چشم فلک نے یہ منظر بار بار دیکھا ہے کہ اسلام دشمن قوتیں بڑی چابک دستی سے اہلِ ایمان کے خلاف ایک چال چلتی ہیں اور مطمئن ہوتی ہیں کہ اپنے اہداف حاصل کرنے والی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ایک دوسری ہی تدبیر کا اہتمام فرماتا ہے اور باطل قوتوں کے سارے اندازے اور منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ ان کے شر کے بطن سے خیر کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں اور جو چیز کسی کے خواب و خیال میں نہ تھی، وہ اہلِ حق کے لیے رونما ہوجاتی ہے۔ قرآن پاک میں تاریخ کے اس معجزاتی عمل کا بار بار ذکر فرمایا گیا ہے تاکہ ہر دور میں اہلِ ایمان کی ہمتوں کو مضبوط اور تاریکی سے روشنی کے نمودار ہو جانے کی امیدوں کے چراغ روشن کیے جاسکیں۔ بنی اسرائیل کی چال بازیوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ربانی ہے :
وَ مَکَرُوْا وَ مَکَرَ اللّٰہُ ط وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ o(اٰل عمرٰن ۳:۵۴) پھر بنی اسرائیل (مسیحؑ کے خلاف) خفیہ تدبیریں کرنے لگے۔ جواب میں اللہ نے اپنی تدبیر کی اور ایسی تدبیروں میں اللہ سب سے بڑھ کر ہے۔
سورئہ انفال میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا گیا ہے:
وَ اِذْ یَمْکُرُبِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَقْتُلُوْکَ اَوْ یُخْرِجُوْکَط وَیَمْکُرُوْنَ وَ یَمْکُرُ اللّٰہُ ط وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَo (الانفال ۸:۳۰) وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے کہ جب منکرین حق تیرے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ تجھے قید کردیں یا قتل کرڈالیں یا جلاوطن کردیں۔ وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔
ان تاریخی حقائق کی روشنی میں ذرا ان حالات پر غور کیجیے جو امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف خونی یلغار سے دنیا بھر میں اور خصوصیت سے افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اس جنگ میں جنرل پرویز مشرف کی شرکت اور خود پاکستان کی فوج کو پاکستان کے عوام کے خلاف صف آرا کر دینے سے رونما ہوئے۔ ۴ سال کی مسلسل فوج کشی اور امریکا کے ۱۰۰ سے زائدڈرون حملوں کے باوجود کسی ایک علاقے میں بھی فوجی ایکشن کامیاب نہ ہوسکا اور بالآخر مذاکرات اور سیاسی حل کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔ سوات کا علاقہ گذشتہ دو ڈھائی سالوں میں میدانِ کارزار بنا رہا۔ سیکڑوں افراد شہید ہوئے، ہزاروں زخمی ہوئے اور لاکھوں دربدر کی ٹھوکریں کھانے اور مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔
کسے خیال تھا کہ اس علاقے میں امن کی تلاش میں بالآخر شریعت کے نفاذ کا راستہ اختیار کیا جائے گا اور بش اور مشرف کی برپا کردہ جنگ کا اختتام اور آیندہ کا دروبست ایک ایسی جماعت کے توسط سے ہوگا جو سیکولرزم کی دعوے دار ہے اور ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں جس کی کامیابی کو ملک ہی کے نہیں دنیا بھر کے آزاد خیال اور سیکولرزم کے حامی عناصر نے دینی قوتوں کی پسپائی اور سیکولرزم اور آزاد خیالی کی فتح قرار دیا تھا۔ جس قانونی تبدیلی کا مطالبہ علاقے کے عوام ۱۹۶۹ء سے کر رہے تھے اورجس کے لیے کم از کم دو بار قانون سازی آخری مراحل تک پہنچ گئی تھی، اس کی تکمیل اور تنفیذ پیپلزپارٹی اے این پی کی صوبائی حکومت اور تحریک نفاذِ شریعت محمدی کی قیادت کی مشترک مساعی سے اور زرداری صاحب کی ۲ ماہ تک ٹال مٹول کے بعد، قومی اسمبلی کی متفقہ سفارش سے ہونا تھی۔ سارا سیکولر طبقہ آتش زیرپا ہے اور امریکا اور مغربی ممالک واویلا کر رہے ہیں لیکن جو قانون سیدھے سیدھے عوامی مطالبے اور لوگوں کی خواہش کے نتیجے میں نافذ نہ ہوسکا تھا وہ اس معجزاتی انداز میں اسمبلی کی تائید سے نافذ ہو رہا ہے ۔
سوات کی ریاست برطانوی دور میں پہلی جنگ ِ عظیم کے فوراً بعد معرضِ وجود میں آئی اور وہاں کا قانون بڑی حد تک شریعت پر مبنی تھا اور اسلامی اصولوں کے مطابق نظامِ قضا کے ذریعے نافذ تھا۔ یہ سلسلہ ۱۹۶۹ء تک چلتا رہا جب ریاست کو پاکستان میں مدغم کیا گیا اور عوام سے وعدہ کیا گیا کہ شرعی قانون کو جاری رکھا جائے گا مگر ملک کی سیکولر قیادت نے اس وعدے کے ایفا کے لیے کوئی قابلِ ذکر کوشش نہ کی جس کے نتیجے میں شریعت محمدیؐ کے قیام کا مطالبہ در و دیوار سے برابر کیا جاتا رہا اور بالآخر وہ حالات پیدا ہوئے جن میں ۱۹۹۴ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی حکومت میں (جب سیکولرزم کے علَم بردار وکیل جناب اقبال حیدر وزیر قانون تھے اور آفتاب احمد شیرپائو سرحد کے وزیراعلیٰ تھے) ایک مسودہ شرعی نظامِ عدل کے نفاذ کے لیے تیار کیا گیا مگر اس کے نفاذ کی نوبت نہ آئی۔ مطالبہ برابر جاری رہا اور پھر ۹۹-۱۹۹۸ء میں جناب نواز شریف کے دورِاقتدار میں سرحد کے وزیراعلیٰ جناب سردار مہتاب عباسی کی ذاتی دل چسپی سے اس مسودے پر نظرثانی کی گئی اور دینی قوتوں کی مشاورت سے قانون کو ایک واضح شکل دی گئی مگر مشرف صاحب کے انقلاب نے اس سلسلے کو درہم برہم کر دیا۔
