نومبر ۲۰۱۳

فہرست مضامین

کتاب نما

| نومبر ۲۰۱۳ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

قرآنِ مجید کے منتخب اُردو تراجم کا تقابلی جائزہ، پروفیسر ڈاکٹر محمد شکیل اوج۔ ناشر:  مکتبہ قاسم العلوم۔ تقسیم کار: ملک اینڈ کمپنی، رحمن مارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون:۴۰۲۱۴۱۵-۰۳۲۱۔ صفحات:۲۸۲۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔

اُردو زبان میں قرآنِ مجید کے جزوی تراجم دسویں صدی ہجری میں شروع ہوئے۔ چند سورتوں اور چند پاروں کے اُردو ترجمے کا سلسلہ ۱۷۹۰ء میں شاہ عبدالقادر دہلوی کے مکمل اُردو ترجمے موضح قرآن کی صورت اختیار کرگیا۔ اس کے بعد اُردو میں تقریباً ۴۰۰ تراجم ہوچکے ہیں۔

زیرنظر کتاب میں قرآنِ مجید کے آٹھ منتخب اُردو تراجم کے پارہ عم کی چند منتخب سورتوں کا تقابلی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ ان آٹھ تراجم و تفاسیر میں درج ذیل مترجمین و مفسرین کے تراجم دیے گئے ہیں: مولانا محمود حسن دیوبندی (۱۹۲۰ء)، مولانا احمد رضا خان بریلوی (۱۹۲۱ء)، مولانا ثناء اللہ امرتسری (۱۹۴۸ء)، مولانا عبدالماجد دریابادی (۱۹۷۷ء)، مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی (۱۹۷۹ء)، مولانا امین احسن اصلاحی (۱۹۹۷ء)، مولانا پیرمحمد کرم شاہ الازہری (۱۹۹۸ء)، مولانا ابومنصور (۱۹۹۹ء)۔

قرآنی تراجم کے تقابلی مطالعے میں معنویت، لُغویت، ادبیت اور تفسیری نکات کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ تیسویں پارے کی ۱۰منتخب آیات معنویت کے لحاظ سے تقابلی مطالعے کے لیے لی گئی ہیں۔ اسی طرح لُغویت کے لحاظ سے تقابل کی خاطر ۱۲ آیات لی گئی ہیں اور ادبیت کے نقطۂ نظر سے سات آیات کا تقابلی مطالعہ کیا گیا ہے۔ ایک آیت کا متن دے کر آٹھ مترجمین کا اُردو ترجمہ دیا گیا ہے۔ صرفی نحوی اور لغوی معانی کی بحث کے بعد آٹھوں تراجم میں بعض الفاظ پر بحث کے بعد ایک یا ایک سے زائد اُردو تراجم کی فوقیت بیان کی گئی ہے۔ مصنف نے اپنی تحقیق اور تنقیدی تجزیاتی راے پیش کرنے میں کسی مسلکی تنگ نظری کا ثبوت نہیں دیا۔ سورۃ الاعلیٰ کی آیت ۶ سَنُقْرِئُکَ فَلَاتَنْسٰٓی میں سَنُقْرِئُکَ کے اُردو ترجمے پر بحث ہوئی ہے۔ بعض مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’ہم آپ کو پڑھائیں گے‘‘ کیا ہے۔ بعض نے تو ’تمھیں‘ تم کا لفظ ترجمے میں استعمال کیا ہے۔ مصنف نے لکھا ہے کہ ’آپ‘ اور ’تو‘، ’تم اور تمھیں‘ میں فرق ہے۔ بعض مترجمین نے ترجمے میں پڑھا دیا کریں گے (عبدالماجد دریابادی) ’ہم پڑھوا دیں گے تجھ کو‘ (سید مودودی) لکھا ہے۔ مصنف کی راے میں پیرمحمد کرم شاہ کا ترجمہ    ’’ہم آپ کو پڑھائیں گے، پس آپ (اسے) نہ بھولیں گے‘‘ مقابلتاً بہتر ہے۔

