مئی ۲۰۰۹

فہرست مضامین

خودکشی اور اسلامی تعلیمات

مفتی محمد شمیم اخترقاسمی | مئی ۲۰۰۹ | اسلامی معاشرت

Responsive image Responsive image

جب کبھی کوئی آدمی شخصی یا گھریلو الجھنوں اور سماجی ذمہ داریوں سے دو چار ہوتا ہے، یا اپنے حسب ِمنشا عہدہ ومنصب کے حصول میں ناکام رہتا ہے، تو وقتی طور پر اسے اِس کا رنج بہت ہوتا ہے۔ اسی کرب میں کچھ لوگ خود کشی بھی کرلیتے ہیں، تاکہ ان کا واسطہ آیندہ مزید ناکامیوں اور نامرادیوں سے نہ پڑے۔اب یہ رجحان اتنا عام ہوتا جارہا ہے کہ پاکستان ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں آئے دن خودکشی کے واقعات رونما ہورہے ہیں ،جن کی خبروں سے ہر روز اخباروں کے صفحات بھرے ہوتے ہیں۔حالاں کہ اس نامناسب اقدام کو کسی بھی سماج اورمعاشرے میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ہے۔ یہ بھی بڑی عجیب بات ہے کہ ملکی قانون میں یہ اقدام بذات خود کوئی برا نہیں ہے اور نہ قابل مواخذہ ہے، البتہ اقدام خودکشی کو ضرور جرم قرارد یاگیا ہے۔ گویا کہ کوئی شخص خودکشی کا اقدام کرے اور کسی وجہ سے وہ اس میں ناکام ہوجائے تو ایسی صورت میں اسے سزادی جائے گی۔اس کے مقابلے میں اسلام کی تعلیم اس کے بالکل برعکس ہے اور وہ اس عمل کی کسی بھی صورت میں پذیرائی نہیں کرتا ۔

مصائب ومشکلات او ر ناکامی ونامرادی وقتی چیزیں ہیں۔ یہ کبھی جلد رفع ہوجاتی ہیں اور کبھی وقت لگتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی ان کا مقابلہ نہ کرے۔ اللہ نے انسان کو دنیا کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے اور اپنی عبادت کے لیے پیدا کیاہے، تو پھر کیوں نہ اس کے حکم کی تعمیل کی جائے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو کفرانِ نعمت اور بزدلی ہے جو مومن کی شان کے خلاف ہے۔

کون انسان کب تک زندہ رہے گا اور کب اس کی موت واقع ہوگی، یہ اللہ ہی جانتا ہے اور زندگی اور موت دینے کا حق بھی اللہ ہی کو ہے۔ انسان کے بس میں اگر یہ چیز ہوتی تو دنیا کا نظام درہم برہم ہوکر رہ جاتا۔ انسان کا دنیا میں زندہ رہنا بھی تقویت اور ترقیِ درجات کا باعث ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’کسی بھی آدمی کو موت کی تمنا نہیں کرنی چاہیے، اس لیے کہ اگر وہ نیک ہے تو امید ہے کہ اس سے اس کی نیکی میں اضافہ ہوگا اور اگر برا ہے تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس سے تائب ہوجائے‘‘۔۱؎

قرآن وحدیث میں متعدد مقامات میں وارد ہو اہے کہ اہل ایمان کو موت کی دعا نہیں کرنی چاہیے، تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ مصائب ومشکلات اور بیماری وغیرہ سے دوچار ہونے کے بعد انسان کو خودکشی کی اجازت دے دے۔ اگر کوئی شخص خودکشی کرتا ہے تو وہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرتا ہے اور اس کی سزا بڑی سخت ہوگی۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی نفس کو قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا کبیرہ گناہوں میں سے ہے‘‘۔۲؎

انسان کتنا ہی متقی اور پرہیزگار ہو او ر کتنی ہی نیکیاں اس نے کمائی ہوں اور بھلائی کے کام کیے ہوں، اگر وہ دنیاوی پریشانیوں اور ناکامیوں سے دوچار ہوکر یہ اقدام کرتا ہے تووہ گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہوگا۔ موت کا وقت متعین ہے اور جس نے انسان کو پیدا کیاہے وہی اس کا اختیار رکھتا ہے کہ کب تک اسے زندہ رہنا ہے اور رہنا چاہیے۔ ارشاد ربانی ہے:

فَاِذَا جَائَ اَجَلُھُمْ لاَ یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَۃٌ وَّلاَ یَسْتَقْدِمُوْنَ (النحل ۱۶:۶۱) جب موت کا وقت آجاتا ہے تو ایک ساعت بھی آگے پیچھے نہیں ہوسکتا۔

خودکشی کا اقدام مشکلات سے فرار کا راستہ ہے۔ یہ دنیا دار الامتحان ہے۔ ہر وقت اور ہرمنزل پر آدمی کا واسطہ نئے نئے مسائل سے پڑتا ہے، وہی شخص اس میں کامیاب ہے جو ہر طرح کی پریشانیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرے اور زندگی کی آخری منزل تک پہنچ جائے۔ جو شخص شدائد ومشکلات میں صبر کا دامن چھوڑ بیٹھے اور جلد بازی و بے صبری میں متاعِ حیات ہی کو ختم کردے،    وہ موت کے بعد والی زندگی کو اپنے ہی ہاتھوں درہم برہم کردیتا ہے۔ اس دوسری زندگی میں بھی وہی شخص کامران ہوگا اور اس کا لطف اٹھائے گا جس نے اس دنیا میں نازک ترین لمحات میں بھی خدا کا بندہ ہونے کا ثبوت دیا اور زندگی کی آخری سانس تک وہ اس پر قائم رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اس دنیا کو آنے والی دوسری دنیا کا ضمیمہ قرار دیا ہے۔ یہاں جو عمل اچھا یا برا کیاجائے گا اس کا بدلہ اسے دوسری زندگی میں مل کر رہے گا۔ خودکشی بھی ایک غلط اور ناپسندیدہ عمل ہے جس سے آدمی کی آخرت خراب ہوتی ہے۔

روایت میں آتا ہے کہ ایک شخص نے رسولؐ اللہ کے ساتھ کسی غزوہ میں بڑی شجاعت اور بہادری کا مظاہرہ کیا اور ہر محاذ پر دشمنوں کا مقابلہ کرتارہا۔ اس کی اس بہادری کو دیکھ کر ہر طرف سے تحسین وتعریف ہونے لگی۔ بالآخر وہ لڑتے لڑتے شدید زخمی ہوگیا اور زخم کی تکلیف برداشت نہ کرسکا، تو اس نے اپنی ہی تلوار کی نوک اپنے سینے میں پیوست کرلی جس سے اس کی موت واقع ہوگئی۔ اس سے وہ جہنمی ٹھیرا۔

آپؐ نے فرمایا: لوگوں کی نظر میں ایک آدمی (ساری عمر) بہشت والوں کے سے کام کرتا رہتا ہے، حالاں کہ وہ دوزخی ہوتا، اور ایک آدمی (عمر بھر) دوزخ والوں کے سے کام کرتا ہے ، حالاں کہ وہ جنتی ہوتا ہے‘‘۔۳؎

اسی طرح حضرت جندبؓ بن عبد اللہ بجلی روایت کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’تم میں سے پہلے جو قومیں گزرچکی ہیں، ان میں کے ایک شخص کا واقعہ ہے کہ اسے زخم لگا، وہ اس کی تکلیف برداشت نہ کرسکا اور چاقو سے اپنا ہاتھ کاٹ ڈالا۔ اس سے اس قدر خون بہا کہ اس کا انتقال ہوگیا۔ اس پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: میرے بندے نے جلدی کی، قبل اس کے کہ میں اس کی روح قبض کرتا، اس نے خود ہی اپنے آپ کو ختم کردیا۔ لہٰذا میں نے اس کے لیے جنت حرام کردی‘‘۔۴؎

ایک دوسری حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا:’’جو شخص اپنے آپ کو کسی لوہے کے ہتھیار سے قتل کرلے تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا،وہ اس کو اپنے پیٹ میں بھونکتا رہے گا اور جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔اور جو شخص زہر پی کر اپنی جان لے تو وہ چوسا کرے گا اسی زہر کو۔ جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا___ اور جو شخص اپنے آپ کو پہاڑ سے گراکر مارڈالے تو وہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں گراکرے گا ۔ سدا اس کا    یہ حال رہے گا ‘‘۔۵؎

خودکشی کرنے والے کے ساتھ نہ صرف اللہ تعالیٰ کا معاملہ درد ناک ہوگا، بلکہ دنیا میں بھی ایسے لوگوں کی کوئی وقعت نہیں ہوتی اور اس کے برے نتائج سے اس کے گھر والے اور عزیز و اقارب دوچار ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے رشتہ داروں سے معاشرے کے دوسرے لوگ تعلق نہیں رکھتے۔ رشتہ داری کرنے میں ان سے خائف ہوتے ہیں اور ان کے گھر والوں کے ساتھ طعن وتشنیع کا معاملہ کرتے ہیں۔ وہ سماج ا ورمعاشرے کی ہمدردی سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔

خودکشی کرنے والا تو چلاجاتا ہے، مگر اس کے اس غلط عمل سے اس کے احباب کو کتنا نقصان پہنچتا ہے، اس کا اندازہ اگر اسے ہوجائے تو کوئی شخص اس فعل حرام کا مرتکب نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اللہ کے رسولؐ کو ایک مسلمان کے خودکشی کرنے کی خبر ملی تو آپ برہم ہوگئے اور فرمایا کہ میں اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھوں گا۔

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ’’ایک شخص بیمار ہوا ،پھر اس کی موت کی خبر مشہور ہوئی۔ اس کا ہمسایہ رسولؐ اللہ کے پاس آیا،عرض کیا :یارسولؐ اللہ! فلاں شخص مرگیا۔ آپؐ نے فرمایا:تجھے کیسے معلوم ہوا؟کہا میں خود اس کودیکھ کر آیا ہوں۔آپؐ نے فرمایا:وہ مرا نہیں ہے۔پھر وہ لوٹ گیا، تھوڑی دیر بعد وہ پھر آیا اور عرض کیا :یا رسولؐ اللہ: وہ تو مرگیا۔رسولؐ اللہ نے فرمایا :وہ مرا نہیں ہے۔پھر وہ لوٹ گیا،پھر خبر مشہور ہوئی کہ وہ مرگیا۔ اس کی بیوی (مریض کی بیوی) نے اس آدمی سے (یعنی ہمسایے سے) کہا : جاؤ اور اللہ کے رسولؐ اللہ کو خبر کردو۔ تب پھر وہ شخص اس مریض کے پاس گیا اور دیکھا کہ اس نے تیرکی نوک سے اپنے گلے کو کاٹ لیا ہے۔ پھر وہ رسولؐ اللہ کے پاس آیا اور عرض کیا:یا رسولؐ اللہ! وہ مرگیا ۔آپؐ نے فرمایا: تجھے کیسے معلوم ہوا؟وہ بولا :میں خود اس کو دیکھ کر آیا ہوں،اس نے اپنا گلا تیر سے کاٹ لیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: تونے دیکھا؟ اُس نے کہا: ہاں۔ آپؐ نے فرمایا: پھر تو میں اس کی نمازجنازہ نہیں پڑھوں گا‘‘۔۶؎

اسلام نے کسی بھی حال میں خودکشی کی اجازت نہیں دی ہے۔ اندازہ لگائیے جس نے انسان کو پیدا کیا، ماں کے شکم سے لے کر زندگی کے آخری لمحے تک اس کی حفاظت ونگرانی فرمائی اور سکون وراحت کی نعمت سے سرفراز کیا، وہی اپنے بندوں کو مصائب ومشکلات میں مبتلا کرتا ہے۔ اس انسان کو جب خوشی ملتی ہے تو وہ عیش کرتا ہے اور جب پریشانی آتی ہے تو وہ اس سے فرار کی راہ اختیار کرتا ہے اور اپنے اوپر موت کو طاری کرتا ہے، یہ کیسی بوالعجبی ہے۔ کچھ لوگ خودکشی کے حق میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ انسان اپنی جان کا مالک ہے اور اسے اختیار ہے کہ وہ اسے ختم کردے یاباقی رکھے۔ طرفہ تماشایہ کہ عام حالات میں تو اس عمل کو وہ پسند نہیں کرتے مگر بیماری اور تکلیف کی حالت میں اس عمل کو بروے کارلانے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے، اور کہتے ہیں کہ ایسا شخص زندگی کو اس لیے ختم کررہا ہے کہ وہ تکلیف کا باعث بن گئی ہے اور اس کی وجہ سے وہ سخت اذیت محسوس کررہا ہے۔ جب وہ معاشرے کے حقوق ادا کرنے کی حالت میں نہیں ہے تو اس سے گریز کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔

خود کشی کرنے والے کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی یا نہیں؟ اس کے متعلق قرآن وحدیث میں کوئی واضح صراحت نہیں ملتی۔اسی وجہ سے اس مسئلے میں فقہاے کرام اور علمائے امت کا اختلاف ملتا ہے۔بعض کہتے ہیں کہ نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور بعض کے نزدیک ادا نہیں کی جائے گی، جب کہ درست یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایسے شخص کی نماز پڑھی جانی چاہیے۔البتہ مسلمانوں کے ذی وجاہت اور سربرآوردہ لوگ چاہیں تو اس میں شریک نہ ہوں۔اہل سنت کا اس پر اجماع ہے کہ مومن گناہ کبیرہ کے ارتکاب سے کافر نہیں ہوتا۔۷؎جو شخص دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا اس کے لیے دعاے مغفرت کرنے میں کیا مضائقہ ہے۔نماز جنازہ بھی دعاے مغفرت کی ایک شکل ہے۔ قرآن مجید میں صرف مشرکین کے لیے استغفار کی ممانعت ہے یا پھر عہد نبویؐ میں جس شخص کا نفاق بالکل کھلا ہواتھااور جس کا نبیؐکو علم دیا گیا تھا، صرف ایسے منافقین کے لیے دعاو استغفار کرنے اور نماز جنازہ پڑھنے سے آپ ؐکو روکا گیا تھا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِسْتَغْفِرْ لَھُمْ اَوْ لاَ تَسْتَغْفِرْ لَھُمْ ط اِن تَسْتَغْفِرْ لَھُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً فَلَن یَّغْفِرَ اللّہُ لَھُمْ ط ذَلِکَ بِاَنَّھُمْ کَفَرُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُولِہِ ط وَاللّٰہُ لاَ یَھْدِیْ الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ o (التوبہ ۹:۸۰) اے نبیؐ! تم خواہ ایسے لوگوں کے لیے معافی کی درخواست کرویا نہ کرو ،اگر تم ۷۰ مرتبہ بھی انھیں معاف کر دینے کی درخواست کرو گے تو اللہ انھیں ہرگز معاف نہ کرے گا ۔اس لیے کہ انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور اللہ فاسق لوگوں کو راہ نجات نہیں دکھاتا۔

جیسا کہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے کسی گنہ گار یا خطا کا ر کا جنازہ آپؐ نے خود نہیں پڑھایا ۔یہ محض زجرو توبیخ کے طور پر تھا اور اس کی نوعیت بھی بعض اوقات عارضی تھی۔یہ مقصود نہیں تھا کہ اس خطا کے مرتکب کا جنازہ کوئی دوسر ا شخص بھی نہ پڑھے۔بلکہ بعض حالات میں آپؐ  نے صحابہ کرام کو اس کا جنازہ پڑھنے کی ہدایت فرمائی تھی۔اس کی ایک نمایاں مثال مقروض کا جنازہ ہے۔جب کوئی صحابیؓ فوت ہوتے تھے تو آپؐ دریافت فرماتے کہ ان پر قرض تو نہیں ہے؟ اگر ہوتا تو آپؐ جنازہ پڑھانے سے اجتناب کرتے تھے مگر دوسرے صحابہؓ کو پڑھنے کا حکم دیتے تھے۔ بعد میں ایسا بھی ہوا کہ کوئی ادایگیِ قرض کا ذمہ لے لیتا تھا یا بیت المال سے اس کا انتظام ہوجاتا تھا تو حضوؐر جنازہ پڑھادیتے تھے۔

اسی طرح کا معاملہ خودکشی کرنے والے کا بھی ہے۔کو ئی صحیح حدیث ایسی نہیں ملتی جس سے یہ ثابت ہو کہ نبیؐ نے خود کشی کرنے والے کی نمازجنازہ پڑھانے کی ممانعت فرمائی ہو اور ایسے شخص کو جنازہ پڑھائے بغیر دفن کردیا گیا ہو۔جس جرم کے مرتکب کا جنازہ پڑھانے کی اللہ کے رسولؐ نے اجازت مرحمت فرمادی ہے اور صحابہؓ کرام کی جماعت نے جس کا جنازہ پڑھادیا ،اس کے جنازے کی عام ممانعت کس بناپر جائز ہوسکتی ہے؟یقینا بعض فقہانے خود کشی کرنے والے اور بعض دوسرے کبائر کا ارتکاب کرنے والے کا جنازہ نہ پڑھنے کا فتویٰ دیا ہے۔ اس کا علی الاطلاق انطباق درست نہیں معلوم ہوتا۔اس سلسلے میں ان فقہاے کرام اور علماے عظام کی راے قابلِ ترجیح ہے کہ بڑے سے بڑا گناہ گار بھی دعاے مغفرت اور نمازِ جنازہ کا محتاج و مستحق ہے۔

[حیرانی ہوتی ہے کہ اسلام میں خودکشی کے بارے میں اتنی واضح تصریحات کے باوجود، آج ہمارے معاشرے میں یہ بہت عام ہوگئی ہے۔ روزانہ کا اخبار ۴،۵ خودکشیوں کی خبر لیے آتا ہے۔ جو ادارے اعداد و شمار جمع کرتے ہیں، وہ سیکڑوں اور ہزاروں کی بات کرتے ہیں۔ معاشرے میں مسائل اور پریشانیاں ضرور بڑھ گئی ہیں، لیکن ایک مسلمان کو اللہ تعالیٰ سے استعانت طلب کرتے ہوئے ہمت و حوصلے سے ان کا مقابلہ کرنا چاہیے، نہ کہ ہمت ہار کر اپنی جان لے لے اور پس ماندگان کو مزید پریشانیوں کا شکار کردے۔ معاشرے میں اسلامی تعلیمات عام ہوں تو خودکشی کے رجحان کو کمزور کیا جاسکتا ہے۔ مساجد کے ائمہ جمعہ کے خطبے میں اسے کھل کر موضوع بنائیں اور پریشان حالوں کو راہِ راست سمجھائیں۔ ذرائع ابلاغ اس مسئلے کو بھرپور طور پر اُٹھائیں اور عوام کی صحیح رہنمائی کریں اور فرائض کی ادایگی کی طرف متوجہ کریں۔

صلۂ رحمی اسلامی معاشرت کا ایک نمایاں وصف ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی ضروریات کا خیال رکھے اور انھیں ترجیح دے۔ ہمسایہ، اہلِ محلہ، دوست احباب اور اقربا و رشتہ داروں کے باقاعدہ حقوق کا تعین کیا گیا ہے اور وہ اخلاقی طور پر اس کے پابند ہیں کہ اپنے پریشان حال بھائیوں کی ضروریات کا خیال رکھیں۔ اہلِ جنت کی صفات میں سے ایک نمایاں صفت بھوکوں کو کھانا کھلانا اورحاجت مندوں کی ضروریات کو اپنا فرض سمجھ کر پورا کرنا ہے۔ اس روایت کو بھی آگے بڑھانے اور توانا کرنے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں اہلِ محلہ اور رشتے دار ہی ایک دوسرے کی ضروریات کو بخوشی پورا کرتے تھے اور اسے خدا کی رضا و خوشنودی کا ذریعہ سمجھتے تھے، مگر آج معاشرہ انتشار کا شکار ہے اور نفسا نفسی کا عالم ہے جس کی وجہ سے پریشان حال لوگ مایوس ہوکر خودکشی جیسے گناہ کا ارتکاب کرنے لگے ہیں۔ ایسے میں جہاں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کی پریشانیوں کے ازالے کے لیے بھرپور اقدام اٹھائے وہاں غیرسرکاری تنظیموں، خدمتِ خلق اور رفاہی امور کی حامل تنظیموں کا کردار اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کا تقاضا ہے کہ    اس مسئلے کے حل کے لیے انفرادی، اجتماعی اور حکومتی سطح پر ایک بھرپور اور منظم جدوجہد کی جائے۔   یہ ہم سب کا قومی و ملّی فریضہ بھی ہے۔]


حواشی

۱-  صحیح البخاری، کتاب المرضی، باب تمنی المریض … صحیح مسلم، کتاب الذکر والدعا، باب کراھیۃ تمنی الموت

۲-  صحیح البخاری، کتاب الأیمان والنذور، باب یمین الغموس ولا تتخدوا ایمانکم۔ کتاب الدیات ،باب ومن احیاھا۔کتاب الاستنابہ المرتدین وقتالھم،  باب اثم من اشراک باللّٰہ

۳-  صحیح البخاری، کتاب الجہاد، باب لایقول فلاں شہید۔ کتاب المغازی، باب  غزوۃ خیبر۔کتاب الرقاق،باب الاعمال بالخواتیم وما یخاف منہا۔ کتاب القدر،     باب العمل بالخواتیم …صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب غلط تحریم قتل الانسان نفسہ

۴-  صحیح البخاری، کتاب الانبیاء، باب ذکر عن بنی اسرائیل۔کتاب الجنائز،      باب ماجاء فی قاتل النفس

۵-  صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب تحریم قتل الانسان نفسہ…شرح نووی علٰی صحیح مسلم،ابوزکریا یحییٰ بن شرف النووی،کتاب الایمان، باب غلط تحریم قتل الانسان نفسہ، ص:۱۱۸،ج:۱،جز:۲،دارالریان للتراث قاہرہ، ۱۹۸۷ء …سنن ترمذی،کتاب الطب، باب ماجاء فیمن قتل نفسہ بسم اوغیرہ

۶-  سنن ابو داؤد، کتاب الجنائز، باب الامام لایصلی علی من قتل نفسہ

۷-  ردالمحتار علی الدرالمختار،ص:۱۰۲،ج:۳