اندھیری رات ہو، جھکڑ.ّ چل رہے ہوں، راستہ ٹیڑھا میڑھا اور نا ہموار ہو، جھاڑ جھنکار کی وجہ سے سانپ بچھّو اور دیگر موذی جانوروں اور حشرات الارض کا ہر وقت کھٹکا لگا ہو، ایسے میں ایک شخص چلا جارہا ہو، اس کے ہاتھ میں ٹارچ ہو، لیکن اسے اس نے بجھا رکھا ہو، اس شخص کی بے وقوفی پر ہم میں سے ہر ایک کو افسوس ہوگا۔ وہ ٹارچ جلاکر اپنا راستہ دیکھ سکتا ہے، راہ کی ناہمواریوں میں گرنے پڑنے سے بچ سکتا ہے، موذی جانوروں سے اپنی حفاظت کرسکتا ہے، لیکن اس کی مت ماری گئی ہے کہ وہ ٹارچ جیسی مفید چیز اپنے پاس ہوتے ہوئے اس سے فائدہ نہیں اٹھارہا ہے، اسے بجھا رکھا ہے اور اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے۔
ایسے بے وقوف شخص پر ہم جتنا چاہیں ہنس لیں، لیکن حقیقت میں ٹھیک ایسا ہی رویّہ ہم مسلمانوں نے قرآن کے ساتھ اختیار کر رکھا ہے۔ ہم مصائب و مشکلات کا شکار ہیں۔ دشمن ہم پر شیر ہیں اور ہمیں نقصان پہنچانے کے لیے طرح طرح کی سازشیں کر رہے ہیں۔ ہمیں صحیح راہِ عمل سجھائی نہیں دے رہی ہے ۔ ایسی صورت حال میں قرآن کی شکل میں ہمارے پاس ایک روشنی موجود ہے جس سے ہم گھٹا ٹوپ تاریکیاں دور کرسکتے ہیں ، اپنی مشکلات و مسائل کا ازالہ کرسکتے ہیں ، اس کی رہ نمائی میں ترقی اور کامیابی کی منزلیں طے کرسکتے ہیں۔ لیکن ہم نے اسے گل کر رکھا ہے اور اس سے فائدہ نہیں اٹھارہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کو متعدد مقامات پر ’نور‘ کہا ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہے:
قَدْ جَآئَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیْنٌ o یَّھْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَ یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِہٖ وَ یَھْدِیْھِمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ o (المائدہ ۵:۱۵-۱۶) تمھارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں، سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے اذن سے ان کو اندھیروں سے نکال کر اجالے کی طرف لاتا ہے اور راہِ راست کی طرف ان کی رہ نمائی کرتا ہے۔
مسلمان قرآن کریم سے اپنی گہری عقیدت کا اظہار کرتے ہیں،اسے اپنی مقدّس مذہبی کتاب سمجھتے ہیں اور اس کی ادنیٰ سی توہین بھی برداشت نہیں کرتے۔ اگر کوئی شخص قرآن کے خلاف یا وہ گوئی کرتا ہے یا عملاً اس کی توہین کا مرتکب ہوتا ہے تو ان کا جوشِ انتقام دیدنی ہوتا ہے ۔ وہ اس پر بے چین ہوجاتے ہیں، اس کے خلاف سراپا احتجاج بن جاتے ہیں اور اسے سزا دینے یا دلانے کی ہر ممکن جدو جہد کرتے ہیں اور اس سلسلے میں اپنی جانوں کی بھی پروا نہیں کرتے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کا عملی رویّہ قرآن سے بے اعتنائی کا ہوتا ہے۔ قرآن کا ان کی اپنی ذات سے کیا تعلق ہے؟ وہ ان کی زندگیوں میں کیسی تبدیلی لانا چاہتا ہے؟ وہ کیسا انسان بنانا چاہتا ہے؟ ان سوالات پر وہ مطلق غور نہیں کرتے۔ ان کے اس تضاد کو ایک جملے میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ ’’مسلمان قرآن پر مرنا جانتے ہیں، لیکن اس پر جینا نہیں جانتے‘‘۔
امت مسلمہ کی چودہ سو سالہ تاریخ شاہد ہے کہ جب اس نے قرآن کریم کو اپنا ہادی و راہ نما بنایا، اسے سینے سے لگائے رکھا، اس سے روشنی حاصل کرتی رہی، اس کے احکام و فرامین کو اپنی زندگی میں نافذ کیا اور ان پر عمل پیرا رہی، اس وقت تک اقوامِ عالم کی امامت و قیادت کی زمام اس کے ہاتھ میں رہی، کام یابی و کامرانی نے اس کے قدم چومے اور اس کی عظمت و رفعت مسلّم رہی۔ لیکن جب اس کا رشتہ کتاب اللہ سے کم زور ہوا، اس نے اسے پسِ پشت ڈال دیا اور قرآنی تعلیمات کی جگہ نفسانی خواہشات، ذاتی مفادات اور رسم و رواج نے لے لی تو اس کی ہوا اکھڑ گئی، اس کا شیرازہ منتشر ہوگیا، اس کا رعب و دبدبہ اور سطوت و ہیبت کافور ہوگئی، دوسری قومیں اس پر شیر ہوگئیں اور اس طرح ٹوٹ پڑیں جس طرح بھوکے کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ذلّت و نکبت اور پس ماندگی و شکست خوردگی اس کا مقدّر بن گئی۔ امت مسلمہ کے عروج و زوال کی اس تاریخ پر رسولؐ اللہ کا یہ فرمان صادق آتا ہے:
اللہ اس کتاب کی وجہ سے کچھ قوموں کو بلندی عطا کرتا ہے اور کچھ قوموں کو پستی میں دھکیل دیتا ہے۔(مسلم)
اسی مفہوم کو شاعرِ مشرق علامہ اقبال نے اس شعر میں ادا کیا ہے ؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر
مسلمانوں کی یہ حالتِ بد اللہ تعالیٰ کی سنّتِ جاریہ کے عین مطابق ہے۔ جو امت بھی اس کی کتاب کی قدر نہیں کرتی، اس کے کلام سے بے اعتنائی برتتی ہے اور اس کے احکام پر عمل نہیں کرتی، ذلّت اور پستی اس کا مقدّر بن جاتی ہے۔ وہ اللہ کی کتاب کو چھوڑ دیتی ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اسے بے یار و مددگار چھوڑدیتا ہے۔ یہود اور نصاریٰ کا انجامِ بد اس کی واضح مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ اس نے ان کے پاس اپنی جو کتابیں بھیجی ہیں، اگرانھیں وہ مضبوطی سے تھامے رہے اور ان کی تعلیمات پر عمل کرتے رہے تو اخروی نجات و فلاح کے ساتھ دنیا میں بھی کام یاب و بامراد اور سرخ رو رہیں گے:
وَلَوْ اَنَّھُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ مِّنْ رَّبِّھِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِھِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِھِمْ (المائدۃ ۵:۶۶) اگر انھوں نے تورات اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم کیا ہوتا جو ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس بھیجی گئی تھیں، تو رزق ان کے لیے اوپر سے برستا اور نیچے سے اُبلتا۔
مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا، بلکہ اللہ کی آیات کا انکار کیا، ان سے روگردانی کی اور ان پر عمل نہیں کیا۔ اس کے نتیجے میں وہ اللہ کے غضب کا شکار ہوئے اور دنیا میں ذلیل و خوار ہوکر رہ گئے:
وَ ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَ الْمَسْکَنَۃُ وَ بَآئُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ یَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ ط ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَ o (البقرہ ۲:۶۱)آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ ذلّت و خواری اور پستی و بد حالی ان پر مسلّط ہوگئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھر گئے۔ یہ نتیجہ تھا اس کا کہ وہ اللہ کی آیات سے کفر کرنے لگے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرنے لگے، یہ نتیجہ تھا ان کی نافرمانیوں کا اور اس بات کا کہ وہ حدودِ شرع سے نکل نکل جاتے تھے۔
مسلمانوں کی زندگیوں میں قرآن سے دوری، بے اعتنائی او رغفلت کے مختلف مظاہر پائے جاتے ہیں۔ سطورِ ذیل میں ان کا تذکرہ کیا جاتا ہے:
طاقوں میں سجایا جاتا ہوں ، آنکھوں سے لگایا جاتا ہوں
تعویذ بنایا جاتا ہوں ، دھو دھوکے پلایا جاتا ہوں
جزداں حریر و ریشم کے اور پھول ستارے چاندی کے
پھر عطر کی بارش ہوتی ہے، خوشبو میں بسایا جاتا ہوں
جس طرح سے طوطا مینا کو، کچھ بول سکھائے جاتے ہیں
اس طرح پڑھایا جاتا ہوں، اس طرح سکھایا جاتا ہوں
جب قول و قسم لینے کے لیے، تکرار کی نوبت آتی ہے
پھر میری ضرورت پڑتی ہے ، ہاتھوں پہ اٹھایا جاتا ہوں
اس رویے پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے بڑا لطیف طنز کیا ہے، فرماتے ہیں: ’’بتائیے، اگر کوئی شخص بیمار ہو اور علمِ طب کی کوئی کتاب لے کر پڑھنے بیٹھ جائے اور یہ خیال کرے کہ محض اس کتاب کو پڑھ لینے سے بیماری دور ہوجائے تو آپ اسے کیا کہیں گے؟ کیا آپ نہ کہیں گے کہ بھیجو اسے پاگل خانے میں، اس کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ مگر شافیِ مطلق نے جو کتاب آپ کے امراض کا علاج کرنے کے لیے بھیجی ہے، اس کے ساتھ آپ کا یہی برتاؤ ہے۔ آپ اس کو پڑھتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ بس اس کے پڑھ لینے ہی سے تمام امراض دُور ہوجائیں گے ، اس کی ہدایات پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں، نہ ان چیزوں سے پرہیز کی ضرورت ہے جن کو یہ مضر بتارہی ہے۔ پھر آپ خود اپنے اوپر بھی وہی حکم کیوں نہیں لگاتے جو اس شخص پر لگاتے ہیں جو بیماری دور کرنے کے لیے صرف علمِ طب کی کتاب پڑھ لینے کو کافی سمجھتا ہے‘‘۔(خطبات، ۲۰۰۶ء، ص ۴۱-۴۲)
قرآن نے انھیں اتحاد و اتفاق کے ساتھ رہنے اور انتشار و تفرقہ سے بچنے کی تاکید کی تھی،مگر آج باہمی اختلافات ان کی پہچان ہیں۔اس نے انھیں ایک دوسرے کا مذاق اڑانے،برے القاب سے پکارنے، بدگمانی رکھنے،ٹوہ میں لگنے اور غیبت کرنے سے روکا تھا،مگر آج مسلمانوں میں یہ تمام اخلاقی برائیاں در آئی ہیں۔اس نے انھیں ایک ماں باپ کی اولاد قرار دیتے ہوئے سماجی مساوات کا درس دیا تھا،مگر آج غیر قوموں کی طرح ان کا معاشرہ بھی ذات پات کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے اور کچھ لوگوں کو اشراف اور کچھ کو اراذل قرار دے دیا گیا ہے۔ قرآن نے سود کو حرام قرار دیا تھا، مگر آج ان کی معیشت سودی لعنت کا شکار ہے۔ اس طرح کے اور بھی کتنے قرآنی احکام ہیں جنھیں مسلمان جانتے بوجھتے پامال کر رہے ہیں۔
مولانا مودودی نے بہت موثر اسلوب میں اس رویے پر تنقید کی ہے۔ فرماتے ہیں: ’’آپ اس نوکر کے متعلق کیا کہیں گے جو آقا کی مقرر کی ہوئی ڈیوٹی پر جانے کے بجاے ہر وقت بس اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا رہے اور لاکھوں مرتبہ اس کا نام جپتا چلا جائے۔ آقا اس سے کہتا ہے کہ جا کر فلاں فلاں آدمیوں کے حق ادا کر، مگر یہ جاتا نہیں، بلکہ وہیں کھڑے کھڑے آقا کوجھک جھک کر دس سلام کرتا ہے اور پھر ہاتھ باندھ کرکھڑا ہو جاتا ہے۔آقا اسے حکم دیتا ہے کہ جا اور فلاں فلاں خرابیوں کو مٹا دے، مگر یہ ایک انچ وہاں سے نہیں ہٹتا اور سجدے پر سجدے کیے چلا جاتا ہے… اگرآپ کا کوئی ملازم یہ رویّہ اختیار کرے تو میں نہیں جانتا ہوں کہ آپ اسے کیا کہیں گے۔ مگر حیرت ہے آپ پر کہ خدا کا جو نوکر ایسا کرتا ہے آپ اسے بڑا عبادت گزار کہتے ہیں!یہ ظالم صبح سے شام تک خدا جانے کتنی مرتبہ قرآن شریف میں خدا کے احکام پڑھتا ہے، مگر ان احکام کوبجا لانے کے لیے اپنی جگہ سے جنبش تک نہیں کرتا،بلکہ نفل پر نفل پڑھے جاتا ہے،ہزار دانہ تسبیح پر خدا کا نام جپتا ہے اور خوش الحانی کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرتا رہتا ہے۔آپ اس کی یہ حرکتیں دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیسا زاہد و عابد بندہ ہے‘‘۔(ایضاً، ص۱۱۸)
کچھ مسلمان ایسے بھی ہیں جو قرآن کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کے بجاے قرآن کو اپنی خواہشات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔وہ آیاتِ قرآنی کی دور از کار تاویلیں کرتے ہیں۔ان سے ایسے ایسے معانی مستنبط کرتے ہیں جن سے قرآن کا دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔ قرآن نے ہر طرح کا سود حرام قرار دیا ہے، مگر وہ کہتے ہیں کہ قرآن نے صرف مہاجنی سود کو حرام کیا ہے،بنک کے سود پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔قرآن نے عورتوں کے لیے پردے کے مخصوص احکام دیے ہیں، مگر وہ کہتے ہیں کہ قرآن میں پردے کے احکام عہد نبویؐ میں صرف ازواجِ مطہرات کے ساتھ خاص تھے،عام مسلمان عورتیں ان کی مخاطب نہ اس عہد میں تھیں، نہ اب ہیں۔
مسلمان جب تک اپنے رویّوں میں تبدیلی نہیں لائیں گے ان کے حالات نہیں بدل سکتے۔اللہ تعالیٰ کا قانون اٹل ہے۔اس کی سنت غیر مبدّل ہے۔ گذشتہ قوموں کی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ جس قوم نے اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے تھاما،اسے اپنا دستورِ حیات بنایا وہ بامِ عروج پر پہنچی،اسے دنیاوی ترقی بھی حاصل ہوئی اور دوسری قوموں نے اس کی قیادت و سیادت تسلیم کی۔ اس کے برعکس جس قوم نے اللہ کی کتاب کو فراموش کیا، اس سے غفلت برتی، اسے پسِ پشت ڈالا اور اس پر عمل نہیں کیا، وہ دنیا میں ذلیل و خوار ہوئی اور پستی کے گڑھے میںجاگری۔اس سنّتِ الٰہی کا اطلاق مسلمانوں پر بھی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی روش کو بدلنے اور قرآن سے حقیقی تعلق قائم کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین!