وقت اور اس کی ترتیب و تنظیم ایک اہم علمی، سائنسی اور تکنیکی موضوع بن چکا ہے۔ اس موضوع پر سیمی نارز اور ورک شاپس منعقد کرائی جارہی ہیں اور کتابیں لکھی جارہی ہیں۔ وقت کی ترتیب وتنظیم کا شعور و ادراک مغربی دنیا میں مخصوص مادی مسائل کے باعث صرف نصف صدی سے زیادہ قدیم موضوع نہیں ہے۔ لیکن وقت کی اہمیت اور اس سے متعلق جملہ امور کے بارے میں قرآن کریم اور نبی کریمؐ نے ۱۴۰۰ سال پہلے دنیا کو آگاہ کردیاتھا۔ یہ ہماری بدنصیبی نہیں تواور کیا ہے کہ مغربی اور دیگر اقوام نے وقت کی اہمیت کا بروقت احساس کرکے دنیوی شعبوں میں ترقی کرلی اور ہم سے آگے نکل گئے مگر ہم وقت کی اہمیت کو فراموش کرکے ہر میدان میں پیچھے رہ گئے۔
سید مودودیؒ اپنی معرکہ آرا تفسیر تفہیم القرآن میں سورۃ العصر کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’پہلے یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جو زمانہ اب گزر رہاہے وہ دراصل وقت ہے جو ایک ایک شخص اور ایک ایک قوم کو دنیا میں کام کرنے کے لیے دیا گیا ہے۔ اس کی مثال اس وقت کی سی ہے جو امتحان گاہ میں طالب علم کو پرچے حل کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ یہ وقت جس تیزی کے ساتھ گزررہا ہے اس کا اندازہ تھوڑی دیر کے لیے اپنی گھڑی میں سیکنڈ کی سوئی کو حرکت کرتے ہوئے دیکھنے سے آپ کو ہوجائے گا، حالانکہ ایک سیکنڈ بھی وقت کی بہت تھوڑی مقدار ہے۔ اسی ایک سیکنڈ میں روشنی ایک لاکھ ۸۶ ہزار میل کا راستہ طے کرلیتی ہے اور خدا کی خدائی میں بہت سی چیزیںایسی بھی ہو سکتی ہیں جو اس سے بھی تیز رفتارہوں ’خواہ وہ ابھی ہمارے علم میںنہ آئی ہوں، تاہم اگر وقت کے گزرنے کی وہی رفتار سمجھ لی جائے جو گھڑی میں سیکنڈ کی سوئی کے چلنے سے ہم کو نظر آتی ہے اور اس بات پر غور کیا جائے تو ہم جو کچھ بھی اچھا یا برا فعل کرتے ہیں اور جن کاموں میں بھی ہم مشغول رہتے ہیں سب کچھ اسی محدود مدت عمر ہی میں وقوع پذیر ہوتا ہے جو دنیا میں ہم کو کام کرنے کے لیے دی گئی ہے تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا اصل سرمایہ تو یہی وقت ہے جو تیزی سے گزرا جارہاہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج ۶، ص ۴۵۰)
وقت کی اہمیت و افادیت کو حضوراکرمؐ نے متعدد مواقع پر مختلف انداز سے امت کی رہنمائی اور فلاح و کامرانی کے لیے بیان فرمایا ہے۔ حضرت عمرو بن میمونؓسے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ ’’پانچ حالتوں کو پانچ حالتوں کے آنے سے پہلے غنیمت جانو اور ان سے جو فائدہ اٹھانا چاہو وہ اٹھالو.....غنیمت جانو جوانی کو بڑھاپے کے آنے سے پہلے، تندرستی کو بیمار ہونے سے پہلے، خوشحالی اور فراخ دستی کو ناداری اور تنگدستی سے پہلے، فرحت اور فراغت کو مشغولیت سے پہلے، اور زندگی کو موت سے پہلے‘‘ (الترغیب و ترھیب)۔ اس حدیث مبارکہ میں جن حالتوں کو بیان کیا گیا ہے وہ ہمارے لیے وقت کے استعمال اور ترجیحات سے متعلق رہنمائی کا نمونہ ہیں۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں وقت کی چار بنیادی خصوصیات ہیں:
۱- اس کائنات میں ہر جان دار و بے جان مخلوق کا ایک وقت مقرر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا مقدر اور وقت مقرر کررکھا ہے اور یہ مقدر اللہ تعالیٰ کے پاس محفوظ ہے۔دنیا میں ہر انسان کے نہ صرف پیدا ہونے اور مرنے کا وقت مقرر ہے بلکہ اس کے ہر کام کا وقت مقرر ہے، حتیٰ کہ ہماری سانسیں بھی مقرر ہیں کہ کتنی سانسیں بندہ اس دنیا میں لے گا۔
۲- وقت گزرنے والی چیز ہے۔ وقت لمحہ بہ لمحہ گزر رہا ہے اور گزر جائے گا۔امام رازیؒ نے کسی بزرگ کا قول نقل کیا ہے کہ ’’وقت کی مثال ایک برف والے کی طرح ہے جو پکار پکارکر کہہ رہا ہے کہ دیکھومیرا زندگی کا سرمایہ گھلا جارہا ہے اور اگر یہ برف کارآمد نہیں ہوئی تو یہ رکھے رکھے گھل جائے گی اور ختم ہوجائے گی۔(تفہیم القرآن ،ج ۶، ص ۴۵۰)
۳- تیزی کے ساتھ گزرتا ہوا ہر سیکنڈ اور لمحہ جو گزر گیا وہ واپس نہیں آئے گا۔ اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ انسان جو پیسہ خرچ کرلے وہ دوبارہ کمایا جاسکتاہے لیکن وہ وقت جو گزر گیا واپس نہیں آسکتاہے ۔حضوراکرمؐ نے فرمایا کہ’’ہر آنے والا دن جب شروع ہوتا ہے تو وہ پکار پکار کر کہتا ہے کہ اے انسان! میں ایک نوپیدا مخلوق ہوں، میں تیرے عمل پر شاہد ہوں، تو مجھ سے کچھ حاصل کرلے، میں تو اب قیامت تک لوٹ کر نہیں آئوں گا۔
۴- وقت کے ایک ایک لمحے کا حساب ہمیں اللہ تعالیٰ کو دینا ہوگا۔ حدیث میںآتا ہے کہ ’’ حشر کے میدان میں آدمی آگے نہ بڑھ پائے گا جب تک کہ پوری زندگی کا حساب نہ دے لے۔ پوچھا جائے گا کہ عمر کہاں گزاری، جوانی کیسے گزاری، مال کس طرح کمایا اور کہاں خرچ کیا اور جو علم حاصل کیا اس کو کس طرح استعمال کیا(الترغیب و ترھیب)۔ حضوراکرمؐ نے فرمایا کہ’’ تباہ ہو گیا وہ شخص جس کا آج اس کے گزرے ہوئے کل سے بہتر نہ ہو‘‘۔ سرورکائناتؐ کا ایک اور فرمان ہے: ’’مومن کے لیے دو خوف ہیں: ایک اجل جو گزر چکا ہے معلوم نہیں خدا اس کا کیا کرے گا اور ایک اجل، جو ابھی باقی ہے معلوم نہیں اللہ تعالیٰ اس میں کیا فیصلہ صادر فرمائے؟ لہٰذا انسان کو لازم ہے کہ اپنی طاقت سے اپنے نفس کے لیے اور دنیا سے آخرت کے لیے ،جوانی سے بڑھاپے کے لیے اور زندگی سے قبل موت کے لیے کچھ نفع حاصل کرلے‘‘۔
