عصرِحاضر کی مسلم ’دانش وری‘ کا دعویٰ یہ ہے کہ قرآن کریم سے گہرے اور غیرمعمولی تعلق کا اظہار کیا جائے، مگر عملاً اس کے معانی و مطالب میں خوب کھینچ تان کی جائے اور دُور کی کوڑیاں لائی جائیں۔ حدیث کے معتبر و مستند ذخیروں کی طرف رجوع کیے بغیر انھیں اوہام پر مبنی، ناقابلِ اعتبار اور سائنسی و عقلی اعتبار سے ناقابلِ قبول بلکہ لائق رد قرار دیا جائے۔ عربی زبان کی معمولی شُدبد کے ذریعے قرآنی الفاظ پر دقیق لغوی بحث کی جائے اور اپنے اخذکردہ معانی پر اصرار کیا جائے۔ اپنے اختصاص کے میدان کو دین و شریعت کی روح اور اصل قرار دے کر پورے دین کو اس کے گرد گھمایا جائے۔ ایسی ہی دانش وری کا ایک نمونہ وہ کتاب ہے جو ابھی حال ہی میں قرآن میں آبی وسائل اور انجینیری کے نام سے آئی ہے۔ اس کے مصنف جناب ڈاکٹر سید وقار احمد حسینی ہیں، جنھوں نے آبی وسائل کی انجینیرنگ میں امریکا سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
گذشتہ صدی کے ربع آخر میں عالمی سطح پر بعض مسلم دانش وروں نے جدید علوم کی اسلامی تشکیل (Islamization of Knowledge) کا نعرہ بلند کیا تھا۔ ان حضرات کی علمی و فکری کاوشیں اگر اپنی صحیح حدود میں رہتیں تو ان کی کوششیں قابلِ قدر، موجب ِ تشکر اور باعث فخر ہوتیں، لیکن محسوس ہوتا ہے کہ اچھے آغاز کے بعد رفتہ رفتہ ان میں غلو دَر آیا۔ جھنجھلاہٹ میں مبالغہ آمیزی کی جانے لگی، قرآنی آیات سے بہ تکلف جدید علوم کے اصول و قواعد، بلکہ جزئیات تک اخذ کی جانے لگیں اور اسے ’قرآن کے سائنسی اعجاز‘ کا نام دیا گیا۔
قرآن حکیم کتابِ ہدایت ہے۔ اس میں اسلام کے بنیادی عقائد، بالخصوص توحید اور آخرت پر استدلال کے لیے مظاہر کائنات، مثلاً آسمان، زمین، سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، سمندر، صحرا، دریا، کشتی، پانی، بادل، برق و باراں، ہوا، آندھی، طوفان، پھول، پھل، پودے، درخت، باغ، کھیتی، غلہ، دھوپ، سایہ، تاریکی، روشنی وغیرہ کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ وجہ استدلال کو اتنا عام رکھا گیا ہے کہ ہرذہنی سطح کا شخص بہ آسانی اسے سمجھ سکتا ہے۔ یہ کوئی سائنس کی کتاب تو نہیں ہے کہ اس سے جدید علوم کی کلیات و جزئیات اخذ کی جائیں، لیکن ’علوم کو اسلامیانے‘ کے علَم برداروں نے شعوری یا غیرشعوری طور پر قرآن کو سائنس کی درسی کتاب بنا دیا ہے۔ مولانا مودودیؒ نے سورئہ یوسف کی آخری آیت میں تَفْصِیْلَ کُلَّ شَیٔیٍ کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’بعض لوگ ’ہرچیز کی تفصیل‘ سے مراد خواہ مخواہ دنیا بھر کی چیزوں کی تفصیل لے لیتے ہیں اور پھر ان کو یہ پریشانی پیش آتی ہے کہ قرآن پاک میں جنگلات، طب، ریاضی، اور دوسرے علوم و فنون سے متعلق کوئی تفصیل نہیں ملتی‘‘ (تفہیم القرآن، ج۲، ص ۴۳۸)۔ اب ’علوم کو اسلامیانے‘ کے علَم برداروں نے یہ پریشانی بھی دُور کر دی ہے اور تمام طبیعیاتی علوم کی تفصیلات قرآن کریم سے اخذ کرلی ہیں۔
جناب مصنف کا شمار بھی ’علوم کواسلامیانے‘ کی فکر پیش کرنے والوں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنے ڈھنگ سے تعلیم، آبی وسائل کی انجینیرنگ، آبی قوانین، ماحولیات، معاشیات، معاشی انجینیرنگ اور فلسفہ تاریخ و سائنس جیسے علوم کو ’اسلامیانے‘ کی کوشش کی ہے۔ آبی وسائل کے علوم کو انھوں نے کس طرح ’اسلامایا‘ ہے اور اس کے لیے انھیں کتنی دُور کی کوڑی لانی پڑی ہے، اس کے نمونے زیرمطالعہ کتاب میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔
مصنف موصوف کے نزدیک آبی وسائل کا علم اور انجینیرنگ ’قرآن کا سب سے اہم موضوع‘ ہے۔ یہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر ’فرض‘ ہے۔ اس کا شمار ’اعمالِ صالحہ‘ میں ہوتا ہے۔ اس سے پہلوتہی ’کفر‘ ہے۔ حقیقت میں یہی ’فقہ‘ ہے اور اس میدان میں عقل پر مبنی جدید فکر اور سوچ ہی ’اجتہاد‘ ہے، وغیرہ وغیرہ۔ لکھتے ہیں: ’’اسلامی علوم اور ٹکنالوجی اپنے علوم کے لحاظ سے اور تخصیصی طور پر آبی وسائل اور دیگر علوم سے بحث کرنے والے اور اس کے دیگر شعبہ جات قرآن کے سب سے اہم امور ہیں‘‘ (ص ۵۷)۔ ’’علوم آبی وسائل اور انجینیرنگ فی الاصل قرآنی، اسلامی، مذہبی، اور الہامی علوم ہیں۔ اسلامی اخلاقیات اور قانون کی اصطلاح میں بحیثیت معلوماتِ عامہ اس علم کا حصول ’فرضِ عین‘ یعنی ہرشخص کی اپنی ذمے داری ہے، جب کہ ان علوم میں تخصص حاصل کرنا ’فرضِ کفایہ‘ ہے‘‘ (ص ۵۰)۔ ’’آبی وسائل کے علوم کو سیکھنا اور ان کو عملی جامہ پہنانا ’اعمالِ صالحہ‘ کی تعریف میں آتا ہے، جن پر اللہ تعالیٰ نے اس دنیا اور آخرت میں اپنے انعامات کا وعدہ کیا ہے‘‘ (ص ۶۳)۔ ’’پانی یا اس جیسے دیگر قدرتی وسائل کے فروغ کے ذریعے زندگی کے لیے معاون نظام فراہم کرنا ’جہاد‘ ہے‘‘ (ص ۸۶)۔ ’’آبی وسائل و ذرائع کی بدانتظامی اور غلط استعمال ’کفر‘ ہے‘‘ (ص ۱۹۳)۔ ’’پانی میں شامل نقصان دہ عناصر کی تحقیق کے لیے آبی وسائل کے اسلامی سائنس اور آبی سائنس کے خدائی قانون کا خصوصی علم ’فقہ‘ ہے‘‘(ص ۱۹۹)۔وہ اعداد و شمار سے بھی کام لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’علوم آبی وسائل سے متعلق قرآن میں ۹۴۱ آیات وارد ہوئی ہیں، جب کہ نماز کا ذکر ۸۱بار، زکوٰۃ ۳۲ بار، حج کا ۸بار اور روزے کاچھے بار ہوا ہے‘‘۔ (ص ۵۹)
یہ اعداد و شمار صحیح نہیں ہیں۔ قرآنی انڈیکس پر سرسری نظر ڈالنے سے ان کی غلطی واضح ہوجاتی ہے۔ پھر آبی وسائل سے متعلق قرآنی آیات کی کثرت کی حقیقت یہ ہے کہ، مثلاً قرآن میں زمین (الارض) اور آسمان (السمائ/السماوات) کے الفاظ ۵۶۰ آیتوں میں آئے ہیں۔ فنی طور سے یہ آیات علوم آبی وسائل سے کیوں کر متعلق ہوسکتی ہیں؟ اس طرح تو دنیا کے ہرعلم اور اس کی ہرشاخ سے ان کو مربوط کیا جاسکتا ہے۔ یہ آیات اصلاً اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی وحدانیت کے اثبات کے لیے آئی ہیں۔ فی الحقیقت ان کا آبی وسائل کے استعمال کی کسی بحث سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
مصنف نے بزعم خود ’آبی وسائل کے علم اور انجینیری‘ سے متعلق قرآنی آیات کے اقتباسات نقل کر کے ان کی تشریح کی ہے۔ ان میں سے بہت سی آیات عمومی توجہ دلاتی ہیں، لیکن مصنف نے انھیں بھی خوب کھینچ تان کر علوم آبی وسائل سے متعلق کر دیا ہے۔ مثلاً سورئہ فاتحہ کی پہلی ہی آیت اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ کی یہ تشریح کی ہے: ’’تمام عالموں کا پرورش کرنے والا، آبی طبیعیات ارضی کے جہانوں کی تمام قوتوں اور مظاہر کا حاکم، منتظم، پالنے والا اور تکمیل کرنے والا‘‘ (ص ۱۰۳) lسورئہ بقرہ کی آیت ۱۰۷: ’’آسمانوں اور زمین کی فرماں روائی اللہ ہی کے لیے ہے‘‘ سے یہ اخذ کیا ہے: ’’پانی اور اس سے متعلقہ زمینی وسائل اور فضائی مظاہر کا اللہ تعالیٰ تنہا مالک اور مختارِکل ہے‘‘ (ص ۱۵۸)l سورئہ بقرہ کی آیت ۲۰۸: ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً، نقل کرکے اس کی یہ تشریح کی ہے: ’’اس کا مطلب طبیعیات و کیمیا، معاشیات و نفسیات اور دیگر اشیا کو خدا نے جس طریقے پر بنایا، واضح کیا اور حکم دیا ہے اس کو اسی طرح سمجھنا اور اس کا عملی اطلاق کرنا ہے‘‘ (ص۸۳) l’’اسلام کی مکمل اتباع اور اس میں پورے کے پورے داخل ہوجانے میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ پانی اور اس سے متعلقہ دیگر قدرتی وسائل اور ذرائع کو ترقی دی جائے اور اس کا بہتر استعمال کیا جائے‘‘۔ (ص ۱۷۱)
کئی مقامات پر مشہور نومسلم دانش ور علامہ محمد اسد کے ترجمۂ قرآن The Message of The Quranکی تعریف و تحسین کی گئی ہے، اور اس سے استفادے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ اس ترجمۂ قرآن کی جس خاص بات کی طرف مصنف نے بھی اشارہ کیا ہے، یہ ہے کہ اس میں آیات کی جدید سائنسی تشریح کی گئی ہے (ص ۳۷، ۹۲) آیات کو سائنسی اصولوں کے تابع بنانے اور انھیں نام نہاد عقلی چوکھٹوں میں فٹ کرنے کے معاملے میں خود مصنف، محمداسد کے ہم فکر ہیں۔
مثال کے طور پر فرعون کی غرقابی اور بنی اسرائیل کی نجات کا تذکرہ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر آیا ہے۔ مصنف نے سورئہ بقرہ (۴۷، ۵۰) اور سورئہ طٰہٰ (۷۷-۷۹) کی آیات کی تشریح میں لکھا ہے: ’’بنی اسرائیل بے خوف ہوکر دریا کو پار کرگئے۔ ان کی اس بے خوفی کی وجہ وہ یقینی معلومات تھیں جو انھیں ایک متعینہ مقام پر مدوجزر کی کیفیات سے متعلق حاصل تھیں۔ موسیٰ علیہ السلام اور ان کے پیروان ’صحیح سائنسی معلومات‘ کا اطلاق کر رہے تھے، جو یا تو ان کے تجربے اور مشاہدے سے انھیں حاصل ہوئی تھیں یا پھر یہ معلومات انھیں کسی اور ذریعے سے فراہم کی گئی تھیں‘‘ (ص ۱۱۶-۱۱۷)۔ جوار بھاٹے والی توجیہ تو اور متجددین بھی کرتے ہیں، البتہ مصنف ان سے بھی دوقدم آگے ہیں۔ وہ یہ عقلی توجیہ کرنے کے ساتھ مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہیں: ’’اللہ اور اسلام پر ایقان رکھنے والے مسلمانوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ سمندری جوار بھاٹے (مدوجزر) کی ان گھٹتی بڑھتی کیفیات سے متعلق علم حاصل کریں، تاکہ اس کے فوائد حاصل کرسکیں اور ان سے ہونے والے نقصانات سے بچا جاسکے، جیساکہ اس قصے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے‘‘۔ (ص ۱۱۶)
تاہم، مشکل یہ ہے کہ قرآنی الفاظ ان کی اس توجیہ کا ساتھ نہیں دیتے۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل مدوجزر کی یقینی معلومات کے سبب بے خوف نہیں تھے، بلکہ انھیں تو آخر تک لشکرِ فرعون کے ذریعے اپنی گرفتاری کا اندیشہ ستا رہا تھا، چنانچہ انھوں نے اپنے پیچھے لشکر کو آتے دیکھا تو گھبرا کر پکار اُٹھے: ’’ہم تو پکڑے گئے‘‘ (الشعر۲۶:۶۱)۔ اس موقعے پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی ؑ کو وحی کی کہ سمندر پر اپنا عصا مارو، اس سے سمندر پھٹ گیا اور درمیان میں خشک راستہ نکل آیا: ’’ان کے لیے سمندر میں سے سوکھی سڑک بنا لے‘‘ (طٰہٰ ۲۰:۷۷) لیکن مصنف اس موقع پر بھی آیت کے ساتھ زورآزمائی سے نہیں چوکتے۔ وہ اس کی تشریح ان الفاظ میں کرتے ہیں: ’’حضرت موسٰی ؑ کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا کہ بحراحمر کو پار کرنے کے لیے وقت اور مقام کا انتخاب (اضرب، ضرب لگائو) کریں اور اس کو پار کرنے کے لیے طریقہ (طریقاً) اختیار کریں (ص۱۱۶)۔ افسوس کہ قرآن کے الفاظ اور اس کا پورا اندازِ بیان اس درفطنی کی تائید نہیں کرتا۔
کتاب کے مترجم نے آیاتِ قرآنی کا ترجمہ بلاصراحت مولانا مودودیؒ کی تفہیم القرآن سے لیا ہے۔ اس بنا پر کئی مقامات پر تضاد کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ مصنف کچھ کہنا چاہتے ہیں اور مولانا مودودیؒ کے ترجمے سے کچھ اور مفہوم نکلتا ہے، مثلاً سورئہ بقرہ (۱۶۴) میں اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِکو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں شمار کیا گیا ہے۔ مولانا مودودیؒ نے اس کا ترجمہ ’رات اور دن کا پیہم ایک دوسرے کے بعد آنا‘ کیا ہے، جب کہ مصنف ’اختلاف‘ سے عدم اتفاق، ناموافقت، حالت، کیفیت یا مرتبہ میں فرق، غیریکساں، مختلف، ناموزوں، بے جوڑ یا غیرمتفق ہونا‘ مراد لیتے ہیں اور رات اور دن کے درمیان اختلاف کو ’سائنسی حقیقت‘ قرار دیتے ہیں (ص۱۱۲-۱۱۳)۔ لِاِِیْلٰفِ قُرَیْشٍ کا ترجمہ مولانا مودودیؒ نے یہ کیا ہے: ’’چونکہ قریش مانوس ہوئے‘‘، جب کہ مصنف ایلاف کے معنی: ’اقرارنامہ، ضمانت اور امان‘ بتاتے ہیں۔ (ص ۲۰۰)
عصری دانش وری کے اظہار کے لیے ضروری ہے کہ دین کے دوسرے بنیادی ماخذ ’سنت‘ پر ہاتھ صاف کیا جائے، چنانچہ اس معاملے میں بھی مصنف نے بڑی بے باکی سے اپنے خیالات کا اظہار ان لفظوں میں کیا ہے: ’’آج سنت سے متعلق وہی کتابیں باقی بچی ہیں جو صرف مشہور و معروف ہیں اور جو نماز کے طریقوں، اسلام کے دیگر ستونوں اور عبادتی رسوم و رواج سے متعلق روایات پر مبنی ہیں۔ ان میں خدا اور رسولؐ سے منسوب وہ غلط روایات بھی شامل ہیں جو غلامی، بلانکاح باندیوں سے تعلقات اور عموماً عورتوں سے متعلق ہیں‘‘ (ص ۶۷)۔ ’’سنت کی جو سب سے مشہور اور زیراستعمال کتب ہیں وہ ’صحاح ستہ‘ ہیں۔ ان میں بہت سی ایسی روایات اور احادیث بھی وارد ہوئی ہیں جو قرآن، عقل اور طبعی علوم (فطرت کائنات میں اللہ تعالیٰ کی آیات اور خدا کی سنت) سے ٹکراتی ہیں، اس لیے انھیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کرنا نہایت غلط اور اہانت آمیز ہے۔ مثال کے طور پر بخاری اور دیگر کتب احادیث میں بعض ایسی روایات ملتی ہیں جن میں عورتوں کو مردوں سے کم تر قرار دیا گیا ہے۔ یہ تمام غلط ’روایات‘ ہیں جو حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کردی گئی ہیں۔ یہ قرآن میں بتائے گئے معیارِ تقویٰ کے اصولوں سے ٹکراتی ہیں، لہٰذا یہ صحیح کہلائے جانے کی مستحق نہیں ہیں۔ ان روایات کو جو ’اخلاقی‘ اور عقلی لحاظ سے ناقابلِ یقین اور سائنسی لحاظ سے غیرصحیح معلوم ہوں، انھیں جھوٹی اور خدا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت پر مبنی قرار دے کر چھانٹ دینا چاہیے‘‘۔ (ص ۶۶)
اس طرح کی نامعقول باتیں بہت سے ’دانش ور‘ قرآن کریم سے متعلق بھی کہتے ہیں۔ مصنف بار بار یہ تاکید کرتے ہیں کہ ’ان نام نہاد مذہبی کتابوں‘ کی جگہ مسلمانوں کو کتاب الخراج اور کتاب الاموال نامی کتابوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے، جو ’حقیقی سنت‘ کی ترجمان اور صحیح حدیث کی کتابیں ہیں (ص ۱۲، ۴۳، ۶۳ وغیرہ)، حالانکہ ان کتابوں کا استناد بخاری اور مسلم جیسی کتابوں سے کم تر ہے۔ اُمت کے نزدیک ’صحاح ستہ‘ کو قبولِ عام حاصل ہے، ان میں زندگی کے جملہ پہلوئوں پر معتبر اور مستند حدیثوں کو جمع کر دیا گیا ہے۔ اس کے مقابلے میں کتاب الخراج اور کتاب الاموال نامی کتابیں زندگی کے صرف ایک خاص پہلو سے بحث کرتی ہیں۔ اس لیے ان کا درجہ اُمت کے نزدیک ’صحاحِ ستہ‘ سے فروتر ہے۔ سنت کو بے اعتبار کرنے، احادیث کا درجہ گھٹانے اور معتبر کتب حدیث کو مشکوک بنانے کی کوششیں پہلے دشمنانِ اسلام انجام دیا کرتے تھے، افسوس کہ اب اس کی کمان ’روشن خیال‘ مسلم دانش وروں نے سنبھال لی ہے۔
مصنف کی بے خبری کا شاہکار ان کی یہ تحقیق ہے: ’’آبی و زرعی قوانین سے متعلق بخاری میں صرف چند روایات ملتی ہیں، جب کہ امام مالک کے مجموعے میں ایک بھی روایت اس سلسلے کی نہیں پائی جاتی‘‘ (ص ۶۷)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ موصوف نے ان کتابوں کو ہرگز نہیں دیکھا ہے۔ بخاری میں کتاب الوضو، کتاب الغسل، کتاب البیوع، کتاب الاشربۃ، کتاب الاطعمۃ، کتاب الحرث، کتاب المزارعۃ اور کتاب المسافاۃ وغیرہ کے تحت اس موضوع کی سیکڑوں احادیث ہیں اور موطا امام مالک میں کتاب الطہارۃ، کتاب البیوع، کتاب المسافاۃ، کتاب الطعام والشراب وغیرہ میں ایسی احادیث خاصی تعداد میں ہیں۔
مصنف کو شکوہ ہے کہ مسلمانوں نے ان میں تحریفات کردی ہیں۔ ان کے نزدیک: ’’یہ عبادات مقصود بالذات نہیں ہیں، بلکہ ان کے ذریعے دیگر اہم مقاصد کا حصول مطلوب ہے‘‘ (۸۹)۔ ’’انحراف اور کج فکری کے حامل مسلمانوں نے ان کو اپنے آپ میں مقصد ٹھیرا لیا ہے اور خود کو ظاہری رسوم کا پابند بنا لیا ہے‘‘ (ص ۷۵)۔ پھر انھوں نے ان مقاصد کی بھی وضاحت کر دی ہے مثلاً: ’’حج کا ایک مقصد روے زمین کی سیاحت ہے‘‘ (ص ۷۷)۔ ’’حج کے ذریعے ساری دنیا کے مسلمانوں میں ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرنا مقصود ہے، جہاں لوگ ایک مشترکہ زبان عربی میں آپسی تبادلہ خیال و گفتگو کرسکیں۔ اس کے نتیجے میں تجارت و تعلقات میں وسعت کے ساتھ ٹکنالوجی کی منتقلی عمل میں آسکتی ہے‘‘ (ص ۱۹۱)۔ پھر یہ کہ مسلمانوں نے حج کے ادارے کو مسخ کرکے رکھ دیا اور خود کو اس فریب میں مبتلا کرلیا کہ صرف چند دعائوں کے پڑھ لینے اور میکانکی انداز سے چند رسوم کے ادا کرلینے سے ان کے تمام گناہ دھل جائیں گے۔ خدا نے کبھی اس بات کا وعدہ نہیں کیا کہ حج یا عمرہ کے ادا کرنے سے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے‘‘ (ص ۷۷)۔ زکوٰۃ کی مدات قرآن کریم میں متعین ہیں، لیکن مصنف کے نزدیک: ’’اس میں وہ پروجیکٹ بھی شامل ہیں جو آبی وسائل و ذرائع اور انجینیرنگ کی ترقی سے متعلق ہیں، جیسے سربراہی آب، آب پاشی، زراعت، جہازرانی اور آبی قدرت کے نظام وغیرہ‘‘۔ (ص ۷۳)
مصنف نے بہت سی باتیں غلط اور گمراہ کن بھی لکھی ہیں۔ مثال کے طور پر: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ نبوت کے پہلے تیرہ سالہ دور میں، جو مکی دور کہلاتا ہے، اس میں شراب کا کہیں ذکر نہیں کیا گیا۔ اس لیے کہ اس وقت اس سے کہیں زیادہ اہم مسائل درپیش تھے‘‘ (ص ۸۵)۔ اس سلسلے میں پہلی بات یہ عرض کرنی ہے کہ سورئہ نحل میں، جو مکّی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور کھجور کے درختوں اور انگور کی بیلوں سے بھی ہم ایک چیز تمھیں پلاتے ہیں، جسے تم نشہ آور بھی بنالیتے ہو اور پاک رزق بھی‘‘ (آیت ۶۷)۔ مصنف یہاں کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ یہ کہ حرمت ِ شراب کے بارے میں سکوت اختیار کرلینا چاہیے؟ بعض مقامات پر بڑی بے باکی سے دینی قدروں پر تیشہ چلایا گیا ہے، مثلاً اللہ تعالیٰ نے جانوروں کا گوشت حلال اور قربانی کو مشروع کیا ہے، لیکن موصوف فرماتے ہیں: ’’مویشیوں کو بطور غذا، یہاں تک کہ قربانی کے مقاصد کے لیے بھی استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔ ان کا استعمال زمین کی بہتری اور آبپاشی کے لیے کیا جاناچاہیے‘‘۔ (ص ۱۵۶)
یہ کتاب ’قرآن میں آبی وسائل‘ کے موضوع پر مصنف کے مجوزہ سلسلۂ کتب کی پہلی جلد ہے۔ ابھی پانچ جلدیں اور آنی ہیں۔ خدا خیر کرے، نہیں معلوم ان میں مصنف کے کیسے کیسے ’اجتہادات‘ سامنے آئیں گے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مغرب میں جا بسنے والے بعض نام نہاد مسلم دانش وروں کی ذہنی ساخت کس قدر تبدیل ہوکر رہ گئی ہے اور وہ اسلامائزیشن آف نالج کے نام پر کیسے کیسے گل کھلا رہے ہیں؟