انٹر نیٹ کی ایجاد نے ابلاغ کی دنیا میں تہلکہ مچادیا ہے۔ اب دنیا عملاً گلوبل ولیج (عالمی گائوں) میں تبدیل ہوگئی ہے۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں رونما ہونے والا واقعہ اب منٹوں نہیں، سیکنڈوں میں عوام تک پہنچ جاتا ہے۔ برقی ابلاغ کی نئی جہتوں نے دعوتِ دین کا کام کرنے والوں کے لیے آسانی پیدا کردی ہے۔ دعوت کے ابلاغ کے لیے ان گنت ذرائع بہم پہنچادیے ہیں۔ انھی ذرائع میں مؤثر ذریعہ فیس بک، ٹیوٹر اور دیگر سماجی رابطے کی ویب سائٹس ہیں، جنھیں ’سوشل میڈیا‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی تعداد ۸۰لاکھ ہے جو مسلسل بڑھ رہی ہے اور اندازہ ہے کہ ۲۰۱۴ء میں یہ تعداد ایک کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ پاکستان میں ۱۸ سے ۳۵ سال کی عمر کے ووٹر ۴ کروڑ کی تعداد میں موجود ہیں،جب کہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والے ۱۸ سے ۳۵ سال کی عمر کے افراد کی تعداد ۵۰ لاکھ ہے۔ گویا یہ ۵۰ لاکھ نوجوان ایسے ہیں جو سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہیں۔ دعوت ِ دین کی اشاعت میں اگر انھی افراد کو ہدف بنالیا جائے تو اندازہ کیجیے ملک کی آبادی کی کتنی بڑی تعداد ہماری دعوت سے آگاہ ہوسکتی ہے۔
انٹر نیٹ کی دنیا میں جو کام سوشل میڈیا کررہا ہے، جماعت اسلامی کا کام بھی بنیادی طور پر یہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دنیا میں بھیجا بھی اسی مقصد کے لیے ہے اور خود جماعت اسلامی بھی اسی مقصد کے لیے بنائی گئی ہے کہ لوگوں تک دین کی دعوت پہنچائیں۔ اگر بڑی تعداد میں لوگ ہمارے کارکن نہ بن سکیں، کم ازکم ہر فرد تک ہماری بات تو پہنچی ہوئی ہو۔ لوگوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ہم کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں؟
تحریک سے وابستہ وہ افراد جو سوشل میڈیا استعمال کر تے ہیں، ان کا پہلا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ وہ ۸۰ لاکھ افراد جو سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہیں، ان میں سے ہر فرد جماعت اسلامی کے نام اور دعوت سے واقف ہو۔ سوشل میڈیا پر جماعت اسلامی کا مثبت تاثر (امیج) پیش کیا جائے۔ اس وقت عام آدمی کے سامنے جماعت اسلامی کے بارے میں تصور یہ ہے کہ یہ ایک ایسی جماعت ہے جو اسلام کا نعرہ لگاتی ہے، اسلام کا نفاذ چاہتی ہے، امریکا کی مخالف ہے۔لوگوں کا خیال ہے کہ یہ بس اچھے اور ایمان دار لوگوں کی ایک جماعت ہے۔ اس تناظر میں ایک ایسا تاثر لے کر آنا چاہیے کہ جس کے نتیجے میں لوگوں کے سامنے ہماری یہ تصویر ابھرے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو عوام کے مسائل حل کرسکتے ہیںبلکہ ان کے علاوہ کوئی حل کر ہی نہیں سکتا۔ یہ وہ تاثر ہے جو سوشل میڈیا کے ذریعے ذہنوں میں آسانی کے ساتھ راسخ کیا جاسکتا ہے۔
سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کو یہ پیغام دینے کی ضرورت ہے کہ جماعت اسلامی ہی کے پاس پاکستان کے مسائل کا حل ہے۔ نہ صرف حل ہے بلکہ اس کے پاس وہ قیادت موجود ہے جو ان مسائل کو حل کرسکتی ہے جو دوسری کسی جماعت کے پاس نہیں ہے۔ جس طرح ہماری دعوت ہے جس میں ہم لٹریچر بھی تقسیم کرتے ہیں، درس قرآن بھی دیتے ہیں، آخرت کی طرف بلاتے ہیں اور بندگیِ رب کی دعوت دیتے ہیں، اسی طرح ہماری ایک سیاسی دعوت ہے۔ ہم یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ اس ملک کے اندر جتنے مسائل ہیں، انھیں جماعت اسلامی کے علاوہ کوئی حل نہیں کرسکتا۔ دیگر پارٹیوں میں نہ یہ صلاحیت ہے کہ وہ کرپشن ختم کرسکیں، نہ ان کی یہ ساکھ ہے، نہ وہ اس کام کو پہلے کرسکے ہیں اور نہ آیندہ ان سے اس کی توقع رکھی جاسکتی ہے۔ یہی ہماری سیاسی دعوت ہے جسے عوام تک پہنچنا چاہیے۔ یہ دعوت جب لوگوں تک پہنچے گی اور لوگ ہماری بات سے اتفاق کریں گے تو اس کے نتیجے میں سوچ میں تبدیلی آئے گی۔
اس پیغام کو ہمیں سوشل میڈیا کے ذریعے بھرپور طریقے سے پھیلانا چاہیے۔ الحمدللہ اس مقصد کے لیے ہمارے پاس ڈیٹا اور لوازمہ موجود ہے۔ ہم سوشل میڈیا پر یہ پیغام دے سکتے ہیں کہ پاکستان میں جب کبھی جماعت اسلامی کے نمایندوں کو خدمت کا موقع ملا، انھوں نے اپنے آپ کو منوایا ہے۔ اس کے لیے کراچی کی مثال دی جاسکتی ہے جہاں عبدالستار افغانی صاحب دو بار میئر منتخب ہوئے اور انھوں نے خدمت کی لازوال داستان چھوڑی۔ نعمت اللہ خان کی نظامت کے سنہرے دور کا تذکرہ اعدادوشمار اور تصاویر کی صورت میں ہوسکتا ہے۔ اسی طرح خیبرپختونخوا میں ہمارے ارکانِ اسمبلی نے جو خدمات انجام دیں اور حکومت میں رہ کر جو خدمت کی۔ ان سے بھی بڑھ کر الخدمت ہے۔ یہ مثال دی جاسکتی ہے کہ جماعت اسلامی اقتدار میں نہ ہوکر بھی ’الخدمت‘ کے ذریعے جو خدمات انجام دیتی ہے، پاکستان کی کسی سیاسی ومذہبی جماعت سے اس کا تقابل نہیں کیا جاسکتا۔ تعلیم کے میدان کے بارے میں لوگوں کو متوجہ کیا جاسکتا ہے۔ صحت کے حوالے سے ڈسپنسریاں، ہسپتال، زلزلہ و آفات کے مواقع پر جماعت اسلامی کے ڈاکٹروں کی مفت او رفی سبیل اللہ خدمات کا تذکرہ کیا جاسکتا ہے۔
یہ وہ پیغام ہے جو لوگوں کے پاس جانا چاہیے، لیکن اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارے کچھ افراد لوازمہ اور مواد اکٹھا کرنے پر توجہ دیں۔ ہم ایسا لوازمہ ترتیب دیں جس کے ذریعے ہم لوگوں کے دلوں پر دستک دے سکیں۔ جس کے ذریعے لوگوں کو یہ بات پتا چلے کہ ہم لوگوں کے مسائل کے حل کے لیے بات کررہے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم سلوگن تیار کریں، کارٹون بنائیں، مختصر فلمیں بنائیں یا اشتہارات بنائیں۔ یہ ہمارے کرنے کاکام ہے کہ ہم اپنی دعوت کو زندہ مسائل کے حل کے ساتھ جوڑیں اور اسے پھراپنی دعوت کے طورپر لوگوں کے سامنے پیش کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھیں کہ جو لوگ سوشل میڈیا استعمال کررہے ہیں، ان تک ہمارا یہ پیغام جا بھی رہا ہے یا نہیں؟ اگر جارہا ہے تو اس کے کچھ مثبت اثرات بھی سامنے آرہے ہیں کہ نہیں! یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ کسی بھی کام کے ساتھ اس کا فیڈ بیک لینا انتہائی مفید ہوتا ہے۔