اصل مسئلہ وقت کی کمی کا نہیں بلکہ ترجیحات کے تعین کا ہے۔اگر ہم طے کرلیں کہ کون سی چیز یا کام ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے، دوسری ترجیح کیا ہونی چاہیے، اور تیسری ترجیح کیا ہو، تو وقت کی کمی کا مسئلہ خودبخود حل ہوجائے گا۔حضوراکرمؐ کی پوری ۲۳ سالہ نبوی زندگی میں کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا کہ جس دن حضوؐر نے قرآن نہ پڑھا ہو اور دوسروں کو پڑھ کر نہ سنایا ہو۔یہ ان کی زندگی کی ترجیح تھی اوران کے صحابہ ؓ کی زندگی کی ترجیح تھی۔حضوراکرمؐ کے صحابہؓ اتنا قرآن پڑھتے تھے کہ حضوراکرمؐ نے ان کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ’’ کوئی تین دن سے کم میں قرآن ختم نہ کرے‘‘(حدیث)۔ اگر ہماری بھی ترجیحات وہی ہوں گی جو اللہ اور اس کے رسولؐ نے مقرر کی ہیں تو ہمارے لیے وقت کی کمی کا کوئی مسئلہ نہ ہوگا۔حضوراکرمؐ اور صحابہؓ کے بعض خطبوں کا ابتدائی جملہ یہ ہوتا تھاکہ ’’ اے لوگو! تمھاری زندگی گزرتی چلی جارہی ہے۔ یہ اچانک کسی پل ختم ہوجائے گی، جو وقت گزر گیا وہ تو گزر گیا لیکن جو آنے والا ہے اس کی فکر کرو۔ اللہ سے ڈرو، اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اپنی جنت کے لیے کچھ مال جمع کرلو‘‘۔ حضوراکرمؐ نے فرمایا کہ ’’بندہ کا صرف وہی ہے جو اس نے کھا لیا یاپہن لیا یا آگے بھیج دیا۔ جو اس نے خرچ نہیں کیا وہ سب وارثوں کا مال ہے‘‘۔(سنن کبریٰ، بیہقی)
ہمارے نزدیک وقت کی ترتیب و تنظیم کے دو بنیادی مقاصدہیں۔ پہلا تو یہ ہے کہ ہم اس بات کا اہتمام اور کوشش کریں کہ ہمارے وقت کا کوئی ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ایمان والوں کی یہ خصوصیت بیان کی ہے کہ وہ اپنے وقت کو لغویات میں ضائع ہونے سے بچاتے ہیں(معارف القرآن، سورئہ مومنون)۔دوسرا مقصد یہ ہے کہ جو ۲۴ گھنٹے ہمیں روزانہ ملتے ہیں اس میں ہم کتنا زیادہ سے زیادہ وقت اپنے فرائض کی ادایگی اور اللہ تعالیٰ کے عائدکردہ حقوق کی ادایگی کے لیے نکالتے ہیں، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
وقت میں اضافے کے لیے اور وقت کی کمی کو دور کرنے کے لیے بہت سارے طریقے ہمیں اللہ کے رسولؐ کی احادیث میں ملتے ہیں،نیزجدید دور میں وقت کے ضیاع کے حوالے سے تحقیقات نے بھی ہماری رہنمائی کے کچھ نکات متعین کردیے ہیں۔ ان میں سے چند اہم اصول و نکات درج ہیں۔
حضوراکرمؐ کی بہت ساری احادیث ہیں جن میں آپؐ نے فرمایا کہ صبح سویرے اُٹھو گے تو اس کے نتیجے میں تمھارے رزق و مال میں برکت ہوگی، اور اگر صبح نہیں اُٹھو گے تو پریشان و رنجیدہ رہو گے۔ایک دن حضوراکرمؐ اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ ؓ کے پاس صبح کے وقت تشریف لے گئے۔ وہ آرام فرما رہی تھیں۔ حضوراکرمؐ نے ان کو جگاتے ہوئے فرمایا: ’’بیٹی! اُٹھو، اپنے رب کے رزق کی تقسیم کے وقت حاضر رہو اور غفلت کرنے والوں میں سے نہ بنو، کیونکہ اللہ تعالیٰ طلوعِ فجر اور طلوعِ شمس کے درمیان لوگوںکا رزق تقسیم کرتے ہیں‘‘۔
صبح جلدی اٹھنے اور فجر کے بعد نہ سونے کے نتیجے میں ہم کو دن میں کئی گھنٹے اضافی مل جاتے ہیں۔ یہ ہماری بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ صبح ۶ بجے سے ۸ بجے کے وقت کو جسے دنیا میں پرائم ٹائم کہا جاتاہے ہم سونے میں گزار دیتے ہیں۔امام ترمذیؒ نے حضوراکرمؐ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ ’’اے اللہ! میری امت کے لیے صبح کے اوقات میں برکت عطا فرما‘‘۔ایک مشہور چینی روایت ہے کہ ’’جو آدمی صبح جلدی اُٹھتا ہے اس کو دولت مند بننے سے کوئی نہیں روک سکتا‘‘۔
جدید تحقیق سے ثابت ہے کہ انسان رات کو ۹ بجے کے بعد جو کام ایک گھنٹے میں کرتا ہے صبح کے اوقات میں وہی کام صرف ۲۰ منٹ میں کرلیتا ہے۔اس دن اور رات میں ایک وقت ایسا بھی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پرائم ٹائم قرار دیا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ’’ رات کے آخری پہر میں اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر آجاتے ہیں اور منادی کردیتے ہیں کہ مجھ سے مانگو میں تمھیں دوں گا، مجھ سے طلب کرو میں تمھاری ضرورت کو پورا کروں گا‘‘(بخاری)۔ پورے ۲۴ گھنٹوں میں اس سے زیادہ قیمتی وقت کوئی نہیں ہے اوروقت کی ترتیب و تنظیم اس بات کا ہی نام ہے کہ انسان اپنے پرائم ٹائم کو سب سے بہترین طریقے سے استعمال کرسکے۔دنیا میں کوئی لیڈر شپ ایسی نہ ہوگی جس کو کوئی بڑی کامیابی ملی ہو اور وہ سحر خیزی کی عادی نہ ہو۔اگر ہم صبح ۵ بجے اُٹھ جائیں تو جو کام دن میں ہم ۳گھنٹے میں کرتے ہیں وہ صبح میں ایک گھنٹے میں ہی کرلیں گے۔ہمیں محسوس ہوگا کہ ہمارا دن ختم ہی نہیں ہورہا ہے۔ اس سنت کو اپنائے بغیر اور اس عادت کو اختیار کیے بغیر ہمارے لیے نہ اُخروی کامیابی ممکن ہے اور نہ دنیاوی برتری ہی۔
ہرفرد کو چاہیے کہ اپنے معاش کے لیے ایک وقت مقرر کرے کہ مجھے اپنے اوقات کا کتنا حصہ معاش کے لیے صرف کرنا ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ ہر آدمی کی روزی اور اس کا رزق مقرر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جتنا ہمارے مقدر میں لکھاہے اُتنا ہی ہمیں ملے گا، چاہے ہم ۸گھنٹے کام کریں یا ۱۶گھنٹے۔ حضوراکرمؐ نے فرمایا کہ ’’روزی انسان کا پیچھا کرتی ہے‘‘(الترغیب و ترھیب)۔ ’’رزق میں کمی یا تاخیر سے پریشان نہ ہو اورروزی کو کمانے میں خوش اسلوبی سے کام لو‘‘۔ (ایضاً)
انسان کی جسمانی استطاعت کے بارے میں محققین کہتے ہیں کہ کوئی بھی آدمی جب اپنے معاش کے لیے آٹھ گھنٹے سے زیادہ صرف کرتاہے تو اس کا زائد صرف کردہ وقت کارآمدنہیں ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مغربی معاشروں میں ۸گھنٹوں سے زیادہ کی ملازمت نہیں ہوتی۔اور یہ کہا جاتاہے کہ آدمی انھی اوقات میں زیادہ سے زیادہ کام کرکے اپنے حصے کا کام پورا کرے۔ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے معاش کے لیے ایک وقت مقرر کریں جو ۸ گھنٹے سے زیادہ نہ ہو۔انھی گھنٹوں میں پوری قوت اور توانائی کے ساتھ کام کریں۔بہت سارے لوگوں نے تجربہ کرکے یہ سیکھا ہے کہ واقعی جو کام ہم ۱۲ اور ۱۴ گھنٹوں میں کررہے تھے وہی کام اب ہم آٹھ گھنٹوں میں کرسکتے ہیں۔اس کے نتیجے میں ہم اپنے اوقات میں کافی اضافہ کرسکتے ہیں۔
روزمرہ معاملات میں ہم بعض اوقات تکلف یا تعلق کی وجہ سے وعدہ کرلیتے ہیں اور وقت کی کمی کی وجہ سے اس وعدے کوپورا نہیں کرپاتے۔ اس کے نتیجے میں جن سے ہم وعدہ کرتے ہیں وہ بھی مشکل میں پڑ جاتے ہیں اور ہماری ساکھ بھی متاثر ہوتی ہے ۔اس بات کا بھرپور اہتمام کرنا چاہیے کہ فرد کسی کو وقت دینے سے پہلے پوری طرح اطمینان کرلے کہ یہ ممکن بھی ہو گا یا نہیں۔ معذرت کرنا کوئی گناہ کا کام نہیں لیکن وقت دینے کے بعد نہ پہنچنا عہد کی خلاف ورزی ہے۔ مغربی دنیا میں کہا جاتا ہے کہ اگر آپ نے ’نہیں‘ کہنا سیکھ لیا ہے تو آپ نے گویا اپنا آدھا وقت بچا لیا۔
وقت کو ضائع کرنے والی چیزوں میں سب سے پہلا نمبر ٹیلی وژن کا ہے۔ ایک عام امریکی دن میں ۳ سے ۴ گھنٹے ٹی وی دیکھتا ہے، جب کہ پاکستان میںاوسطاً لوگ روزانہ دو سے ۳گھنٹے ٹیلی وژن کے سامنے گزارتے ہیں۔ ٹیلی وژن کے بعد اب دوسرا نمبر موبائل فون کا ہے۔ ہمیں یہ اندازہ کرنا چاہیے کہ روزانہ ہم کتنے گھنٹے ٹیلی فون پر صرف کرتے ہیں۔ اوسطاً ایک موبائل فون پر روزانہ ۲۰ کالز اور ۱۲ ایس ایم ایس موصول ہوتے ہیں۔اگر آپ اس وقت کو کنٹرول نہیں کرسکیں گے تو روزانہ ایک سے ۲گھنٹے فون کا اور ایس ایم ایس کا جواب دینے میں لگ جائیں گے۔اپنے ٹیلی فون پر گزرے ہوئے وقت کا اندازہ اور تعین کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی کو اس حوالے سے ایک نظم میں لانے کی ضرورت ہے، اگر ہم ہر فون کال کا جواب اُسی وقت دینا چاہیں گے تو ہم نہ آرام کرسکتے ہیں نہ کوئی سنجیدہ کام اور نہ کوئی میٹنگ ہی پوری توجہ کے ساتھ کرسکتے ہیں، فون ہمارے وقت کو ضائع کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے جس کو کنٹرول کیے بغیر ہم اپنے وقت کو قابو نہیں کرسکیں گے۔اسی طرح ہماراجو وقت ٹیلی وژن کے سامنے ضائع ہوتا ہے، اس کو بھی کم سے کم کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے معاشرے میں دیے گئے وقت کی پابندی کا اہتمام نہ ہونے کے کلچر کی وجہ سے روزانہ کئی گھنٹے ضائع ہوجاتے ہیں۔بالعموم میٹنگز اور پروگرامات دیے گئے وقت سے ۲۵،۲۰منٹ بعد شروع ہوتے ہیں۔کچھ لوگ وقت پر آجاتے ہیں اور کچھ لوگ دیر سے آتے ہیں۔اس کے نتیجے میں جو وقت پرآجاتا ہے اس کا بھی وقت ضائع ہوتا ہے اور جس نے بلایا ہوتا ہے اس کا بھی۔ اگرہم اس کا تعین کریں تو روزانہ آدھا یا پوناگھنٹہ انتظارمیں ہی ضائع ہوجاتا ہے۔ اس انتظار کے وقت کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے اپنے دائروں میں انتہائی ممکنہ حد تک وقت کی پابندی کا اہتمام کریں اور کروائیں توسب کے وقت کو ضائع ہونے سے بچا سکتے ہیں۔
اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بہ یک وقت ہمارے سامنے کئی کام ہوتے ہیں۔ اور ہم انھیں ایک ساتھ کرنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں، اس کے نتیجے میں نہ صرف وقت ضائع ہوتا ہے بلکہ وہ کام بھی اچھی طرح سے پورا نہیں ہوپاتا۔بہتر یہ ہے کہ اگر کئی کام ہمارے سامنے ہوں تو ہم اس کی ترجیحات طے کریں۔ ان میں سے جو سب سے زیادہ ضروری اور فوری ہو، اس کو مکمل کریں اور اس کے بعد دوسری ترجیح کا کام شروع کریں۔اس کے نتیجے میں نہ صرف ہم اپنے وقت کو بچانے میں کامیاب ہوں گے بلکہ ان کاموں کو بھی موثر طور پر بروقت مکمل کرسکیں گے۔
بعض اوقات ایک ہی وقت میں ہمارے سامنے کئی کام ہوتے ہیں۔ ہم ایک کام شروع کرتے ہیں لیکن اس کو پورا کیے بغیر دوسرا کام شروع کردیتے ہیں۔مثلاًدفتری زندگی میں روزانہ بہت سے خطوط اور نوٹس ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ہم ان کو پڑھتے ہیں اور پھر رکھ دیتے ہیں۔ ایک دو دن کے بعد انھیں پھر دوبارہ پڑھتے ہیں اوررکھ دیتے ہیں، اور پھر تیسری دفعہ اس پر کام شروع کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میںجو خط ہم ایک ہی دفعہ پڑھ کر کام کرسکتے تھے اس کو تین دفعہ پڑھنے کے بعد اس کام کو کرپاتے ہیں۔اسی طرح توجہ اور تجاویز کے ضمن میں بہت ساری چیزیں ہمیں موصول ہوتی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان کے جواب دینے کے وقت کو کم سے کم کریں۔ اس کا طریقہ بھی یہی ہے کہ جو کام ہمیں خود کرنے ہیں ان کی ترجیح متعین کریں، اور جو کام دوسروں کے حوالے کرنے ہیں ان کو فوری طور پر دوسروں کے سپرد کردیں۔
روزمرہ کے کاموں میں بہت سے کام ہمارے پاس ایسے ہوتے ہیں جو اگر دوسروں کے سپرد کردیے جائیں تو کام بھی بہتر انداز میں ہوجائے گا اور وقت بھی بچے گا۔ اگر ہم سارے کام خود کرنے کی کوشش کریں گے، مثلاً رپورٹیں بھی خود بنائیں گے، اس کو خود ہی بھیجیں گے بھی، ہر چیز کا ریکارڈ بھی خود رکھیں گے اور جائزہ بھی خود لیںگے تو اس کے نتیجے میں نہ صرف ہمارے وقت کا ضیاع ہو گا بلکہ کام بھی بہتر طریقے سے نہیں ہو سکے گا۔اس کو Micro Management کہتے ہیں جو کہ وقت کے ضیاع کا ایک بڑا سبب ہے۔ اس کا علاج کام دوسروں کو تفویض یا سپرد کرنا ہے اور پھر اس کا جائزہ لیتے رہنا ہے تاکہ ہدف بروقت حاصل ہوسکے۔
مختصر گفتگو ایک فن ہے۔ حضوراکرمؐ کے جو خطبات تحریری صورت میں احادیث کی کتابوں میں ملتے ہیں ان سب کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ مختصر ہیں۔ حجۃ الوداع کے موقع پر ڈیڑھ لاکھ صحابہؓ کے سامنے حضور اکرمؐ نے جو خطبہ ارشاد فرمایا اس کو پڑھنے میں صرف ۷منٹ لگتے ہیں۔ اسی طرح صحابہؓ کے خطبے بھی مختصر ہوتے تھے۔حضوراکرمؐ کے خطبات کی ایک خصوصیت اختصار کے ساتھ ساتھ تکرار بھی تھی۔ حضور اکرمؐ ایک ہی بات کو دو تین دفعہ بیان کرتے تھے تاکہ بات ذہن نشین ہوجائے۔ جدید سائنسی تحقیق سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اگر کوئی فرد ایک گھنٹے کی تقریر توجہ سے سنے تو اس کا صرف ۱۰ فی صد اگلے دن تک یاد رکھ سکتا ہے۔ مختصر گفتگو میں یہ تناسب بڑ ھ کر ۲۵فی صد تک ہوجاتا ہے۔ ہم جتنی طویل گفتگو یا خطاب کریں گے، اس کا استحضار اتنا ہی کم ہوگا۔
اپنی بات کو مختصر کرنے کی عادت ڈالیں اور اس کی تیاری کریں۔ مشہور برطانوی سیاست دان چرچل کا کہنا ہے کہ اگر مجھے تین گھنٹے تقریر کرنی ہو تو میں تیاری نہیں کرتا بس بولتا چلا جاتا ہوں، اور اگر ۱۵منٹ تقریر کرنی ہو تو ۳گھنٹے اس کی تیاری کرتا ہوں۔یہ ایک صلاحیت ہے جس کو ہمیں اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے کہ بات مختصر اور نکات کی صورت میں کی جائے۔ اس سے اپنا بھی اور دوسروں کا بھی وقت بچتا ہے۔ اگر کسی میٹنگ میں ۱۰، ۱۵ لوگ ہوں اور سب ۱۰سے ۱۵منٹ گفتگو کریں تو ۱۵۰منٹ ہوجاتے ہیں۔ اگر ہر آدمی اپنی بات ۳منٹ میں مکمل کرنے میں کامیاب ہوجائے تو ۴۵منٹ میں بات مکمل ہوجائے گی۔ دعوتی کام کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ بات جامع اور مختصر ہو اور تکرار کے ساتھ ہو تاکہ بات ذہن نشین ہوجائے۔ گفتگو کرنے سے پہلے ایک لمحے کے لیے اس بات کا تصور ضرور کریں کہ جو الفاظ بھی ہم بولیں گے اس کا پورا پورا حساب ہمیں اللہ تعالیٰ کے ہاں دینا ہوگا۔
احادیث سے اس بات کا پتا چلتا ہے کہ حضوراکرمؐ نبوت و رسالت اور اسلامی ریاست کے سربراہ ہونے کی گراں بہا ذمہ داریوں کے باوجود بھی اپنے گھر والوں کے لیے اور تفریح کے لیے وقت نکالتے تھے۔دین کے کام کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا نہ کھا سکے، گھر کے کام کاج میں ہاتھ نہ بٹا سکے یا تفریح نہ کرسکے۔ احادیث میں آتا ہے کہ حضوراکرمؐ اپنی ساری بیویوں کو جمع کرکے ایک ساتھ کھانا کھاتے تھے ، گفتگو کرتے تھے، ہنسی مذاق کرتے تھے،گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹاتے تھے اور اپنے نواسوں کو جمع کرکے ان کے درمیان کشتی کرواتے تھے۔ یہ ساری چیزیں ہماری زندگی کا بھی حصہ ہونا چاہییں۔ ہمیں اپنی ترجیحات میں اس بات کو بھی شامل کرنا چاہیے کہ ہمارا گھر بھی ہماری دعوت کا مرکز ہو۔گھروالوں کی تربیت اور خوشی و تفریح ان کا حق ہے۔ ہمارے والدین اگر زندہ ہیں توان کی خدمت کرکے جنت کما لینا ہماری ترجیحات کی فہرست میں لازماً شامل ہونا چاہیے۔
روزمرہ کی زندگی میں بہت سارے اوقات ایسے آتے ہیں کہ جب ہم فارغ بیٹھے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ہم سفر میں ہوتے یا انتظار کررہے ہوتے ہیں یا کچھ بھی نہیں کررہے ہوتے۔ ان اوقات میں ہمیں اس بات کی عادت اپنا لینی چاہیے کہ جب بھی ہم فارغ ہوں تو اپنی زبان کو اللہ کے ذکر سے تر رکھیں۔حضوراکرمؐ نے بہت سارے کلمات بتائے ہیں جو زبان پر بہت ہلکے اور اجر میں بہت بھاری ہیں۔ ان کلمات کو باربار دہراتے رہیں۔ کثرت سے استغفار کریں۔ ایک ایک لمحہ جو ہمارے پاس ہے وہ اللہ کے ذکر میں اور استغفار میں صرف ہو تو یہ وقت کا بہترین استعمال ہے۔ ہمارے وقت کا کوئی لمحہ فارغ ہونے کی وجہ سے ضائع نہ ہو۔ حدیث سے اس بات کا پتا چلتا ہے کہ مومن کا ہر لمحہ کارآمد ہوتا ہے۔ جب اس پر کوئی مشکل پڑتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے، جب خوش ہوتا ہے تو شکر ادا کرتاہے اور اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے۔
ایک ذمہ دار کی حیثیت سے ہمیں اس بات کا بھرپور اہتمام کرنا چاہیے کہ نہ تو ہمارے وقت کا کوئی حصہ ضائع ہو اور نہ ہماری ٹیم میں سے ہی کسی کا وقت ضائع ہو۔جب ہم دوسروں کے وقت کی قدروقیمت کا احسا س کریںگے تو اللہ تعالیٰ ہمارے وقت میں برکت ڈال دے گا۔ اگرہم دوسروں کے وقت کی قدروقیمت کا احساس نہیں کریں گے اور ہماری وجہ سے دوسروں کا وقت ضائع ہوتارہے گا تو اللہ تعالیٰ ہمارے وقت کی قدروقیمت بھی کم کردے گا۔
وقت میں برکت اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، جس طرح ہم اپنے مال ،کاروبار ، رزق اور اولاد میں برکت کی دعا کرتے ہیں اسی طرح اپنے وقت میں برکت کے لیے بھی دعا کریں۔ اگر ہمیں وقت میں برکت حاصل ہوگئی تو زندگی بڑی آسان ہو جائے گی۔ جن لوگوں کو اللہ کی یہ نعمت حاصل ہوتی ہے ان کے پاس وقت کی کمی کا شکوہ نہیں ہوتا بلکہ ان پر یہ احساس غالب رہتا ہے کہ میرے پاس وقت ہے اور جو کام بھی میرے سپرد ہوگا میں اُسے کرنے میں کامیاب ہوجائوں گا۔وقت میں یہ برکت اللہ تعالیٰ کا خاص انعام اور اس کی رحمت ہے جو ان لوگوں پر نازل ہوتی ہے جو اس سے برکت طلب کرتے ہیں۔حضرت عمر فاروقؓ دعا فرماتے تھے: ’’یااللہ! زندگی کے اوقات میں برکت دے اور انھیں صحیح مصرف پر لگانے کی توفیق عطا فرما‘‘۔
وقت اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ایک غیر معمولی امانت ہے۔ اس کے ایک ایک لمحے کی قدروقیمت کے احساس کے ساتھ اللہ کی بندگی کے لیے ، جہنم سے بچنے اور جنت کے حصول کے لیے اس کا استعمال ہونا چاہیے۔کامیاب وہی ہے جو اس احساس کے ساتھ زندگی گزارے کہ اسے زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب اللہ تعالیٰ کو دینا ہوگا، یقینا وہ اپنے وقت کو اللہ اور اس کے رسولؐ کی مقرر کردہ ترجیحات کے مطابق گزارنے کااہتمام کرے گا۔