اللہ کی بے شمار نعمتوں میں سے ہر ایک نعمت، انسان پر اللہ رب العالمین کا احسان ہے۔ لیکن اللہ رب العالمین نے اپنے کلام پاک میں ان میں سے کسی چیز کو اپنا احسان نہیں کہا، بلکہ ارشاد فرمایا: لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ (اٰل عمرٰن۳:۱۶۴) ’’درحقیقت اہلِ ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انھی میں سے ایک پیغمبر اُٹھایا‘‘۔ گویا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری اس کائنات کے ذرے ذرے پر اللہ رب العالمین کا احسان عظیم ہے۔ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بندے کو رب سے ملایا۔ انسانی غلامی کی زنجیر یں توڑدیں۔ طوق غلامی ختم کردیے۔ انسان کو انسانیت عطاکی۔ اسے شعور آدمیت بخشا، اس کے فکر ونظر کے زاویے تبدیل کردیے۔ اس کا شرف آدمیت بلند کیا۔اس کے دل و دماغ کی دنیا کو بدل کے رکھ دیا۔ اسے امن و سلامتی،عدل وانصاف، رحم دلی و خدا ترسی، صداقت و ایفاے عہد، انسانی حقوق کی پاسداری اور اپنے رب سے وفاداری عطا کی۔
نبی کریمؐ کی تعلیمات اور آپؐ کی حیات طیبہ اس زمانے کے لیے ہی نہیں بلکہ آج کے لیے بھی اور آج کے لیے ہی نہیں، قیامت تک آنے والے زمانوں کے لیے ایک کامل واکمل، ارفع و اعلیٰ، بلند و بالا اور نہایت روشن و منور اسوۂ حسنہ اور بہترین نمونہ ہے۔ آپؐ کو اللہ رب العالمین نے وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ (انبیاء ۲۱:۱۰۷)، ارشاد فرماکر ہمیں یہ بتادیا ہے کہ آپ ایک جہان کے لیے نہیں، معلوم ونامعلوم تمام جہانوں کے لیے، ایک دورکے لیے نہیں بلکہ لوح ایام سے اُبھرتے ہوئے تمام ادوار کے لیے، ایک طبقۂ زندگی کے لیے نہیں بلکہ تمام طبقات زندگی کے لیے سراپا رحمت بن کر آئے ہیں۔ اس لیے اگر آج ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہماری انفرادی واجتماعی زندگی رحمتوں سے بھر جائے، ہمارے گھر جنت کا نمونہ بن جائیں اور ہمارا معاشرہ امن و سلامتی کا گہوارہ اور عدل وانصاف کا بلند مینارہ بن جائے، تو پھر ہمیں یہ نسخۂ کیمیا صرف دامن مصطفیؐ ہی سے مل سکتاہے۔
اگر ہم پاکستان کے تناظرمیں بات کریں، تو ہمیں یوں محسوس ہوتاہے کہ آج ہم اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزررہے ہیں۔ امن عامہ کی صورت حال انتہائی دگرگوں ہے۔ کسی کی عزت، جان اور مال اگر محفوظ ہے تو یہ صرف اللہ کریم کی خاص مہربانی ہے۔ وگرنہ یہاں انسانی جان نہ چوکوں چوراہوں پر محفوظ ہے، نہ بھرے بازاروں اور سڑکوں، شاہراہوں پر۔ انسان نہ اپنے گھر میں محفوظ ہے اور نہ خدا کے گھر میں۔ پاکستان میں پایدار امن قائم کرنا ہماری خواہش ہی نہیں، فوری اور اشد ضرورت بھی ہے۔ اس ضمن میں ضروری ہے کہ ہم دیکھیں کہ آج امن عامہ کے حوالے سے ہمیں کون سے چیلنج درپیش ہیں۔ اس لحاظ سے موجودہ صورت حال دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے: ۱-بدامنی کی عمومی صورت حال، ۲-نائن الیون کے بعد سے پیدا شدہ خصوصی حالات۔
بدامنی کی عمومی صورت حال: ہمارے معاشرے میں بڑھتے ہوئے جرائم میں چوریاں، ڈکیتیاں معمول بن گیا ہے۔ کارچوری،رسہ گیری اور رہزنی کے واقعات میں کئی گنا اضافہ ہوگیاہے۔ روزانہ ہزاروں موبائل اور خواتین کے پرس چھینے جاتے ہیں۔ قتل وغارت گری میں مسلسل اضافہ ہو رہاہے۔ انتقام کی آگ میں اندھے ہو کر لوگ مخالفین کو عورتوں، بچوں سمیت ذبح کردیتے ہیں۔ تاوان وصول کرنے کے لیے پھول جیسے مسکراتے بچوں کو اغوا کیا جاتاہے، اور پھر تاوان ادا کرنے کے باوجود مائوں کواپنے بچوں کی مسلی ہوئی لاشیں ملتی ہیں۔ منشیات کا کاروبار عروج پر ہے۔ گویا کہ معاشرہ انسانی روپ اختیار کیے ہوئے بھیڑیوں کی گرفت میں آچکاہے۔
نائن الیون کے بعد خصوصی حالات
یہ حالات انتہائی کرب ناک اور خطرناک ہی نہیں انتہائی شرم ناک بھی ہیں۔ اب تک ۳۰ہزار سے زیادہ بے گناہ افراد کا لہو بہہ چکاہے، اور ابھی اس نام نہاد دہشت گردی کے خلاف چھیڑی گئی عالمی جنگ میں پاکستانی قوم کو اپنے کچھ اور معصوموں کے لہو کا خراج اور معاشی بدحالی کی صورت میں مزید تاوان جنگ ادا کرنا پڑے گا۔
ڈرون حملے: ۲۰۰۴ء کے بعد سے پاکستان پر عملاً جنگ مسلط کردی گئی ہے۔ آئے روز فضائی حدود کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور امریکی طیارے میزائلوں کے ذریعے عورتوں، بچوں، بوڑھوں سمیت بے گناہ شہریوں کے جسموں کے چیتھڑے اڑا دیتے ہیں۔ اس طرح کے حملوں کی اجازت نہ پاکستان کاآئین دیتاہے، نہ اقوام متحدہ کاچارٹر اور نہ خود امریکا کے اپنے قوانین ہی، لیکن یہ غیر انسانی عمل تسلسل سے جاری ہے۔ امریکی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق کسی دہشت گرد ٹارگٹ اور بے گناہ افراد کی ہلاکتوں میں تناسب ایک اور ۵۰ کا ہے۔ ۲۰۱۰ء میں کُل ۱۱۸ڈرون حملے ہوئے، ۵۸۴؍افراد جاں بحق ہوئے جن میں سے مطلوب ٹارگٹ صرف دو تھے۔ اب تو ایک دن میں ۴،۴ ڈرون حملے معمول بن گئے ہیں۔ ریمنڈ کی گرفتاری کے بعد کچھ تعطل آیا تھا لیکن اس کی رہائی کے بعد ایک ہی دن ۱۲ حملے کیے گئے جس میں جرگے کے عمائدین سمیت ۴۱ افراد شہید ہوگئے۔
خودکش اور دھشت گردحملے: ڈرون حملوں کے نتیجے میں شہید ہونے والوں کے غصے اور انتقام سے بھرے ہوئے ۱۵سے ۲۰ سال تک کی عمر کے بچوں کو بھی خود امریکا ،بھارت اور اسرائیل کا ایک نیٹ ورک خود کش حملوں کے لیے استعمال کررہاہے۔ ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری، اس سے برآمد ہونے والے جاسوسی آلات، تصاویر اور موبائل کی سموں سے اس کے وزیرستان کے دہشت گردوں سے رابطوں سے یہ حقیقت کھل گئی ہے کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کروانے،جہاد کو بدنا م کرنے، اسلام کو دہشت گردی کا دین ظاہر کرنے اور پاکستان کو غیر محفوظ ملک ثابت کرکے اس کے ایٹمی اثاثوں پر عالمی پابندیاں لگوانے کے مقاصد کے تحت پاکستان کی مساجد،مزارات،امام بارگاہوں، جلسوں اور جلوسوں پر حملے امریکا خود ہی کروا رہاہے۔
ٹارگٹ کلنگ: پورے ملک میں کسی حد تک لیکن کراچی میں بالخصوص ٹارگٹ کلنگ کاسلسلہ عروج پر ہے۔ کسی بھی جرم کے بغیر محض کسی خاص زبان بولنے کی بنیاد پر بے گناہ مزدوروں، رکشاو بس ڈرائیوروں،ریڑھی ٹھیلے والوں کو قتل کردیا جاتاہے۔ بھتہ خوری اور ناجائز قبضوں کے لیے بھی انسانی جانوں سے کھیلا جاتاہے۔ اب تک ہزاروں افراد اس سیاست کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں، جب کہ کسی ایک بھی واقعے کے قاتل کو سزا نہیں ملی۔ کراچی کے سانحات میں ۱۲مئی، ۹؍اپریل، ۱۲ربیع الاول،۱۰محرم الحرام، ۲۷؍اکتوبر اور بے گناہ شہیدہونے والوں میں حکیم محمد سعید، صلاح الدین، محمد اسلم مجاہدوغیرہ جیسے رہنما شامل ہیں۔
امن عامہ کی صورت حال کے لحاظ سے رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ بلوچستان، سب سے زیادہ متاثر ہے۔ یہاں پر بھی ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے پنجابی اساتذہ،تاجروں اور پولیس اہلکاروں کا قتل ہوا۔ اکبر بگٹی کی ٹارگٹ کلنگ نے حالات میں جو آگ لگائی ہے، اس کی وجہ سے بھارت اور امریکا بلوچستان میں پاکستان مخالف جذبات کو بڑھانے کی سازشیں کررہے ہیں۔ بلوچ رہنمائوں اور جوانوں کی اغوا کے بعد مسخ شدہ لاشوں کا ملنابھی قیامت خیزی میں اضافہ کررہاہے۔
لاپتا افراد اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی: گذشتہ پانچ چھے برسوں سے سیکڑوں افراد لاپتا ہیں۔ اتنے بڑے پیمانے پر لوگوں کا لاپتا ہونا،اور پھر عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کے باوجود برآمد نہ ہونا لمحہ فکریہ بھی ہے اور ایک المیہ بھی! ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اغوا کرکے امریکا کے حولے کرنے اور امریکی عدالت کا اسے صرف مسلمان ہونے کے جرم میں ۸۶سال قید دینے کے واقعے نے بھی نوجوان نسل میں بے پناہ اضطراب پیدا کیاہے۔
ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ : ۲۷ جنوری ۲۰۱۱ء کو لاہور میں دن دہاڑے ایک امریکی جاسوس اور قاتل نے تین بے گناہ پاکستانیوں کو شہید کردیا۔ اس کے بعد سے امریکا کامسلسل دبائو بڑھتا رہا ہے کہ قاتل کو بغیر مقدمہ چلائے اور جاسوس سے بغیر معلومات حاصل کیے اسے امریکا کے حوالے کردیا جائے۔ اس معاملے نے عوام میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے سانحے کی طرح حکمران طبقے کی بے حسی اور ملک کی بظاہربے بسی کا احساس زیادہ اُجاگر کردیا۔ اب اسے قصاص و دیت قانون کے تحت آزاد کر کے امریکا بھجوانے سے اس شدت میں مزید اضافہ ہوگیاہے۔
پایدار امن کیسے؟
پاکستان میں امن عامہ کی مخدوش عمومی صورت حال اور نائن الیون کے بعد سے پیدا ہونے والے خصوصی حالات کاتقاضا ہے کہ پاکستان میں پایدار امن قائم کیا جائے۔ ہمارا ایمان ہے کہ یہ پایدار امن صرف اسوۂ حسنہؐ کی روشنی میں ہی قائم ہوسکتاہے۔ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے، اس خطے میں ایک مثالی اور پایدار امن قائم فرمایا جہاں دن کے اُجالوں میں قافلے لٹتے اور رات کے اندھیروں میں شب خون مار کر مردوں کو قتل اور عورتوں بچوں کو غلام بنالیاجاتاتھا۔ جہاں بیٹیاں زندہ دفن کر دی جاتی تھیں اور بات بات پر تلواریں میان سے باہر نکلتی تھیں۔ جہاں انتقام درانتقام کے سلسلے برسوں اور نسلوں تک چلتے تھے۔ بقول مولانا حالی:
یوں ہی ہوتی رہتی تھی تکرار ان میں
یوں ہی چلتی رہتی تھی تلوار ان میں
نبی کریمؐ اور ا ن کے لائے ہوئے دین نے جزیرۃ العرب میں وہ مثالی امن قائم کیا کہ سونے کے زیوارت سے مزین ایک عورت کو تنہا صنعاسے حضر موت تک کے طویل سفر میں اللہ کے علاوہ کسی اور کاڈر نہ رہا۔ اس امن کی پایداری یہ ہے کہ ۱۵سو سال بعد آج بھی ان علاقوں میں جرائم کی شرح قریباًنہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان میں پایدار امن کا قیام صرف اسلامی نظام کے قیام ہی سے ممکن ہے۔ اس لیے کہ اسلامی نظام کے قیام کامقصد ہی قیام خیر اور رفع شرہے:
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ ط وَ لِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِo (الحج۲۲:۴۱) یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور بُرائی سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے جو فتنہ و فساد،ظلم وزیادتی، جبرواستبداد،قہر و تعدی، استحصال واستیصال اور بدامنی و دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کرتاہے۔ اس سلسلے میں تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہم نکات حسب ذیل ہیں:
داخلی انقلاب : اسلام انسان کو اندر سے مکمل تبدیل کردیتاہے۔ اس کے نفس امارہ کو نفس لوامہ اور پھر نفس مطمئنہ میں بدلتاہے۔ وہ توحید ربانی، محبت و اطاعت رسولؐ، احساس جواب دہی اور فکر آخرت کے عقیدوں اور نظریات و جذبات سے پتھر دلوں، یعنی قلوب قاسیہ کو یاد الٰہی سے نرم دلوں، یعنی قلوب خاشعہ میں بدل دیتاہے۔ یہ اتنی بڑی تبدیلی ہے کہ جس سے انسان اپنے ان جرائم کا خود اعتراف کرتاہے جسے کرتے ہوئے دنیاکی کسی آنکھ نے نہیں دیکھا۔ کوئی دعویٰ نہیں، لیکن انسان آخرت کی دائمی سزا کے بدلے اس دنیا کی سخت ترین سزا کو بھی برداشت کرنے پر تیار ہوجاتاہے۔ اندر کی تبدیلی سے امتناع شراب کے قانون پر برسوں،مہینوں یا دنوں میں نہیں چند گھنٹوں میں اس طرح سے عمل ہوجاتاہے کہ پورا معاشرہ اس سے پاک ہوجاتاہے۔
جرم کے محرکات کا خاتمہ : اسلام نے ان تمام اسباب کا خاتمہ کیا یا ان کی اصلاح کی کہ جن کی وجہ سے انسان مجرم بنتاہے، مثلاً حُبِ دنیا اور حُبِ مال کو وہن کہاگیا۔ اَلْہٰکُمُ التَّکَاثُرُکہہ کر کثرت کے جنون کو وجۂ ہلاکت قرار دیا۔ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَکہہ کر بتایا گیا کہ آخرت کی کامیابی ہی اصل کامیابی ہے۔ غصہ جرائم کو جنم دیتاہے چنانچہ وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ کے پیغام سے عفو و درگزر کا سبق دیا گیا۔ تکبر، حسد، تمسخر، بہتان، بدگمانی،غیبت،بُرے القاب،جھوٹ، بددیانتی، خیانت،دھوکا دہی، ذخیرہ اندوزی سے معاشرے میں جرائم بڑھتے ہیں۔ اسی طرح شراب منشیات،جوا، فحاشی، سود،بدکاری، رشوت، سفارش بھی معاشرے میں مجرموں کی افزایش کرتے ہیں۔ ان سب کو حرام قرار دیا گیا۔ گویا کہ اسلام نے جرم کے سرچشموں اور بنیادوں کو ہی ختم کردیا۔
انسانی حقوق : خطبۂ حجۃ الوداع کی شکل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حقوق انسانی کا عظیم الشان چارٹر دیا ہے۔ اس چارٹر میں آپ نے انسانی جان کی حرمت،معاشرتی مساوات، جاہلیت کے انتقام درانتقام سلسلوں کے خاتمے،شخصی حقوق: تحفظ جان، تحفظ مال، تحفظ کی بہترین تعلیمات دیں۔ میاں،بیوی،بہن بھائیوں، ماں، باپ اولاد، رشتہ داروں،یتیموں، محتاجوں، ضعیفوں، بیماروں، غلاموں، مزدوروں، پڑوسیوں، دوستوں، مسافروں، اساتذہ، شاگردوں، راہگیروں، غرضیکہ ہر طبقے کے الگ الگ حقوق متعین کیے۔ حقوق العباد کے سلسلے میں یہ بہترین تصور دیا کہ بندوں کے حقوق کی پامالی پر معافی کا اختیار اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس نہیں رکھا بلکہ بندوں کو ہی دے دیا ہے، یعنی جب تک جس کا حق مارا گیاہے وہ خود معاف نہیں کرے گا، انسان کی قیامت کے دن رہائی نہیں ہوسکے گی، بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ حقوق العباد کی پامالی کی سزا کے طور پر قیامت کے روز اپنی نمازوں، روزوں اور عبادات کے اجر سے ہی محروم ہوجائے۔
حقوق نھیں فرائض : دنیا میں حقوق مانگے اور دیے جاتے ہیں۔ اسلام حقوق سے پہلے فرائض کی بات کرتاہے۔ چنانچہ اگر فرائض اداہوجائیں تو حقوق طلبی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، نیز اسلام نے حقوق و فرائض میں بہترین توازن و اعتدال قائم کردیاہے۔ اس طرح سے معاشرہ کسی بھی کشاکش اور کش مکش کے بغیر ہی جنت نظیر بن جاتاہے۔
قوم نھیں اُمت: بلوچستان کا معاملہ ہو یا کراچی کا، علاقائی مطالبات ہوں یا لسانی تعصبات، اسلام کے تصوراُمت سے خودبخود ختم ہوجاتے ہیں۔ اس لیے کہ اسلام شعوب و قبائل کو صرف ذریعۂ تعارف قرار دیتاہے، وجۂ تفاخر نہیں۔ قرآن پاک میں مسلمانوں کو کہیں بھی قوم نہیں کہا گیا، جہاں بھی کہاگیاہے اُمت کہاگیاہے۔ اس لیے کہ قومیں عصبیتوں سے بنتی ہیں اور اُمت عقیدے سے۔ قوم زبانوں،علاقوں،نسلوں سے وجود میں آتی ہے اور اُمت ایمان سے بنتی ہے۔
نظام عبادات : اسلام نے تصوراُمت اور معاشرتی مساوات کو اپنے نظام عبادات کا حصہ بنا دیا ہے۔ قیام امن کے لیے اسلام کی عظیم الشان بنیادیں محض اخلاقی تعلیمات نہیں، بلکہ عبادات کا مستقل حصہ ہیں۔ اسلام دن میں پانچ مرتبہ امیر وغریب، اعلیٰ و ادنیٰ،افسرو ماتحت، کارخانے دار و مزدور،عربی و عجمی، گورے و کالے، پنجابی و سندھی، بلوچی وپٹھان اور مہاجر وغیرمہاجر کو ایک صف میں کھڑا کردیتاہے۔ یہاں کوئی علاقائی تقسیم نہیں،کوئی معاشرتی درجہ بندی نہیں۔ کوئی لسانی و مادی تفاوت نہیں۔ اسی طرح حج و عمرہ کے موقعے پر تمام علاقائی لبادے اتروالیے جاتے ہیں۔ یہاں کج کلا ہوں کے تاج،عماموں کے پیچ، جبہ و دستار اور شیر وانیاں و وردیاں اتر جاتی ہیں۔
امن کے ادارے : اسلام امن کو وعظ و تلقین تک محدود نہیں رکھتا بلکہ اس کے قیام کے لیے بہترین ادارے بھی وجود میں لاتاہے۔ ان اداروں میں خاندان اہم ترین ادارہ ہے کہ یہیں سے شفقت ومحبت ہی نہیں تزکیہ وتربیت کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ دوسرا اہم ادارہ مسجد ہے جوکہ ایک محلے کو وحدت کی لڑی میں پرو دیتا ہے، اور جہاں دن میں پانچ مرتبہ اہل محلہ ملتے اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں۔ تیسرا اہم ادارہ مکتب، یعنی نظام تعلیم ہے۔ تعلیم ہی ایک بہترین انسان وجود میں لاتی ہے، جو ایثار و قربانی کا پیکر اور انسانی حقوق کا عملی محافظ ہوتاہے۔ چوتھا اہم ادارہ ریاست ہے کہ ریاست ہی بنائو بگاڑ کا مرکز ہوتی ہے۔ ریاست ہی نظام تعلیم تشکیل دیتی اور میڈیا کو اخلاقی ضابطوں کا پابند بناتی ہے۔ ریاست ہی اپنے اداروں، پولیس، فوج اور عدلیہ کے ذریعے معاشرے میں امن قائم اور انصاف فراہم کرتی ہے۔ اسلامی ریاست اگرچہ انعام خدا وندی ہے۔ لیکن اہل ایمان کو انعام کا انتظار کرنے کے بجاے اس انعام کا حق دار بننے کی تلقین کی گئی ہے۔ یہی مقصدِ بعثتِ رسول ؐ ہے: ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ط وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا o (الفتح ۴۸:۲۸) ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اُس کو پوری جنسِ دین پر غالب کردے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے‘‘۔
امن و سلامتی کی تعلیمات: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امن و سلامتی کا ماحول پیدا کرنے کے لیے جہاں بہترین تعلیمات دی ہیں، وہاں انماالمؤمنون اخوہ کا فرمان ربی پہنچایا ہے، اور المسلم اخو المسلم کہہ کر بتادیا ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ مسلمان کو گالی دینا فسق اور اسے بے گناہ قتل کرنا کفر قرار دیا ہے۔ ومن یقتل مومنا معتمداً فجزاؤہ جہنم کہہ کر قاتل کا ٹھکانہ جہنم قرار دیا ہے۔ ایک انسان کے قتل کوپوری انسانیت کا قتل کہاگیاہے۔ بتادیا ہے کہ خود کشی حرام موت ہے۔ ایک مسلمان کی حرمت کو خانۂ کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ اہم قرار دیا ہے۔ فرمایا کہ جس کسی نے ہم میں سے کسی پر ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اسی طرح فرمایا کہ پوری دنیاکا تباہ وبرباد ہوجانا اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مومن کے ناحق قتل ہونے سے ہلکا ہے۔ ذمی یا معاہدکے ناحق قاتل کے لیے فرمایا کہ وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گا، حالانکہ اس کی خوشبو ۴۰ سال کی مسافت سے محسوس کی جاسکتی ہے۔
