مئی ۲۰۰۹

فہرست مضامین

اُمت مسلمہ: چار نکاتی لائحہ عمل

ندیم فرحت گیلانی | مئی ۲۰۰۹ | دعوت و تحریک

Responsive image Responsive image

اُمت ِمسلمہ کو درپیش صورتِ حال کے حوالے سے موجودہ اور گذشتہ صدی میں ہمارے ہاں ہونے والے بیش تر فکری کام میں توجہ اس بات پر مرتکز رہی ہے کہ مغرب اور اس کے مشرقی حواری کس حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں اور ہم کس طرح اس کے منفی اثرات سے بچ سکتے ہیں۔اس وقت اس فکری عمل کے معیار یا افادیت سے بحث نہیں بلکہ اس حقیقت کا اظہار مقصود ہے کہ محض ردعمل میںکیے جانے والے اقدامات شاذونادر ہی مشکل سے نکلنے میں مدد دیتے ہیں۔ کسی مشکل کا شکار ہونے والا آگے بڑھ کراس صور ت حال سے خلاصی کی راہ خود سے نہ نکال پائے اور محض حملہ آور کے وار سے بچنے کے لیے کوشش کرتا رہے تو بالآخر اس کا مقدر مقابل کے منصوبے کے مطابق اس کا شکار ہی بننا ہوتا ہے۔لہٰذا جس طرزِ فکر کا انتخاب ہم نے کیا ہے اس کے لازمی نتیجے کے طور پر ہم نہ چاہتے ہوئے اوربزعمِ خود تمام تر کوشش کے باوجود بھی مادی و فکری میدانوں میں مغرب کے متعین کردہ راستوں پر چل رہے ہیں۔ ہم مغربی مفکرین کی پختہ اور خام،ہر طرح کی، خیال آرائیوں کے جوابات دینے اور اپنی دانست میں غلط فہمیاں دور کرنے میں مصروف ہیں۔اگر چہ یہ مشق بھی افادیت سے خالی نہیں ہے، تاہم اس کا یہی نقصان کیا کم ہے کہ ہماری تمام فکری قوت الزامات کا جواب دینے اور وضاحتیں پیش کرنے میں صرف ہو رہی ہے جس کے نتیجے میں ہم اپنے مسائل کا خود سے مطالعہ و تجزیہ کرنے اور اپنے حالات اور نظریات کی روشنی میں ان کا حل نکالنے سے محروم ہیں۔

اگر بلا کم و کاست موجودہ مسائل کا حل ایک جملے میں بیان کیا جائے تو وہ یہ ہے کہ ہمیں خود اپنے ذہن سے سوچنا ہو گا۔ اپنے مسائل کا خود سے تجزیہ کر کے خود ان کا حل تجویز کرنا ہوگا۔    یقینا اس عمل میں بیرونی دنیا کی آرا اور ان کی جمع کردہ معلومات معاون تو ہوں گی مگر انھیں بطور  ’ایک وسیلہ‘ استعمال کیا جائے نہ کہ بطور ’واحد وسیلہ‘۔ ہمیں اپنے سوچ کے انداز اور رویوں میں بنیادی تبدیلیاں لانی ہوں گی۔اس راہ میں پہلے قدم کے طور پرمعاشرے کے تمام افراد کے لیے، یا کم از کم ان افراد کے لیے جو عدم توازن، نا انصافی اور دوہرے معیارات پر مبنی دنیا میں مثبت تبدیلی کے خواہش مند ہیں۔ اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ زندگی کسی فرد کی ہو، قوم کی یا کسی نظریے کی ، جدوجہد ،کش مکش اور سعیِ مسلسل سے عبارت ہے۔ افراد کی طرح معا شرے بھی اپنا تشخص اور وجود صرف اسی صورت برقرار رکھ سکتے اور پروان چڑھا سکتے ہیں جب افراد ِمعاشرہ میں مجموعی طور پر بھی عمل اور پیہم عمل کا دا عیہ موجود رہے۔بے عملی، جمود اور سہل پسندی نہ تو اس کا ئنات کا مزاج ہے اور نہ اس کا ئنات میں ہی قابلِ ــقبول ہے___ بقولِ اقبال    ؎

