عورت کے بارے میں دو بنیادی سوالات ہمیشہ سے اٹھتے رہے ہیں۔ ایک یہ کہ معاشرہ میں اس کا صحیح مقام و مرتبہ کیا ہے؟ دوسرا یہ کہ مرد و عورت کے جنسی تعلقات کی صحیح نوعیت کیا ہے؟ مختلف تہذیبوں ، مذاہب اور ممالک کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عورت ان میں عموماً اپنے بنیادی انسانی حقوق سے محروم رہی ہے۔ اسے مرد کا حاشیہ اور ضمیمہ سمجھا گیا ہے۔ جب صنعتی انقلاب کے نتیجے میں اس کا ردّ عمل ہوا اور مساوات اور آزادی کی تحریکیں چلیں تو مرد اور عورت کے حقوق اور ذمہ داریوں میں کوئی فرق روا نہ رکھا گیا اور عورت سے ہر وہ کام لیا جانے لگا جو مرد کرسکتا ہے۔ بے محابا آزادی کے نتیجے میں مرد اور عورت کے جنسی تعلقات بھی بے اعتدالی کا شکار ہوئے اور آوارگی اور بے راہ روی کو فروغ ملا۔ اسلام کا نقطۂ نظر اس سلسلے میں توازن اور اعتدال کا ہے۔ اس نے سماج میں عورت اور مرد کا صحیح مقام اور نظام تمدن میں دونوں کی صحیح حیثیت متعین کی۔ حال ہی میں عورت اسلامی معاشرے میں کے نام سے مولانا جلال الدین عمری کی عالمانہ تصنیف شائع ہوئی ہے، جس میں انھوں نے، زیربحث موضوع پر پوری قوت، جرأت اور اعتماد کے ساتھ اسلامی نقطۂ نظر کی ترجمانی کی ہے۔
کتاب کے آغاز میں دور قدیم اورعہد جدید میں عورت کے مقام کا تعین کیا گیا ہے۔ یونان، روم اور قدیم یورپ میں، نیز یہودیت، عیسائیت اور ہندو مت میں عورت کی پست حیثیت کو حوالوں کے ساتھ ثابت کیا گیا ہے۔ پھر اس کے ردّعمل میں جدید نظریات نے اس کو کتنی آزادی عطا کردی اور اس کے نتیجے میں کس قدر جنسی آوارگی عام ہوئی، اس کا بھی تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔
اسلامی معاشرے میں عورت کے مقام و مرتبہ کا جائزہ لینے سے قبل بہ طور پس منظر عرب کے دورِ جاہلیت میں عورت کی پست حیثیت کو واضح کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے تمام حقوق سے محروم تھی ، اسے موجبِ ذلت و عار سمجھا جاتا تھا، بلکہ بعض قبائل میں اسے پیدا ہوتے ہی درگور کردیا جاتا تھا۔ اس کے بعد تفصیل سے عورت کے بارے میں اسلام کے اساسی تصورات سے بحث کی گئی ہے۔ کتاب کا یہ حصہ بہت اہم ہے۔
کتاب کی ایک بنیادی بحث ’عورت کا حقیقی دائرۂ کار‘ کے عنوان سے ہے۔ ’’اسلام نے ریاست اور معاشرے کے تحفّظ کی ذمہ داری اصلاً مرد کے سرڈالی ہے اور عورت کی جدّو جہد کا رخ گھر کی طرف موڑ دیا ہے۔ اس کی حقیقی پوزیشن یہ نہیں ہے کہ وہ بازار کی تاجر، دفتر کی کلرک، عدالت کی جج اور فوج کی سپاہی بنی رہے، بلکہ اس کے عمل کا حقیقی میدان گھر ہے‘‘ (ص۱۱۴-۱۱۵)۔ ’’کسی بڑی مصلحت کے تحت اس کو گھر چھوڑنے کی اجازت دی بھی گئی ہے یا کسی عبادت کے اجتماعی طریقے کو اس کے لیے مفید یا ضروری سمجھا گیا ہے، تو اس کے ساتھ ایسی تدابیر بھی اختیار کی گئی ہیں جو ہر آن اس کے اندر یہ احساس تازہ رکھتی ہیں کہ اس کا حقیقی مقام وہی ہے جہاں سے وہ چلی تھی۔ گھر سے باہر نکلنے کے یہ معنیٰ ہرگز نہیں ہیں کہ وہ حدودِ نسوانیت سے بھی باہر آچکی ہے‘‘۔ (ص۱۲۰)