یہ صرف قدرت کا کرشمہ ہے کہ ۲۰۰۹ء میں زرداری گیلانی حکومت کے دور میں سرحد کی اے این پی کی حکومت کی مسلسل کوشش اور اس کی اپنی ذمہ داری پر ایک معاہدۂ امن ہوا جس کا مرکزی نکتہ سوات اور مالاکنڈ کے تقریباً تمام علاقوں میں شریعت پر مبنی نظامِ عدل کے قیام کا قانون حکومت اور علاقے کی دینی قوتوں کے اتفاق راے سے تیار ہوا اور زرداری صاحب کے سارے تحفظات اور امریکا کی ساری ریشہ دوانیوں کے باوجود بالآخر ۱۳ اپریل ۲۰۰۹ء کو قومی اسمبلی کی تائید سے اس کا نفاذ عمل میں آیا___ یہ تو ابھی دیکھنا ہے کہ فی الحقیقت اس پر کتنی دیانت اور اخلاصِ نیت سے عمل ہوتا ہے لیکن اس قانون پر اتفاق راے کا رونما ہونا اور پھر دستوری عمل کے مطابق اس کا منظور اور نافذ ہوجانا ایک بہت مبارک اور تاریخی اقدام ہے۔ ہم اس پر ان تمام حضرات کو کھلے دل سے مبارک باد پیش کرتے ہیں جن کا اس سلسلے میں کوئی بھی کردار رہا ہے اور اس توقع کا اظہار بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر اس پر نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ پوری طرح عمل ہوتا ہے تو یہ نہ صرف اس علاقے کی قسمت کو بدلنے اور امن و انصاف کے قیام کا ذریعہ ہوگا بلکہ پورے ملک کے لیے ایک روشن مثال بھی بن سکے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ پہلے یہ دیکھا جائے کہ اس قانون کے ذریعے کیا تبدیلی تجویز کی جارہی ہے اور ملک میں شریعت کے نفاذ کے سلسلے میں اس میں کون سی نئی راہ اختیار کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ان خطرات کا ادراک بھی ضروری ہے جو اس تجربے کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ ہوسکتے ہیں، نیز اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس تجربے کو کامیاب کرنے کے لیے کن اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہم انھی پہلوؤں کی طرف ضروری اشارات کرنے کی کوشش کریں گے۔
سیکولر لابی جو بھی گل افشانی کرے ، یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ پاکستان کے قیام کا مقصد صرف ایک آزاد ملک کا حصول نہیں تھا بلکہ یہ بھی تھا کہ وہ آزاد ملک اسلام کی تجربہ گاہ بنے اور اس کے پورے نظامِ زندگی کو قرآن و سنت کی رہنمائی کے مطابق مرتب و منظم کیا جائے۔ اقبال اور قائداعظم نے برعظیم کے مسلمانوں کو نجات کی جس راہ کی طرف دعوت دی تھی، اس کا مرکزی نکتہ یہی نظریہ تھا اور ہندستان کے ان مسلمانوں نے جن کا تعلق مسلم اقلیتی صوبوں سے تھا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ پاکستان کا حصہ نہیں ہوں گے، صرف اپنے ایمان اور دین کے تقاضوں کے تحت اس تحریک کی دل و جان سے تائید کی تھی اور اس کی کامیابی کے لیے عظیم قربانیاں پیش کی تھیں۔ پاکستان اور اسلام توام ہیں جنھیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ نفاذِ شریعت کا مطالبہ آج نہیں کیا جارہا۔ یہ تحریک پاکستان کی روح تھا اور آج بھی یہی چیز پاکستان کی بقا اور ترقی کی ضامن ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ اقبال، قائداعظم اور قائد کے دستِ راست لیاقت علی خاں کے ان اعترافات اور وعدوں کو ذہن میں تازہ کرلیں جو پاکستان کے مقصد اور اس کی اصل حقیقت کی نشان دہی کرتے ہیں۔
علامہ اقبال نے اپنے ۱۹۳۰ء کے خطبۂ صدارت میں اپنے پورے تجزیے کی بنیاد ہی اس اصول پر رکھی تھی کہ: ’’اسلام کے پیش نظر ایک ایسا عالم گیر نظامِ سیاست ہے جس کی اساس وحی اور تنزیل پر ہے‘‘۔
اس خطبے میں اقبال نے صاف الفاظ میں کہا تھا:
اسلام میں خدا اور کائنات، روح اور مادہ، چرچ اور ریاست ایک دوسرے کی فطری تکمیل کرتے ہیں۔
ان کا ارشاد تھا:
اسلام کا مذہبی نصب العین اُس اجتماعی نظام سے نامیاتی تعلق رکھتا ہے جو وہ قائم کرتا ہے۔ ایک کے مسترد کرنے سے لامحالہ دوسرا بھی مسترد ہوجائے گا۔ اس لیے کسی پالیسی کی قومی سطح پر اس طرح تشکیل کہ اس سے اسلام کے یک جہتی کے اصول اپنی جگہ نہ رہیں، کسی مسلمان کے لیے بالکل ناقابلِ قبول ہے۔
