انبیا کا طریقۂ تبلیغ کوئی جامد طریقہ نہیں ہے بلکہ انسان کی علمی و ذہنی ترقیوں کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلی اور ترقی ہوتی رہی ہے جس سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ سائنس اور تمدن کی ترقی سے انسان کے وسائل کار اور ذرائع معلومات میں جو اضافے ہوئے ہیں ان سے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے کا حق داعیانِ حق کو ہے۔ مثلاً آج پریس اور ریڈیو وغیرہ نے انسان کی قوتِ ابلاغ کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا ہے۔ ایک بڑی سے بڑی تقریر چند منٹوں کے اندر دنیا کے ایک گوشے سے لے کر دوسرے گوشے تک پہنچائی جاسکتی ہے، کسی وسیع سے وسیع تحریک سے چند دنوں کے اندر اندر دنیا کے تمام پڑھے لکھے انسانوں کو آشنا کیا جاسکتا ہے، مشکل سے مشکل باتیں بہت معمولی محنت سے عوام اور خواص سب کے ذہن نشین کی جاسکتی ہیں۔ اس وجہ سے ضروری ہے کہ آج حق کی تبلیغ کے لیے ان ذرائع پر قبضہ کیا جائے۔
اگر اہلِ حق یہ خیال کر کے ان چیزوں کو نظرانداز کردیں کہ انبیا نے تبلیغ دین کے کام میں ان چیزوں کو استعمال نہیں کیا ہے بلکہ دروازے دروازے پر پہنچ کر ایک ایک شخص پر تبلیغ کی ہے، اس وجہ سے ہمارے لیے بھی اولیٰ یہی ہے کہ ہم ان چیزوں کو ہاتھ نہ لگائیں بلکہ گھر گھر پہنچ کر لوگوں کو تبلیغ کریں، تو یہ انبیا کے طریقے کی پیروی نہیں ہے بلکہ شیطان کا ایک بہت بڑا دھوکا ہے، جو وہ اس لیے دے رہا ہے تاکہ جب تک آپ اپنے ’دین دارانہ‘ طریقے پر چل کر دو آدمیوں سے کوئی بات کہیں، اس وقت تک وہ ان سائنٹی فک وسائل سے کام لے کر ہزاروں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں انسانوں تک اپنی دعوتِ باطل نہایت مؤثر طریقہ پر پہنچا دے۔ شیطان نے یہی دھوکا دے کر اکثر اہلِ حق کی کوششوں اور قابلیتوں کو نقصان پہنچا دیا ہے اور ان کے مقابل میں خود اپنا پلّہ بھاری رکھا ہے۔ یہاں تک آہستہ آہستہ اب زندگی کے ہرمیدان میں یہ پیچھے ہیں اور وہ آگے ہے اور دونوں کی کوششوں کے نتائج میں سرے سے کوئی نسبت ہی باقی نہیں رہ گئی ہے، اور یہی صورت حال اس وقت تک باقی رہے گی جب تک اہلِ حق ان زبردست قوتوں کو حق کی خدمت میں استعمال کرنے کا ڈھنگ نہ سیکھ جائیں جو آج ۱۰۰ فی صد شیطان کے تصرف میں ہونے کی وجہ سے باطل کی خدمت میں صرف ہو رہی ہیں۔ (’دعوت کے طریقے‘، مولانا امین احسن اصلاحی، ترجمان القرآن، جلد ۳۰، عدد ۵،جمادی الثانی ۱۳۶۶ھ، اپریل ۱۹۴۷ء، ص ۱۹-۲۰)