جُنبش سے ہے زندگی جہاں کی
یہ رسم قدیم ہے یہاں کی
ہے دوڑتا اشہبِ زمانہ
کھا کھا کے طلب کا تازیانہ
اس راہ میں مقام بے محل ہے
پوشیدہ قرار میں اجل ہے
چلنے والے نکل گئے ہیں
جو ٹھیرے ذرا ، کچل گئے ہیں

یہ محض ایک فلسفیانہ تعبیر نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ زندگی کی کوئی بھی سرگرمی اس وقت تک جاری نہیں رہ سکتی جب تک اس کے لیے کوئی محرک موجود نہ ہو۔ قوموں کی زندگی کو آگے بڑھنے اور مسلسل آگے بڑھتے رہنے کے لیے طلب کے جس تازیانے کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہماری نظر میں چارعنوانا ت سے عبارت ہے :ہم مقصدیت، عصبیت، جذبۂ مسابقت اور جدت و حکمت۔

ھم مقصدیت

انسانوں کا کوئی گروہ صرف اسی وقت قوم کہلانے کا حق دار بنتا ہے جب ان میں کچھ  ثقافتی اور سماجی اقدار مشترک ہوں۔قوم کی تشکیل علاقے، زبان یا فلسفے کی بنیاد پر ہو سکتی ہے لیکن  یہ عین ممکن ہے کہ قوم کے افراد کے درمیان موجود مشترکات ان کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کی نسبت کہیں کم ہوں۔ایسے میں اس بات کا امکان بھی موجود رہتا ہے کہ ایک قوم کے اندر کوئی نیا تشخص پروان چڑھنے لگے اور ایک نئی قوم وجود میں آجائے۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ افرادِ معاشرہ میں پائے جانے والے اختلافات زیادہ نمایاں حیثیت حاصل کر لیں اور قوم کی  مشترکہ شناخت معدوم ہو کر رہ جائے۔ قومیں اور قومیتیں اسی طرح پیدا بھی ہوتی ہیں، مٹتی بھی ہیں اور مضبوط تر قوموں اور نظریات کے سامنے سپر ڈال کر ان میں ضم بھی ہو جاتی ہیں۔ماضی کی کتنی   ہی اقوام ہیں جن کی داستان تک آج سننے کو نہیں ملتی۔یہ اس وقت ہوتا ہے جب غیر ارادی طور پر  کسی قوم کا حصہ بن جانے والے افراد کسی مشترک مقصد سے عاری ہوں، یا جب معاشرے کے ہرفرد کا کوئی قلیل وقتی یا بعض اوقات طویل مدتی مقصد تو ہو لیکن بحیثیت قوم ان کے سامنے کوئی  واضح مقصد نہ ہو۔ درحقیقت کسی بلند تر مشترک مقصد کا نہ ہونا ہی کسی معاشرے میں حرص و ہوس، مفادپرستی، تنگ نظری اور کم ظرفی جیسے رذائل کا سبب بن کر معاشرے میںانتشار اور افتراق کی راہ کھولتا ہے ۔

اُمت ِ مسلمہ اس حوالے سے اپنی قسمت پر ناز کر سکتی ہے کہ اسے ایک ایسا بلند تر اور ارفع مشترک مقصد ربّ ِکائنات کی طرف سے عطا کر دیا گیا ہے جو اپنی آفاقیت اور ابدیت کی وجہ سے زمان و مکان کے تمام بندھنوں سے آزاد ہے۔ شاید اسلام کے عطا کردہ اس مقصد کو سیدنا ربعی   بن عامرؓ سے زیادہ بہتر انداز میں کسی نے بیان نہیں کیا جنھوں نے اُمت ِ مسلمہ کا مقصد بعثت ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ ہماری آمد کا مقصد اللہ کی مشیت کے تحت اللہ کے بندوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر بندوں کے رب کی غلامی میں دینا، انھیں دنیا کی تنگنائیوں سے نکال کر آخرت کی وسعتوں میں اور ادیانِ باطلہ کے ظلم سے نکال کر اسلام کے نظامِ عدل کے سائے میں لانا ہے۔   یہ جملہ اپنے اندر بے پناہ وسعت اور معنویت رکھتا ہے ۔کوئی ایسا فرد اس کی حکمت سے واقف نہیں ہوسکتا جو دین کے پورے پیغام اور اس کی روح سے آگاہ نہ ہو۔دراصل یہ مقصد اسلامی معاشرے کی بنیاد بھی ہے اوراس دنیا میں اس کا ہدف بھی۔یہی تحریک اسلامی کا مقصد اور بنیادی دعوت بھی ہے۔اسی کے لیے ہر فرد کو انفرادی اور اجتماعی سطح پر کوشش کرنی ہے اور اسی کے ذریعے سے اپنے لیے ابدی فلاح کا سامان کرنا ہے۔ آج اسی فکر کو اپنانے، اجاگر کرنے اور فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