عورت کا حقیقی دائرۂ کار اس کا گھر ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلام اسے عضوِ معطّل کی حیثیت دیتا ہے اور معاشرے سے اسے الگ تھلک کردیتا ہے۔ اس نے عورت کو ان حقوق سے محروم نہیں رکھا ہے جو اجتماعی زندگی بسر کرنے کے لیے ضروری ہیں، بلکہ وہ اسے اس قابل بناتا ہے کہ معاشرے میں کامیاب و بامراد زندگی بسرکرسکے۔ اسی وجہ سے اس نے اسے علم و عمل کے میدان میں پوری آزدی دی ہے۔ مصنف نے اس موضوع پر مدلّل بحث کی ہے اور قرونِ اولیٰ کی بہت سی مثالیں پیش کرکے ثابت کیا ہے کہ خواتین کو علم حاصل کرنے اور اس کی توسیع و اشاعت میں حصہ لینے کی پوری آزادی حاصل تھی۔ ساتھ ہی انھیں پاکیزہ مقاصد کے حصول کے لیے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت تھی۔ چنانچہ وہ کاشت کاری، تجارت اور صنعت و حرفت کے کاموں میں حصہ لیتی تھیں۔
’اسلامی معاشرے کی تعمیر میں عورت کا کردار‘ کے تحت صدرِ اول کی خواتین کی مثالیں پیش کی گئی ہیں کہ انھوں نے دین کے لیے بڑی قربانیاں پیش کی ہیں، مصیبتیں سہی ہیں، اللہ کے دین کو سربلند دیکھنے کی تمنا میں محاذِ جنگ پر بھی مختلف خدمات انجام دی ہیں، حق کی نصرت و حمایت میں زبان کی قوت بھی صرف کی ہے، معاشرے میں کہیں بگاڑ نظر آیا تو اس کے بدلنے اور اس کی جگہ خیرو اصلاح کو قائم کرنے کی جدّو جہد کی ہے، ذمہ دارانِ ریاست کے سامنے بے خوف و خطر حق کا اظہار کیا ہے۔ اس طرح اسلامی معاشرے نے مختلف مسائل میں عورت کی راے اور فہم سے فائدہ اٹھایا ہے اور اپنی تعمیر و تشکیل میں بھی اس کی عملی صلاحیتوں سے مدد حاصل کرتا رہا ہے۔ اس ضمن میں آگے فاضل مصنف نے کئی اہم مسائل سے بحث کی ہے اور ان کے سلسلے میں پائی جانے والی غلط فہمیاں دوٗر کی ہیں۔ مثلاً بعض معاملات میں شریعت نے دوعورتوں کی گواہی کو ایک مرد کی گواہی کے برابر قرار دیا ہے۔ اس سے بہ ظاہر عورت کی تنقیص معلوم ہوتی ہے۔ انھوں نے عورت کی گواہی سے متعلق فقہا کے خیالات کا تجزیہ کرتے ہوئے اس موضوع پر مفصّل اور مدلّل بحث کی ہے۔ عورت کی عملی صلاحیت کے ضمن میں مصنف محترم فرماتے ہیں کہ وہ اپنے فطری دائرے سے باہر وقتِ ضرورت معاشرتی خدمات انجام دے سکتی ہے، لیکن اس کے لیے چند بنیادی اصولوں کی پابندی ضروری ہے۔ وہ یہ کہ اپنی حقیقی پوزیشن (خانگی زندگی کی استواری) پر نظر رکھے، اپنے خاوند کی اطاعت کرے اور نامحرموں سے اختلاط اور میل جول سے بچے۔
ایک اہم بحث مصنف نے ’عورت اور منصبِ امامت‘ کے عنوان سے اٹھائی ہے۔ ان کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ’’اسلام اس کے خلاف ہے کہ عورت کے نازک ہاتھوں میں ملت کی قیادت و رہ نمائی کی زمام دے دی جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے لیے جن اوصاف و خصوصیات کی ضرورت ہے وہ اس میں طبعاً موجود نہیں ہیں۔ یہ انتہائی غیر فطری بات ہوگی کہ عورت جس دائرے میں کما حقّہ ذمے داری ادا نہیں کرسکتی، اس پر اس کا بارِ گراں ڈال دیا جائے‘‘۔ (ص۲۶۶)
