شریعت ِ اسلامیہ کی تشریح و تعبیر کا قدیم سرمایہ اس بات کی دلیل ہے کہ فہم و استنباط میں تمام ذہن ایک جیسے نہیں ہوسکتے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے بھی اپنے وسیع مطالعے، گہرے غوروفکر اور حالات و زمانے کی رعایت کے پیش نظر بہت سے مسائل میں اعتدال کی راہ نکالی اور ایک محقق عالم کی طرح بعض قدیم اسالیب سے اپنی تحقیق اور فہم کے مطابق اختلاف بھی کیا۔ جسے بعض حلقوں نے ہدفِ تنقید بنایا۔
مولانا مودودیؒ نے تصورِ اقامت ِ دین اور اسلام بطور نظامِ زندگی کو جس مؤثر انداز میں پیش کیا ہے، اس کی بنیاد تین مآخذ ہیں: یعنی قرآن، حدیث اور فقہ۔ یہ حقیقت ہے کہ مولانا مودودیؒ نے اسلام کی تشریح و تعبیر میں حدیثِ نبویؐ کو وہی حیثیت دی ہے جو فقہا و محدثین دیتے رہے ہیں۔
زیرنظر کتاب میں سید مودودیؒ کی خدمات حدیث پر بحث کی گئی ہے۔ پانچ ابواب پر مشتمل اس کتاب کے پہلے باب میں سید مودودیؒ کی ۱۷ تصانیف میں استدلال بالحدیث پر گفتگو کی گئی ہے۔ دوسرے باب میں علمِ حدیث کے فنی پہلوئوں روایت، درایت اور تطبیق و ترجیح میں ان کا اسلوب زیربحث آیا ہے۔ تیسرا باب حدیث کی تشریح میں سید مودودی کے انداز کے بارے میں ہے۔ چوتھا باب دفاعِ حدیث کے حوالے سے اُس جدوجہد کی طرف مختصر اشاروں پر مشتمل ہے جو انھوں نے حدیث کی آئینی حیثیت منوانے کے لیے کی۔ پانچواں باب حدیث کے حوالے سے سید مودودی پر اعتراضات کا بیان ہے۔ تیسرے اور چوتھے باب کو کتاب کا مرکزی حصہ قرار دیا جاسکتا ہے اور انھی ابواب میں اس اسلوب کا ذکر ہے جو بعض کے نزدیک موردِ تنقید ٹھیرایا گیا۔
زیرنظر کتاب میں سید مودودی کی خدمات ِ حدیث پر اُن بعض اعتراضات کا جواب فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو بعض حلقوں کی جانب سے اُٹھائے جاتے ہیں، تاہم چند پہلو تشنۂ بحث ہیں۔ (ارشاد الرحمٰن)
اسلام سے متعلق، مستشرقین کی تحقیقات میں یہ چیز بہت واضح دکھائی دیتی ہے کہ اسلام ایک علاقائی، نسلی اور لسانی پس منظر رکھتا ہے۔ یہ عربوں کا مذہب ہے اور عرب ثقافت ہی اس کی بنیاد ہے___ یہ ’تحقیق‘ پیش کر کے، بعض مستشرقین سوال اُٹھاتے ہیں کہ یہ قدیم شریعت جدید دور میں کس طرح قابلِ عمل ہوسکتی ہے؟
زیرتبصرہ کتاب مستشرقین کے پیدا کردہ اسی ابہام اور تشکیک کو دُور کرنے کی ایک کاوش ہے۔ اسلامی تہذیب و ثقافت جن بنیادی عناصر سے تشکیل پاتی ہے، قرآن کی روشنی میں اُن کو جامعیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر انیس احمد صاحب نے ایسے مصنّفین کی تصحیح کی کوشش کی ہے جو اسلامی ثقافت کو بھی دیگر ثقافتوں پر قیاس کرتے ہیں، اور اس بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ اسلامی ثقافت کسی معاشرتی ارتقا کی بنیاد پر پروان نہیں چڑھی ہے، بلکہ اس کی جڑیں اُن آفاقی اقدار میں ہیں جو کسی بھی معاشرے کو تبدیل کرنے کی صلاحیت قیامت تک کے لیے رکھتی ہیں۔
اسلامی فکروثقافت کی ان قرآنی بنیادوں کو علم و تفقہ، وحیِ الٰہی، مقاصد شریعت و انسانیت، ذکرو فکر اور تزکیہ و تدبر کے عنوانات دیے گئے ہیں۔ یہ وہ نکات ہیں جو اس فکروثقافت کا تعارف بھی ہیں اور اس کا ڈھانچا بھی۔ مصنف نے ایک نکتے کو دوسرے سے مربوط کر کے بہت جامع انداز میں زیربحث موضوع کو سمیٹا ہے۔ ’پیش لفظ‘ میں موضوع پر اظہارِ خیال کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی۔ جدید ذہن میں پیدا ہونے والے بہت سے سوالات کا جواب اس کتاب کی صورت میں فراہم ہوگیا ہے۔(ا-ر )
سیردریا اُردو کے ابتدائی اور قدیم سفرناموں میں سے ایک ہے۔ مصنف مرزا محمد کاظم برلاس ۱۸۹۷ء میں ہندستان سے سری لنکا گئے تھے اور واپسی پر اپنے تاثرات و مشاہدات کو زیرنظر سفرنامے کی شکل میں پیش کیا۔ اگرچہ سیردریا کے بعض حصوں پر اُردو داستانوں کا اثر محسوس ہوتا ہے،تاہم اس کی نثر کا مجموعی مزاج اور رنگ و آہنگ دورِ سرسیّد کا ہے۔
مرزا برلاس متعدد کتابوں کے مصنف تھے جن کی تفصیل زیرنظر سفرنامے کے مرتب ڈاکٹر شفیق انجم نے اپنے مقدمے میں دی ہے۔ رودادِ سفر کا اسلوبِ تحریر بیانیہ ہے۔
مصنف نے اختصار کے ساتھ سری لنکا جزیرے کا جامع تعارف کرایا ہے جس میں لنکا کی تاریخ، جغرافیہ، شہروں اور بستیوں (کولمبو، کنڈی، گالے، رتناپور )، باشندوں اور قوموں (تامل، چولی، جنگلی، ڈچ وغیرہ)، زرعی پیداوار (چائے، کافی، چاول، ناریل، صندل، نارجیل وغیرہ) اور جانوروں (ہاتھی، ’بھگرا‘ نامی شیر سے چھوٹا جانور، ریچھ، کنڈی وغیرہ) کا تعارف شامل ہے۔
سری لنکا سے اس زمانے میں ہاتھی بھی برآمد کیے جاتے تھے۔ مصنف نے تفصیل سے بتایا ہے کہ انھیں کیسے پکڑا یا ان کا ’شکار‘ کیا جاتا تھا۔ اسی طرح سمندر سے موتیوں اور سیپیوں کے نکالنے کا احوال بھی لکھا ہے (ص ۵۸ تا ۶۵)۔ واپسی پر مرزا برلاس نے مالدیپ جزیرے پر مختصر قیام کیا۔ سفرنامے میں وہاں کے ایک اور قریبی جزیرے لکادیپ کے حالات بھی ملتے ہیں۔ بعض معلومات حیران کن ہیں، مثلاً لکھتے ہیں: ’’مالدیپ کے متعلق تمام جزائر میں ایک قوم آباد ہے جس کی نسل عرب معلوم ہوتی ہے۔ مذہب ان کا اسلام ہے۔ تمام خلقت نماز گزار اور قرآن خواں ہے--- تمام معاملات قانونِ شرع محمدی کے مطابق فیصل ہوتے ہیں۔ اس کا حاکم مسلمان ہے اور اس کا لقب سلطان ہے۔ انگریزوں کا کوئی تصرف اس جگہ نہیں، تاہم معاملات قاضی کے حکم سے فیصلہ پاتے ہیں‘‘(ص ۸۳)۔ سرسید دور میں ہمارے بیش تر ادیبوں کا ذہن مصلحت یا مصالحت پسندی کا تھا، مگر مرزا کاظم برلاس نے حسبِ موقع ’’لٹیروں اور دغابازوں‘‘ (انگریزی حکومت) پر سخت تنقید کی ہے۔ ایک جگہ ہندستان کے انگریزی تعلیمی نظام کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’انسان کا بچہ خاصا حیوان بن کر سکون سے نکلتا ہے۔ یہ اس تعلیم کا نتیجہ ہے کہ جس میں ادب اور اخلاق بالکل نہیں‘‘۔
ڈاکٹر شفیق انجم نمل یونی ورسٹی میں اُردو کے استاد ہیں۔ انھوں نے بڑی محنت و کاوش سے سیردریا مرتب کی ہے۔ اس ’ترتیب‘ میں صحت و تدوینِ متن، تعلیقات، فرہنگ اور مفصل مقدمہ شامل ہیں۔ مرتب نے الفاظ و محاورات کے معنی کے ساتھ متعلقہ کتابِ لغت کا حوالہ بھی دے دیا ہے، کہیں کہیں اِملا میں اصولِ امالہ سے بے نیازی بھی کھٹکتی ہے۔
’’تعلیقات‘‘ میں اماکن و رجال، سری لنکا کی تاریخ اور جغرافیے سے متعلق بعض افراد، اماکن، عقائد، تہواروں اور زبانوں کی وضاحت ہے، مثلاً سیتاجی، بدھ مت، تامل، آدم کا پُل، گالے مُکتی وغیرہ۔ سیردریا میں اشاریہ بھی شامل کیا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
مغرب نے پوری دنیا میں اسلام کے خلاف ایک مہم چلا رکھی ہے۔ کتاب کے مصنف نے اس مہم کی بنیادوں کو نمایاں کرنے کے لیے مغرب کے چیدہ چیدہ دانش وروں کے استدلال کو پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ جہاد کے بارے میں اسلام کی تاریخ، تعلیمات، واقعات اور تازہ حالات کی گمراہ کن تشریح و تعبیر کا سلسلہ کیسے اور کن صورتوں میں جاری ہے۔ وہ مغربی سوچ کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: ’’اسلام ایک تہذیبی قوت کے طور پر شکست کھا چکا ہے… اور اس کی جگہ مغرب نے لے لی ہے، اور شکست خوردہ عناصر اسلام کے غلبے کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے تشدد کا استعمال کر رہے ہیں‘‘۔ (ص ۳۱)
مصنف نے بجا طور پر لکھا ہے کہ: ’’مغرب اسلام کا ایک خودساختہ تعارف پیش کرنے اور اس میں اپنے لیے ایک خطرہ کشید کرنے کے ساتھ ساتھ اس الزامی استدلال کو اسلامی قیادت کو نشانہ بنانے کے لیے بھی استعمال کر رہا ہے (ص ۳۷)۔ ’’مغرب ایک الزام متعین کرتا ہے، اس کی سماعت بھی خود کرتا ہے اور خود ہی منصف بن کر یہ فیصلہ دیتا ہے کہ اب اس کا انسداد ہونا ضروری ہے۔ چنانچہ اس کے تھنک ٹینک اس پر کام کرتے ہیں، مذہب کے بارے میں نئے مباحث اُٹھائے جاتے ہیں اور ان میں اسلام پر تنقید کی جاتی ہے‘‘۔ (ص ۴۳-۴۴)
مغرب پہلے زبان، قلم اور قرطاس استعمال کر کے راہ ہموار کرتا ہے اور پھر میزائل،بمبار طیارے خطۂ زمین پر آگ برسانے لے آتا ہے۔ دورِحاضر میں جاری فکری اور عملی جنگ میں عالمِ اسلام کو اپنے مسائل اور مغربی یلغار کو سمجھنے میں یہ کتاب ایک مفید ماخذ ہے۔ مرزا محمد الیاس نے اپنے گہرے فکری اور مطالعاتی نتائج کو مدلل انداز میں بیان کیا ہے، تاکہ مغرب اور اسلام کے مابین جاری جنگ میں ہونے والی تباہی کا پتا لگایا جاسکے، اور دنیا کو امن کے گہوارے میں بدلنے کے لیے الزام تراشوں کی الزام تراشیوں کا جواب دیا جاسکے۔(محمد الیاس انصاری)
مرد کُہستانی (مولانا عبدالحق بلوچ مرحوم)، مولانا عبدالحق ہاشمی۔ ناشر: مکتبہ الہدیٰ، پٹیل روڈ، کوئٹہ۔ ملنے کا پتا: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ صفحات: ۲۰۸۔ قیمت: درج نہیں۔
مولانا عبدالحق بلوچ معروف عالمِ دین ، جماعت ِ اسلامی کے مرکزی راہنما اور قومی اسمبلی کے رُکن تھے۔ وہ ۱۵ برس تک جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر رہے۔ ان کی ساری زندگی اقامت ِ دین کی جدوجہد میں بسر ہوئی اور اُن کی بدولت ایک بڑی تعداد اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد کرنے والے قافلے کی شریکِ سفر ہوئی۔ مولانا عبدالحق بلوچ سے طویل رفاقت اور قریبی تعلق رکھنے والے دوست مولانا عبدالحق ہاشمی نے اُن کی زندگی کے نمایاں پہلوئوں: تحریکی جدوجہد، علمی ذوق، کتابوں سے محبت، بذلہ سنجی اور بلوچ تہذیب و ثقافت سے آگہی کے حوالے سے مولانا مرحوم کے تجربات اور دستیاب معلومات کو زیرتبصرہ کتاب کی صورت میں یک جا کر دیا ہے۔
مولانا بلوچ مرحوم متواضع شخصیت کے حامل تھے۔ علم و دانش، قرآن وسنت سے استنباط اور تقریر و خطابت کے اوصاف کے ساتھ ساتھ علماے کرام میں باہمی اتحاد و یک جہتی کے لیے بھی اہم کردار ادا کرتے رہے۔ مولانا کے خاندان، ذکری فرقے اور بلوچستان کے مجموعی حالات کے بارے میں اس کتاب میں معلومات افزا تفصیلات ملتی ہیں۔ جس زمانے میں وہ قومی اسمبلی کے رکن رہے، کتاب میں اُس دور کی ملکی سیاسی سرگرمیوں اور سیاست دانوں کی قلابازیوں کے تذکرے بھی ملتے ہیں۔ چند نادر تصاویر بھی شاملِ کتاب ہیں۔ بایں ہمہ مولانا بلوچ مرحوم کے عزیز و اقارب اور قریبی دوستوں کے تذکرے کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ مولانا کے شاگردوں اور اُن سے متاثر لوگوں کا ایک وسیع حلقہ موجود ہے۔ اگر اُن کے تاثرات بھی شامل ہوجاتے تو کتاب کی قدروقیمت میں مزید اضافہ ہوجاتا۔ پیش لفظ جناب سید منور حسن اور تقریظ جناب قاضی حسین احمد نے تحریر کی ہے۔ اُمید ہے مولانا عبدالحق ہاشمی نے اسلاف اور دورِ جدید میں اہلِ اللہ کے تذکرے کے جس سلسلے کا آغاز کیا ہے اسے مزید آگے بڑھائیں گے۔ (محمد ایوب منیر)
نماز باجماعت کی اہمیت اسلام میں مسلّم ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے دور میں اس کا ازحد اہتمام اس حکم کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ مصنف نے دین اسلام کے اس اہم حکم کو سیرتِ رسولؐ اور آثارِ صحابہؓ کی روشنی میں احسن طریقے سے بیان کیا ہے۔ کتاب چار بنیادی مباحث اور ان کی ذیلی تفصیلات پر مشتمل ہے۔ نماز باجماعت کے فضائل و فرضیت، نبی کریمؐ اور سلف صالحین کا باجماعت نماز کے لیے اہتمام، نیز نماز باجماعت کے بارے میں علماے اُمت کا موقف زیربحث آئے ہیں۔ فقہی آرا، ائمہ اربعہ اور اہلِ ظاہریہ کے نقطۂ نظر کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ کتاب کے آخر میں خواتین کے لیے بھی شریعت مطہرہ کی روشنی میں نماز کے لیے احکامات و مسائل پر بات کرتے ہوئے ان امور کی طرف توجہ دلائی گئی ہے: ۱-خاتون کے گھر کی نماز کا باجماعت نماز سے اعلیٰ ہونا ثابت ہے۔ ۲-اپنے مردوں کو باجماعت نماز کی دعوت دے کر جماعت کا اجر پانا حدیث سے ثابت ہے۔ ۳-شرعی آداب کی پابندی کرتے ہوئے خاتون کا باجماعت نماز کے لیے جانے کی اجازت دین میں موجود ہے۔(حافظ ساجد انور)
ناشر مرزا اعظم بیگ نے دورِ جدید میں جاہلیت جدیدہ (مزار پرستی،قبر پرستی، شرک اور بدعت وغیرہ) کے روز افزوں اور وسیع ہوتے ہوئے دائرے سے پریشان ہوکر یہ کتابچہ شائع کیا ہے۔ ماہرالقادری (م:۱۹۷۸ء) نے یہ مقالہ: ’’توحید کیا ہے؟‘‘ کے عنوان سے اپنے رسالے فاران کے توحید نمبرکے اداریے کے طور پر لکھا تھا۔اس میں قرآن اور حدیث کی روشنی میں بعض مشرکانہ عقائد کا بُطلان کیا گیا ہے۔ ماہرصاحب ’عشقِ رسولؐ ‘کے نام پر کی جانے والی بدعات کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’کتنا بڑا دھوکا ہے جو ’عشق و محبت‘ کے نام پر شیطان نے دے رکھا ہے؟‘‘ (ص ۴۷)___ عالم الغیب کون؟عبدیت اور بشریت، وسیلے کی تلاش اور زیارتِ قبور جیسے عنوانات سے مباحث کی نوعیت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ ماہرالقادری شاعر تھے مگر قرآن و حدیث پر ان کی نظر گہری تھی، اس لیے ان کی گرفت اور بدعات کے خلاف اُن کا استدلال متاثر کرتا ہے۔ مرزا اعظم بیگ بڑی دردمندی سے صفحہ ۳پر کہتے ہیںکہ یہ کتابچہ جن بہن بھائیوں تک پہنچے، میری اُن سے عاجزانہ درخواست ہے کہ وہ ہرقسم کی فرقہ پرستی سے خالی الذہن ہوکر اس کا مطالعہ کریں ۔ (ر-ہ )