تقریباً۱۸ لاکھ مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل لیبیا ۱۸ لاکھ بیرل پٹرول روزانہ برآمد کرتا ہے۔ نائیجیریا، الجزائر اور انگولا کے بعد، تیل برآمد کرنے والے افریقی ملکوں میں لیبیا چوتھے نمبر پر آتا ہے۔ لیبیا سے نکلنے والا تیل دنیا میں شفاف ترین تیل کے زمرے میں آتا ہے، جسے صاف کرنے کے لیے سب سے کم لاگت آتی ہے۔ عالمی اندازوں کے مطابق لیبیا میں ۴۲ ارب بیرل تیل کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ تیل کے ساتھ ہی ساتھ لیبیا سالانہ ۱۰؍ ارب مکعب میٹر قدرتی گیس بھی برآمد کررہا ہے۔ وسیع و عریض ملک اور دولت کے ان انباروں کے مالک لیبیا کی آبادی صرف ۶۵لاکھ کے قریب ہے۔ لیبیا کو اگرچہ یورپی یا خلیجی ممالک کی طرح جدید سہولیات والا ملک تو نہیں بنایا گیا لیکن مجموعی طور پر لیبیا کی آبادی خوش حال سمجھی جاتی ہے۔ کوئی کمی تھی تو یہ کہ وہ خود کو اپنے ہی ملک میں قیدی تصور کرتی تھی۔ صدر قذافی جو اکثر کوئی نہ کوئی نیا فلسفہ یا نعرہ لگانے کے ماہر تھے، کسی شخص کو حق اختلاف دینے کے حق میں نہ تھے۔ خبطِ عظمت کا شکار خود تو قرآن کریم کی آیات، انبیاے کرام ؑکی ہستیوں اور اسلامی مقدسات کے بارے میں بھی عجیب عجیب تبصرے و انکشافات کرتا رہتا تھا، لیکن عوام میں سے اگر کسی نے آواز بلند کی تو سرعام لٹکا دیا گیا۔ راقم کو جب بھی کسی کانفرنس میں شرکت کے لیے لیبیا جانے کا اتفاق ہوا تو لیبین عوام کے سپاٹ چہرے دیکھ کر حیرت ہوتی تھی۔ ایک بار اس حیرت کا اظہار ایک اعلیٰ سطحی ذمہ دار سے بھی کیا کہ کسی چہرے پر سجی مسکراہٹ دکھائی نہیں دیتی؟ وہ اِدھر اُدھر دیکھ کر ہلکا سا مسکرایا اور کوئی تبصرہ نہ کیا۔
تیونس اور مصر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے لیبیا کے عوام نے بھی آزادی و حقوق کا نعرہ بلند کیا تو انھیں بخوبی اندازہ تھا کہ انھیں اپنے دونوں پڑوسیوں سے کہیں زیادہ قیمت چکانا پڑسکتی ہے۔ کرنل قذافی کا ماضی اور مزاج عوام کو ممکنہ نقصانات سے خبردار کررہا تھا، لیکن بالآخر سب پکار اُٹھے کہ اب یا کبھی نہیں۔ تحریک کا آغاز دار الحکومت سے دور چھوٹے شہروں اور لیبیا کے دوسرے بڑے شہر بن غازی سے ہوا تو معمر قذافی کی گرفت تصور سے بھی کمزور نکلی۔ پولیس، انتظامیہ، فوج، سب مظاہرین کے ساتھ شامل ہونے لگے۔ کچھ مقامات پر جھڑپیں ہوئیں لیکن تمام مظاہرین بار بار نعرہ لگا رہے تھے: سِلمِیّہ سِلمِیّہ، ’’پُرامن پُرامن‘‘۔ ساتھ ہی عوام نے کرنل قذافی سے پہلے شاہ ادریس کے زمانے کا سرخ، سبز اور سیاہ قومی پرچم لہرانا شروع کردیا۔
