سوال: آج کل پلاٹوں یا مکانات کا کاروبار یا خرید وفروخت مختلف مقاصد کے لیے عروج پر ہے۔ لوگ اپنی سرمایہ کاری کے لیے پلاٹ یا مکان تجارت کی غرض سے خریدتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب رقم کی ضرورت ہوگی یا بھائو بڑھے گا تو پلاٹ یا مکان فروخت کردیں گے۔ اس طرح بروقت رقم مہیا ہوجائے گی۔
عام طور پر پلاٹ خریدنے کے کئی مقاصد ہوسکتے ہیں:
۲- زکوٰۃ بروقت ادا کردہ رقم پر ہوگی یا موجودہ مارکیٹ ریٹ پر ہوگی؟
۳- رقم کی ادایگی کئی قسطوں اورسالوں تک چلتی رہتی ہے۔ اس صورت میں زکوٰۃ صرف ادا کردہ رقم پر ہوگی یا بیع میں طے شدہ رقم پر ہوگی؟
۴- لوگ ادایگی زکوٰۃ سے بچنے کے لیے مختلف حیلے کرتے ہیں، جیسے کسی کے پاس چاندی اور سونے کے زیور ہیں تو ان میں سے ایک چیز اپنے صغیر بیٹے کے نام پر کردی اور دوسری اہلیہ کے نام پر رہنے دی۔ کیا اس شخص سے زکوٰۃ ساقط ہوجائے گی؟
۵- کسی کے پاس غیرملکی کرنسی ہے تو اس کی زکوٰۃ کیسے اور کس صورت میں ادا ہوگی؟
۶- بعض لوگ مکان خرید کر، پھر کرایے پر دیتے ہیں۔ کیا اس خرید کی ہوئی کُل پونجی پر یا کرایے کے لیے دی ہوئی رقم پر زکوٰۃ ہوگی؟
۷- پلاٹ یا پراپرٹی خریدنے کے وقت جو رقم طے ہوتی ہے اسے عام طور پر قرض سمجھا جاتا ہے۔ کیا اس مکان یا پلاٹ کی کُل رقم سے وہ قرض منہا کیا جائے گا یا جو رقم ادا کی گئی ہے صرف اس پر زکوٰۃ ہوگی؟
جواب: مال دار کو اللہ تعالیٰ نے جو مال دیا ہے اس میں زکوٰۃ کا مال بھی شامل ہوتا ہے، جو اللہ تعالیٰ فقرا اور مساکین اور مستحقین زکوٰۃ کو براہِ راست دینے کے بجاے مال داروں کے ذریعے دیتا ہے۔اس سے مال داروں کا امتحان مقصود ہے کہ وہ اللہ کا حق ادا کرتے ہیں یا نہیں۔ حق داروں کو حق ادا کرنے والوں کو آخرت میں اجر عطا فرماتے ہیں اور دنیا میں فقرا و مساکین اور مستحقینِ زکوٰۃ کا محبوب بناتے ہیں۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو اپنا محبوب بھی بناتے ہیں اور اہلِ ایمان اور خلقِ خدا کا بھی محبوب بنا دیتے ہیں، اور جو شخص مالِ زکوٰۃ ادا نہ کرے گا اور مستحقین کا حق ہڑپ کرے گا وہ دنیا اور آخرت دونوں میں ذلیل و خوار ہوگا۔ زکوٰۃ ادا کرنے سے مال پاک و صاف ہوتا ہے، زکوٰۃ دینے والے کے ایمان میں اضافہ اور برکت اور زندگی میں تزکیہ پیدا ہوتا ہے اور زکوٰۃ ادا نہ کرنے والے کا مال ناپاک اور اس کے اندر بخل کی بیماری پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ مال کی محبت میں اللہ اور اس کے رسولؐ اور دین کی محبت سے محروم ہوجاتا ہے اور پیسے گننے اور گن گن کر جمع کرنے میں مشغول رہتا ہے۔ پریشانی اور غم کی زندگی بسر کرتا ہے اور نیکیوں سے محروم رہتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کو قابلِ رشک قرار دیا ہے۔ ایک وہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو، پھر اسے نیکی کے کاموں میں صرف کرنے پر لگا دیا ہو، اور دوسرا وہ جسے قرآن و سنت کا علم دیا ہو اوروہ اس پر عمل کرتا ہو اور اس کی تعلیم دیتا ہو (بخاری)۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا: سخی اللہ کے قریب ہے، جنت کے قریب ہے، لوگوں کے قریب ہے، دوزخ سے دُور ہے، بخیل اللہ سے دُور ہے، جنت سے دُور ہے، لوگوں سے دُور ہے، آگ کے قریب ہے(ترمذی)۔ نیز فرمایا: دو خصلتیں مومن میں جمع نہیں ہوتیں: بخل اور بدخلقی(ترمذی)۔ایک اور روایت میں ہے : جنت میں چغل خور، فسادی اور بخیل اور احسان جتانے والے داخل نہ ہوں گے۔(ترمذی)