یہی وجہ ہے کہ برعظیم میں اسلام کی بقا اور فروغ کے لیے ان کی نگاہ میں ایک آزاد مسلم مملکت کا قیام ناگزیر تھا۔
ملک میں ایک تہذیبی طاقت کی حیثیت سے اسلام کی زندگی بڑی حد تک ایک مخصوص علاقے میں اس کی مرکزیت پر منحصر ہے۔
چنانچہ ان کا مطالبہ تھا:
اس لیے میں ہندستان اور اسلام کے بہترین مفاد میں ایک متحدہ مسلم ریاست کے قیام کا مطالبہ کرتا ہوں۔
اصل مسئلہ ہی اسلام کا تحفظ اور فروغ تھا۔ اسی لیے علامہ اقبال نے سید غلام بھیک نیرنگ کے نام اپنے ایک خط میں آزادی کے مقصد کو ان الفاظ میں واضح فرمایا:
اگر ہندستان میں مسلمانوں کا مقصد سیاسیات سے محض آزادی اور اقتصادی بہبود ہے اور حفاظت ِ اسلام اس کا عنصر نہیں تو مسلمان اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔
قائداعظم نے مسلمانوں کے ایک قوم ہونے کا دعویٰ اسی بنیاد پر کیا:
ہم ایک علیحدہ قوم ہیں، جس کے پاس اپنا خاص تمدن و تہذیب، زبان اور ادب، فنونِ لطیفہ اور فنِ تعمیر، نام اور اصطلاحات ، اقدار کا تخیل اور تناسب کا تصور، عدالتی قانون اور اخلاق کا ضابطہ، رواج اور سنہ تاریخ اور روایات، رجحانات اور تمنائیں موجود ہیں۔ مختصر یہ کہ زندگی کے متعلق ہم ایک خاص تصور رکھتے ہیں اور بین الاقوامی قانون کے تمام اصولوں کے مطابق ہم ایک علیحدہ قوم ہیں۔ (گاندھی جناح مراسلت)
اگست ۱۹۴۱ء میں قائداعظم نے حیدرآباد دکن میں نوجوان طلبہ کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے اسلامی ریاست کو سیکولر ریاست سے ان الفاظ میں ممتاز و ممیز قرار دیا:
اسلام میں اصلاً نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے، نہ کسی پارلیمان کی، نہ کسی اور شخص یا ادارے کی، قرآن حکیم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی کی حدود متعین کرتے ہیں۔ اسلامی حکومت دوسرے الفاظ میں قرآنی اصول و احکام کی حکمرانی ہے اور حکمرانی کے لیے بہرحال آپ کو علاقے اور سلطنت کی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ کی تنظیم، اس کی جدوجہد، اس کا رُخ اور اس کی راہ___ سب اس کے جواب ہیں۔
۲۱ نومبر ۱۹۴۵ء کو صوبہ سرحد میں منعقدہ مسلم لیگ کانفرنس میں آپ نے واضح الفاظ میں فرمایا:
مسلمان پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں، جہاں وہ خود اپنے ضابطۂ حیات، اپنے تہذیبی ارتقا، اپنی روایات اور اسلامی قانون کے مطابق حکمرانی کرسکیں۔
اور اسلامیہ کالج پشاور کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:
لیگ ہندستان کے ان حصوں میں آزاد ریاستوں کے قیام کی علَم بردار ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے تاکہ مسلمان وہاں اسلامی قانون کے مطابق حکومت کر سکیں۔
قیامِ پاکستان کے بعد سرحد اور قلات دونوں جگہ قائداعظم نے واضح الفاظ میں ان لوگوں کے الزامات کی تردید کی جو کہہ رہے تھے کہ پاکستان میں قانون سازی شریعت کے بنیادی اصولوں اور قرآنی احکام کے مطابق نہیں ہو گی۔ ان کا ارشاد تھا کہ ’’یہ بات قطعی طور پر غلط ہے‘‘۔
لیاقت علی خاں نے قرارداد مقاصد کی شکل میں پاکستان کے قیام کے اصل مقاصد کو مرتب اور محفوظ کردیا۔ ۵ اپریل ۱۹۴۸ء کو انھوں نے راولپنڈی میں اعلان کیا تھا کہ قائداعظم اور ان کے رفقا کی یہ دیرینہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان کی نشووا رتقا ایک ایسی مضبوط اور مثالی اسلامی ریاست کی حیثیت سے ہو جو اپنے باشندوں کو عدل و انصاف کی ضمانت دے سکے۔ پھر دسمبر ۱۹۴۹ء میں کوہاٹ میں مسلم لیگ کے زیراہتمام ایک جلسۂ عام میں لیاقت علی خاں نے کہا:
جہاں تک لوگوں کی اس اُمنگ کا تعلق ہے کہ پاکستان میں اسلامی اصولوں کے مطابق حکومت ہونی چاہیے، دستور ساز اسمبلی کی منظور کردہ قرارداد مقاصد ان کی کافی ضمانت ہے۔ میرا ایمان ہے کہ اگر ہم نے پاکستان میں اسلامی حکومت قائم نہ کی تو پاکستان زندہ نہیں رہ سکے گا۔
عوام کی اس خواہش کا مظہر پاکستان کا دستور ہے جس میں قرارداد مقاصد نہ صرف اس کا دیباچہ ہے بلکہ دفعہ ۲ الف کی شکل میں اس کا ایک قابلِ تنفیذ حصہ ہے۔ دستور میں مرقوم ریاست کی حکمرانی کے بنیادی اصول زندگی کے ہرشعبے میں اسلام کے قیام کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اور دستور کی دفعات ۲۰۳ اور ۲۲۷ پورے قانونی نظام کو شریعت کے تابع اور اس سے ہم آہنگ کرنے کا تقاضا کرتی ہیں۔
سوات اور مالاکنڈ کے عوام قیامِ پاکستان کے مقاصد اور دستورِ پاکستان کے انھی تقاضوں کو پورا کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے جس کی طرف ایک مؤثر قدم ’’عدالتوں کے ذریعے نفاذِ شریعت کے لیے قانون وضع کرنے کا ریگولیشن‘‘ ہے۔ یہ ریگولیشن ایک مثبت اقدام ہے اور اس کے اہم نکات کو سمجھنا اس کی اہمیت کے ادراک کے لیے ضروری ہے۔
