پچھلی ایک صدی کے واقعات نے اس حقیقت کو ثابت کردیا ہے کہ بغیر کسی اخلاقی ضابطے کی پابندی کے سوسائٹی میں انصاف اور عدل قائم نہیں رہ سکتا۔ جب لوگوں کی زندگی کا منتہاے مقصود دنیوی فوائد و لذائذ سمیٹنا ہو تو پھر ان کی نظروں سے جائز و ناجائز کی تمیز بالکل اوجھل ہوجاتی ہے۔ انھیں اس بات کی کوئی فکر نہیں رہتی کہ اُن کے آمدنی کے ذرائع کن کن طریقوں سے سماج میں ظلم و ستم، بے حیائی اور بدمعاشی کو ترقی دے رہے ہیں۔ دولت کے پجاری کی حیثیت سے اُس کا نقطۂ نظر صرف یہی ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو اُسے زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنی چاہیے، خواہ اُس سے اُس کی قوم اور ملّت یا پوری انسانیت کو کتنا ہی نقصان پہنچے۔ اگر وہ یہ دیکھتا ہے کہ اُس کی آمدنی شراب کی فروخت، رقص و سُرود کی محفلیں سجانے اور فحش لٹریچر کی اشاعت اور اخلاق سوز تصویریں دکھانے سے بڑھتی ہے تو فوراً اپنا روپیہ ان کاموں میں کھپا دیتا ہے، اور قطعاً محسوس نہیں کرتا کہ اُس کی اِن حرکات سے سماج کو بحیثیت مجموعی کس قدر خسارہ برداشت کرنا پڑرہا ہے، کتنی عصمتیں لٹتی ہیں، کتنی عفتیں برباد ہوتی ہیں، کتنے نوجوان آوارگی کا شکار ہوتے ہیں اور کتنے افراد مجرم بنتے ہیں۔
یہی نہیں، بلکہ سرمایہ کاری کا رُخ فواحش کی طرف موڑ دینے سے ضروریاتِ زندگی کم یاب بلکہ نایاب ہوجاتی ہیں۔ عوام گندم کے ایک ایک دانے کے لیے ترستے ہیں، انھیں موسمی ضروریات کے لیے تو کیا اپنا ستر تک چھپانے کے لیے کپڑا نہیں ملتا۔ اُن کے بچے دودھ کے ایک ایک قطرے کے لیے بلکتے ہیں اور اُس کے برعکس دوسری طرف سرمایہ داروں کی دولت پرستی اور نفع اندوزی کے طفیل انسانوں کا ایک قلیل طبقہ رفیع الشان محلات میں رہ کر اپنا سارا وقت عیش و تنعم میں بسر کرتا ہے۔ وہ دل جو خوفِ خدا سے خالی ہوں، جن کے اندر احساسِ جواب دہی ناپید ہو وہ اتنے بے حس ہوتے ہیں کہ لوگوں کے بڑے سے بڑے مصائب اُن کے اندر معمولی سے معمولی ارتعاش بھی پیدا نہیں کرسکتے۔(’انسانیت کی تعمیر نو اور اسلام‘ ، عبدالحمید صدیقی، ترجمان القرآن،جلد۴۱، عدد۲، صفر ۱۳۷۳ھ، نومبر ۱۹۵۳ء، ص ۴۹-۵۰)