لیبیا کی ایک بدقسمتی یہ بھی تھی کہ ۸۰ کی دہائی میں صدر قذافی کے خلاف فوجی بغاوت کی کوشش کے بعد سے، ملک میں کوئی باقاعدہ فوج مضبوط نہ تھی۔ قومی فوج سے کہیں زیادہ مضبوط و مسلح، صدر قذافی اور اس کے بیٹوں کی ذاتی ملیشیا فورسز تھیں۔ انھیں خطرہ تھا کہ اگر ملک میں مضبوط فوج بنائی تو اس کا سب سے پہلا نشانہ خود انھی کو بننا پڑے گا۔ ملیشیا فورسز کے علاوہ انھوں نے بعض افریقی ممالک کو بڑی بڑی مالی امداد دے کر اپنی مٹھی میں لے رکھا تھا کہ بوقت ضرورت ان سے بھی کرایے کے سپاہی حاصل کیے جاسکیں گے۔ انھی تین عوامل (معمر قذافی کا مزاج، ذاتی وفادار ملیشیا فورسز اور کرایے کے سپاہی) نے انقلابی عوام کے خلاف مسلح کارروائیوں کو زیادہ مہلک بنادیا ہے۔
بے تحاشا جانی نقصان کے باوجود عوامی تحریک ایک کے بعد دوسرے شہر کی طرف بڑھنے لگی، تو قذافی صاحب نے ’’چپے چپے گھر گھر، در در،فرد فرد اور ایک ایک گلی کوچے سے صفایا کردیں گے‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے ان شہروں پر ناقابل بیان بم باری شروع کردی۔ ہاتھ سے نکل جانے والے شہروں میں ہی نہیں خود طرابلس میں بھی قتل و غارت کا بازار گرم کردیا۔ دار الحکومت سے جان بچا کر واپس آنے والے مزدور و ملازمت پیشہ پاکستانی عینی شاہد بتاتے ہیں کہ وہاں بھی لاشوں کے انبار تھے، جنھیں بڑے بڑے ٹرالروں میں بھر بھر کر ٹھکانے لگادیا گیا۔ ہاتھ سے نکل جانے والے تیل کے کنوؤں اور تیل کے ذخائر کو اڑا دیا گیا۔ اس ساری تباہی و بربادی اور خوں ریزی کا ہدف صرف یہ تھا کہ ۴۲ سالہ اقتدار کو مزید طوالت دی جائے۔ اب ایک طرف یہ ساری تباہی اور تباہ کن حملے تھے اور دوسری طرف نہتے عوام اور ان کا ساتھ دینے والے فوجی دستے کہ جن کے پاس زیادہ سے زیادہ ہتھیار چند ٹینک اور طیارہ شکن توپیں تھیں۔ قذافی صاحب نے ایک کے بعد دوسرے قصبے اور شہر کو فتح کرنا شروع کردیا اور بالآخر بن غازی کا محاصرہ شروع کردیا۔ سب تجزیہ نگار اور لیبیا کے شہری جانتے تھے کہ اگر قذافی ملیشیا بن غازی میں داخل ہوگئی تو ۱۰لاکھ کی آبادی والے اس شہر میں ناقابلِ بیان قتل عام ہوگا۔
عالم عرب اور عالم اسلام نے اس ساری پیش رفت کو دم سادھے دیکھا اور چند بیانات پر اکتفا کیا۔ امریکا کی قیادت میں مغربی ممالک نے موقعے کو غنیمت جانتے ہوئے تیل کے سمندر پر تیرنے والے ایک اہم مسلمان ملک پر اپنا تسلط جمانے کے لیے پہلے ہی دن سے کارروائیوں کا آغاز کردیا۔ پہلے تو مغربی ممالک میں قذافی اور اس کے خاندان کے اربوں ڈالر کے کھاتے منجمد کرتے ہوئے بیرون ملک اس کی ساری دولت پر قبضہ کرنا شروع کردیا۔ صرف امریکا میں ۳۰؍ارب ڈالر منجمد کردیے گئے۔ قذافی صاحب نے اپنی دولت کئی ممالک میں تقسیم کررکھی ہے۔ ان میں سے اکثر ممالک نے ان کے اکاؤنٹ منجمد کردیے گئے اور تو اور تیونس نے بھی اپنے ہاں رکھے گئے اثاثے منجمد کردیے۔ قذافی نے قتل عام شروع کیا تو مغربی ممالک نے اسے جنگی مجرم قرار دینے کی بات کرتے ہوئے ملک سے باہر کہیں جانے کے راستے مسدود کردیے (ویسے قذافی صاحب سے اس کی توقع بھی کم تھی)، اور پھر اقوام متحدہ کے ذریعے لیبیا کو نو فلائی زون قرار دے دیا۔ ساتھ ہی بحر متوسط میں اپنے طیارہ بردار بحری بیڑے لاکھڑے کیے۔ اگر اس موقع پر بھی صدر قذافی ۴۲سالہ شخصی اقتدار پر اکتفا کرتے ہوئے اقتدار اپنے عوام کے سپرد کردیتا، تو لیبیا کے گرد بنایا جانے والا یہ سارا جال، تار تار کیا جاسکتا تھا لیکن ع اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔
امریکا اور مغربی ممالک کویت پر عراقی صدر صدام حسین کے قبضے کی طرح، معمر قذافی کی خوں ریزی سے بھی ہمہ پہلو فوائد سمیٹنا چاہتے ہیں۔ لیبیا اور اس کے تیل پر قبضہ ان کی اولین ترجیح ہے۔ بدقسمتی سے وہ اپنا یہ ہدف لیبین عوام کے نجات دہندہ بن کر حاصل کررہے ہیں۔ کرنل قذافی اگر اپنی قوم کے لیے عذاب کی صورت اختیار کرگیا تھا تو اس سے نجات دلانے کے لیے اصل ٹارگٹ بھی اس کی ذات ہونا چاہیے تھی، دوسر ے نمبر پر اس کی جنگی مشینری ہوسکتی تھی لیکن صدر اوباما، اس کے جرنیلوں اور یورپی سربراہوں سمیت، سب دہرا چکے ہیں کہ صدر قذافی ہمارا ہدف نہیں ہے، ہم صرف اس کے جنگی جہازوں کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف قذافی ملیشیا تادم تحریر مختلف شہروں کا گھیرائو کرکے اس پر بم باری کررہی ہے۔ گویا قذافی کا رہا سہا اقتدار اور عوام پر اس کے حملوں کا فی الحال جاری رہنا، لیبیا پر مغربی ممالک کے تسلط کو باقی رکھنے کے لیے ناگزیر اور ضروری ہے۔ امریکی اور ناٹو افواج یہ نہیں چاہیں گی کہ دارالحکومت طرابلس سمیت پورے ملک میں امن قائم ہوجائے اور ایک جمہوری نظام کے مطابق وہاں کے شہری اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کے قابل ہوجائیں کیونکہ ایسا ہونے کا مطلب ہے لیبیا کا ان کے شکنجے سے آزاد ہوجانا۔
۸۰ کی دہائی سے صدام حسین اور اس کے تباہ کن ہتھیاروں کا بھوت دکھا دکھا کر امریکا نے کردستان پر نوفلائی زون قائم کیا تھا اور آج عراق کے اندر رہتے ہوئے بھی کردستان عملاً ایک الگ ریاست ہے۔ اس کا صدر، پرچم اور کرنسی تک الگ ہوچکی ہے اور کوئی دن جاتا ہے کہ اسے عراق کے رسمی نقشے سے بھی باہر کردیا جائے۔ اسی طرح لیبیا میں بھی امریکی اور یورپی ملکوں کی پوری کوشش ہوگی کہ لیبیا کو مشرقی اور مغربی لیبیا کی دو ریاستوں میں تقسیم کردیا جائے۔ فرانس نے قذافی کے اقتدار سے آزاد ہوجانے والے شہر بن غازی اور دیگر مشرقی شہروں میں قائم انقلابی نسل کا اقتدار، باقاعدہ تسلیم کرکے اس تقسیم کی جانب عملی قدم اٹھا دیا ہے۔
قذافی کے تشدد اور بیرونی افواج کی مداخلت کے ذریعے عالم عرب میں عوامی انقلابی تحریکوں کو بھی ایک سخت پیغام دیا گیا ہے۔ لیبیا کی اس صورت حال سے ایک بار تو سب عوامی تحریکوں کے سامنے یہ سوالیہ نشان آن کھڑا ہوا کہ کہیں ان پر بھی تو لیبیا جیسی آزمایش نہیں آجائے گی۔ خود عرب حکمرانوں کو بھی محسوس ہونے لگا کہ ہمیشہ کی طرح شاید اس بار بھی آہنی ہاتھ ہی اقتدار بچانے کا مؤثر ترین ہتھیا ر ہوگا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عرب عوام لیبیا کی صورت حال سے اپنی جدوجہد کے لیے مزید توانائی حاصل کررہے ہیں۔ وہ قربانیوں کے لیے پہلے سے زیادہ تیار ہوکر میدان میں آرہے ہیں۔ مصر میں عوامی احتجاج شروع ہوا تھا تو حسنی مبارک اور حواریوں نے کہا تھا: مصر کوئی تیونس نہیں ہے کہ یہاں بھی تبدیلی آجائے اور پھر حسنی مبارک چلا گیا۔ لیبیا میں تحریک کا آغاز ہوا تو قذافی اور اس کے بیٹوں نے کہا تھا: احنا مش تونس و مصر، ’’ہم تیونس اور مصر نہیں ہیں‘‘۔ آج جب دیگر عرب ملکوں میں عوامی تحریکیں شروع ہورہی ہیں تو اب عوام اپنے حکمرانوں کو کہہ رہے ہیں کہ ’’ہم لیبیا نہیں ہیں کہ ہم پر جنگ مسلط کردو‘‘ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خود لیبیا میں بھی حکمران نے ہزاروں بے گناہوں کا خون بھی اپنی گردن پر لے لیا، ملک بھی تباہ کردیا، ملک کا مستقبل بھی عوام کے بجاے استعماری قوتوں کے ہاتھ گروی رکھ دیا اور بالآخر کلی اقتدار سے یقینا ہاتھ دھونا پڑیں گے۔
لیبیا کی اس اندوہناک صورت حال کا ایک تاریک پہلو یہ بھی ہے کہ عالم اسلام میں امریکا کے خلاف شدید جذبات پائے جانے کے باوجود عوام ’’سامنے آگ اور پیچھے کھائی‘‘ کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ امریکی حملوں کی مخالفت کو قذافی اپنے لیے قتل کے اجازت نامے کے طور پر استعمال کررہا ہے ،اور قذافی کے قتل عام کے خلاف احتجاج کو امریکی اپنے لیے ایک کارڈ کی حیثیت کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اس صورت میں بہتر موقف وہی ہے جو الاخوان المسلمون نے اختیار کیا ہے۔ انھوں نے قذافی کے قتل عام اور امریکی حملوں کی یکساں اور شدید مذمت کی ہے، اور لیبیا کی عوامی تحریک کی بھرپور اور مکمل تائید و حمایت کی ہے۔ اس وقت بھی اخوان کی امدادی تنظیمیں لیبیا کے مختلف شہروں میں زخمی عوام کا علاج اور بھوک کے شکار لوگوں کو غذا فراہم کررہی ہیں۔ مصر سے آنے والے صحافی بتاتے ہیں کہ قذافی انتظامیہ کی اکثریت عوام کے ساتھ مل جانے کے بعد مصر اور لیبیا کی سرحدیں کھل گئی ہیں، شہری بلا روک ٹوک ایک دوسرے سے یوں مل رہے ہیں، جیسے دو بچھڑے بھائی آن ملے ہوں۔ ایک ہی قوم کو حسنی اور قذافی جیسے حکمرانوں نے تقسیم کر رکھا تھا۔
یمن گہری قبائلی تقسیم رکھتا ہے۔ ہر قبیلہ اپنی روایات، اپنا اسلحہ اور اپنے مردان کار رکھتا ہے۔ خوب صورت کمر بند کے ساتھ چوڑے پھل کا خمدار خنجر یمن کے قومی لباس کا لازمی جزو ہے۔ یمنی صدر کو اس کے عوام ’لومڑ کی طرح عیار‘ کا لقب دیتے ہیں۔ وہ سب سے زیادہ جانتا ہے کہ طاقت سے یمنی عوامی تحریک کو کچلنا ممکن نہیں ہے۔ اب وہ اس حقیقت سے بھی یقینا آگاہ ہوچکا ہوگا کہ کئی مہینوں سے ملک کی سڑکوں پر دن رات گزارنے والے لاکھوں عوام، اس کا اقتدار کسی صورت مزید برداشت نہیں کریں گے، لیکن جسے اقتدار کا نشہ لگ جائے اس کے لیے اسے چھوڑنا، جان کنی کا عالم بن جاتا ہے۔ ریشے ریشے سے کھنچ کھنچ کر روح اقتدار رخصت ہورہی ہوتی ہے، لیکن کسی معجزے کا منتظر مریضِ اقتدار، دیدے پھاڑے کبھی اپنی کرسی اور کبھی اپنے انجام کو دیکھتا اور مزید تڑپنا شروع کردیتا ہے۔ اب یمن کے بڑے بڑے قبائل صدر علی عبد اللہ صالح کا ساتھ چھوڑنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ وزرا، سفرا، کئی فوجی جرنیل، قریبی دوست، سب میدان میں جمع مظاہرین میں شامل ہوگئے ہیں۔ اس کا چہیتا داماد بھی عوام سے آن ملا ہے۔ مصری تجربے کی پیروی کرتے ہوئے، یمنی عوام بھی ہر جمعے تمام دنوں کی نسبت زیادہ بڑی تعداد میں سڑکوں پر ہوتے ہیں۔ جمعہ ۲۵ مارچ کو یوم الرحیل (یومِ رخصت) منایا۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس روز ۳۰ سے ۴۰ لاکھ لوگ مختلف شہروں کی سڑکوں پر ہوتے ہیں، لیکن جان کنی کا شکار صدر ابھی سیر نہیں ہوا۔ وہ بھی ملک بھر سے اپنے چندہزار حامیوں کو اکٹھا کرتے ہوئے اسے اپنے حق میں عوامی ریفرنڈم قرار یتا ہے لیکن اب سب کو یقین ہے کہ دل کا جانا ٹھیر گیا ہے۔
یمن میں کسی حد تک جمہوریت پہلے سے موجود ہے۔ چند اپوزیشن جماعتیں بھی موجود ہیں۔ التجمع الیمنی للاصلاح کے نام سے اسلامی تحریک بھی ہمیشہ ۵۰ سے ۶۰ کے درمیان ارکان اسمبلی رکھتی ہے، لیکن حکمران پارٹی کی تقریباً دو تہائی اکثریت متاثر نہیں ہوئی ہے۔ آج یمن کی سڑکوں پر جمع عوام، اس ابدی اکثریت کا پردہ چاک کررہے ہیں۔ صدر علی بھی حسنی مبارک کی طرح صاحب زادے کو اقتدار منتقل کرنا چاہتا تھا، اب انجام بھی یکساں ہونے کو ہے۔
بشار انتظامیہ نے اس کا ادراک کرتے ہوئے، ملک میں فوری طور پر بنیادی اصلاحات کا اعلان کیا۔ ان اصلاحات کے جائزے ہی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس وقت ملک میں کیسا نظام رائج ہے۔ بشار الاسد کی خصوصی مشیر بُثَینَہ شعبان نے پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ ملک میں متعدد سیاسی اور معاشرتی اصلاحات کی منظوری دی گئی ہے۔ ان میں ملک سے ایمرجنسی کے فوری خاتمے، شہریوں کو پرامن زندگی کے یکساں مواقع دینے، ملک میں سیاسی پارٹیوں کی تشکیل کے قانون، ذرائع ابلاغ کو مزید آزادیاں دینے اور تنخواہوں میں اضافے جیسی ’اصلاحات‘ شامل ہیں۔ صحافی نے سوال کیا کہ ان پر عمل درآمد کب سے شروع ہوگا؟ بثینہ نے کہا: آج سے اور فوری طور پر۔ ذرا ان سابق الذکر اصلاحات پر ایک نگاہ دوڑائیے۔ ان میں سے کون سی ایسی انوکھی چیز ہے جسے حکومت کا کوئی بڑا کارنامہ سمجھا جائے؟ تاہم شام کے تناظر میں یہ بھی بہت نمایاں اصلاحات ہیں، اور یہ بھی اس وقت کی جارہی ہیں جب عوامی تلوار حکومت کی گردن سے آن لگی۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ اب بھی اس اعلان پر عمل کتنا ہوتا ہے؟
ایک وقت تھا کہ شام کے بہت سارے دوست حکومت اور اپوزیشن بالخصوص حکومت اور اخوان کے مابین گفت و شنید کے لیے جوتیاں چٹخاتے رہے۔ اس وقت مطالبات صرف یہ تھے کہ طویل عرصے سے گرفتار لوگوں سمیت تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کردیا جائے۔ ملک میں سیاسی آزادیاں دی جائیں اور حکومت اور عوام باہم اعتماد کی بنیاد پر ملک و قوم کی خدمت کریں۔ شامی حکومت کا جواب ہوتا تھا: ’’یہ وہ سرخ لکیر ہے جسے ہم عبور نہیں کرسکتے‘‘۔ شام کی عوامی تحریک کو ابھی کئی مشکل مراحل کا سامنا کرنا پڑے گا، لیکن تبدیل شدہ عرب دنیا میں اب اس کا کوئی امکان نہیں ہے کہ بشار حکومت اپنی متکبرانہ ڈکٹیٹر شپ اسی طرح جاری رکھ سکے۔ تمام ظالم حکمرانوں کو معلوم ہے کہ آج کی دنیا میں عوام پر ظلم ڈھانا اور انھیں بنیادی حقوق سے محروم رکھنا خود اپنے ہی ہاتھوں اپنی قبر کھودنے کے مترادف ہے۔
گروہی ، مذہبی، علاقائی یا لسانی تعصبات، دین اسلام کی حقیقی روح اور بنیادی تعلیمات سے متصادم ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کو سب سے زیادہ نقصان اسی شیطانی ہتھکنڈے سے پہنچایا گیا ہے۔ آج سے کئی سال پہلے ’مشرق وسطی کے نئے نقشے‘ میں امریکی استعمار نے فارسی شیعہ ملک ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے بحرین، سعودی عرب کے مشرقی علاقوں اور عراق کے ایک علاقے پر مشتمل، ایک عرب شیعہ ریاست تشکیل دینے کا ابلیسی خواب دیکھا تھا۔ حالیہ عرب عوامی تحریکات اس پورے ابلیسی نقشے کو ناکام بنانے کا سب سے سنہری موقع ہیں۔ اگر اس اہم موقعے کو بھی تنگ نظری پر مشتمل تعصبات کی نذر کردیا گیا، تو یہ ایک بڑے خسارے کی بات ہوگی۔ بحرین کے حالیہ واقعات میں تمام پڑوسی ممالک بالخصوص پاکستان، ایران اور سعودی عرب کو تمام تر تعصبات سے بالاتر رہنا ہوگا۔
حالیہ دستوری ترامیم میں پورا دستور معطل کرنے کے بجاے چند بنیادی اصلاحات منظور کی گئی ہیں۔ تا عمر عہدۂ صدارت پر براجمان رہنے کی راہ بند کرتے ہوئے، زیادہ سے زیادہ دو صدارتی مدتوں کی پابندی عائد کی گئی ہے۔ اب آیندہ نومبر میں پارلیمانی انتخابات ہوں گے۔ منتخب پارلیمنٹ (سینٹ اور اسمبلی) ۱۰۰ رکنی تاسیسی دستوری کمیٹی منتخب کرے گی جو ملک کے لیے جامع دستور تشکیل دے گی۔ ملکی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ دستور کا مسودہ کوئی منتخب کمیٹی تیار کرے گی۔ انتخابات کے بعد چھے ماہ کے اندر اندر نیا دستوری مسودہ تیار ہوگا، پھر ۱۵روز کے اندر اس پر ریفرنڈم کرواتے ہوئے ایک متوازن اور شورائیت پر مبنی نظامِ حکومت تشکیل دیا جائے گا۔
الاخوان المسلمون نے اس ریفرنڈم میں بھرپور حصہ لیا ہے اور اب ایک اور اہم ترین پیش رفت کرتے ہوئے تمام سیاسی پارٹیوں کو بلاکر ایک مشترکہ انتخابی پروگرام پیش کیا ہے جس کے تقریباً تمام نکات متفق علیہ منشور کی حیثیت اختیار کرسکتے ہیں۔ دنیا کے اکثر تجزیہ نگار متفق ہیں کہ اخوان چاہے تو پارلیمنٹ میں بآسانی اکثریت حاصل کرسکتی ہے لیکن اخوان نے دعوت دی ہے کہ اگر سب پارٹیاں اتفاق کریں تو ہم پورے ملک میں مشترک انتخابی پینل تشکیل دے سکتے ہیں۔ باہم لڑنے اور مقابلہ کرنے کے بجاے قومی مفاہمت سے انتخابات میں حصہ لیا جائے۔ اخوان کا نمایاں ترین نعرہ ہے: المشارکۃ لا المغالبۃ، ’’غلبہ نہیں شرکت‘‘۔ مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر پریس کانفرنس میں اعلان کیا ہے کہ ہم تمام نشستوں پر اُمیدوار کھڑے نہیں کریں گے اور تمام پارٹیوں کے ساتھ مل کر متفق علیہ قومی ایجنڈے کی آبیاری کریں گے۔ اخوان کے اس بڑے پن کا خوش گوار اثر مرتب ہوا ہے اور کئی جماعتوں نے اس پیش کش کا مثبت جواب دیا ہے۔ تقریباً یہی نقشۂ کار تیونس میں تحریک نہضت اسلامی کے سربراہ شیخ راشد الغنوشی نے پیش کیا ہے۔ جس سے مصر اور تیونس میں معاشرے کو دینی جماعتوں کے اقتدار سے خوف زدہ کرنے کا پروپیگنڈا دم توڑ گیا ہے۔
عالمِ عرب میں رُوپذیر یہ سب تبدیلیاں اتنی دُور رس، اچانک اور ہمہ گیر ہیں کہ ان کے بارے میں اکثر لوگوں کو مختلف شکوک و شبہات نے آن گھیرا ہے۔ واقعات کی حدت اس تیزی سے ایک کے بعد دوسرے ملک میں پہنچ رہی ہے کہ مسلسل چرکے سہنے والے اب اس فکرمندی کا شکار ہورہے ہیں کہ کہیں یہ سب کیا دھرا امریکا یا بیرونی طاقتوں ہی کا تو نہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسی طرح کی تشویش خود امریکی مغربی اور اسرائیلی مراکز میں بھی اسی شدت سے پائی جاتی ہے۔ سب سوچ بچار کر رہے ہیں کہ ہمارے تھنک ٹینک اور جاسوسی ادارے ان تبدیلیوں کا ادراک پہلے کیوں نہیں کرسکے۔ حماس کے ایک اعلیٰ ترین ذمہ دار کہہ رہے تھے کہ: تبدیلیاں یقینا ساری دنیا کے لیے اچنبھا خیز تھیں، لیکن ہم میں اور ان میں فرق یہ ہے کہ انھوں نے ہر ممکنہ تبدیلی کی روشنی میں متبادل حکمت عملی تیار کر رکھی ہے۔ اسرائیل نے اس مفروضے کو سامنے رکھتے ہوئے کہ اگر ہمارے نہ چاہنے کے باوجود بھی مصر میں اسرائیل دشمن حکومت آگئی تو متبادل پالیسی کیا ہوگی؟ کا جواب تیار کررکھا ہے۔ امریکا، مغربی ممالک اور صہیونی ریاست اب اسی تبدیل شدہ صورت حال سے اپنے مفاد حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ وہ ہرلمحے یہ سعی کریں گے کہ جہاں جہاں تبدیلی آرہی ہے وہاں اپنے خدمت گزار افراد اور من پسند نظام لاسکیں لیکن قربانیاں دینے والی عوام کی اکثریت مطمئن ہے کہ جس طرح تبدیلیوں کا آغاز مغرب کے نہ چاہنے کے باوجود اور اچانک ہوا ہے، اسی طرح ان تبدیلیوں کی تکمیل بھی ان کے لیے باعثِ راحت نہیں ہوگی۔ البتہ وہ اس میں سے کسی نہ کسی حد تک اپنا حصہ ضرور حاصل کرلیں گے۔ میدانِ عمل میں موجود کارکنان کو یقین ہے کہ اگر وثوق و رسوخ اور ہمہ گیر جدوجہد کے ساتھ تبدیل شدہ صورت حال میں عرب عوام آگے بڑھتے گئے تو عرب دنیا میں یقینا ایک نیا اسٹیج ترتیب پائے گا۔ امریکا کے غلام، جابر فرعونوں اور بے تحاشا ملکی وسائل کو شیرِ مادر کی طرح ڈکار جانے والے کرپٹ حکمرانوں سے آزاد عرب ممالک اور خوفِ خدا سے سرشار اسلامی تحریکیں، اس نئی دنیا میں خدمت و اصلاح کی نئی تاریخ رقم کریں گی۔ وَلَیْسَ ذٰلِک عَلَی اللّٰہِ بِعْزِیْز، ’’اللہ کے لیے یہ کام یقینا کوئی مشکل نہیں‘‘۔