اس تقابلی مطالعے سے خواہش اور کوشش یہ ہے کہ قرآنِ مجید کا بہتر سے بہتر ترجمہ ہوتا رہے۔ اس سے بہتر فہم حاصل ہوگا اور عملِ صالح بھی بہتر ہوگا۔ یہی ہدایت کا منشا ہے۔ مصنف کی یہ کاوش ان کی قرآنِ مجید سے غایت درجے کی محبت کی دلیل ہے۔ البتہ ہم چند اُمور کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں۔ مصنف نے مترجمین کے تعارف میں ۹۲ صفحات صرف کیے ہیں۔ ان میں متعدد مقامات پر بہت سی اغلاط ہیں۔ سب جگہ محمدعلی جوہر کا سنہ وفات ۱۹۳۱ء کے بجاے ۱۹۳۰ء لکھا گیا ہے (ص ۴۸، ۸۸)۔ اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اسلام آباد کے سابق ڈائرکٹر ظفرالحق انصاری نہیں (ص ۱۰۰) بلکہ ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری ہیں۔ سیدمودودی نے مولانا عبدالسلام نیازی سے تعلیم ان کے گھر حاضر ہوکر حاصل کی نہ کہ مدرسہ عالیہ عربیہ فتح پوری دہلی میں وغیرہ۔

تقابلی مطالعے میں مصنف کا اسلوبِ بیان علمی اور تنقیدی ہے۔اس تحقیقی مقالے میں مترجمین کے سوانحی کوائف اور سنین کی اتنی غلطیوں کا راہ پاجانا تعجب انگیز ہے۔ (ظفرحجازی)

 


دعوتِ نبویؐ اور مخالفت ِ قریش: نوعیت، اسباب، احوال، تاریخ،ڈاکٹر نثاراحمد۔ ناشر:ادارہ نقشِ تحریر، ڈی ۳۲/۲، بلاک ۷، گلشنِ اقبال، کراچی۔صفحات:۴۰۰۔ قیمت: ۳۹۰روپے۔

’دعوتِ دین‘ اور ’مخالفت ِ اعدا‘ لازم و ملزوم ہیں۔ انبیا ؑ کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی کسی رسول ؑاور نبی ؑ نے اللہ کے حکم پر اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کے دین سے متعارف کرانے کا آغاز کیا تو قوم کی اکثریت نے رسولؐ کی بات کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس ذمہ داری کی انجام دہی پر بعض انبیا کو قتل بھی کردیا گیا اور بہت سے اپنی ہی قوموں کے ظلم و تشدد سے دوچار ہوتے رہے۔

دعوتِ نبویؐ اور مخالفتِ قریش کے عنوان سے مصنف نے موضوع کے دونوں پہلوئوں ’دعوت‘ اور ’مخالفت‘ کی نوعیت، اسباب، احوال اور تاریخ کو جامع انداز میں مرتب کیا ہے۔ اس موضوع پر مربوط مطالعے کی ضرورت و اہمیت کو بیان کرتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ مخالفت قریش کو سیرت نگاروں نے باقاعدہ موضوعِ مطالعہ نہیں بنایا۔ لہٰذا یہ مطالعہ سیرت النبیؐ کے ایک ایسے باب کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس کا بیان سیرت کی پوری تاریخ پر غالب دکھائی دیتا ہے۔

مخالفت و عداوت قریش کا یہ دور اور عہد تاریخی طور پر دو مراحل پر مشتمل ہے۔ پہلے مرحلے کا آغاز بعثت ِ رسولؐ سے ہوتا ہے اور ہجرت مدینہ سے پہلے تک پوری شدت سے جاری رہتا ہے، یعنی عہدنبوت کا ابتدائی ۱۳سالہ مکی عہد (۶۱۰ء تا ۶۲۲ء) اس میں شامل ہے۔ سیرت نگاروں نے اس دورِ مخالفت کو زیادہ تفصیل سے بیان کیا ہے۔ (ص ۹)

مخالفت ِ قریش کا دوسرا دور ہجرتِ مدینہ کے فوراً بعد شروع ہوا اور فتح مکہ پر اختتام کو پہنچا۔ یہ پہلی تا ۸ہجری، یعنی آٹھ برس (۶۲۲ء تا ۶۳۰ء) پر محیط ہے۔ یہ دور عہدِ ماقبل سے زیادہ اہم ہے  مگر کتب ِ سیرت میں اسے پہلے دور کی طرح اہمیت نہیں دی گئی اور اس کے بیان کو اس زاویے سے نہیں لیاگیا جس سے مخالفت و عداوت کی تاریخ کو بیان کرنے کی ضرورت تھی۔(ص۱۰)

مصنف کے بقول نام وَر سیرت نگاروں میں سے بیش تر نے مخالفت قریش پر بحث نہیں کی البتہ چند بڑے مصنفین کی کتب میں اس موضوع پر تفصیلی اظہار خیال ملتا ہے۔ مولانا شبلی نعمانی پہلے مصنف ہیں جنھوں نے مخالفت ِ قریش کے اسباب کو بطور عنوان لکھ کر ان پر بحث کی ہے۔ (ص ۱۲)

فتح مکہ کا پہلا واضح اور قطعی نتیجہ یہ نکلا کہ آغازِ رسالت اور اجراے تبلیغ سے لے کر فتح مکہ تک کی تقریباً ۲۱سالہ مخالفت و عداوت قریش کی تاریخ اپنے انجام کو پہنچی (ص ۳۶۵)۔ یہ کتاب دعوتِ نبویؐ اور مخالفت ِ قریش پر ایک مربوط، جان دار اورتحقیقی مطالعہ ہے۔ چھے ابواب میں موضوع کا احاطہ کرنا مصنف کے وسعت مطالعہ کا غماز ہے۔ ابواب کے حواشی بھی کم و بیش ابواب کی ضخامت کے برابر صفحات پر محیط ہیں۔ طویل حواشی اگر کسی طرح متنِ کتاب کا حصہ بن جاتے تو بہت مفید ہوتا۔ اسلوبِ بیان رواں دواں ہے مگر کہیں کہیں مرکبات کے استعمال میں تکلف محسوس ہوتا ہے۔ کتاب اگر مزید بڑے پوائنٹ میں اور بڑی تقطیع پر شائع ہو، پروف خوانی پر مزید توجہ دی جائے تو بہتر ہوگا۔ بہرحال یہ ٹھوس مطالعہ ایک ایسے موضوع پر پیش کیا گیا ہے جس کا دعوتِ دین اور  تحریکِ اقامت ِ دین کے کارکنان سے گہرا تعلق ہے۔ مصنف نے آغازِ کتاب میں اپنے مطالعے کی ضرورت و افادیت کے ضمن میں جس راے کا اظہار کیا ہے وہ بہت حد تک درست ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ متقدم سیرت نگاروں کے پیش نظر موضوع کا الگ الگ مطالعہ نہیں تھا بلکہ وہ سوانح نگاری کی طرز پر سیرت کے پہلوئوں کو واضح کرتے رہے۔(ارشاد الرحمٰن)


تاریخ ادبِ عربی، دورِ جاہلیت سے دورِحاضر تک،پروفیسر ڈاکٹر سیدوقار احمد رضوی۔ ناشر: قدیمی کتب خانہ، آرام باغ، کراچی۔ صفحات: ۵۱۷۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

