مغرب کی ایک خوبی کا اعتراف نہ کرنا، نادانی ہوگا۔ اپنے دوستوں کی طرح وہ اپنے حقیقی یا مزعومہ دشمنوں سے بھی (اپنے مخصوص زاویے سے) وابستگی رکھتے ہیں، اور ان پر گہری نظر بھی رکھتے ہیں۔ ۱۸ویں؍۱۹ ویں صدی میں مسلم دنیا کو فتح کر کے زیرنگیں لانے والے اہلِ مغرب نے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جتنا کچھ لکھا، کمیت کے اعتبار سے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ ۲۰ویں اور اب ۲۱ویں صدی میں، جب کہ رُوحِ مغرب کی اسلام سے آویزش ایک نئی شکل اختیار کر گئی ہے، وہاں کی مجالسِ دانش (think tanks) اور دانش ور، پینترے بدل بدل کر اسلام سے نبردآزما ہو رہے ہیں۔ ایسا ہی ایک مطالعہ زیڈین میری بوتے کی کتاب Islam's Fateful Path (اسلام کی پُرخطر راہ) کی صورت میں سامنے آیا ہے جو پیش نظر ہے۔ بقول اسما افسرالدین (پیش نظر کتاب کی ایک مبصرہ)، جو یونی ورسٹی آف نوٹرے ڈیم میں عربی اور اسلامیات کی استاد ہیں___ مذکورہ بالا کتاب کے مصنف کی یہ کوشش قابلِ داد ہے کہ انھوں نے اسلامی روایات کے تنوع، رواداری، حقوقِ انسانی کی پاس داری، خواتین کے مرتبے اور مذہبی حریت کی طرف بھی اشارے کیے ہیں، جب کہ مسلم اور غیرمسلم، دونوں جانب کے انتہا پسند، مشترک اقدار اور پُرامن بقاے باہمی کو نظرانداز یا مسترد کرتے نظر آتے ہیں۔
خود مصنف (ایک فرانسیسی عالم اور انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈکراس کے سینیر لیگل کنسلٹنٹ) کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ آیا اسلام، خوف، عدم برداشت، قسمت پر قناعت (fatalism)، دہشت گردی اور حقوقِ نسواں کے بارے میں حقارت و تردید کا مذہب ہے، یا اس کے برخلاف یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جسے غلط سمجھا گیا اور بدنام کیا گیا ہے۔ کیا مخالف مبصرین نے اس کے درست اخلاقی پیغام کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے؟ وجوہ سیاسی ہوں یا ذاتی (ص vii)۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ کتاب کا ذیلی عنوان The Critical Choices Facing Modern Muslims (دورِ جدید کے مسلمانوں کے لیے پُرخطر ممکنہ راستے) مصنف کے نقطۂ نظر کی غمازی کرتا نظر آتا ہے۔
مصنف کو اس بات کا شعور ہے اور ایک حد تک اعتراف بھی کہ مسلمان دانش ور جب یہ خیال کرتے ہیں کہ موجودہ دَور میں نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد مغرب نے، مشرقی دنیا (خصوصاً مسلم دنیا) کو زیرنگیں کرنے کے لیے ایک نئی حکمت عملی اپنائی ہے: اب فتوحات، ’’روحانی اور معاشی میدان میں ہوں گی‘‘___ اور یہ خیال کچھ ایسا غلط بھی نہیں، بقول مصنف: یہ حکمت عملی کوئی نئی نہیں ہے۔ فرانس کے صلیبی جنگ جُو شاہ لُوئی نہم (سینٹ لُوئی) نے ایک خفیہ دستاویز میں یہ اعتراف کرنے کے بعد کہ مسلمانوں کو جنگ کے ذریعے فتح کرلینا مشکل ہے، دوسرے حربوں سے کام لینے کی تلقین کی۔ لُوئی نہم کو ایک مقدس اور متبرک ہستی خیال کیا جاتا تھا۔ اس نے یروشلم سمیت مقاماتِ مقدسہ کو فتح کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، تاکہ انھیں ’بے دین کافروں‘ (مسلمانوں) کے ہاتھوں سے چھڑایا جاسکے۔ ۱۲۴۸ء میں اس نے مصر پر حملہ کیا۔ ناکام رہا، قیدی بنا اور بعد میں فدیہ دے کر رہا ہوا۔ دوسری کوشش میں کارتھیج (شمالی افریقہ) فتح کرنے کی مہم بھی ناکامی سے دوچار ہوئی۔ تاہم، مرنے سے پہلے اس نے اپنے ’مسلمان دشمنوں‘ کا قلع قمع کرنے کے لیے عیسائی بھائیوں کو وصیت کی کہ وہ مشرقی زبانیں سیکھیں، مسلم دینیات اور عقائد کا تنقیدی نقطۂ نظر سے مطالعہ کریں، اور اس طرح تعلیم و تلقین کے ہتھیاروں سے اپنے دشمن کو مسخر کریں۔ (ص ۳)
یوں ’مستشرقین‘ ___ عربی اور اسلامیات کے غیرملکی، غیرمسلم ماہرین کا وہ گروہ پیدا ہوا، جس نے تحقیق اور تصنیف کے ذریعے اسلام کی بیخ کنی شروع کی۔ اگرچہ شروع ہی سے علما اور مسلم دانش وروں نے ہمیشہ ان مستشرقین کی ’علمی کاوشوں‘ کو شک و شبہے ہی کی نظر سے دیکھا ہے، اور کبھی اسے قبول نہیں کیا۔ لیکن یہ کوشش جاری ہے، اور اس کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نظر نہیںآتا کہ ایک طاقت ور عقیدے پر اس کے اندر گھس کر تخریبی کارروائی کی جائے۔
کیا یہ خیال ’مسلم بنیاد پرستوں‘ کا مزعومہ ہے؟ وہم ہے یا حقیقت؟ مصنف اس سلسلے میں دوٹوک گفتگو نہیں کرتے۔ کبھی محسوس ہوتا ہے کہ وہ مغرب کی اس ’سازش‘ کو بے نقاب کر رہے ہیں، اور کبھی وہ خود اس کا ایک حصہ اور ایک کردار نظر آتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ عیسائی مغرب کی اسلام سے اس مخاصمت کے اسباب کیا ہیں؟
مصنف کے نزدیک اس سوال کا جواب صدیوں کی تاریخ پر محیط ہے۔ لیکن صورت حال بہت واضح ہے: اسلام اپنی ابتدا ہی سے ایک طاقت ور، ساری دنیا پر چھا جانے کا عزم رکھنے والی ایک تحریک کے طور پر ظہور پذیر ہوا۔ ناقابلِ مزاحمت قوت کے ساتھ وہ کرئہ ارض پر پھیلتا چلا گیا۔ عیسائیوں، ایران کے ساسانیوں، ہندوئوں اور کنفیوشسیوں سے اس نے وسیع علاقے چھین لیے۔ اس کے پھیلنے کی رفتار اور نفوذ کی صلاحیت بھی اس نفرت کا ایک سبب ہے جو عالمی سطح پر صدیوں سے اسلام کے حصے میں آئی ہے۔ ان ’’شکست خوردہ اقوام میں عیسائی متاثرین وہ واحد قوم ہیں، جو محمد [صلی اللہ علیہ وسلم] کو …………… سمجھتے ہیں‘‘ [یہاں ایسے الفاظ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں لکھے گئے ہیں، جنھیں کوئی بدبخت اور شقی القلب بددیانت ہی زیرقلم لاسکتا ہے] (ص ۴)۔ مغرب، اسلام کو ایک بے شعور، عقل سے کورا، قدامت پسند اور وحشیانہ مذہب گردانتا ہے، جو ایک دینی پاور بلاک کی حیثیت سے ساری دنیا پر اپنے غلبے کے لیے کوشاں ہے کہ یہ اسے اپنا حق سمجھتا ہے (ص ۴، ۵)۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے سے مسلم دنیا اور مغرب کی آویزش نے ایک نہایت متشددانہ صورت اختیار کرلی ہے، اور دونوں فریق ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ (ص ۵)