عصبیت

عصبیت اور تعصب کے الفا ظ سے فوری طور پر ذہن میں ایک منفی تأ ثر ابھرتا ہے مگر یہا ں ہماری مراد ایک ایسا جذبہ ہے جو کسی مشترکہ عنصر یا جذبے کی وجہ سے کسی معا شرے کے افراد کو   باہم پیوست رکھتا ہے۔ گو یا یہ ایک طرح کی قوتِ محرکہ (cohesive force)ہے جو نہ صرف افراداور گروہوں کو قوم اور معا شرے کی شکل دیتی ہے بلکہ ان میں آگے بڑ ھنے کا ولولہ اور شوق بھی پیدا کر تی ہے۔ اسی وجہ سے ابن خلدون عصبیت کو کسی معا شرے کی تشکیل اور تعمیر کا بنیادی عنصر قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ـ’’ـ َ عصبیت ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے حمایت ، دفاع اور حق طلبی کا جذبہ پیدا ہو تا ہے۔غرضیکہ قوت کا بلکہ ہر بات کا مدار اسی پر ہے‘‘۔ اسی جذبے کو آج جذبۂ حب الوطنی اور قومی حمیت کا نا م دیا جاتا ہے اور اسی کی بنا پر افراد معاشرہ اپنے مشترکہ تشخص اور مشترکہ اہداف کا تعین کرتے ہیں۔ اگر اپنی قوم یا گروہ کے لیے یہ محبت اور اسے پروان چڑھانے کے لیے جدوجہد کا جذبہ ما ند پڑ جائے، یعنی عصبیت عوارض کا شکار ہو جا ئے تو قومیں اپنے اہداف کھو بیٹھتی ہیں اور کسی دوسری عصبیت کی حامل قو میں اسے روندتی اور کچلتی ہوئی گزر جا تی ہیں۔

یہی حال اس نظریے اور تہذیب کا ہوتا ہے جس کے پیرو کار وں میں خود اس نظریے اور اس کی بنیاد پر تشکیل پا نے والی تہذیب کے لیے عصبیت برقرار نہ رہے۔ اپنے نظریے ، اپنی سوچ اورا پنی قوم کو بالادست یا کم از کم باوقار رکھنے کا داعیہ اگرکسی اندرونی یا بیرونی عامل کے نتیجے میں کمزور پڑ جا ئے تو ابتد ا ً اطا عت وزیر دستی اور بالا ٓخر غلامی اس قوم کا مقدر بن جاتی ہے۔ اس جذبے کو اجتما عی جذبۂ ِخودی بھی کہا جا سکتا ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ کسی بھی معاشرے میں صرف ایک عصبیت ہی مو جود نہیں ہوتی بلکہ   بہ یک وقت افرادِمعاشرہ کی وابستگی متعدد قسم کی عصبیتوں سے ہوتی ہے۔ ایک ہی فرد بہ یک وقت علاقائی ، نسلی ، نظریاتی ، لسانی اور دیگر عصبیتوں سے منسلک ہو تاہے۔تا ہم ایک ایسی عصبیت ضرور تمام افرادِ معاشرہ میں مشترک ہوتی ہے جو مختلف عصبیتوں پر بالا دست اور ان سب سے زیادہ طاقت ور ہوتی ہے۔یہی بالا دست عصبیت اس قوم کی شنا خت اوراس کے تفا خر کا با عث بنتی ہے۔ اسلام خاندان ، علاقے اورزبان وغیرہ کی عصبیتوںکی موجودگی کو تسلیم کر تا ہے اور اسے فطرت کا حصہ قرار دیتاہے مگر مطالبہ کر تا ہے کہ ان میں سے ہر ایک عصبیت اسلام کی خا طر مطلوب عصبیت و حمیت کے تا بع ہو، اور اگر کوئی دیگر عصبیت اسلام کے ساتھ وابستگی اور اس کی خاطر درکار حمیت و غیرت سے بڑھ جائے تو ایسی عصبیت، عصبیتِ جاہلیہ کہلائے گی ۔ گذشتہ صدی میں وطنیت یا حب الو طنی کو مشترکہ بالادست عـصبیت کی حیثیت حا صل رہی۔ آج یورپ تو جغرافیائی سرحدوں سے ماورا مشترکہ مقاصد اور مشترک نظریے کی بنیاد پر نئی شناخت اپنا رہا ہے، جب کہ مسلمانوں میں من و تو کی تقسیم گہری ہوتی نظر آتی ہے۔ کیا اپنی سوچ کا رُخ بدلنے کے لیے یہ صورتِ حال ہمارے لیے کافی نہیں۔

دورِ حاضر میں میڈیا کی قوت کے استعمال، تعلیمی نصاب اور تعلیمی نظام اور سماجی نظم  (social order)میں تبدیلی کے بل بوتے پر مسلم اقوام کو اسلام اور اس کی عطا کردہ فکر، اقدار اور طرزِ معاشرت سے دورکیا جا رہا ہے،بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ مسلمانوں نے اپنے اذہان اور صلاحیتیں مغرب کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھی ہیں، تو زیادہ درست ہو گا ۔بقول اقبال    ؎

یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا تُو
مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے ، یورپ سے نہیں ہے

افرادِ معاشرہ کی عام حالت یہ ہے کہ وہ اپنے مذہب، اپنی شناخت، اپنی زبان، اپنی اقدار، رسوم ورواج پر شرمندہ نظر آتے ہیںاور ہمہ وقت مغربی اقدار کی اندھی پیروی سے اس خفت کو مٹانے میں مصروف ہیں۔ رہن سہن اور بول چال میںمغرب کی تقلید ترقی کی نشانی اور مذہب یا اپنی روایات کا حوالہ دقیانوسیت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔اس وقت امت کے ہر دانا و بینا فرد کا فرض ہے کہ وہ اپنے مذہب ، اپنی روایات اور اپنی اقدار کو سمجھنے، ان کو پروان چڑھانے اوران کے لیے جذبۂ حمیت پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ اگر یہ جذبہ معدوم ہو گیا تو رہی سہی شناخت اور مزاحمت بھی دم توڑ دے گی اور معاشرہ کلیتاً مغرب کے رنگ میں رنگ جانے کو اپنی خوش بختی سمجھے گا۔

اس حوالے سے یہ بات مد نظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ اپنے مذہب، وطن اور اقدار کے لیے عصبیت کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ دیگر اقوام، مذاہب اور نظریات کے خلاف جذبات کو ابھارا جائے۔ ایک مسلمان کا ظرف کشادہ اورسوچ آفاقی ہونی چاہیے، اسے یہ سمجھنا چاہیے کہ دنیا میں موجود ہر تہذیب اور اس تہذیب کے پیرو اس دنیا کا حصہ ہیں۔ جس طرح یہ بات ضروری ہے کہ بہترین بات ان کے سامنے پیش کی جائے، اسی طرح اس بات سے اختلاف کو بھی ان کا حق تسلیم کیا جائے ۔طائف کی گھاٹی میں پیش آنے والا واقعہ اور اس موقع پر نبی رحمتؐ کا اسوہ یہ سبق دیتا ہے کہ جو آج حق سے اعراض کر رہا ہے کل وہی حق کا علَم بردار بھی بن سکتا ہے۔

