جون ۲۰۱۰

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| جون ۲۰۱۰ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

سیّاف محمود ،گوجرانوالہ

اٹھارھویں ترمیم پر ’اشارات‘ (مئی ۲۰۱۰ئ)بہ یک وقت دو قسم کا رنگ لیے ہوئے تھے: پہلا یہ کہ متوازن، جامع، منصفانہ نقطۂ نظر کے حامل، جن پر گروہی تعصب کی پرچھائیں تک نہیں بلکہ توازن کے ساتھ حقائق کو پیش کیا گیا ہے۔ دوسرا یہ کہ منتخب اداروں کی کتنی زبردست اہمیت ہے، اگر وہاں پر نمایندگی نہ ہو یا نمایندگی  کم ہو تو ملک و ملّت کے مستقبل کے لیے کیسے خطرات پیدا ہوسکتے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ ایک یادگار تحریر تھی۔


احمد علی محمودی ،حاصل پور

’اٹھارھویں ترمیم- خوش آیند پیش رفت‘ (مئی ۲۰۱۰ئ) اپنے موضوع پر جامع اور مفصل تجزیہ ہے۔ تاہم، اس تحریر کے آخر میں ایک عنوان کے تحت ’جماعت اسلامی کا نقطۂ نظر‘ بھی پیش کیاگیا ہے۔ اس کے مطالعہ اور تحریر کے عنوان کو اگر ہم مدنظر رکھیں تو اٹھارھویں ترمیم کو خوش آیند پیش رفت کا عنوان دینا مناسب نہیں۔  بہت سے اہم نکات کمیٹی کی تائید حاصل نہ کرسکے۔


عائشہ خانم ، ملتان

ترجمان القرآن میں الحمدللہ ، دین کے فہم کے ساتھ معاش اور سماج کے مطالعے کے لیے مفید تحریریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ شمارہ مئی میں خصوصاً ’بھارت اور عالمِ اسلام‘ تو آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ کیا عرب دنیا اس صورتِ حال سے بے خبر ہی رہے گی؟ اسی طرح لوڈشیڈنگ پر بھی اچھا معلوماتی مضمون شائع کیا گیا ہے۔


صفدر حسین ، مری

’اصلاح کا کام کب تک؟‘ (اپریل ۲۰۱۰ئ) ۶۰ سال پہلے کی یہ تحریر مایوسی کی جڑیں کاٹ دینے والی ہے، اور نعیم صدیقی مرحوم کی یاد بھی تازہ ہوگئی۔ ’اسلام اور ماحولیات‘ (اپریل ۲۰۱۰ئ) اپنے موضوع پر ایک  جامع تحریر ہے۔ مضمون پڑھ کر اندازہ ہوا کہ ماحولیات کا موضوع محض انسانی حقوق کی تنظیموں کا ہی نہیں ہے بلکہ ماحول کا تحفظ اللہ کا نائب ہونے کے ناطے ہرمسلمان کا فرض ہے۔ اُمت مسلمہ کو اس کے لیے اپنا کردار اداکرناچاہیے۔ ایک توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ اسی مضمون میں ترجمہ سورئہ احزاب کا لکھا گیا ہے لیکن حوالہ سورئہ جن کا دیا گیا ہے (ص ۶۵)۔ اسی طرح سورئہ حجرات کی آیت کے ترجمے کے سامنے سورۃ البقرہ لکھا گیا ہے   (ص ۷۴)۔ اگرچہ ایسا سہواً ہوا ہے، تاہم اس حوالے سے بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔


حافظ محمد ایوب ، اسلام آباد

مولانا معین الدین خٹک سے ایک بار پوچھا کہ تحریک کے ابتدائی کارکنان کے بارے میں کچھ بتائیں۔ کچھ سوچ کر بولے۔ ۱۹۵۲ء کراچی میں جماعت ِ اسلامی کا اجتماعِ عام منعقد ہوا۔ رفقا کے قافلے بسوں اور ٹرینوں کے ذریعے جوق در جوق کراچی کی طرف چل پڑے۔ موضع شیخ سلطان ٹانک (سرحد) کے تین ساتھیوں نے جو بے انتہا غریب تھے، اجتماع میں شرکت کا ارادہ کرلیا۔ کسی دوسرے ساتھی سے نہ مالی تعاون لیا اور نہ جماعت کے بیت المال ہی پر بوجھ بنے۔ یہ مذکورہ تینوں ساتھی کراچی کی جانب پیدل چل پڑے۔ ایک آنہ کی دو روٹیاں اور جی ٹی روڈ پر ایسے ہوٹل بھی ہوا کرتے تھے جہاں آنہ روٹی دال مفت بھی مل جایا کرتی تھی۔ دن بھر سفر کرتے، رات کسی مسجد میں نمازِ عشاء کے بعد آرام کرتے اور نماز فجر پڑھ کر سفر جاری رکھتے۔ استقبالیہ کیمپ سہراب گوٹھ لبِ سڑک تھا۔ ناظم استقبالیہ نے آمدہ قافلہ سے دریافت کیا کہ جناب آپ کہاں سے اور کیسے پہنچے؟ جواب سن کر کیمپ میں موجود کارکنان حیران رہ گئے۔ اجتماع گاہ میں قائد تحریک سیدمودودیؒ کو اطلاع  دی گئی۔ مولانا استقبالیہ میں تشریف لائے اور اس قافلے کا خود استقبال کیا۔ اِس قافلے کو قافلۂ سخت جان کا نام سیدصاحب نے دیا۔ ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھ گئے۔ سب کی آنکھوں سے موتی چھلک پڑے: ’’یااللہ! یہ تیرے بندے صرف تیری رضا اور تیرے دین کی بقا کے لیے جوتکالیف اُٹھا رہے ہیں ان کی قربانیوں کو قبول فرما، آمین!