اس طرح زکوٰۃ نہ دینے والے کا مال قیامت کے روز اس پر وبال ہوگا۔ سوناچاندی اس کے گلے میں ہار بناکر سانپ کی شکل میں ڈالا جائے گا۔ وہ اسے دونوں باچھوں سے کاٹے گا اور کہے گا: انا مالک انا کنزک’’میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں‘‘۔ گائے، اُونٹ، بیل،بھینسا اور بکرے اور دنبوں کی زکوٰۃ نہ دی تو وہ اس کی گردن پر سوار ہوں گے اور اسے پائوں تلے روندیں گے۔ اگر کوئی شخص اپنے پلاٹوں کی زکوٰۃ نہ دے گا تو وہ پلاٹ اس کی گردن کا ہار بنیں گے اور وہ ان میں نیچے تک دھنستا چلا جائے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کسی کی زمین بالشت بھر بھی غصب کرے گا، سات زمینیں اس کی گردن کا طوق بنا دی جائیں گی۔ جو شخص پلاٹ کی زکوٰۃ نہیں دیتا وہ فقیر کے حصے کو غصب کرتا ہے تو یہ حصہ اس کی گردن کا طوق ہوگا اور اس کے ساتھ سات زمینیں اس کی گردن کا طوق بنیں گی۔ تب یہ کس قدر گھاٹے کا کام ہے، لہٰذا حیلوں بہانوں سے زکوٰۃ سے جان چھڑانا منافقانہ طرزِعمل ہے۔ اس سے جس قدر جلد ی توبہ کی جائے اسی قدر بہتر ہے۔
اب سوالات کے ترتیب وار جواب درج ہیں:
۱- جو پلاٹ سرمایہ کاری کے لیے خریدا جائے، خریدنے سے پہلے اس رقم کی زکوٰۃ ادا نہ کی ہو تو اس کی زکوٰۃ ادا کی جائے۔ پھر جب تک وہ فروخت نہیں ہوتا اس وقت تک سال بہ سال اس کی مارکیٹ ریٹ کے مطابق قیمت لگاکر اس کی زکوٰۃ ادا کی جائے۔ کیونکہ یہ مالِ تجارت ہے اور مالِ تجارت کی زکوٰۃ اسی طرح ادا کی جاتی ہے۔
۲- ذاتی مکان بنانے کے لیے پلاٹ خریدا جائے یا اپنی اولاد کے مکان کے لیے خریدا جائے تو ایسی صورت میں اس پر زکوٰۃ نہیں ہے کیونکہ یہ مالِ تجارت نہیں ہے۔
۳- کسی رفاہی کام کے لیے پلاٹ خریدا جائے، جیسے ہسپتال، اسکول، مدرسہ، مسجد، مسافرخانہ، فراہمی آب، یتیم خانہ یا معذور افراد کے لیے پلاٹ یا مکان خریدا جائے تو اس پر بھی زکوٰۃ نہیں ہے کیونکہ پلاٹ یا مکان تجارتی مقاصد کے لیے نہیں ہے۔
۴- زمین جو تجارتی مقاصد کے لیے ہو جب فروخت کی جائے تو اس وقت اس پر زکوٰۃ قیمت ِفروخت پر ہوگی صرف منافع پر نہیں۔ اسی طرح سال بہ سال اس کی قیمت لگاکر ہرسال اس کی زکوٰۃ ادا کی جائے گی جیسے کہ اس سے پہلے سوال نمبر ایک کے جواب میں بھی ذکر کیا گیا ہے۔
۵- زکوٰۃ منافع پر نہیں اس پوری قیمت پر ہوگی جو موجودہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق ہو۔
۶- جب سودا ہوجاتا ہے تو پلاٹ یا مکان خریدار کے قبضے میں آجاتا ہے۔ زکوٰۃ ادا کرتے وقت مارکیٹ ریٹ کے مطابق رقم لگائی جائے گی اور جتنی رقم کی ادایگی باقی ہے وہ خریدار کے ذمے قرض ہے۔ اس کی کُل رقم سے منہا کر کے باقی رقم کی زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔
۷- سقوطِ زکوٰۃ کے لیے حیلہ کیا جائے۔ سونے اور چاندی کے زیور میں کوئی بیٹے اور کوئی بیوی کے نام کردیا جائے۔ اگر حقیقتاً ملکیت تبدیل کردی اور دوبارہ اپنی ملک میں لانا پیش نظر نہیں ہے تو پھر زکوٰۃ ساقط ہوجائے گی۔ اگر محض دکھاوے کے لیے ایسا کیا گیا ہے، ملکیت تبدیل کرنا پیش نظر نہیں ہے تو پھر دنیا والوں کے نزدیک بے شک زکوٰۃ ساقط ہوجائے مگر عنداللہ زکوٰۃ ساقط نہ ہوگی اور زکوٰۃ ادا نہ کرنے کی وعید ایسے شخص کو بھی اپنی گرفت میں لے لے گی۔
۸- غیرملکی کرنسی کی زکوٰۃ غیرملکی کرنسی کی صورت میں بھی دی جاسکتی ہے کہ اس کا اڑھائی فی صد زکوٰۃ میں دے دے یا اس کی پاکستانی کرنسی میں مارکیٹ ریٹ لگاکر پاکستانی روپیہ میں اڑھائی فی صد زکوٰۃ دے دی جائے۔
۹- مکان خرید کر کرایے پر دیا جائے تو اس پر زکوٰۃ نہیں ہے بلکہ کرایے سے جو آمدن ہوتی ہے، سال بعد اسے نقد رقم جو آدمی کے پاس ہو اس میں شامل کر کے تمام رقم کی زکوٰۃ ادا کرنا ہوگی۔ کرایے کا مکان ذریعۂ پیداوار ہے اور ذرائع پیداوار پر زکوٰۃ نہیں ہے اِلا یہ کہ مالِ تجارت کے طور پر رکھا گیا ہو۔
۱۰- پراپرٹی خریدتے وقت جو رقم طے ہوئی ہے اس کے عوض خریدار پلاٹ کا مالک ہوگیا۔ اگر وہ پلاٹ کاروبار کے لیے ہے تو اس پورے پلاٹ کی مارکیٹ ریٹ کی قیمت پرزکوٰۃ عائد ہوگی اور جو رقم خریدار کے ذمے باقی ہے وہ اس میں سے منہا کردی جائے گی۔واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)