اس وقت ’بلاگ‘ بھی سوشل میڈیا کا ایک اہم ٹول ہے۔ دعوت پہنچانے کے لیے فیس بک پر پوسٹنگ کے ساتھ ساتھ ہمیں بلاگ پر بھی کام کرنا چاہیے۔ بلاگ پر چھوٹے چھوٹے مضامین کے ذریعے اپنا پیغام عام کیا جاسکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ ایک اوپن فیلڈ ہے جس پر اگر ہم کام کریں تو آیندہ چار پانچ سالو ںمیں اس میدان میں ہم چھاسکتے ہیں۔ ایسا نظر آتا ہے کہ چند سال بعد دعوت کے ابلاغ کا یہ ایک مؤثر ذریعہ ہوگا۔ یہی بلاگ رائٹر امیج بلڈنگ کا کام کریں گے۔ ان بلاگز کے ذریعے سے ہم علاقے اور شہروں کے مسائل اُجاگر کریں۔ اس کے ذریعے ہم یہ ثابت کرسکیں گے کہ ہمارے معاشرے کو جن معاشرتی مسائل کا سامنا ہے، ان معاشرتی مسائل کا حل بھی جماعت اسلامی کے پاس ہے۔ اس مقصد کے لیے پاکستان میں سو ڈیڑھ سو افراد ایسے ہوں جن میں لکھنے کی صلاحیت ہو اور وہ بلاگرز کے طورپر سامنے آئیں۔ ان کو تربیت دی جائے اور وہ لکھنا شروع کریں اور سال چھے مہینے کے اندر وہ اپنی آن لائن کتابیں لکھیں جو کسی خاص موضوع کا احاطہ کررہی ہوں۔ اس وقت بے شمار موضوعات ہیں۔ ہمارے معاشرے میں خودکشی ہے، نشہ ہے، ملاوٹ ہے، تھانہ کلچر ہے، لڑائی جھگڑا ہے، طلاقوں کا رجحان ہے اور دیگر مسائل ہیں۔ ان تمام ایشوز کو ہدف بنانے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے لکھنے اور لوگوں میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ چاہے وہ کہانی ہو، افسانہ کی صورت ہو، ناول یا شارٹ فلم کی اسٹوری ہو… دعوت کے لیے ان تمام اصناف کو استعمال کیا جاسکتا ہے اور انھیں اپنی دعوت کا ایک حصہ سمجھا جائے۔
یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ہم لوگوں تک صرف دعوت پہنچانا نہیں چاہتے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانا چاہتے ہیں۔ توجہ کے حصول کے لیے اس وقت سوشل میڈیا ایک اہم ذریعہ ہے، کیونکہ بقیہ ذرائع سے ہم صرف یک طرفہ دعوت پہنچاتے ہیں۔ آپ ٹی وی پر کوئی پروگرام کریں یا بل بورڈز لگائیں، بینرز لگائیں یا ہینڈ بل تقسیم کریں لیکن سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کے ساتھ تبادلۂ خیال کیا جاسکتا ہے۔ ان کے سوالات کا جواب دے سکتے ہیں۔ ان کے نقطۂ نظر کو سمجھا جاسکتا ہے۔
یہ بات سمجھنی چاہیے کہ دعوت پھیلانے کے لیے engagement بنیادی چیز ہے۔ کروڑوں لوگوں تک آپ پملفٹس بانٹ دیجیے، ہینڈ بلز تقسیم کیجیے، تقریریں کرلیجیے، لوگ آپ کی دعوت سے مطمئن نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ لوگوں کو اپنے ساتھ شامل نہیں کریں گے، ان سے تبادلۂ خیال اور گفتگو نہیں کریں گے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جو سب سے مضبوط میڈیم ہے وہ word of mouthہے۔ باہمی گفتگو کے ذریعے لوگ متاثر ہوتے ہیں اور ساتھ دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ اس تناظر میں اگر ہم صرف ۸۰ لاکھ لوگوں تک اپنا پیغام پہنچادیں تو اس کے نتیجے میں آپ لوگوں کو تبدیل نہیں کرسکتے لیکن آپ اگر ۱۵ سے ۲۰ لاکھ لوگوں سے گفتگو اور تعلق بنانے میں کامیابی حاصل کرلیتے ہیں تو یہ دعوت کے لیے ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دعوت نے لوگوں کی توجہ حاصل کرلی ہے۔
