ہے۔ اور یہی چیز اسلامی جمہوریت کو سیکولر جمہوریت سے ممتاز کرتی ہے کہ جمہور نے ریاستی نظامِ کار کے لیے اپنی آزاد راے سے اپنے ایمان اور جذبات کے مطابق جو دستوری فریم ورک بنا دیا ہے، اب قانون سازی اسی فریم ورک کے مطابق ہوگی اور یہی حقیقی جمہوریت کی اصل روح ہے۔ ان میں کوئی تضاد یا تناقض نہیں۔ سیکولر لابی جمہوریت کے نام پر جمہور کے اصل عقائد، احساسات، خواہشات اور تمنائوں کے برعکس ایک درآمد شدہ نظام اقدار ان پر مسلط کرنا چاہتی ہے۔ اور اگر اس کے لیے پارلیمنٹ کے ادارے کو بھی دستور کی واضح دفعات اور دستور کی اسپرٹ کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی جائے تو پھر جمہور کے لیے اپنے مقاصد اور احساسات کو مؤثر بنانے کے لیے اسٹریٹ پاور کا ہتھیار ہے، جو دنیابھر میں جمہوریت کا ایک اہم ستون تسلیم کیا جاتا ہے۔
یہ بھی جمہوریت ہی کا ایک خوش گوار پہلو ہے اور ہمارے نزدیک اس کی قبولیت کی ایک اہم وجہ بھی یہ ہے کہ اس سے ایک آزادی میسر آتی ہے اور حق کو حق کہنے اور باطل کو باطل کہنے کے عنوانات کہکشاں کی طرح دُورتک سجے نظرآتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس اعتبار سے اس کی قدر کی جانی چاہیے۔ الحمدللہ جماعت اسلامی کے پاس وہ اسٹریٹ پاور موجود ہے جو معاملات میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہے اور اس حقیقت کو ہمارے مخالف بھی تسلیم کرتے ہیں۔ یہ سٹریٹ پاور اسے برادرتنظیموں سے بھی میسرآتی ہے اور جب عوام کے مسائل سامنے آتے ہیںتوجماعت اسلامی کے نہایت بزرگ اور ضعیف کارکن بھی جو ان ہوجاتے ہیںاور جوانوں سے زیادہ تحرک اور جوش و سرگرمی کامظاہرہ کرتے ہیں۔ نیز وہ عوام بھی اس میں متحرک ہوجاتے ہیں جو الیکشن کے وقت چاہے برادریوں اور روایتی سیاسی وفاداریوں کی گرفت میں ہوں لیکن اہم قومی ایشوز پر دل کی بات کہنے اوراس کے لیے کٹ مرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔
گذشتہ دنوں لاہور میں منعقد ہونے والی اسلامی تحریکوں کی دو روزہ عالمی کانفرنس کے حوالے سے یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ تحریکات کی قیادت میں اس اعتبار سے مکمل طور پر یکسوئی پائی گئی کہ اپنے اہداف تک پہنچنے کے لیے اسلامی تحریکوں کو پُرامن جدوجہد کرنی چاہیے اور اس کے لیے جمہوری راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے شریعت کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہیے۔ کسی پر کوئی چیز تھوپ دی جائے تو وہ الگ بات ہے لیکن پر امن جدوجہد اور اپنی دعوت کی بنیاد پردل و دماغ مسخر کرکے لوگوں کو اپنا ہم نوا بنانا،انھیں اپنے جلو میں لے کر چلنا اور پھر اس کے مطابق ضروریات کو پورا کرنا چاہیے۔ کانفرنس میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جنھوں نے اپنے سیکڑوں اور ہزاروں ساتھیوں کی لاشیں اٹھائی ہیں اور اپنی آنکھوںسے جوانوں کا خون بہتے اور بوڑھوں،عورتوں اور بچوں پر ظلم ہوتے دیکھا ہے لیکن انھوں نے بھی یہ بات کہی کہ اسلامی تحریکوں کا راستہ پُر امن ہے۔
