اس کائنات کے خالق نے انسان کو اپنا خلیفہ بنانے کا اعلان کیا تو ملائکہ نے عرض کیا: ’’اے اللہ کیا تو دنیا میں ایک ایسی مخلوق کو آباد کرنا اور اپنا خلیفہ بنانا چاہتا ہے جو وہاں فساد پھیلائے گا اور خون ریزی کرے گا‘‘۔ اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا: ’’میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے‘‘۔ اللہ نے انسان کو اس کرہ ارضی پر آباد کر دیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ انسانوں کے درمیان پہلی موت قتل کے نتیجے میں واقع ہوئی۔ آدمؑ کے ایک بیٹے قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو ناحق قتل کردیا۔
’’اور ذرا انھیں آدمؑ کے دو بیٹوں کا قصہ بھی بے کم و کاست سنا دو۔ جب ان دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے کی نہ کی گئی۔ اس نے کہا ’’میں تجھے مار ڈالوں گا‘‘۔ اس نے جواب دیا ’’اللہ تو متقیوں ہی کی نذریں قبول کرتا ہے۔ اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ اٹھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ نہ اٹھائوں گا۔ میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرا اور اپنا گناہ تو ہی سمیٹ لے اور دوزخی بن کر رہے۔ ظالموں کے ظلم کا یہی ٹھیک بدلہ ہے‘‘۔ آخر کار اس کے نفس نے اپنے بھائی کا قتل اس کے لیے آسان کر دیا اور وہ اسے مار کر ان لوگوں میں شامل ہوگیا جو نقصان اٹھانے والے ہیں‘‘۔ (المائدہ ۵: ۲۷ تا ۳۰)
اللہ نے ارشاد فرمایا کہ جو کوئی کسی ایک انسان کو ناحق قتل کرتا ہے تو گویا وہ پوری انسانیت کا قاتل ہوتا ہے اور جو ایک جان کو بچاتا ہے وہ پوری انسانیت کو بچانے کا انعام حاصل کر لیتا ہے۔ اس قانون کو انہی آیات کے بعد اللہ تعالیٰ نے انبیائے بنی اسرائیل کو دی گئی شریعت کے تناظر میں یوں بیان فرمایا: ’’تورات میں ہم نے یہودیوں پر یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت، اور تمام زخموں کے لیے برابر کا بدلہ۔ پھر جو قصاص کا صدقہ کر دے تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے۔ اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں‘‘۔ (المائدہ ۵: ۴۵)
قرآن مجید میں قصاص کو انسانی زندگی کی حفاظت کا ضامن قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد باری ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمھارے لیے قتل کے مقدموں میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے۔ آزاد آدمی نے قتل کیا ہو تو اس آزاد ہی سے بدلہ لیا جائے، غلام قاتل ہو تو وہ غلام ہی قتل کیا جائے، اور عورت اس جرم کی مرتکب ہو تو اس عورت ہی سے قصاص لیا جائے۔ ہاں اگر کسی قاتل کے ساتھ اس کا بھائی کچھ نرمی کرنے کے لیے تیار ہو تو معروف طریقے کے مطابق خون بہا کا تصفیہ ہونا چاہیے اور قاتل کو لازم ہے کہ راستی کے ساتھ خوں بہا ادا کرے۔ یہ تمھارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے۔ اس پر بھی جو زیادتی کرے، اس کے لیے درد ناک سزا ہے‘‘۔ (البقرہ ۲: ۱۷۸ - ۱۷۹)
اب قاتل کے بارے میں حکم یہی ہے کہ مقتول کے ورثا اسے قصاص میں قتل کرانا چاہیں تو اسے قتل کر دیا جائے گا۔ کوئی حکمران یا مجلس قانون ساز، اس بارے میں شریعت اسلامیہ کے فیصلے کو تبدیل کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ البتہ ورثا کا یہ حق ثابت ہے کہ وہ بغیر کسی خون بہا کے محض اللہ کی خاطر بھی معاف کرسکتے ہیں، یا خون بہا وصول کرکے جان بخشی کرسکتے ہیں اور اگر ان میں سے کوئی آپشن بھی وہ نہ اپنائیں تو قاتل کو مقتول کے بدلے میں قتل کر دیا جائے گا۔ بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس قانون میں خون بہانے کا راستہ کھلا رکھا گیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس پر عمل درآمد کے نتیجے میں خون ریزی کا لامتناہی سلسلہ رک جاتا ہے۔ اگر قاتل ورثاے مقتول کی رضا کے بغیر قصاص سے بچ نکلے تو فطری طور پر متاثرہ فریق کے دل میں انتقام کا جذبہ پروان چڑھتا ہے اور پھر قتل مقاتلے کا غیرمطلوب اور تباہ کن دروازہ کھل جاتا ہے۔ جو خون ریزی ایک مجرم کو سزا دینے کی صورت میں رُک سکتی تھی وہ معاشرے میں قتل مقاتلے اور خون ریزی کا متعدی مرض یوں پھیلاتی ہے کہ بسا اوقات بیسیوں اور سیکڑوں قیمتی جانیں دونوں طرف سے اس کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اس کی مثالیں سیکڑوں نہیں ہزاروں میں موجود ہیں۔
اگر کسی معاشرے میں لاقانونیت اور بدامنی کا دور دورہ ہو اور پھر قانون قصاص بھی معطل یا منسوخ کر دیا جائے تو قاتل جری ہو جاتے ہیں اور معصوم شہری موت کا ترنوالہ بنتے چلے جاتے ہیں۔ آج یہی چیز ہم اپنے معاشرے میں دیکھ رہے ہیں۔ جن معاشروں میں قانون قصاص اپنی پوری روح کے ساتھ نافذ ہے وہاں اِکا دُکا خون ریزی تو ہوسکتی ہے مگر تھوک کے حساب سے قتل کی وارداتیں ہرگز پروان نہیں چڑھ سکتیں۔ دنیا کے تمام ممالک اور تمام اقوام کے درمیان یہ قانون موجود رہا ہے اور اس پر عمل صدیوں سے ہوتا چلا آیا ہے کیوں کہ آسمانی شرائع میں اس کے احکام کے علاوہ خود انسانی فطرت اس کا تقاضا کرتی ہے کہ یہی انصاف اور امن کا راستہ ہے۔
اب یہ الٹی گنگا پچھلی صدی سے مغرب کی بے خدا تہذیب میں چل نکلی کہ مظلوم سے ہمدردی کے بجاے ظالم سے ہمدردی کے جذبات انگیخت کیے جائیں۔ اس کے لیے مغرب کے دانش وروں سے بلکہ نظام ہاے حکومت اور این جی اوز سے لے کر سرکاری ادارے اور پوری ریاستی مشینری تک اس کام میں جُت گئی کہ اپنے اس نظریہ باطل کو حق ثابت کریں اور پوری دنیا کو باور کرائیں کہ قاتل کا خون مباح نہیں۔ پھر یہ بتایا جائے کہ آخر مقتول کا خون کیوں اور کس اصول و ضابطے کے تحت مباح قرار پا سکتا ہے؟ اس کا کوئی اخلاقی و انسانی اور عقلی و منطقی جواز آج تک ثابت نہیں کیا جا سکا۔ یہ عجیب تہذیب اور ناقابل فہم روشن خیالی ہے کہ مظلوم کے بجاے ظالم سے ہمدردی اور قاتل کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ یہ تہذیب نہیں بلکہ یہ تو وحشیانہ پن اور سنگ دلی کی بدترین مثال ہے۔ پھر یہی نہیں کہ ان ممالک نے اپنے ہاں یہ ظالمانہ روش رائج کر دی ہے بلکہ وہ پوری دنیا کو اس پر مجبور کر رہے ہیں کہ وہ بھی اسے اپنائیں۔ اگر نہ اپنائیں تو ان پر ہر طرح کا دبائو ڈالا جائے اور اس ظالمانہ قانون کو مسترد کرنے کی صورت میں اس پورے معاشرے کو نشانہ انتقام بنایا جائے۔
یورپین یونین کے ممالک مالی امداد کے لیے اب تیسری دنیا کے ممالک پر یہ شرط بھی عائد کر رہے ہیں کہ وہ اپنے ملک سے قانونِ قصاص ختم کریں اور سزاے موت کو منسوخ کر دیں۔ تجارتی دبائو کے حربے بھی استعمال ہو رہے ہیں۔ دنیا کے بیش تر ممالک نے وقت کی اس رو اور پروپیگنڈے کے اس طوفان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور وہاں سزاے موت منسوخ ہوچکی ہے۔ اس کے باوجود دنیا کے سب سے بڑی آبادی کے تمام مشرقی و مغربی ممالک میں اب تک سزاے موت کا قانون نافذ العمل ہے۔ ان ممالک میں چین، بھارت، امریکا، انڈونیشیا، اور جاپان شامل ہیں۔ دنیا کا اہم اور واحد ایٹمی مسلمان ملک پاکستان عجیب منافقت اور مخمصے کا شکار ہے۔ قانونِ قصاص ملک میں اب تک موجود ہے مگر اسے منسوخ کرنے کے عزائم سامنے آرہے ہیں۔ گذشتہ چھے سات سالوں سے یہ معطل ہے۔ یہ طرزِ عمل انصاف کے اصولوں کے بھی منافی ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ قرآن کے واضح حکم اور نص صریح کی بھی خلاف ورزی ہے جو اکبر الکبائر میں شمار ہوتا ہے۔ حضور نبی اکرمؐ نے فتح مکہ کے موقع پر جو اہم ہدایات ارشاد فرمائی تھیں ان میں ایک یہ حکم تھا کہ اگر کوئی شخص ناحق قتل کر دیا جائے تو مقتول کے ولی (ورثا) کو یہ حق ہے کہ وہ قاتل سے خون بہا وصول کرکے اسے معاف کر دیں یا اپنے مقتول کے بدلے میں اسے قتل کرنے کا مطالبہ کریں۔ (بحوالہ مسلم، حدیث نمبر ۲۴۹۳ روایت حضرت ابوہریرہؓ)۔ پاکستان کے حکمرانوں کو سوچنا چاہیے کہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام سے سرتابی بلکہ بغاوت کرکے وہ کس انجام سے دوچار ہوں گے۔
اسلام کا ہر حکم پوری انسانیت کے لیے پیغام حیات ہے۔ اس میں عدل و انصاف بھی ہے اور مکمل مساوات انسانی اور غیر جانبداری کی بھی ضمانت دی گئی ہے۔ اس قانون کے ہوتے ہوئے کوئی کمزور محض اپنے وسائل کی کمی کی وجہ سے انصاف سے محروم نہیں کیا جا سکتا اور کوئی طاقت ور اپنے ذرائع و وسائل اور اثر و رسوخ کی بدولت انصاف کا گلا نہیں گھونٹ سکتا۔ اگر کسی بڑے نے جرم کیا ہے تو وہ اس کے بدلے میں ماخوذ ہوگا، چھوٹے نے کیا ہے تو وہی جوابدہ ہوگا۔ عورت اور مرد دونوں اس اصولِ انصاف کے سامنے یکساں مسئول ہیں۔ ارشاد باری پہلے گزر چکا ہے کہ: الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنْثٰی بِالْأُنْثٰی۔
نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں بالکل واضح احکام دیے ہیں۔ اسلام میں کسی انسان کا خون خواہ وہ کافر ہو یا مسلم مباح نہیں جب تک کہ اس نے کوئی ایسا جرم نہ کیا ہو جس پر قرآن و حدیث میں سزاے موت کا حکم دیا گیا ہو۔ علماے حق نے اس موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ خون کے مباح ہونے کی اسلام میں پانچ شرائط یا پانچ جرائم ہیں، جن کا تذکرہ آگے آ رہا ہے۔ ان میں سے جس جرم کا بھی ارتکاب کیا گیا ہو، جرم ثابت ہونے پر اس کی سزا موت ہے۔ اللہ نے حکم دیا ہے کہ قتل کا ہرگز ارتکاب نہ کیا جائے سواے حق کے ساتھ۔
’’قتل نفس کا ارتکاب نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ۔ اور جو شخص مظلومانہ قتل کیا گیا ہو اس کے ولی کو ہم نے قصاص کے مطالبے کا حق عطا کیا ہے، پس چاہیے کہ وہ قتل میں حد سے نہ گزرے، اس کی مدد کی جائے گی‘‘۔ (بنی اسرائیل ۱۷: ۳۳)
مولانا مودودی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’(بعد میں) اسلامی قانون نے قتل بالحق کو صرف پانچ صورتوں میں محدود کر دیا: ایک قتل عمد کے مجرم سے قصاص، دوسرے دین حق کے راستے میں مزاحمت کرنے والوں سے جنگ۔ تیسرے اسلامی نظام حکومت کو الٹنے کی سعی کرنے والوں کو سزا۔ چوتھے شادی شدہ مرد یا عورت کو ارتکابِ زنا کی سزا۔ پانچویں ارتداد کی سزا۔ صرف یہی پانچ صورتیں ہیں جن میں انسانی جان کی حرمت مرتفع ہو جاتی ہے اور اسے قتل کرنا جائز ہو جاتا ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۲، بنی اسرائیل حاشیہ ۳۴)
اسی طرح مقتول کے وارث یا ولی کو بھی حکم دیا گیا ہے کہ وہ حد سے تجاوز نہ کرے۔
’’اصل الفاظ ہیں ’’اس کے ولی کو ہم نے سلطان عطا کیا ہے‘‘۔ سلطان سے مراد یہاں ’’حجت‘‘ ہے جس کی بنا پر وہ قصاص کا مطالبہ کرسکتا ہے۔ اس سے اسلامی قانونی کا یہ اصول نکلتا ہے کہ قتل کے مقدمے میں اصل مدعی حکومت نہیں بلکہ اولیائے مقتول ہیں، اور وہ قاتل کو معاف کرنے اور قصاص کے بجاے خون بہا لینے پر راضی ہو سکتے ہیں‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۲، بنی اسرائیل حاشیہ ۳۵)
مقتول کا خاندان اور ورثا خود سے انتقام اور قصاص پر عمل نہیں کرسکتے۔ یہ ریاست اور اس کے نظام عدالت کی ذمہ داری ہے۔ مولانا مودودی تحریر فرماتے ہیں: ’’قتل میں حد سے گزرنے کی متعدد صورتیں ہوسکتی ہیں اور وہ سب ممنوع ہیں۔ مثلاً جوش انتقام میں مجرم کے علاوہ دوسروں کو قتل کرنا، یا مجرم کو عذاب دے دے کر مارنا، یا مار دینے کے بعد اس کی لاش پر غصہ نکالنا، یا خوں بہا لینے کے بعد پھر اسے قتل کرنا وغیرہ۔
چونکہ [ان آیات کے نزول] تک اسلامی حکومت قائم نہ ہوئی تھی اس لیے اس بات کو نہیں کھولا گیا کہ اس کی مدد کون کرے گا۔ بعد میں جب اسلامی حکومت قائم ہوگئی تو یہ طے کر دیا گیا کہ اس کی مدد کرنا اس کے قبیلے یا اس کے حلیفوں کا کام نہیں بلکہ اسلامی حکومت اور اس کے نظامِ عدالت کا کام ہے۔ کوئی شخص یا گروہ بطور خود قتل کا انتقام لینے کا مجاز نہیں ہے بلکہ یہ منصب اسلامی حکومت کا ہے کہ حصولِ انصاف کے لیے اس سے مدد مانگی جائے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۲، بنی اسرائیل حاشیہ ۳۶-۳۷)
قانونِ قصاص کے خلاف جتنا بھی واویلا کیا جائے، یہ حقیقت ہے کہ ۵۸ ممالک میں آج بھی سزاے موت کا قانون موجود ہے۔ ۹۷ ممالک نے اسے قانوناً یا عملاً ختم کر دیا ہے۔ ۳۵ ممالک ایسے ہیں کہ وہاں سزاے موت کے خاتمے کا کوئی قانون منظور نہیں ہوا مگر سزاے موت پر عمل بھی دس بارہ سال سے کبھی نہیں ہوا۔ یوں عملاً یہ ان ممالک میں شمار ہوتے ہیں جہاں سزاے موت نہیں ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اعداد و شمار کے مطابق ۱۴۰ ممالک میں سزاے موت کا عمل ختم ہوچکا ہے۔ ان میں یورپین یونین کے تمام ممالک جن کی تعداد ۴۷ ہے شامل ہیں۔ ترکی واحد مسلمان ملک ہے جو ان میں شامل ہے۔ دیگر تمام مسلم ممالک میں سزاے موت یا قصاص کا قانون موجود ہے، گو پاکستان میں بھی تقریباً چھے سال سے اس پر عمل درآمد رکا ہوا ہے۔
میاں نواز شریف صاحب نے اپنے پیش رو حکمرانوں کی طرح مغرب کی مرعوبیت سے خوف زدہ ہوکر اس قرآنی و نبوی قانون کو تعطل کا شکار بنا رکھا ہے۔ آبادی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ۶۰ فی صد سے زائد عالمی آبادی کے خطوں میں یہ قانون اب تک لاگو ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل، یواین او اور دیگر این جی اوز جن کا ضمیر مغرب کی تہذیب سے اٹھا ہے۔ اس سزا کے خلاف اپنی مہم تیز سے تیز تر کرتے چلے جا رہے ہیں اور نہ ماننے والوں پر پابندیاں لگانے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں مگر امریکا اور چین جیسے ویٹو پاور رکھنے والے ممالک اور آبادی و وسائل کے لحاظ سے انتہائی طاقت ور اقوام اس کے حق میں نہیں۔ اقوام متحدہ نے جنرل اسمبلی اور سیکورٹی کونسل میں ۲۰۰۷ء، ۲۰۰۸ء اور پھر ۲۰۱۰ء میں سزاے موت کے خاتمے کے لیے قرارداد منظور کیں مگر ان کو بڑی قوتوں نے ویٹو کردیا۔ یہ عجیب بات ہے کہ ایمنسٹی جو عدل و انصاف کی علَم بردار بنتی ہے، قاتل اور مجرم کی پشت پناہ بنی کھڑی ہے اور مظلوم کے زخموں پر نمک ہی نہیں مرچیں بھی چھڑک رہی ہے۔ آخر ان اداروں کی ایسے معاملات میں ان پالیسیوں کی موجودگی کیا اخلاقی حیثیت باقی رہ جاتی ہے۔
جہاں تک مسلمان ممالک اور بالخصوص اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی ریاست پاکستان کا تعلق ہے تو حکمرانوں، پالیسی سازوں اور تمام اہلِ وطن کی خدمت میں ہم نبیِ مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ’’حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی پاکؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص خطا اور بھول چوک یا نشانہ بازی میں مارا گیا یا کوڑا لگنے سے قتل ہوگیا تو اس کی دیت قتل خطا والی ہے۔ اور جو عمداً قتل کیا گیا تو قاتل سے اس کا قصاص لیا جائے گا۔ اگر کوئی اس میں رکاوٹ بنتا ہے تو اس پر اللہ کی، اس کے فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ہے‘‘۔ (بحوالہ سنن ابی داؤد، کتاب الدیات حدیث ۳۹۹۶ ، ابن ماجہ، کتاب الدیات، حدیث ۲۶۳۱)
پاکستان کے حکمرانو، خدا کے لیے سوچو! اللہ اور اس کے فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت کی وعید کچھ کم نہیں۔ کاش! اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان کا دعویٰ کرنے والوں کی آنکھوں سے پٹی اتر جائے!