انٹر نیٹ کی ایجاد نے ابلاغ کی دنیا میں تہلکہ مچادیا ہے۔ اب دنیا عملاً گلوبل ولیج (عالمی گائوں) میں تبدیل ہوگئی ہے۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں رونما ہونے والا واقعہ اب منٹوں نہیں، سیکنڈوں میں عوام تک پہنچ جاتا ہے۔ برقی ابلاغ کی نئی جہتوں نے دعوتِ دین کا کام کرنے والوں کے لیے آسانی پیدا کردی ہے۔ دعوت کے ابلاغ کے لیے ان گنت ذرائع بہم پہنچادیے ہیں۔ انھی ذرائع میں مؤثر ذریعہ فیس بک، ٹیوٹر اور دیگر سماجی رابطے کی ویب سائٹس ہیں، جنھیں ’سوشل میڈیا‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی تعداد ۸۰لاکھ ہے جو مسلسل بڑھ رہی ہے اور اندازہ ہے کہ ۲۰۱۴ء میں یہ تعداد ایک کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ پاکستان میں ۱۸ سے ۳۵ سال کی عمر کے ووٹر ۴ کروڑ کی تعداد میں موجود ہیں،جب کہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والے ۱۸ سے ۳۵ سال کی عمر کے افراد کی تعداد ۵۰ لاکھ ہے۔ گویا یہ ۵۰ لاکھ نوجوان ایسے ہیں جو سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہیں۔ دعوت ِ دین کی اشاعت میں اگر انھی افراد کو ہدف بنالیا جائے تو اندازہ کیجیے ملک کی آبادی کی کتنی بڑی تعداد ہماری دعوت سے آگاہ ہوسکتی ہے۔
انٹر نیٹ کی دنیا میں جو کام سوشل میڈیا کررہا ہے، جماعت اسلامی کا کام بھی بنیادی طور پر یہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دنیا میں بھیجا بھی اسی مقصد کے لیے ہے اور خود جماعت اسلامی بھی اسی مقصد کے لیے بنائی گئی ہے کہ لوگوں تک دین کی دعوت پہنچائیں۔ اگر بڑی تعداد میں لوگ ہمارے کارکن نہ بن سکیں، کم ازکم ہر فرد تک ہماری بات تو پہنچی ہوئی ہو۔ لوگوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ہم کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں؟
تحریک سے وابستہ وہ افراد جو سوشل میڈیا استعمال کر تے ہیں، ان کا پہلا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ وہ ۸۰ لاکھ افراد جو سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہیں، ان میں سے ہر فرد جماعت اسلامی کے نام اور دعوت سے واقف ہو۔ سوشل میڈیا پر جماعت اسلامی کا مثبت تاثر (امیج) پیش کیا جائے۔ اس وقت عام آدمی کے سامنے جماعت اسلامی کے بارے میں تصور یہ ہے کہ یہ ایک ایسی جماعت ہے جو اسلام کا نعرہ لگاتی ہے، اسلام کا نفاذ چاہتی ہے، امریکا کی مخالف ہے۔لوگوں کا خیال ہے کہ یہ بس اچھے اور ایمان دار لوگوں کی ایک جماعت ہے۔ اس تناظر میں ایک ایسا تاثر لے کر آنا چاہیے کہ جس کے نتیجے میں لوگوں کے سامنے ہماری یہ تصویر ابھرے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو عوام کے مسائل حل کرسکتے ہیںبلکہ ان کے علاوہ کوئی حل کر ہی نہیں سکتا۔ یہ وہ تاثر ہے جو سوشل میڈیا کے ذریعے ذہنوں میں آسانی کے ساتھ راسخ کیا جاسکتا ہے۔
سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کو یہ پیغام دینے کی ضرورت ہے کہ جماعت اسلامی ہی کے پاس پاکستان کے مسائل کا حل ہے۔ نہ صرف حل ہے بلکہ اس کے پاس وہ قیادت موجود ہے جو ان مسائل کو حل کرسکتی ہے جو دوسری کسی جماعت کے پاس نہیں ہے۔ جس طرح ہماری دعوت ہے جس میں ہم لٹریچر بھی تقسیم کرتے ہیں، درس قرآن بھی دیتے ہیں، آخرت کی طرف بلاتے ہیں اور بندگیِ رب کی دعوت دیتے ہیں، اسی طرح ہماری ایک سیاسی دعوت ہے۔ ہم یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ اس ملک کے اندر جتنے مسائل ہیں، انھیں جماعت اسلامی کے علاوہ کوئی حل نہیں کرسکتا۔ دیگر پارٹیوں میں نہ یہ صلاحیت ہے کہ وہ کرپشن ختم کرسکیں، نہ ان کی یہ ساکھ ہے، نہ وہ اس کام کو پہلے کرسکے ہیں اور نہ آیندہ ان سے اس کی توقع رکھی جاسکتی ہے۔ یہی ہماری سیاسی دعوت ہے جسے عوام تک پہنچنا چاہیے۔ یہ دعوت جب لوگوں تک پہنچے گی اور لوگ ہماری بات سے اتفاق کریں گے تو اس کے نتیجے میں سوچ میں تبدیلی آئے گی۔
اس پیغام کو ہمیں سوشل میڈیا کے ذریعے بھرپور طریقے سے پھیلانا چاہیے۔ الحمدللہ اس مقصد کے لیے ہمارے پاس ڈیٹا اور لوازمہ موجود ہے۔ ہم سوشل میڈیا پر یہ پیغام دے سکتے ہیں کہ پاکستان میں جب کبھی جماعت اسلامی کے نمایندوں کو خدمت کا موقع ملا، انھوں نے اپنے آپ کو منوایا ہے۔ اس کے لیے کراچی کی مثال دی جاسکتی ہے جہاں عبدالستار افغانی صاحب دو بار میئر منتخب ہوئے اور انھوں نے خدمت کی لازوال داستان چھوڑی۔ نعمت اللہ خان کی نظامت کے سنہرے دور کا تذکرہ اعدادوشمار اور تصاویر کی صورت میں ہوسکتا ہے۔ اسی طرح خیبرپختونخوا میں ہمارے ارکانِ اسمبلی نے جو خدمات انجام دیں اور حکومت میں رہ کر جو خدمت کی۔ ان سے بھی بڑھ کر الخدمت ہے۔ یہ مثال دی جاسکتی ہے کہ جماعت اسلامی اقتدار میں نہ ہوکر بھی ’الخدمت‘ کے ذریعے جو خدمات انجام دیتی ہے، پاکستان کی کسی سیاسی ومذہبی جماعت سے اس کا تقابل نہیں کیا جاسکتا۔ تعلیم کے میدان کے بارے میں لوگوں کو متوجہ کیا جاسکتا ہے۔ صحت کے حوالے سے ڈسپنسریاں، ہسپتال، زلزلہ و آفات کے مواقع پر جماعت اسلامی کے ڈاکٹروں کی مفت او رفی سبیل اللہ خدمات کا تذکرہ کیا جاسکتا ہے۔
