۲۹ مارچ کو ہونے والے ترکی کے بلدیاتی انتخابات کی بازگشت ابھی جاری تھی کہ ۹ اپریل کو انڈونیشیا کے عام انتخابات نے دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا لی۔ پھر اپریل کو الجزائر میں بھی صدارتی انتخابات کا رسمی اہتمام و غوغا دکھائی اور سنائی دیا، جس کے نتائج اکثر عرب ممالک کے معمول کے مطابق موجودہ صدر بوتفلیقہ کے حق میں نکلے۔ ۹۰فی صد ووٹ اپنے نام سے منسوب کرکے وہ اپنے تئیں آیندہ مزید پانچ برس کے لیے صدر منتخب ہوگئے۔
انھی دنوں کویت کے امیر نے ایک بار پھر پارلیمنٹ کی معطلی کے بعد ۱۶مئی کو نئے عام انتخابات کا اعلان کردیا۔ یہ گذشتہ ۳ سالوں کے دوران چوتھے انتخابات ہیں۔ ہر بار اپوزیشن میں موجود مختلف اسلامی گروپوں کے افراد نے متعدد وزرا اور ذمہ دارانِ حکومت کے خلاف تحریکاتِ مواخذہ پیش کیں اور انھیں مزید زیربحث آنے سے بچانے کے لیے پارلیمانی بحران کا آسان حل پارلیمنٹ کی تحلیل اور نئے انتخابات سمجھا گیا۔ انتخابات تو شاید پوری دنیا میں ہی پیسے کا کھیل بن گئے ہیں، لیکن کویت کے متمول معاشرے میں انتخابی اسراف میں مسابقت نے خود اہلِ کویت کو بھی حیرت زدہ کر دیا ہے۔ یہ کثیر اخراجات اس کے باوجود ہیں کہ وہاں انتخاب میں اصل فیصلہ کن عنصر، پارٹیوں اور قبیلوں سے نسبت قرار پاتا ہے۔ اب تک کے تجربات کے مطابق آدھی سے زیادہ پارلیمانی نشستیں مختلف اسلامی دھڑوں کے حصے میں آتی ہیں جن میں سرفہرست ’دستوری تحریک‘ کے نام سے اسلامی تحریک اور سلفی و شیعہ دھڑوں کے افراد ہوتے ہیں۔ آیندہ انتخابات میں بھی کم و بیش یہی نتائج رہنے کی توقع ظاہر کی جارہی ہے البتہ چہرے شاید تبدیل ہوجائیں۔
انھی دنوں لبنانی انتخابات کا غلغلہ بھی عروج پر ہے۔ شیعہ، سنی اور عیسائی آبادیوں میں عمومی تقسیم کے باعث یہ انتخابات بھی علاقائی و عالمی توجہ حاصل کر رہے ہیں۔ اس کا اہم ترین سبب حزب اللہ ہے۔ حزب اللہ کی اہمیت کی وجہ اپنی منظم قوت کے علاوہ اس کے شام اور ایران سے مضبوط تعلقات، ماضی قریب میں رفیق حریری کی جماعت سے اور حال ہی میں مصر سے ہونے والے اختلافات و تنازعات بھی ہیں۔ مصر نے صحراے سینا سے کچھ لبنانی باشندوں کو گرفتار کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ یہ حزب اللہ کے دہشت گرد ہیں جو غزہ کو ہتھیار سمگل کرنے کے علاوہ مصر میں بھی دہشت گردی پھیلانا چاہتے تھے۔
۱۶ اپریل سے شروع ہونے والے اور ۱۳مئی تک جاری رہنے والے بھارتی انتخابات بھی ذرائع ابلاغ میں خوب جگہ پا رہے ہیں۔ اگرچہ بی جے پی یا کانگریس اور ان کی حلیف جماعتوں میں سے کسی کی بھی کامیابی سے بھارت کی عمومی پالیسیوں میں عملاً کوئی خاص فرق رونما نہیں ہوتا لیکن ہار اور جیت کے بعض نفسیاتی اثرات ملک کے اندر اور باہر اہم سمجھے جاتے ہیں۔ ان انتخابات میں اندرا گاندھی کے پوتے رُوَن گاندھی کی مسلمان دشمنی پر مبنی ہرزہ سرائی نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعوے داروں کے حقیقی چہرے سے کچھ پردہ سرکایا ہے۔ مسلمانوں کو قابلِ گردن زدنی قرار دینے کے باوجود حرام ہے کہ اس ’گاندھی زادے‘ کو لگام دینے اور کروڑوں بھارتی مسلمانوں کو احساس تحفظ دینے کے لیے سب سے بڑی جمہوریت نے کوئی بھی مؤثر کارروائی کی ہو۔ البتہ ان انتخابات کی ایک اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں ووٹ دینے کی اہمیت کا احساس بڑھا ہے، اگر مؤثر و معقول قیادت اور باہمی یک جہتی بھی نصیب ہوجائے تو کسی کو دھمکیاں دینے کی ہمت نہ ہو۔
انتخابی موسم میں ۶ جون کو ہونے والے موریتانیا کے صدارتی انتخابات کا ذکر اس حوالے سے دل چسپ ہے کہ چند ماہ قبل ایک منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ کر برسرِاقتدار آنے والے جنرل محمد بن عبدالعزیز نے فوجی وردی اُتارنے کا اعلان کردیا ہے۔ اس وقت ملک پر ایک فوجی کونسل کا اقتدار مسلط ہے۔ جنرل صاحب خود اس کے سربراہ تھے۔ اب اگرچہ استعفا دے کر سینیٹ کے سربراہ کو دو ماہ کی عبوری حکومت سونپنے کا اعلان کیا گیا ہے لیکن فوجی کونسل کا وجود باقی رہے گا۔ اب اس کی ذمہ داری ملک میں امن و امان برقرار رکھنا قرار دی گئی ہے۔ اسی کے زیرسایہ ۶جون کے انتخابات ہوں گے تاآنکہ ریٹائرڈ جنرل صاحب عوام کے پُرزور اصرار اور شاید اِسی ۹۰ فی صد والے تناسب سے کامیاب ہوکر منتخب ’سویلین‘ صدر ہوجائیں۔
۱۲ جون کو منعقد ہونے والے ایرانی صدارتی انتخابات کی تیاریاں بھی جاری ہیں، لیکن ابھی اس کا ناک نقشہ پوری طرح واضح نہیں ہوا۔ امیدواروں کے ناموں کے حوالے سے متضاد اطلاعات آرہی ہیں البتہ ایک بات طے شدہ لگتی ہے کہ ایران میں اصل حکمران طاقت یعنی علماے کرام، رہبر آیت اللہ علی خامنہ ای کی سربراہی میں اپنا سفر اسی نفوذ و ثبات کے ساتھ جاری رکھیں گے۔ امریکی صدر اوباما کی طرف سے ایران کے ساتھ بات چیت اور اچھے تعلقات کی خواہش پر مبنی بیانات نے ایرانی قیادت کو مزید توانائی فراہم کی ہے۔ حماس و حزب اللہ کی تائید اور اسرائیل کی مخالفت سے بھی پذیرائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ان تمام انتخابات میں ترکی کے بلدیاتی اور انڈونیشیا کے پارلیمانی انتخابات اس لحاظ سے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں کہ دونوں ممالک میں اسلامی طاقتوں نے اپنے قدم مزید آگے بڑھائے ہیں۔ ترکی کی حکمران، ’انصاف و ترقی (جسٹس و ڈویلپمنٹ) پارٹی‘ کو ووٹوں کا ۳۹ فی صد حصہ ملا ہے اور تمام بڑے شہروں سمیت بلدیاتی اداروں کا ۴۶ فی صد۔ ان کے یہ ووٹ عام انتخابات میں انھیں ملنے والے (۴۷ فی صد) ووٹوں سے کم ہیں لیکن وہ اپنے تئیں مطمئن نہ ہونے کے باوجود سمجھتے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات میں عام طور پر ووٹ زیادہ تقسیم ہوجاتے ہیں اور قومی سے زیادہ مقامی سیاست اور تعلقات اثرانداز ہوتے ہیں۔