یہ ہے وہ مزعومہ پس منظر جس میں یہ کتاب لکھی گئی ہے۔
اہلِ مغرب کو اس جنگ میں ایک اُمیدافزا بات یہ نظر آتی ہے کہ خود مسلم دنیا بھی کوئی ایک مضبوط اکائی (monotithic block) نہیں رہی بلکہ اس میں ’بنیاد پرستوں‘ اور عقلیئین (rationalists) ___ مراد روشن خیالوں ___ لادین اور اہلِ تصوف کے درمیان ایک پُرتشدد آویزش صاف نظر آتی ہے۔ پھر صدیوں سے شیعہ سُنّی، فلسفی، صوفی، روشن خیالی اور قدامت پسندی کی خلیجیں ہیں۔ مختلف مسلم ملکوں کے درمیان جھگڑے ہیں، جنھیں بڑھانے کی ضرورت ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس نوصلیبی جنگ کا ادراک کرکے مسلمانوں کی وسیع اکثریت کے ذہن میں ایک ردعمل انگڑائی لے رہا ہے، اور وہ ہے ’اسلام کی طرف رجعت‘۔
مصنف کے خیال میں اگر مسلم عوام کے خدشات دُور نہ کیے گئے، اور خصوصی کوشش کے ذریعے اُن کے دلوں میں اعتماد نہ پیدا کیا گیا، تو اسلام پسندی کا یہ چیلنج جو مغرب (اور ساری دنیا) کو درپیش ہے، ایک ایسا فلیتہ بن جائے گا، جو پہلے تو مشرق وسطیٰ کو دہکائے گا اور پھر افریقہ، ایشیا، امریکا کے دونوں براعظموں اور جلد یا بدیر خود یورپ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ اس طرح آنے والے برسوں میں دہشت گردی اور مسلح تصادم عام ہوجائیں گے۔ مسلح جھڑپوں کے علاوہ اس جنگ کو بھڑکانے کے دوسرے ذرائع بھی اختیار کیے جائیں گے۔ بنیاد پرست مسلمان، ہتھیار سازی، خصوصاً کیمیائی، حیاتیاتی اور نیوکلیائی کی تیاری اور استعمال پر توجہ مرکوز کریں گے۔ (ص ۶)
ایک دوسرا خطرہ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کا بھی ہے۔ جنوری ۲۰۰۰ء میں دنیا میں مسلمانوں کی تعداد اندازاً ڈیڑھ ارب سے کچھ اُوپر تھی۔ مصنف کہتے ہیں کہ ’’سی آئی اے کی کتابِ حقائق‘‘ (CIA Factbook) کے اندازے کے مطابق آبادی ایک ارب ۹۰ کروڑ ۲۰لاکھ ۹۵ہزار ہے (ص ۲۱۸)۔ مصنف نے بڑی تفصیل سے یورپی ممالک اور امریکا میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کا ’تشویش ناک‘ جائزہ لیا ہے۔ فرانس میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی نے پروٹسٹنٹ عیسائیوں کی تعداد کو پیچھے چھوڑ دیا ہے (۴۰؍۵۰ ہزار مسلمانوں کے مقابل ۱۷لاکھ پروٹسٹنٹ اور ۸ لاکھ یہودی) (ص ۷)۔ مسلم ملکوں میں آبادی ۴ء۶ فی صد سالانہ کی رفتار سے بڑھ رہی ہے (ص ۲۱۲)۔ اس پر مستزاد یہ کہ بہت سے اصلی نسلی یورپی بھی اسلام قبول کرتے جارہے ہیں۔ (ص ۷)
مصنف کے خیال میں مغرب آج بھی اسلام کا مقابلہ کرنے کے لیے حسب ِ سابق ترغیب و ترہیب دونوں کا استعمال کر رہا ہے۔ مسلم دنیا اور مسلم آبادیوں پر جارحیت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو سمجھنے سمجھانے کے لیے مستشرقین کے علاوہ ’اسلامیئین‘ (ماہرین اسلامیات، Islamologists) کی ایک نئی کھیپ ظہور میں آئی ہے، جو مسلمانوں کا حلیہ بگاڑ کر اُنھیں اکثر مضحکہ خیز اور غیرانسانی ہیولوں میں پیش کرتے ہیں: یہ مسلمان کی فطرت میں داخل ہے کہ وہ سفاک اور ظالم، دغاباز، بے ایمان، منافق اور بددیانت و بدنہاد ہو (ص ۱۰)۔ ارنسٹ ریناں (Earnest Renan) نے مسلمانوں اور یہودیوں دونوں کے بارے میں ایسے ہی بے ہودہ تعصب کا اظہار کیا تھا: سامی النسل لوگ عدمِ تجسس کا شکار ہوتے ہیں۔ اُن میں رواداری کا بھی فقدان ہوتا ہے، اور یہ لوگ فتنہ انگیز ہوتے ہیں۔ مداوا؟ اسلام کو تباہ کردیا جائے۔ ریناں فرماتے ہیں: ’’جنگ کا خاتمہ اُسی وقت ہوگا جب اسماعیل [علیہ السلام] کا آخری بیٹا یا تو مرجائے یا ریگستان کی پہنائیوں میں دھکیل دیا جائے‘‘۔ (ص ۲۱۹، حاشیہ ۶)
ریناں کے پوتے ارنسٹ سیچاری (Earnest Psichari) جنھوں نے عیسائیت کو ازسرنو دریافت کیا، فرماتے ہیں کہ ’’جلد یا بدیر ہم مسلمانوں کو فتح کرلیںگے۔ ہم فاتح ہیں اور وہ فانی مفتوح۔ اور کیا درکار ہے؟‘‘ (ص ۱۹۶)، جب کہ آگست پامل (August Pomel) کے خیال :میں ’’محمدیت [اسلام] اُن معاشروں کے لیے تو ایک موزوں عقیدہ ہوسکتا ہے، جن کا سماجی ارتقا ایک وحشیانہ سطح پر آکر رک گیا ہے--- عرب معاشرہ اس کی موزوں مثال ہے--- یہ [یعنی اسلامی] معاشرہ ۳اقسام کے انسانوں پر مشتمل ہے۔ پہلی سطح پر رذیل، منافق اور کاہل مذہبی زعما کا گروہ ہے، جس کے اثرات جہالت (مذہبی عصبیت) کی پیداوارہیں۔ دوسرا گروہ پِسّو زدہ (flea bitten) اشرافیہ کا ہے جن کے نزدیک تعمیری اور پیداآوری سرگرمیاں شجرِممنوعہ ہیں۔ احمقانہ اور تخریبی سرگرمیاں ان کے معزز مشاغل ہیں۔ تیسرا طبقہ غریب، مسکین ہاریوں کا ہے، جو مندرجہ بالا دو طبقات کو پالتے ہیں، اور خود فاقہ کشی میں یا خُمس پر گزارا کرتے ہیں‘‘ (ص ۱۹۷)۔ مسلمان ’’وحشی اور بچگانہ ذہن کے لوگ ہیں… جو اپنے شان دار ماضی کی جھوٹی یادوں اور مستقبل کے بے مصرف خوابوں پر زندہ رہتے ہیں‘‘۔ (ص ۱۹۷)
مصنف کہتے ہیں کہ آج بھی مغرب کے متشدد عیسائی خود کو اعلیٰ اور مسلمانوں کو ادنیٰ خیال کرتے ہیں، اور اُن کے نزدیک مسلمانوں کا نہ کوئی ضمیر ہے نہ اخلاقیات اور نہ عزت و وقعت۔ اپنی اِنھی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے وہ مغرب کی اعلیٰ اقدار کے فہم سے عاجز ہیں۔ ان ’’لرزتے، کانپتے غلاموں‘‘ کے بالمقابل عیسائی اپنی سرشت کے اعتبار سے مخیر ہیں، اُس محبت کے امین، جو اُن کے اندر یسوع مسیح کے فیضان (grace) سے پیدا ہوگئی ہے۔ (ص ۱۹۶)
مصنف کے نزدیک قرونِ وسطیٰ سے انیسویں صدی تک کے مسلمانوں کے ہاں بھی یورپی اقوام کے لیے کوئی اچھی راے نہیں پائی جاتی اور آج بھی مغرب کے تسلط اور مزعومہ مظالم کے خلاف قدامت پسند اور عام مسلمانوں میں بھی، مغرب کے خلاف ایک نفرت واضح نظر آتی ہے۔ تاہم، ان کے خیال میں دنیا میں امن کے قیام کے لیے ’’ثقافتی اور مذہبی عدمِ اعتماد اور نفرتوں کو ختم کرنے‘ ‘کی گنجایش ابھی موجود ہے۔
اس میں شک نہیں کہ بعض مغربی علما نے مسلم فلاسفہ اور صوفیا پر تحقیقی کام کرتے ہوئے، مغربی تہذیب اور سائنس کو ان کا مرہونِ منت بھی بتایا ہے، تاہم اکثریت نے اہلِ مغرب کے ذہن میں اسلام کا وہ تصور بٹھا دیا ہے، جس کی عکاسی، بقول ان کے: قدامت پسند ابن تیمیہ، محمد بن عبدالوہاب اور موجودہ سعودی حکمراں کرتے ہیں۔ ۱۹ویں، ۲۰ویں صدی میں مسلم مفکرین میں مغرب پر تنقید اور اسلام کی طرف رجعت کا وہ عمل شروع ہوا، جس کی عکاسی ابوالاعلیٰ مودودی (جماعت اسلامی کے بانی)، حسن البنا (اخوان المسلمون کے بانی)، سید قطب اور بعض دوسرے مسلم مفکرین کرتے ہیں۔ برعظیم کے علاوہ افریقہ کے کئی ملکوں، تیونس، مراکش، الجزائر وغیرہ میں ان مفکرین کی تحریروں سے متاثر ہوکر، اسلام کی طرف رجعت کی تحریکیں اُبھریں۔ اُسامہ بن لادن کی تحریک، القاعدہ اور ’اسلامی جہاد‘ کی تحریکیں اسی ’تھیوکریٹک اسلام‘(سیاسی اسلام) کی پیداوار ہیں۔
اسلام کی ایک دوسری صورت اور جہت، جس کی جڑیں مسلمانوں کے روشن ادوار میں ملتی ہیں ’’وسیع المشربی، عقل دوستی اور روشن خیالی‘‘ کا اسلام ہے، جس کے بیج معتزلہ، ابنِ رشد، ابنِ سینا، الخوارزمی، منصور بن حلّاج، ابن عربی اور رومی نے ڈالے تھے۔بعد میں جمال الدین افغانی اور محمدعبدہٗ نے اسے بازیافت کیا۔ زمانۂ حال میں عبداللہ بدوی (مصر) اور محمدالجبری (مراکش) اس کے نمایندہ ہیں۔ لیکن قدامت پسند علما اور سیاست دان انھیںتسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ (ص ۱۲)
کتاب کے وسیع مباحث اسلام کی ابتدا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ اور آپؐ کے مشن اور خلافت (راشدہ، بنواُمیہ، بنوعباس) سے لے کر ۲۰ویں صدی تک پھیلے ہوئے ہیں۔ کتاب تین اجزا اور ایک اختتامیہ پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں مصنف نے قبلِ اسلام عرب معاشرے کی حالت، حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بعثت اور جزیرہ نماے عرب میں پہلی مرتبہ ایک باقاعدہ ریاست کی سیاسی تشکیل پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضور اکرمؐ کی وفات کے بعد ہی ’اُمہ میں مستقل انتشار‘ کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جو بنوعباس کے برسرِاقتدار آنے (۶۶۰ء) تک جاری رہا، یہاں تک کہ مرکزی ’اسلامی ریاست‘ پر بنوعباس قابض ہوئے (۷۵۰ء) اور تاتاریوں (منگول) کی یلغار (۱۲۵۸ئـ) تک برسرِاقتدار رہے۔ وحشی تاتاریوں نے بنوعباس کو چن چن کر قتل کیا، مگر انھیں بغداد کی خلافت کی خواہش نہ تھی۔ خلافت کا ادارہ مصر اور پھر ترکی میں منتقل ہوگیا اور پھر مصطفی کمال کے ’روشن خیال، جدیدیت‘ کے انقلاب کے بعد ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا (۱۹۲۴ء)۔ اس طرح مسلم دنیا کی مرکزیت ختم ہوگئی۔ شرق اوسط چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہوگیا۔ مگر اس سے پہلے ہی اُمت خوارج، شیعہ، اسماعیلی، دروزی، علوی اور زیدیہ میں منقسم ہوچکی تھی۔ اس پر مستزاد اسلامی تعلیمات اور قانون پر اختلافات جو اہلِ سنت کے چار علما کے مسالک (امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل) کی شکل میں ظاہر ہوچکے تھے۔ معتزلہ، اشاعرہ اور صوفیہ کے درمیان خلیجیں الگ تھیں۔ ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب نے ’سنتِ اسلام‘ کی طرف رجعت کی۔ انھی کے شاخسانوں میں ’رجعت پسند اور تنگ نظر‘ انتہا پسند نظریات بھی وجود میں آئے۔ سعودی عرب میں حکومت اور معاشرے پر اُن کی فکر کے اثرات نمایاں نظر آتے ہیں۔
’عصری اسلامیت‘ کے خالق حسن البنا، سید قطب اور سید مودودی بتائے گئے ہیں۔ یہ رجحان ۱۹ویں/۲۰ویں صدی میں مغرب کے تعامل سے وجود میں آنے والے ’روشن خیال‘ اور ’رواداری‘ والے اسلام سے متصادم ہے۔ مصر کے حسن البنا نے اسلام کو زندگی کے ایک مکمل نظام کے طور پر پیش کیا۔ مثالی اسلامی ریاست قائم کرنے کے لیے ان کی حکمت عملی کے دو زاویے تھے: اسلامی تعلیم و تربیت اور عوام میں نئے سیاسی شعور کی بیداری۔ انھوں نے اخوان المسلمون کی تحریک برپا کر کے ’اُسرہ‘ (خاندان) کا نظام قائم کیا۔ مدارس، جامعات، مساجد، ہسپتالوں اور پیشہ وارانہ تنظیموں اور سرکاری سماجی خدمت کے اداروں پر قبضہ کرنے کی کوشش کی، اور مسلمانوں کو ایک نیانعرہ دیا: اللہ ہمارا مقصود ہے، رسولؐ ہمارے قائد ہیں، قرآن ہمارا دستور ہے، جہاد ہمارا راستہ ہے، اور اللہ کی راہ میں شہادت ہماری اعلیٰ ترین خواہش اور تمنّا ہے‘‘۔ اگرچہ مصر میں شاہ فاروق کے زمانے میں حسن البنا اور پھر انقلابی حکومت (جمال عبدالناصر) کے دور میں ان کے جانشین سیدقطب کو شہید کردیا گیا، اور اس جماعت پر پابندی اور مظالم کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوا، تاہم آج بھی مصر میں اس کے زیراثر ۶ ہزار مساجد ہیں اور جماعۃ الشریعہ (ایک رفاہی تنظیم) کے ۲۰ لاکھ اراکین کام کر رہے ہیں۔
سیدابوالاعلیٰ مودودی کو بھی مصنف ابن تیمیہ /محمد بن عبدالوہاب کے متشددانہ اسلام کا ایک جدید ایڈیشن گردانتے ہیں (ص ۶۸)۔ سید نے ۱۹۲۰ء سے اپنے کام کا آغاز کیا۔ ’جماعت اسلامی‘ کے عنوان سے ایک تحریک برپا کی، آزاد خیالی اور لادینیت کے خلاف اور ’سلفی اسلام‘ کے حق میں علمی، عملی اور سیاسی میدان میں جہاد کیا (ص ۶۸-۸۰)
آزاد خیالی اور مغربی نظریات کے خلاف سیدمودودی کی تحریک، جسے پڑھے لکھے نوجوانوں اور طلبہ میں بھی پذیرائی حاصل ہوئی، بڑی حد تک پُرامن تحریک تھی۔ تاہم ۲۰ویں صدی کے وسط اور اواخر میں بین الاقوامی حالات، پہلی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی شکست (۱۹۶۷ء)، لبنان کی خانہ جنگی (۹۰-۱۹۷۵ء)، ایرانی انقلاب (۷۹-۱۹۷۸ء)، سوویت یونین کے افغانستان پر قبضے کی مزاحمت (۹۲-۱۹۷۹ء)، پہلی خلیجی جنگ (۹۲-۱۹۹۱ء) اور حال ہی میں عراق اور افغانستان پر امریکی یلغار نے مسلم دنیا میں مغرب کے خلاف ایک عملی فساد اور نفرت، اور نتیجتاً کچھ عملی اقدامات کی طرف رجحان کو فروغ دیا ہے، جو بقول مصنف، ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کی صورت میں سامنے آئے ہیں، جب کہ امریکا پر براہِ راست حملہ کیا گیا، خودکش حملہ آوروں نے اپنے جہاز ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون کی عمارتوں کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیے۔
اس قدامت پسند، ’سلفی‘ اور ’جہادی اسلام‘ کے خلاف اور بعض صورتوں میں اس کے متوازی دوسرے رجحان کی مصنف بار بار تکرار کرتے ہیں، جسے وہ ’عقلیئین کا اسلام‘ قرار دیتے ہیں۔ مصنف بار بار مسلم فلاسفہ اور دورِ جدید میں جمال الدین افغانی اور محمد عبدہٗ کا ذکر کرتے ہیں (وہ برعظیم پاک و ہند کے روشن خیالوں سرسیداحمد اور تشکیلِ جدید… والے ’نثری‘ محمداقبال کو فراموش کرگئے ہیں)۔ جمال الدین افغانی (م: ۱۸۹۷ء) نے برطانوی استعمار کے خلاف آواز بلند کی اور ایک انقلابی کی حیثیت سے شہرت پائی، وہ ہندستان، مصر، روس، فرانس، ایران، برطانیہ اور ترکی میں گھومتے اور درسِ حریت دیتے پھرے۔ محمد عبدہٗ (م:۱۹۰۵ء) بڑی حد تک جمال الدین افغانی کے ساتھی اور جدیدیت کے علَم بردار تھے۔ انھوں نے اپنی سرکاری حیثیت (جج ۱۸۸۱ء، مفتی مصر ۱۸۹۱ء) میں بعض ایسے فتوے دیے جو قدامت پسند علما کو پسند نہ تھے۔ انھوں نے مصر کی جامعہ الازہر میں بھی بعض اصلاحات کیں اور عقل و روایت کے درمیان اختلاف کی صورت میں عقلی بنیاد پر فیصلے کرنے پر زور دیا۔ ساتھ ہی ان کے ہاں تصوف کی طرف میلان بھی پایا جاتا ہے: ’’صوفیا میں بہت سے نبوت کے درجے کے قریب پہنچ جاتے ہیں، اور ماورا کی ایک جزوی آگاہی بھی حاصل کرلیتے ہیں‘‘ (ص ۱۵۶)۔ مصنف کو محمد عبدہٗ کی روشن خیالی، رواداری، انسان دوستی، سب کی بے لوث خدمت اور تمام مذاہب (خصوصاً اہلِ کتاب) کے لیے نرم گوشہ، اسلام کی سخت قدامت پسندی کے خلاف گفتار میں ایک مستحسن رجحان نظر آتاہے۔
ضوابط میں جکڑے ہوئے، سخت گیر اسلام کے خلاف، مصنف تکرار کے ساتھ متصوفانہ نرم اسلام سے امیدیں وابستہ کرتے دکھائی دیتے ہیں جس نے عباسی عہد میں یونانی، یہودی اور عیسائی رہبانیت، ترکِ دنیا اور زُہد کے رجحانات کو فروغ دیا۔ اس رجحان کے نمایندے انھیں منصور حلّاج، ابن عربی اور رُومی نظر آتے ہیں۔ یہاں بھی مصنف مسلم تصوف کے اہم سلاسل قادریہ (شیخ عبدالقادر جیلانی، م: ۵۶۱ھ/۱۱۶۶ء) نقش بندیہ (خواجہ بہاء الدین نقش بند، م: ۷۹۱ء) اور مجددیہ (شیخ احمد سرہندی، م: ۱۶۲۴ء) کو فراموش کر دیتے ہیں، جو اسلام کے بنیادی عقائد، عبادات اور ضوابط کے سلسلے میں کسی بھی طرح کی مداہنت کے قائل نہیں۔ اُن کی اُمید اہلِ تصوف اور روادار، روشن خیالوں کے ایسے گروہ سے ہے جو رواداری،حریت، آزاد رَوی اور ’نرم کردار‘ کے قائل ہیں۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ حال ہی میں امریکا کی ایک مجلسِ دانش (Rand Corporation) نے خیال ظاہر کیا تھا کہ مسلمانوں کو جیتنے کے لیے اُن کے ہاں مروّج ایک خاص نہج کے تصوف کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ (دی اکانومسٹ، ۲۰دسمبر ۲۰۰۸ء)
اس کے علاوہ بھی کرنے کے اور بہت سے کام ہیں، جو مصنف کتاب کے اختتام میں تجویز کرتے ہیں۔ اُن کے خیال میں اس کے لیے دوسروں کی اقدار کے لیے رواداری اور اعتماد کی فضا پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ عیسائی، یہودی، ہندو اور مسلمان مل کر ایک ضابطہ ٔ اخلاق مرتب کریں، ایک دوسرے پر حملے اور الزامات بند کریں۔ اقوامِ متحدہ، یونیسکو، ریڈکراس، ریڈ کریسنٹ، یورپی یونین، افریقی یونین، آرگنائزیشن آف دی اسلامک کانفرنس، ایکومینیکل کونسل آف چرچز اور دوسرے مل بیٹھیں، اور امن و آشتی کے لیے کوشش کریں۔ ایک اہم عملی بات: اسلامی تعلیمی اداروں میں یہودیوں کے پروٹوکول (Protocols of the Elders of Zion) کے حوالے دینے بند کیے جائیں کہ یہ یہودیوں کو بدنام کرنے والی ایک جعلی دستاویز ہے۔ تہذیبوں کے تصادم کا غلغلہ بند کیا جائے، اور عالمی مذہبی ڈپلومیسی کے زیرعنوان سارے فریق آپس کی دشمنی کو ختم کرکے باہمی رواداری اور احترام کا رویّہ اپنائیں۔ مذہبی اور سیاسی قائدین مل بیٹھ کر اپنے لیے ایک ضابطہ ٔ عمل مرتب کریں۔ القاعدہ کو بھی شریک کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ (ص ۶، ۲۰۰۵ء)
بیش تر مسلم ملکوں میں سرکاری اسکولوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے اور بہت سی مذہبی تنظیموں نے ایک متوازی نظامِ تعلیم قائم کر رکھا ہے، جو سرکاری کنٹرول سے آزاد ہے۔ مدارس، ازکار رفتہ تعلیم کے ذریعے ’یک سمتی ذہن‘ اور قدامت پرستی کو فروغ دے رہے ہیں۔ اس طرح وہ روشن خیالی کا استحصال کرتے ہیں۔ مذہب کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اسے اجتماعی زندگی سے متعلق اداروں___ ریاست، عائلی قوانین، محنت اور معاشیات میں دخل اندازی سے روک دینا چاہیے (ص ۲۱۱)۔ فرد اور خواتین کے حقوق کی پاس داری کی جائے۔ مسلمانوں کی آبادی جو ۴ء۶ فی صد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے، اُسے روکنے کی ضرورت ہے، تاکہ مسلم دنیا میں معیارِ زندگی بلند ہو۔ ’اسلامیت‘ سے تیسری دنیا میں جو مسائل پیدا ہو رہے ہیں، ان کی طرف توجہ دینا اشد ضروری ہے۔
اسلام کے لیے ایک غیر معاندانہ روش، لیکن اس کی اصل تعلیمات اور روح سے نابلد ذہن، اس دین اور اس کے وابستگان کو کس تناظر میں دیکھتا ہے___ پیش نظر کتاب، اس کی ایک اچھی مثال ہے، یا ذہنی انجینیری کی ایک کوشش۔
(Islam's Fateful Path، [اسلام کی پُرخطر راہ] مصنفہ: زیڈین میری بوتے (Zidane Meriboute)، ناشر: I.B. Tanris ،لندن، صفحات: ۲۴۶، قیمت: درج نہیں۔)