یہ وہ پیغام ہے جو لوگوں کے پاس جانا چاہیے، لیکن اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارے کچھ افراد لوازمہ اور مواد اکٹھا کرنے پر توجہ دیں۔ ہم ایسا لوازمہ ترتیب دیں جس کے ذریعے ہم لوگوں کے دلوں پر دستک دے سکیں۔ جس کے ذریعے لوگوں کو یہ بات پتا چلے کہ ہم لوگوں کے مسائل کے حل کے لیے بات کررہے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم سلوگن تیار کریں، کارٹون بنائیں، مختصر فلمیں بنائیں یا اشتہارات بنائیں۔ یہ ہمارے کرنے کاکام ہے کہ ہم اپنی دعوت کو زندہ مسائل کے حل کے ساتھ جوڑیں اور اسے پھراپنی دعوت کے طورپر لوگوں کے سامنے پیش کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھیں کہ جو لوگ سوشل میڈیا استعمال کررہے ہیں، ان تک ہمارا یہ پیغام جا بھی رہا ہے یا نہیں؟ اگر جارہا ہے تو اس کے کچھ مثبت اثرات بھی سامنے آرہے ہیں کہ نہیں! یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ کسی بھی کام کے ساتھ اس کا فیڈ بیک لینا انتہائی مفید ہوتا ہے۔
اس وقت ’بلاگ‘ بھی سوشل میڈیا کا ایک اہم ٹول ہے۔ دعوت پہنچانے کے لیے فیس بک پر پوسٹنگ کے ساتھ ساتھ ہمیں بلاگ پر بھی کام کرنا چاہیے۔ بلاگ پر چھوٹے چھوٹے مضامین کے ذریعے اپنا پیغام عام کیا جاسکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ ایک اوپن فیلڈ ہے جس پر اگر ہم کام کریں تو آیندہ چار پانچ سالو ںمیں اس میدان میں ہم چھاسکتے ہیں۔ ایسا نظر آتا ہے کہ چند سال بعد دعوت کے ابلاغ کا یہ ایک مؤثر ذریعہ ہوگا۔ یہی بلاگ رائٹر امیج بلڈنگ کا کام کریں گے۔ ان بلاگز کے ذریعے سے ہم علاقے اور شہروں کے مسائل اُجاگر کریں۔ اس کے ذریعے ہم یہ ثابت کرسکیں گے کہ ہمارے معاشرے کو جن معاشرتی مسائل کا سامنا ہے، ان معاشرتی مسائل کا حل بھی جماعت اسلامی کے پاس ہے۔ اس مقصد کے لیے پاکستان میں سو ڈیڑھ سو افراد ایسے ہوں جن میں لکھنے کی صلاحیت ہو اور وہ بلاگرز کے طورپر سامنے آئیں۔ ان کو تربیت دی جائے اور وہ لکھنا شروع کریں اور سال چھے مہینے کے اندر وہ اپنی آن لائن کتابیں لکھیں جو کسی خاص موضوع کا احاطہ کررہی ہوں۔ اس وقت بے شمار موضوعات ہیں۔ ہمارے معاشرے میں خودکشی ہے، نشہ ہے، ملاوٹ ہے، تھانہ کلچر ہے، لڑائی جھگڑا ہے، طلاقوں کا رجحان ہے اور دیگر مسائل ہیں۔ ان تمام ایشوز کو ہدف بنانے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے لکھنے اور لوگوں میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ چاہے وہ کہانی ہو، افسانہ کی صورت ہو، ناول یا شارٹ فلم کی اسٹوری ہو… دعوت کے لیے ان تمام اصناف کو استعمال کیا جاسکتا ہے اور انھیں اپنی دعوت کا ایک حصہ سمجھا جائے۔
یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ہم لوگوں تک صرف دعوت پہنچانا نہیں چاہتے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانا چاہتے ہیں۔ توجہ کے حصول کے لیے اس وقت سوشل میڈیا ایک اہم ذریعہ ہے، کیونکہ بقیہ ذرائع سے ہم صرف یک طرفہ دعوت پہنچاتے ہیں۔ آپ ٹی وی پر کوئی پروگرام کریں یا بل بورڈز لگائیں، بینرز لگائیں یا ہینڈ بل تقسیم کریں لیکن سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کے ساتھ تبادلۂ خیال کیا جاسکتا ہے۔ ان کے سوالات کا جواب دے سکتے ہیں۔ ان کے نقطۂ نظر کو سمجھا جاسکتا ہے۔
یہ بات سمجھنی چاہیے کہ دعوت پھیلانے کے لیے engagement بنیادی چیز ہے۔ کروڑوں لوگوں تک آپ پملفٹس بانٹ دیجیے، ہینڈ بلز تقسیم کیجیے، تقریریں کرلیجیے، لوگ آپ کی دعوت سے مطمئن نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ لوگوں کو اپنے ساتھ شامل نہیں کریں گے، ان سے تبادلۂ خیال اور گفتگو نہیں کریں گے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جو سب سے مضبوط میڈیم ہے وہ word of mouthہے۔ باہمی گفتگو کے ذریعے لوگ متاثر ہوتے ہیں اور ساتھ دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ اس تناظر میں اگر ہم صرف ۸۰ لاکھ لوگوں تک اپنا پیغام پہنچادیں تو اس کے نتیجے میں آپ لوگوں کو تبدیل نہیں کرسکتے لیکن آپ اگر ۱۵ سے ۲۰ لاکھ لوگوں سے گفتگو اور تعلق بنانے میں کامیابی حاصل کرلیتے ہیں تو یہ دعوت کے لیے ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دعوت نے لوگوں کی توجہ حاصل کرلی ہے۔