امن وسلامتی کا ماحول: ان تعلیمات کے ساتھ ساتھ امن و سلامتی کے ماحول کو پیدا کرنے کے لیے نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا کہ اپنے درمیان سلام کو عام کرو۔ سلام کیا ہے؟ سلامتی کی دعا اور جواب دعاہے۔ دوسرے کے لیے سلامتی کی خواہش و تمنا کا اظہار ہے۔ جس معاشرے میں دن رات کروڑوں انسان ایک دوسرے کے لیے سلامتی کی دعائیں مانگتے ہوں وہاں بدامنی اور قتل وغارت کیسے ہوسکتی ہے۔ ہرمسلمان کے دوسرے پر چھے حق بیان کیے گئے ہیں۔ اس میں سلام اور اس کا جواب، چھینک پر الحمد للّٰہ اور یرحمک اللّٰہ کا اظہار،بیمار کی تیمارداری،جنازے میں شرکت وغیرہ شامل ہیں۔ مسکراہٹ کو صدقہ اور کارعبادت قرار دے کر مسلمانوں کے معاشرے کو مسکراتے ہوئے چہروں کا معاشرہ بنادیا ہے۔
بھترین عدالتی نظام اور کڑی سزائیں : قیام امن میں اہم ترین حصہ عدالتی نظام کا ہوتاہے۔ اسلام نے بہترین عدالتی نظام دیا ہے جس میں عدلیہ کی آزادی، اراکین عدلیہ کی صفات، عدالتی طریقۂ کار،قانون شہادت، غرضیکہ ہر پہلو کو بہترین انداز میں مفصل بیان کیا گیا ہے۔ اِعْدِلُوْا قف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰیز (المائدہ ۵:۸) ’’عدل کرو، یہ خداترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے‘‘، کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْط (النساء ۴:۱۳۵) ’’انصاف کے علَم بردار بنو‘‘، وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْل ط (النساء ۴:۵۸) ’’اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو‘‘، اور دیگر آیات کے ذریعے عدل وانصاف پر بہت زیادہ زور دیاگیاہے۔ اسی طرح اسلام نے چوری، ڈکیتی، رہزنی،بدکاری،بہتان طرازی،شراب نوشی، فساد فی الارض،دہشت گردی وغیرہ جیسے جرائم کے لیے سخت ترین اور عبرت ناک سزائیں مقرر کی ہیںتاکہ چند افراد کی سزائوں کے نتیجے میں پورا معاشرہ امن و سلامتی کا گہوارہ بن جائے۔
پاکستان میں اسلامی نظام کا قیام :پاکستان میں پایدار امن صرف اسلامی نظام کے نفاذ کے ذریعے ہی قائم ہوسکتاہے۔ اسلامی نظام کا نفاذ قیام پاکستان کا مقصد وجود، آئین پاکستان کا لازمی تقاضا اور قرارداد مقاصد کا عملی پہلو ہے، نیز اہالیان پاکستان کی تمنائوں کا مرکز ہے۔ اسلامی نظام کے قیام میں کوئی آئینی رکاوٹ نہیں کہ آئین پاکستان اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کا اعلان بھی کرتاہے، اور پاکستان میں اسلام کو سرکاری مذہب بھی قرار دیتاہے۔ اسی طرح اسلامی نظریاتی کونسل نے کم وبیش تمام مروجہ قوانین پر قرآن وسنت کی روشنی میں نظرثانی اور تدوینِ نو کا کام بھی مکمل کرلیا ہے۔ اب اگر اہالیان پاکستان اپنے ووٹ کی طاقت کے ذریعے قرآن وسنت کی عملی بالادستی کا راستہ ہموار کردیں، تو ان شاء اللہ پاکستان امن کا گہوارہ بن جائے گا۔ امن کے قیام کے لیے قانون کی حکمرانی، امریکی بالادستی اور مداخلت کے خاتمے، ڈرون حملوں کی فوری بندش جو کہ نفرت اور اشتعال انگیزی کا باعث بن رہے ہیں، اور اس ضمن میں پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے تو درپیش فوری مسائل کو حل بھی کیا جاسکتا ہے اور اسلامی نظام کے قیام کی منزل بھی قریب آسکتی ہے۔ (مقالہ نگار نائب قیم جماعت اسلامی پاکستان ہیں)