جذبۂ مسابقت

 یہ ذکر ہو چکا ہے کہ قومیں اسی صورت میں برقرار رہ سکتی اور ترقی کر سکتی ہیں جب ان میں آگے بڑھنے اور مسلسل آگے بڑھتے رہنے کا دا عیہ موجود ہو۔اگرا فرادِقوم کسی بھی سنگِ میل کو منزل سمجھ کر قبول کر لیں گے تو قوم کا انجام محض ہلاکت ہو گا۔ مسلسل سفر اور تر قی کے اس جذبے کو اس وقت ہی برقرار رکھا جا سکتا ہے جب افراد کو بہ حیثیت ِقوم کسی سے مقابلہ درپیش ہو۔ اگر کوئی فرد    یا معاشرہ یہ تصور کر لے کہ اس کا کوئی مدمقابل یا حریف نہیں اور اسے کسی سے مقابلہ درپیش نہیں تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ آگے بڑھنے کی جدوجہد تو درکنار عمومی زندگی کی ضروریات کی تکمیل کے لیے درکار کوشش بھی ایک بوجھ بن جائے گی، اور قوم کا ہر فرد انفرادی و اجتماعی زندگی میں اپنے فرائض و واجبات سے بھی پہلو تہی اور صرف ِ نظر کرنے لگے گا۔تعیش اور تساہل پسندی اس میں سرایت کر جائے گی اور رفتہ رفتہ اُسے زندگی کی دوڑ سے نکال باہر کر دے گی۔

درحقیقت مسابقت کایہ جذبہ بھی عصبیت کی ہی پیداوار ہے۔ہر قوم اپنے نظریے ، اپنی تہذیب اور اپنی ثقافت کو بلند تر اور بالا دست دیکھنا چا ہتی ہے اور یہی خواہش اسے مجبور کر تی ہے کہ وہ مختلف تہذیب، ثقافت اور نظریے کی حامل دیگر اقوام کو اپنا مقابل قراردے کر زندگی کے ہر میدان میں ان سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے۔یہ جدوجہد اور کاوش اس قوم کی ترقی کا سبب بنتی ہے۔اسی کوشش کے نتیجے میں قومیں بدلتے ہوئے حالات اور بڑھتی ہوئی ضروریات کے مطابق اپنی روایات، طرزِ فکر اور طرزِ زندگی میں تبدیلی بھی لاتی ہیں مگر اس میںاِس احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے کہ یہ تبدیلی خود ان کی تجویز کردہ یا اخذ شدہ ہو، کسی دوسرے کی مسلط کردہ نہ ہو۔

مسابقت کا یہی جذبہ بعض اوقات مقاومت یا تصادم کی شکل اختیار کر لیتاہے۔ برتری کی خواہش ،تسلط اور اختیار کی ہوس میں تبدیل ہو جا تی ہے اور جاہلانہ تعصب قومی و اجتماعی زندگی کے تمام مثبت پہلوؤں پر حاوی ہو جاتا ہے۔انسانی معاشروں میں موجود فطری اختلاف اس قدر نا قابلِ برداشت بن جاتا ہے کہ مفاہمت اور مکالمے کے تمام راستے مسدود کر کے جابرانہ قوت کا استعمال واحد راستے کے طور پر اپنا لیا جاتا ہے۔ آج کی دنیا کو بھی یہی معمہ درپیش ہے۔اس وقت کی بالادست قوت اس بات کو تسلیم کرنے سے یکسر منکر ہے کہ دنیا مختلف قوموں کی آماجگاہ ہے اور ان میں سے ہرایک کے لیے خود اس کا نظریہ، اس کی اپنی تہذیب اور ثقافت اہم تر ہے۔ دنیا کی تمام اقوام کو ان کے تمام تر تنوع کے باوجود ایک گلوبل ورلڈ آرڈر کے جال میں جکڑ لینے کی ہوس نے بحروبر میں فساد برپا کر رکھا ہے۔ اگرچہ طاقت کے استعمال اورقوموں کے درمیان باہمی تصادم کے امکانات کو ختم نہیں کیا جاسکتا مگر فکرونظر کی پختگی اور متانت کی حامل تمام اقوام نے افہام و تفہیم اور پرامن بقاے باہمی کے تمام راستے بند ہو جانے کے بعدہی اس تباہ کن آپشن کو اپنایا ہے۔

اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ دنیا میں موجود مختلف نظریات، مختلف مکاتبِ فکر اور مختلف نقطۂ ہاے نظر، ایک دوسرے سے مختلف ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کے مقابل بھی ہیں۔ ان کے درمیان توافق کی بے شمار صورتیں ممکن ہیں مگر ان کے درمیان خود کو دوسرے سے زیادہ مفید اور مؤثروممتاز ثابت کرنے کی جدوجہد بھی ہر لمحہ برپا ہے۔اولاً تو ہر فرد کو کھلے دل سے یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ دنیا میں مختلف تہذیبیں اور ثقافتیں موجود ہیں اور ان میں ہر ثقافت اور ہر تہذیب اپنی جدا گانہ خصوصیات اور منفرد مقام رکھتی ہے۔یہی اعترافِ حقیقت دلوں میں وسعت اورسوچ میں کشادگی پیدا کر سکتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی تسلیم کی جانی چاہیے کہ ہر ثقافت سے وابستہ افراد اس کی ترویج کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور اس فطری جذبے کو دبایا نہیں جا سکتا۔

تہذیبوں اورتہذیب کی بنیاد پر قائم معاشروں کے درمیان تصادم کی صورت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی ایک معاشرہ اپنی تہذیبی اقدار و روایات کو کسی دوسرے معاشرے پر ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے۔دورِ حاضر میںپوری دنیا کے اندر موجودمعاشروں میں ان کے تاریخی، جغرافیائی اور نظریاتی  پس منظر سے قطع نظر اور ان کے حالات و تجربات کے اختلاف کے باوجو د زندگی کے تمام شعبوں میں یکساں نظام رائج کرنے کی کوشش نے پوری دنیا کو ایک میدانِ جنگ بنا دیا ہے۔ چونکہ ہرمعاشرے کے افراد اپنی تہذیب و ثقافت سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں اس لیے وہ      اس ’ثقافتی دہشت گردی‘ کی مزاحمت کررہے ہیں ۔ اپنے نظریے اور ثقافت سے کسی قوم کی وابستگی جس قدر مضبوط اورگہری ہے، اس کی مزاحمت میں بھی اسی قدر شدت ہے ۔اگر اس مزاحمت کو دشمنی سے تعبیر کیا جائے تو اسے جہالت اور تنگ نظری کے سوا کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔

اس وقت مسلم امہ کو جو چیلنج درپیش ہے وہ دراصل تہذیب کی بقا کا چیلنج ہے۔ یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ مغرب اپنے طرزِ زندگی ، اپنے نظامِ حکومت اور اپنی ثقافت کو دنیا بھر کے معاشروں میں فروغ دینا چاہتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے وہ تمام وسائل استعمال کررہا ہے جنھیں ہارڈ اور سافٹ پاور کا نام دیا جاتاہے۔ اس ثقافتی حملے کے ردِ عمل میں جہاں ایک طرف امت کا ایک حصہ اپنی تہذیب اور ثقافت سے بیگانگی کو وقت کا تقاضا خیال کر رہا ہے وہاں ان کی ایک بڑی تعداد اس تہذیب، سوچ اور نظریے کی بقا کے لیے کٹ مرنے کو تیار ہے اور اس پر حملہ آور ہر قوت کے خلاف کسی بھی حد تک جانے پر آمادہ ہے۔اس حوالے سے خطرناک ترین بات یہ ہے کہ یہ دونوں طبقات ایک دوسرے کو اپنا حریف سمجھتے ہیں۔ اس طرح مسلم معاشرے خود اپنی تنظیم کھو رہے ہیں۔اس طرح انھیں نہ صرف داخلی انتشار کا سامنا ہے بلکہ انھیں عصرِحاضر کی بالادست تہذیب کی عسکری، اقتصادی ، نظریاتی اورثقافتی یلغار کا مقابلہ بھی درپیش ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ قوم کی وحدت کو اجاگرکرتے ہوئے اس سوچ کی ترویج کے لیے کوشش کی جائے کہ ہمیں امت میں موجود تمام گروہوں، فرقوںاور مکاتبِ فکر کے افراد کواسلامی معاشرے کی عمومی اصلاح و ترقی کے لیے خیر خواہی کے جذبے کے تحت تعاون اور مکالمے کا عمل تو جاری رکھنا ہوگا لیکن مسلم تشخص کو اپنی بنیادی شناخت قرار دیتے ہوئے اپنی صلاحیتوں، وسائل اور وقت کو پوری امت کے مفاد کے لیے استعمال کرنا ہوگا۔ اس کے نتیجے میں ہی ترقی، بالادستی اور   خوش حالی کی بین الاقوامی دوڑ میں ہم آگے بڑھ سکیں گے۔ لا اکراہ فی الدین کا یہی وہ تصور ہے جو اسلام کی انفرادیت اور تشخص ہونے کے ساتھ ساتھ تمام انسانوں کو اپنی آزاد مرضی کے ساتھ اسلام یا کفر پر جینے کا حق دیتا ہے اور اقلیتوں کے حقوق کو تحفظ بھی فراہم کرتاہے۔

جدّت و حکمت

اگرچہ اس ضمن میں کچھ اشارے اوپر کی بحث میں حسبِ موقع آتے رہے ہیں لیکن   قومی زندگی کے اس پہلوکی اہمیت کے پیشِ نظر اسے الگ سے بھی جاننے اور سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں کو سمجھنا اور اس کے مطابق ردعمل ظاہر کرناحکمت کی سادہ تعریف ہو سکتی ہے۔ تاہم یہ بات ذہن میں رکھنی ازحد ضروری ہے کہ حالات کے مطابق اپنے عمل میں تبدیلی، قوم کے بنیادی اصول، ضوابط اوراجتماعی مقاصد کی حدود میں رہ کر ہونی چاہیے۔ محض حالات کے مطابق خود کو ڈھال لینا مفادپرستی، جب کہ حالات کو مدنظر رکھ کر حکمت عملی اختیار کرنا اور اپنے مقاصد حاصل کرنا عقل مندی، فراست اور حکمت ہے۔اسی طرح فرسودہ روایات اور جاہلانہ رسوم کے ساتھ صرف اس بنا پر چمٹے رہنا کہ حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَیْہِ اٰبَآئَ نَا ط (المائدہ ۵:۱۰۴)،بھی ایک قابلِ افسوس رویہ ہے۔’آئینِ نو سے ڈرنا اور طرزِ کہن پہ اَڑنا‘ درحقیقت قوموں کے لیے مسابقت کی عالمی دوڑ میں ناکامی کا باعث بن جاتا ہے۔ نئی راہیں تراشنا اور جدید خیالات اور رجحانات کو صحتمندانہ رُخ دینا خود کسی معاشرے، تہذیب اور تمدن کی بقا کے لیے بھی ناگزیر ہے۔

گویا کرنے کا کام یہ ہوا کہ مرعوبیت سے نکل کر اپنے مذہب، اپنی روایات، اپنے وطن اور اپنی ثقافت کے لیے مثبت عصبیت پیدا کی جائے، اسے فروغ دیا جائے اور اسے اپنی سوچ کا    محور قرار دیا جائے۔ صرف اسی صورت میں ہم خود اپنے ذہن سے سوچ سکیں گے، جب ہم اس مرعوبیت سے نکل آئیں کہ مغربی مفکرین کی آرا زیادہ باوثوق اور قابلِ عمل اور معلومات شک و شبہے سے بالاتر ہیں۔ ہمیں فکر کے اس تسلسل کو جاری رکھنا ہوگا جس کی بنا مسلمان معاشروں میں خود   اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے۔ ہمیں اسی اندازِ فکر سے خود کو وابستہ کرنا ہو گا اورموجودہ حالات کے مطابق تمام دستیاب وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے جدید مسائل سے نمٹنا ہو گا۔ اپنے وسائل کوترقی دینا اور ان پر انحصار کی عادت کو اپنانا ہوگا ۔نظریاتی و عملی ترجیحات کے نئے سِرے سے تعین (redefinition)کا یہ عمل جبراً مسلط کرنا ممکن نہیں۔ یہ صرف اسی وقت ہو گا جب معاشرے کے تمام ا فراد یاکم از کم ا ن کی ایک کثیر تعداد پورے شعور اور احساس کے ساتھ اس عمل میں شریک ہو۔

