جون ۲۰۱۰

فہرست مضامین

کتاب نما

| جون ۲۰۱۰ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

Muhammad The Prophet Par Excellence & The Divine Origin of The Quran [نبی اکرمؐ اور قرآن کلامِ الٰہی]،  پروفیسر محمد اسلم۔ ناشر: دعوہ اکیڈمی،فیصل مسجد، اسلام آباد۔ صفحات: ۵۰۲۔ قیمت: ۶۰۰ روپے۔

مستشرقین نے ایک طرف تو قرآن کو (نعوذ باللہ) کلامِ الٰہی کے بجاے نبی کریمؐ کی خودساختہ کتاب ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، اور دوسری طرف نبیِ مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر طرح طرح کے اعتراضات عائد کیے ہیں۔ زیرنظر کتاب کے مصنف نے طویل مطالعے کے بعد مغربی اہلِ قلم کی تحریروں سے ان اعتراضات کے جواب پیش کیے ہیں۔ اہلِ مغرب خصوصاً عیسائی اور یہودی مستشرقین نے دین اسلام، پیغمبرؐاسلام اور قرآن مجید کو ہدفِ تنقید بنایا ہے، اُس کے رد میں سادہ اور آسان زبان میں مرتبہ یہ کتاب ایک معقول جواب کی حیثیت رکھتی ہے۔ مصنف نے درجنوں عیسائی مصنّفین کی تحریروں سے ضروری اور متعلقہ حوالہ جات یک جا کردیے ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ کی امانت و دیانت، خاندانی، زندگی اور بطور سربراہ مملکت کردار کو ہر دور کے نام وَر اہلِ علم و دانش نے ہر قسم کی آلایشوں سے پاک قرار دیا ہے۔

’اسلام کے خلاف یہود و نصاریٰ کے ردعمل کا پس منظر‘ میں، مصنف بتاتے ہیں کہ سائنسی میدان میں ہمہ پہلو ترقی کے باوجود، یورپ کا ذہن ’روایت پرست‘ ہے۔ اس لیے دین اسلام کے خلاف گھسے پٹے الزامات کو نئے الفاظ کے ساتھ دُہرایا جا رہا ہے۔مصنف نے برنارڈشا،       بوس ورتھ سمتھ، پروفیسر کل ورلے، ینز، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے متعدد دانش وروں کی گواہی یک جا کردی ہے جس کے مطابق اسلام کے خلاف نفرت اور نبی علیہ السلام کے خلاف الزامات کے ذریعے عالمِ انسانیت کو دین اسلام سے دُور رکھنے کی کوشش کی گئی ہے، اور اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ خصوصاً کیتھولک اور پروٹسٹنٹ اُن گمراہیوں کی طرف رُخ ہی نہ کریں جو انبیا ؑکے دین میں، خرافات کی صورت میں اکٹھی کردی گئی ہیں۔

مصنف نے بتایا ہے کہ سیدنا مسیح علیہ السلام کی تعلیمات کے برعکس خداے واحد کا تصور تثلیث کی صورت میں تبدیل کردیا گیا، پھر اسلام کے خلاف نفرت کی آگ کو برس ہا برس ہوا دی جاتی رہی۔ بطور ثبوت مؤلف نے سوزینی، جان ملٹن، جان لاک، تھامس ایملن، جوزف پریسٹلے، تھیوفی لس لینڈے، وغیرہ کی تحریروں سے اقتباس پیش کیے ہیں۔

اس اہم تحقیقی تصنیف کا دوسرا حصہ نبی علیہ السلام کی ذاتِ گرامی کا تاریخ کی روشنی میں جائزے پر مشتمل ہے۔یہ تفصیلی باب نبی اکرمؐ کی پیدایش سے لے کر زمانۂ قبل نبوت کے ۴۰سال، مکّی زندگی کے ۱۳سال اور مدنی زندگی کے ۱۰برسوں کا احاطہ کرتا ہے۔

کتاب کے تیسرے حصے میں قرآن کے اسلوب وابلاغ کو زیربحث لایا گیا ہے۔ اس باب میں انجیل کے اُن حصوں میں سے کچھ مثالیں بھی پیش کی گئی ہیں کہ جو توحیدِ خالص کے پیغام کی علَم بردار ہیں۔ انجیل اور قرآن کے جن واقعات میں مماثلت ہے اُن کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔ آثارِ کائنات سے مثالیں پیش کی گئی ہیں کہ کس طرح کائنات کی ایک ایک چیز خداے واحد کی ہستی اور اُس کی حکمت کی عکاس ہے۔

مستشرقین کے اعتراضات کی حقیقت اور علمی بددیانتی اور اسلام اور مغرب کے درمیان موجودہ کش مکش کو سمجھنے میں دل چسپی رکھنے والوں کے لیے یہ کتاب ایک نادر ونایاب تحفہ ہے۔ (محمد ایوب منیر)


قرآن کریم میں رسول اکرمؐ کا عالی مقام، مولانا عبدالرحمن کوثر مدنی۔ ناشر: زم زم پبلی کیشنز، نزد مقدس مسجد، اُردو بازار، کراچی۔ فون: ۳۲۷۶۰۳۷۴-۰۲۱۔ صفحات: ۲۷۲۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

قرآن مجید کی جن آیات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل، آپؐ کو ملنے والے معجزات اور آپؐ کی سیرتِ کاملہ کا تذکرہ ہے، زیرنظر کتاب ان آیات کے مطالعے اور تفسیر پر مبنی ہے۔ سیرتِ مصطفیؐ پر ہزاروں کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور آیندہ بھی لکھی جائیں گی لیکن زیرتبصرہ کتاب ایک نئے انداز میں عشق مصطفیؐ پیدا کرتی ہے: ’’میں نے قرآن کی تفسیر میں سیرت کو پڑھا‘‘ کے مصداق سیرتِ رسولؐ پر حق کی گواہی ہے۔

غلو سے بچتے ہوئے سیرت کو بیان کرنا انتہائی مشکل کام ہے مولانا مفتی عبدالرحمن کوثر مدنی نے اس مشکل کو انگیز کرتے ہوئے ایک خوب صورت کتاب پیش کی ہے جو عاشقانِ مصطفیؐ کی نگاہ انتخاب میں مقام حاصل کرے گی اور سیرت کے مطابق عمل کو مہمیز دے گی۔ اگر ذاتِ مصطفیؐ پر دورِحاضر میں ہونے والے اعتراضات اور حملوں کا بھی احاطہ کرلیا جاتا تو کتاب کی افادیت میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا۔(معراج الھدٰی صدیقی)


سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ، علامہ محمد ناصرالدین الالبانی، تہذیب و اختصار: ابوعبیدہ مشہور بن حسن آلِ سلمان، مترجم: عبدالحمید سندھی۔ ناشر: فضلی بک،سپرمارکیٹ، ۳/۵۰۷، ٹمپل روڈ، اُردو بازار، کراچی۔ صفحات: ۸۹۰۔ قیمت: ۷۰۰ روپے

علامہ ناصرالدین الالبانی (۱۹۱۴ئ-۱۹۹۹ئ) کو علمِ حدیث میں ممتاز مقام حاصل تھا۔ یوں تو اُن کے سبھی تصنیفی کام وقیع ہیں مگر سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ اور سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ کو نسبتاً زیادہ شہرت ملی۔ متعدد جلدوں پر محیط یہ سلسلے باہمت علماے حدیث کی کاوشوں سے اُردو قارئین تک بھی پہنچ گئے ہیں۔

علامہ البانی کی سلسلۂ احادیث صحیحہ کا زیرنظر اختصار اُن کے شاگرد کا مرتب کردہ ہے۔ ۳ہزار سے زائد صحیح احادیث کو ۲۸ عنوانات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اخلاق و آداب، عقیدہ و ایمان، عبادت و تجارت، حکومت و امارت، طہارت و نظافت اور سفروجہاد کے موضوعات سے متعلق احادیث کا رواں ترجمہ کیا گیا ہے۔ مرتب نے اصل کتب کی احادیث میں سے انتخاب کرکے احادیث کی پوری اسناد کے بجاے سند کا اختصار درج کیا ہے۔ اس مجموعے میں شامل احادیث کا نمبرشمار نیا ہے، اصل کتاب کے مطابق نہیں، تاہم حواشی میں سلسلۂ صحیحہ کا حدیث نمبر درج کردیاگیا ہے۔

علامہ الالبانی کے اس مجموعۂ احادیث میں صحاحِ ستہ کے علاوہ حدیث کے معروف اور بنیادی مجموعوں سے احادیث لی گئی ہیں۔ ایک ہی جِلد میں ان تمام مباحث کو سمیٹ دیا گیا ہے۔ ناشر (اور مترجم) نے اس ضخیم مجموعے کو اِعراب (زیر، زبر، پیش) سے آراستہ کرنے میں غیرمعمولی محنت سے کام لیا ہے۔ اس بنا پر متن احادیث کو صحت کے ساتھ پڑھنا آسان ہوگیا ہے۔ تخریجِ احادیث کو مناسب حد تک مختصر رکھا گیا ہے۔ تخریج کا متن کے اندر نمبر اُردو کے بجاے عربی عبارت پر دیا جاتا تو بہتر ہوتا۔ احادیث کی تخریج میں درجنوں کتب کے نام آئے ہیں، کتاب کے آخر میں کتابیات دینی چاہیے تھی۔ مترجم نے اتنے بڑے مجموعے کو اُردو قالب میں ڈھالنے کی صبرآزما مشقت اٹھائی۔یہ مجموعہ اپنی جامعیت اور صحت کی بنا پر بہت مفید ہے۔ (ارشاد الرحمٰن)


Who Killed Karkare? [کرکرے کا قاتل کون؟]، ایس ایم مشرف، ناشر: فیرس میڈیا اینڈ پبلشنگ لمیٹڈ،۸۴- ڈی، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر نئی دہلی- صفحات: ۳۳۵، مع اشاریہ۔ قیمت: ۱۵ ڈالر۔

ہمسایہ ملک بھارت کی دنیا الگ ہے اور چہرہ بھی وہ نہیں، جو ظاہر میں دکھائی دیتا ہے۔ اس بات کی تصدیق زیرنظر کتاب کرتی ہے۔ اگرچہ اس کا عنوان یہ ہے کہ ’’کرکرے کا قاتل کون؟‘‘  مگر سچی بات ہے کہ اس بے گناہ، فرض شناس اور پیشہ ورانہ دیانت کے حامل افسر کے قتل نے، اُن خوف ناک مناظر سے پردہ ہٹایا ہے، جنھیں ’سیکولرزم‘ ، ’جمہوریت‘ اور ’روشن خیالی‘ کے نام پر بھارتی نیتائوں نے چھپا رکھا تھا۔

مصنف بھارتی صوبہ مہاراشٹر کے سابق انسپکٹر جنرل پولیس ہیں۔ اپنی پیشہ ورانہ فرض شناسی کے باعث اُن کی حب الوطنی بھارت میں کسی شک و شبہے سے بالاتر ہے۔ جب انھوں نے دیکھا کہ ہیمنت کرکرے جیسے دیانت دار افسر نے مذہبی یا نسلی تعصب سے بالاترہوکر، ممبئی ریل بم دھماکے (۱۱ جولائی ۲۰۰۶ئ)، مالیگائوں بم دھماکے (۸ستمبر ۲۰۰۶ئ)، سمجھوتا ایکسپریس بم دھماکے (۱۹فروری ۲۰۰۷ئ)، اجمیردرگاہ دھماکے (۱۱؍اکتوبر ۲۰۰۷ئ)، سلسلہ وار دھماکے (۲۳ نومبر ۲۰۰۷ئ)، جے پور دھماکے (۱۳ مئی ۲۰۰۸ئ)، احمدآباد بم دھماکے (۲۶جولائی ۲۰۰۸ئ)، دہلی بم دھماکے (۱۳ستمبر ۲۰۰۸ئ) وغیرہ کی تحقیقات میں عجیب و غریب مماثلت دیکھتے اور ایک ہی نوعیت کا تال میل پاتے ہوئے یہ متعین کیا:’’ان دھماکوں کے پیچھے مسلمانوں کا ہاتھ نہیں ہے‘‘، بلکہ کرکرے نے واضح طور پر اشارہ بھی کیا کہ اس بہیمانہ قتل و غارت کے ذمہ دار کون ہیں، تو انھوں نے اس حقیقت کو   بے نقاب کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسی نشان دہی نے ہندو قوم پرستوں کے ہاتھوں ہیمنت کرکرے کو  ممبئی میں قتل کرا دیا، تاکہ سچائی کو دیکھنے والی آنکھ اور اسے بیان کرنے والی زبان ہمیشہ کے لیے بندکردی جائے۔

مشرف نے اپنی اس تحقیقی کتاب میں بڑی جاں سوزی سے اس فسطائی ذہنیت کا کھوج لگایا ہے، جس نے انیسویں صدی سے لے کر آج تک ہندستان میں ہندو مسلم فسادات کی آگ دہکا رکھی ہے۔ انھوں نے اپنے طویل محکمانہ تجربے، گہرے مشاہدے، وسیع سماجی مطالعے اور بے شمار فسادات پر لکھی جانے والی تحقیقاتی رپورٹوں کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بھارت میں ہندو قوم پرستی، اصل میں برہمنیت کا دوسرا روپ ہے، اور یہی اس فساد کی جڑ ہے، اور اس نے بھارت کے امن و سکون کو برباد کر رکھا ہے۔ ان واقعات کے پیچھے سازش، سنگ دلی، سرکاری محکموں خصوصاً انٹیلی جنس بیورو میں موجود ’ہندوتا‘ کے علَم برداروں کا اتحاد کام کر رہا ہے اور ہندستان کے ۲۰کروڑ مسلمانوں کو ہر آن دہشت کے دبائو میں رکھ کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل چاہتا ہے۔

بھارت میں یہ کتاب ایک سال کے اندر تین بار شائع ہوچکی ہے۔ ہمارے ہاں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کے لیے دو قومی نظریہ کوئی پایدار اصول یا مستقل نظریہ نہیں، فقط ایک وقتی ردعمل کا نام ہے، وہ اگر اس کتاب کو پڑھیں گے تو ان پر چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔ وہ لوگ جن کی نظر کو بھارتی فلموں کی چکاچوند نے چندھیا دیا ہے، اگر اس کا مطالعہ کریں گے تو جان لیں گے کہ ’دوستی‘ اور ’ایک ہی کلچر‘ کی باتیں فقط سُراب ہیں، اور ان پر بھارت کے نام نہاد جمہوری سیکولرزم کی قلعی کھل جائے گی۔ یہ کتاب اگرچہ ایک پولیس افسر کے قتل سے منسوب ہے، مگر اس میں بھارتی تعصب اور مسلم دشمنی کی تاریخ کی زندہ تصویر اُبھر کر سامنے آجاتی ہے۔ (سلیم منصور خالد)


۵-اے ذیلدار پارک، حصہ اول و دوم۔ مرتبین: مظفربیگ،حفیظ الرحمن احسن۔ ناشر: البدر پبلی کیشنز، راحت مارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات (علی الترتیب): ۳۲۳، ۴۶۱۔ قیمت : ۲۲۰ ، ۲۵۰ روپے۔

لاہور کی نواحی بستی اچھرہ میں واقع ۵-اے ذیلدار پارک، نہ صرف مولانا مودودی مرحوم کی رہایش گاہ تھی بلکہ اسی عمارت میں ۲۷برس تک جماعت اسلامی پاکستان کا مرکز بھی قائم رہا۔ اس مناسبت سے نہ صرف پاکستان، بلکہ دنیا بھر سے متلاشیانِ حق مولانا سے رہنمائی کی غرض سے ۵-اے، ذیلدار پارک کا رُخ کیا کرتے تھے۔

مولانا مودودیؒ کا مدتوں یہ معمول رہا کہ نمازِ عصر کے بعد اپنے گھر (۵-اے، ذیلدارپارک) کے سبزہ زار میں ملاقاتیوں کے درمیان آکر بیٹھ جاتے اور لوگوں کے سوالات اور اِشکالات کے جواب دیتے۔ سوال جواب کی اس محفل میں بڑے قیمتی نکات سامنے آتے مگر ابتدائی زمانے میں میں انھیں محفوظ کرنے کی کوئی صورت نہ تھی۔ مظفربیگ (مرحوم)، مدیر آئین نے اپنے قارئین کو بھی صاحبِ تفہیم القرآن کی اس مجلس سے مستفید کرنے کا عزم کیا۔ پہلے پہل ان کے ایما پر    رفیع الدین ہاشمی ان نشستوں میں ہونے والی گفتگو کو مرتب کرنے لگے۔ پہلا کالم ۲۷ جون ۱۹۶۵ء کو آئین میں شائع ہوا۔ بعدازاں جناب حفیظ الرحمن احسن اور پھر خود مظفربیگ مرحوم نے بھی وقتاً فوقتاً یہ ذمہ داری ادا کی۔آئین کا یہ سلسلہ بہت مقبول ہوا اور لوگ اس کے منتظر رہتے۔

اس مجلس میں دینی حقائق، فقہی مسائل اور سائنس و فلسفے جیسے موضوعات بھی چھڑجاتے اور کچھ عام قسم کی سرسری باتیں بھی ہوتیں، نیز ملکی حالات بھی زیربحث آتے: ایوب خان کے    زمانۂ اقتدار کے آخری ایام، جنرل یحییٰ خان کے ۱۹۷۰ء کے عام انتخابات، دستور سازی کے مسائل، جماعت اسلامی کی انتخابی پالیسی اور جدوجہد، شیخ مجیب الرحمن کے چھے نکات کا ہنگامہ،  سقوطِ مشرقی پاکستان کا سانحہ، ذوالفقارعلی بھٹو کا دورِ حکومت اور اسلامی سوشلزم، بھٹو کے خلاف عوامی احتجاج اور تحریک نظامِ مصطفیؐ، مولانا مودودی سے بھٹو کی ملاقات اور ان کی تجاویز وغیرہ۔ اس طرح کتاب ہذا میں ہماری تاریخ کے بڑے نازک اور ہنگامہ خیز دور کی عکاسی ہوتی ہے۔

مولانا مودودیؒ کے سوال و جواب پر مبنی تین مجموعے ۵-اے ذیلدار پارک کے زیرعنوان تین حصوں میں شائع کیے گئے تھے۔ زیرتبصرہ کتاب ہلکے پھلکے انداز میں علمی نکات اور عملی معاملات پر ایک قیمتی مجموعہ ہے۔ اس سے مولانا مودودی کی شخصیت کے منفرد پہلو، نیز تحریکی جدوجہد کے مختلف مراحل کی روداد بھی سامنے آتی ہے۔ تین حصوں پر مشتمل یہ کتاب سالہا سال سے چھپتی چلی آرہی ہے۔ اب ناشر نے کتاب کے پہلے اورتیسرے حصے کو شائع کیا ہے، مگر دوسرا حصہ کسی وجہ سے شائع نہیں کیا جاسکا تو انھوں نے تیسرے حصے پر ’دوم‘ لکھ دیا ہے۔ یہ ایک نامناسب بات ہے، اور اس سے قارئین اُلجھن کا شکار ہوں گے۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس کی وضاحت کی ضرورت تھی۔ (عمران ظہور غازی)


گوانتانامو میں پانچ سال، مراد کرناز، اُردو ترجمہ: ریاض محمود انجم۔ ناشر: منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون:۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲۔ صفحات: ۲۸۸۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

مُراد کرناز، کی یہ روداد صرف ترک نژاد جرمن نوجوان کی آپ بیتی ہی نہیں بلکہ گوانتانامو جیل میں بدترین تشدد کا نشانہ بننے والے ہزاروں افراد کی رودادِ زندگی بھی ہے۔ تہذیب و تمدن کی دعوے دار عالمی طاقتوں نے افغانستان سے سیکڑوں افراد کو صرف شبہے میں گرفتار کیا اور مجرموں تک پہنچنے کی کوشش میں معصوم شہریوں پر جس قسم کے مظالم توڑے گئے اُس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے قلم کانپ اُٹھتا ہے۔ مُراد کرناز کو ۳ ہزار ڈالر کے عوض فروخت کیا گیا تھا۔ اُس نے ۱۶۰۰ دن اس طرح کاٹے کہ اُسے جنسی تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا، قیدتنہائی میں رکھا گیا، سونے نہ دیا گیا، انتہائی گرم اور انتہائی ٹھنڈے کمروں میں رہنے پر مجبور کیا گیا، لیکن اُس کا عزم و ارادہ کمزور نہ ہوا۔ وہ  کس جرم کوقبول کرنے کا اعلان کرتا، جب کہ اُس نے کوئی جرم کیا ہی نہیں تھا! گوانتانامو جیل میں قیدیوں پر اس قدر ظلم و تشدد کیا گیا کہ ان میں سے درجنوں قیدی ہلاک ہوگئے اور سیکڑوں کی یہ حالت ہوگئی کہ وہ اپنے آپ کو موت کے شکنجے میں جکڑا ہوا پاتے۔

ریڈکراس کی کوششوں سے پانچ برس بعد مُراد کرناز، اپنے گھر والوں کے درمیان لوٹ آیا۔ مُراد کرناز سے تفتیش کس طرح کی جاتی تھی، اُس کا ایک انداز یہ تھا: ’’اُنھوں نے برقی سلاخ میرے پیروں کے تلووں کے نیچے رکھ دی، بیٹھے رہنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا، ایسے معلوم ہوتا تھا کہ جیسے میرا بدن خود بخود اُچھل رہا ہو۔ میں نے برقی رَو اپنے پورے بدن میں سرایت کرتے ہوئے محسوس کی۔ میں سخت اذیت اور تکلیف میں مبتلا تھا۔ مجھے اپنے بدن میں گرمایش، جھٹکے اور اینٹھن محسوس ہوتی۔ میرا خیال تھا کہ میں اس اذیت میں مر جائوں گا‘‘.... ایک اور قیدخانے کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’یہ ایک ایسا قیدخانہ تھا جہاں کسی قسم کی خلوت کا تصور نہ تھا۔ہماری گفتگو پر بھی پابندی تھی اور پھر ایک مضحکہ خیز قانون یہ تھا کہ پہرے داروں سے گفتگو تو درکنار، ان کی طرف دیکھ بھی نہیں سکتے تھے۔ مزید ستم یہ کہ ہم ریت میں اپنی اُنگلیوں سے کوئی خیالی تصور یا تحریر بھی نقش نہیں کرسکتے تھے بلکہ مسکرانا بھی قوانین کی خلاف ورزی میں شامل تھا‘‘۔ مترجم ریاض محمود انجم کے ترجمے میں طبع زاد تحریر جیسی روانی ہے۔ (محمد ایوب منیر)


تعارف کتب

  • محسن نسواں ، شگفتہ عمر۔ ناشر: دعوۃ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد۔ صفحات: ۴۰۔ قیمت: ۳۲ روپے۔ [معاشرے میں عورت کا کردار اور اس کے حقوق کا تعین ہمیشہ افراط و تفریط کا شکار رہا ہے۔ فی الواقع محسنِ نسواں اگر کوئی ہستی ہے تو نبی کریمؐ کی ہستی ہے جس نے خواتین کے لیے ہر دائرے میں حقوق و فرائض کی ادایگی میں وہ توازن قائم کیا جس کی نظیر تاریخِ انسانی پیش کرنے سے قاصر ہے۔ زیرنظر کتابچے میں سرورِعالمؐ کے خواتین پر احسانات کے واقعات کو ۳۷ عنوانات کے تحت دل نشین اور دل کش اسلوبِ بیان میں پیش کیا گیا ہے۔]
  • عباد الرحمن ، پروفیسر الطاف طاہر اعوان۔ ناشر: اذانِ سحر پبلی کیشنز، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ ص ۳۲۰۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔ [اللہ کے محبوب بندوں کی صفات، عبادات، ذمہ داریوں اور بشارتوں کا بیان۔ اس غرض کے لیے پورے قرآن مجید کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس موضوع پر ایک جامع مطالعہ اپنے جائزے اور عمل کے لیے عباد الرحمن کی صفات کا آئینہ فراہم کر دیا گیا ہے۔ بقول مؤلف: اس کا مقصد مطالعہ کرنے والے کے دل میں ارتعاش پیدا کرنا اور انقلاب کے لیے تحریک بیدار کرنا ہے۔]