کتاب کی دوسری اہم اور مبسوط بحث ’جنسی تعلقات‘ کے عنوان سے ہے۔ فاضل مصنف نے بیان کیا ہے کہ انسانی معاشرے ’جنس‘ کے معاملے میں شروع سے افراط و تفریط کا شکار رہے ہیں ۔ تفریط نے رہبانیت کی شکل اختیار کی، جس کے کڑوے کسیلے پھل صدیوں تک انسانوں کو کھانے پڑے اور افراط نے اباحیت اور آوارگی کا روپ دھارا، جس میں دورِ جدید کا مغربی معاشرے اور اس کے ہم نوا غرق ہیں۔ اسلام کا نقطۂ نظر اس معاملے میں انتہائی متوازن اور معتدل ہے۔ وہ راہبانہ نقطۂ نظر کی تردید کرتا ہے، جائز حدود میں جنسی تسکین کی نہ صرف اجازت دیتا ہے، بلکہ اس کی تاکید کرتا ہے، ہر طرح کے ناجائز تعلق پر روک لگاتا ہے۔ اس معاملے میں وہ فرد کی اخلاقی تربیت کرتا ہے، معاشرے کو پاکیزہ رکھنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے اور اس سلسلے میں قانون کا بھی سہارا لیتا ہے اور ان کی خلاف ورزی پر سزائیں بھی متعین کرتا ہے۔
بہ حیثیت مجموعی یہ کتاب متعدد خوبیوں کی حامل ہے۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ اس معذرت خواہانہ لب و لہجہ سے بالکل پاک ہے، جسے موجودہ دور کے بہت سے مسلم محققین اور دانش ور اختیار کیے ہوئے ہیں۔ مصنف بلاخوف لومۃ لائم پوری جرأت اوراعتماد کے ساتھ عورت کے حقوق اور حیثیت سے متعلق اسلامی تعلیمات کی ترجمانی کرتے ہیں۔
کتاب کی ایک نمایاں خوبی اس کا استدلالی انداز ہے۔ قدیم اور جدید تہذیبوں، معاشروں اور مذاہب میں عورت کی حیثیت کی بحث ہو، یا اسلامی معاشرے میں اس کے مقام و مرتبہ کا بیان، ہرجگہ معتبر اور مستند مآخذ و مراجع (قرآن و حدیث فقہا کی آرا) استعمال کیے گئے ہیں۔
اس کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ مصنف نے اسلامی معاشرے کے خدّو خال نمایاں کرتے ہوئے اسلام کی ابتدائی صدیوں کا مثالی نمونہ پیش کیا ہے۔ صحابیات، تابعیات اور تبع تابعیات کی علمی اور عملی سرگرمیاں تفصیل سے بیان کی ہیں اور اس سلسلے میں حدیث، سیرتِ نبوی، سیرتِ صحابہ و صحابیات، اسماء الرجال اور تاریخ و سوانح کی کتابوں سے واقعات و روایات کا حتی الامکان استقصا کیا ہے۔
یہ کتاب اگرچہ نصف صدی قبل شائع ہوئی تھی، لیکن اپنے مباحث کی اہمیت، استدلال کی قوت اور شستہ و رواں اسلوبِ بیان کی وجہ سے اب بھی اپنے موضوع پر بھرپور اور مفید ہے۔ مصنف کی نظرثانی اور بہت سے نئے مباحث کے اضافے نے اس کی افادیت کو دوچند کردیا ہے۔ اس موضوع پر مصنف کی ایک دوسری کتاب عورت اور اسلام کے عنوان سے ہے۔ اس میں بھی قرآن و سنت کی روشنی میں عورت کے مقام و مرتبے سے بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب کا رخ زیادہ تر تاریخی ہے، جب کہ زیر تبصرہ کتاب کا انداز علمی ہے۔ دونوں کتابوں کے مباحث کی یک جائی سے اسلامی معاشرے میں عورت کا تاب ناک کردار قاری کے سامنے آجاتا ہے۔(عورت اسلامی معاشرے میں، مولاناسید جلال الدین عمری۔ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی۔ صفحات: ۴۳۲، قیمت(مجلد) : ۱۶۰ بھارتی روپے)