اعمال کے مختلف درجات ہیں۔ ان کے اعتبار سے ان پر حاصل ہونے والے اجروثواب یا سزا و عذاب کے درجات بھی مختلف ہیں۔ کسی نیک عمل پر بڑے اجروثواب کا وعدہ کیا گیا ہے تو کسی پر اس سے کم تر اجروثواب کا۔اسی طرح کسی گناہ کے کام پر دردناک عذاب کی خبر دی گئی ہے تو کسی پر اس سے کم تر عذاب کی۔ لیکن یہ بڑی نادانی کی بات ہوگی کہ کم تر اجروثواب والے عمل کو معمولی اور حقیر سمجھ کر اس پر توجہ نہ دی جائے اور معمولی گناہ کو ہلکا سمجھ کر اس سے بچنے کی کوشش نہ کی جائے۔ جو عمل بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شرفِ قبولیت حاصل کرلے ، وہ انسان کو روزِ قیامت سرخ رو کرسکتا ہے، خواہ وہ عام لوگوں کی نظر میں کتنا ہی معمولی اور حقیر کیوں نہ ہو۔ اور جو عمل بھی اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث ہو، وہ انسان کے لیے موجب ِ ہلاکت ہوسکتا ہے خواہ وہ عام لوگوں کی نظر میں کتنا ہی معمولی اور ہلکا کیوں نہ ہو۔ احادیث میں اس پہلو پر بہت زور دیا گیا ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد مواقع پر صحابہ کرامؓ کو بہ تاکید نصیحت فرمائی ہے کہ وہ کسی چھوٹے سے چھوٹے نیک عمل کو معمولی سمجھ کر نظرانداز نہ کریں۔
آپؐ نے فرمایا: لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوْفِ شَیْئًا (مسلم، ترمذی، سنن ابی داؤد، مسنداحمد) ’’اچھے کاموں میں سے کسی کام کو ہرگز معمولی نہ سمجھو‘‘۔
عربی زبان میں یہ اسلوب اس وقت اختیار کیا جاتا ہے جب کسی چیز سے سختی سے روکنا مقصود ہو۔ اس اسلوب میں جو زور پایا جاتا ہے ، اسے زبان شناس بخوبی محسوس کرسکتے ہیں۔
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ بطریق اجمال اس طرف توجہ دلائی بلکہ اپنے ارشادات میں ایسے متعدد کاموں کا تذکرہ کیا جنھیں عام طور سے بہت معمولی سمجھا جاتا ہے اور زور دے کر فرمایا کہ انھیں ہرگز معمولی نہ سمجھنا چاہیے۔
لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوْفِ شَیْئًا وَلَوْ اَنْ تَلْقٰی أخَاکَ بَوَجْہٍ طَلِقٍ (مسلم) اچھے کاموں میں سے کسی کام کو ہرگز معمولی نہ سمجھو، خواہ یہ تمھارا اپنے بھائی سے خندہ روئی کے ساتھ ملنا ہو۔
کسی سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملنا بظاہر ایک بہت معمولی عمل ہے۔ بسااوقات ہم میں سے کسی کی بھی توجہ اس طرف نہیں جاتی۔ لیکن عملی زندگی میں اس کی بہت اہمیت ہے۔ اس کا احساس ہمیں اس وقت ہوتا ہے جب ہم کسی سے گفتگو کرنا یا اس سے کچھ دریافت کرنا چاہیں اور وہ ہماری طرف التفات نہ کرے یا ترش روئی کے ساتھ جواب دے۔ دیکھنے میں آتا ہے کہ اگر بات کرنے والا یا کچھ دریافت کرنے والا سماجی اعتبار سے کم مرتبے کا ہے تو جواب دینے والا اس کی طرف اس طرح متوجہ نہیں ہوتا جس طرح ہونا چاہیے اور اس کے چہرے پر وہ انبساط نہیں آتا جو مطلوب ہے۔ ایک مومن کے شایانِ شان نہیں کہ وہ اپنے کسی بھائی سے اس حال میں ملے کہ اس کے چہرے پر تکبر اور رعونت کے آثار ہوں یا وہ بالکل سپاٹ اور انبساط، محبت اور اپنائیت کے احساسات سے عاری ہو۔
حضرت ابوجری جابر بن سُلیم الھجیمیؓ بصرہ کے رہنے والے تھے۔ ایک وفد کے ساتھ آں حضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! ہم دیہات کے رہنے والے ہیں۔ ہمیں کچھ کارآمد باتوں کی نصیحت فرمایئے۔ آپؐ نے فرمایا:
لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوْفِ شَیْئًا وَلَو اَنْ تَفْرَغَ مِنْ دَلْوِکَ فِیْ اِنَاءِ الْمُسْتَسْقِیْ ، وَلَوْ اَنْ تَکَلَّم اَخَاکَ وَوَجْھُکَ اِلَیْہِ مُنْبَسِطٌ (مسنداحمد، ۵؍۶۳) اچھے کاموں میں سے کسی کام کو ہرگز معمولی نہ سمجھو، خواہ یہ تمھارے اپنے ڈول سے کسی پیاسے کے برتن میں پانی انڈیلنا ہو، یا تمھارا اپنے بھائی سے خندہ روئی کے ساتھ گفتگو کرنا ہو۔
دوسری روایت میں ابتدائی الفاظ یہ ہیں: لَا تَزْھَدَنَّ فِی الْمَعْرُوْفِ (یعنی کوئی نیک کام کرنے میں بخل سے کام نہ لو)۔
اسے معمولی سمجھ کر چھوڑ نہ دو۔ اس حدیث میں آپؐ نے خندہ روئی سے ملنے کے علاوہ ایک دوسری مثال بھی دی ہے۔ کسی پیاسے کو پانی پلا دینا بظاہر بہت معمولی کام ہے۔ لیکن آپؐ نے تاکید فرمائی کہ اسے بھی انجام دینا چاہیے اور اس پر اجروثواب کی امید رکھنی چاہیے۔ اسے ہرگز معمولی نہ سمجھنا چاہیے۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی کی ہمدردی میں اور محض اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی میں کیا جانے والا یہ معمولی عمل بھی انسان کو جنت کا مستحق بنا سکتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ آں حضرتؐ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک کتے کو شدید پیاسا دیکھ کر ایک عورت کو ترس آیا اور اس نے اسے پانی پلا دیا۔ وہ عورت بدکار تھی۔ اللہ تعالیٰ نے (اس عمل کی وجہ سے) اس کی مغفرت کردی۔(بخاری، کتاب الانبیاء، ترجمہ مسنداحمد، ۲؍۵۰۷)
جب حیوانات کے ساتھ ہمدردی کرنے اور انھیں پانی پلانے کا یہ اجر ہے تو انسانوں کی پیاس بجھانے کا کتنا بڑا اجر ہوگا؟
ہجیمی صحابی ہی سے مروی دوسری روایت میں کسی قدر تفصیل ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اچھے کاموں کے بارے میں دریافت کیا تو آپؐ نے ارشاد فرمایا:
لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوْفِ شَیْئًا ، وَلَوْ اَنْ تُعْطِیَ صِلَۃَ الْحَبْلِ ، وَلَوْ اَنْ تُعْطِیَ شِسْعَ النَّعْلِ ، وَلَوْ اَنْ تُفْرِغَ مِنْ دَلْوِکَ فِیْ اِنَاءِ الْمُسْتَسْقِیْ ، وَلَوْ اَنْ تُنَحِّیَ الشَّیْءَ مِنْ طَرِیْقِ النَّاسِ یُؤُ؎ذِیْھِمْ ، وَلَوْ اَنْ تَلْقَی اَخَاکَ وَوَجْھُکَ اِلَیْہِ مُنْطَلِقٌ ، وَلَوْ اَنْ تَلْقَی أَخَاکَ فَتَسَلَّمَ عَلَیْہِ ، وَلَوْ اَنْ تُؤْنِسَ الْوَحْشَانَ فِیْ الْاَرْضِ
(مسند احمد ؍۴۸۳) اچھے کاموں میں سے کسی کام کو معمولی نہ سمجھو خواہ یہ کام ہوں: کوئی چیز باندھنے کے لیے رسّی دینا، جوتے کا تسمہ دینا ، اپنے برتن سے پانی کسی پیاسے کے برتن میں انڈیلنا، راستے سے لوگوں کو تکلیف پہنچانے والی کوئی چیز ہٹادینا، اپنے بھائی سے خندہ روئی سے ملنا، ملاقات کے وقت اپنے بھائی کو سلام کرنا، بدکنے والے جانوروں کو مانوس کرنا۔
حدیث ِ بالا میں جن کاموں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ دیکھنے میں بہت معمولی ہیں۔ روزمرہ کی ضرورت کی چیز کسی کو دینا، کسی پیاسے کو پانی پلانا، کسی تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا، خوش روئی کے ساتھ کسی سے گفتگو کرنا اور اس طرح کے دیگر کام یوں تو بہت معمولی نوعیت کے ہیں۔ اتنے معمولی کہ بسااوقات ان کی طرف ذہن بھی نہیں جاتا۔ لیکن سماجی اور اخلاقی حیثیت سے ان کی غیرمعمولی اہمیت ہے۔ اس لیے انھیں نظرانداز کرنا اور خاطر میں نہ لانا درست رویہ نہیں ہے۔
سادگی سے دعوت اور معمولی تحفے کو حقیر جاننا :عموماً کسی کو دعوت اس موقعے پر دی جاتی ہے یا کسی کو کھانا اس وقت کھلایا جاتا ہے جب گھر میں معیاری اور اچھے کھانے کا اہتمام ہو، ورنہ ایسا نہیں کیا جاتا۔ اس لیے کہ کھانے کے معیار کو کھلانے والے کی سماجی حیثیت سے جوڑا جاتا ہے۔ آدمی کسی کو گھر کا عام معیار کا کھانا کھلانے میں اپنی سبکی محسوس کرتا ہے۔ اسے اندیشہ ہوتا ہے کہ کھانے والے اس کے بارے میں پتا نہیں کیا کیا باتیں بنائیں اور کیسے کیسے تبصرے کریں؟ اسی طرح جس کو دعوت دی جاتی ہے وہ بھی کھانے کے معیار کو دعوت دینے والے سے اپنے تعلق کا پیمانہ بناتا ہے۔ دعوت کا زبردست اہتمام اس کے نزدیک قربت اور تعلقِ خاطر پر دلالت کرتا ہے اور اس کا عدم اہتمام تعلقات میں سردمہری کا پتا دیتا ہے۔ یہی معاملہ تحفے کے لین دین کا بھی ہے۔ تحفہ دینے والے اور تحفہ لینے والے، دونوں کی نظر اس کے معیار اور مالیت پر ہوتی ہے۔ قیمتی تحفے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور معمولی اور کم قیمت تحفے کو کوئی حیثیت نہیں دی جاتی۔ اللہ کے رسولؐ نے اس رجحان پر تنقید فرمائی ہے اور یہ تعلیم دی ہے کہ اصل اہمیت دعوت یا تحفے کو دینی چاہیے نہ کہ اس کے معیار کو۔ اس لیے کہ ایک دوسرے کو دعوت دینے سے تعلقِ خاطر میں اضافہ ہوتا ہے اور تحائف کا تبادلہ کرنے سے باہم محبت بڑھتی ہے۔ صحابیِ رسولؐ حضرت جابرؓ کی خدمت میں کچھ دوسرے صحابہ ملنے آئے۔ اس وقت ان کے گھر میں صرف روٹی اور سرکہ موجود تھا۔ انھوں نے وہی ان کے سامنے پیش کردیا اور کہا: میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے:
نِعْمَ الْاِدَامُ اَلْخَلُّ، اِنَّہٗ ھَلَاکٌ بِالرَّجُلِ اَنْ یَدْخُلَ عَلَیْہِ النَّفَرُ مِنْ اِخْوَانِہٖ فَیَحْتَقِرَ مَا فِی بَیْتِہٖ اَنْ یُقَدِّمَہٗ اِلَیْھِمْ ، وَھَلَاکٌ بِالْقَوْمِ اَنْ یَحْتَقِرُوْا مَا قُدِّمَ اِلَیْھِمْ (مسنداحمد، ۳؍۳۷۱) بہترین سالن سرکہ ہے۔ اس شخص کے لیے ہلاکت ہے جس کے پاس اس کے کچھ بھائی آئیں تو اس وقت اس کے گھر میں جو کچھ کھانے کو موجود ہو، اسے ان کے سامنے پیش کرنے میں شرمائے اور ان لوگوں کے لیے بھی ہلاکت ہے جو اس معمولی کھانے کو، جو ان کے سامنے پیش کیا جائے، حقارت سے دیکھیں۔
ایک دوسری حدیث حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
لَو دُعِیْتُ اِلٰی ذِ رَاعٍ اَوْ کُرَاعٍ لَأَجَبْتُ ، وَلَوْ أُھدِیَ اِلیَّ ذِراعٌ اَوْ کُرَاعٌ لَقَبِلْتُ (بخاری) اگر مجھے کھانے کی دعوت دی جائے تو میں قبول کرلوں گا خواہ کھانے میں دست ہو یا پائے۔ اور اگر مجھے تحفہ دیا جائے تو قبول کرلوں گا خواہ تحفہ میں دست ہو یا پائے۔
شاید عورتوں میں یہ جذبہ دوسروں کے مقابلے میں کچھ زیادہ پایا جاتا ہے۔ وہ کسی کو کھانا کھلانا یا کسی کے یہاں کھانے کی کوئی چیز بھیجنا اس وقت پسند کرتی ہیں جب ان کے یہاں اہتمام ہو۔ دوسری صورت میں انھیں اپنی حیثیت مجروح ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر کسی کے یہاں پڑوس سے کھانے کی کوئی معمولی چیز آگئی تو وہ اسے پسند نہیں کرتیں اور اس میں اپنی تحقیر محسوس کرتی ہیں۔ اسی لیے اللہ کے رسولؐ نے خاص طور سے عورتوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ کتنی ہی معمولی چیز کیوں نہ ہو، نہ اسے رشتے داروں اور پڑوسیوں کے یہاں بھیجنے میں شرمانا چاہیے اور نہ جس کے یہاں وہ بھیجی گئی ہو، اسے اس کو حقارت کی نظر سے دیکھنا چاہیے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے:
یَانِسَاءَ الْمُسْلِمَاتِ! لَا تَحْقِرَنَّ جَارَۃٌ لِجَارَتِھَا وَلَوْ فِرْسِنَ شَاۃٍ (مسلم) اے مسلمان عورتو! کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کو حقارت سے نہ دیکھے خواہ تحفہ میں بھیجی جانے والی چیز بکری کا کھُر ہو۔
اسی مضمون کی ایک حدیث عمرو بن معاذ الاشہلی کی دادی (حضرت حواء بنت یزید بن سنان الانصاریہؓ) کے واسطے سے مروی ہے جس میں ’محرق‘ کا اضافہ ہے (مسنداحمد، ۶؍۴۳۵)، یعنی اگر کوئی بکری کا جلا ہوا کھُر بھی دے تو اسے حقیر نہ سمجھو۔
اِیَّاکُمْ وَمُحَقَّرَاتِ الذُّنُوْبِ فِاِنَّھُنَّ یَجْتَمِعْنَ عَلَی الرَّجُلِ حَتّٰی یُھْلِکْنَہٗ (مسنداحمد، ۱؍۴۰۲-۴۰۳) معمولی گناہوں سے بچو، اس لیے کہ وہ اکٹھا ہوکر انسان کے لیے موجب ہلاکت بن سکتے ہیں۔
اسی بات کو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تمثیل کے ذریعے سمجھایا ہے کہ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کچھ لوگ ایک بیابان میں ٹھیرے۔ وہاں انھیں کھانا پکانے کے لیے ایندھن کی ضرورت پڑی۔ تمام لوگ منتشر ہوگئے اور ایک ایک آدمی ایک ایک لکڑی لے آیا۔ اس طرح انھوں نے ڈھیر سا ایندھن اکٹھا کرلیا اور اس کے ذریعے کھانا تیار کرلیا۔ اسی طرح کہنے کو تو ایک بہت معمولی سا گناہ ہوتا ہے لیکن ایک ایک کرکے انسان بہت سے گناہوں میں لت پت ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ ہلاکت اور خسران اس کا مقدر بن جاتا ہے۔ (مسنداحمد، ۱؍۴۰۲- ۴۰۳، ۵؍۳۳۱)
دنیا کی کوئی معمولی سے معمولی چیز بھی اللہ تعالیٰ کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ انسان جو کچھ یہاں کرتا ہے ، سب اللہ تعالیٰ کی نظر میں ہے اور اس کے مقرر کردہ فرشتے اسے نوٹ کرتے رہتے ہیں:
وَّ لَاتَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ اِلَّا کُنَّا عَلَیْکُمْ شُھُوْدًا اِذْ تُفِیْضُوْنَ فِیْہِ ط وَمَا یَعْزُبُ عَنْ رَّبِّکَ مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّۃٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَآئِ وَلَآ اَصْغَرَ مِنْ ذٰلِکَ وَ لَآ اَکْبَرَ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ o (یونس۱۰: ۶۱) اور لوگو، تم بھی جو کچھ کرتے ہو، اس سب کے دوران میں ہم تم کو دیکھتے رہتے ہیں۔ کوئی ذرہ برابر چیز آسمان اور زمین میں ایسی نہیں ہے، نہ چھوٹی نہ بڑی، جو تیرے رب کی نظر سے پوشیدہ ہو اور ایک صاف دفتر میں درج نہ ہو۔( مزید دیکھیے، السبا۳۴ :۳)
قیامت کے دن بارگاہِ الٰہی میں انسان کا نامۂ اعمال اس کے سامنے پیش کیا جائے گا تو وہ دیکھے گا کہ اس کا معمولی سے معمولی عمل بھی خواہ وہ نیکی کا ہو یا گناہ کا، اس میں درج ہوگا اور اس کے مطابق اس کے ساتھ برتائو کیا جائے گا:
فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ o وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ o (الزلزال ۹۹:۷-۸) پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی، وہ اس کو دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی، وہ اس کو دیکھ لے گا۔
اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم صحابہؓ کو معمولی معمولی گناہوں سے بھی بچنے کی تاکید فرمایا کرتے تھے اور انھیں ہوشیار کرتے تھے کہ بارگاہِ الٰہی میں ان کا بھی حساب دینا ہوگا۔ اُم المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
یَاعَائِشَۃُ! اِیَّاکِ وَمُحَقَّرَاتِ الذُّنُوْبِ ، فَاِنَّ لَھَا مِنَ اللہِ عَزَّوَجَلَّ طَالِبًا (مسنداحمد ، ۶؍۷۰، سنن ابن ماجہ) اے عائشہ! معمولی گناہوں سے بچو، اس لیے کہ اللہ کے یہاں ان کا بھی حساب ہوگا۔
مسند احمد کی ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہؓ کو برابر اس کی تاکید فرماتے رہتے تھے۔
شیطان انسانوں کو بہکانے کے لیے اسی چور دروازے کا سہارا لیتا ہے۔ وہ ان کے سامنے بظاہر معمولی گناہوں کو ہلکا کرکے پیش کرتا ہے اور یہ تاثر دیتا ہے کہ ان سے بچنا کسی انسان کے لیے ممکن نہیں ہے۔ اچھے اچھے لوگ آسانی سے اس کے اس بہکاوے میں آجاتے ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقعے پر اپنی اُمت کو جہاں بہت سی چیزوں کی تعلیم دی تھی اور بہت سے معاملات میں انھیں متنبہ کیا تھا، وہاں آپؐ نے اس پہلو سے بھی ان کی رہنمائی فرمائی اور شیطان کے اس ہتھکنڈے سے انھیں ہوشیار کیا تھا۔ حضرت عمرو بن الاحوصؓ سے روایت ہے کہ آں حضرتؐ نے ارشاد فرمایا:
اَ لَا وَ اِنَّ الشَّیْطٰنَ قَدْ أَیِسَ اَنْ یُعْبَدَ فِیْ بِلَادِکُمْ ھٰذِہٖ اَبَدًا ، وَلٰکِنْ سَتَکُوْنُ لَہٗ طَاعَۃٌ فِیْمَا تَحْتَقِرُوْنَ مِنْ اَعْمَالِکُمْ فَسَیَرْضٰی بِہٖ (ترمذی، ابواب الفتن، باب ماجاء فی تحریم الدماء والاموال، مسند احمد ،۲؍۳۶۸) خبردار! شیطان اس سے تو مایوس ہوچکا ہے کہ تمھارے اس علاقے میں اس کی پرستش کی جائے گی لیکن اس کا اندیشہ ہے کہ جن کاموں کو تم بہت معمولی سمجھتے ہو، ان میں اس کی اطاعت کرو گے اور وہ اسی سے خوش رہے گا۔
علما نے لکھا ہے کہ صغیرہ گناہ اگر کثرت سے اور بار بار کیے جائیں تو وہ کبیرہ گناہ بن جاتے ہیں۔ محدث ابن بطال فرماتے ہیں:
اَلْمُحَقَّـــرَاتُ اِذَا کَثُرَتْ صَارَتْ کِبَارًا مَعَ الْاِصْرَارِ (فتح الباری، ابن حجر عسقلانی، دارالمعرفۃ، بیروت،۱۱؍۳۳۰ ) یعنی معمولی گناہ جب بہت زیادہ ہوجائیں اور انھیں بار بار کیا جائے تو وہ کبیرہ گناہ بن جاتے ہیں۔
حضرات صحابہ کرامؓ اس معاملے میں بہت زیادہ محتاط رہتے تھے۔ وہ جتنی اہمیت کبیرہ گناہوں کو دیتے تھے اور ان سے بچنے کی کوشش کرتے تھے اتنی ہی اہمیت صغیرہ گناہوں کو دیتے تھے اور انھیں بھی موجب ِ ہلاکت و خسران تصور کرتے تھے اور شعوری طور پر ان سے بچنے کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ حضرت انس بن مالکؓ نے اپنے شاگردوں میں جب اس معاملے میں تساہل دیکھا تو انھیں ٹوکتے ہوئے فرمایا:
اِنَّکُمْ لَتَعْمَلُوْنَ اَعْمَالًا ھِیَ اَدَقُّ فِیْ أَعْیُنِکُمْ مِنَ الشَّعْرِ ، اِنْ کُنَّا نَعُدُّھَا عَلٰی عَھْدِ النَّبِیِّ مِنَ الْمُوْبِقَاتِ (بخاری) تم لوگ ایسے کام کرتے ہو جو تمھاری نگاہوں میں بال سے زیادہ باریک ہیں (یعنی تم انھیں بہت معمولی سمجھتے ہو) لیکن ہم نبیؐ کے عہد میں انھیں موجب ِ ہلاکت تصور کرتے تھے۔
کامیاب انسان وہ ہے جو گناہوں کو صغیرہ اور کبیرہ کے خانوں میں تقسیم کر کے صغیرہ گناہوں کے معاملے میں ڈھیل نہ اختیار کرے بلکہ گناہ کے ہرکام سے بچنے کی کوشش کرے، چاہے وہ بڑے سے بڑا گناہ ہو یا چھوٹے سے چھوٹا۔ اور نیکی کے ہرکام کی طرف لپکے، چاہے وہ بڑے سے بڑا کام ہو یا معمولی سے معمولی کام۔
عصرحاضر میں جدید ٹکنالوجی اور جینیات میں روزافزوں ترقی نے خیر کے بہت سے کاموں کے ساتھ، بعض صورتوں میں اخلاقی و سماجی تخریب کے نہایت بنیادی سوالات بھی کھڑے کیےہیں۔ اسی مناسبت سے یہاں پر ایک قلمی فقہی مذاکرے میں سوال اور قضیہ پیش کیا گیا ہے۔ جس کے جواب میں پاکستان سے جیّد عالمِ دین محترم مولانا مفتی منیب الرحمٰن صاحب (کراچی) اور بھارت سے محترم مولانا ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی (نئی دہلی) کی جانب سے رہنمائی پیش کی جارہی ہے۔(ادارہ)
محترم و مکرم مفتی منیب الرحمٰن صاحب /محترم ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
بلاشبہہ ہر زمانہ اور ہر عہد اپنے تقاضے، مطالبات اور چیلنج لے کر سامنے آتا ہے۔ پھر یہ بھی ظاہر ہے کہ اسلام، ماضی سے حال اور حال سے مستقبل، یعنی ہر زمانے کے لیے آیا ہے۔ اور یہ بھی واضح ہے کہ مسلمانوں کو ہمیشہ اسلام پر خود عمل پیرا ہونے کے ساتھ، ہر زمانے میں دوسروں (نوعِ انسانی) کے سامنے دعوت پیش کرنے کا فریضہ انجام دینا ہے۔
ہر زمانے میں مسائل و مشکلات کی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے دو صورتیں رہی ہیں: پہلی یہ کہ اسلام کے بنیادی اصولوں پر کوئی سمجھوتا کیے بغیر، پیش آمدہ مسائل و مشکلات کا حل پیش کیا گیا، اور دوسرا یہ کہ مسائل و مصائب کے پہاڑ کے سامنے فدویانہ خودسپردگی کرتے ہوئے، خود اسلام میں قطع و بُرید کی کوشش کی گئی اور اسے چیلنجوں کے حسب ِ حال بنا کر گزارا کیا گیا۔ پہلا راستہ ایمان، عزیمت اور دانشِ بُرہانی کا تھا اور دوسرا طریقہ ترمیم پسندی ، مرعوبیت اور دین میں تحریف کا۔ پہلے راستے پر علما،فقہا،محدثین، مفسرین اور متکلمین اسلام کی ایک بڑی شان دار تعداد نے علم و نُور کے چراغ روشن کیے۔ اور دوسرے طریقے پر چلنےوالوں نے شرمندگی، انتشار اور تذبذب کے ایسے کانٹے بکھیرے، جن سے اُمت مسلمہ کو فکری اور سماجی سطح پر سخت نقصان پہنچا۔ اس دوسری قسم میں چراغ علی، احمد دین امرتسری، عنایت اللہ خاںمشرقی، مرزا غلام احمد قادیانی، غلام احمد پرویز وغیرہ اور انھی کی خوشہ چینی کرتے ہوئے کچھ ڈگری یافتگان بھی شامل رہے ہیں۔
ذیل میں وہ سوال درج کیا جا رہا ہے، جو جناب جاوید احمد غامدی کے باقاعدہ نظام کے تحت چلائے جانے والے سوشل میڈیا پر فراہم کیا گیا۔ ایسے پروگرام سوچ سمجھ کر اور پوری تیاری کے ساتھ کیے جاتے ہیں، ایسے ہی سرِراہ چلتے چلتے نہیں کیے جاتے۔ ان پروگراموں میں سامعین بھی گنے چنے ہوتے ہیں اور سوالات بھی سوچے سمجھے۔ مذکورہ پروگرام میں ایک خاتون سوال کرتی ہیں:
میرا سوال Surrogate [متبادل] ماں کے حوالے سے ہے۔ آج کے دور میں یہ مسئلہ سامنے آیا ہے کہ اگر ایک خاتون ماں نہیں بن سکتی اور اس میں کچھ Physical (جسمانی) مسائل ہیں، تو دوسری خاتون کو کرائے پر حاصل کرکے اس سے بچہ پیدا کرایا جاتا ہے۔ ایک تو اس حوالے سے بتادیجیے کہ اس میں آپ کی کیا راے ہے؟ دین اسلام کے اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے کیا یہ صحیح ہے؟
دوسرا یہ کہ ایک خاتون کو جسمانی مسائل نہیں ہیں لیکن وہ محض خود بچہ پیدا نہیں کرنا چاہتی، اور وہ [میاں، بیوی] باہر سے دوسری خاتون کو حاصل کرکے بچہ پیدا کرواتے ہیں تو کیا اس طریقے سے بھی جائز ہے؟
جواب میں جاوید احمد صاحب کہتے ہیں:
میرے نزدیک اس مسئلے کا تعلق ’رضاعت‘ سے ہے اور وہ قرآن میں بیان ہوگیا ہے۔ آپ کے علم میں ہے کہ یہ بات اللہ کی طرف سے واضح کردی گئی ہے کہ اگر کسی خاتون نے بچے کو دودھ پلادیا ہے تو اس سے تمام رشتے قائم ہوجاتے ہیں۔ لیکن یہ علانیہ ہونا چاہیے اور یہ ہر ایک پر واضح ہونا چاہیے کہ اس طریقے کا تعلق قائم کیا جائےگا۔ اگر محض چھاتیوں کا تعلق قائم کردینے کے نتیجے میں اتنی حرمتیں واقع ہوگئیں، تو یہاں [یعنی کرائے پر بچہ پیدا کرنے کی صورت میں] بھی واقع ہوں گی۔ یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں ہے کہ آپ نے کرایہ دیا اور فارغ ہوگئے۔ متعین طور پر معلوم ہونا چاہیے، اس کا اعلان ہونا چاہیے، بچے کے بارے میں واضح ہونا چاہیے کہ فلاں اس کی ماں ہے اور اس کے نتیجے میں جو رشتے پیدا ہوتے ہیں وہ تمام رشتے اسی طرح پیدا ہوجائیں گے کہ جس طرح ’رضاعت‘ میں پیدا ہوتے ہیں۔ ان تمام چیزو ں کا لحاظ کرکے کوئی آدمی اس جدید تکنیک سے فائدہ اُٹھاتا ہے تو اس پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔
جہاں تک دوسری صورت کا تعلق ہے، تو اس کا جواب بھی اسی میں موجود ہے، کہ دودھ نہیں اترا تو اس صورت میں بھی ’رضاعت‘ کا تعلق قائم کرلیا اور دودھ اترا ہے تو اس کے باوجود رضاعت کا تعلق قائم کرلیا___ دونوں صورتوں میں ٹھیک ہے لیکن یہ علانیہ ہونا چاہیے، یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح آپ ماں کا انتخاب کرتے ہیں، یعنی جیسے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے حلیمہ سعدیہ کا دودھ پیا، اور وہ ماں کے درجے میں ہیں۔ ان کے تمام رشتے اسی طرح ہوں گے۔ قرآن مجید تو یہاں تک چلا گیا کہ جس خاتون کا دودھ پیا ہے آپ نے، اور پھر کسی اور نے بھی اسی خاتون کا دودھ پیا ہے، تو آپ کے باہم وہی رشتہ پیدا ہوجائے گا جو بہن بھائی کا ہے۔
یہ علانیہ ہونا چاہیے، ابہام نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں ماں اور نان و نفقے کے حقوق قائم ہوجائیںگے اور جو کچھ معاہدہ ہوا ہے اس کی پابندی کرنی پڑے گی، اور اس کے نتیجے میں جو رشتے پیدا ہوتے ہیں، ان رشتوں کو بھی وہی حُرمت ملے گی، یعنی نکاح ہونا ہے طلاق ہونا ہے، دین میں ایسے [صورت] ہوگی اگر کسی نے کرنی ہے۔{ FR 737 }
اس مبہم اور متضاد جواب نے ایسی صورتِ حال پیدا کی ہے کہ جس میں بہت سے اشکالات پیدا ہوتے ہیں:
۱- دوسری عورت کی جانب سے، غیر عورت کے بچے کو دودھ پلانے، یعنی رضاعت اور ایک بے نکاحی ماں کے بطن سے غیرمرد کے بچے کی پیدایش کا آپس میں برابری کا کیا تعلق ہے؟
۲- بچے کی پیدایش کے لیے داخلی، جسمانی اور جذباتی کیفیات ___ اور دودھ پلانے کے عمل کو قائم مقام قرار دینا کہاں تک عقلی اور دینی مصالح کے تحت درست استدلال ہے؟
۳- بچے کی خواہش رکھنے والے والدین یا خود بچہ پیدا نہ کرنے والی عورت کی جانب سے کسی غیرعورت سے بچے کی پیدایش کا اہتمام کرنا کیسے اخلاقی، سماجی و قانونی سوال پیدا کرتا ہے؟
۴- ایک غیرمرد کے نطفے کو مصنوعی طور پر دوسری عورت کے ہاں منتقل کرنا، کہ جو اس مرد کے نکاح میں نہیں ہے، کیا یہ ایک ’میکانکی زنا‘تصور نہیں کیا جائے گا؟ اوراس صورت میں پیدا ہونے والا بچہ جائز اور ناجائز کی کون سی قسم سے منسوب ہوگا؟
۵- اس کلام و بیان کے ساتھ یہ خدشہ موجود ہے کہ کل جاوید صاحب یہ بھی کہہ گزریں: ’’کمزور یا عدم بارآور سپرم رکھنے والا مرد، کسی دوسرے مرد یا دوست کا سپرم خرید کر یا تحفے میں لے کر، اپنی اہلیہ محترمہ کے ہاں میکانکی انداز سے منتقل کروا کر بچہ حاصل کرسکتا ہے، لیکن اس کا باقاعدہ اعلان کرنا ہوگا‘‘۔
۶- کیااس شکل میں یہ صورتِ حال نہیں پیدا ہوگی کہ دولت مند مرد اور دولت مندعورتیں، اپنی دولت کے بل بوتے پر ’بچہ سپرمارکیٹ‘ سے بچے خریدنے یا بنوانے لگیں اور دولت نہ رکھنے والے والدین ’بچے کی خریدوفروخت‘ کے لیے تدابیر سوچنے لگیں۔ یوں میکانکی تناسل اور توالد کا ایک ایسا کھیل شروع ہو، جس میں ماں کا وجود، مرد کے سپرم اور بچے کی پیدایش کا تعلق، منڈی کی معیشت سے جڑ جائے۔ اور پھر سماجی، اخلاقی اور خانگی ڈھانچا ایک ایسی تہذیب پیدا کرے، جس میں نکاحی بیوی، اپنے خاوند کا بچہ دوسری بے نکاحی عورت سے جنوائے یا ایک مرد کسی دوسرے مرد سے نطفہ خریدکر کسی اور جگہ سے بچہ پیدا کرائے گا، تو یوں واقعی ’میرا جسم میری مرضی‘ ہی کا بول بالا ہوگا؟
مغرب اور غیرمسلم دُنیا میں ان خطوط پر کام ہو رہا ہے اور اس لہرسے متاثر ’روشن خیال‘ ’ماہرین‘ اسلامی فکریات جدیدیت سے مرعوبیت یا ’آسانی پیدا کرنے‘ کے ذوق و شوق میں کہاں کی اینٹ اور کہاں کے روڑے کا ملاپ کرا رہے ہیں۔ اس طرزِفکر کے بہرحال اثرات مسلمانوں کے تہذیب و تمدن پر پڑسکتے ہیں۔ اس لیے درخواست ہے کہ شخصی حوالے کو نظرانداز کرکے، مجرد مسئلے کی نوعیت اور مذکورہ بالا جواب میں اُبھرنے والی گمراہ کن سوچ کا جائزہ لے کر اور دین کے منشا اور حکمت کو بیان فرمائیں۔
والسلام
سلیم منصور خالد
rمحترم مفتی منیب الرحمٰن ، رئیس دارالافتاء جامعہ نعیمیہ ،کراچی
﷽
اَلْجَوَابُ ھُوَ الْمُوَفَّقُ لِلصَّوَاب
Surrogate Motherاُس عورت کو کہتے ہیں، جو اپنا رحم اوربیضہ کسی غیر مرد کے نطفے کی افزایش کے لیے رضاکارانہ طور پر یا اجرت کے عوض پیش کرے۔ یہ عمل شرعاً اور اخلاقاً جائز نہیں ہے،حدیث پاک میں ہے:
عَنْ رُوَيْفِعِ بْنِ ثَابِتٍ الْاَنْصَارِيِّ، قَالَ: قَامَ فِيْنَا خَطِيْبًا، قَالَ: أَمَا إِنِّي لَا أَقُوْلُ لَكُمْ إِلَّا مَا سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللَّهِ يَقُوْلُ يَوْمَ حُنَيْنٍ: قَالَ:لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُوْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْقِيَ مَاءُهٗ زَرْعَ غَيْرِهٖ،يَعْنِي: إِتْيَانَ الْحَبَالٰى،وَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُوْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَقَعَ عَلَى امْرَأَةٍ مِنَ السَّبْيِ حَتّٰى يَسْتَبْرِئَهَا، وَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُوْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَبِيْعَ مَغْنَمًا حَتّٰى يُقْسَمَ، ترجمہ:’’رُوَیفع بن ثابت انصاری بیان کرتے ہیں: (ایک دن) ایک شخص نے ہمارے درمیان خطبہ دیتے ہوئے کہا: میں تمھیں وہی بات کہنے جارہا ہوں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے غزوۂ حنین کے موقع پر سنی ، آپؐ نے فرمایا: جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اس کے لیے حلال نہیں ہے کہ اس کا پانی (نطفہ) کسی غیر کی کھیتی (رحم) کو سیراب کرے، یعنی اسے حاملہ کرے، اور جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اُس کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ رحم پاک ہونے تک کسی جنگی قیدی عورت سے مباشرت کرے، اور جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اس کے لیے حلال نہیں ہے کہ تقسیم سے پہلے مالِ غنیمت میں سے کسی چیز کو فروخت کرے [کیونکہ مالِ غنیمت کی تقسیم سے پہلے اس میں دوسروں کے حقوق بھی شامل ہوتے ہیں]‘‘۔(سنن ابوداؤد: ۲۱۵۸)
اس حدیث مبارک کے مطابق اپنی منکوحہ کے علاوہ کسی دوسری اجنبی خاتون کی کھیتی کو سیراب کرنے سے مراد جنسی ملاپ یا دیگر طبّی طریقوں سے اُس کے رحم میںاپنامادّہ مَنویّہ پہنچانا ہےاور یہ عمل حرام ہے۔لہٰذا، جب بیوی کے رحم میں شوہر کے علاوہ کسی اور شخص کے جرثومے رکھے جائیں گے تو وہ ازروئے حدیث حرام ہوگا اور جب بیوی کے علاوہ کسی دوسری عورت کے رحم میں شوہر اور بیوی کا مادّہ مَنویّہ رکھاجائے گا، تب بھی وہ عورت غیر کی کھیتی ہے۔اس لیے اس کے رحم میں شوہرکے علاوہ کسی اور کا مادّہ مَنویّہ رکھنا ناجائز ہوگا ۔لیکن اس پر عمل زنا کی تعریف صادق نہیں آتی، البتہ یہ عمل واضح طور پر گناہ کا باعث ہےاورمعناً زنا ہے،کیونکہ اس سےاُس عورت کا حمل قرار پاسکتا ہے۔ جہاں تک بچے کے نسب کا تعلق ہے تو اس کا نسب، صاحبِ نطفہ کے ساتھ قائم نہیں ہوگااور نہ اس کی منکوحہ بیوی اس بچے کی ماں کہلائے گی۔ لہٰذا، شرعاً نہ تو یہ بچہ اُن کا وارث ہوگا اور نہ یہ دونوں بچے کے وارث بنیں گے۔بچے کی ماں وہی عورت کہلائے گی کہ جس کےبطن سےاُس نے جنم لیا ہے۔چنانچہ اللہ کا تعالیٰ کا ارشاد ہے:
۱- اِنْ اُمَّہٰتُہُمْ اِلَّا اڿ وَلَدْنَہُمْ۰ۭ ترجمہ:’’اور ان کی مائیں تو وہی ہیں، جنھوں نے انھیں جنا ہے (المجادلہ۵۸:۲)‘‘۔
۲- حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ كُرْہًا وَّوَضَعَتْہُ كُرْہًا۰ۭ ترجمہ: ’’اس (یعنی انسان کو) اُس کی ماں نے مشقت سے پیٹ میں اُٹھائے رکھا اور مشقت ہی سے جنا (الاحقاف ۴۶: ۱۵)‘‘۔
پہلی آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حقیقت میں انسان کی ماں وہی عورت ہے، جس نےاُسے جنم دیا ہے،اور دوسری آیت میں مزید صراحت کے ساتھ فرمایا :’’ انسان کی ماں وہ عورت ہے، جو حمل کو پیٹ میں رکھتی ہے اور پھر اسے جنتی ہے‘‘۔
اس کی مزید وضاحت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پیش آنے والےاس مشہور واقعے سے ہوتی ہے: حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے بھائی عُتبہ نے مرتے وقت اپنے بھائی سعد کو یہ وصیت کی کہ زَمعہ (جوکہ اُم المومنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کےوالدتھے) کی لونڈی کا بیٹا عبدالرحمٰن میرے نطفہ سے ہے، لہٰذا تم اس کو لے لینا۔ چنانچہ سعد رضی اللہ عنہ جب بچہ کو لینے گئے تو زَمعہ کےبیٹےعبدکہنے لگے کہ یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی کا بچہ ہے۔پھر یہ مقدمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیش ہوا۔چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں:
كَانَ عُتْبَةُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ عَهِدَ إِلٰى أَخِيْهِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَنَّ ابْنَ وَلِيْدَةِ زَمْعَةَ مِنِّيْ فَاقْبِضْهُ، قَالَتْ: فَلَمَّا كَانَ عَامَ الفَتْحِ أَخَذَهٗ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ وَقَالَ: ابْنُ أَخِي قَدْ عَهِدَ إِلَيَّ فِيْهِ، فَقَامَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ، فَقَالَ: أَخِي، وَابْنُ وَلِيْدَةِ أَبِي، وُلِدَ عَلٰى فِرَاشِهٖ، فَتَسَاوَقَا إِلَى النَّبِيِّ ، فَقَالَ سَعْدٌ: يَا رَسُوْلَ اللَّهِ! ابْنُ أَخِيْ كَانَ قَدْ عَهِدَ إِلَيَّ فِيْهِ، فَقَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ: أَخِي، وَابْنُ وَلِيْدَةِ أَبِي، وُلِدَ عَلٰى فِرَاشِهٖ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ:هُوَ لَكَ يَا عَبْدُ بْنَ زَمْعَةَ!، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ:اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ، ثُمَّ قَالَ لِسَوْدَةَ بِنْتِ زَمْعَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ : اِحْتَجِبِيْ مِنْهُ لِمَا رَأٰى مِنْ شَبَهِهِ بِعُتْبَةَ فَمَا رَآهَا حَتّٰى لَقِيَ اللهَ ، ترجمہ:’’ عُتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو یہ وصیت کی: ’’زَمعہ کی باندی کا بیٹا میرے نطفہ سے ہے ،تم اس پر قبضہ کرلینا‘‘۔ حضرت عائشہؓ نے کہا:’’ جب فتح مکہ کا سال آیا تو حضرت سعد بن ابی وقاص نے زَمعہ کے بیٹے کو لے لیا اور کہا: یہ میرا بھتیجا ہے اور میرے بھائی نے مجھے اس کی وصیت کی تھی‘‘۔ پھر حضرت عبد بن زَمعہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا:’’ یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی باندی کا بیٹا ہے اور اس کے بستر پر پیدا ہوا ہے‘‘۔ پھر ان دونوں نے اپنا مقدمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’یارسولؐ اللہ! یہ میرا بھتیجا ہے ،اس کے متعلق عتبہ نے مجھے وصیت کی تھی ‘‘۔ حضرت عبد بن زَمعہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی باندی کا بیٹا ہے، ان کے بستر پر پیدا ہوا ہے‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے عبد بن زَمعہ! وہ تمھارا (بھائی) ہے‘‘۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بچہ اس کا ہے، جس کے بستر پر پیدا ہوا اور زانی کے لیے پتھر ہے‘‘۔ پھر آپؐ نے اُمُّ المومنین سَودہ بنت زَمعہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ’’سَودہ! تم اس سے پردہ کرنا‘‘، کیونکہ آپ نے اس لڑکے میں عُتبہ کی مشابہت دیکھی تھی‘‘۔ پھر زَمعہ کے بیٹے نے حضرت سَودہ کو نہیں دیکھا، حتیٰ کہ وہ اللہ تعالیٰ سے جاملا‘‘۔(صحیح البخاری:۲۰۵۳)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’ اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاھِرِ الْحَجَر‘‘ کے شرعی اصول کے تحت بچے کی ولدیت کے بارے میں فیصلہ عَبد بن زمعہ کے حق میں دیا کہ وہ ’’تمھارا بھائی ہے، اور چونکہ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے حقائق پر بھی مطلع فرمایا تھا ،اس لیے آپؐ نے حضرت سودہ بنتِ زمعہ رضی اللہ عنہا کو حقیقتِ واقعہ کی بنا پر پردے کا حکم فرمایا۔
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ تعالیٰ لفظِ ’فِراش‘ کی شرح میں لکھتے ہیں:
قَـوْلُهٗ: اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ: أَيْ لِمَالِكِ الْفِرَاشِ وَهُوَ السَّيِّدُ أَوِ الزَّوْجُ ، ترجمہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ’’بچہ فِراش کا ہے‘‘ سے مراد ’مَالِکُ الْفِرَاش‘ ہے، یعنی وہ عورت جس سے شریعت نے کسی مرد کے لیے مباشرت کو حلال قرار دیا ہے اور وہ کسی کی منکوحہ بیوی ہے یا باندی ‘‘۔(فتح الباری، ج۱، ص۱۶۶)
علامہ بدرالدین عینی رحمہ اللہ تعالیٰ اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
قَوْلُهٗ :اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ : أَيْ لِصَاحِبِ الْفِرَاشِ، إِنَّمَا قَالَ: ذٰلِكَ عَقِيْبَ حُكْمِهٖ لِعَبْدِ بْنِ زَمْعَةَ إِشَارَةٌ بِأَنَّ حُكْمَهٗ لَمْ يَكُنْ بِمُجَرَّدِ الْاِسْتِلْحَاقِ بَلْ بِالْفِرَاشِ، فَقَالَ: اَلْوَلَدُ لِلْفِراشِ ،وَأجْمَعَتْ جَمَاعَةٌ مِنَ الْعُلَمَآءِ بِاَنَّ الْحُرَّةَ فِرَاشٌ بِالْعَقْدِ عَلَيْهَا مَعَ إِمْكَانِ الْوَطْءِ وَإِمْكَانِ الْحَمْلِ، فَإِذَا كَانَ عَقْدُ النِّكَاحِ يُمْكِنُ مَعَهُ الْوَطْءَ وَالْحَمْلَ، فَالْوَلَدُ لِصَاحِبِ الْفِرَاشِ لَا يَنْتَفِيْ عَنهُ أبَدًا بِدَعْوٰى غَيْرِهٖ وَلَا بِوَجْهٍ مِنَ الْوُجُوْهِ إِلَّا بِاللِّعَانِ ،ترجمہ: ’’رسول اللہ ﷺ کے فرمان’’بچہ فِراش کا ہے‘‘، سے مراد ’’صَاحِبُ الْفِرَاش‘‘ ہے۔ یہ ارشاد آپؐ نے عبدبن زَمعہ کا حکم بیان کرنے کے بعد فرمایا، یہ اس طرف اشارہ ہے کہ محض اِسْتِلْحَاق (یعنی کسی کے نسب کو اپنے ساتھ لاحق کرنے کے مطالبے)سے نسب ثابت نہیں ہوتا ، بلکہ فِراش سے ثابت ہوتا ہے ، آپؐ نے فرمایا:’’ بچہ صاحب فِراش کا ہے‘‘۔ علماء کی ایک جماعت کا اس پر اجماع ہے کہ آزاد عورت کا فِراش ہونا نکاح سے ثابت ہوتا ہے، جب کہ وطی کرنا اور حمل قرار پاناممکن ہو۔ پس جب اس امکان کے ساتھ نکاح منعقد ہو تو بچہ صاحبِ فِراش کا ہوگا۔ لعان کے سوا کسی غیر کے دعوے یا کسی اور سبب سے بچے کا نسب اُس سے منقطع نہیں ہوگا‘‘۔(عمدۃ القاری، ج۱۱، ص ۱۶۸)
علامہ غلام رسول سعیدی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ’’اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاش‘کے بعد فرمایا: لِلْعَاھِرِ الْحَجَر،’’بچہ اس کا ہے، جس کے بستر پر ہو اور زانی کے لیے پتھر ہے (یعنی نسبت ِ نسب سے محرومی) ‘‘۔ اس سے واضح ہوگیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو علم تھا کہ یہ بچہ زنا سے پیدا ہوا ہے، زَمعہ کے نطفے سے پیدا نہیں ہوا۔ اس کے باوجود آپ نے اس بچے کو زمعہ کے ساتھ لاحق کردیا۔ اس سے ظاہر ہوگیا کہ ثبوت نسب، صاحبِ نسب کے پانی اور اس کی وطی پر موقوف نہیں ہے ،بلکہ فِراش پر موقوف ہے ۔ جس کا فِراش ہوگا ،اس کا نسب ہوگا خواہ اس نے وطی کی ہو یا نہ کی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہؒ نے فِراش ہونے کے لیے امکان وطی کی شرط نہیں رکھی (شرح صحیح مسلم، ج۳،ص۹۳۴)‘‘۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بچے کا نسب صاحبِ فراش سے ثابت ہوگا، اور صاحبِ فِراش سے مراد یہ ہے کہ وہ عورت جس کے نکاح میں ہے۔اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’زانی کے لیے پتھر ہے‘‘، یعنی ایسا صاحبِ نطفہ اُس بچے کی نسبتِ نسب کے اعزاز سے محروم رہے گا۔ پس، جب بچے کا نسب صاحبِ فراش کے ساتھ لاحق ہوگا تو اس کی بیوی اس کی ماں قرار پائے گی اور اس عورت کا شوہر اس کا باپ قرار پائے گا، کیونکہ ثبوتِ نسب بھی شرعی ضروریات میں سے ہے اور اسی طرح دیگر رشتے قائم ہوں گے۔یہ مسئلہ کنواری ’مَزنیہ‘ ( جس سے زنا کیا گیاہو) کے بارے میں نہیں، بلکہ کسی کی منکوحہ کے بارے میں ہے۔
جاوید غامدی صاحب نے تواجرت کے عوض یا رضاکارانہ طور پر اپنا بیضہ اور رحم فراہم کرنے والی عورت کو ’رضاعی ماں‘ قرار دیاہے، جب کہ حدیث نبویؐ میں تو اسے ’حقیقی ماں‘ ہی کا حکم دیا گیا ہے۔ رضاعی ماں تو اُسے کہتے ہیں کہ کسی کے ہاں بچہ پیدا ہوجائے اور پھر وہ بچہ ’مدتِ رضاعت‘ (یعنی ڈھائی برس) کے اندرکسی دوسری عورت کا دودھ پیے ،وہ ’رضاعی ماں‘ کہلائے گی۔ اُس کا شوہر بچے کا رضاعی باپ کہلائے گا اور اسی طرح دوسرے رضاعی رشتے بھی قائم ہوں گے۔ یہ شریعت میں کوئی عیب نہیں ہے۔ یہ شعار اسلام سے پہلے بھی عالمِ عرب میں رائج تھا اور اسلام نے اسے برقرار رکھا ہے اور اس میں نسب کے حوالے سے کوئی ابہام نہیں رہتا۔
اگرجاوید غامدی صاحب کے بیان کیے ہوئے اصول کو قبولِ عام دے دیا جائے، تو آپ نے اِشکال نمبر۵میں جویہ لکھا ہے :’’اس کلام وبیان کے ساتھ یہ خدشہ موجود ہے کہ کل جاویدصاحب یہ بھی کہہ گزریں: ’’کمزور یا عدم بار آور سپرم رکھنے والا مرد، کسی دوسرے مرد یا دوست کا سپرم خرید کر یا تحفے میں لے کر، اپنی اہلیہ محترمہ کے ہاں میکانکی انداز سے منتقل کرواکے بچہ حاصل کرسکتا ہے، لیکن اس کا باقاعدہ اعلان کرنا ہوگا‘‘، اس کے وقوع کے امکان کو رَدّ نہیں کیا جاسکتا۔ جس طرح مغرب میں جنسی تسکین کے لیے مصنوعی اعضائے تناسل اور فرج کی دکانیں برسرِعام کھل رہی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس شعبے کے لیے بھی ایجنسیاں کھل جائیں اورآگے چل کریہ باقاعدہ کاروبار کی شکل اختیار کرلے اور ایسی صورت میں کنواری دوشیزائیں بھی شوقیہ یا اُجرت پر اپنی خدمات پیش کرسکتی ہیں۔ شنید ہے کہ بھارت میں باقاعدہ رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ طور پر یہ طریقہ رائج ہے۔ گویا انسان مرتبۂ انسانیت سے گر کر حیوانیت کے درجے میں اتر آئے گا اور معاشرے میں یہ عمل کسی عار کا سبب نہیں رہے گا۔ پس یہ شریعت کی تعلیمات سے دُوری اور اخلاقی زوال کی انتہا ہوگی۔
اگرکسی بیماری یا عارضہ کی وجہ سےشوہر عمل تزویج پر قادر نہ ہو ،یاعورت میں کوئی خرابی پائی جاتی ہو اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ جنسی ملاپ کے ذریعے حاملہ ہونے کی صلاحیت نہ رکھتی ہوتومصنوعی عمل تولید یا ٹیسٹ ٹیوب بےبی کے ذریعے حقیقی شوہرکا جرثومہ اس کی اپنی بیوی کے رحم میں منتقل کرنا شرعاً جائز ہے۔ فقہائے اسلام پر اللہ تعالیٰ کروڑوںرحمتیں نازل فرمائے ،اُنھوں نے آج سےتقریباًایک ہزاربرس پہلے ایسے اُصول وقواعد بیان کردیےکہ جن سے کئی سو برس بعد پیش آنے والے مسائل حل ہوگئے ،حتیٰ کہ صحبت کے بغیرعورت کے حاملہ ہونے کی صورتوں کو بیان فرمادیا ۔محمدبن سَماعہ بیان کرتے ہیں : امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (م:۱۵۰ھ) نے فرمایا:
إذَا عَالَجَ الرَّجُلُ جَارِيَتَهٗ فِيْمَا دُوْنَ الْفَرْجِ، فَاَنْزَلَ فَاَخَذَتِ الْجَارِيَةُ مَاءَهٗ فِي شَيْءٍ فَاسْتَدْخَلَتْهُ فِيْ فَرْجِهَا فِي حِدْثَانِ ذٰلِكَ فَعَلِقَتِ الْجَارِيَةُ وَوَلَدَتْ فَالْوَلَدُ وَلَدُهٗ وَالْجَارِيَةُ أُمُّ وَلَدٍ لَهٗ،ترجمہ:’’کسی شخص نے اپنی باندی کے ساتھ شرم گاہ کے علاوہ صحبت کی(یعنی بوس وکنار کیا) اور اُسے انزال ہوگیا ،پھر باندی نے اُس کے مادّہ مَنویّہ کو کسی چیز میں لے کر اپنی شرم گاہ میں داخل کرلیا اور اس سے وہ حاملہ ہوگئی اور اس نے بچہ جنا، تو بچہ اس کے مالک کا ہوگا اور وہ اُمِّ وَلَد قرار پائے گی‘‘۔(المحیط البرہانی، ج۹، ص۴۰۴، البحرالرائق، ج۴،ص ۲۹۲، رَدُّالْمُحْتَار عَلَی الدُّرِّالْمُخْتَار،ج۳، ص ۵۲۸)
آپ نے اُجرت کے عوض یا رضاکارانہ طور پر اپنا رحم پیش کرنے والی ماں کے حوالے سے پوچھا ہے:’’آج کے دور میں یہ مسئلہ آیا ہے کہ اگر ایک خاتون اپنے رحم میں جسمانی نقص کے سبب ماں نہیں بن سکتی تو کیا دوسری خاتون کو کرائے پر حاصل کر کے اس سے بچہ پیدا کرایا جاسکتا ہے؟ اس حوالے سے شریعت کی روشنی میں آپ کا موقف کیا ہے؟‘‘ دوسرا یہ کہ خاتون کسی جسمانی نقص میں مبتلا نہیں ہے ، لیکن وہ بچہ پیدا کرنے کی زحمت اٹھانے کے لیے آمادہ نہیں ہے اور زوجین باہمی اتفاقِ رائے سے دوسری خاتون کی خدمات حاصل کر کے بچہ پیدا کرواتے ہیں، کیا شریعت کی رُو سے یہ جائز ہے؟‘‘اس کا جواب یہ ہے کہ یہ عمل ناجائز اور حرام ہے،چنانچہ ڈاکٹر وہبہ زحیلی لکھتے ہیں:
اَلتَّلْقِيْحُ الصِّنَاعِي: هُوَ اِسْتِدْخَالُ الْمَنِيِّ لِرَحْمِ الْمَرْأَةِ بِدُوْنِ جِمَاعٍ. ،فَإِنْ كَانَ بِمَاءِ الرَّجُلِ لِزَوْجَتِهٖ، جَازَ شَرْعًا، إِذْ لَا مَحْذُوْرَ فِيْهِ، بَلْ قَدْ يَنْدُبُ إِذَا كانَ هُنَاكَ مَانِعٌ شَرْعِيٌّ مِنَ الْاِتِّصَالِ الْجِنْسِيِّ،وَأَمَّا إِنْ كَانَ بِمَآءِ رَجُلٍ أَجْنَبِيٍّ عَنِ الْمَرْأةِ، لَا زِوَاجَ بَيْنَهُمَا، فَهُوَ حَرَامٌ، لاِنَّهٗ بِمَعْنَى الزِّنَا الَّذِيْ هُوَ إِلْقَاءُ مَآءِ رَجُلٍ فِي رَحْمِ امْرَأَةٍ لَيْسَ بَيْنَهُمَا زَوْجِيَّةٌ، وَيُعَدَّ هٰذَا الْعَمَلُ أَيْضًا مُنَافِيًا لِلْمُسْتَوَى الْإنْسَانِیِّ ، ترجمہ: ’’ مصنوعی عملِ تولید، یعنی صحبت کےبغیر مادۂ مَنویّہ کو عورت کے رحم میں داخل کرنا، پس اگر یہ عمل حقیقی شوہراپنی بیوی کےلیے اپنے مادّہ مَنویّہ کے ساتھ کرتا ہےتوشرعاً جائز ہے، بلکہ بعض اوقات جب بیوی سے صحبت کرنے میں کوئی شرعی مانع پایاجاتا ہوایسا کرنا مستحب ہے۔لیکن اگر یہ عمل کسی ایسےشخص کے مادۂ منویہ کے ذریعےکیاجائےجو عورت کے لیے اجنبی ہواور ان کے درمیان ازدواجی رشتہ نہ ہو،تو ایسا کرنا حرام ہے،اس لیے کہ یہ معنوی طورپرزنا ہے، کیونکہ عورت کے رحم میں ایسے شخص کا نطفہ پہنچایا جاتا ہے کہ ان دونوں کے درمیان زوجیت کا رشتہ نہیں ہوتا اور یہ عمل انسانی اَقدار کے بھی خلاف ہے‘‘۔(اَلْفِقْہُ الْاِسْلَامِیْ وَاَدِلَّتُہٗ ،ج۴،ص ۲۶۴۹)
علامہ غلام رسول سعیدی اس مسئلے کی تحقیق کے لیے کہ ’’بچہ صاحبِ فِراش کا ہے ‘‘ فرماتے ہیں کہ علامہ شمس الدین سرخسی (متوفّٰی ۴۸۳ھ) نے لکھا ہے:’’جس شخص کا آلہ تناسل کٹا ہوا ہو اوروہ جماع نہیں کر سکتا، ایسے شوہر کا نطفہ اگر جماع کے بغیر کسی اور ذریعے سے عورت کے رحم میں پہنچادیا جائے اور بچہ پیدا ہو جائے ،تو اُس بچے کا نسب اس عورت کے شوہر سے ثابت ہو گا‘‘ (شرح صحیح مسلم ،ج۳، ص ۹۳۸)۔
اس سلسلے میں گزارش ہے کہ بلاشبہہ رسول اللہ ﷺ نے نکاح کا مقصدافزایشِ نسلِ انسانی کو قرار دیا ہے ،چنانچہ حدیثِ مبارک میں ہے:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُوْلَ اللَّهِ قَالَ:اَنْكِحُوْا أُمَّهَاتِ الْاَوْلَادِ، فَإِنِّي أُبَاهِيْ بِهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، ترجمہ: ’’عبداللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بچہ پیداکرنے کی صلاحیت رکھنے والی عورتوں سے نکاح کرو، کیونکہ میں ان کے سبب قیامت کے دن (دوسری امتوں پر) فخر کا اظہار کروں گا‘‘۔(مسند احمد:۶۵۹۸)
آپؐ کا فرمان ایک ترجیحی امر ہے، ایسا ضروری نہیں ہے ۔آپؐ کی کئی ازواجِ مطہرات سے بچے پیدا نہیں ہوئے، لیکن اس کے باوجود آپؐ نے ان کو طلاق نہیں دی۔ اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آپؐ کی واحد کنواری بیوی تھیں اوران سے آپؐ کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
جہاں تک اولاد کاتعلق ہے تو ایک مسلمان کو اس بات پر پختہ یقین رکھناچاہیے کہ اولادعطا کرنے والی اور اس سے محروم رکھنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے۔اگر شادی کے بعد کچھ برسوں تک اولاد نہ ہو تو مایوس ہونےاور ناجائز ذرائع واسباب اختیار کرنے کے بجائے رجوع الی اللہ اور صبر و توکّل سے کام لینا چاہیےاور اس مقصد کےلیےجائز اسباب اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں ہے۔ علاج کی ضرورت ہو تو جائز طریقوں سے علاج بھی کرنا چاہیے۔تمام اسباب اختیار کرنے کے باوجود اگر اولاد نہ ہو توتولید وتناسل کی صلاحیت کی طرح بانجھ پن بھی اللہ کی طرف سے ہے۔ اللہ پاک جسے چاہے اپنی حکمت کے تحت بانجھ کردیتا ہے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لِلہِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۭ يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ۰ۭ يَہَبُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ اِنَاثًا وَّيَہَبُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ الذُّكُوْرَ۴۹ۙ اَوْ يُزَوِّجُہُمْ ذُكْرَانًا وَّاِنَاثًا۰ۚ وَيَجْعَلُ مَنْ يَّشَاۗءُ عَــقِـيْمـًا۰ۭ اِنَّہٗ عَلِيْمٌ قَدِيْرٌ۵۰ ترجمہ: ’’آسمانوں اور زمینوں میںحکومت اللہ ہی کی ہے ،وہ جو چاہے پیدا کرتا ہے، جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے (صرف) بیٹے عطا کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے بیٹے اور بیٹیاں(دونوں )عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بے اولاد رکھتا ہے، بے شک وہ بےحد علم والا بہت قدرت والا ہے‘‘۔(الشوریٰ ۳۲:۴۹-۵۰)
لیکن بانجھ پن کی صورت میں خلافِ شرع طریقے اختیار کرنا جائز نہیں ہے، اللہ نے فرمایا ہے:
وَالَّذِيْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حٰفِظُوْنَ۵ۙ اِلَّا عَلٰٓي اَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُہُمْ فَاِنَّہُمْ غَيْرُ مَلُوْمِيْنَ۶ۚ فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَاۗءَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْعٰدُوْنَ۷ۚ ترجمہ:’’(وہ مومن کامیاب ہوگئے) جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، ماسوا اپنی بیویوں کے یا وہ جو اُن کی مِلک میں ہیں، یقیناً وہ ملامت زدہ نہیں ہیں، پس جو کوئی ان کے علاوہ (اپنی خواہش کی تکمیل )چاہے گا، تو وہی لوگ(اللہ کی حدود سے) تجاوز کرنے والے ہیں ‘‘۔ (المؤمنون۲۳:۵-۷)
یہ اللہ کی طرف سے آزمایش بھی ہوسکتی ہے۔ ایک مومن کی شان یہ ہونی چاہیے کہ وہ ہرحال میں اللہ تعالیٰ کے احکام کو مقدم رکھے۔ شوہر اگر بیوی کے بے اولاد ہونے کی وجہ سے اولاد کا خواہش مند ہے ، تو شریعت نے اس کے لیے دوسرے نکاح کی گنجایش رکھی ہے۔ اگر بیوی لاوَلد ہے اور اولاد کی خواہش مند ہے ، تو اپنے کسی عزیز کے ایسے بچے کو ، جس کا اس کے ساتھ مَحرم کا رشتہ ہو، گود لے سکتی ہے ، لیکن گود لینے سے وہ اس کا یا اس کے شوہر کا وارث نہیں بنے گا، نہ وہ بچہ ان کا وارث بنے گا، البتہ اس کے حق میں وصیت کرسکتے ہیں، اور اسے ہبہ بھی کرسکتے ہیں، نیز اس کا نسب بھی اس کے حقیقی باپ کی طرف منسوب ہوگا۔
سب سے بڑی بات قناعت اور تقدیرِ الٰہی پر راضی رہنا ہے۔ اس کے لیے خلافِ شرع طریقے اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم اسے اُس درجے کی شرعی ضرورت قرار نہیں دے سکتے، جس کی بابت یہ فقہی اصول بیان کیا گیا ہے :اَلضَّرُوْرَاتُ تُبِیْحُ الْمَحظُوْرَاتِ اور اَلضَّرُوْرَاتُ تُقَدَّرُ بِقَدْرِھَا، ترجمہ:’’ ضرورتیں ممنوعات کو مباح کردیتی ہیں اور ضرورت کو اُس کی حد کے اندر رکھا جائے‘‘۔ اُسے عام معمول نہ بنایا جائے۔جاوید احمد غامدی بہت سے معاملات میں تقریباً اباحتِ کُلّی کے قائل ہیں ۔ فقہ اور اصولِ فقہ تو دُور کی بات ہے ،وہ احادیثِ مبارکہ کی قید سے آزاد ہوکر قرآن کو سمجھنا اور بیان کرنا چاہتے ہیں ،جب کہ ہم اپنی بشری استطاعت کی حد تک اصولِ شرع کے پابند ہیں۔
rمحترم ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی،سکریٹری شریعہ کونسل جماعت اسلامی ہند
اسلام نے اپنے ماننے والوں کو زندگی گزارنے کا طریقہ بتا دیا ہے۔ قرآن مجید میں بنیادی اقدار، احکام اور تعلیمات مذکور ہیں، جب کہ احادیث میں تفصیلات اور جزئیات بیان کر دی گئی ہیں۔ زمانہ گزر نے کے ساتھ اور بدلتے ہوئے حالات میں جو مسائل اور مشکلات پیش آتے ہیں، انھیں حل کرنے کے لیے علما و فقہا اور اسرارِ شریعت کے ماہرین نے اجتہاد کیا ہے، لیکن ان کا اجتہاد ہمیشہ دین کی بنیادی ا قدار، اساسی تعلیمات اور روح ِ شریعت سے ہم آہنگ رہا ہے۔ مگر ان کے برعکس جن حضرات نے اس سے ہٹ کر اجتہاد کرنے کی کوشش کی ہے اور ایسی آرا پیش کی ہیں جو اساسیات ِدین اور روح ِ شریعت سے متصادم ہوں انھیں امت میں قبول ِ عام حاصل نہیں ہوا ہے۔
انسان کی تخلیق کا معروف اور متداول فطری طریقہ یہ ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان جنسی اتصال ہو۔ اس کے نتیجہ میں مرد سے منی (سپرم) اور عورت سے بیضہ(اووم) نکلتا ہے۔ دونوں کا اتصال و امتزاج عورت کے اعضائے تناسل میں سے قاذف (Fallopian Tube) کے باہری تہائی حصے میں ہوتا ہے۔ اس طرح عمل ِ بارآوری (Fertilization) انجام پاتا ہے۔ پھر وہ مخلوط نطفہ (Zygote) عورت کے رحم (یوٹرس)میں منتقل ہوجاتا ہے، جہاں دھیرے دھیرے نشوونما پاتے ہوئے ’جنین‘ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ قرآن مجید میں اس پورے مرحلے کو بہت اختصار کے ساتھ ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ۰ۤۖ (الدھر۷۶: ۲ ) ’’ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا ہے‘‘۔
قرآن مجید صراحت کرتا ہے کہ مرد اور عورت کا جنسی اتصال صرف نکاح کی صورت میں جائز ہے (النساء۴:۱، ۳، ۲۵، ۱۲۷، النور۲۴: ۳۲، الاحزاب۳۳: ۴۹، الممتحنۃ ۶۰: ۱۰)۔ بغیر نکاح کے جنسی تعلق کو وہ’ زنا‘ سے تعبیر کرتا ہے ، خواہ اسے علی الاعلان قائم کیا جائے یا چھپ کر، اوراسے حرام قرار دیتے ہوئے اس کا ارتکاب کرنے والے کے لیے عبرت ناک سزا تجویز کرتا ہے(بنی اسرائیل۱۷:۳۲، النور۲۴: ۲)۔
خلاصہ یہ کہ ’جنین‘ کی تخلیق کے لیے تین چیزیں ضروری ہیں: مرد کا نطفہ، عورت کا بیضہ اور اس کا رحم۔ ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ وہ مذکورہ بالا طریقہ اختیار کیا جائے، جس سے استقرارِ حمل ہو سکے۔ جنسی اعضاء میں کوئی نقص ہو، یا کسی وجہ سے مذکورہ طریقہ اختیار نہ کیا جاسکے تو بارآوری اور تولید کا عمل انجام نہیں پاسکتا۔ یہ نقص مرد میں بھی ہو سکتا ہے اور عورت میں بھی۔ مثلاً مرد قوتِ مردی میں کمی کی وجہ سے جماع پر قادر نہ ہو، یا اس کے مادۂ تولید میں حیوانات ِ منویہ کا تناسب مطلوبہ مقدار سے کم اور ان کی حرکت کم زور ہو، یا مادۂ تولید کو خصیوں سے عضو ِ تناسل (Penis)تک لانے والی رگیں مسدود ہو گئی ہوں، یا پھر خصیے بے کار ہوں۔ اسی طرح عورت میں کسی نقص کے سبب خصیۃ الرحم (Ovaries)سے بیضہ کا اخراج ممکن نہ ہو، یا قاذفین پیدائشی طور پر موجود نہ ہوں، یا مسدود ہوگئے ہوں ،یا وہ پیدائشی طور پر رحم سے محروم ہو، یا کسی مرض کے سبب اسے نکال دیا گیا ہو، یااس میں بار آور بیضہ کا استقرار ممکن نہ ہو، وغیرہ۔
مغرب نے میڈیکل سائنس کے میدان میں غیر معمولی ترقی کی ہے۔ چنانچہ وہاں مذکورہ بالا بہت سے نقائص کا حل نکال لیا گیا ہے اور ان کا متبادل تلاش کر لیا گیا ہے۔ اگر مرد کا نطفہ، عورت کا بیضہ اور اس کا رحم، سب حیاتیاتی اعتبار سے صحت مند ہوں، لیکن مرد جماع پر قادر نہ ہو ،یا اس کا نطفہ خصیوں سے عضو ِ تناسل تک لانے والی رگیں مسدود ہوگئی ہوں، تو اس کے نطفے کو ایک سرنج میں لے کر عورت کے رحم میں پہنچا دیا جاتا ہے، جہاں وہ عورت کے بیضہ سے مل کر بار آور ہوتا ہے۔ اسے’ مصنوعی تخم کاری‘ (Artificial Insemination) کہا جاتا ہے۔ اگر مرد کے نطفے میں حیوانات ِ منویہ کا تناسب کم اور ان کی حرکت کم زور ہو، یا وہ تولیدی صلاحیت سے محروم ہو، تو ضرورت پوری کرنے کے لیے کسی دوسرے شخص کا نطفہ استعمال کیا جا تا ہے۔ اسے لے کر عورت کے رحم میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ اس کا م کے لیے مغرب میں مادۂ منویہ کے بڑے بڑے مراکز (Sperm Banks)قائم ہیں، جہاں سے کوئی بھی شخص اپنی پسند کا نطفہ خرید سکتا ہے۔
اگر عورت میں ’قاذفین‘ پیدایشی طور پر موجود نہ ہوں، یا بعد میں کسی وجہ سے مسدود ہوگئے ہوں، البتہ اس کا ’بیضہ‘ صحیح سلامت ہو تو اسے اور مرد کا نطفہ حاصل کرکے دونوں کو ایک ٹیسٹ ٹیوب میں بارآور کیا جاتا ہے۔ پھر اسے ایک متعین مدت کے بعد عورت کے رحم میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ اسے’ ٹیسٹ ٹیوب میں بارآوری‘ (In Vitro Fertilization)کہا جاتا ہے۔
اگر عورت کا رحم بالکل ٹھیک ہو اور استقرارِ حمل کی صلاحیت رکھتا ہو، لیکن خصیۃ الرحم میں کسی نقص کے سبب اس سے بیضہ خارج نہ ہو رہا ہو، تو کسی دوسری عورت کا بیضہ لے کر اس کے رحم میں منتقل کیا جا تا ہے، یا مرد کے نطفے سے دوسری عورت کا بیضہ اسی کے رحم میں بارآور کرکے، یا دونوں کو ٹیسٹ ٹیوب میں بارآور کرکے ،اس بارآور بیضہ کی تنصیب بیوی کے رحم میں کر دی جاتی ہے۔ اسے’ انتقالِ بیضہ‘ (Ovum implantation) کہا جاتا ہے۔
اگر مرد کا نطفہ اورعورت کا بیضہ دونوں صحت مند ہوں، لیکن عورت رحم کے کسی مرض میں مبتلا ہو، جس کی وجہ سے اس میں ’استقرار ِحمل‘ ممکن نہ ہو تو زوجین کسی دوسری عورت کے رحم کو کرایے پر لیتے ہیں۔ ٹیسٹ ٹیوب میں دونوں کے مادّوں کو ملا کر حاصل شدہ ’جنین‘ کو اس عورت کے رحم میں منتقل کر دیا جاتا ہے، جہاں وہ پرورش پاتا ہے۔
اسی طرح بعض عورتیں صحت مند ہونے کے باوجود حمل و رضاعت کے بکھیڑوں میں نہیں پڑنا چاہتیں ۔وہ بھی دوسری عورت کے رحم کو کرایے پر لے لیتی ہیں۔
ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ بیوی سے بیضہ بھی نہیں حاصل ہو سکتا۔ چنانچہ دوسری عورت سے بیضہ حاصل کیا جاتا ہے اور پہلی عورت کے شوہر کے نطفے سے اس کی ’تخم کاری‘ کرکے اسی (دوسری) عورت کے کرایے پر دیے گئے رحم میں اس کی پرورش کی جاتی ہے۔ اسے’ قائم مقام مادریت‘ (Surrogacy) کہا جاتا ہے۔
مغرب، جہاں کا کلچر خالص مادّیت پر مبنی اور اخلاقیات سے بالکل عاری ہے، وہاں ان تمام طریقوں پر عمل ہورہا ہے اور مر دو عورت کے تناسلی نظام میں پائے جانے والے خِلقی (Congenital) یا اکتسابی (Acquired)نقائص کو دور کرکے بچے پیدا کیے جارہے ہیں۔ اس چیز نے میڈیکل کی دنیا میں ایک زبردست انڈسٹری کی صورت اختیار کر لی ہے، جس میں اربوں کھربوں ڈالر کا سرمایہ لگا ہوا ہے۔
انسانی پیدایش کے اسلامی ضوابط
اسلام اپنا ایک نظام رکھتا ہے۔ وہ عام حالات میں زندگی گزارنے کے طریقوں کی طرف راہ نمائی کرتا ہے اور ان میں کوئی دشواری لاحق ہونے پر کام یابی کے ساتھ ان کا حل پیش کرتا ہے۔ میڈیکل کی دنیا میں مروجہ مذکورہ بالا طریقوں کو اسلام کی بنیادی ا قدار اور اساسی تعلیمات کی کسوٹی پر پرکھنا ہوگا۔ جو طریقے ان سے ٹکرائیں گے وہ کسی بھی صورت میں اس کے نزدیک قابل ِقبول نہیں ہوسکتے، البتہ جو ان سے متصادم نہیں ہوں گے انھیں اختیار کرنے کی اس کی طرف سے اجازت ہوگی۔
اسلام نے توالد و تناسل اور نسلِ انسانی کے تسلسل کے لیے نکاح کو مشروع کیا ہے۔ زوجین کے جنسی اتصال سے رحمِ مادر میں استقرارِ حمل ہوتا ہے۔عورت جنین کو نو مہینے اپنے پیٹ میں رکھتی ہے اور اپنے خون سے اس کی آبیاری کرتی ہے۔ اس طویل مدت میں وہ طرح طرح کی پریشانیاں اور تکلیفیں برداشت کرتی ہے۔ وضعِ حمل کا مرحلہ بھی بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ بچے کی پیدایش کے بعد دو برس وہ اسے دودھ پلاتی ہے۔ ان تمام مراحل کا بیان قرآن مجید میں موجود ہے (ملاحظہ کیجیے: النساء۴:۱، الاعراف۷: ۱۸۹، لقمان۳۱: ۱۴، الاحقاف۴۶: ۱۵)۔
اسی بنا پر ماں کا تذکرہ باپ کے مقابلے میں زیادہ کیا گیا ہے اور اس کی فضیلتیں بھی بیان کی گئی ہیں۔ امومت (motherhood) کا جذبہ ہر عورت میں فطری طور پر ودیعت کیا گیا ہے۔ ماں بننے کے لیے ہی عورت ان تمام تکلیف دہ مراحل سے ہنسی خوشی گزرتی ہے۔ اب اگر کوئی عورت ان مراحل سے گزرے بغیر ماں بننا چاہے اور حمل اور وضع ِ حمل کے کاموں کے لیے دوسری عورت کی خدمات حاصل کرے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی فطرت سے بغاوت کر رہی ہے۔ عورت کو اس کا تو اختیار ہے کہ وہ کسی کی بیوی نہ بننا چاہے تو نکاح نہ کرے اور ماں نہ بننا چاہے تو جنسی تعلق سے احتراز کرے، لیکن اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے جسم کو سڈول رکھنے ،یا اس کی خوب صورتی کو دیر تک قائم رکھنے ،یا حمل اور وضع ِ حمل کی تکالیف سے بچنے کے لیے دوسری عورت کے رحم کو کرایے پر لے اور چند ٹکوں کے عوض اس سے بچہ پیدا کرواکے خود کواس بچے کی ماں بنا لے۔
اگر شوہر کا نطفہ، بیوی کا بیضہ اور اس کا رحم، سب صحیح سلامت اور صحت مند ہیں ،لیکن کسی نقص کے سبب نطفہ و بیضہ کا اتصال،’انسانی تخم کاری‘ اور استقرار ِ حمل ممکن نہ ہو تو قانونی بنیادوں پر نکاح کے رشتے میں بندھے میاں بیوی میں مصنوعی طریقہ ہائے تولید سے استفادہ جائز ہے۔ یہ عمل علاج کی صورت تصور کیا جائے گا، جس کی شریعت میں اجازت دی گئی ہے۔ مثال کے طور پر اگر شوہر کسی وجہ سے جماع پر قادر نہ ہو، لیکن اس کا نطفہ حیاتیاتی اعتبار سے صحت مند ہو اوراس میں تولیدی صلاحیت موجود ہو، تو اسے کسی مصنوعی طریقے سے بیوی کے رحم میں منتقل کرنا، تاکہ وہ بیوی کے بیضہ سے مل کر بار آور ہوسکے، جائز ہوگا۔ اسی طرح اگر نطفہ اور بیضہ کا اتصال اور بارآوری فطری طریقے سے بیوی کے رحم میں ممکن نہ ہو تو ٹیسٹ ٹیوب میں ان کو بارآور کرکے بیوی کے رحم میں منتقل کرنا جائز ہوگا۔
البتہ اسلامی نقطۂ نظر سے ضروری ہے کہ ہرصورت میں نطفہ شوہر کا، بیضہ بیوی کا اور رحم بھی اسی بیوی کا ہو۔ اگر نطفہ شوہر کے علاوہ کسی اور مرد کا حاصل کیا جائے، یا بیضہ اپنی بیوی کے علاوہ کسی دوسری عورت سے لیا جائے ،یا نطفہ اور بیضہ تو زوجین کے ہی ہوں، لیکن دونوں کا استقرار اور جنین کی پرورش کسی اور عورت کا رحم کرایے پر لے کر اس میں کی جائے، تو یہ تمام طریقے اسلامی شریعت کی رُو سے قطعاً ناجائز ہیں۔ اس کے دلائل درج ذیل ہیں:
۱- شریعت میں اس چیز کو قطعاً حرام قرار دیا گیا ہے کہ کسی مرد کے نطفے سے ایسی عورت کا استقرار ِ حمل ہو، جس کا اس سے ازدواجی رشتہ نہ ہو۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
لَایَحِلّ لِامرِیٍٔ یُومِنُ بِاللّٰہِ وَالیَومِ الآخِرِأن یَّسقِيَ مَاؤہُ زَرعَ غَیرِہِ (ابوداؤد: ۲۱۵۸) کسی شخص کے لیے، جو اللہ اور روز ِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو، جائز نہیں ہے کہ اپنے پانی (یعنی ماودۂ تولید) سے کسی دوسرے کی کھیتی کو سیراب کرے‘‘ (یعنی غیرعورت سے مباشرت کرے)۔
یہ حدیث اگر چہ استبراءِ رحم کے پس منظر میں آئی ہے۔ یعنی کوئی عورت کسی مرد سے حاملہ ہو تو وضع ِ حمل سے قبل کسی دوسرے مرد کے لیے اس سے مباشرت جائز نہیں، لیکن اس کا عمومی مفہوم بھی لیا جا سکتا ہے کہ کسی مرد کا نطفہ کسی اجنبی عورت کے رحم میں داخل کرنا جائز نہیں ہے۔
۲- اسلام نے مردوں اور عورتوں ، دونوں کے لیے لازم کیا ہے کہ وہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں:
قُل لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوجَہُمْ....وَقُل لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَہُنَّ (النور۲۴: ۳۰-۳۱)(اے نبیؐ!) مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ اور مومن عورتوں سے کہو کہ وہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔
’شرم گاہوں‘ کی حفاظت کا وسیع مفہوم ہے۔ اس میں جہاں یہ بات شامل ہے کہ ماورائے نکاح کسی طرح کا جنسی تعلق قائم نہ کیا جائے وہیں اس کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ان سے کوئی ایسا کام نہ لیا جائے جو فطرت کے اصولوں اور شریعت کے ضابطوں کے خلاف ہو۔ رحم کی تخلیق استقرار ِ حمل سے وضعِ حمل تک جنین کی پرورش کے لیے کی گئی ہے۔ ضروری ہے کہ جنین کی تشکیل شوہر کے نطفہ اور بیوی کے بیضہ کے اتصال اور بارآوری کے نتیجہ میں ہو اور اس کی پرورش بیوی ہی کے رحم میں ہو۔
۳- اسلام میں نسب کی حفاظت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اس کے نزدیک یہ جائز نہیں کہ کوئی شخص اپنے حقیقی باپ کے علاوہ کسی کو اپنا باپ کہے۔ اسی طرح یہ بھی جائز نہیں کہ کوئی شخص کسی دوسرے کی اولاد کو اپنی اولاد قرار دے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمَا جَعَلَ أَدْعِیَاءَکُمْ أَبْنَاءَکُمْ ذَلِکُمْ قَوْلُکُم بِأَفْوَاہِکُمْ (الاحزاب۳۳: ۴) اور نہ اس نے تمھارے منہ بولے بیٹوں کو تمھارا حقیقی بیٹا بنایا ہے۔ یہ تو وہ باتیں ہیں جو تم لوگ اپنے منہ سے نکال دیتے ہو۔
اور اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
اِنَّ مِن أَعظَمِ الفِرَیٰ أَن یَّدَّعِی الرَّجُلُ اِلٰی غَیرِ أَبِیہِ (صحیح البخاری: ۳۵۹۰) سب سے بڑا بہتان یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف خود کو منسوب کرے۔
رحمِ مادر کی کرایے داری سے اختلاط ِ نسب کا قوی اندیشہ ہوتا ہے۔جائز اور قانونی اولاد ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی پیدائش اس عورت کے واسطے سے ہوئی ہو جو اس کے باپ سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو۔اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
الوَلَدُ لِلفِرَاشِ (صحیح البخاری:۷۱۸۲، مسلم:۱۴۵۷) بچہ اس کا ہے جس کے بستر پر ( یعنی جس کی بیوی سے)پیدا ہوا ہو۔
اس حدیث کی رُو سے بچہ جس عورت کے بطن سے پیدا ہوگا ،قانونی طور پر اس کا اور اس کے شوہر کا کہلائے گا۔جس مرد کا نطفہ استعمال ہوا ہے اسے اس بچے کو اپنی طرف منسوب کرنے کی شرعی طور پر اجازت نہ ہوگی۔
۴- جو عورت اپنے رحم کو کرایے پر اٹھائے گی اور اسے کسی جوڑے کے بچے کی پرورش کے لیے پیش کرے گی، وہ چاہے شادی شدہ ہو یا بے شوہر کی (خواہ غیر شادی شدہ ہو یا مطلقہ یا بیوہ)، ہر صورت میں معاشرے میں اس پر بدکاری، بدکرداری اور دیگر ناپسندیدہ اور گھناؤنے الزامات لگنے کا قوی اندیشہ رہے گا۔
۵- رحمِ مادر کی کرایہ داری کے جواز کی صورت میں بہت سے خوف ناک اور بھیانک سماجی، اخلاقی اور نفسیاتی مسائل پیدا ہوں گے، جن کا تصور کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ مغرب میں عملاً ان کا مشاہدہ ہو رہا ہے۔ مختلف ممالک میں’بچہ سپر مارکیٹس‘ وجود میں آگئی ہیں۔ دولت مند طبقہ کی خواتین ایسی عورتوں کو تلاش کرتی ہیں، جو ان کے بچوں کی پرورش کے لیے اپنے رحم کرایے پر پیش کر سکیں اور غریب طبقہ کی عورتوں کی ایسی فوج تیار ہوگئی ہے، جو اپنے رحم کو کرایے پر اٹھا کر اچھا خاصا کمالیتی ہیں۔ اس چیز نے ایک انٹر نیشنل انڈسٹری کی شکل اختیار کر لی ہے اور اس کا رخ غریب ممالک کی طرف ہو گیا ہے، جہاں مال دار ممالک کے لوگ سفر کرکے آتے ہیں اور اپنے ممالک کے مقابلے میں کم خرچ پر بچے پیدا کرواتے ہیں۔ اس انڈسٹری کو ’تولیدی سیاحت‘ (Fertility Tourism){ FR 735 } کا نام دیا گیا ہے۔اس معاملے میں بھارت کو سبقت حاصل ہے ، چنانچہ اسے Surrogacy Capital of the World { FR 736 }کا درجہ دیا گیا ہے۔ ان قباحتوں کی وجہ سے مغرب کے سنجیدہ اور حساس طبقے میں اس کے خلاف آواز اٹھنے لگی ہے اور استحصال سے تحفظ کے لیے قانون سازی کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔
’رحمِ مادر‘ کی کرایہ داری عالم ِ اسلام میں علما و فقہا، دانش وروں اور مجتہدین کے درمیان انفرادی اور اجتماعی سطحوں پر غور و فکر کا موضوع بنا ہے۔ مشہور فقہا: ڈاکٹر جاد الحق علی جاد الحق (سابق شیخ الازہر مصر)، ڈاکٹر محمد سید طنطاوی (سابق شیخ الازہر)، ڈاکٹر یوسف القرضاوی(قطر) اور ڈاکٹر مصطفےٰ زرقاء (شام) نے اسے حرام قرار دیا ہے (ملاحظہ کیجیے، ڈاکٹر ہند الخولی، مقالہ:تأجیر الارحام في الفقہ الاسلامي، مجلۃ جامعۃ دمشق للعلوم الاقتصادیۃ والقانونیۃ، جلد ۲۷، شمارہ ۳، ۲۰۱۱ء، ص ۲۸۲-۲۸۳)۔ یہ موضوع رابطہ عالم اسلامی کی زیر نگرانی قائم اسلامک فقہ اکیڈمی مکہ مکرمہ (آٹھواں اجلاس، منعقدہ ۲۸؍ ربیع الثانی تا ۷؍ جمادی الاولیٰ ۱۴۰۵ھ (۱۹۸۵ء)، اور تنظیم اسلامی کانفرنس کی زیر نگرانی قائم بین الاقوامی اسلامی فقہ اکیڈمی جدہ (تیسرا اجلاس، منعقدہ عمان، ۸ تا ۱۳ ؍ صفر ۱۴۰۷ھ (۱۹۸۶ء) میں بھی زیر بحث آیا تھا اور ان میں بھی علما نے اسے بالاتفاق حرام قرار دیاتھا۔
’رحم مادر‘ کی کرایہ داری کو ’رضاعت‘ کے مسئلے پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے۔ دونوں کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے۔ رحم میں جنین کی تخلیق اور پرورش ہوتی ہے۔ نطفہ و بیضہ کی بارآوری، حمل کا استقرار اور جنین کی پرورش، تمام مراحل میں صرف اس مرد اور عورت کا اشتراک جائز ہے جو نکاح کے بندھن میں بندھے ہوئے ہوں۔ بچے کی پیدائش کے بعد اسے دودھ پلانا ایک خارجی معاملہ ہے۔ اس کا جواز قرآن و سنت کے نصوص سے ثابت ہے۔ اس لیے اس پر قیاس کرکے غیرعورت کے رحم کی کرایہ داری کو جائز قرار دینا قطعاً درست نہیں ۔
اولاد اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔وہ جس کو چاہتا ہے اس نعمت سے نوازتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اس سے محروم رکھتا ہے( الشوریٰ۴۲:۴۹-۵۰)۔ جس شخص کو یہ نعمت حاصل ہو اسے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور جو اس سے محروم ہو اسے چاہیے کہ وہ اسے آزمائش سمجھے اور اس پر صبر کرتے ہوئے اللہ سے اجر کی امید رکھے ۔ نکاح کے بعد اگر کچھ مدت گزر جانے کے باوجود اولاد نہ ہو تو زوجین کو کسی ماہر ڈاکٹر سے مشورہ کرنے کے بعد اپنے مطلوبہ ٹیسٹ کرا لینے چاہییں۔اگر ایسے معمولی نقائص کا پتا چلے جن کا علاج اور تدارک ممکن ہو تواس کی حتّیٰ الامکان کوشش کرنی چاہیے۔
اللہ کے آخری رسول ﷺ نے علاج کی ہدایت دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر مرض کا علاج رکھا ہے(ابو داؤد:۳۸۵۵)۔ اگر عورت میں کسی ایسے دائمی مرض کا علم ہو جس کی وجہ سے وہ بچہ پیدا کرنے کے قابل نہ ہو تومرد دوسرا نکاح کر سکتا ہے اوربیوی کو تنگ دلی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے بخوشی اس کی اجازت دے دینی چاہیے۔اور اگر کمی مرد میں ہو ،اس کے باوجود عورت بخوشی اس کے نکاح میں رہنا چاہتی ہو تو وہ اپنے رشتے کے کسی بچے کو گودلے کر اس کی پرورش کرسکتی ہے۔ اس صورت میںاس بچے کی نسبت تو اس کے حقیقی باپ کی طرف ہوگی،البتہ یہ جوڑا اس کی پرورش و پرداخت اور تعلیم و تربیت کا اجر پائے گا۔واللہ اعلم بالصواب
گذشتہ چند صدیوں میں مختلف مغربی ممالک میں بنیادی انسانی حقوق کے پُرزور نعرے لگائے گئے اور ان کے لیے زبردست تحریکیں چلائی گئیں۔ اس کے نتیجے میں مطلق العنان حکم رانوں کے لامحدود اختیارات پر قدغن لگی اور بے بس اور مجبور انسانوں کو بہت سے وہ حقوق اور اختیارات حاصل ہوئے جن سے وہ صدیوں سے محروم تھے۔ دھیرے دھیرے عوام طاقت ور ہوتے گئے تو ان کو حاصل ہونے والے حقوق میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ ان تحریکوں کے نتیجے میں آزادی، مساوات اور عدل و انصاف کے تصورات کو فروغ ملا۔ ان کے ثمرات و فوائد سے یوں توعام انسان بہرہ ور ہوئے، لیکن خاص طور پر عورتوں کو ان کا وافر حصہ ملا۔ وہ صدیوں سے اپنے حقوق سے محروم تھیں۔ انھیں مردوں کا محکوم اور زیرنگیں سمجھا جاتا تھا۔ ان تحریکوں نے انھیں محرومی اور جبر سے آزادی اور زندگی کے ہر میدان میں مردوں کے برابر درجہ دینے اور انھی جیسا معاملہ کرنے کی وکالت کی۔
بنیادی حقوق (Fundamental Rights)، مساوی حقوق (Equal Rights) اور آزادیِ نسواں (Emancipation of women) کے نام سے برپا ہونے والی یہ تحریکیں اصلاً مغربی ماحول کی پیداوار تھیں اور کلیسا کے جبر اور عورتوں کے بارے میں مسیحی نقطۂ نظر نے اس کے لیے راہ ہموار کی تھی۔ اس لیے یہ ردِّ عمل کی نفسیات کا شکار تھیں۔ تفریط کے ردّ عمل میں افراط نے جنم لیا اور حدود و قیود سے ماورا ہرطرح کی آزادی اور مردوزن کے درمیان ہر اعتبار سے مساوات کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ ان تحریکوں کے اثرات کو مشرقی ممالک نے بھی قبول کیا اگرچہ ان کا تہذیبی و ثقافتی اور تاریخی پس منظر مغربی ممالک سے مختلف اور جداگانہ تھا، لیکن وہاں بھی ان تحریکوں کو خوب پھلنے پھولنے کا موقع ملا اور آزادی و مساوات کے ان تصورات کو کافی فروغ ملا۔
خاندان کی تشکیل مرد اورعورت کے باضابطہ جنسی تعلّق سے ہوتی ہے۔ یہ تعلق ایک دوسرے کے حقوق اور ذمہ داریاں متعین کرتا ہے، جن کی پاس داری بہتر خطوط پر افراد خاندان کے رہن سہن اور نشو و نما کے لیے ضروری ہوتی ہے، لیکن ذمہ داریوں سے بچتے ہوئے لذّت کے حصول کے رجحان نے ضابطے کے ساتھ جنسی تعلق کو فرسودہ قرار دیا اور بغیر نکاح آزاد جنسی رابطہ (Pre Marital Sexual Permissiveness) کو سندِ جواز عطا کی۔ یہ دلیل دی گئی کہ اگر نکاح کے بندھن میں بندھ کر کوئی مرد اور عورت ایک ساتھ زندگی گزاریں گے تو کچھ عرصہ کے بعد ناپسندیدگی یا کسی اور وجہ سے الگ ہونے میں قانونی رکاوٹیں ہوں گی، اس لیے زیادہ بہتر صورت یہ ہے کہ بغیر نکاح کے وہ ایک ساتھ رہیں اور جب ان کا جی بھر جائے، ایک دوسرے سے علیحدہ ہوجائیں۔ جدید اصطلاح میں اسے Live in Relationship کا نام دیا گیا ہے۔ یہ طرزِ رہایش ان نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں مقبول ہو رہا ہے جو اعلیٰ تعلیم کے حصول یا ملازمتوں کے لیے اپنے وطن سے دوٗر کہیں عارضی طور پر مقیم ہوتے ہیں اور مختلف اسباب سے ابھی ان کے لیے نکاح کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ یہ وبا مغربی ملکوں میں تو پہلے سے عام تھی، ہندستان میں، جو مذہبی پس منظر رکھتا ہے، اسے عموماً ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، لیکن اب دھیرے دھیرے اس کے حق میں فضا ہموار کی جارہی ہے۔اس سلسلے میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا حوالہ دینا مناسب ہوگا۔ گذشتہ سال ۲۳؍مارچ ۲۰۱۰ء کو سپریم کورٹ کے تین فاضل ججوں پر مشتمل ایک بنچ نے جنوبی ہند کی مشہور اداکارہ ’خوشبو‘ (جس نے قبل از نکاح جنسی تعلق کی حمایت کی تھی) کی پٹیشن پر اپنا فیصلہ محفوظ رکھتے ہوئے ان احساسات کا اظہار کیا تھا: ’’اگر دو جوان (مرد اور عورت) ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں تواس میں جرم کیا ہے؟ یہ معاملہ جرم تک کہاں پہنچتا ہے؟ ایک ساتھ رہنا جرم نہیں ہے۔ یہ جرم ہو بھی نہیں سکتا‘‘۔ اس سے آگے بڑھ کر فاضل ججوں نے دستور کی دفعہ ۲۱ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھاکہ یہ حقِ حیات او رحق آزادی کے خلاف ہے، جنھیں دستور میں ’بنیادی حقوق‘ کی حیثیت دی گئی ہے۔
یہ تو قبل از نکاح جنسی تعلق کا معاملہ تھا۔ بعد از نکاح جنسی آزاد روی کے معاملے میں تو اس سے بھی زیادہ کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ کہا گیا کہ ہر مرد اور عورت، خواہ وہ شادی شدہ ہو یا غیرشادی شدہ، آزاد اور اپنی مرضی کا مالک ہے۔ جنسی تعلق کے لیے اس پر جبر تو قابلِ مواخذہ اور موجب تعزیر ہے، لیکن اگر دونوں باہم رضامندی سے یہ تعلق قائم کریں تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ قانون کی کوئی کتاب یا عدلیہ کا کوئی فیصلہ اٹھاکر دیکھ لیجیے ، اس میں زنا (Rape) کی تعریف یہی ملے گی: (وہ جنسی تعلق جو کسی شخص سے بالجبر اس کی مرضی کے خلاف قائم کیا جائے۔ گویا وہ جنسی تعلق جو بالرضا قائم ہو اس پر نہ سماج کو انگلی اٹھانے کا حق ہے، نہ قانون اس پر کوئی گرفت کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باہمی رضامندی سے جنسی تعلقات کے واقعات آئے دن میڈیا پر زیربحث رہتے ہیں۔ جو واقعات قانون کی گرفت میں آجاتے ہیں ان کے مقابلے میں ان واقعات کی تعداد بہت زیادہ ہے جو سماج کی نظروں سے پوشیدہ رہ کر انجام پاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو جنسی تعلق باہم رضا مندی سے قائم کیا جائے گا، دوسروں پر اس کا انکشاف شاذ و نادر ہی ہوپائے گا۔
ایک رپورٹ کے مطابق ہندستان میں ہم جنس پرستوں کی تعداد تقریباً ۲۵ لاکھ ہے۔ اگرچہ یہاں کے قانون میں اب تک ہم جنس پرستی کو قابل سزا جرم قرار دیا گیا ہے، لیکن اب ایسی آوازیں اٹھنے لگی ہیں کہ اسے قانونی جواز عطا کیا جائے اور ہم جنس پرستوں کے بھی روایتی شادی شدہ جوڑوں جیسے حقوق تسلیم کیے جائیں۔ چند سال سے ایک غیر سرکاری تنظیم (NGO) ناز فاؤنڈیشن دہلی اس کے حق میں تحریک چلارہی ہے۔ چنانچہ جون ۲۰۰۹ء میں دہلی ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں ہم جنس پرستی کو قانونی جواز دیے جانے کی رائے ظاہر کی۔ فاضل ججوں نے کہا کہ برطانوی عہد کے بنے ہوئے انڈین پینل کوڈ ۱۸۶۰ء کی دفعہ ۳۷۷، جس میں ہم جنس پرستی اور تسکین جنس کے دیگر غیر فطری طریقوں کو قابل تعزیر جرم قرار دیا گیا ہے، دستور ہند کی دفعہ ۲۱ سے ٹکراتی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ملک کے ہر باشندے کو زندگی گزارنے کے یکساں مواقع حاصل ہیں اور تمام لوگ قانون کی نظر میں برابر ہیں۔ [پاکستانی معاشرے میں آزادانہ جنسی تعلقات اور ہم جنس پرستی کو ایک برائی تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم، جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں حدود قوانین میں ترمیم کرکے مرد و خواتین کے ناجائز تعلقات کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پیپلزپارٹی کے موجودہ دورِحکومت میں ’ہم جنس پرستی‘ کے رجحان کو فروغ دینے کے لیے امریکی سفارت خانے میں پہلی مرتبہ ہم جنس پرستوں کی تقریب کا باقاعدہ انعقاد کیا گیا۔ ایک لبرل معاشرے کے مقابلے میں اسلام چونکہ آزاد جنسی تعلق اور ہم جنسی پرستی کو ممنوع قرار دیتا ہے، لہٰذا لبرل اور مغربی تصورات کے فروغ میں یہ ایک بڑی ’رکاوٹ‘ ہے۔ تاہم، لبرل اور سیکولر عناصر اپنے آلۂ کار حکمرانوں اور میڈیا کے ذریعے اس سوچ کو آگے بڑھانے کے لیے کوشاں ہیں۔]
ایک سماجی مسئلہ یہ بھی ہے کہ نکاح دشوار، پُرپیچ اور کثیر المصارف ہوجانے کی وجہ سے بہت بڑی تعداد میں لڑکیاں بڑی عمر کو پہنچ جانے کے باوجود بیٹھی رہ جاتی ہیں اوران کے رشتے نہیں ہوپاتے۔ یہ صورت حال طرح طرح کے سماجی مسائل کو جنم دیتی ہے۔ پھر ناجائز جنسی تعلقات کے نتیجے میں جو بچے پیدا ہوتے ہیں وہ صحیح خطوط پر نشو ونما اور مناسب تربیت اور سرپرستی سے محروم ہونے کی بنا پر سماج کے لیے وبالِ جان بن جاتے ہیں۔
جنسی آوارگی کی سزا قدرت نے ایڈز کی شکل میں دی ہے، جس سے دنیا کے تمام ممالک پریشان ہیں اور کروڑوں اربوں ڈالر خرچ کرنے او ربے شمار احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے باوجود اس موذی اور بھیانک مرض پر قابو پانے میں ناکام ہیں۔ UNAIDSکی ۲۰۰۷ء کی رپورٹ کے مطابق، دنیا میں تقریباً ۳ کروڑ ۳۰ لاکھ افراد ایچ آئی وی اور ایڈز سے متاثر ہیں۔ ان میں سے تقریباً نصف تعداد عورتوں کی ہے۔ ڈیڑھ کروڑ بچے ایسے ہیں جن کے والدین میں سے ایک یا دونوں ایڈز سے جاں بہ حق ہوگئے ہیں ۔ ایڈز سے متاثر ہونے والے نئے مریضوں میں ۱۵ سے ۲۴سال کی درمیانی عمر کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا تناسب ۴۵ فی صد ہے۔ ہندستان میں، ایک اندازے کے مطابق ۲۰۰۷ء میں ایڈز اور ایچ آئی وی سے متاثر افراد کی تعداد ۲۵لاکھ سے زائد تھی جن کی تعداد اب پہلے سے زیادہ ہے۔
یہ ہیں وہ چند سنگین مسائل، جو عالمی سطح پر بھی اور ملکی سطح پر بھی انسانی سماج کو درپیش ہیں۔ ان مسائل نے دنیا کے تمام مفکرین، دانش وروں، سیاست دانوں، امن و قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سماجی مصلحین کو پریشان کررکھا ہے۔ انھیں کوئی راہِ عمل سجھائی نہیں دے رہی ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے اوران کی گتھیوں کو سُلجھانے کے لیے وہ نت نئی تدابیر اختیار کرتے ہیں، مگر مسائل ہیں کہ مزید الجھتے چلے جارہے ہیں۔ طرح طرح کے قوانین بناتے ہیں، مگر وہ ذرا بھی مؤثر ثابت نہیں ہورہے ہیں۔ فطرت سے بغاوت کا یہ انجام تو سامنے آنا ہی تھا اور اس کے کڑوے کسیلے پھلوں کا مزا تو چکھنا ہی تھا۔
خاندان اور سماج کی صحیح خطوط پر استواری کے لیے اسلام نے جو تعلیمات دی ہیں، اگر ان پر عمل کیا جائے تو وہ مسائل پیدا ہی نہیں ہوں گے، جن کا اوپر کی سطور میں تذکرہ کیا گیا ہے، اس لیے کہ اللہ رب العالمین انسانوں کی ضروریات سے بھی واقف ہے اور ان کی فطرت سے بھی اچھی طرح آگاہ ہے، جس پر اس نے انھیں پیدا کیا ہے۔ خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب انسان اپنی فطرت سے بغاوت کرتے ہیں اور اس سے انحراف کرکے غلط راہوں پر جاپڑتے ہیں۔ اسلام کی یہ تعلیمات محض خیالی اور نظریاتی نہیں ہیں، بلکہ ایک عرصے تک دنیا کے قابل لحاظ حصے میں نافذ رہی ہیں اور سماج پر ان کے بہت خوش گوار اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ آج بھی جن معاشروں میں ان پر عمل کیا جارہا ہے وہ پاکیزگی ، امن اور باہمی ہم دردی و رحم دلی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ اس لیے جو لوگ بھی موجودہ دور کے مذکورہ بالا سماجی مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنا اور ان کے برے اثرات اور پیچیدہ عواقب سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں، انھیں اسلام کی ان تعلیمات کو اختیار کرنے اور انھیں اپنے سماج میں نافذ کرنے کے لیے سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے۔
مقالہ نگار ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی، علی گڑھ میں محقق اور مجلہ تحقیقاتِ اسلامی کے معاون مدیر ہیں
عورت کے بارے میں دو بنیادی سوالات ہمیشہ سے اٹھتے رہے ہیں۔ ایک یہ کہ معاشرہ میں اس کا صحیح مقام و مرتبہ کیا ہے؟ دوسرا یہ کہ مرد و عورت کے جنسی تعلقات کی صحیح نوعیت کیا ہے؟ مختلف تہذیبوں ، مذاہب اور ممالک کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عورت ان میں عموماً اپنے بنیادی انسانی حقوق سے محروم رہی ہے۔ اسے مرد کا حاشیہ اور ضمیمہ سمجھا گیا ہے۔ جب صنعتی انقلاب کے نتیجے میں اس کا ردّ عمل ہوا اور مساوات اور آزادی کی تحریکیں چلیں تو مرد اور عورت کے حقوق اور ذمہ داریوں میں کوئی فرق روا نہ رکھا گیا اور عورت سے ہر وہ کام لیا جانے لگا جو مرد کرسکتا ہے۔ بے محابا آزادی کے نتیجے میں مرد اور عورت کے جنسی تعلقات بھی بے اعتدالی کا شکار ہوئے اور آوارگی اور بے راہ روی کو فروغ ملا۔ اسلام کا نقطۂ نظر اس سلسلے میں توازن اور اعتدال کا ہے۔ اس نے سماج میں عورت اور مرد کا صحیح مقام اور نظام تمدن میں دونوں کی صحیح حیثیت متعین کی۔ حال ہی میں عورت اسلامی معاشرے میں کے نام سے مولانا جلال الدین عمری کی عالمانہ تصنیف شائع ہوئی ہے، جس میں انھوں نے، زیربحث موضوع پر پوری قوت، جرأت اور اعتماد کے ساتھ اسلامی نقطۂ نظر کی ترجمانی کی ہے۔
کتاب کے آغاز میں دور قدیم اورعہد جدید میں عورت کے مقام کا تعین کیا گیا ہے۔ یونان، روم اور قدیم یورپ میں، نیز یہودیت، عیسائیت اور ہندو مت میں عورت کی پست حیثیت کو حوالوں کے ساتھ ثابت کیا گیا ہے۔ پھر اس کے ردّعمل میں جدید نظریات نے اس کو کتنی آزادی عطا کردی اور اس کے نتیجے میں کس قدر جنسی آوارگی عام ہوئی، اس کا بھی تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔
اسلامی معاشرے میں عورت کے مقام و مرتبہ کا جائزہ لینے سے قبل بہ طور پس منظر عرب کے دورِ جاہلیت میں عورت کی پست حیثیت کو واضح کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے تمام حقوق سے محروم تھی ، اسے موجبِ ذلت و عار سمجھا جاتا تھا، بلکہ بعض قبائل میں اسے پیدا ہوتے ہی درگور کردیا جاتا تھا۔ اس کے بعد تفصیل سے عورت کے بارے میں اسلام کے اساسی تصورات سے بحث کی گئی ہے۔ کتاب کا یہ حصہ بہت اہم ہے۔
کتاب کی ایک بنیادی بحث ’عورت کا حقیقی دائرۂ کار‘ کے عنوان سے ہے۔ ’’اسلام نے ریاست اور معاشرے کے تحفّظ کی ذمہ داری اصلاً مرد کے سرڈالی ہے اور عورت کی جدّو جہد کا رخ گھر کی طرف موڑ دیا ہے۔ اس کی حقیقی پوزیشن یہ نہیں ہے کہ وہ بازار کی تاجر، دفتر کی کلرک، عدالت کی جج اور فوج کی سپاہی بنی رہے، بلکہ اس کے عمل کا حقیقی میدان گھر ہے‘‘ (ص۱۱۴-۱۱۵)۔ ’’کسی بڑی مصلحت کے تحت اس کو گھر چھوڑنے کی اجازت دی بھی گئی ہے یا کسی عبادت کے اجتماعی طریقے کو اس کے لیے مفید یا ضروری سمجھا گیا ہے، تو اس کے ساتھ ایسی تدابیر بھی اختیار کی گئی ہیں جو ہر آن اس کے اندر یہ احساس تازہ رکھتی ہیں کہ اس کا حقیقی مقام وہی ہے جہاں سے وہ چلی تھی۔ گھر سے باہر نکلنے کے یہ معنیٰ ہرگز نہیں ہیں کہ وہ حدودِ نسوانیت سے بھی باہر آچکی ہے‘‘۔ (ص۱۲۰)
عورت کا حقیقی دائرۂ کار اس کا گھر ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلام اسے عضوِ معطّل کی حیثیت دیتا ہے اور معاشرے سے اسے الگ تھلک کردیتا ہے۔ اس نے عورت کو ان حقوق سے محروم نہیں رکھا ہے جو اجتماعی زندگی بسر کرنے کے لیے ضروری ہیں، بلکہ وہ اسے اس قابل بناتا ہے کہ معاشرے میں کامیاب و بامراد زندگی بسرکرسکے۔ اسی وجہ سے اس نے اسے علم و عمل کے میدان میں پوری آزدی دی ہے۔ مصنف نے اس موضوع پر مدلّل بحث کی ہے اور قرونِ اولیٰ کی بہت سی مثالیں پیش کرکے ثابت کیا ہے کہ خواتین کو علم حاصل کرنے اور اس کی توسیع و اشاعت میں حصہ لینے کی پوری آزادی حاصل تھی۔ ساتھ ہی انھیں پاکیزہ مقاصد کے حصول کے لیے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت تھی۔ چنانچہ وہ کاشت کاری، تجارت اور صنعت و حرفت کے کاموں میں حصہ لیتی تھیں۔
’اسلامی معاشرے کی تعمیر میں عورت کا کردار‘ کے تحت صدرِ اول کی خواتین کی مثالیں پیش کی گئی ہیں کہ انھوں نے دین کے لیے بڑی قربانیاں پیش کی ہیں، مصیبتیں سہی ہیں، اللہ کے دین کو سربلند دیکھنے کی تمنا میں محاذِ جنگ پر بھی مختلف خدمات انجام دی ہیں، حق کی نصرت و حمایت میں زبان کی قوت بھی صرف کی ہے، معاشرے میں کہیں بگاڑ نظر آیا تو اس کے بدلنے اور اس کی جگہ خیرو اصلاح کو قائم کرنے کی جدّو جہد کی ہے، ذمہ دارانِ ریاست کے سامنے بے خوف و خطر حق کا اظہار کیا ہے۔ اس طرح اسلامی معاشرے نے مختلف مسائل میں عورت کی راے اور فہم سے فائدہ اٹھایا ہے اور اپنی تعمیر و تشکیل میں بھی اس کی عملی صلاحیتوں سے مدد حاصل کرتا رہا ہے۔ اس ضمن میں آگے فاضل مصنف نے کئی اہم مسائل سے بحث کی ہے اور ان کے سلسلے میں پائی جانے والی غلط فہمیاں دوٗر کی ہیں۔ مثلاً بعض معاملات میں شریعت نے دوعورتوں کی گواہی کو ایک مرد کی گواہی کے برابر قرار دیا ہے۔ اس سے بہ ظاہر عورت کی تنقیص معلوم ہوتی ہے۔ انھوں نے عورت کی گواہی سے متعلق فقہا کے خیالات کا تجزیہ کرتے ہوئے اس موضوع پر مفصّل اور مدلّل بحث کی ہے۔ عورت کی عملی صلاحیت کے ضمن میں مصنف محترم فرماتے ہیں کہ وہ اپنے فطری دائرے سے باہر وقتِ ضرورت معاشرتی خدمات انجام دے سکتی ہے، لیکن اس کے لیے چند بنیادی اصولوں کی پابندی ضروری ہے۔ وہ یہ کہ اپنی حقیقی پوزیشن (خانگی زندگی کی استواری) پر نظر رکھے، اپنے خاوند کی اطاعت کرے اور نامحرموں سے اختلاط اور میل جول سے بچے۔
ایک اہم بحث مصنف نے ’عورت اور منصبِ امامت‘ کے عنوان سے اٹھائی ہے۔ ان کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ’’اسلام اس کے خلاف ہے کہ عورت کے نازک ہاتھوں میں ملت کی قیادت و رہ نمائی کی زمام دے دی جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے لیے جن اوصاف و خصوصیات کی ضرورت ہے وہ اس میں طبعاً موجود نہیں ہیں۔ یہ انتہائی غیر فطری بات ہوگی کہ عورت جس دائرے میں کما حقّہ ذمے داری ادا نہیں کرسکتی، اس پر اس کا بارِ گراں ڈال دیا جائے‘‘۔ (ص۲۶۶)
کتاب کی دوسری اہم اور مبسوط بحث ’جنسی تعلقات‘ کے عنوان سے ہے۔ فاضل مصنف نے بیان کیا ہے کہ انسانی معاشرے ’جنس‘ کے معاملے میں شروع سے افراط و تفریط کا شکار رہے ہیں ۔ تفریط نے رہبانیت کی شکل اختیار کی، جس کے کڑوے کسیلے پھل صدیوں تک انسانوں کو کھانے پڑے اور افراط نے اباحیت اور آوارگی کا روپ دھارا، جس میں دورِ جدید کا مغربی معاشرے اور اس کے ہم نوا غرق ہیں۔ اسلام کا نقطۂ نظر اس معاملے میں انتہائی متوازن اور معتدل ہے۔ وہ راہبانہ نقطۂ نظر کی تردید کرتا ہے، جائز حدود میں جنسی تسکین کی نہ صرف اجازت دیتا ہے، بلکہ اس کی تاکید کرتا ہے، ہر طرح کے ناجائز تعلق پر روک لگاتا ہے۔ اس معاملے میں وہ فرد کی اخلاقی تربیت کرتا ہے، معاشرے کو پاکیزہ رکھنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے اور اس سلسلے میں قانون کا بھی سہارا لیتا ہے اور ان کی خلاف ورزی پر سزائیں بھی متعین کرتا ہے۔
بہ حیثیت مجموعی یہ کتاب متعدد خوبیوں کی حامل ہے۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ اس معذرت خواہانہ لب و لہجہ سے بالکل پاک ہے، جسے موجودہ دور کے بہت سے مسلم محققین اور دانش ور اختیار کیے ہوئے ہیں۔ مصنف بلاخوف لومۃ لائم پوری جرأت اوراعتماد کے ساتھ عورت کے حقوق اور حیثیت سے متعلق اسلامی تعلیمات کی ترجمانی کرتے ہیں۔
کتاب کی ایک نمایاں خوبی اس کا استدلالی انداز ہے۔ قدیم اور جدید تہذیبوں، معاشروں اور مذاہب میں عورت کی حیثیت کی بحث ہو، یا اسلامی معاشرے میں اس کے مقام و مرتبہ کا بیان، ہرجگہ معتبر اور مستند مآخذ و مراجع (قرآن و حدیث فقہا کی آرا) استعمال کیے گئے ہیں۔
اس کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ مصنف نے اسلامی معاشرے کے خدّو خال نمایاں کرتے ہوئے اسلام کی ابتدائی صدیوں کا مثالی نمونہ پیش کیا ہے۔ صحابیات، تابعیات اور تبع تابعیات کی علمی اور عملی سرگرمیاں تفصیل سے بیان کی ہیں اور اس سلسلے میں حدیث، سیرتِ نبوی، سیرتِ صحابہ و صحابیات، اسماء الرجال اور تاریخ و سوانح کی کتابوں سے واقعات و روایات کا حتی الامکان استقصا کیا ہے۔
یہ کتاب اگرچہ نصف صدی قبل شائع ہوئی تھی، لیکن اپنے مباحث کی اہمیت، استدلال کی قوت اور شستہ و رواں اسلوبِ بیان کی وجہ سے اب بھی اپنے موضوع پر بھرپور اور مفید ہے۔ مصنف کی نظرثانی اور بہت سے نئے مباحث کے اضافے نے اس کی افادیت کو دوچند کردیا ہے۔ اس موضوع پر مصنف کی ایک دوسری کتاب عورت اور اسلام کے عنوان سے ہے۔ اس میں بھی قرآن و سنت کی روشنی میں عورت کے مقام و مرتبے سے بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب کا رخ زیادہ تر تاریخی ہے، جب کہ زیر تبصرہ کتاب کا انداز علمی ہے۔ دونوں کتابوں کے مباحث کی یک جائی سے اسلامی معاشرے میں عورت کا تاب ناک کردار قاری کے سامنے آجاتا ہے۔(عورت اسلامی معاشرے میں، مولاناسید جلال الدین عمری۔ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی۔ صفحات: ۴۳۲، قیمت(مجلد) : ۱۶۰ بھارتی روپے)
عصرِحاضر کی مسلم ’دانش وری‘ کا دعویٰ یہ ہے کہ قرآن کریم سے گہرے اور غیرمعمولی تعلق کا اظہار کیا جائے، مگر عملاً اس کے معانی و مطالب میں خوب کھینچ تان کی جائے اور دُور کی کوڑیاں لائی جائیں۔ حدیث کے معتبر و مستند ذخیروں کی طرف رجوع کیے بغیر انھیں اوہام پر مبنی، ناقابلِ اعتبار اور سائنسی و عقلی اعتبار سے ناقابلِ قبول بلکہ لائق رد قرار دیا جائے۔ عربی زبان کی معمولی شُدبد کے ذریعے قرآنی الفاظ پر دقیق لغوی بحث کی جائے اور اپنے اخذکردہ معانی پر اصرار کیا جائے۔ اپنے اختصاص کے میدان کو دین و شریعت کی روح اور اصل قرار دے کر پورے دین کو اس کے گرد گھمایا جائے۔ ایسی ہی دانش وری کا ایک نمونہ وہ کتاب ہے جو ابھی حال ہی میں قرآن میں آبی وسائل اور انجینیری کے نام سے آئی ہے۔ اس کے مصنف جناب ڈاکٹر سید وقار احمد حسینی ہیں، جنھوں نے آبی وسائل کی انجینیرنگ میں امریکا سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
گذشتہ صدی کے ربع آخر میں عالمی سطح پر بعض مسلم دانش وروں نے جدید علوم کی اسلامی تشکیل (Islamization of Knowledge) کا نعرہ بلند کیا تھا۔ ان حضرات کی علمی و فکری کاوشیں اگر اپنی صحیح حدود میں رہتیں تو ان کی کوششیں قابلِ قدر، موجب ِ تشکر اور باعث فخر ہوتیں، لیکن محسوس ہوتا ہے کہ اچھے آغاز کے بعد رفتہ رفتہ ان میں غلو دَر آیا۔ جھنجھلاہٹ میں مبالغہ آمیزی کی جانے لگی، قرآنی آیات سے بہ تکلف جدید علوم کے اصول و قواعد، بلکہ جزئیات تک اخذ کی جانے لگیں اور اسے ’قرآن کے سائنسی اعجاز‘ کا نام دیا گیا۔
قرآن حکیم کتابِ ہدایت ہے۔ اس میں اسلام کے بنیادی عقائد، بالخصوص توحید اور آخرت پر استدلال کے لیے مظاہر کائنات، مثلاً آسمان، زمین، سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، سمندر، صحرا، دریا، کشتی، پانی، بادل، برق و باراں، ہوا، آندھی، طوفان، پھول، پھل، پودے، درخت، باغ، کھیتی، غلہ، دھوپ، سایہ، تاریکی، روشنی وغیرہ کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ وجہ استدلال کو اتنا عام رکھا گیا ہے کہ ہرذہنی سطح کا شخص بہ آسانی اسے سمجھ سکتا ہے۔ یہ کوئی سائنس کی کتاب تو نہیں ہے کہ اس سے جدید علوم کی کلیات و جزئیات اخذ کی جائیں، لیکن ’علوم کو اسلامیانے‘ کے علَم برداروں نے شعوری یا غیرشعوری طور پر قرآن کو سائنس کی درسی کتاب بنا دیا ہے۔ مولانا مودودیؒ نے سورئہ یوسف کی آخری آیت میں تَفْصِیْلَ کُلَّ شَیٔیٍ کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’بعض لوگ ’ہرچیز کی تفصیل‘ سے مراد خواہ مخواہ دنیا بھر کی چیزوں کی تفصیل لے لیتے ہیں اور پھر ان کو یہ پریشانی پیش آتی ہے کہ قرآن پاک میں جنگلات، طب، ریاضی، اور دوسرے علوم و فنون سے متعلق کوئی تفصیل نہیں ملتی‘‘ (تفہیم القرآن، ج۲، ص ۴۳۸)۔ اب ’علوم کو اسلامیانے‘ کے علَم برداروں نے یہ پریشانی بھی دُور کر دی ہے اور تمام طبیعیاتی علوم کی تفصیلات قرآن کریم سے اخذ کرلی ہیں۔
جناب مصنف کا شمار بھی ’علوم کواسلامیانے‘ کی فکر پیش کرنے والوں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنے ڈھنگ سے تعلیم، آبی وسائل کی انجینیرنگ، آبی قوانین، ماحولیات، معاشیات، معاشی انجینیرنگ اور فلسفہ تاریخ و سائنس جیسے علوم کو ’اسلامیانے‘ کی کوشش کی ہے۔ آبی وسائل کے علوم کو انھوں نے کس طرح ’اسلامایا‘ ہے اور اس کے لیے انھیں کتنی دُور کی کوڑی لانی پڑی ہے، اس کے نمونے زیرمطالعہ کتاب میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔
مصنف موصوف کے نزدیک آبی وسائل کا علم اور انجینیرنگ ’قرآن کا سب سے اہم موضوع‘ ہے۔ یہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر ’فرض‘ ہے۔ اس کا شمار ’اعمالِ صالحہ‘ میں ہوتا ہے۔ اس سے پہلوتہی ’کفر‘ ہے۔ حقیقت میں یہی ’فقہ‘ ہے اور اس میدان میں عقل پر مبنی جدید فکر اور سوچ ہی ’اجتہاد‘ ہے، وغیرہ وغیرہ۔ لکھتے ہیں: ’’اسلامی علوم اور ٹکنالوجی اپنے علوم کے لحاظ سے اور تخصیصی طور پر آبی وسائل اور دیگر علوم سے بحث کرنے والے اور اس کے دیگر شعبہ جات قرآن کے سب سے اہم امور ہیں‘‘ (ص ۵۷)۔ ’’علوم آبی وسائل اور انجینیرنگ فی الاصل قرآنی، اسلامی، مذہبی، اور الہامی علوم ہیں۔ اسلامی اخلاقیات اور قانون کی اصطلاح میں بحیثیت معلوماتِ عامہ اس علم کا حصول ’فرضِ عین‘ یعنی ہرشخص کی اپنی ذمے داری ہے، جب کہ ان علوم میں تخصص حاصل کرنا ’فرضِ کفایہ‘ ہے‘‘ (ص ۵۰)۔ ’’آبی وسائل کے علوم کو سیکھنا اور ان کو عملی جامہ پہنانا ’اعمالِ صالحہ‘ کی تعریف میں آتا ہے، جن پر اللہ تعالیٰ نے اس دنیا اور آخرت میں اپنے انعامات کا وعدہ کیا ہے‘‘ (ص ۶۳)۔ ’’پانی یا اس جیسے دیگر قدرتی وسائل کے فروغ کے ذریعے زندگی کے لیے معاون نظام فراہم کرنا ’جہاد‘ ہے‘‘ (ص ۸۶)۔ ’’آبی وسائل و ذرائع کی بدانتظامی اور غلط استعمال ’کفر‘ ہے‘‘ (ص ۱۹۳)۔ ’’پانی میں شامل نقصان دہ عناصر کی تحقیق کے لیے آبی وسائل کے اسلامی سائنس اور آبی سائنس کے خدائی قانون کا خصوصی علم ’فقہ‘ ہے‘‘(ص ۱۹۹)۔وہ اعداد و شمار سے بھی کام لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’علوم آبی وسائل سے متعلق قرآن میں ۹۴۱ آیات وارد ہوئی ہیں، جب کہ نماز کا ذکر ۸۱بار، زکوٰۃ ۳۲ بار، حج کا ۸بار اور روزے کاچھے بار ہوا ہے‘‘۔ (ص ۵۹)
یہ اعداد و شمار صحیح نہیں ہیں۔ قرآنی انڈیکس پر سرسری نظر ڈالنے سے ان کی غلطی واضح ہوجاتی ہے۔ پھر آبی وسائل سے متعلق قرآنی آیات کی کثرت کی حقیقت یہ ہے کہ، مثلاً قرآن میں زمین (الارض) اور آسمان (السمائ/السماوات) کے الفاظ ۵۶۰ آیتوں میں آئے ہیں۔ فنی طور سے یہ آیات علوم آبی وسائل سے کیوں کر متعلق ہوسکتی ہیں؟ اس طرح تو دنیا کے ہرعلم اور اس کی ہرشاخ سے ان کو مربوط کیا جاسکتا ہے۔ یہ آیات اصلاً اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی وحدانیت کے اثبات کے لیے آئی ہیں۔ فی الحقیقت ان کا آبی وسائل کے استعمال کی کسی بحث سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
مصنف نے بزعم خود ’آبی وسائل کے علم اور انجینیری‘ سے متعلق قرآنی آیات کے اقتباسات نقل کر کے ان کی تشریح کی ہے۔ ان میں سے بہت سی آیات عمومی توجہ دلاتی ہیں، لیکن مصنف نے انھیں بھی خوب کھینچ تان کر علوم آبی وسائل سے متعلق کر دیا ہے۔ مثلاً سورئہ فاتحہ کی پہلی ہی آیت اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ کی یہ تشریح کی ہے: ’’تمام عالموں کا پرورش کرنے والا، آبی طبیعیات ارضی کے جہانوں کی تمام قوتوں اور مظاہر کا حاکم، منتظم، پالنے والا اور تکمیل کرنے والا‘‘ (ص ۱۰۳) lسورئہ بقرہ کی آیت ۱۰۷: ’’آسمانوں اور زمین کی فرماں روائی اللہ ہی کے لیے ہے‘‘ سے یہ اخذ کیا ہے: ’’پانی اور اس سے متعلقہ زمینی وسائل اور فضائی مظاہر کا اللہ تعالیٰ تنہا مالک اور مختارِکل ہے‘‘ (ص ۱۵۸)l سورئہ بقرہ کی آیت ۲۰۸: ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً، نقل کرکے اس کی یہ تشریح کی ہے: ’’اس کا مطلب طبیعیات و کیمیا، معاشیات و نفسیات اور دیگر اشیا کو خدا نے جس طریقے پر بنایا، واضح کیا اور حکم دیا ہے اس کو اسی طرح سمجھنا اور اس کا عملی اطلاق کرنا ہے‘‘ (ص۸۳) l’’اسلام کی مکمل اتباع اور اس میں پورے کے پورے داخل ہوجانے میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ پانی اور اس سے متعلقہ دیگر قدرتی وسائل اور ذرائع کو ترقی دی جائے اور اس کا بہتر استعمال کیا جائے‘‘۔ (ص ۱۷۱)
کئی مقامات پر مشہور نومسلم دانش ور علامہ محمد اسد کے ترجمۂ قرآن The Message of The Quranکی تعریف و تحسین کی گئی ہے، اور اس سے استفادے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ اس ترجمۂ قرآن کی جس خاص بات کی طرف مصنف نے بھی اشارہ کیا ہے، یہ ہے کہ اس میں آیات کی جدید سائنسی تشریح کی گئی ہے (ص ۳۷، ۹۲) آیات کو سائنسی اصولوں کے تابع بنانے اور انھیں نام نہاد عقلی چوکھٹوں میں فٹ کرنے کے معاملے میں خود مصنف، محمداسد کے ہم فکر ہیں۔
مثال کے طور پر فرعون کی غرقابی اور بنی اسرائیل کی نجات کا تذکرہ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر آیا ہے۔ مصنف نے سورئہ بقرہ (۴۷، ۵۰) اور سورئہ طٰہٰ (۷۷-۷۹) کی آیات کی تشریح میں لکھا ہے: ’’بنی اسرائیل بے خوف ہوکر دریا کو پار کرگئے۔ ان کی اس بے خوفی کی وجہ وہ یقینی معلومات تھیں جو انھیں ایک متعینہ مقام پر مدوجزر کی کیفیات سے متعلق حاصل تھیں۔ موسیٰ علیہ السلام اور ان کے پیروان ’صحیح سائنسی معلومات‘ کا اطلاق کر رہے تھے، جو یا تو ان کے تجربے اور مشاہدے سے انھیں حاصل ہوئی تھیں یا پھر یہ معلومات انھیں کسی اور ذریعے سے فراہم کی گئی تھیں‘‘ (ص ۱۱۶-۱۱۷)۔ جوار بھاٹے والی توجیہ تو اور متجددین بھی کرتے ہیں، البتہ مصنف ان سے بھی دوقدم آگے ہیں۔ وہ یہ عقلی توجیہ کرنے کے ساتھ مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہیں: ’’اللہ اور اسلام پر ایقان رکھنے والے مسلمانوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ سمندری جوار بھاٹے (مدوجزر) کی ان گھٹتی بڑھتی کیفیات سے متعلق علم حاصل کریں، تاکہ اس کے فوائد حاصل کرسکیں اور ان سے ہونے والے نقصانات سے بچا جاسکے، جیساکہ اس قصے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے‘‘۔ (ص ۱۱۶)
تاہم، مشکل یہ ہے کہ قرآنی الفاظ ان کی اس توجیہ کا ساتھ نہیں دیتے۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل مدوجزر کی یقینی معلومات کے سبب بے خوف نہیں تھے، بلکہ انھیں تو آخر تک لشکرِ فرعون کے ذریعے اپنی گرفتاری کا اندیشہ ستا رہا تھا، چنانچہ انھوں نے اپنے پیچھے لشکر کو آتے دیکھا تو گھبرا کر پکار اُٹھے: ’’ہم تو پکڑے گئے‘‘ (الشعر۲۶:۶۱)۔ اس موقعے پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی ؑ کو وحی کی کہ سمندر پر اپنا عصا مارو، اس سے سمندر پھٹ گیا اور درمیان میں خشک راستہ نکل آیا: ’’ان کے لیے سمندر میں سے سوکھی سڑک بنا لے‘‘ (طٰہٰ ۲۰:۷۷) لیکن مصنف اس موقع پر بھی آیت کے ساتھ زورآزمائی سے نہیں چوکتے۔ وہ اس کی تشریح ان الفاظ میں کرتے ہیں: ’’حضرت موسٰی ؑ کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا کہ بحراحمر کو پار کرنے کے لیے وقت اور مقام کا انتخاب (اضرب، ضرب لگائو) کریں اور اس کو پار کرنے کے لیے طریقہ (طریقاً) اختیار کریں (ص۱۱۶)۔ افسوس کہ قرآن کے الفاظ اور اس کا پورا اندازِ بیان اس درفطنی کی تائید نہیں کرتا۔
کتاب کے مترجم نے آیاتِ قرآنی کا ترجمہ بلاصراحت مولانا مودودیؒ کی تفہیم القرآن سے لیا ہے۔ اس بنا پر کئی مقامات پر تضاد کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ مصنف کچھ کہنا چاہتے ہیں اور مولانا مودودیؒ کے ترجمے سے کچھ اور مفہوم نکلتا ہے، مثلاً سورئہ بقرہ (۱۶۴) میں اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِکو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں شمار کیا گیا ہے۔ مولانا مودودیؒ نے اس کا ترجمہ ’رات اور دن کا پیہم ایک دوسرے کے بعد آنا‘ کیا ہے، جب کہ مصنف ’اختلاف‘ سے عدم اتفاق، ناموافقت، حالت، کیفیت یا مرتبہ میں فرق، غیریکساں، مختلف، ناموزوں، بے جوڑ یا غیرمتفق ہونا‘ مراد لیتے ہیں اور رات اور دن کے درمیان اختلاف کو ’سائنسی حقیقت‘ قرار دیتے ہیں (ص۱۱۲-۱۱۳)۔ لِاِِیْلٰفِ قُرَیْشٍ کا ترجمہ مولانا مودودیؒ نے یہ کیا ہے: ’’چونکہ قریش مانوس ہوئے‘‘، جب کہ مصنف ایلاف کے معنی: ’اقرارنامہ، ضمانت اور امان‘ بتاتے ہیں۔ (ص ۲۰۰)
عصری دانش وری کے اظہار کے لیے ضروری ہے کہ دین کے دوسرے بنیادی ماخذ ’سنت‘ پر ہاتھ صاف کیا جائے، چنانچہ اس معاملے میں بھی مصنف نے بڑی بے باکی سے اپنے خیالات کا اظہار ان لفظوں میں کیا ہے: ’’آج سنت سے متعلق وہی کتابیں باقی بچی ہیں جو صرف مشہور و معروف ہیں اور جو نماز کے طریقوں، اسلام کے دیگر ستونوں اور عبادتی رسوم و رواج سے متعلق روایات پر مبنی ہیں۔ ان میں خدا اور رسولؐ سے منسوب وہ غلط روایات بھی شامل ہیں جو غلامی، بلانکاح باندیوں سے تعلقات اور عموماً عورتوں سے متعلق ہیں‘‘ (ص ۶۷)۔ ’’سنت کی جو سب سے مشہور اور زیراستعمال کتب ہیں وہ ’صحاح ستہ‘ ہیں۔ ان میں بہت سی ایسی روایات اور احادیث بھی وارد ہوئی ہیں جو قرآن، عقل اور طبعی علوم (فطرت کائنات میں اللہ تعالیٰ کی آیات اور خدا کی سنت) سے ٹکراتی ہیں، اس لیے انھیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کرنا نہایت غلط اور اہانت آمیز ہے۔ مثال کے طور پر بخاری اور دیگر کتب احادیث میں بعض ایسی روایات ملتی ہیں جن میں عورتوں کو مردوں سے کم تر قرار دیا گیا ہے۔ یہ تمام غلط ’روایات‘ ہیں جو حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کردی گئی ہیں۔ یہ قرآن میں بتائے گئے معیارِ تقویٰ کے اصولوں سے ٹکراتی ہیں، لہٰذا یہ صحیح کہلائے جانے کی مستحق نہیں ہیں۔ ان روایات کو جو ’اخلاقی‘ اور عقلی لحاظ سے ناقابلِ یقین اور سائنسی لحاظ سے غیرصحیح معلوم ہوں، انھیں جھوٹی اور خدا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت پر مبنی قرار دے کر چھانٹ دینا چاہیے‘‘۔ (ص ۶۶)
اس طرح کی نامعقول باتیں بہت سے ’دانش ور‘ قرآن کریم سے متعلق بھی کہتے ہیں۔ مصنف بار بار یہ تاکید کرتے ہیں کہ ’ان نام نہاد مذہبی کتابوں‘ کی جگہ مسلمانوں کو کتاب الخراج اور کتاب الاموال نامی کتابوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے، جو ’حقیقی سنت‘ کی ترجمان اور صحیح حدیث کی کتابیں ہیں (ص ۱۲، ۴۳، ۶۳ وغیرہ)، حالانکہ ان کتابوں کا استناد بخاری اور مسلم جیسی کتابوں سے کم تر ہے۔ اُمت کے نزدیک ’صحاح ستہ‘ کو قبولِ عام حاصل ہے، ان میں زندگی کے جملہ پہلوئوں پر معتبر اور مستند حدیثوں کو جمع کر دیا گیا ہے۔ اس کے مقابلے میں کتاب الخراج اور کتاب الاموال نامی کتابیں زندگی کے صرف ایک خاص پہلو سے بحث کرتی ہیں۔ اس لیے ان کا درجہ اُمت کے نزدیک ’صحاحِ ستہ‘ سے فروتر ہے۔ سنت کو بے اعتبار کرنے، احادیث کا درجہ گھٹانے اور معتبر کتب حدیث کو مشکوک بنانے کی کوششیں پہلے دشمنانِ اسلام انجام دیا کرتے تھے، افسوس کہ اب اس کی کمان ’روشن خیال‘ مسلم دانش وروں نے سنبھال لی ہے۔
مصنف کی بے خبری کا شاہکار ان کی یہ تحقیق ہے: ’’آبی و زرعی قوانین سے متعلق بخاری میں صرف چند روایات ملتی ہیں، جب کہ امام مالک کے مجموعے میں ایک بھی روایت اس سلسلے کی نہیں پائی جاتی‘‘ (ص ۶۷)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ موصوف نے ان کتابوں کو ہرگز نہیں دیکھا ہے۔ بخاری میں کتاب الوضو، کتاب الغسل، کتاب البیوع، کتاب الاشربۃ، کتاب الاطعمۃ، کتاب الحرث، کتاب المزارعۃ اور کتاب المسافاۃ وغیرہ کے تحت اس موضوع کی سیکڑوں احادیث ہیں اور موطا امام مالک میں کتاب الطہارۃ، کتاب البیوع، کتاب المسافاۃ، کتاب الطعام والشراب وغیرہ میں ایسی احادیث خاصی تعداد میں ہیں۔
مصنف کو شکوہ ہے کہ مسلمانوں نے ان میں تحریفات کردی ہیں۔ ان کے نزدیک: ’’یہ عبادات مقصود بالذات نہیں ہیں، بلکہ ان کے ذریعے دیگر اہم مقاصد کا حصول مطلوب ہے‘‘ (۸۹)۔ ’’انحراف اور کج فکری کے حامل مسلمانوں نے ان کو اپنے آپ میں مقصد ٹھیرا لیا ہے اور خود کو ظاہری رسوم کا پابند بنا لیا ہے‘‘ (ص ۷۵)۔ پھر انھوں نے ان مقاصد کی بھی وضاحت کر دی ہے مثلاً: ’’حج کا ایک مقصد روے زمین کی سیاحت ہے‘‘ (ص ۷۷)۔ ’’حج کے ذریعے ساری دنیا کے مسلمانوں میں ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرنا مقصود ہے، جہاں لوگ ایک مشترکہ زبان عربی میں آپسی تبادلہ خیال و گفتگو کرسکیں۔ اس کے نتیجے میں تجارت و تعلقات میں وسعت کے ساتھ ٹکنالوجی کی منتقلی عمل میں آسکتی ہے‘‘ (ص ۱۹۱)۔ پھر یہ کہ مسلمانوں نے حج کے ادارے کو مسخ کرکے رکھ دیا اور خود کو اس فریب میں مبتلا کرلیا کہ صرف چند دعائوں کے پڑھ لینے اور میکانکی انداز سے چند رسوم کے ادا کرلینے سے ان کے تمام گناہ دھل جائیں گے۔ خدا نے کبھی اس بات کا وعدہ نہیں کیا کہ حج یا عمرہ کے ادا کرنے سے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے‘‘ (ص ۷۷)۔ زکوٰۃ کی مدات قرآن کریم میں متعین ہیں، لیکن مصنف کے نزدیک: ’’اس میں وہ پروجیکٹ بھی شامل ہیں جو آبی وسائل و ذرائع اور انجینیرنگ کی ترقی سے متعلق ہیں، جیسے سربراہی آب، آب پاشی، زراعت، جہازرانی اور آبی قدرت کے نظام وغیرہ‘‘۔ (ص ۷۳)
مصنف نے بہت سی باتیں غلط اور گمراہ کن بھی لکھی ہیں۔ مثال کے طور پر: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ نبوت کے پہلے تیرہ سالہ دور میں، جو مکی دور کہلاتا ہے، اس میں شراب کا کہیں ذکر نہیں کیا گیا۔ اس لیے کہ اس وقت اس سے کہیں زیادہ اہم مسائل درپیش تھے‘‘ (ص ۸۵)۔ اس سلسلے میں پہلی بات یہ عرض کرنی ہے کہ سورئہ نحل میں، جو مکّی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور کھجور کے درختوں اور انگور کی بیلوں سے بھی ہم ایک چیز تمھیں پلاتے ہیں، جسے تم نشہ آور بھی بنالیتے ہو اور پاک رزق بھی‘‘ (آیت ۶۷)۔ مصنف یہاں کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ یہ کہ حرمت ِ شراب کے بارے میں سکوت اختیار کرلینا چاہیے؟ بعض مقامات پر بڑی بے باکی سے دینی قدروں پر تیشہ چلایا گیا ہے، مثلاً اللہ تعالیٰ نے جانوروں کا گوشت حلال اور قربانی کو مشروع کیا ہے، لیکن موصوف فرماتے ہیں: ’’مویشیوں کو بطور غذا، یہاں تک کہ قربانی کے مقاصد کے لیے بھی استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔ ان کا استعمال زمین کی بہتری اور آبپاشی کے لیے کیا جاناچاہیے‘‘۔ (ص ۱۵۶)
یہ کتاب ’قرآن میں آبی وسائل‘ کے موضوع پر مصنف کے مجوزہ سلسلۂ کتب کی پہلی جلد ہے۔ ابھی پانچ جلدیں اور آنی ہیں۔ خدا خیر کرے، نہیں معلوم ان میں مصنف کے کیسے کیسے ’اجتہادات‘ سامنے آئیں گے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مغرب میں جا بسنے والے بعض نام نہاد مسلم دانش وروں کی ذہنی ساخت کس قدر تبدیل ہوکر رہ گئی ہے اور وہ اسلامائزیشن آف نالج کے نام پر کیسے کیسے گل کھلا رہے ہیں؟
اندھیری رات ہو، جھکڑ.ّ چل رہے ہوں، راستہ ٹیڑھا میڑھا اور نا ہموار ہو، جھاڑ جھنکار کی وجہ سے سانپ بچھّو اور دیگر موذی جانوروں اور حشرات الارض کا ہر وقت کھٹکا لگا ہو، ایسے میں ایک شخص چلا جارہا ہو، اس کے ہاتھ میں ٹارچ ہو، لیکن اسے اس نے بجھا رکھا ہو، اس شخص کی بے وقوفی پر ہم میں سے ہر ایک کو افسوس ہوگا۔ وہ ٹارچ جلاکر اپنا راستہ دیکھ سکتا ہے، راہ کی ناہمواریوں میں گرنے پڑنے سے بچ سکتا ہے، موذی جانوروں سے اپنی حفاظت کرسکتا ہے، لیکن اس کی مت ماری گئی ہے کہ وہ ٹارچ جیسی مفید چیز اپنے پاس ہوتے ہوئے اس سے فائدہ نہیں اٹھارہا ہے، اسے بجھا رکھا ہے اور اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے۔
ایسے بے وقوف شخص پر ہم جتنا چاہیں ہنس لیں، لیکن حقیقت میں ٹھیک ایسا ہی رویّہ ہم مسلمانوں نے قرآن کے ساتھ اختیار کر رکھا ہے۔ ہم مصائب و مشکلات کا شکار ہیں۔ دشمن ہم پر شیر ہیں اور ہمیں نقصان پہنچانے کے لیے طرح طرح کی سازشیں کر رہے ہیں۔ ہمیں صحیح راہِ عمل سجھائی نہیں دے رہی ہے ۔ ایسی صورت حال میں قرآن کی شکل میں ہمارے پاس ایک روشنی موجود ہے جس سے ہم گھٹا ٹوپ تاریکیاں دور کرسکتے ہیں ، اپنی مشکلات و مسائل کا ازالہ کرسکتے ہیں ، اس کی رہ نمائی میں ترقی اور کامیابی کی منزلیں طے کرسکتے ہیں۔ لیکن ہم نے اسے گل کر رکھا ہے اور اس سے فائدہ نہیں اٹھارہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کو متعدد مقامات پر ’نور‘ کہا ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہے:
قَدْ جَآئَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیْنٌ o یَّھْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَ یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِہٖ وَ یَھْدِیْھِمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ o (المائدہ ۵:۱۵-۱۶) تمھارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں، سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے اذن سے ان کو اندھیروں سے نکال کر اجالے کی طرف لاتا ہے اور راہِ راست کی طرف ان کی رہ نمائی کرتا ہے۔
مسلمان قرآن کریم سے اپنی گہری عقیدت کا اظہار کرتے ہیں،اسے اپنی مقدّس مذہبی کتاب سمجھتے ہیں اور اس کی ادنیٰ سی توہین بھی برداشت نہیں کرتے۔ اگر کوئی شخص قرآن کے خلاف یا وہ گوئی کرتا ہے یا عملاً اس کی توہین کا مرتکب ہوتا ہے تو ان کا جوشِ انتقام دیدنی ہوتا ہے ۔ وہ اس پر بے چین ہوجاتے ہیں، اس کے خلاف سراپا احتجاج بن جاتے ہیں اور اسے سزا دینے یا دلانے کی ہر ممکن جدو جہد کرتے ہیں اور اس سلسلے میں اپنی جانوں کی بھی پروا نہیں کرتے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کا عملی رویّہ قرآن سے بے اعتنائی کا ہوتا ہے۔ قرآن کا ان کی اپنی ذات سے کیا تعلق ہے؟ وہ ان کی زندگیوں میں کیسی تبدیلی لانا چاہتا ہے؟ وہ کیسا انسان بنانا چاہتا ہے؟ ان سوالات پر وہ مطلق غور نہیں کرتے۔ ان کے اس تضاد کو ایک جملے میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ ’’مسلمان قرآن پر مرنا جانتے ہیں، لیکن اس پر جینا نہیں جانتے‘‘۔
امت مسلمہ کی چودہ سو سالہ تاریخ شاہد ہے کہ جب اس نے قرآن کریم کو اپنا ہادی و راہ نما بنایا، اسے سینے سے لگائے رکھا، اس سے روشنی حاصل کرتی رہی، اس کے احکام و فرامین کو اپنی زندگی میں نافذ کیا اور ان پر عمل پیرا رہی، اس وقت تک اقوامِ عالم کی امامت و قیادت کی زمام اس کے ہاتھ میں رہی، کام یابی و کامرانی نے اس کے قدم چومے اور اس کی عظمت و رفعت مسلّم رہی۔ لیکن جب اس کا رشتہ کتاب اللہ سے کم زور ہوا، اس نے اسے پسِ پشت ڈال دیا اور قرآنی تعلیمات کی جگہ نفسانی خواہشات، ذاتی مفادات اور رسم و رواج نے لے لی تو اس کی ہوا اکھڑ گئی، اس کا شیرازہ منتشر ہوگیا، اس کا رعب و دبدبہ اور سطوت و ہیبت کافور ہوگئی، دوسری قومیں اس پر شیر ہوگئیں اور اس طرح ٹوٹ پڑیں جس طرح بھوکے کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ذلّت و نکبت اور پس ماندگی و شکست خوردگی اس کا مقدّر بن گئی۔ امت مسلمہ کے عروج و زوال کی اس تاریخ پر رسولؐ اللہ کا یہ فرمان صادق آتا ہے:
اللہ اس کتاب کی وجہ سے کچھ قوموں کو بلندی عطا کرتا ہے اور کچھ قوموں کو پستی میں دھکیل دیتا ہے۔(مسلم)
اسی مفہوم کو شاعرِ مشرق علامہ اقبال نے اس شعر میں ادا کیا ہے ؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر
مسلمانوں کی یہ حالتِ بد اللہ تعالیٰ کی سنّتِ جاریہ کے عین مطابق ہے۔ جو امت بھی اس کی کتاب کی قدر نہیں کرتی، اس کے کلام سے بے اعتنائی برتتی ہے اور اس کے احکام پر عمل نہیں کرتی، ذلّت اور پستی اس کا مقدّر بن جاتی ہے۔ وہ اللہ کی کتاب کو چھوڑ دیتی ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اسے بے یار و مددگار چھوڑدیتا ہے۔ یہود اور نصاریٰ کا انجامِ بد اس کی واضح مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ اس نے ان کے پاس اپنی جو کتابیں بھیجی ہیں، اگرانھیں وہ مضبوطی سے تھامے رہے اور ان کی تعلیمات پر عمل کرتے رہے تو اخروی نجات و فلاح کے ساتھ دنیا میں بھی کام یاب و بامراد اور سرخ رو رہیں گے:
وَلَوْ اَنَّھُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ مِّنْ رَّبِّھِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِھِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِھِمْ (المائدۃ ۵:۶۶) اگر انھوں نے تورات اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم کیا ہوتا جو ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس بھیجی گئی تھیں، تو رزق ان کے لیے اوپر سے برستا اور نیچے سے اُبلتا۔
مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا، بلکہ اللہ کی آیات کا انکار کیا، ان سے روگردانی کی اور ان پر عمل نہیں کیا۔ اس کے نتیجے میں وہ اللہ کے غضب کا شکار ہوئے اور دنیا میں ذلیل و خوار ہوکر رہ گئے:
وَ ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَ الْمَسْکَنَۃُ وَ بَآئُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ یَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ ط ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَ o (البقرہ ۲:۶۱)آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ ذلّت و خواری اور پستی و بد حالی ان پر مسلّط ہوگئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھر گئے۔ یہ نتیجہ تھا اس کا کہ وہ اللہ کی آیات سے کفر کرنے لگے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرنے لگے، یہ نتیجہ تھا ان کی نافرمانیوں کا اور اس بات کا کہ وہ حدودِ شرع سے نکل نکل جاتے تھے۔
مسلمانوں کی زندگیوں میں قرآن سے دوری، بے اعتنائی او رغفلت کے مختلف مظاہر پائے جاتے ہیں۔ سطورِ ذیل میں ان کا تذکرہ کیا جاتا ہے:
طاقوں میں سجایا جاتا ہوں ، آنکھوں سے لگایا جاتا ہوں
تعویذ بنایا جاتا ہوں ، دھو دھوکے پلایا جاتا ہوں
جزداں حریر و ریشم کے اور پھول ستارے چاندی کے
پھر عطر کی بارش ہوتی ہے، خوشبو میں بسایا جاتا ہوں
جس طرح سے طوطا مینا کو، کچھ بول سکھائے جاتے ہیں
اس طرح پڑھایا جاتا ہوں، اس طرح سکھایا جاتا ہوں
جب قول و قسم لینے کے لیے، تکرار کی نوبت آتی ہے
پھر میری ضرورت پڑتی ہے ، ہاتھوں پہ اٹھایا جاتا ہوں
اس رویے پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے بڑا لطیف طنز کیا ہے، فرماتے ہیں: ’’بتائیے، اگر کوئی شخص بیمار ہو اور علمِ طب کی کوئی کتاب لے کر پڑھنے بیٹھ جائے اور یہ خیال کرے کہ محض اس کتاب کو پڑھ لینے سے بیماری دور ہوجائے تو آپ اسے کیا کہیں گے؟ کیا آپ نہ کہیں گے کہ بھیجو اسے پاگل خانے میں، اس کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ مگر شافیِ مطلق نے جو کتاب آپ کے امراض کا علاج کرنے کے لیے بھیجی ہے، اس کے ساتھ آپ کا یہی برتاؤ ہے۔ آپ اس کو پڑھتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ بس اس کے پڑھ لینے ہی سے تمام امراض دُور ہوجائیں گے ، اس کی ہدایات پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں، نہ ان چیزوں سے پرہیز کی ضرورت ہے جن کو یہ مضر بتارہی ہے۔ پھر آپ خود اپنے اوپر بھی وہی حکم کیوں نہیں لگاتے جو اس شخص پر لگاتے ہیں جو بیماری دور کرنے کے لیے صرف علمِ طب کی کتاب پڑھ لینے کو کافی سمجھتا ہے‘‘۔(خطبات، ۲۰۰۶ء، ص ۴۱-۴۲)
قرآن نے انھیں اتحاد و اتفاق کے ساتھ رہنے اور انتشار و تفرقہ سے بچنے کی تاکید کی تھی،مگر آج باہمی اختلافات ان کی پہچان ہیں۔اس نے انھیں ایک دوسرے کا مذاق اڑانے،برے القاب سے پکارنے، بدگمانی رکھنے،ٹوہ میں لگنے اور غیبت کرنے سے روکا تھا،مگر آج مسلمانوں میں یہ تمام اخلاقی برائیاں در آئی ہیں۔اس نے انھیں ایک ماں باپ کی اولاد قرار دیتے ہوئے سماجی مساوات کا درس دیا تھا،مگر آج غیر قوموں کی طرح ان کا معاشرہ بھی ذات پات کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے اور کچھ لوگوں کو اشراف اور کچھ کو اراذل قرار دے دیا گیا ہے۔ قرآن نے سود کو حرام قرار دیا تھا، مگر آج ان کی معیشت سودی لعنت کا شکار ہے۔ اس طرح کے اور بھی کتنے قرآنی احکام ہیں جنھیں مسلمان جانتے بوجھتے پامال کر رہے ہیں۔
مولانا مودودی نے بہت موثر اسلوب میں اس رویے پر تنقید کی ہے۔ فرماتے ہیں: ’’آپ اس نوکر کے متعلق کیا کہیں گے جو آقا کی مقرر کی ہوئی ڈیوٹی پر جانے کے بجاے ہر وقت بس اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا رہے اور لاکھوں مرتبہ اس کا نام جپتا چلا جائے۔ آقا اس سے کہتا ہے کہ جا کر فلاں فلاں آدمیوں کے حق ادا کر، مگر یہ جاتا نہیں، بلکہ وہیں کھڑے کھڑے آقا کوجھک جھک کر دس سلام کرتا ہے اور پھر ہاتھ باندھ کرکھڑا ہو جاتا ہے۔آقا اسے حکم دیتا ہے کہ جا اور فلاں فلاں خرابیوں کو مٹا دے، مگر یہ ایک انچ وہاں سے نہیں ہٹتا اور سجدے پر سجدے کیے چلا جاتا ہے… اگرآپ کا کوئی ملازم یہ رویّہ اختیار کرے تو میں نہیں جانتا ہوں کہ آپ اسے کیا کہیں گے۔ مگر حیرت ہے آپ پر کہ خدا کا جو نوکر ایسا کرتا ہے آپ اسے بڑا عبادت گزار کہتے ہیں!یہ ظالم صبح سے شام تک خدا جانے کتنی مرتبہ قرآن شریف میں خدا کے احکام پڑھتا ہے، مگر ان احکام کوبجا لانے کے لیے اپنی جگہ سے جنبش تک نہیں کرتا،بلکہ نفل پر نفل پڑھے جاتا ہے،ہزار دانہ تسبیح پر خدا کا نام جپتا ہے اور خوش الحانی کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرتا رہتا ہے۔آپ اس کی یہ حرکتیں دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیسا زاہد و عابد بندہ ہے‘‘۔(ایضاً، ص۱۱۸)
کچھ مسلمان ایسے بھی ہیں جو قرآن کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کے بجاے قرآن کو اپنی خواہشات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔وہ آیاتِ قرآنی کی دور از کار تاویلیں کرتے ہیں۔ان سے ایسے ایسے معانی مستنبط کرتے ہیں جن سے قرآن کا دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔ قرآن نے ہر طرح کا سود حرام قرار دیا ہے، مگر وہ کہتے ہیں کہ قرآن نے صرف مہاجنی سود کو حرام کیا ہے،بنک کے سود پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔قرآن نے عورتوں کے لیے پردے کے مخصوص احکام دیے ہیں، مگر وہ کہتے ہیں کہ قرآن میں پردے کے احکام عہد نبویؐ میں صرف ازواجِ مطہرات کے ساتھ خاص تھے،عام مسلمان عورتیں ان کی مخاطب نہ اس عہد میں تھیں، نہ اب ہیں۔
مسلمان جب تک اپنے رویّوں میں تبدیلی نہیں لائیں گے ان کے حالات نہیں بدل سکتے۔اللہ تعالیٰ کا قانون اٹل ہے۔اس کی سنت غیر مبدّل ہے۔ گذشتہ قوموں کی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ جس قوم نے اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے تھاما،اسے اپنا دستورِ حیات بنایا وہ بامِ عروج پر پہنچی،اسے دنیاوی ترقی بھی حاصل ہوئی اور دوسری قوموں نے اس کی قیادت و سیادت تسلیم کی۔ اس کے برعکس جس قوم نے اللہ کی کتاب کو فراموش کیا، اس سے غفلت برتی، اسے پسِ پشت ڈالا اور اس پر عمل نہیں کیا، وہ دنیا میں ذلیل و خوار ہوئی اور پستی کے گڑھے میںجاگری۔اس سنّتِ الٰہی کا اطلاق مسلمانوں پر بھی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی روش کو بدلنے اور قرآن سے حقیقی تعلق قائم کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین!