موت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ سب کے ساتھ یکساں معاملہ کرتی ہے اور بڑے اور چھوٹے، امیروغریب، عالم اور عامی، حکمران اور محکوم، سب کو برابر کردیتی ہے۔ اس حقیقت کو انگریزی محاورے death, the great leveler کے مختصر جملے میں بیان کیا گیا ہے،لیکن اس کلیے میں ایک دوسری حقیقت کو نظرانداز کردیا گیا ہے کہ موت وہ حقیقت بھی ہے جو جہاں سب کو زمین کی آغوش میں ہمیشہ کی نیند سلادیتی ہے، وہیں کچھ نفوس ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو موت ہی زندۂ جاوید بنادیتی ہے___ جن کی یاد حرزِ جاں بن جاتی ہے اور جن کے جلائے ہوئے چراغ روشنی کے مینار بن کر تاریکیوں کو مسلسل چھانٹنے اور فضا کو منور کرنے کا کام انجام دیتے ہیں، جو ہمارے درمیان سے اُٹھ کر بھی ہم سے دُور نہیں ہوتے ؎
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آتے ہیں مرنے کے لیے
۲۷ فروری ۲۰۱۱ء کو عالمِ اسلام کی ایک ایسی ہی تاریخ ساز شخصیت اور ترکی میں اسلامی احیا کی جدید انقلابی تحریک کا میر کارواں پروفیسر نجم الدین اربکان بظاہر ہم سے رخصت ہوگیا، لیکن ترکی ہی نہیں، عالمِ اسلام میں روشنی کے ایسے چراغ جلا گیا جو تاریخ کی تاریک راہوں کو مدتوں منور رکھیں گے! ___ ان شاء اللہ تعالیٰ!
مصطفی کمال کے انتقال کے بعد بھی نظامِ زندگی انھی خطوط پر چلتا رہا، البتہ دوسری جنگ ِعظیم کے بعد عوام کو کچھ جمہوری آزادیاں ملیں۔ سیاست میں اتاترک کی ری پبلکن پارٹی ہی کے بطن سے ڈیموکریٹک پارٹی نے جنم لیا اور عدنان میندریس کی قیادت میں دو پارٹی نظام اور دستوری حکومت کا ایک گونہ آغاز ہوا جس کے نتیجے میں عوام کو اپنے دینی اور تہذیبی جذبات کے اظہار کا کچھ موقع ملا۔ دینی شعائر پر جو پابندیاں تھیں وہ کم ہوئیں، اذان عربی زبان میں بحال ہوئی، قرآن اور دینی کتب سے رجوع بڑھا، دینی مدارس کا احیا امام خطیب اسکول کی شکل میں ہوا، اور اس طرح ترکی نے اپنی اصل شناخت کی طرف مراجعت کے سفرِ نوکا آغاز کیا۔ سیکولرنظام میں دراڑیں پڑنے لگیں اور اسے ’خطرے کی گھنٹی‘ سمجھتے ہوئے ملک کی سیکولر قوتوں نے، جن کے چار ستون فوج، بیوروکریسی، عدالت اور میڈیا تھے، مغربی اقوام کی مدد سے ترکی کی خود اپنی دینی اور تہذیبی شناخت کے خلاف ایک نئی کش مکش اور تصادم کو فروغ دیا جس نے قوم کی صلاحیتوں کو بڑا نقصان پہنچایا۔ عدنان میندریس کو پھانسی دی گئی اور ۱۹۶۰ء سے فوجی انقلابات کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا جس کا آخری مظہر فروری ۱۹۹۷ء کی فوجی مداخلت تھی۔
۲۴-۱۹۲۳ء سے ۱۹۹۷ء تک کے نظریاتی کش مکش کے اس دور میں عدنان میندریس کے چندسالہ شعلے کے علاوہ جن دو شخصیات نے تاریخ کے رُخ کو موڑنے کا کام کیا ان میں سب سے نمایاں بدیع الزماں سعید نورسی (۱۸۷۶ء-۱۹۶۰ء) اور نجم الدین اربکان (۱۹۲۶ء- ۲۰۱۱ء) ہیں۔ سعید نورسی نے شروع میں اتاترک کا ساتھ دیا لیکن جب اس نے سیکولرزم اور مغرب کی تقلید کا راستہ اختیار کیا، قومیت کے سیکولر تصور کو قوت کے ذریعے مسلط کرنے کی کوشش کی، اور اسلام کو اجتماعی زندگی سے بے دخل کرنے کا ایجنڈا شروع کیا، تو سعید نورسی نے اسے چیلنج کیا اور قیدوبند کی صعوبتیں جھیلیں لیکن اسلام کی بنیادی دعوت اور پیغام کو زندہ رکھا اور تصوف کے سلسلۂ نقشبندی کے فروغ، دینی مدارس کے قیام اور اپنے خطوط اور تحریروں کے ذریعے اسلام کی شمع کو روشن اور عام آبادی کو دین سے وابستہ رکھنے کی خدمت انجام دی۔
علامہ اقبال نے مصطفی کمال پاشا کے لادینی نظام کے تجربے کے بارے میں جو گِلہ کیا تھا، نجم الدین اربکان نے اپنی ۴۰سالہ جدوجہد سے تاریخ کے رُخ کو موڑنے کا انقلابی کارنامہ انجام دیا۔ اقبال نے ترکی کے انقلابِ معکوس کے بارے میں کہا تھا ؎
نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی
کہ روحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی
اور یہ کہ ؎
لادینی و لاطینی ، کس پیچ میں اُلجھا تو
دارو ہے ضعیفوں کا ، لا غَالِبَ اِلاَّ ھُوَ
اللہ تعالیٰ نے جس شخص کو روحِ شرق کو ایک بار پھر جسدِ ترکی میں بیدار کرنے کی سعادت بخشی، وہ پروفیسر نجم الدین اربکان ہیں۔
نجم الدین اربکان ۲۹ ؍اکتوبر ۱۹۲۶ء کو بحراسود کے ساحل پر واقع ایک پُرفضا شہر سینوپ (Sinop) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محمد صابری دولت عثمانیہ میں جج کے عہدے پر فائز تھے۔ ابتدائی تعلیم طرابزون(Trabzon) میں اور ہائی اسکول کی تعلیم استنبول کے جدید طرز کے مدرسے Istanbul Lisrei میں ہوئی۔ پھر استنبول ٹیکنیکل یونی ورسٹی میں میکنیکل انجینیرنگ میں امتیاز کے ساتھ اعلیٰ تعلیم حاصل کی جس کی تکمیل جرمنی کی RWTH Aachen University میں ہوئی جہاں سے انھوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ نیز عملی تجربہ حاصل کرنے کے لیے جرمنی کی ایک بڑی موٹر کمپنی Humbolt Dentzمیں کئی سال کام کیا اور اپنی مہارت کا لوہا منوایا۔ ڈیزل انجن ڈیزائن کے میدان میں نئی دریافت سامنے لائے، اور اُس ٹیم کے چیف انجینیر کی حیثیت سے خدمات بھی انجام دیں جس نے جرمنی کے مشہور Leopard IA Tankکو ڈیزائن کیا۔ اس اعلیٰ تعلیمی اور تجرباتی ریکارڈ کے ساتھ ترکی واپس آکر استنبول ٹیکنیکل یونی ورسٹی میں ۱۹۵۳ء سے ۱۹۶۵ء تک تدریس کے فرائض انجام دیے اور پروفیسر کے درجے پر مامور رہے۔ اس زمانے میں ترکی میں موٹر انڈسٹری کے فروغ کے لیے بھی سرگرم رہے، اہم صنعتی اداروں میں بحیثیت مشیر کام کیا اور بالآخر ترکی کی صنعت و تجارت کے اعلیٰ ترین ادارے یونین آف چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے جنرل سیکرٹری اور ڈائرکٹر جنرل کی ذمہ داریوں پر فائز رہے۔ اس زمانے میں انھیں ملک کے بااثر معاشی اداروں سے قریبی تعلقات استوار کرنے کا موقع ملا اور ان کے بڑھتے ہوئے اثرونفوذ سے خائف ہوکر ان کے ایک سابق کلاس فیلو اور برسرِاقتدار حکمران سلیمان ڈیمرل نے چیمبر سے ان کو فارغ کر دیا۔ یہی وہ موڑ تھا جب نجم الدین اربکان نے عملی سیاست میں شرکت کا فیصلہ کیا۔
جہاں میں اہلِ ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
اللہ اپنے جس بندے سے جو کام لینا چاہتا ہے ، لے لیتا ہے۔ نجم الدین اربکان ترکی کی تاریخ کا رُخ ایک بار پھر اسلام اور اُمت مسلمہ کی طرف موڑ کر دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔ وہ ۱۹۷۰ء سے ۱۹۹۷ء تک (ماسوا اُن ادوار کے، جب وہ قید میں تھے یا ان پر سیاست میں شرکت کرنے پر پابندی تھی) پارلیمنٹ کے رکن اور ایک اہم سیاسی پارٹی کے قائد رہے۔ دو بار نائب وزیراعظم اور ایک بار وزیراعظم رہے۔ آخری ۱۰، ۱۲ سال ان پر بہت سخت گزرے لیکن وہ ہمت ہارنے والوں میں سے نہ تھے۔ مخالفین کے وار تو وہ ہمیشہ سہتے ہی رہے لیکن اس دور میں ان کو اپنوں سے بھی دُکھ پہنچے۔ اس کے باوجود ان کے پاے استقامت میں لغزش نہیں آئی۔ اکیسویں صدی میں ترکی کے کردار پر جس شخص کا سب سے نمایاں اثر ہے، اور رہے گا وہ نجم الدین اربکان ہیں۔ ان کی بعض آرا یا اقدام کے بارے میں دو رائیں ہوسکتی ہیں لیکن ان کے تاریخ ساز کارناموں کا اعتراف دوست اور دشمن سبھی کر رہے ہیں اور مستقبل کا مؤرخ یہ لکھنے پر مجبور ہوگا کہ اربکان کی ۴۰سالہ نظریاتی، اخلاقی اور سیاسی جدوجہد نے ترکی کے سیاسی اور تہذیبی سفر کے رُخ کو تبدیل کر دیا ہے۔
نجم الدین اربکان سے میرے تعلقات کی داستان بھی نصف صدی پر پھیلی ہوئی ہے۔ ہماری پہلی ملاقات کراچی میں اس وقت ہوئی جب ۱۹۶۷ء میں وہ ترکی کے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے پاکستان کے سرکاری دورے پر آئے ہوئے تھے۔ وہ بڑے اشتیاق سے اسلامک ریسرچ اکیڈمی کے دفتر، واقع ناظم آباد میں تشریف لائے۔ پھر ہماری ملاقاتیں اسلامک کونسل آف یورپ کے اجتماعات میں بڑی باقاعدگی اور تسلسل سے ہوتی رہیں۔ میں نے ۱۹۶۶ء سے ۲۰۰۷ء تک ۱۰، ۱۵ مرتبہ ترکی کا دورہ کیا اور ہربار ان سے ملنے کا موقع ملا، حتیٰ کہ جب وہ نظربند تھے اس وقت بھی مجھے ان سے ملنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ۱۹۹۰ء کی جنگِ خلیج کے موقع پر ،عالمی تحریکات کے وفد میں وہ ہمارے ساتھ تھے۔ اس وفد میں شامل محترم قاضی حسین احمد، ڈاکٹر حسن ترابی، راشد الغنوشی اور دنیا کی اسلامی تحریکات کے ۱۵قائدین نے اُردن، عراق، سعودی عرب اور ایران کا دورہ کیا تھا، تاکہ عرب دنیا کو اس تباہ کن جنگ سے بچایا جاسکے جس کے بادل منڈلا رہے تھے اور جو استعماری ایجنڈے کا اہم حصہ تھی۔ اربکان صاحب نے جماعت اسلامی کی دعوت پر پاکستان کا دورہ بھی کیا۔ میری آخری ملاقات ان سے ۲۰۰۷ء میں ہوئی جب انھی کی دعوت پر ان کی رہنمائی میں کام کرنے والے تحقیقی ادارے Essam کی سالانہ کانفرنس میں مَیں نے کلیدی خطاب کی خدمت انجام دی تھی۔
پروفیسر نجم الدین اربکان کے بارے میں اپنے ذاتی تجربے، اور حالات کے بہ چشم سر مطالعہ کرنے کے بعد جو چند باتیں میں اس موقع پر کہنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہیں:
ان کی زندگی کا پہلا دور اپنی اور اپنے ساتھیوں کی تیاری کا تھا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ وہ دین کا علم بھی رکھتے تھے۔ روحانی اور اخلاقی اعتبار سے انھوں نے اپنے کو اس طرح تیار کرلیا تھا کہ مستقبل کے چیلنج کا مقابلہ کرسکتے تھے، جیساکہ اقبال نے کہا تھا ؎
ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے
نقشبندی سلسلے سے ان کا گہرا تعلق تھا۔ عبادات میں شغف اور تواضع اور خدمت ان کی شخصیت کے دل رُبا پہلو تھے۔ بلاشبہہ انھیں اپنی راے پر بہت بھروسا ہوتا تھا لیکن خوش اخلاقی اور دوسروں کے ساتھ شفقت ان کے کردار کے نمایاں پہلو تھے۔ ان کے فکری کام کا ترکی سے باہر کے علمی حلقوں کو اندازہ نہیں لیکن اس میدان میں بھی ان کی اپنی خدمات کسی سے کم نہیں۔ خود ایک درجن کتابوں کے مصنف تھے اور درجنوں افراد کو تحقیق اور علمی کاموں پر لگانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ میکنیکل انجینیرنگ کے فطری اور عملی دونوں پہلوئوں پر ان کو مکمل عبور تھا، اور بات گہری سوچ اور عملی تجربات کی روشنی میں کرتے تھے۔
انھوں نے سیاسی اور نظریاتی تنظیم کا بھی ایک نیا اسلوب اختیار کیا۔ ملّی گورش کو ایک فکری، نظریاتی اور تہذیبی تحریک کے طور پر منظم اور متحرک کیا۔ خدمت کے میدان میں الگ ادارے بنائے، اور خود سیاسی جماعت کے تصور کو بدل کر رکھ دیا جس میں نظریاتی سیاست اور عوامی خدمت اور فلاح کو مرکزی حیثیت دی گئی۔ طاقت ور اور مفاد پرست طبقوں کے طلسم کو عوامی رابطے، خدمتِ خلق اور معاشرے اور معیشت کی نئی اُبھرتی ہوئی قوتوں کو منظم کرنے اور اپنی جدوجہد میں اپنا دست و بازو بناکر توڑا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں تنظیم کی بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا، اور انھوں نے ان کا بھرپور استعمال کیا۔ روایت پرستی کی جگہ جدت اور سیاست کو ایک نیا آہنگ دیا جس میں عوامی مسائل کو مرکزیت دی گئی۔ مقامی حکومتوں (لوکل باڈیز) کو انھوں نے اپنی سیاسی قوت کی بنیاد بنایا۔ انقرہ اور اِزمیر کے روایتی مراکزِ قوت (power-centres) کے مقابلے میں استنبول جیسے بڑے شہر اور پھر ملک بھر کے شہروں اور قصبات میں اپنی تنظیم کے تنظیمی ڈھانچے قائم کیے۔ بورسا کا تاریخی علاقہ ان کی قوت کا بڑا مرکز بن گیا۔ ۱۹۶۹ء میں صرف ایک نشست پارلیمنٹ میں لینے والے مجاہد نے ۱۹۷۳ء میں ملک کے کُل ووٹوں کا ۱۲ فی صد حاصل کر کے اسمبلی میں ۴۸ نشستیں حاصل کیں۔ ۱۹۸۵ء میں ووٹوں کی تائید گر کر ۷ فی صد رہ گئی لیکن پھر ۱۹۹۵ء میں ۲۱ فی صد ووٹوں کی بنیاد پر اتنی نمایندگی پارلیمنٹ میں حاصل کرلی کہ ایک دوسری جماعت سے اشتراک کی بنیاد پر وزیراعظم کے منصب پر فائز ہوسکے۔ آج کی جسٹس اینڈ ڈائیلاگ پارٹی خواہ ان سے جدا ہوچکی ہے مگر جو کچھ اس نے حاصل کیا ہے، وہ اُسی درخت کا پھل ہے جو پروفیسر نجم الدین اربکان نے لگایا تھا۔
بلاتمثیل یورپ کی تاریخ کا ایک دور ذہن کے اُفق پر اُبھر رہا ہے جس میں کارل مارکس نے اشتراکیت کا فلسفہ بڑی قوت کے ساتھ پیش کیا اور سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں کو ہلاکر رکھ دیا۔ عالمی کمیونسٹ تحریک کا بانی بنا اور عالمی انقلاب کی پیش گوئیاں کیں لیکن ۳۰سال کی جدوجہد کے بعد اس کی تحریک ایک فکری لنگر کی طرح تو موجود رہی مگر یورپ کی سیاست میں ارتعاش پیدا نہ کرسکا۔ البتہ اس کی خواہش کے علی الرغم خود اس کی ہی فکر کے بطن سے جرمنی میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی وجود میں آئی، اور مغربی یورپ میں سوشل ڈیموکریسی کی سیاسی لہر اُبھرتی چلی گئی جس نے مارکس کے افکار سے اپنا رشتہ تو باقی رکھا مگر تبدیلی کے لیے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ مارکس نے اس سے براء.ت کا اظہار کیا اور اپنی آخری تحریر Critique of the Gotha Programme (1883) میں اس پر کڑی تنقید کی، البتہ سوشل ڈیموکریٹس کا ردعمل کچھ یوں تھا ؎
اس نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا
کیا اسیری تھی، کیا رہائی ہے
ترکی کی دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں میں بھی وہی تمام خصوصیات تھیں جو خصوصیت سے ترقی پذیر ممالک کی سیاست کی پہچان بن گئی ہیں، یعنی بااثر طبقات کا تسلط، میڈیا، فوج اور بیورکریسی کا کلیدی کردار، مغربی اقوام کی کاسہ لیسی اور ان ملکی اشرافیہ اور مغربی حکمرانوں کا گٹھ جوڑ، نیز عوام کا استعمال اور استحصال۔ نجم الدین اربکان نے متوسط طبقات کو زبان اور سیاسی کردار دیا۔ یہ انھی کی سوچ اور مساعی کا حاصل ہے کہ متوسط اور چھوٹے تاجر اور زراعت سے متعلق افراد متحرک ہوئے اور سیاسی مرکزی دھارے میں آگئے۔ ان کی تاریخی خدمات میں دینی شناخت کو ترکی قوم کی شناخت کی حیثیت سے اُبھارنا اور مغرب سے اچھے تعلقات کو نظرانداز نہ کرتے ہوئے بھی شعوری طور پر علاقائی ممالک اور عرب اور اسلامی دنیا سے تعلقات کو استوار کرنا اور اجتماعی مفادات کے نئے رشتوں کو استوار کرنا، سرمایہ دارانہ نظام پر تنقید اور مغرب کی معاشی اور سیاسی بالادستی کے چنگل سے نکلنے کی راہیں تلاش کرنا نمایاں ہیں۔ قومی مفاد پر کسی سمجھوتے کو راہ نہ پانے دینا، عوام سے رابطہ اور ان کی حکومت کو سیاسی جدوجہد کا حصہ بنانا، اور اس کے ساتھ اسلام کو زندگی کی صورت گری کرنے والی ایک قوت کی حیثیت سے پیش کرنا، اور یہ بتانا کہ جس طرح نماز اور روزہ اسلامی زندگی کا لازمی حصہ ہیں اسی طرح اجتماعی عدل، سماجی تعلقات اور کرپشن سے پاک سیاست بھی اسلام کا تقاضا ہے۔ سود ایک لعنت ہے، اس سے نجات اخلاقی ہی نہیں ایک معاشی ضرورت بھی ہے۔ مغربی سامراج اور صہیونی ایجنڈے کا مقابلہ کرنا بھی سیاسی جدوجہد کا اہم حصہ ہے___ یہ سب باتیں وہ ہیں جو ترکی کی سیاسی قیادت بھول چکی تھی اور قوم کا ایجنڈا مغربی تصورات اور مفادات کی روشنی میں بنایا جا رہا تھا۔ یہ اربکان ہی کی کوششوں کا ثمرہ ہے کہ سیاست کا انداز اور قوم کا ایجنڈا تبدیل ہوگیا ہے۔ گو، اب بھی مخالف قوتیں بڑی مضبوط اور شکست ماننے کو تیار نہیں، لیکن رنگِ محفل بدل گیا ہے۔
نجم الدین اربکان کا یہ بھی ایک کارنامہ ہے جس کا باہر کی دنیا میں لوگوں کو پوری طرح شعور نہیں ہے کہ تین میدانوں میں انھوں نے اپنی قوم کی ایسی خدمت انجام دی ہے جسے کبھی بھلایا نہیں جاسکتا:
سیاست کے آہنگ کو بدلنا کوئی معمولی کارنامہ نہ تھا۔ ان کے مخالف بھی اعتراف کر رہے ہیں کہ ترکی اب وہ نہیں رہا جو اربکان کے سیاست میں آنے سے پہلے تھا۔ امریکا کے بااثر علمی مجلے فارن پالیسی نے اربکان کے انتقال پر جو نوٹ لکھا ہے اس میں اپنی تمام اگرمگر کے باوجود وہ یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوا ہے کہ:
ترکی اربکان کے سیاسی ورثے کی وجہ سے اور اس کے باوجود ڈرامائی طور پر تبدیل ہوچکا ہے۔ بلاشبہہ ترکی کی موجودہ سیاسی کیفیت، اربکان نے ترکی کے سیاسی نظام میں جو کچھ کیا، اس کا بلاواسطہ یا بہت سی صورتوں میں غیرارادی نتیجہ ہے۔ (فارن پالیسی آن لائن، یکم مارچ ۲۰۱۱ء)
اسی مضمون میں آگے چل کر اعتراف کیا گیا ہے:
آج ترکی جو کچھ ہے اس (اربکان) کے بغیر ہونا ممکن نہ تھا۔ ترکی اس کے چھوڑے ہوئے ورثوں کی وجہ سے زیادہ جمہوری اور زیادہ منقسم ہے۔ انھوں نے عوامی ضروریات کو اپیل کرنے اور سماجی تعاون کے حصول کے لیے جو کچھ سکھایا، ترکی کے قائدین اس کے لیے ان کے احسان مند ہیں۔ سیاسی شراکت اور مخالفوں کے ساتھ اشتراکِ عمل کے ان کے طے شدہ طرز نے بھی ان اُمیدوں کو قائم کیا کہ ترکی کے سیاسی نظام میں اسلام کو تعمیری کردار ادا کرنا ہے۔ (ایضاً)
اور اکانومسٹ، لندن یہ لکھنے پر مجبور ہوا ہے کہ:
ان کے سیکولر دشمن ان کو ایک خطرناک مذہبی انقلابی قرار دیتے ہیں، جب کہ انھیں ترکی کے اسلام پسندوں کے لیے ایک معتدل قوت کی حیثیت سے تسلیم کیا جاتا ہے۔ عرب دنیا ترکی کو ایک ممکنہ ماڈل کے طور پر دیکھتی ہے۔ اربکان کے ورثے کو اب اہمیت حاصل ہے۔ (دی اکانومسٹ، ۳ مارچ ۲۰۱۱ء)
ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ وہی فوج جس نے ہر بار اربکان کا راستہ روکا اور انھیں قید اور نااہلی کی صعوبتوں سے دوچار کیا، اس کا سربراہ جنرل ایسک کوسانور (Isik Kosaner) ان کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل کے الفاظ میں: ’’انھوں نے ہمارے ملک کے لیے سائنس اور سیاست کے میدان میں ایک قیمتی انسان کی طرح عظیم خدمات انجام دیں‘‘۔ (یکم مارچ ۲۰۱۱ء)
کسی نے سچ کہا___ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے!
ترکی میں اسلامی نظامِ بنکاری کو رائج کرنے میں بھی اربکان کا بڑا کردار ہے۔ یہ انھی کا دیا ہوا ماڈل تھا جس کے نتیجے میں سیکولر ملک ہوتے ہوئے بھی بلاسود بنکاری کو قانونی تحفظ اور مواقع حاصل ہوئے۔ ترکی کا افراطِ زر جو ایک زمانے میں ۷۰۰ اور ۸۰۰ فی صد سالانہ تھا، اب ۵ اور ۶ فی صد کے دائرے میں آگیا ہے۔ قرضوں کا بار اب بھی کافی ہے مگر اب معاشی پالیسی بیرونی احکام اور مطالبات کی روشنی میں نہیں، بڑی حد تک ملک کے اپنے حالات اور ترجیحات کے مطابق ترتیب پاتی ہے۔ معاشی زندگی اور جدوجہد کا رُخ بدل گیا ہے اور ان تمام تبدیلیوں میں ترکی قوم کی مساعی کے ساتھ ان کو صحیح رُخ کی طرف رہنمائی کرنے والے اربکان کے افکار اور سیاسی اور معاشی پالیسی کے میدان میں کردار کا بڑا دخل ہے۔ ترکی ان ۵۰سال میں تبدیلی کے راستے پر گامزن ہوگیا ہے۔ اربکان نے D-8 ، یعنی ترقی پذیر آٹھ ملکوں کے اتحاد کا جو خواب دیکھا تھا اور جس کے لیے عملی اقدام کا آغاز کر دیا تھا۔ خدا کرے ترکی اس سلسلے میں خود آگے بڑھے اور عالمِ اسلام اور خود ترکی کو درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے کمربستہ ہوجائے، جن کی اربکان نے نشان دہی کی تھی۔ ۲۰۰۷ء میں، آخری ملاقات کے موقع پر D-8 کے منصوبے پر مشتمل کتاب مجھے اپنے دستخطوں سے دیتے وقت جو بات انھوں نے کہی تھی، میں اسے نہیں بھول سکتا۔ کتاب کی ایک مرکزی تصویر پر انگلی رکھ کر انھوں نے کہا: D-8 کے پہلے اجلاس میں جن آٹھ مسلمان حکمرانوں نے شرکت کی تھی، ذرا غور سے دیکھو ان میں سے کوئی بھی آج منصب ِ اقتدار پر نہیں۔ کیا اب بھی ہم اپنے دوستوں اور دشمنوں میں تمیز نہیں کریں گے؟
_____________
انجینیر، استاد، مربی، قائد اور مجاہد نجم الدین اربکان کا سفرِ آخرت بھی ایک انفرادی شان رکھتا ہے۔ مبصرین کا اندازہ ہے کہ دولت عثمانیہ اور خلافت کے خاتمے کے بعد کسی سیاسی قائد کے جنازے میں عوام کی ایسی شرکت نہیں دیکھی گئی جیسی پروفیسر اربکان کے جنازے میں تھی۔ استنبول کی ۳ہزار مساجد نے جنازہ میں شرکت کا اعلان کیا اور سلطان فاتح مسجد میں اس مجاہد کی نمازِ جنازہ میں ۳۰لاکھ افراد نے شرکت کی۔ صدر مملکت، وزیراعظم، گرانڈ اسمبلی کا اسپیکر، تمام سیاسی اور دینی جماعتوں کے قائد، دنیا بھر کی اسلامی تحریکات کے نمایندے، شمالی قبرص کی حکومت کے صدر اور وزیراعظم، حتیٰ کہ ترک افواج کی قیادت، سب نے شرکت کی اور اربکان کی اس خواہش کے احترام میں یہ اہتمام کیا گیا تھا کہ ان کا جنازہ معروف اسلامی روایات کے ساتھ اُٹھایا جائے اور سابق وزیراعظم اور سربراہِ حکومت کے جنازوں کے لیے جو سرکاری تام جھام ہوتا ہے اس سے اجتناب کیا جائے۔ پروفیسر اربکان کا جنازہ عوام کے اعتماد اور محبت کا مظہر تھا اور استنبول کی جدید تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ترکوں نے اس جنازے میں شرکت سے اربکان کو اپنا آخری سلام ہی پیش نہیں کیا بلکہ یہ جنازہ ایک ریفرنڈم بن گیا۔ ملک میں جو تبدیلی اربکان اور اس کے ساتھیوں کی مساعی کے نتیجے میں رونما ہوئی ہے، ترک عوام کی بڑی تعداد نے اس سے اپنی ہم آہنگی اور اس لہر کو آگے بڑھانے کے عزم کا اظہار بھی کیا۔ الحمدللہ اربکان کی موت بھی اس کی زندگی کی طرح اسلامی احیا کی تحریک کی علامت بن گئی ؎
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جان کی کوئی بات نہیں
اللہ تعالیٰ پروفیسر نجم الدین اربکان کی تمام مساعیِ جمیلہ کو شرف قبولیت سے نوازے، ان کی خدمات کے عوض انھیں جنت کے اعلیٰ ترین مقام پر جگہ دے، ان کی قبر کو نور سے بھر دے، ان کی بشری کمزوریوں اور کوتاہیوں کو معاف فرمائے ___اور ترکی کو جس راستے پر گامزن کرنے میں انھوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے وہ اس پر تیزرفتاری کے ساتھ گامزن رہے، اور ترکی اور عالمِ اسلام ایک بار پھر مل کر اسلام کی نشاتِ ثانیہ کا سامان پیدا کریں، اور اقبال نے جو خواب دیکھا تھا وہ حقیقت کا روپ دھار لے ؎
عطا مومن کو پھر درگاہِ حق سے ہونے والا ہے
شکوہِ ترکمانی، ذہنِ ہندی، نُطقِ اعرابی