اس قانون کی غرض و غایت ہی یہ بتائی گئی ہے کہ ’’قبائلی علاقوں اور سابق ریاست امب کے سوا شمال مغربی سرحدی صوبہ کے زیرانتظام قبائلی علاقوں میں عدالتوں کے ذریعے نفاذِ شریعت کے لیے قانون وضع کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا عنوان ’’شریعۃ نظام عدل ریگولیشن ۲۰۰۹ء‘‘ ہے۔
اس قانون کی اصل اہمیت اور منفرد خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اس طریقے کے علاوہ جو اَب تک پاکستان میں نفاذِ اسلام کے لیے اختیار کیا گیا ہے یعنی ’نفاذ اسلام بذریعہ قانون سازی‘ اب اس کے ساتھ ساتھ ’نفاذِ اسلام بذریعہ نظامِ قضا‘ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت پانچ سطحوں پر مشتمل جس نظامِ قضا کو قائم کیا جا رہا ہے وہ ملکی قانون کے طور پر نفاذ کے ساتھ ان تمام امور پر بھی حاوی ہے جو شریعت کے دائرے میں آتے ہیں لیکن ان کے لیے کوئی متعین قانون موجود نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پوری اسلامی تاریخ میں فقہ کی تدوین کے علی الرغم نفاذِ اسلام کا ایک اہم ترین ذریعہ نظامِ قضا ہی رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی روایت کا اہم سرمایہ ججوں کے بنائے ہوئے قوانین پر مشتمل ہے۔ ریاستی قانون سازی کے ذریعے نفاذِ اسلام کا تجربہ ایک نیا تجربہ تھا اور کم از کم پاکستان کی حد تک اس کے اثرات اور نتائج بہت زیادہ قابلِ فخر نہیں۔ اس پس منظر میں سوات اور مالاکنڈ کے لیے بنایا جانے والا حالیہ قانون ایک اہم تجربے کی طرف پہلا قدم ہے۔ ہمیں تعجب ہے کہ زرداری صاحب اور خود اے این پی کی قیادت نفاذِ شریعت کے پہلوئوں پر پردہ ڈالنے اور نظامِ عدل اور قیامِ امن کے پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو یا ان کی کم علمی کا مظہر ہے یا اس سے بھی زیادہ سنجیدہ اور تباہ کن چیز،یعنی علمی بددیانتی کا۔ اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس قانون کے چند اہم پہلوئوں کو قوم کے سامنے بلاکم و کاست لایا جائے:
۱- نفاذِ شریعت اور قیامِ امن کے لیے ایک مربوط اور خود مکتفی نظام وضع کیا گیا ہے جس کی پانچ سطحیں ہیں اور اپیل کے لیے دو ادارے بنائے گئے ہیں:
۲- شریعت کی تعریف ماقبل کی تمام مساعی کے مقابلے میں زیادہ متعین طور پر کی گئی ہے، یعنی شریعت سے اسلام کے احکام مراد ہیں جیساکہ قرآن اور سنت نبویؐ، اجماع اور قیاس میں بیان کی گئے ہیں۔ ہمارے علم کی حد تک اجماع اور قیاس کا واضح اضافہ پہلی مرتبہ کیا گیا ہے۔ دستور میں صرف قرآن و سنت کا ذکر ہے اور یہی صورت ۱۹۹۱ء کے نفاذِ شریعہ ایکٹ میں ہے۔ نیز ہماری نگاہ سے اس علاقے کے بارے میں جو مسوداتِ قانون گزرے ہیں یعنی ۱۹۹۴ء سے ۱۹۹۹ء کے مسودے، ان میں اجماع اور قیاس کا ذکر نہیں تھا۔ علماے کرام دلائلِ شریعہ سے استنباط احکام کی وضاحت کی ضرورت کو بیان کرتے رہے ہیں لیکن یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ اجماع اور قیاس کو بھی تعریف میں شامل کیا گیا ہے۔
۳- اس قانون میں خلافِ قرآن و سنت قوانین کی خود بخود منسوخی کے بارے میں ایک بہت واضح اعلان ہے جو بہت اہم اقدام ہے۔ اس کی دفعہ چار میں وضاحت موجود ہے کہ اس ریگولیشن کے نفاذ سے پہلے اس مذکورہ علاقے میں قرآن مجید اور سنت ِ رسولؐ سے متصادم کوئی بھی نافذالعمل قانون، دستاویز، رواج یا دستور یا کوئی بھی ایسی صورت، اس ریگولیشن کے آغازِ نفاذ سے کالعدم متصور ہوگی۔
۴- شریعت کو بالاتر قانون تسلیم کیا گیا ہے۔ عدالتوں کو واضح ہدایت دی گئی ہے کہ فیصلے صرف شریعت کے مطابق کیے جائیں گے۔ ملاحظہ ہو، دفعہ ۹ جس میں واضح کیا گیا ہے کہ:
قاضی یا انتظامی مجسٹریٹ مقدمات چلانے اور ان کے تصفیے کے لیے طریق کار اور کارروائی کی غرض سے قرآن مجید، سنت نبویؐ، اجماع اور قیاس سے رہنمائی حاصل کرے گا اور ان کا فیصلہ شریعت کے مطابق کرے گا۔ قاضی اور انتظامی مجسٹریٹ قرآن مجید اور سنت رسولؐ کے بیان اور تشریح کے مسلّمہ اصولوں کی پیروی کرے گا اور اس مقصد کے لیے اسلام کے مستند فقہا کے بیانات اور آرا کو بھی مدنظر رکھے گا۔
انتظامی مجسٹریٹ بھی دفعہ ۷ کے تحت ’اپنے فرائض اور ذمہ داریاں‘ شریعت کے مسلّمہ اصولوں اور مذکورہ علاقے میں فی الوقت نافذالعمل دیگر قوانین کے مطابق انجام دیں گے۔
۵- مصالحت کا ایک نظام تجویز کیا گیا ہے جو بڑا مفید اضافہ ہے اور مقدمات اور تنازعات کو جلد نمٹانے کے لیے ایک کارگر نسخہ ہے جسے آج مغربی دنیا میں بھی’متبادل انصاف‘ کے عنوان سے اپنایا جا رہا ہے۔ اس میدان میں بھی شریعت سے مطابقت کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ نیز اعلیٰ عدالت کو شریعت سے عدمِ مطابقت کی صورت میں مصلح یا مصلحین کے تصفیے پر نظرثانی یا تنسیخ کا اختیار دیا گیا ہے۔