سوشل میڈیا پر اصل کامیابی لوگوں کی گفتگوکا موضوع بن جانا ہے اور یہ مختلف صورتوں میں ہوگا۔ چاہے وہ اچھے طریقے سے بحث ومباحثہ ہو، باہمی تبادلۂ خیال ہو۔ ہمارا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ جن ۸۰ لاکھ لوگوں تک ہم رسائی حاصل کریں، ان میں سے ۴۰-۵۰ فی صد ایسے ہوں جنھیں ہم اپنے ساتھ تعلق پیدا کرنے اور ان کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوں۔ اگر ہم اس میں کامیاب ہوگئے تویقین جانیے اس میں سے ۸ سے۱۰ لاکھ لوگوں کو آپ اپنا گرویدہ بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ جس طرح تحریک میں ہم کارکن سازی کرتے ہیں اسی طرح کوشش کرنی چاہیے کہ سوشل میڈیا پر بھی لاکھ دو لاکھ لوگ ہمارے کارکن بن جائیں۔ وہ ہمارے سوشل میڈیا کے کارکن ہوں۔
اس وقت پاکستان میں سب سے زیادہ اثر و نفوذ الیکٹرانک میڈیا کا ہے۔ پاکستان میں ۴-۵ کروڑ افراد ایسے ہیں جو روزانہ ٹی وی دیکھتے ہیں، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ الیکٹرانک میڈیا اگر کسی سے ڈرتا ہے تو وہ سوشل میڈیا ہے۔ اس لیے سوشل میڈیا ایک ایسا آلہ ہے جس کے ذریعے ہم الیکٹرانک میڈیا پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ اس کا بارہا تجربہ بھی کیا جاچکا ہے۔ جب عالمی یوم حجاب کا موقع آیا تو سوشل میڈیا نے اس پر بھرپور مہم چلائی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ الیکٹرانک میڈیا کو حجاب پر پروگرام کرنا پڑا۔ ۱۲ سے ۱۵ پروگرامات حجاب کے موضوع پر ہوئے۔ اسے ہم آیندہ رجحان ساز کے طورپر بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ کراچی میں انتخابی فہرستوں کی تیاری میں ہونے والی دھاندلیوں کو بھی سوشل میڈیا کے ذریعے نمایاں کیا گیا جس کے نتیجے میں الیکشن کمیشن کو نوٹس لینا پڑا۔ یہ سوشل میڈیا نے ہی بتایا کہ ایک گھر میں سو ووٹ ہیں تو دوسرے گھر میں ۲۰۰اورکہیں ۵۰۰ ووٹ۔ بالآخر الیکٹرانک میڈیا اسے نشر کرنے پر مجبور ہوا اور الیکشن کمیشن کو بھی اس کا نوٹس لینا پڑا۔ برما میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کو بھی سوشل میڈیا نے اُجاگر کیا۔ اگر الیکٹرانک میڈیا پرکوئی چیز دوسرے رخ پر جارہی ہے تو سوشل میڈیا کے ذریعے اس کا رُخ بھی موڑا جاسکتا ہے، جیسے ملالہ کے مسئلے پر پورا الیکٹرانک میڈیا ایک سمت میں جارہا تھا، لیکن ہماری مہم کے نتیجے میں وہ پورے کا پورا ایشو دوسرا رخ اختیار کرگیا ۔ پاکستان میں اس وقت ۹۰فی صد لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ملالہ کا ایشو جعلی تھا جس میں کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ہے۔
سوشل میڈیا میں وہ قوت ہے کہ وہ دریا کے دھارے اور اس کا رُخ موڑ سکتی ہے۔ طاہرالقادری کے ایشو کو جس طرح سوشل میڈیا نے ہائی لائٹ کیا اور اس کو بے نقاب کیا ہے، حالانکہ الیکٹرانک میڈیا اس مہم میں آگے آگے تھا، مگر سوشل میڈیا نے اس مہم کے غبارے سے ہوا نکال دی۔ اسی طرح سوشل میڈیا کے ذریعے بہت سارے اینکرز کو بھی discreditکیا جاسکا ہے۔ ایک مشہور اینکر کا کیس تو آیا ہی سوشل میڈیا پر تھا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ہی ۱۶-۱۷ لاکھ لوگوں نے اس کو شیئر کیا جس کی وجہ سے اس مشہور اینکر کے شو کی حقیقت کھل گئی اور چیف جسٹس اور ملک ریاض کیس کی حقیقت کھل کر سامنے آئی۔
اس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ جو صلاحیت سوشل میڈیا کے پاس ہے اس کو ہمیں سمجھنا چاہیے اور اس کو استعمال کرنا چاہیے۔ پاکستان کے یہ چینلوں انتہائی طاقت ور ہیں، ان کے خلاف لڑنے کا اور کوئی میدان نہیں ہے۔ اگر ہم سوشل میڈیا کے ذریعے اسے مجبور رکھیں تو یہ ہماری بڑی کامیابی ہوگی۔ اس کے ذریعے سے اینکر کو بھی اپنے جامے میں رکھا جاسکتا ہے۔ اس وقت الیکٹرانک میڈیا کی پوری تجارت Rating پر ہے۔ ہر چینل کو اس بات کی فکر رہتی ہے کہ اس کی ریٹنگ بڑھ جائے۔ لوگ وہ کام کرنا چاہتے ہیں کہ جس کے نتیجے میں ریٹنگ اوپر جائے۔ سوشل میڈیا میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ کسی کی ریٹنگ کو بڑھا اور گھٹاسکے ۔
سوشل میڈیا نے یہ بات بھی ثابت کی ہے کہ اس کے ذریعے اداروں کو متاثر کیا جاسکتا ہے، کیونکہ اس کی پہنچ سب تک ہے۔ اس کے ذریعے سے حکومت اور اس کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوا جاسکتا ہے۔ بعض امور پر حکومت بالخصوص خاموش تھی، جیسے حرمت رسولؐ… الیکٹرانک میڈیا نے بھی اسے کوئی خاص اہمیت نہیں دی، لیکن سوشل میڈیا نے جب اسے اٹھایا تو حکومت نے قراردادیں منظور کیں۔ چھٹی کا اعلان کیا۔ برما کے بارے میں پہلے ہی عرض کیا جاچکا ہے کہ اس مسئلے کو نہ الیکٹرانک میڈیا نے اہمیت دی نہ پرنٹ میڈیا نے، لیکن سوشل میڈیا اس کو اتنے اچھے طریقے سے سامنے لایا کہ اس کے نتیجے میں ہلچل مچ گئی۔ پھر حکومت نے اس پر قرارداد منظور کی۔ وزیر خارجہ نے برما کے سفیر کو طلب کیا۔