ممتاز ماہر لسانیات، پروفیسر ڈاکٹر سید وقار احمد رضوی جامعہ کراچی سے نصف صدی کے عرصے کی وابستگی کے بعد اب تصنیف و تالیف کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہے ہیں۔ ان کی تازہ تصنیف تاریخ ادب عربی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ عربی ادب کی تاریخ کسی بھی زبان کی تاریخ کی طرح، ایک بحر ناپیدا کنار ہے، جسے پانچ چھے سو صفحات میں سمیٹا نہیں جاسکتا۔ بنیادی طور پر مصنف نے یہ کتاب عربی ادب کے طلبہ کے استفادے کے لیے لکھی ہے جس کا مقصد عربی ادب کے متنوع موضوعات سے طلبہ کو روشناس کرانا ہے۔ بقول مصنف: ’’برعظیم پاک و ہند میں تاریخ ادبِ عربی پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ حالانکہ سبع معلقات، متبنی، مقاماتِ حریری، درس نظامی میں پڑھائی جاتی رہی ہیں۔ جدید دانش گاہوں اور جامعات میں بھی عربی ادب پڑھایا جاتا ہے مگر اس پر مواد شاذونادر دستیاب رہا۔ عبدالرحمن طاہرسورتی کی کتاب تاریخ ادبِ عربی، احمد حسن زیات کی کتاب تاریخ آداب للغۃ العربیۃ کا اُردو ترجمہ ہے جو ۱۹۶۵ء کا ہے۔ ڈاکٹرعبدالحلیم ندوی کی کتاب عربی ادب کی تاریخ ۱۹۷۸ء میں چھپی۔ ان دونوں کتابوں سے پہلے ڈاکٹر زبیداحمد نے اپنی کتاب ادب العرب ۱۹۲۶ء میں لکھی جو ایک مفید کتاب ہے لیکن انھوں نے اپنی کتاب میں عربی اشعار اور عربی نثرپاروں کے اُردو تراجم نہیں دیے اور نہ اعراب لگائے، جب کہ مَیں نے اپنی اس کتاب میں عربی اشعار اور عربی نثرپاروں کے اُردو تراجم و معانی دیے ہیں جو مَیں نے خود کیے ہیں اور اشعار پر اعراب بھی لگائے ہیں‘‘۔(ص ۲۶-۲۷)

ڈاکٹر صاحب اس گراں قدر علمی خدمت پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ تاہم طلبہ کے استفادے کے نقطۂ نظر سے عبدالرحمن طاہر سورتی کی تاریخ ادب عربی کی جو اگرچہ احمد حسن الزیات کی کتاب تاریخ آداب اللغۃ کا ترجمہ ہی سہی، افادیت اور اہمیت کم نہیں ہوتی۔ سورتی صاحب نے بھی عربی اشعار اور نثرپاروں کے خوب صورت تراجم پیش کیے ہیں جس کی وجہ سے وہ آج بھی جامعات اور مقابلے کے امتحانات کے لیے تجویز کی جاتی ہے۔ڈاکٹر صاحب کی یہ محنت سورتی صاحب کی کتاب کی جگہ لے سکے گی یا نہیں؟ اس کا فیصلہ مستقبل کرے گا۔

ڈاکٹر صاحب کی یہ کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں عربی زبان کا تہذیبی پس منظر، عربوں کے علوم، مجالس ادب و اسواق، شعرا کے طبقات وغیرہ کا ذکر ہے۔ باب دوم میں عربی ادب منظوم، قصص شاعری اور راویانِ شعر کا ذکر ہے۔ باب سوم میں جاہلی شاعری، سبع معلقات کے شعرا کے حالات اور نمونۂ کلام ہے۔ باب چہارم میں بعثت ِ نبویؐ کے اثرات، آپؐ کی   فصاحت و بلاغت ، خلفاے راشدینؓ کی فصاحت و بلاغت اور ان کے خطبات کا تذکرہ ہے۔ باب پنجم میں دورِ اُموی میں اسلامی علوم کے ارتقا اور اُموی شعرا و خطبا کا تذکرہ ہے۔ چھٹا باب عصرعباسی کے ساتھ مخصوص ہے، جس میں مصنف نے عباسی شعرا کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے اس میں ڈاکٹر طہٰ حسین، احمد امین اور اندلس کے ادبا کو بھی شامل کردیا ہے۔ یہ جدت قدیم تواریخ ادب عربی میں نہیں ملتی۔

ساتواں باب کتاب کا آخری باب ہے جس میں عصرِجدید کی عربی نثرونظم سے بحث ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس دور کا اختتام حافظ وشوقی پر کردیتے ہیں حالانکہ ادب المھجر ایک قابلِ ذکر عنوان ہے جس میں وہ شعرا شامل ہیں جو الرابطۃ القلمیۃ (Pen League) کے ممبر تھے۔ کتاب کے آخر میں ڈاکٹر صاحب نے خلیل مطران کا مختصر ذکر کیا ہے، مگر میخائل نعیمہ، نسیب عریضہ اور خلیل جبران کے تذکرے سے کتاب خالی ہے۔یہ شعرا شام، لبنان سے ہجرت کر کے بوسٹن جاکر آباد ہوئے اور الرابطۃ القلمیۃ کے تحت وہ ادب تخلیق کیا جس سے ایک دنیا متاثر ہوئی۔ اس وقت بھی خلیل جبران مغرب میں اپنی تخلیقات کے تراجم کے حوالے سے ایک جانا پہچانا نام ہے۔

یہ سوال بھی اہم ہے کہ ہم تاریخ ادب عربی کے تذکرے کا آغاز امرؤ القیس سے کرتے ہیں جس کی فحش گوئی اور عریاں نگاری کی وجہ سے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے    اسے قائدھم الی النار، جہنم کی طرف ان (شعرا) کا سردار کا لقب دیا۔ لیکن عربی ادب کے  نوبل انعام یافتہ نجیب محفوظ کا ذکر نہیں کرتے اگرچہ تنقیدی نقطۂ نظر ہی سے کیوں نہ ہو۔ یاد رہے ایک زمانے میں خورشید رضوی جامعہ پنجاب نے نجیب محفوظ پر تفصیلی مضمون لکھا تھا جو مجلہ فکرونظر میں چھپاتھا۔ ان سب تحفظات کے باوجود راقم محمد رابع حسنی ندوی ناظم ندوۃ العلما لکھنؤ کی اس راے سے متفق ہے کہ ’’عربی زبان و ادب سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے اس میں دل چسپی اور افادیت کا بڑا سامان ہے، اور اس کا مطالعہ کرنے والوں کو عربی زبان و ادب کی خوبیوں اور اس کے مختلف اَدوار و اقوام کے اسلوب و طرزِکلام سے واقفیت حاصل ہوگی۔(ڈاکٹر احسان الحق)


خطبات،سیدابوالاعلیٰ مودودی، صفحات:۲۳۲۔ محمد عربیؐ، عنایت اللہ سبحانی، صفحات:۲۸۴۔    راہِ عمل، جلیل احسن ندوی۔ صفحات:۲۶۶۔ آدابِ زندگی، محمد یوسف اصلاحی، صفحات:۲۶۴۔  ناشر: اسلامک پبلی کیشنز، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور-۵۴۷۹۰۔ فون: ۳۵۴۱۷۰۷۴-۰۴۲۔

یہ چاروں کتابیں معروف اور مقبول ہیں اور محتاجِ تبصرہ نہیں۔ سب ہی ان کے مندرجات اور موضوع سے واقف ہیں۔ خطبات میں ارکانِ اسلام کا انقلاب آفریں تصور پیش کیا گیا ہے۔ محمدعربیؐ میں رسولؐ اللہ کی زندگی بطورِ داعیِ انقلاب سامنے آتی ہے۔ راہِ عمل احادیث کا مجموعہ ہے جو زندگی کے ہرپہلو کے بارے میں رہنمائی دیتی ہیں۔ آدابِ زندگی میں مصنف نے معاشرتی آداب دل نشیں انداز سے پیش کیے ہیں۔

ناشر نے ان چاروں کتابوں کو اعلیٰ معیار پر شائع کر کے ایک خوب صورت، جاذبِ نظر ہولڈر میں پیش کیا ہے۔ کتاب کیسی بھی کیوں نہ ہو، آج کے دور کی نفسیات کے مطابق پیش کش اعلیٰ نہ ہو تو نظروں میں نہیں آتی۔ ناشر نے اس انداز سے پیش کرکے ایک بڑے طبقے تک رسائی حاصل کی ہے جو اچھی اور خوب صورت کتابوں کا قدردان ہے اور خرچ بھی کرسکتا ہے۔ اُمید ہے کہ تجربہ کامیاب ہوگا۔ ناشر مولاناسیدابوالاعلیٰ اور دیگر مصنفین کی کتابیں اسی معیار پر پیش کریں گے۔ معیار کے لحاظ سے قیمت زیادہ نہیں، ہرکتاب کی ۵۰۰ روپے، کل ۲۰۰۰روپے۔ (مسلم سجاد)


ہفت روزہ ایشیا: بنگلہ دیش: انصاف اور انسانیت کا قتل، مدیر: طارق محمود، مدیراشاعت خاص:  سلیم منصورخالد۔ پتا: اے-۱/۹، نزد حمیدسنٹر، رائل پارک، لاہور- ۳۶۳۷۲۶۲۷-۰۴۲۔ صفحات: ۲۲۷۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

۷۰ کے عشرے میں سن شعور کو پہنچنے والوں کے لیے سقوطِ ڈھاکہ سامنے کی بات نہیں ہے۔ اب تو ۴۰سال سے زائد گزرگئے ہیں، کئی نئی نسلیں جوان ہوچکی ہیں جو اس المیے کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتیں، اس لیے کہ ایک پالیسی کے تحت درسی کتب میں اس کا ذکر تک نہیں ہے۔

گذشتہ برس سے وہاں کی عوامی لیگی حکومت نے ایک نام نہاد عدالت کے ذریعے جماعت اسلامی کے رہنمائوں کو پھانسی اور طویل مدت کی سزائیں سنانے کے پروگرام کا آغاز کیا۔ ضرورت تھی کہ پاکستانیوں کو بتایا جائے کہ کیا ہوا کہ پاکستان کا بازو مشرقی پاکستان الگ ہوگیا اور آج وہاں کی حکومت پاکستان کے لیے لڑنے والوں کے ساتھ یہ سلوک کررہی ہے۔ ہماری حکومت نے تو اس پر کوئی مضبوط موقف اختیار نہیں کیا جو اخلاق، دستور اور ہر اصول کے تحت اسے اختیار کرنا چاہیے تھا۔ قومی اخبارات نے اپنے طور پر کچھ نہ کچھ اداے فرض کیا۔ ہفت روزہ ایشیا نے   ’بنگلہ دیش: انصاف اور انسانیت کا قتل‘کے موضوع پر یہ اشاعت ِ خاص پیش کی ہے جس میں ۱۲قومی اخبارات کے اداریوں اور مضامین سے منتخب حصے جمع کر دیے ہیں۔ روزنامہ اُمت سے ۲۰حصے منتخب کیے گئے ہیں۔ انگریزی اخبارات کی ’غیرحاضری‘ محسوس ہوتی ہے۔ ایک الگ حصے، ’پس منظر‘ میں سات مقالے شامل ہیں جن میں سے خصوصاً پروفیسر غلام اعظم اور پروفیسر خورشید احمد کے، اس مسئلے کے تمام پہلوئوں کو واضح کرتے ہیں۔ آخری حصے میں ۲۰ تحریریں ’افکاروخیالات‘ کے تحت آج کے دور، اس دور کے بھی مضامین ، تاثرات ، سفرنامے، شاعری بھی انتخاب کرکے شامل کیے گئے ہیں۔

بنگلہ دیش میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے سمجھنے کے لیے یہ دستاویز قابلِ قدر کاوش ہے۔    سلیم منصورخالد اور ادارہ ایشیا اشاعت پیش کرنے پر مبارک باد کا استحقاق رکھتے ہیں۔ اشاعت ِخاص کی غیرمعمولی اشاعت کا ایک فائدہ یہ بھی ہونا چاہیے کہ ملّی اور ملکی مسائل سے آگاہ رہنے کے لیے  ہفت روزہ ایشیا کا باقاعدہ مطالعہ کیا جائے۔ (مسلم سجاد)