۶- اس قانون میں دستور کی دفعہ ۲۲۷ کی طرح شخصی معاملات کے سلسلے میں ہر مکتب فکر کے پیروکاروں کے لیے ان کے اپنے مسلک کے مطابق معاملات کے طے کیے جانے کے اصول کو تسلیم کیا گیا ہے اور اس طرح جو تنوع مسلم معاشرے میں پایا جاتا ہے اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔
۷- غیرمسلموں کو ان کے شخصی قانون کے سلسلے میں یہ حق دیا گیا ہے کہ ان کے مقدمات ان کے اپنے متعلقہ پرسنل لا کے مطابق چلائے جائیں گے اور ان کا فیصلہ اس کے مطابق کیا جائے گا۔ شریعت نے جو آزادی غیرمسلموں کو دی ہے، اس کا اس قانون میں پورا اہتمام کیا گیا ہے۔
۸- وکلا اور معاونین عدالت کے سلسلے میں واضح بیان اس قانون میں نہیں لیکن اس کے خلاف بھی کوئی بندش موجود نہیں۔ بلکہ دفعہ ۱۵ میں عدالتوں کی امداد و تعاون کا جس طرح ذکر کیا گیا ہے اس میں مقدمات میں وکلا یا دوسرے معاونین کی خدمات کے لیے گنجایش موجود ہے۔
۹- عدالت کی زبان کے باب میں بھی پہلی مرتبہ اُردو اور انگریزی کے ساتھ پشتو کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہ بھی ۱۹۹۹ء کے مسودے پر ایک اضافہ ہے۔
۱۰- مقدمات کے جلدی فیصلے کے لیے متعدد دفعات میں ضروری قواعد و ضوابط اور ہدایات موجود ہیں اور تاخیری حربے استعمال کرنے پر تعزیرات بھی لاگو کی گئی ہیں۔ نیز دیوانی مقدمات کے لیے زیادہ سے زیادہ ۶ ماہ اور فوجداری کے لیے ۴ ماہ کی مدت متعین کی گئی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو جلد انصاف میسر آسکے گا۔
۱۱- اس قانون کا ایک اور بڑا اہم پہلو یہ ہے کہ اس کے ذریعے پاکستان کے ۹۴ قوانین کا اطلاق اس علاقے پر کیا گیا ہے اور اس طرح جہاں اس علاقے میں شریعت کے نفاذ کا اہتمام کیا گیا ہے وہیں ان قوانین کی توسیع کے ذریعے اس علاقے کے قانون اور معاملات کو پاکستان کے باقی نظام سے ایک حد تک ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان قوانین میں بہت سے وہ قوانین بھی شامل ہیں جن کے ذریعے اس علاقے میں باقاعدہ سیاسی سرگرمیاں شروع ہوسکیں گی اور سیاسی پارٹیوں کا ایکٹ نافذ العمل ہوجائے گا۔
یہ متذکرہ بالا گیارہ پہلو ایسے ہیں جو اس قانون کو غیر معمولی اہمیت کا حامل بنا دیتے ہیں۔
اس قانون پر جو اعتراضات کیے جا رہے ہیں ان کے تین پہلو ہیں:
اعتراضات کی ایک قسم وہ ہے جو ان حضرات، اداروں اور حکومتوں کی طرف سے آرہے ہیں جو شریعت ہی کے خلاف ہیں اور شریعت کے نفاذ کو اپنے زعم میں حقوقِ انسانی کے خلاف اور جنس کی بنیاد پر امتیاز (gender discrimination) کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ یہاں اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ ان کی مخالفت اس قانون سے نہیں، خود شریعت سے ہے۔ ان کو ہمارا جواب یہ ہے شریعت مسلمانوں کے لیے کوئی بیرونی شے یا باہر سے، یا جبر سے مسلط کی جانے والی چیز نہیں ہے بلکہ ہمارے ایمان کا تقاضا اور ہماری آرزوئوں اور اُمنگوں کی تکمیل ہے۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کے بارے میں کیے گئے راے عامہ کے سروے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ساری خرابیوں کے باوجود ۹۰ فی صد سے زیادہ مسلمان اسلام ہی کو اپنی شناخت قرار دیتے ہیں اور مسلمان مرد اور خواتین، بوڑھے اور جوان بلاتفریق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی صورت گری اسلام کے اصولوں اور احکام کے مطابق چاہتے ہیں۔ پاکستان کے اور مسلم دنیا کے ۷۲ ممالک کے مسلمانوں کی اکثریت شریعت کو قانون کا واحد سرچشمہ (only source of law) قرار دیتی ہے۔ اگر اس میں ان افراد کو شامل کرلیا جائے جو شریعت کو ’ایک سرچشمۂ قانون‘ (one source of law) کہتے ہیں تو یہ تعداد ۸۰ سے ۹۰فی صد تک پہنچ جاتی ہے۔۱؎ جوحضرات اپنے کو آزادی کا پرستار اور جمہوریت پسند کہتے ہیں ان کو اتنا تو تسلیم کرنا چاہیے کہ اگر مسلمانوں کی عظیم اکثریت اپنی آزاد مرضی اور قلبی اطمینان کے ساتھ اپنے معاملات کو شریعت کے مطابق دیکھنا چاہتی ہے تو اس ۱۰ فی صد لبرل اقلیت کو کیا حق ہے کہ ان پر اپنی راے مسلط کرے اور مغرب کی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والی حکومتوں کو کیا حق ہے کہ وہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت کی خواہشات اور عزائم کو یک طرفہ طور پر رد (ویٹو) کریں۔ یہ فسطائی ذہنیت ہے، اس کا جمہوریت سے دُور کا بھی تعلق نہیں۔