نہ شریعت بندوق کی نالی کے ذریعے قائم ہوتی ہے اور نہ امن۔ ریاست کے لیے قوت کے استعمال کا ایک مقام اور حق ہے لیکن یہ اختیار بھی حق اور ضابطے کا پابند ہے۔ لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قرآن کا واضح حکم ہے اور یہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ اور تاریخ کا سبق ہی یہ ہے کہ جو تبدیلی بندوق کے ذریعے آتی ہے، اسے باقی رکھنے کے لیے بھی بندوق ہی کی کارفرمائی ضروری ہوتی ہے اور اس طرح انسانی معاشرہ اور ریاست بندوق کے اسیر ہوکر رہ جاتے ہیں۔ یہ انسانی معاشرے کے لیے ہدایت اور اصلاح کے اس راستے کی ضد ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبیؐ کے ذریعے انسانیت کی ابدی ہدایت کے لیے ہمیں دیا ہے اور بات بھی بہت واضح ہے۔ ہماری دعوت اور تحریک پُرامن اس لیے ہے کہ جن کے پاس پیغام ہو، وہ پُرامن ذرائع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اسلام کی دعوت مقبول ہے اورقرآن و سنت پر مبنی پروگرام لوگوں کے دل کی آواز ہے۔ اگر اسلامی تحریکیں اپنے اندر، لوگوں کے دلوں پر دستک دینے کی صلاحیت پیدا کریں، اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرکے لوگوں کو اپنا ہم نوابنانے کی کوشش کریں، اور اپنے کردار سے یہ ثابت کریں کہ وہ قرآن و سنت کی فرماںروائی اور عدل و انصاف کے نظام کا نفاذ چاہتی ہیں،تو عوام الناس ان کا ساتھ دیں گے۔
نائن الیون کے بعد اہل مغرب ، مغربی تہذیب اور اس کے سرمایہ دارانہ نظام نے اسلام کو فنا کے گھاٹ اتارنے، اس کی قیادت کو چارج شیٹ کرنے اور پوری دنیاکی نگاہ میں اخلاقی طور پر اس کو گرانے اور سیاسی طور پر اس کا پوسٹ مارٹم کرنے کی جو کوشش کی ہے، اس سے اسلامی تحریکوں کو نقصان پہنچا ہے (اگر اسے نقصان کہا جائے جو اخوان کو مصر میں ہوا ہے یا افغانستان میںہوا)۔لیکن اگر بیلنس شیٹ بنائی جائے تواس نقصان کے مقابلے میں فائدہ زیادہ ہوا ہے۔ اخوان المسلمون سے لوگوں نے براء ت کاعلان نہیں کیا کہ آیندہ اس پلیٹ فارم پر نہیں آئیں گے ، بلکہ وہ جوق در جوق آ رہے ہیں، آگے بڑھ رہے ہیں اور اخوان نے پوری قیادت کے پابند سلاسل ہونے اور تنظیم پر پابندی لگنے کے باوجود تحرک اور مسلسل احتجاج کی ایک نظیر قائم کی ہے۔
یہی معاملہ بنگلہ دیش کا ہے جہاں پھانسیوں کی سزائیں سن کر لوگوں کے اندربے چینی اور اضطراب پیدا ہوا ہے،مگر جہاں جہاں اسلامی چھاترو شبر ہڑتال کی اپیل کرتی ہے وہاں مکمل ہڑتال ہوتی ہے۔ ہزاروں افراد کے پابند سلاسل کیے جانے کے باوجود گرفتاریوں کے لیے ہر جگہ درجنوں لوگ اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں۔ یہ قوت کہاں سے آئی ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ مسلسل جدوجہد ، مقصد کے ساتھ وابستگی اور اس کے لیے پیروں کو غبار آلود کرنے کا نتیجہ ہے۔ چار دانگ عالم میں بنگلہ دیش جماعت کوئی اتنی جانی پہچانی اور لوگوں کے درمیان اتنی مقبول نہیں تھی جتنی اب ہوئی ہے۔ پھانسیوں کی سزا ئیں ہوں یاجیلوں میں جانے کا معاملہ ہو، یا زخموں سے چور لوگ ہسپتالوں کے اندر موجود ہوں، ان تمام نقصانات کے باوجود یہ تحریکیں آگے بڑھی ہیں۔ ان کا راستہ روکنے کے لیے مغرب اور اس کے گماشتوں نے جتنے ہتھکنڈے استعمال کیے وہ سارے ناکارہ ہوگئے ہیں۔ وہ سارے اوزار اور ہتھیار فرسودہ قرارپائے ہیں جو اسلامی تحریکوں کو ذبح کرنے کے لیے استعمال کیے گئے۔
مغرب کی تازہ حکمت عملی یہ ہے کہ اسلامی تحریکوں کو تشدد کی طرف دھکیلا جائے اور اس بات کو ممکن بنایاجائے کہ وہ ردعمل کاشکار ہو کر انتقامی کارروائیوں کی طرف چل پڑیں۔اشتعال، غصے اور جھنجھلاہٹ کے عالم میں ان کے کارکنان سڑکوں پر آ کرمعاشرے کا نقصان کریں تاکہ اس کے نتیجے میں ان پرگرفت کرنا اورہاتھ ڈالنا آسان ہوجائے اور عوام اور ان کے درمیان بھی بے اعتمادی پیدا ہو جس کے نتیجے میں وہ عوامی تائید سے محروم ہوجائیں۔چاروں طرف سے مسلمانوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے، ان کا جینا دوبھر کیاجارہا ہے،ان سے سارے حقوق چھینے جا رہے ہیں، دیوار کے ساتھ لگاکربند گلی کا اسیر بنایا جارہا ہے، تاکہ وہ اپنا نام ہی بھول جائیںاور اپنی شناخت ہی گم کربیٹھیں ۔ کل وہ بنیاد پرست تھے، پھرمتشدد قرار پائے، اور پھر دہشت گرد ، اب کوئی اور بھی مرحلہ آجائے گا۔ بین الاقوامی سطح پر یہ بات توطے کر لی گئی ہے کہ دہشت گردی عالمی مسئلہ ہے لیکن دہشت گرد ہونے کے لیے مسلمان ہونا ضروری ہے ۔ اگر مسلمان نہیں ہے تووہ دہشت گرد نہیں ہے۔ سارے رویے اور ساری کوششیں اس کی غمازی کرتی ہیں۔ امریکا میں کئی واقعات ایسے ہوئے ہیں کہ ایک آدمی نے درجنوںلوگوں کوقتل کردیا، لیکن کبھی ایسے آدمی کودہشت گرد نہیں کہاگیا۔ اگر وہ امریکی ہے، ان کا ہم مذہب اورہم پیالہ و ہم نوالہ ہے، توکہا جاتا ہے کہ وہ نفسیاتی مریض تھا اور ردعمل میں اس نے یہ کیا،اور پھر ایک دو دن کے بعد ہی وہ خبر غائب بھی ہوجاتی ہے۔ اور اگر ایسا کرنے والا مسلمان ہے تو پہلے ہی لمحے سے بات یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ دہشت گرد نے یہ کام کیا ہے، اور پھر تبصروں اور تجزیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
اسلامی تحریکوں میں ایک بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے اور یہ خود ان تحریکات کی کامیابی کی علامت ہے ۔اسی طرح خواتین کی بھی ایک بہت بڑی تعداد ہے جو دعوت کے ابلاغ کے لیے ہر وقت بے چین اور مضطرب رہتی ہے۔ جوانوں کی جوانی اورخواتین کے قوت و طاقت سے سرشار جذبوں اور رویوں کی قدر کرتے ہوئے انھیں یہ بتانا ضروری ہے کہ اسلامی تحریکوں کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ پُرامن راستہ اپنائیں۔ دعوت و تبلیغ اور دل و دماغ کو اپیل اور مسخرکر کے اپنی قوت میں اضافہ کریں اور اپنے حالات بہتر بنانے کی کوشش کریں ۔وہ تحریکیں جوپرامن راستوں کو اپناتی ہیں، قاعدے ضابطے کا اپنے آپ کوپابند بناتی ہیں وہ دیر تک اور دُور تک چلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ بقاکے لیے تحریکوں کا پُرامن رہنا ضروری ہے۔ تشدد کا راستہ اپنانے سے مقاصد دم توڑ دیتے ہیں اور فنا کے گھاٹ اُترجاتے ہیں، اور تحریکوں کے اندر غیر مطلوب چیزیں در آتی ہیں ۔
امریکا اور مغرب کے موجودہ ہتھکنڈے ایک ہاری ہوئی جنگ جیتنے کے حیلے بہانے ہیں ، وہ جنگ جو میدان جنگ کے اندرافغانستان میں ہاری گئی ہے،وہ جنگ جو تہذیب وتمدن ، معاشرت اور خاندانی نظام اور اخلاقیات کے دائرے میں الحمدللہ مسلمانوں نے بڑی حد تک جیتی ہے، اس فتح کو چھین لینے اور اس کو فراموش کردینے کی تمام تدبیریں کی جا رہی ہیں۔ یہ ہمارے شوق کی بات نہیں کہ امریکا کو للکارا جائے اور اسے دیس نکالا دینے کی بات کی جائے۔ ہمیں امریکا سے کسی خاص سطح پرکوئی دشمنی بھی نہیں ہے اور امریکا میں بسنے والے کروڑوںلوگوں سے بھی کوئی اختلاف نہیں ہے ۔مگر ہمارے تہذیب و تمدن سے انکار ،اور اپنے رویوں اوراقدامات پر غیر ضروری اصرار کے ذریعے مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک وہ کرتے آئے ہیں اور آج بھی کر رہے ہیں، ہمیں دراصل اس سے اختلاف ہے۔ حالات سے اسی واقفیت کے نتیجے میں جماعت اسلامی اپنی پالیسیاں بناتی اور ’گوامریکا گو‘ تحریک چلاتی ہے جو دراصل ایک نظریاتی اور تہذیبی کش مکش کی علامت ہے۔
اس تناظر میں جماعت کے ذمہ داران اور کارکنان کو غورو فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ اگلے سال کے اوائل میں امریکی فوجوں کو افغانستان سے جانا ہے(اگرچہ امریکا یہ اعلان کر رہا ہے کہ اس کی چند ہزار فوج افغان قیادت کے تحفظ کے لیے تربیت کے نام پر افغانستان میں رہے گی)۔ امریکا کے جانے کے بعدجو بھی امریکا کی پسند کے حکمرانوں کا تحفظ کرے گا، اس کا حشر اس سے بھی زیادہ برا ہوگا جتنا امریکا کے ہوتے ہوئے ہوا ہے۔اس بات کی اہمیت کو سمجھنا اور عوام الناس تک پہنچانا چاہیے کہ خطے پر امریکی اور ناٹو فورسز کا قبضہ صرف اس لیے نہیں ہے کہ اس خطے کے وسائل پر نظر رکھی جائے،اور ان کو بالآخرامریکی خواہش کے مطابق قابو میں لایا جائے، بلکہ یہ خطہ پوری دنیا میں سب سے اہم خطہ ہے کیونکہ یہاں امریکا کے نئے عالمی نظام کی سب سے زیادہ مزاحمت ہے۔یہاں پاکستان، ایران اور افغانستان موجود ہیں، اور متحرک اسلامی تحریکیں موجود ہیں۔ یہاں چین ہے، مزاحمت کرتی ہوئی وسطی ایشیا کی ریاستیں ہیں۔
ایران کے حوالے سے یہاں ایک بات محض افہام و تفہیم کے لیے کہنی ضروری ہے اور اسی بنیاد پر ہم اپنے ارباب حل و عقد سے یہ بات کہتے ہیں کہ امریکا کی اہمیت کے پیش نظرہم اس سے لڑائی نہیں لڑنا چاہتے،اس کی دشمنی نہیں مول لینا چاہتے،لیکن اس پوری پالیسی پر نظرثانی کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ امریکا کے ساتھ ہمارے تعلقات کی نوعیت کیا ہونی چاہیے؟ ایران کی صورت میں ایک مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔ پچھلے ۱۲ سال میں عراق اور افغانستان کے بارے میں امریکا اور ایران کی پالیسیاں ایک جیسی ہیں،اگرچہ ابھی یہ طے کرنا مشکل ہے کہ اس میں زیادہ فائدہ کس کو ہوا ہے؟عراق میں سنی حکومت کے بدلے میں شیعہ حکومت قائم ہوگئی ہے۔ افغانستان میں ایک دیوبندی یا مذہبی حکومت تھی، اس حکومت کو ہٹا یا گیا تو ایران کے مقاصد پورے ہوئے۔ گویا ایران اور امریکا نے یہ بتائے بغیر کہ دونوں ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں، اپنی خارجہ پالیسی کو اس طریقے سے ترتیب و تشکیل دیا کہ ایک نے دوسرے کو فائدہ پہنچایا اوردونوں نے اپنے دشمن کو نقصان پہنچایا ۔ پاکستان کو بھی امریکا کے ساتھ اپنے فوائد سمیٹنے،اہداف حاصل کرنے اور اپنی ترجیحات کے مطابق معاملات طے کرنے کے لیے ایک نئی خارجہ پالیسی وضع کرنے کی ضرورت ہے ۔ آزاد خارجہ پالیسی وہی ہوتی ہے جو قومی مقاصد کی آبیاری کرے اورملک و ملت کے لیے سودمند ثابت ہو۔ پاکستان ابھی تک اس خطے میں اس خارجہ پالیسی پر عمل کر رہا ہے جو دراصل امریکی مفادات کی نگران ہے اور امریکی ترجیحات کے مطابق کام کرتی ہے۔
یہ بات درست ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت نے آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی ہے۔ اس کا مشترکہ اعلامیہ سامنے آیا ہے اور اتفاق راے سے فیصلے ہوئے ہیں لیکن اس میں بنیادی بات یہی ہے کہ دہشت گردی کا آغاز تو ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے ہوا ہے۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جس جنگ کا حصے دار بنا ہواہے اور ضرورت سے زیادہ جس میں دل چسپی لے رہاہے، اگرماضی کی طرح ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں پاکستان کا یہ کردار جاری رہتا ہے، امریکا کے ساتھ انٹیلی جنس شیئر کرتے ہیں، ڈرون حملوں کو برداشت کرتے ہیں جو وار آن ٹیرر کاہی ایک عکس ہیں۔ اس کے لیے امریکا کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کی جاتی ہے ، حساس ائیرپورٹ اس کے حوالے کیے جاتے ہیں، انٹیلی جنس شیئر کی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پہلے ڈرون حملے پاکستان کی سرزمین سے ہوتے تھے، اب باہر سے ہو رہے ہیں، مگر یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کسی معاونت کے بغیر یہ حملے باہر سے ہوسکیں۔ باہر بیٹھ کر یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ کہاں حملہ کرناہے جب تک کہ مقامی طور پر انٹیلی جنس فراہم نہ کی جائے۔دہشت گردی کے اس مسئلے کو آل پارٹیز کانفرنس جس حدتک ایڈریس کرسکتی تھی اس نے کیا ہے اور یہ بات کہنے کی کوشش کی ہے کہ ڈرون حملے ختم کیے جائیں اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے جان چھڑائی جائے۔ اگر یہ دونوں کام نہیں ہوپاتے بلکہ ایک کام نہیں ہوپاتا تو دوسرا بھی نہیں ہوگا اور دوسرا نہیں ہوگا تو دہشت گردی کی ایک فضا موجودرہے گی۔
اس مسئلے کو اس تناظر میں بھی دیکھنا چاہیے کہ مغربی قوتوں اور بھارت کا اس پر اتفاق ہے کہ پاکستان میں انارکی و اشتعال کی فضاپیدا کر کے ایک ناکام ریاست کی صورت پیدا کی جائے، اورانتشار کویہاں تک پہنچادیاجائے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرا م کے غلط اور غیر ذمہ دار ہاتھوں میں جانے کا واویلا کر کے اسے بین الاقوامی کنڑول میں لینے کی کوشش کی جائے ۔ملک بھر میں جگہ جگہ جوحملے ہو رہے ہیں، ممکن نہیں ہے کہ سارے مقامی لوگ ہی کررہے ہوں ۔خودآئی ایس آئی اور ایف سی کے عہدیدار اور موجودہ و سابق حکمران یہ بیانات دے چکے ہیں کہ افغانستان میں بیٹھ کر بھارت،بلوچستان میں پیسہ اورہتھیار کی تقسیم کے ذریعے پاکستان کو غیر مستحکم کر رہا ہے ۔
بھارت کے حوالے سے خارجہ پالیسی میں ایک نئی اپروچ اختیار کرنے کی ضرورت تھی لیکن حکومت اس حوالے سے بھی قومی توقعات پر پورا نہیں اتری ہے۔ میاں نوازشریف بھارت کو پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دینے کے لیے بے چین اور مضطرب ہیں ۔ بھارت کے ساتھ دوستی کے بیانات دے کر اپنے دل و دماغ کی تشفی کرتے اور کشمیریوں کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہیں ۔ بھارت سے دوستی کا راگ الاپنا کشمیریوں کے ساتھ دشمنی کا اعلان کرنے کے مترداف ہے۔ حکمرانوں کی بھارت کے ساتھ وارفتگی کا یہ عالم اس کے باوجود ہے کہ پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دینے اور تجارت کے نتیجے میں پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ بھارت کی سرحد افغانستان سے نہیں ملتی اور جو کارروائی وہ سرحد کے ہونے سے کرسکتا ہے اس سے محروم ہے، یہ درجہ ملنے کے بعد پاکستان کے اندراس کی دخل اندازی میں اضافہ ہوجائے گا۔ وہ افغانستان میں بیٹھ کر افغانستان کو بھی کنٹرول کرنا چاہے گا اور چین کوبھی اس کی حدود میں رکھنے کے منصوبے پر عمل کرے گا۔
بھارتی صدر، وزیراعظم اورفوجی جرنیل مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ بھارت کے اندر دہشت گردی آسمان سے نہیں ٹپکتی بلکہ پاکستان سے آتی ہے۔ حکومت ِ پاکستان نے اس طرح کے الزامات پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ کوئی یاد نہیں دلاتا کہ بھارت دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو دہشت گردی کے اندر خود کفیل ہے اور اسے باہر سے کسی دہشت گرد یا دہشت گردی کی ضرورت نہیں ہے۔ بھارت میںدرجنوں علیحدگی کی مسلح تحریکیں چل رہی ہیںجوپوری کی پوری ٹرین اغوا کر لیتی ہیں۔ ایسے واقعات جن میں انگلی پاکستان کی طرف اٹھائی جاتی ہے، ان کے بارے میں بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ساراان کا اپنا کیا دھرا ہے، چاہے وہ سمجھوتا ایکسپریس کا معاملہ ہو یا بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کا۔ خود ان کے اپنے لوگ گواہی دیتے ہیں کہ پاکستان کو مورد الزام ٹھیرانے اور اس پردہشت گردی کا ملبہ گرانے کے لیے یہ کام ہم نے کیا ہے۔ پاکستان کو مذاکرات کی میز پر یہ بات کرنی چاہیے کہ دہشت گردی بھارت کے اندربھی بھارت ہی سے ہوتی ہے اورپاکستان بھی اس کی ریاستی دہشت گردی کا شکار ہے۔ جہاں ایک وزیراعلیٰ اور مستقبل میں وزارت عظمیٰ کا دعوے دارمسلمانوں کا قتل عام کرتا ہے، وہاں دہشت گردوں کی کمی نہیں ہے۔ دنیا بھر میں اقلیتیں اتنی غیر محفوظ نہیں ہیں جتنی بھارت میں ہیں، چاہے وہ پارسی اور عیسائی ہوں یا سکھ اور مسلمان۔ وہ تہہ تیغ کیے جاتے ہیں، مستقبل سے نااُمید اور مایوس کیے جاتے ہیں اور زندگی کے تمام دائروں کے اندر دیوار سے لگائے جاتے ہیں۔
بھارت کے ساتھ اس کی زبان میں بات کرنے کے بجاے میاں نوازشریف اور حکومت پاکستان نے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ سے ملاقات کے لیے منت سماجت کا رویہ اختیار کیا، جس کی وجہ سے من موہن سنگھ کوبرتری و بالادستی حاصل رہی ہے ۔ اس نے نہ صرف تمام ایشوز پر بھارتی مؤقف کو مضبوطی سے پیش کیابلکہ کھل کر کہا کہ کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے۔ میاں نواز شریف بالعموم یہ بات کہتے ہیں کہ اٹل بہاری واجپائی کی پاکستان آمد پرجو معاہدہ ہوا تھا، وہیں سے بات دوبارہ شروع کی جائے گی۔ اس کو انھوں نے ملاقات سے پہلے بھی دہرایا مگرمنموہن سنگھ نے اسے بالکل درخور اعتنا نہ سمجھا۔ میاں صاحب کی جنرل اسمبلی کی تقریر بھی تضادسے بھرپور تھی۔ انھوں نے ایک طرف یہ کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل ہونا چاہیے، وہاں یہ بھی کہا کہ واجپائی کے ساتھ جو معاہدہ ہوا تھا، مذاکراتی عمل کا آغاز وہیں سے کیا جائے گا حالانکہ واجپائی کے ساتھ معاہدے میں اقوام متحدہ کے کردار اور اس کی قراردادوں کا سرے سے کوئی ذکرہی نہیں تھا، بلکہ مسئلہ کشمیر کوشملہ معاہدے کے مطابق دونوں فریقوں کے درمیان بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی بات کی گئی تھی۔ آیندہ دنوں میں یہ تضاد ایک بڑاعنوان بننے جا رہا ہے۔ اوریہ ایک ایسا سیاسی ایشوہے جس کے لیے لوگوں کو متحرک اور بڑے پیمانے پر یکجا اور جمع کیا جا سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف جماعت کی سیاسی اور قومی پالیسی کوواضح کرنے کا موقع ملے گا بلکہ حکومت بھی دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور ہوگی۔
ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے جماعت سے وابستہ ہر فرد کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ گاہے کوئی ایک نکتہ ایک بڑی سیاسی تحریک میں بدل جاتا ہے۔ وہ نکتے جو تحریک بن کر اُبھرتے ہیں اور بڑے پیمانے پر لوگوں کو اپیل کرتے ہیں ، انھیں اپنے د ل ودماغ میں تازہ رکھنا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ یہ کام جماعت اسلامی کے کارکن ہی کو کرنا ہے۔ کوئی اور پارٹی ایسی نہیں ہے جس کے پاس ایسی اسٹریٹ پاور ہو جو یہ کام کرسکے، جس کے پاس سیاسی فہم ، دُور اندیشی اور فہم و فراست ہو،اوراتنی سیاسی بصیرت و بصارت ہو کہ دُور کی بات سوچ کر لوگوں کواس پر مجتمع کر سکے۔ جماعت کے ذمہ داران اور کارکنان کو ان ایشوز پر آپس میں بات کرتے رہنا چاہیے تاکہ جب کچھ کرنے اور میدان میں نکلنے کا عنوان سجے تو ہمارے لیے کوئی گتھی ایسی نہ ہو جو سلجھائی نہ جاسکے اور کوئی گرہ ایسی نہ ہو جس کو کھولا نہ جاسکے، بلکہ تمام چیزیں ہمارے سامنے دو اور دو دوچار کی طرح واضح ہونی چاہییں۔
مختلف قومی و بین الاقوامی ایشوز پر واضح، دو ٹوک اور جرأت مندانہ کردار ہی جماعت اسلامی کو عوام کی نظروں میں قابل اعتماد بنائے گا۔ جماعت اسلامی کے ہر سطح کے ذمہ داراور کارکن کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ الیکشن کے ذریعے کامیاب ہونے کی حکمت عملی کا آغاز نئے انتخابات کے بگل بجنے اور برسرِاقتدار حکمران طبقے کی شکست و ریخت سے بہت پہلے دینی، سماجی، رفاہی اور سیاسی دائروں میں عوامی اُمنگوں اور آرزوئوں کا ترجمان بننے سے ہوگا۔ جماعت اسلامی ایک وسیع البنیاد ایجنڈے کے ساتھ زندگی کے لگ بھگ تمام دائروں میں نہ صرف موجود بلکہ متحرک ہے۔ انفرادی طور پر ہمارے پاس ہردائرے میں انسانی اور عوامی خدمت کی اچھی مثالیں موجود ہیں۔ ضرورت ایک شاہ ضرب (master stroke)کی ہے جو ان تمام کاموں کو آپس میں مربوط کرکے بالآخرایک مکمل سیاسی تبدیلی کی صورت میں جلوہ گر ہوگی۔ ان شاء اللہ!