یہ وہ ایشوز ہیں جن سے ہمیں پتا چلتا ہے اگر ہم کسی مسئلے کو بھرپور طریقے سے اٹھائیں تو حکومت بھی اس کے آگے مجبور ہوتی ہے۔ اسی طرح عدلیہ نے بھی سوشل میڈیا پر اٹھائے جانے والے کئی ایشوز کا نوٹس لیا ہے۔ شاہ رخ کیس کا اگر عدلیہ نے نوٹس لیا تو اس میں اہم کردار سوشل میڈیا کا تھا۔ گویا چیف جسٹس بھی سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ اسی طرح خروٹ آباد واقعہ بھی میڈیا پر کہیں نہیں تھا۔ سوشل میڈیا نے اس کو نشر کرنا شروع کیا۔ ویڈیو آنی شروع ہوئی۔ پوری کی پوری کہانی بدل گئی اور اس کے بعد وہ پاکستان کا نمبر ون ایشو بن گیا۔ اسی طرح کراچی میں رینجرز کی فائرنگ سے ایک نوجوان ہلاک ہوگیا تھا۔ اس کیس کو سوشل میڈیا نے اس پوزیشن پر پہنچایا کہ بالآخر رینجرز کے ڈی جی کو معطل کردیا گیا اور رینجرز اہلکار کو سزاے موت ہوئی۔ اگر وہ کیس سوشل میڈیا پر نہ آتا تو کبھی کسی کے خلاف کارروائی نہ ہوتی۔
ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سوشل میڈیا ایک ’انٹرا ایکٹو میڈیم‘ ہے، یعنی ایسا میڈیم جو ایک دوسرے پر اثرانداز ہوسکتا ہے اور دو رویہ ترسیلِ معلومات کا اہل ہے۔ یہاں اس بات کی اہمیت نہیں ہے کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں بلکہ اس بات کی اہمیت ہے کہ دوسرے لوگ کیا کہہ رہے ہیں؟ عوامی راے کا آپ کو سوشل میڈیا کے ذریعے پتا چلے گا۔ سوشل میڈیا پر گھنٹہ دو گھنٹہ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ لوگ کیا سوچ رہے ہیں؟ وہ کن موضوعات پر بات کررہے ہیں؟ کیا ایشو چل رہا ہے؟ جب ہم سوشل میڈیا میں ’عوامی راے‘ کو دیکھیں گے، اس کے مطابق کام کرنے میں آسانی ہوگی۔ سوشل میڈیا ایک ہمہ جہتی ہتھیار ہے جس کو اگر بھرپور منصوبہ بندی کے ساتھ استعمال کیا جائے تو نہ صرف لوگوں کا ذہن تبدیل کیا جاسکتا ہے ، بلکہ جماعت اسلامی کی دعوت بھرپور طریقے سے لوگوں بالخصوص پڑھے لکھے، تعلیم یافتہ نوجوانوں تک پہنچائی جاسکتی ہے۔
وقت اور اس کی ترتیب و تنظیم ایک اہم علمی، سائنسی اور تکنیکی موضوع بن چکا ہے۔ اس موضوع پر سیمی نارز اور ورک شاپس منعقد کرائی جارہی ہیں اور کتابیں لکھی جارہی ہیں۔ وقت کی ترتیب وتنظیم کا شعور و ادراک مغربی دنیا میں مخصوص مادی مسائل کے باعث صرف نصف صدی سے زیادہ قدیم موضوع نہیں ہے۔ لیکن وقت کی اہمیت اور اس سے متعلق جملہ امور کے بارے میں قرآن کریم اور نبی کریمؐ نے ۱۴۰۰ سال پہلے دنیا کو آگاہ کردیاتھا۔ یہ ہماری بدنصیبی نہیں تواور کیا ہے کہ مغربی اور دیگر اقوام نے وقت کی اہمیت کا بروقت احساس کرکے دنیوی شعبوں میں ترقی کرلی اور ہم سے آگے نکل گئے مگر ہم وقت کی اہمیت کو فراموش کرکے ہر میدان میں پیچھے رہ گئے۔
سید مودودیؒ اپنی معرکہ آرا تفسیر تفہیم القرآن میں سورۃ العصر کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’پہلے یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جو زمانہ اب گزر رہاہے وہ دراصل وقت ہے جو ایک ایک شخص اور ایک ایک قوم کو دنیا میں کام کرنے کے لیے دیا گیا ہے۔ اس کی مثال اس وقت کی سی ہے جو امتحان گاہ میں طالب علم کو پرچے حل کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ یہ وقت جس تیزی کے ساتھ گزررہا ہے اس کا اندازہ تھوڑی دیر کے لیے اپنی گھڑی میں سیکنڈ کی سوئی کو حرکت کرتے ہوئے دیکھنے سے آپ کو ہوجائے گا، حالانکہ ایک سیکنڈ بھی وقت کی بہت تھوڑی مقدار ہے۔ اسی ایک سیکنڈ میں روشنی ایک لاکھ ۸۶ ہزار میل کا راستہ طے کرلیتی ہے اور خدا کی خدائی میں بہت سی چیزیںایسی بھی ہو سکتی ہیں جو اس سے بھی تیز رفتارہوں ’خواہ وہ ابھی ہمارے علم میںنہ آئی ہوں، تاہم اگر وقت کے گزرنے کی وہی رفتار سمجھ لی جائے جو گھڑی میں سیکنڈ کی سوئی کے چلنے سے ہم کو نظر آتی ہے اور اس بات پر غور کیا جائے تو ہم جو کچھ بھی اچھا یا برا فعل کرتے ہیں اور جن کاموں میں بھی ہم مشغول رہتے ہیں سب کچھ اسی محدود مدت عمر ہی میں وقوع پذیر ہوتا ہے جو دنیا میں ہم کو کام کرنے کے لیے دی گئی ہے تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا اصل سرمایہ تو یہی وقت ہے جو تیزی سے گزرا جارہاہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج ۶، ص ۴۵۰)
وقت کی اہمیت و افادیت کو حضوراکرمؐ نے متعدد مواقع پر مختلف انداز سے امت کی رہنمائی اور فلاح و کامرانی کے لیے بیان فرمایا ہے۔ حضرت عمرو بن میمونؓسے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ ’’پانچ حالتوں کو پانچ حالتوں کے آنے سے پہلے غنیمت جانو اور ان سے جو فائدہ اٹھانا چاہو وہ اٹھالو.....غنیمت جانو جوانی کو بڑھاپے کے آنے سے پہلے، تندرستی کو بیمار ہونے سے پہلے، خوشحالی اور فراخ دستی کو ناداری اور تنگدستی سے پہلے، فرحت اور فراغت کو مشغولیت سے پہلے، اور زندگی کو موت سے پہلے‘‘ (الترغیب و ترھیب)۔ اس حدیث مبارکہ میں جن حالتوں کو بیان کیا گیا ہے وہ ہمارے لیے وقت کے استعمال اور ترجیحات سے متعلق رہنمائی کا نمونہ ہیں۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں وقت کی چار بنیادی خصوصیات ہیں:
۱- اس کائنات میں ہر جان دار و بے جان مخلوق کا ایک وقت مقرر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا مقدر اور وقت مقرر کررکھا ہے اور یہ مقدر اللہ تعالیٰ کے پاس محفوظ ہے۔دنیا میں ہر انسان کے نہ صرف پیدا ہونے اور مرنے کا وقت مقرر ہے بلکہ اس کے ہر کام کا وقت مقرر ہے، حتیٰ کہ ہماری سانسیں بھی مقرر ہیں کہ کتنی سانسیں بندہ اس دنیا میں لے گا۔
۲- وقت گزرنے والی چیز ہے۔ وقت لمحہ بہ لمحہ گزر رہا ہے اور گزر جائے گا۔امام رازیؒ نے کسی بزرگ کا قول نقل کیا ہے کہ ’’وقت کی مثال ایک برف والے کی طرح ہے جو پکار پکارکر کہہ رہا ہے کہ دیکھومیرا زندگی کا سرمایہ گھلا جارہا ہے اور اگر یہ برف کارآمد نہیں ہوئی تو یہ رکھے رکھے گھل جائے گی اور ختم ہوجائے گی۔(تفہیم القرآن ،ج ۶، ص ۴۵۰)
۳- تیزی کے ساتھ گزرتا ہوا ہر سیکنڈ اور لمحہ جو گزر گیا وہ واپس نہیں آئے گا۔ اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ انسان جو پیسہ خرچ کرلے وہ دوبارہ کمایا جاسکتاہے لیکن وہ وقت جو گزر گیا واپس نہیں آسکتاہے ۔حضوراکرمؐ نے فرمایا کہ’’ہر آنے والا دن جب شروع ہوتا ہے تو وہ پکار پکار کر کہتا ہے کہ اے انسان! میں ایک نوپیدا مخلوق ہوں، میں تیرے عمل پر شاہد ہوں، تو مجھ سے کچھ حاصل کرلے، میں تو اب قیامت تک لوٹ کر نہیں آئوں گا۔
۴- وقت کے ایک ایک لمحے کا حساب ہمیں اللہ تعالیٰ کو دینا ہوگا۔ حدیث میںآتا ہے کہ ’’ حشر کے میدان میں آدمی آگے نہ بڑھ پائے گا جب تک کہ پوری زندگی کا حساب نہ دے لے۔ پوچھا جائے گا کہ عمر کہاں گزاری، جوانی کیسے گزاری، مال کس طرح کمایا اور کہاں خرچ کیا اور جو علم حاصل کیا اس کو کس طرح استعمال کیا(الترغیب و ترھیب)۔ حضوراکرمؐ نے فرمایا کہ’’ تباہ ہو گیا وہ شخص جس کا آج اس کے گزرے ہوئے کل سے بہتر نہ ہو‘‘۔ سرورکائناتؐ کا ایک اور فرمان ہے: ’’مومن کے لیے دو خوف ہیں: ایک اجل جو گزر چکا ہے معلوم نہیں خدا اس کا کیا کرے گا اور ایک اجل، جو ابھی باقی ہے معلوم نہیں اللہ تعالیٰ اس میں کیا فیصلہ صادر فرمائے؟ لہٰذا انسان کو لازم ہے کہ اپنی طاقت سے اپنے نفس کے لیے اور دنیا سے آخرت کے لیے ،جوانی سے بڑھاپے کے لیے اور زندگی سے قبل موت کے لیے کچھ نفع حاصل کرلے‘‘۔
اصل مسئلہ وقت کی کمی کا نہیں بلکہ ترجیحات کے تعین کا ہے۔اگر ہم طے کرلیں کہ کون سی چیز یا کام ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے، دوسری ترجیح کیا ہونی چاہیے، اور تیسری ترجیح کیا ہو، تو وقت کی کمی کا مسئلہ خودبخود حل ہوجائے گا۔حضوراکرمؐ کی پوری ۲۳ سالہ نبوی زندگی میں کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا کہ جس دن حضوؐر نے قرآن نہ پڑھا ہو اور دوسروں کو پڑھ کر نہ سنایا ہو۔یہ ان کی زندگی کی ترجیح تھی اوران کے صحابہ ؓ کی زندگی کی ترجیح تھی۔حضوراکرمؐ کے صحابہؓ اتنا قرآن پڑھتے تھے کہ حضوراکرمؐ نے ان کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ’’ کوئی تین دن سے کم میں قرآن ختم نہ کرے‘‘(حدیث)۔ اگر ہماری بھی ترجیحات وہی ہوں گی جو اللہ اور اس کے رسولؐ نے مقرر کی ہیں تو ہمارے لیے وقت کی کمی کا کوئی مسئلہ نہ ہوگا۔حضوراکرمؐ اور صحابہؓ کے بعض خطبوں کا ابتدائی جملہ یہ ہوتا تھاکہ ’’ اے لوگو! تمھاری زندگی گزرتی چلی جارہی ہے۔ یہ اچانک کسی پل ختم ہوجائے گی، جو وقت گزر گیا وہ تو گزر گیا لیکن جو آنے والا ہے اس کی فکر کرو۔ اللہ سے ڈرو، اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اپنی جنت کے لیے کچھ مال جمع کرلو‘‘۔ حضوراکرمؐ نے فرمایا کہ ’’بندہ کا صرف وہی ہے جو اس نے کھا لیا یاپہن لیا یا آگے بھیج دیا۔ جو اس نے خرچ نہیں کیا وہ سب وارثوں کا مال ہے‘‘۔(سنن کبریٰ، بیہقی)
ہمارے نزدیک وقت کی ترتیب و تنظیم کے دو بنیادی مقاصدہیں۔ پہلا تو یہ ہے کہ ہم اس بات کا اہتمام اور کوشش کریں کہ ہمارے وقت کا کوئی ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ایمان والوں کی یہ خصوصیت بیان کی ہے کہ وہ اپنے وقت کو لغویات میں ضائع ہونے سے بچاتے ہیں(معارف القرآن، سورئہ مومنون)۔دوسرا مقصد یہ ہے کہ جو ۲۴ گھنٹے ہمیں روزانہ ملتے ہیں اس میں ہم کتنا زیادہ سے زیادہ وقت اپنے فرائض کی ادایگی اور اللہ تعالیٰ کے عائدکردہ حقوق کی ادایگی کے لیے نکالتے ہیں، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
وقت میں اضافے کے لیے اور وقت کی کمی کو دور کرنے کے لیے بہت سارے طریقے ہمیں اللہ کے رسولؐ کی احادیث میں ملتے ہیں،نیزجدید دور میں وقت کے ضیاع کے حوالے سے تحقیقات نے بھی ہماری رہنمائی کے کچھ نکات متعین کردیے ہیں۔ ان میں سے چند اہم اصول و نکات درج ہیں۔
حضوراکرمؐ کی بہت ساری احادیث ہیں جن میں آپؐ نے فرمایا کہ صبح سویرے اُٹھو گے تو اس کے نتیجے میں تمھارے رزق و مال میں برکت ہوگی، اور اگر صبح نہیں اُٹھو گے تو پریشان و رنجیدہ رہو گے۔ایک دن حضوراکرمؐ اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ ؓ کے پاس صبح کے وقت تشریف لے گئے۔ وہ آرام فرما رہی تھیں۔ حضوراکرمؐ نے ان کو جگاتے ہوئے فرمایا: ’’بیٹی! اُٹھو، اپنے رب کے رزق کی تقسیم کے وقت حاضر رہو اور غفلت کرنے والوں میں سے نہ بنو، کیونکہ اللہ تعالیٰ طلوعِ فجر اور طلوعِ شمس کے درمیان لوگوںکا رزق تقسیم کرتے ہیں‘‘۔
صبح جلدی اٹھنے اور فجر کے بعد نہ سونے کے نتیجے میں ہم کو دن میں کئی گھنٹے اضافی مل جاتے ہیں۔ یہ ہماری بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ صبح ۶ بجے سے ۸ بجے کے وقت کو جسے دنیا میں پرائم ٹائم کہا جاتاہے ہم سونے میں گزار دیتے ہیں۔امام ترمذیؒ نے حضوراکرمؐ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ ’’اے اللہ! میری امت کے لیے صبح کے اوقات میں برکت عطا فرما‘‘۔ایک مشہور چینی روایت ہے کہ ’’جو آدمی صبح جلدی اُٹھتا ہے اس کو دولت مند بننے سے کوئی نہیں روک سکتا‘‘۔
جدید تحقیق سے ثابت ہے کہ انسان رات کو ۹ بجے کے بعد جو کام ایک گھنٹے میں کرتا ہے صبح کے اوقات میں وہی کام صرف ۲۰ منٹ میں کرلیتا ہے۔اس دن اور رات میں ایک وقت ایسا بھی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پرائم ٹائم قرار دیا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ’’ رات کے آخری پہر میں اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر آجاتے ہیں اور منادی کردیتے ہیں کہ مجھ سے مانگو میں تمھیں دوں گا، مجھ سے طلب کرو میں تمھاری ضرورت کو پورا کروں گا‘‘(بخاری)۔ پورے ۲۴ گھنٹوں میں اس سے زیادہ قیمتی وقت کوئی نہیں ہے اوروقت کی ترتیب و تنظیم اس بات کا ہی نام ہے کہ انسان اپنے پرائم ٹائم کو سب سے بہترین طریقے سے استعمال کرسکے۔دنیا میں کوئی لیڈر شپ ایسی نہ ہوگی جس کو کوئی بڑی کامیابی ملی ہو اور وہ سحر خیزی کی عادی نہ ہو۔اگر ہم صبح ۵ بجے اُٹھ جائیں تو جو کام دن میں ہم ۳گھنٹے میں کرتے ہیں وہ صبح میں ایک گھنٹے میں ہی کرلیں گے۔ہمیں محسوس ہوگا کہ ہمارا دن ختم ہی نہیں ہورہا ہے۔ اس سنت کو اپنائے بغیر اور اس عادت کو اختیار کیے بغیر ہمارے لیے نہ اُخروی کامیابی ممکن ہے اور نہ دنیاوی برتری ہی۔
ہرفرد کو چاہیے کہ اپنے معاش کے لیے ایک وقت مقرر کرے کہ مجھے اپنے اوقات کا کتنا حصہ معاش کے لیے صرف کرنا ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ ہر آدمی کی روزی اور اس کا رزق مقرر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جتنا ہمارے مقدر میں لکھاہے اُتنا ہی ہمیں ملے گا، چاہے ہم ۸گھنٹے کام کریں یا ۱۶گھنٹے۔ حضوراکرمؐ نے فرمایا کہ ’’روزی انسان کا پیچھا کرتی ہے‘‘(الترغیب و ترھیب)۔ ’’رزق میں کمی یا تاخیر سے پریشان نہ ہو اورروزی کو کمانے میں خوش اسلوبی سے کام لو‘‘۔ (ایضاً)
انسان کی جسمانی استطاعت کے بارے میں محققین کہتے ہیں کہ کوئی بھی آدمی جب اپنے معاش کے لیے آٹھ گھنٹے سے زیادہ صرف کرتاہے تو اس کا زائد صرف کردہ وقت کارآمدنہیں ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مغربی معاشروں میں ۸گھنٹوں سے زیادہ کی ملازمت نہیں ہوتی۔اور یہ کہا جاتاہے کہ آدمی انھی اوقات میں زیادہ سے زیادہ کام کرکے اپنے حصے کا کام پورا کرے۔ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے معاش کے لیے ایک وقت مقرر کریں جو ۸ گھنٹے سے زیادہ نہ ہو۔انھی گھنٹوں میں پوری قوت اور توانائی کے ساتھ کام کریں۔بہت سارے لوگوں نے تجربہ کرکے یہ سیکھا ہے کہ واقعی جو کام ہم ۱۲ اور ۱۴ گھنٹوں میں کررہے تھے وہی کام اب ہم آٹھ گھنٹوں میں کرسکتے ہیں۔اس کے نتیجے میں ہم اپنے اوقات میں کافی اضافہ کرسکتے ہیں۔
روزمرہ معاملات میں ہم بعض اوقات تکلف یا تعلق کی وجہ سے وعدہ کرلیتے ہیں اور وقت کی کمی کی وجہ سے اس وعدے کوپورا نہیں کرپاتے۔ اس کے نتیجے میں جن سے ہم وعدہ کرتے ہیں وہ بھی مشکل میں پڑ جاتے ہیں اور ہماری ساکھ بھی متاثر ہوتی ہے ۔اس بات کا بھرپور اہتمام کرنا چاہیے کہ فرد کسی کو وقت دینے سے پہلے پوری طرح اطمینان کرلے کہ یہ ممکن بھی ہو گا یا نہیں۔ معذرت کرنا کوئی گناہ کا کام نہیں لیکن وقت دینے کے بعد نہ پہنچنا عہد کی خلاف ورزی ہے۔ مغربی دنیا میں کہا جاتا ہے کہ اگر آپ نے ’نہیں‘ کہنا سیکھ لیا ہے تو آپ نے گویا اپنا آدھا وقت بچا لیا۔
وقت کو ضائع کرنے والی چیزوں میں سب سے پہلا نمبر ٹیلی وژن کا ہے۔ ایک عام امریکی دن میں ۳ سے ۴ گھنٹے ٹی وی دیکھتا ہے، جب کہ پاکستان میںاوسطاً لوگ روزانہ دو سے ۳گھنٹے ٹیلی وژن کے سامنے گزارتے ہیں۔ ٹیلی وژن کے بعد اب دوسرا نمبر موبائل فون کا ہے۔ ہمیں یہ اندازہ کرنا چاہیے کہ روزانہ ہم کتنے گھنٹے ٹیلی فون پر صرف کرتے ہیں۔ اوسطاً ایک موبائل فون پر روزانہ ۲۰ کالز اور ۱۲ ایس ایم ایس موصول ہوتے ہیں۔اگر آپ اس وقت کو کنٹرول نہیں کرسکیں گے تو روزانہ ایک سے ۲گھنٹے فون کا اور ایس ایم ایس کا جواب دینے میں لگ جائیں گے۔اپنے ٹیلی فون پر گزرے ہوئے وقت کا اندازہ اور تعین کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی کو اس حوالے سے ایک نظم میں لانے کی ضرورت ہے، اگر ہم ہر فون کال کا جواب اُسی وقت دینا چاہیں گے تو ہم نہ آرام کرسکتے ہیں نہ کوئی سنجیدہ کام اور نہ کوئی میٹنگ ہی پوری توجہ کے ساتھ کرسکتے ہیں، فون ہمارے وقت کو ضائع کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے جس کو کنٹرول کیے بغیر ہم اپنے وقت کو قابو نہیں کرسکیں گے۔اسی طرح ہماراجو وقت ٹیلی وژن کے سامنے ضائع ہوتا ہے، اس کو بھی کم سے کم کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے معاشرے میں دیے گئے وقت کی پابندی کا اہتمام نہ ہونے کے کلچر کی وجہ سے روزانہ کئی گھنٹے ضائع ہوجاتے ہیں۔بالعموم میٹنگز اور پروگرامات دیے گئے وقت سے ۲۵،۲۰منٹ بعد شروع ہوتے ہیں۔کچھ لوگ وقت پر آجاتے ہیں اور کچھ لوگ دیر سے آتے ہیں۔اس کے نتیجے میں جو وقت پرآجاتا ہے اس کا بھی وقت ضائع ہوتا ہے اور جس نے بلایا ہوتا ہے اس کا بھی۔ اگرہم اس کا تعین کریں تو روزانہ آدھا یا پوناگھنٹہ انتظارمیں ہی ضائع ہوجاتا ہے۔ اس انتظار کے وقت کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے اپنے دائروں میں انتہائی ممکنہ حد تک وقت کی پابندی کا اہتمام کریں اور کروائیں توسب کے وقت کو ضائع ہونے سے بچا سکتے ہیں۔
اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بہ یک وقت ہمارے سامنے کئی کام ہوتے ہیں۔ اور ہم انھیں ایک ساتھ کرنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں، اس کے نتیجے میں نہ صرف وقت ضائع ہوتا ہے بلکہ وہ کام بھی اچھی طرح سے پورا نہیں ہوپاتا۔بہتر یہ ہے کہ اگر کئی کام ہمارے سامنے ہوں تو ہم اس کی ترجیحات طے کریں۔ ان میں سے جو سب سے زیادہ ضروری اور فوری ہو، اس کو مکمل کریں اور اس کے بعد دوسری ترجیح کا کام شروع کریں۔اس کے نتیجے میں نہ صرف ہم اپنے وقت کو بچانے میں کامیاب ہوں گے بلکہ ان کاموں کو بھی موثر طور پر بروقت مکمل کرسکیں گے۔
بعض اوقات ایک ہی وقت میں ہمارے سامنے کئی کام ہوتے ہیں۔ ہم ایک کام شروع کرتے ہیں لیکن اس کو پورا کیے بغیر دوسرا کام شروع کردیتے ہیں۔مثلاًدفتری زندگی میں روزانہ بہت سے خطوط اور نوٹس ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ہم ان کو پڑھتے ہیں اور پھر رکھ دیتے ہیں۔ ایک دو دن کے بعد انھیں پھر دوبارہ پڑھتے ہیں اوررکھ دیتے ہیں، اور پھر تیسری دفعہ اس پر کام شروع کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میںجو خط ہم ایک ہی دفعہ پڑھ کر کام کرسکتے تھے اس کو تین دفعہ پڑھنے کے بعد اس کام کو کرپاتے ہیں۔اسی طرح توجہ اور تجاویز کے ضمن میں بہت ساری چیزیں ہمیں موصول ہوتی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان کے جواب دینے کے وقت کو کم سے کم کریں۔ اس کا طریقہ بھی یہی ہے کہ جو کام ہمیں خود کرنے ہیں ان کی ترجیح متعین کریں، اور جو کام دوسروں کے حوالے کرنے ہیں ان کو فوری طور پر دوسروں کے سپرد کردیں۔
روزمرہ کے کاموں میں بہت سے کام ہمارے پاس ایسے ہوتے ہیں جو اگر دوسروں کے سپرد کردیے جائیں تو کام بھی بہتر انداز میں ہوجائے گا اور وقت بھی بچے گا۔ اگر ہم سارے کام خود کرنے کی کوشش کریں گے، مثلاً رپورٹیں بھی خود بنائیں گے، اس کو خود ہی بھیجیں گے بھی، ہر چیز کا ریکارڈ بھی خود رکھیں گے اور جائزہ بھی خود لیںگے تو اس کے نتیجے میں نہ صرف ہمارے وقت کا ضیاع ہو گا بلکہ کام بھی بہتر طریقے سے نہیں ہو سکے گا۔اس کو Micro Management کہتے ہیں جو کہ وقت کے ضیاع کا ایک بڑا سبب ہے۔ اس کا علاج کام دوسروں کو تفویض یا سپرد کرنا ہے اور پھر اس کا جائزہ لیتے رہنا ہے تاکہ ہدف بروقت حاصل ہوسکے۔
مختصر گفتگو ایک فن ہے۔ حضوراکرمؐ کے جو خطبات تحریری صورت میں احادیث کی کتابوں میں ملتے ہیں ان سب کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ مختصر ہیں۔ حجۃ الوداع کے موقع پر ڈیڑھ لاکھ صحابہؓ کے سامنے حضور اکرمؐ نے جو خطبہ ارشاد فرمایا اس کو پڑھنے میں صرف ۷منٹ لگتے ہیں۔ اسی طرح صحابہؓ کے خطبے بھی مختصر ہوتے تھے۔حضوراکرمؐ کے خطبات کی ایک خصوصیت اختصار کے ساتھ ساتھ تکرار بھی تھی۔ حضور اکرمؐ ایک ہی بات کو دو تین دفعہ بیان کرتے تھے تاکہ بات ذہن نشین ہوجائے۔ جدید سائنسی تحقیق سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اگر کوئی فرد ایک گھنٹے کی تقریر توجہ سے سنے تو اس کا صرف ۱۰ فی صد اگلے دن تک یاد رکھ سکتا ہے۔ مختصر گفتگو میں یہ تناسب بڑ ھ کر ۲۵فی صد تک ہوجاتا ہے۔ ہم جتنی طویل گفتگو یا خطاب کریں گے، اس کا استحضار اتنا ہی کم ہوگا۔
اپنی بات کو مختصر کرنے کی عادت ڈالیں اور اس کی تیاری کریں۔ مشہور برطانوی سیاست دان چرچل کا کہنا ہے کہ اگر مجھے تین گھنٹے تقریر کرنی ہو تو میں تیاری نہیں کرتا بس بولتا چلا جاتا ہوں، اور اگر ۱۵منٹ تقریر کرنی ہو تو ۳گھنٹے اس کی تیاری کرتا ہوں۔یہ ایک صلاحیت ہے جس کو ہمیں اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے کہ بات مختصر اور نکات کی صورت میں کی جائے۔ اس سے اپنا بھی اور دوسروں کا بھی وقت بچتا ہے۔ اگر کسی میٹنگ میں ۱۰، ۱۵ لوگ ہوں اور سب ۱۰سے ۱۵منٹ گفتگو کریں تو ۱۵۰منٹ ہوجاتے ہیں۔ اگر ہر آدمی اپنی بات ۳منٹ میں مکمل کرنے میں کامیاب ہوجائے تو ۴۵منٹ میں بات مکمل ہوجائے گی۔ دعوتی کام کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ بات جامع اور مختصر ہو اور تکرار کے ساتھ ہو تاکہ بات ذہن نشین ہوجائے۔ گفتگو کرنے سے پہلے ایک لمحے کے لیے اس بات کا تصور ضرور کریں کہ جو الفاظ بھی ہم بولیں گے اس کا پورا پورا حساب ہمیں اللہ تعالیٰ کے ہاں دینا ہوگا۔
احادیث سے اس بات کا پتا چلتا ہے کہ حضوراکرمؐ نبوت و رسالت اور اسلامی ریاست کے سربراہ ہونے کی گراں بہا ذمہ داریوں کے باوجود بھی اپنے گھر والوں کے لیے اور تفریح کے لیے وقت نکالتے تھے۔دین کے کام کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا نہ کھا سکے، گھر کے کام کاج میں ہاتھ نہ بٹا سکے یا تفریح نہ کرسکے۔ احادیث میں آتا ہے کہ حضوراکرمؐ اپنی ساری بیویوں کو جمع کرکے ایک ساتھ کھانا کھاتے تھے ، گفتگو کرتے تھے، ہنسی مذاق کرتے تھے،گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹاتے تھے اور اپنے نواسوں کو جمع کرکے ان کے درمیان کشتی کرواتے تھے۔ یہ ساری چیزیں ہماری زندگی کا بھی حصہ ہونا چاہییں۔ ہمیں اپنی ترجیحات میں اس بات کو بھی شامل کرنا چاہیے کہ ہمارا گھر بھی ہماری دعوت کا مرکز ہو۔گھروالوں کی تربیت اور خوشی و تفریح ان کا حق ہے۔ ہمارے والدین اگر زندہ ہیں توان کی خدمت کرکے جنت کما لینا ہماری ترجیحات کی فہرست میں لازماً شامل ہونا چاہیے۔
روزمرہ کی زندگی میں بہت سارے اوقات ایسے آتے ہیں کہ جب ہم فارغ بیٹھے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ہم سفر میں ہوتے یا انتظار کررہے ہوتے ہیں یا کچھ بھی نہیں کررہے ہوتے۔ ان اوقات میں ہمیں اس بات کی عادت اپنا لینی چاہیے کہ جب بھی ہم فارغ ہوں تو اپنی زبان کو اللہ کے ذکر سے تر رکھیں۔حضوراکرمؐ نے بہت سارے کلمات بتائے ہیں جو زبان پر بہت ہلکے اور اجر میں بہت بھاری ہیں۔ ان کلمات کو باربار دہراتے رہیں۔ کثرت سے استغفار کریں۔ ایک ایک لمحہ جو ہمارے پاس ہے وہ اللہ کے ذکر میں اور استغفار میں صرف ہو تو یہ وقت کا بہترین استعمال ہے۔ ہمارے وقت کا کوئی لمحہ فارغ ہونے کی وجہ سے ضائع نہ ہو۔ حدیث سے اس بات کا پتا چلتا ہے کہ مومن کا ہر لمحہ کارآمد ہوتا ہے۔ جب اس پر کوئی مشکل پڑتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے، جب خوش ہوتا ہے تو شکر ادا کرتاہے اور اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے۔
ایک ذمہ دار کی حیثیت سے ہمیں اس بات کا بھرپور اہتمام کرنا چاہیے کہ نہ تو ہمارے وقت کا کوئی حصہ ضائع ہو اور نہ ہماری ٹیم میں سے ہی کسی کا وقت ضائع ہو۔جب ہم دوسروں کے وقت کی قدروقیمت کا احسا س کریںگے تو اللہ تعالیٰ ہمارے وقت میں برکت ڈال دے گا۔ اگرہم دوسروں کے وقت کی قدروقیمت کا احساس نہیں کریں گے اور ہماری وجہ سے دوسروں کا وقت ضائع ہوتارہے گا تو اللہ تعالیٰ ہمارے وقت کی قدروقیمت بھی کم کردے گا۔
وقت میں برکت اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، جس طرح ہم اپنے مال ،کاروبار ، رزق اور اولاد میں برکت کی دعا کرتے ہیں اسی طرح اپنے وقت میں برکت کے لیے بھی دعا کریں۔ اگر ہمیں وقت میں برکت حاصل ہوگئی تو زندگی بڑی آسان ہو جائے گی۔ جن لوگوں کو اللہ کی یہ نعمت حاصل ہوتی ہے ان کے پاس وقت کی کمی کا شکوہ نہیں ہوتا بلکہ ان پر یہ احساس غالب رہتا ہے کہ میرے پاس وقت ہے اور جو کام بھی میرے سپرد ہوگا میں اُسے کرنے میں کامیاب ہوجائوں گا۔وقت میں یہ برکت اللہ تعالیٰ کا خاص انعام اور اس کی رحمت ہے جو ان لوگوں پر نازل ہوتی ہے جو اس سے برکت طلب کرتے ہیں۔حضرت عمر فاروقؓ دعا فرماتے تھے: ’’یااللہ! زندگی کے اوقات میں برکت دے اور انھیں صحیح مصرف پر لگانے کی توفیق عطا فرما‘‘۔
وقت اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ایک غیر معمولی امانت ہے۔ اس کے ایک ایک لمحے کی قدروقیمت کے احساس کے ساتھ اللہ کی بندگی کے لیے ، جہنم سے بچنے اور جنت کے حصول کے لیے اس کا استعمال ہونا چاہیے۔کامیاب وہی ہے جو اس احساس کے ساتھ زندگی گزارے کہ اسے زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب اللہ تعالیٰ کو دینا ہوگا، یقینا وہ اپنے وقت کو اللہ اور اس کے رسولؐ کی مقرر کردہ ترجیحات کے مطابق گزارنے کااہتمام کرے گا۔