بلاشبہہ جمہور مسلمین کے دل کی آواز شریعت کا نفاذ ہے۔ جو جمہوریت کے دعوے دار ہیں انھیں صرف جمہور کی خواہش اور ارادے کا احترام کرنا چاہیے لیکن جہاں تک معاملہ مسلمانوں کا ہے، تو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ مسلمان نام ہی اس مرد یا عورت کا ہے جو اپنی مرضی اور ارادے کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے تابع کرتا ہے اور اپنی زندگی کو اس قانون کے مطابق ڈھالتا ہے جو اللہ نے نازل کیا ہے۔ قرآن کا فیصلہ بہت صاف اور واضح ہے:
وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ… بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ… فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ (المائدہ ۵:۴۴-۴۵ و ۴۷) جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہی کافر ہیں… وہی ظالم ہیں… وہی فاسق ہیں۔
اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی ہدایت ہے جو پوری اُمت کے لیے سنت ِ رسولؐ ہے کہ وَ اَنِ احْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَ لَا تَتَّبِعْ اَھْوَآئَ ھُمْ (المائدہ ۵:۴۹) پس اے نبیؐ، تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق ان لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔
اور یہ بات بھی اچھی طرح ذہن میں رہنی چاہیے کہ شریعت اور انصاف ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں۔ شریعت کے بغیر انصاف ممکن نہیں اور انصاف کا حق اسی وقت ادا ہو سکتا ہے جب شریعت حَکم ہو۔ شریعت اور انصاف کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ وَرُسُلَہٗ بِالْغَیْبِ ط اِِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ o (الحدید ۵۷:۲۵) ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوںاور ہدایت کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں اور لوہا اُتارا جس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لیے منافع ہیں۔ یہ اس لیے کیا گیا ہے کہ اللہ کو معلوم ہوجائے کون اس کو دیکھے بغیر اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے۔ یقینا اللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔
نبی پاکؐ کو مخاطب کرتے ہوئے (اُن کی وساطت سے) اللہ تعالیٰ نے پوری اُمت کے سامنے اپنے قانون اور عدل کے رشتے کو اس طرح واضح فرمایا:
فَلِذٰلِکَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ وَلاَ تَتَّبِعْ اَھْوَآئَ ھُمْ وَقُلْ اٰمَنْتُ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنْ کِتٰبٍ وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمُ ط (الشوریٰ ۴۲:۱۵) اس لیے اے محمدؐ! اب تم اسی دین کی طرف دعوت دو اور جس طرح تمھیں حکم دیا گیا ہے اسی پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوجائو اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو اور ان سے کہہ دو کہ اللہ نے جو کتاب بھی نازل کی ہے میں اس پر ایمان لایا، مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمھارے درمیان انصاف کروں۔
قرآن اس مضمون سے بھرا پڑا ہے اور اس سلسلے میں کسی مسلمان کو ایک لمحے کے لیے بھی یہ اشتباہ نہیں ہوسکتا کہ حقیقی اسلامی زندگی اور دنیا و آخرت کی کامیابی کا انحصار شریعت کے مطابق اور شریعت کے ذریعے انصاف کے قیام پر ہے۔ اس سلسلے میں چھوٹا ہو یا بڑا، جو اقدام بھی کیا جائے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کو پورا کرنے اور دینِ حق کے تقاضوں کو پورا کرنے کا ذریعہ ہو۔
اعتراضات کی دوسری کھیپ کا تعلق اس مفروضے سے ہے کہ ایک ملک میں ایک سے زیادہ قانونی نظام نہیں چل سکتے۔ یہ قانون ایک متوازی نظام قانون مسلط کرنے کی کوشش ہے جو قابلِ قبول نہیں۔
ہم اس اعتراض کو اس لیے قابلِ اعتنا نہیں سمجھتے کہ جس مفروضے پر اس کی بنیاد ہے وہ صحیح نہیں۔ پاکستان میں ایک دستور ہے جو پورے ملک پر حاوی ہے۔ اس دستور میں اس علاقے کے لیے قانون اور قانون سازی کا ایک مختلف طریقہ موجود ہے۔ انگریز کے زمانے میں یہاں کا قانون، باقی ملک سے مختلف تھا اور اس پر کسی کو تناقض اور دو نظاموں کے ٹکرائو کا خیال نہیں آیا۔ شریعت پر مبنی نظامِ قضا خواہ جزوی شکل ہی میں تھا مگر برطانوی دور میں ایک نہیں متعدد ریاستوں اور علاقوں میں موجود تھا اور اسے معتبر تصور کیا گیا۔ خود پاکستان بننے کے بعد سوات اور قلات میں ایک عرصے تک قضا کا نظام شرعی بنیادوں پر کام کرتا رہا اور کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا بلکہ لوگ خوش اور مطمئن تھے۔ آج بھی آزاد کشمیر میں قاضیوں کا نظام موجود ہے اور وہ عدالتی نظام کے حصے کے طور پر کام کر رہے ہیں اور کہیں کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ حد تو یہ ہے کہ آج تک قبائلی علاقے میں FCR جیسا جنگل کا قانون موجود رہا اور دُہرے نظامِ عدل کا واویلا نہیں کیا گیا۔ پھر اب یہ آہ و بکا کیوں ہے؟ کیا صرف شریعت کی وجہ سے یہ آوازیں اٹھائی جارہی ہیں؟