سوشل میڈیا پر اصل کامیابی لوگوں کی گفتگوکا موضوع بن جانا ہے اور یہ مختلف صورتوں میں ہوگا۔ چاہے وہ اچھے طریقے سے بحث ومباحثہ ہو، باہمی تبادلۂ خیال ہو۔ ہمارا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ جن ۸۰ لاکھ لوگوں تک ہم رسائی حاصل کریں، ان میں سے ۴۰-۵۰ فی صد ایسے ہوں جنھیں ہم اپنے ساتھ تعلق پیدا کرنے اور ان کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوں۔ اگر ہم اس میں کامیاب ہوگئے تویقین جانیے اس میں سے ۸ سے۱۰ لاکھ لوگوں کو آپ اپنا گرویدہ بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ جس طرح تحریک میں ہم کارکن سازی کرتے ہیں اسی طرح کوشش کرنی چاہیے کہ سوشل میڈیا پر بھی لاکھ دو لاکھ لوگ ہمارے کارکن بن جائیں۔ وہ ہمارے سوشل میڈیا کے کارکن ہوں۔
اس وقت پاکستان میں سب سے زیادہ اثر و نفوذ الیکٹرانک میڈیا کا ہے۔ پاکستان میں ۴-۵ کروڑ افراد ایسے ہیں جو روزانہ ٹی وی دیکھتے ہیں، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ الیکٹرانک میڈیا اگر کسی سے ڈرتا ہے تو وہ سوشل میڈیا ہے۔ اس لیے سوشل میڈیا ایک ایسا آلہ ہے جس کے ذریعے ہم الیکٹرانک میڈیا پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ اس کا بارہا تجربہ بھی کیا جاچکا ہے۔ جب عالمی یوم حجاب کا موقع آیا تو سوشل میڈیا نے اس پر بھرپور مہم چلائی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ الیکٹرانک میڈیا کو حجاب پر پروگرام کرنا پڑا۔ ۱۲ سے ۱۵ پروگرامات حجاب کے موضوع پر ہوئے۔ اسے ہم آیندہ رجحان ساز کے طورپر بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ کراچی میں انتخابی فہرستوں کی تیاری میں ہونے والی دھاندلیوں کو بھی سوشل میڈیا کے ذریعے نمایاں کیا گیا جس کے نتیجے میں الیکشن کمیشن کو نوٹس لینا پڑا۔ یہ سوشل میڈیا نے ہی بتایا کہ ایک گھر میں سو ووٹ ہیں تو دوسرے گھر میں ۲۰۰اورکہیں ۵۰۰ ووٹ۔ بالآخر الیکٹرانک میڈیا اسے نشر کرنے پر مجبور ہوا اور الیکشن کمیشن کو بھی اس کا نوٹس لینا پڑا۔ برما میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کو بھی سوشل میڈیا نے اُجاگر کیا۔ اگر الیکٹرانک میڈیا پرکوئی چیز دوسرے رخ پر جارہی ہے تو سوشل میڈیا کے ذریعے اس کا رُخ بھی موڑا جاسکتا ہے، جیسے ملالہ کے مسئلے پر پورا الیکٹرانک میڈیا ایک سمت میں جارہا تھا، لیکن ہماری مہم کے نتیجے میں وہ پورے کا پورا ایشو دوسرا رخ اختیار کرگیا ۔ پاکستان میں اس وقت ۹۰فی صد لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ملالہ کا ایشو جعلی تھا جس میں کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ہے۔
سوشل میڈیا میں وہ قوت ہے کہ وہ دریا کے دھارے اور اس کا رُخ موڑ سکتی ہے۔ طاہرالقادری کے ایشو کو جس طرح سوشل میڈیا نے ہائی لائٹ کیا اور اس کو بے نقاب کیا ہے، حالانکہ الیکٹرانک میڈیا اس مہم میں آگے آگے تھا، مگر سوشل میڈیا نے اس مہم کے غبارے سے ہوا نکال دی۔ اسی طرح سوشل میڈیا کے ذریعے بہت سارے اینکرز کو بھی discreditکیا جاسکا ہے۔ ایک مشہور اینکر کا کیس تو آیا ہی سوشل میڈیا پر تھا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ہی ۱۶-۱۷ لاکھ لوگوں نے اس کو شیئر کیا جس کی وجہ سے اس مشہور اینکر کے شو کی حقیقت کھل گئی اور چیف جسٹس اور ملک ریاض کیس کی حقیقت کھل کر سامنے آئی۔
اس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ جو صلاحیت سوشل میڈیا کے پاس ہے اس کو ہمیں سمجھنا چاہیے اور اس کو استعمال کرنا چاہیے۔ پاکستان کے یہ چینلوں انتہائی طاقت ور ہیں، ان کے خلاف لڑنے کا اور کوئی میدان نہیں ہے۔ اگر ہم سوشل میڈیا کے ذریعے اسے مجبور رکھیں تو یہ ہماری بڑی کامیابی ہوگی۔ اس کے ذریعے سے اینکر کو بھی اپنے جامے میں رکھا جاسکتا ہے۔ اس وقت الیکٹرانک میڈیا کی پوری تجارت Rating پر ہے۔ ہر چینل کو اس بات کی فکر رہتی ہے کہ اس کی ریٹنگ بڑھ جائے۔ لوگ وہ کام کرنا چاہتے ہیں کہ جس کے نتیجے میں ریٹنگ اوپر جائے۔ سوشل میڈیا میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ کسی کی ریٹنگ کو بڑھا اور گھٹاسکے ۔
سوشل میڈیا نے یہ بات بھی ثابت کی ہے کہ اس کے ذریعے اداروں کو متاثر کیا جاسکتا ہے، کیونکہ اس کی پہنچ سب تک ہے۔ اس کے ذریعے سے حکومت اور اس کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوا جاسکتا ہے۔ بعض امور پر حکومت بالخصوص خاموش تھی، جیسے حرمت رسولؐ… الیکٹرانک میڈیا نے بھی اسے کوئی خاص اہمیت نہیں دی، لیکن سوشل میڈیا نے جب اسے اٹھایا تو حکومت نے قراردادیں منظور کیں۔ چھٹی کا اعلان کیا۔ برما کے بارے میں پہلے ہی عرض کیا جاچکا ہے کہ اس مسئلے کو نہ الیکٹرانک میڈیا نے اہمیت دی نہ پرنٹ میڈیا نے، لیکن سوشل میڈیا اس کو اتنے اچھے طریقے سے سامنے لایا کہ اس کے نتیجے میں ہلچل مچ گئی۔ پھر حکومت نے اس پر قرارداد منظور کی۔ وزیر خارجہ نے برما کے سفیر کو طلب کیا۔
یہ وہ ایشوز ہیں جن سے ہمیں پتا چلتا ہے اگر ہم کسی مسئلے کو بھرپور طریقے سے اٹھائیں تو حکومت بھی اس کے آگے مجبور ہوتی ہے۔ اسی طرح عدلیہ نے بھی سوشل میڈیا پر اٹھائے جانے والے کئی ایشوز کا نوٹس لیا ہے۔ شاہ رخ کیس کا اگر عدلیہ نے نوٹس لیا تو اس میں اہم کردار سوشل میڈیا کا تھا۔ گویا چیف جسٹس بھی سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ اسی طرح خروٹ آباد واقعہ بھی میڈیا پر کہیں نہیں تھا۔ سوشل میڈیا نے اس کو نشر کرنا شروع کیا۔ ویڈیو آنی شروع ہوئی۔ پوری کی پوری کہانی بدل گئی اور اس کے بعد وہ پاکستان کا نمبر ون ایشو بن گیا۔ اسی طرح کراچی میں رینجرز کی فائرنگ سے ایک نوجوان ہلاک ہوگیا تھا۔ اس کیس کو سوشل میڈیا نے اس پوزیشن پر پہنچایا کہ بالآخر رینجرز کے ڈی جی کو معطل کردیا گیا اور رینجرز اہلکار کو سزاے موت ہوئی۔ اگر وہ کیس سوشل میڈیا پر نہ آتا تو کبھی کسی کے خلاف کارروائی نہ ہوتی۔
ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سوشل میڈیا ایک ’انٹرا ایکٹو میڈیم‘ ہے، یعنی ایسا میڈیم جو ایک دوسرے پر اثرانداز ہوسکتا ہے اور دو رویہ ترسیلِ معلومات کا اہل ہے۔ یہاں اس بات کی اہمیت نہیں ہے کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں بلکہ اس بات کی اہمیت ہے کہ دوسرے لوگ کیا کہہ رہے ہیں؟ عوامی راے کا آپ کو سوشل میڈیا کے ذریعے پتا چلے گا۔ سوشل میڈیا پر گھنٹہ دو گھنٹہ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ لوگ کیا سوچ رہے ہیں؟ وہ کن موضوعات پر بات کررہے ہیں؟ کیا ایشو چل رہا ہے؟ جب ہم سوشل میڈیا میں ’عوامی راے‘ کو دیکھیں گے، اس کے مطابق کام کرنے میں آسانی ہوگی۔ سوشل میڈیا ایک ہمہ جہتی ہتھیار ہے جس کو اگر بھرپور منصوبہ بندی کے ساتھ استعمال کیا جائے تو نہ صرف لوگوں کا ذہن تبدیل کیا جاسکتا ہے ، بلکہ جماعت اسلامی کی دعوت بھرپور طریقے سے لوگوں بالخصوص پڑھے لکھے، تعلیم یافتہ نوجوانوں تک پہنچائی جاسکتی ہے۔