اگر اس تدبیر کو اپنا لیا جائے تو گویا نصف کام مکمل ہو جائے گا۔گھر کی چھت اور دیواریں مضبوط ہوں تو باہر چاہے طوفانِ بلا خیز ہی کیوں نہ ہو گھر کے مکینوں کو نقصان نہیں پہنچا سکتا، مگر اس عمل میں اعتدال کی راہ اپنانا نہایت ضروری ہے۔ نہ تو خود کو اس قدر محدود و مقید کر لیا جائے کہ مکینوں کا دم گھٹنے لگے اور نہ تازہ ہوا کے شوق میں اتنے راستے ہی بنا دیے جائیں کہ دیوار کا کھڑا رہنا ہی ناممکن ہو جائے اور عمارت دھڑام سے زمیں بوس ہو جائے۔ گویا خود معاشرے میں پیدا ہونے والے یا بیرونی اثرات کے تحت پنپنے والے نئے رجحانات و خیالات کی راہ بند نہ کی جائے بلکہ علیٰ وجہ البصیرت ان میں سے ہر ایک کا تجزیہ کیا جائے ۔ اس کے پس منظر، مقاصد، اثرات و  عواقب کا جائزہ لیا جائے اور خذ ما صفی و دع ما کدر کے زرّیں اصول کے مطابق عمدہ اور اچھی سوچ کو تو اپنے ہاں حسبِ ضرورت ترمیم یا اضافے کے ساتھ فروغ کا موقع دیا جائے، مگر منفی اور بدنیتی پر مبنی امور کو پوری قوت سے مسترد کر دیا جائے۔

اگر تصادم ناگزیر ہو تو اس سے نظریں چرانا بزدلی اور حماقت ہے۔ بصورتِ دیگر اس سے اجتناب کرتے ہوئے خود اپنی اصلاح و ترقی کی طرف توجہ دی جائے۔ اس نکتے کی تفہیم کے لیے چین کے اس فرد کی مثال مؤثر ہو گی جس سے پوچھا گیا کہ تبت میں انسانی حقوق سے متعلق دنیا بھر میں چین مخالف مظاہرے ہو رہے ہیں، کیا آپ اس پر اپنے ردعمل کا اظہار نہیں کریں گے، تو اس نے جواب دیا کہ اگر چین اب سے ۲۰ سال قبل اس قسم کے واقعات پر اپنا ردعمل دکھاتا تو اس وقت کی بالادست قوتیں ہم پر چڑھ دوڑتیں۔ہم نے ان کی طرف توجہ کرنے کی بجاے خود کو مضبوط کیا اس لیے آج یہ لوگ ہمارے خلاف صرف مظاہرے ہی کر سکتے ہیں، جب کہ ہم اب بھی ان کی طرف توجہ نہیں دیں گے اور اپنے استحکام اور ترقی کا سفر جاری رکھیں گے۔ یہاں تک کہ اب سے ۲۰سال بعد کسی کو ہمارے خلاف مظاہرے کی بھی جرأت نہیں ہو گی۔لہٰذا اپنے اداروں کو مضبوط بنایا جائے، اپنی صلاحیتوں پر اعتماد کیا جائے اوراس حوالے سے کسی دوسرے کا انتظار نہ کیا جائے۔ حکمرانوں یا معاشرے کے دیگر افراد کی سوچ اور طرزِ فکر میں مثبت تبدیلی کی ہر ممکن کوشش تو ضرور کی جائے مگر اس حوالے سے خود اپنے عمل کے آغاز کے لیے کسی کا انتظار نہ کیا جائے۔ وقتی طور پر جو سختیاں یا پابندیاں برداشت کرنی پڑیں انھیں بہتر مستقبل اور دیرپا امن و خوشحالی کے لیے خندہ پیشانی سے برداشت کیا جائے کیونکہ جدا گانہ تشخص اور وقار جفاکشی کا تقاضا کرتا ہے۔