برطانیہ کے عدالتی نظام کی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو وہاں کئی سو سال تک common law courts اور equity courts شانہ بشانہ کام کرتی رہی ہیں۔ امریکا ایک فیڈریشن ہے اور اس کی مختلف ریاستوں میں آج بھی دیوانی اور فوج داری دونوں دائروں میں مختلف قوانین کی عمل داری ہے اور علاقائی حالات، رسم و رواج اور تہذیبی اور ثقافتی فرق کی بنیاد پر قوانین میں فرق بلکہ تضاد تک ہے، حتیٰ کہ امریکا کی نصف ریاستوں میں سزاے موت رائج ہے، جب کہ بقیہ نصف میں اسے ختم کردیا گیاہے۔
یہ تو صرف قانون میں تنوع کا مسئلہ ہے۔ چین نے تو ایک ملک اور دو نظاموں کی کامیاب مثال قائم کی ہے اور چین اور ہانگ کانگ میں دو طرح کے نظام اور دو قسم کے قوانین لاگو ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ان اعتراضات کی وجہ قانون میں تنوع نہیں، شریعت سے مخاصمت ہے۔ اگر ان حضرات کو ایک نظامِ قانون کی اتنی ہی فکر ہے تو اس پر غور کیوں نہ کیا جائے کہ پورے ملک میں شریعت کے قانون کو یکساں طور پر نافذ کیا جائے۔ آخر دستور تو پاکستان کو اسلامی ری پبلک قرار دیتا ہے، اسلام کو ریاست کا مذہب قرار دیتا ہے اور دفعہ ۲۲۷ کے تحت پورے قانونی نظام کو شریعت سے ہم آہنگ کرنے کا تصور دیتا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے ملک کے ۴ ہزار سے زیادہ قوانین کا جائزہ لے کر ان کو شریعت سے ہم آہنگ کرنے کی سفارشات مرتب کر لی ہیں۔ پھر انتظار کس بات کا ہے؟ ہم بجاطور پر توقع رکھتے ہیں کہ عوام کے جذبات اور مطالبات کا احترام کرتے ہوئے پورے ملک میں شریعت کی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ہمیں یقین ہے کہ سوات میں اس نظام کی کامیابی سے پورے ملک کو اس تجربے سے فائدہ اٹھانے کا موقع اور تحریک ملے گی۔
تحفظات کا تیسرا حصہ ان امور سے متعلق ہے جو اس قانون کے کامیابی سے نافذ ہونے کی راہ کی مشکلات کی نشان دہی پر مشتمل ہے۔ اس سلسلے میں ہم چند ضروری گزارشات کرنا چاہتے ہیں:
پہلی چیز کا تعلق نیت اور ارادے سے ہے، بلاشبہہ ان علاقوں کے عوام دل کی گہرائیوں سے اس نظام کو چاہتے ہیں اور اس سے بڑی توقعات رکھتے ہیں لیکن ہمیں بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ مرکزی حکومت کے ذمہ دار ترین افراد نہ صرف بددلی کا اظہار کر رہے ہیں بلکہ بددیانتی کے بھی مرتکب ہو رہے ہیں۔ شریعت کے پہلو کو یا تو دبایا جاتا ہے یا اسے کم کر کے بتایا جا رہا ہے، جب کہ وہاں کے عوام کی نگاہ میں اگر کسی چیز میں کشش ہے تو وہ شریعت میں ہے۔ جناب زرداری صاحب اور جناب اسفندیارولی علی الاعلان بار بار کہہ چکے ہیں کہ یہ نظام عدل سے متعلق ہے حالانکہ اس قانون کی امتیازی حیثیت ہی یہ ہے کہ یہ شریعت پر مبنی نظامِ عدل کا قیام چاہتا ہے، محض عدل کا نہیں۔ پھر امن کے قیام کے پہلو کو شرط بتایا جا رہا ہے، جب کہ اس قانون کی روح کے مطابق اس کے نفاذ کا فطری نتیجہ ’امن‘ ہوگا۔ اس لیے یہ مشروط نہیں ہے۔
دوسری چیز بیرونی دبائو اور سازشیں ہیں جو پورے زور و شور سے کارفرما ہیں۔ یہ ہمارے معاملات میں مداخلت ہے اور ہمیں خطرہ ہے کہ جس طرح ہماری حکومتیں سیاسی اور معاشی معاملات میں بیرونی دبائو کا شکار ہوکر بڑی طاقتوں کی بلیک میلنگ کے آگے سپر ڈال رہی ہیں، اسی طرح شریعت کے معاملے میں بھی ریت کی دیوار ثابت ہوتی نظر آرہی ہیں۔ ہمیں خطرہ ہے کہ اگر یہ ریشہ دوانیاں راہ پاتی ہیں تو اس قانون پر عمل درآمد متاثر ہوگا جس کے بڑے خطرناک نتائج ہوسکتے ہیں۔ اس لیے ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کسی دبائو میں نہ آئے اور اس قانون اور اس کے پیچھے کیے جانے والے معاہدے پر دیانت اور خلوص سے عمل کرے۔
اگر قومی اسمبلی نے اس قانون کی متفقہ طور پر سفارش کی ہے تو حکومت کو پارلیمنٹ کی اس ہدایت پر عمل کرنا چاہیے۔ ایم کیو ایم نے اس سلسلے میں جو ڈراما رچایا ہے وہ ناقابلِ فہم ہے۔ پارلیمنٹ کی کمیٹی براے قومی سلامتی نے بھی اس مسئلے پر اپنی متفقہ راے دی ہے اور ایم کیو ایم کے نمایندے نے ان متفقہ سفارشات کی تائید کی ہے۔ ہم اس سلسلے میں کمیٹی کی سفارشات کو پیش کرنا چاہتے ہیں تاکہ عوام ان لوگوں کی سیاسی بازی گری کو بے حجاب دیکھ سکیں۔ کمیٹی نے پارلیمنٹ کی قرارداد کے نکتہ نمبر ۱۱ پر اپنی سفارشات میں یہ بھی کہا ہے:
حکومت کو سوات میں امن حاصل کرنے کے لیے این ڈبلیو ایف پی (پختون خواہ) کی صوبائی حکومت کے ذریعے درج ذیل اقدامات کرنے کی ضرورت ہے:
ا- فوج کو قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں سے تبدیل کردیا جائے اور جدید ترین رسل و رسائل اور دیگر آلات کی ضروریات پوری کر کے ان کی صلاحیت کو بڑھایا جائے۔
ج- حالیہ امن معاہدے کے مطابق وفاقی حکومت/ صدر، دونوں کو مالاکنڈ ڈویژن میں نفاذِ عدل ضوابط کو اپنے مفہوم اور روح کے مطابق فی الفور منظوری دینا اور نافذ کرنا چاہیے۔ اس کے بعد حکومت کو سوات میں دیرپا امن حاصل کرنے کے لیے پیش قدمی کرتے ہوئے ایک مکالمے پر عمل شروع کرنا چاہیے۔
سیاسی قیادت کے صحیح رویے اور مخلصانہ تعاون اور بیرونی دبائو اور مخصوص مفادات کے لیے کام کرنے والے عناصر کی کارگزاریوں کے مقابلے کے ساتھ جو کام حکومت اور تمام دینی اور سیاسی قوتوں کو کرنا چاہیے وہ ایسے قاضی حضرات کا تقرر ہے جو علم و تقویٰ کے لحاظ سے اعلیٰ معیار کے حامل ہوں اور ہرقسم کے دبائو کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اس قانون کی کامیابی کا انحصار اس قانون پر عمل کرنے اور کرانے والے افراد کے خلوص، دیانت اور صلاحیت پر ہوگا اور یہ بڑا کٹھن اور فیصلہ کن امر ہے۔ اس لیے جزوی اور غیرمتعلقہ بحثوں اور کارروائیوں سے بچتے ہوئے اس نظام کی صحیح بنیادوں پر تشکیل اور اس کی تقویت کو اولین اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔
ہماری نگاہ میں ایک مبہم امر اس نظام کی اپیل کی اعلیٰ عدالتیں ہیں۔ جس شکل میں دارالقضا اور دارالدار القضا کو اس قانون میں رکھا گیا ہے وہ نظام کی کامیابی کے لیے ضروری ہے لیکن اس کے لیے دستور کے تقاضوں کا گہری نظر سے مطالعہ کرنا ہوگا۔ ۱۹۹۹ء کے قانون میں وفاقی شرعی عدالت کو اپیل سننے کا اختیار دینے کی تجویز تھی جسے اب تبدیل کردیا گیا ہے۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے اختیارات ان نئی عدالتوں کو دینے کے لیے کیا اس قانون سے زیادہ کسی مزید دفعہ کی ضرورت ہے۔ کیا ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے قوانین میں اس کے لیے ترامیم کرنا ہوں گی یا اس کے لیے دستوری ترمیم کی ضرورت ہوگی۔
اس پہلو پر ہمدردانہ غور کرنے اور راہ نکالنے کی ضرورت ہے۔ پھر ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ شریعت کے نفاذ کا عمل صرف قضا کے ذریعے مکمل نہیں ہوسکتا۔ قضا کا حصہ بڑا اہم ہے لیکن وہ ایک حصہ ہے، پورا عمل نہیں۔اس کے لیے تعلیم، ذرائع ابلاغ، حکومت، انتظامیہ، سیاسی جماعتوں اور دینی قوتوں سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور سب مل کر ہی شریعت کے قیام کی راہ استوار کرسکتے ہیں۔ شریعت کا تعلق نظامِ عقائد و عبادات سے ہی نہیں، زندگی کے ہر شعبے سے ہے۔
شریعت کا ایک بڑا حصہ خود عمل کرنے کے لیے ہے۔دوسرے حصے کے نفاذ کا انحصار خاندان، تعلیم اور معاشرے پر ہے۔ ایک تیسرے حصے کا تعلق حکومت کی پالیسیوں سے ہے، اور پھر ایک اہم حصے کا تعلق قانون اور نظامِ قضا سے ہے۔ شریعت کا نفاذ ان سب پہلوؤں پر بہ یک وقت کام اور ان کے درمیان ربط اور ہم آہنگی سے ممکن ہے۔ ان میں سے کوئی بھی تنہا مطلوبہ نتائج نہیں دے سکتا۔ اس کے لیے کلّی اور ضمنیات پر مبنی جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
ہماری خواہش اور دل کی گہرائیوں سے نکلنے والی دعا ہے کہ حکومت، عوام، انتظامیہ اور سیاسی اور دینی قوتیں سب شریعت کے نفاذ کی کوشش میں اپنا اپنا کردار ادا کریں اور اس تجربے کی کامیابی کے لیے دل و جان سے مصروف ہوجائیں۔ پھر اللہ کی تائید بھی حاصل ہوگی اور تمام مساعی میں برکت کی کیفیت بھی رونما ہوگی۔
ذاتی اور گروہی مفادات اور سیاسی اور جماعتی مصالح سے بالا ہوکر اس قانون اور اس پروگرام کو کامیاب کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں عوام کی شرکت اورتعاون بھی ازبس ضروری ہے۔ اس قانون کے نافذ ہونے کے بعد ہم سب ایک بہت بڑے امتحان میں داخل ہوگئے ہیں اور اگر ہم اِس امتحان میں پورے اُترتے ہیں تو دنیا میں بھی اس کے دُور رس اثرات ہوں گے اور آخرت میں بھی نجات ہمارا مقدر بنے گی۔ کامیابی کے حصول کے سوا ہمارے لیے کوئی راستہ نہیں۔ اس لیے ہم سب کی کوشش ہونی چاہیے کہ ایک دوسرے پر الزامات کی لعنت سے نجات پاکر پُرخلوص جدوجہد اور افہام و تفہیم کے ذریعے شریعت کے سایے میں حقیقی عدل و انصاف کے قیام کے لیے سرگرم ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