تذکرہ رفقاے جماعت اسلامی (دورِ اوّل کے احباب)، مولانا فتح محمد۔ مرتب: پروفیسر نورورجان۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۲۴۱۹-۰۴۲۔ صفحات: ۵۰۴۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

یہ تحریک اسلامی کے ان احباب کا دل نواز تذکرہ ہے جو ابتدائی دور میں سیدمودودی کی برپا کردہ جماعت اسلامی کے ساتھ وابستہ ہوئے۔ تمام زندگی فریضہ اقامت دین کی ادایگی کے لیے مصروفِ جدوجہد رہے۔ گویا ’وفاداری بشرط استواری اصل ایمان ہے‘ کا نمونہ اور مصداق بنے رہے۔ بے لوثی، اخلاص، صدق، راستی، استقامت، ثابت قدمی اور ایثار ان کی زندگی کا طرئہ امتیاز رہا۔

۴۰ سے زائد شخصیات کا یہ تذکرہ ، تعزیتی مضامین، عمدہ علمی نکات اور مولانا فتح محمد کے سوزِدل کے آئینہ دار ہیں۔ ان شخصیات کی جماعتی و تحریکی سرگرمیوں، اخلاص، للہیت، راہِ خدا میں استقامت کا ذکر ہے جن میں مولانا جان محمد عباسی، ڈاکٹر اسعد گیلانی، نعیم صدیقی، خرم مراد، رحیم بخش شاہین، مولانا صدرالدین اصلاحی، میاں طفیل محمد، عبدالغفار حسن، چودھری غلام جیلانی، فضل معبود، مولانا گلزار احمد مظاہری، مولانا گوہر رحمن، مولانا معین الدین خٹک، فخرالدین بٹ، راجا بشارت، ملک وزیرغازی وغیرہ کے تذکرے شامل ہیں۔

تحریکِ اسلامی کے کارکنان و قائدین کے لیے تحرک، روایات کو جاننے اور ابتدائی دور کے اکابرین و کارکنان کی شخصیت اور کردار کے بارے میں رہنمائی فراہم کرنے والی کتاب، جس سے کارکنانِ تحریک بے نیاز نہیں ہوسکتے۔(عمران ظہور غازی)


خطباتِ صدیقی، تالیف: ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی۔ ناشر: نشریات، الحمدمارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۴۵۹۸۴۱۸-۰۳۲۱۔ صفحات:۵۵۱۔ قیمت: درج نہیں۔

یہ خطبات دین کی تعلیمات کا خلاصہ ہیں۔قرآن و سنت کی تعلیم پر مبنی یہ خطبات ایمانیات، عبادات، اصلاح و تربیت اور اجتماعی زندگی سے متعلق اسلامی تعلیمات کا احاطہ کرتے ہیں۔    ڈاکٹر محمداسلم صدیقی، صاحب ِتفسیر روح القرآن ہیں، محتاجِ تعارف نہیں۔جامعہ پنجاب سے فراغت کے بعد مختلف مقامات پر دعوتی، دینی اور قرآنی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ خطبات کیا ہیں، معلومات کا خزینہ ہیں اور آیاتِ قرآنی، احادیث اور فکرانگیز ایمانی واقعات سے آراستہ ہیں۔ ان میں جابجا اقبال، اکبر، حالی، فیض اور مولانا ظفرعلی خان کے اشعار اس نسخے کی لَے بڑھاتے ہیں۔ موضوعات کا تنوع، زبان و بیان کی خوب صورتی اور معلومات کی فراوانی قاری کی توجہ مرتکز رکھتی ہے۔ چند اہم موضوعات: سورئہ فاتحہ سے متعلق چند حقائق، قرآنِ کریم کا چیلنج، حُب ِدنیا میں بے اعتدالی، تیسری طلاق کے احکام، انسانی بگاڑ کا اصل سبب اور حل۔ دروس دینے والے ہوں، خطباتِ جمعہ دینے والے یا دعوتِ دین کا کام کرنے والے ان خطبات سے فائدہ اُٹھائیں۔(عمران ظہورغازی)