دوسری طرف پروفیسر ڈاکٹر نجم الدین اربکان کی ’سعادت پارٹی‘ نے پارٹی کے نئے صدر ڈاکٹر نعمان کور تلموش کی سربراہی میں لڑے جانے والے انتخابات میں عام انتخابات میں حاصل ہونے والے ۳ فی صد ووٹوں میں ۱۰۰ فی صد اضافہ کرتے ہوئے ۶ فی صد ووٹ حاصل کیے ہیں۔ ان کے بقول یہ ووٹ ہماری توقعات سے کم ہیں لیکن پھر بھی دگنے تو ہوگئے، آیندہ عام انتخابات میں ہم بہرصورت اسمبلی میں اپنا کردار ادا کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ واضح رہے کہ پارلیمانی انتخابات میں ۱۰ فی صد سے کم ووٹ لینے والی پارٹی کے ووٹ بھی بڑی پارٹیوں میں تقسیم کرتے ہوئے اسے اسمبلی میں جانے سے روک دیا جاتا ہے۔
عین انتخابات کے دنوں میں ناٹو کے نئے سربراہ کا انتخاب بھی ہوگیا جس کے لیے ڈنمارک کے وزیراعظم اینڈرس فوگ راسموسن کا نام پیش کیا گیا تھا۔ ترکی نے اس کے نام پر اعتراض کیا لیکن امریکی و یورپی اصرار پر اسی کو سیکرٹری جنرل بنا دیا گیا، البتہ ترکی کو اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل کا عہدہ دے دیا گیا جو یقینا راسموسن کے شر کو کم کرنے اور ترکی کے کردار میں اضافے کا ذریعہ بنے گا۔ واضح رہے کہ سیکرٹری جنرل کے انتخاب کے لیے ناٹو کے تمام ۲۸ ارکان کا اجماع ضروری ہے۔ منتخب ہونے کے بعد راسموسن نے بیان دیا ہے کہ وہ مسلمانوں کا احترام کرتا ہے اور ان سے مذاکرات کرے گا۔ بلدیاتی انتخابات کے فوراً بعد امریکی صدر اوباما نے ترکی کا اہم دورہ کیا۔ اس دورے کی بازگشت کئی ہفتوں سے سنی جارہی تھی اور کہا جا رہا تھا کہ امریکی صدر عالمِ اسلام بلکہ اُمت مسلمہ کو اہم پیغام دے گا۔ صدر منتخب ہونے کے بعد ان کا کسی بھی مسلم ملک کا یہ پہلا دورہ تھا۔ اوباما نے ترکی میں وزیراعظم اردگان کے ہمراہ تاریخی مساجد اور عثمانی آثار کا دورہ یا ’سیر‘ کرتے ہوئے عالمِ اسلام سے دوستی کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔ انھوں نے کہا کہ میں واضح طور پر اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ امریکا عالمِ اسلام کے ساتھ حالت ِ جنگ میں نہیں ہے… ہم باہمی احترام اور مشترک مفادات کی بنیاد پر وسیع تر تعاون کی راہ نکالیں گے۔ ہم دھیان سے بات سنیں گے، غلط فہمیوں کا ازالہ کریں گے اور مشترکات کی تلاش جاری رکھیں گے‘‘۔ خدشہ ہے کہ خلافت عثمانی کے دارالحکومت سے دیے گئے یہ بیانات نقش برآب ثابت ہوں گے کیونکہ اصل فیصلہ اقوال نہیں اعمال کی بنا پر ہوتا ہے۔
انڈونیشیا کے حالیہ انتخابات جولائی ۱۹۹۸ء میں صدر سوہارتو کے ۳۲ سالہ اقتدار کے خاتمے کے بعد تیسرے عام انتخابات تھے۔ ۳۸ چھوٹی بڑی پارٹیوں اور گروہوں نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے ۱۸ لاکھ امیدوار میدان میں اُتارے تھے۔ ۱۷ کروڑ ووٹروں کو ووٹ کا حق حاصل تھا۔ تجزیہ نگاروں نے پانچ سیاسی پارٹیوں کو فیصلہ کن قوتیں قرار دیا تھا، نتائج کے بعد اکانومسٹ کے مطابق جیتنے والا صرف ایک تھا اور ہارنے والے کئی۔ موجودہ صدر (ریٹائرڈ جنرل) سوسینو بامبانگ یودھویونو کی ’ڈیموکریٹک پارٹی‘ ۲۰ فی صد ووٹ لے کر سب سے بڑی قوت بن گئی۔ ۲۰۰۴ء میں ہونے والے انتخابات کی نسبت اس پارٹی کے ووٹ ۳ گنا زیادہ ہوگئے۔ میگاوتی سوئیکارنو پتری کی پارٹی نے ۱۵ فی صد، جب کہ سابق صدر سوہارتو کی ’گولکر پارٹی‘ کے موجودہ سربراہ اور ملک کے حالیہ نائب صدر یوسف کالا نے ۱۴ فی صد ووٹ حاصل کیے۔ نائب صدر آیندہ صدارتی انتخابات میں صدر سوسینو کے مدمقابل صدارتی امیدوار بننے کی کوشش کر رہے ہیں، جب کہ چوتھے نمبر پر وہاں کی اسلامی تحریک ’جسٹس پارٹی‘ آئی ہے، اسے ۴ء۸ فی صد ووٹ حاصل ہوئے۔
انتخابات کے باقاعدہ نتائج کا اعلان ۹مئی کو ہوگا۔ ابھی تک صرف یہی تناسب بتانے پر اکتفا کیا گیا ہے، سیٹوں کی تعداد بعد میں ہی بتائی جائے گی۔ جسٹس پارٹی نے سوہارتو کی ۳۲ سالہ طویل ڈکٹیٹرشپ کے بعد ۱۹۹۹ء کے انتخابات میں پہلی بار شرکت کی اور ۴ء۱ فی صد ووٹ حاصل کیے۔ پھر ۲۰۰۴ء کے انتخابات میں ۳ء۷ فی صد ووٹ لیے اور اب ۴ء۸ فی صد۔ پارٹی کے سربراہ ہدایت نور وحید کے مطابق جو گذشتہ پارلیمنٹ کے اسپیکر اور انتہائی قابلِ احترام شخصیت ہیں، ووٹوں کی نسبت سیٹوں کی تعداد میں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ملک کی چالیس سے زائد پارٹیوں میں جسٹس پارٹی ہی واحد جماعت ہے جس کے ارکان اور ذمہ داران پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے۔ اسلامی پارٹیاں کہلانے والی جماعتوں کے کل ووٹ گذشتہ انتخابات کی نسبت کافی کم ہوئے ہیں۔ گذشتہ بار انھیں ۳۹ فی صد ووٹ ملے تھے جب کہ اب تقریباً ۳۰ فی صد۔ مجموعی کمی کے باوجود ’عدالت پارٹی‘ کو نہ صرف یہ کہ کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ اس کی سیٹوں اور ووٹوں میں اضافہ ہوا ہے۔
اب آیندہ مرحلے میں صدارتی انتخاب ہونا ہیں، نئے نئے اتحاد وجود میں آرہے ہیں۔ قوانین کے مطابق ہر صدارتی امیدوار کے لیے کسی نہ کسی ایسی پارلیمانی جماعت یا اتحاد کے ساتھ اتحادبنانا ضروری ہے جو ۵۶۰ ارکان کے ایوان میں کم از کم ۱۲ نشستیں رکھتا ہو۔ عام انتخابات کے بعد ہونے والی ملاقاتوں اور کئی بیانات سے یہ امکان قوی تر ہو رہا ہے کہ صدر سوسینو کی ڈیموکریٹک پارٹی اور اسلامی تحریک جسٹس پارٹی کے درمیان انتخابی اتحاد وجود میں آجائے۔ خود صدر کی طرف سے بار بار اس خواہش کا اظہار کیا گیا ہے، لیکن جسٹس پارٹی کے سربراہ ہدایت نور وحید نے ایک پالیسی بیان میں کہا ہے کہ سیاسی اتحاد صرف سرکاری مناصب کی تقسیم کے لیے نہیں، بلکہ اس بنیاد پر بننا چاہیے کہ جیتنے والا اپنے اعلان کردہ پروگرام اور منشور پر عمل درآمد کرسکے، ووٹروں کے اعتماد پر پورا اُتر سکے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہم چند ووٹوں کے فرق سے جیتنے والے صدر کے بجاے مضبوط بنیادوں پر قائم اور مضبوط ارادوں کا مالک صدر چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ماضی کے ایسے تجربات دوبارہ نہ دہرائے جاسکیں کہ کسی بھی چھوٹے سے سیاسی مسئلے کو بنیاد بناکر صدر اور نائب صدر کو اپنے پروگرام پر عمل درآمد نہ کرنے دیا جائے۔ حالیہ انتخابی نتائج بعض لوگوں کے لیے انتہائی غیرمتوقع ثابت ہوئے۔ ایک سیاسی لیڈر نے تو حرام موت ہی کا انتخاب کرلیا اور خودکشی کی نذر ہوگیا جب کہ دو کے لیے دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا۔
انڈونیشیا کو بھی اگست ۱۹۴۷ء ہی میں ہالینڈ کے استعمار سے آزادی حاصل ہوئی تھی۔ تقریباً ۲۴ کروڑ نفوس پر مشتمل ہونے کے باعث آبادی کے لحاظ سے دنیا میںچوتھے اور عالمِ اسلام میں پہلے نمبر پر آنے والا انڈونیشیا، ڈکٹیٹرشپ اور مالی بدعنوانیوں کے باعث دنیا میں اپنا اصل مقام حاصل نہیں کر سکا۔ ۹۰ فی صد آبادی مسلمان ہے، ۷ فی صد عیسائی، ۲ فی صد ہندو اور ایک فی صد دیگر مذاہب سے ہیں۔ سوہارتو سے نجات کے بعد لگاتار تیسرے انتخاب منعقد ہوجانا اور بدعنوانیوں سے نجات کے مطالبے کا مرکزی حیثیت حاصل کر جانا اِس اُمید کو روشن تر کر رہا ہے کہ انڈونیشیا اپنے وسیع رقبے (ایک لاکھ ۹۱ ہزار ۹ سو ۴۰ مربع کلومیٹر)، بڑی آبادی اور کرپشن سے نجات کی دعوے دار اصلاحی تحریکوں کی کامیابی سے دنیا میں اپنا حقیقی کردار ادا کرسکے گا۔
حالیہ انتخابات سے پہلے ’کرپٹ لیڈروں کے خلاف قومی تحریک‘ کے عنوان سے ایک نمایاں سرگرمی سامنے آئی۔ جماعتی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر وجود میں آنے والے اس پلیٹ فارم نے ان لیڈروں کی فہرست تیار کی جن کی کرپشن کے باقاعدہ ثبوت ان کے پاس تھے۔ اس فہرست کو بڑے پیمانے پر عوام میں پھیلایا گیا۔ اس تحریک کے ایک ذمہ دار عدنان توبان نے رائٹر سے گفتگو میں کہا کہ ’’ہمارا مقصد ایسے افراد کو دوبارہ پارلیمنٹ جانے سے روکنا ہے جو ماضی میں اپنے دامن کو بدعنوانی سے نہیں بچاسکے‘‘۔ ایک سابق وزیر کے بقول: ’’اب حکومت اور عوام کے ساتھ ساتھ خود سیاسی پارٹیوں کی اصلاح کا وقت بھی آگیا ہے‘‘۔
عالمی انتخابی موسم میں عوام کا یہ روز افزوں احساسِ زیاں اطمینان کا باعث ہے۔ ترکی کے بعد انڈونیشیا کے انتخاب نے بھی اس حقیقت کو نمایاں کیا ہے کہ اگر پُرامن، شفاف، آزادانہ اور مسلسل انتخابات کا عمل جاری رکھا جائے تو نہ صرف تعمیر و ترقی اور اصلاح کو یقینی بنایا جاسکتا ہے بلکہ بہت سے ناقابلِ فہم، جلدباز اور لٹھ مار رجحانات کا راستہ بھی روکا جاسکتاہے جو نہ صرف اسلامی تعلیمات کا چہرہ مسخ کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں بلکہ اُمت کی وحدت و سالمیت کو بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔
سچ فرمایا رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے: ’’جلدبازی کے لٹھ سے سواری کو ہلاک کرڈالنے والے نے نہ تو منزل حاصل کی اور نہ اپنی سواری ہی باقی رہنے دی‘‘۔ ان المنبت لا أرضاً قطع ولا ظھراً أبقی۔