زرداری گیلانی حکومت، امریکا کے ساتھ اسٹرے ٹیجک شراکت داری کے راگ الاپ رہی تھی۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی، واشنگٹن کے بعد اسلام آباد میں اسٹرے ٹیجک مذاکرات کی تیاریاں کر رہے تھے۔ اسی اثنا میں یکم مئی ۲۰۱۰ء کو نیویارک کے ٹائمز اسکوائر میں ایک وین سے دھواں نکلتا دیکھ کر ایک صومالی مسلمان خوانچا فروش کی اطلاع پر شہر میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ چند گھنٹے کے بعد ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے ڈرائونے خواب (nightmare) نے ایک بار پھر امریکا کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ ۳تاریخ کو امارات ایئرلانز کی پرواز سے ایک پاکستانی نژاد امریکی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان فیصل شہزاد کو گرفتار کرلیا گیا۔ شروع میں اسے ’تنہا بھیڑیا‘ قرار دیا گیا، لیکن پھر جلد ہی امریکا اور خود پاکستان میں اس کے مبینہ ساتھیوں کی پکڑدھکڑ شروع ہوگئی۔
پاکستان اور امریکا کے دارالحکومتوں میں جس امریکی قیادت سے سر جوڑنے کی باتیں ہو رہی ہیں، اس نے سرتوڑنے کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر جنرل (ر) جیمز جونز، سی آئی اے کے سربراہ لیون پانے ٹا اور افغانستان میں امریکی فوجوں کے کمانڈر جنرل میک کرسٹل اپنے مشیروں کے لائولشکر کے ساتھ اسلام آباد پر ڈرون حملوں کی طرح نازل ہوئے۔ امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن نے طرزِتکلم میں ۸۰ درجے کی تبدیلی لاکر پاکستان کو بش انتظامیہ کے مذموم لہجے میں ’خطرناک نتائج‘ اور ’کچھ مزید کرنے‘ کی دھمکیوں پر مشتمل احکامات جاری کرنے شروع کردیے، یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں میں کچھ لوگ ایسے ہیں، جو اسامہ اور مُلاعمر کے ٹھکانے سے واقف ہیں۔ امریکی میڈیا نے پاکستان کے خلاف بھرپور ابلاغی جنگ کا آغاز کر دیا۔ یوں آن واحد میں دوستی اور نئے تعلقات کے سارے خیالی قلعے زمین بوس ہوگئے۔
فیصل شہزاد نے جو کچھ کیا وہ ’ایک معما ہے سمجھنے کا، نہ سمجھانے کا‘۔ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ، متمول اور ماڈرن گھرانے کا چشم و چراغ، جس کی اعلیٰ تعلیم امریکا میں ہوئی، جہاں وہ ۱۱ سال سے مقیم اور اب امریکی شہریت کا حامل ہے،اعلیٰ سوسائٹی میں اٹھنا بیٹھنا جس کا معمول ہو، اور امریکا کی ’معاشی دنیا‘ (Finance World) میں وہ ایک تربیت یافتہ کھلاڑی کی طرح دولت کمانے کا شغل کر رہا ہو، یکایک ایک دہشت گرد بن جاتا ہے۔ شمالی وزیرستان سے اس کے رشتے تلاش کرلیے جاتے ہیں اور اسے امریکا کی سیکورٹی کے لیے ایک چیلنج اور پاکستان کو دنیا بھر میں ’دہشت گردی‘ کے مرکز کے طور پر پیش کیا جانے لگتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہ ’ماہر اور تربیت یافتہ دہشت گرد‘ جس وین کو دہشت گردی کے مبینہ مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے، اس میں کھاد (fertilizer) اور دھماکا خیز مواد استعمال ہی نہیں کیا جاتا اور پھر ایک الیکٹرک آلہ جو خودکار صلاحیت سے محروم ہے اور یوں وہ ایک ایسی جگہ جہاں پارکنگ کی اجازت نہیں ہے، چھوڑ کر اس اہتمام سے غائب ہوتا ہے کہ وین میں اس کی چابی لگی ہوئی ہے اور چابی میں موصوف کے گھر کا پتا بھی موجود ہے۔ اپنی شناخت کے لیے یہ تمام سہولتیں فراہم کرنے کے بعد وہ ۴۸گھنٹے گزرنے کے باوجود گرفت میں نہیں آتا، اور جب جہاز میں اس کو پکڑا جاتا ہے تو پہلے الفاظ وہ یہ ادا کرتا ہے: ’’میں آپ ہی کی توقع کر رہا تھا اور ہاں، آپ کون سی ایجنسی سے متعلق ہیں، ایف آئی اے یاکوئی اور‘‘۔
کیا وہ مبینہ دہشت گرد اتنا ہی اناڑی تھا، کہ جسے شمالی وزیرستان سے جوڑا جا رہا تھا۔ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد امریکا کی خفیہ ایجنسیوں اور دہشت گردی کے خلاف ایک نہیں دسیوں نئی فورسز کے قیام، اور اربوں ڈالر سالانہ اخراجات کی بنیاد پر اعلیٰ ترین ٹکنالوجی کے ذریعے دہشت گردی کی ہرشکل کو قبل از وقت ناکام اور غیرمؤثر بنادینے کے تمام اہتمام دھرے کے دھرے رہ گئے۔ وہ سب فیصل شہزاد کو بھی نہ روک سکے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس میں فیصل شہزاد کی بچگانہ حرکات کی داد دی جائے یا امریکی ایجنسیوں کی نااہلی اور ناکامی کا نوحہ پڑھا جائے۔
اس واقعے کے چار ہفتے بعد بھی تفتیش کا بازار گرم ہے۔ دو ہفتے کے بعد فیصل شہزاد کو عدالت میں خفیہ طور پر پیش کرکے ریمانڈ لے لیا گیا ہے، اور پاکستان میں اب تک جو تفتیش ہوئی ہے اس میں موصوف کے اہلِ خانہ کو تو بے گناہ قرار دے کر چھوڑ دیا گیا ہے، البتہ چند دوسرے نوجوان اُٹھا لیے گئے ہیں، جن کو تختۂ مشق بنایا جا رہا ہے۔ اب تک جو معلومات سامنے آئی ہیں ان کی بنیاد پر اگر فی الحقیقت فیصل شہزاد نے خود یہ ڈراما رچایا ہے تو اس کی عقل کا ماتم ہی کیا جاسکتا ہے، اور اگر اسے کسی ادارے یا ایجنسی نے پاکستان پر دبائو بڑھانے اور شمالی وزیرستان میں پاکستان کو فوجی آپریشن پر مجبور کرنے کے لیے استعمال کیا ہے تو ان ایجنسیوں کی شاطرانہ کارکردگی کی داد ہی دینی چاہیے کہ آن کی آن میں منظر تبدیل کردیا۔ اگرچہ ہم اسے سازش قرار دینے کی پوزیشن میں نہیں، لیکن اس کے باوجود سارا معاملہ بظاہر ایک ڈراما ہی نظر آتا ہے۔ اسی طرح امریکی قیادت کے بیانات اور پاکستان آکر یہاں کی سیاسی اور عسکری قیادت پر دبائو ایسے سوالات کو اٹھاتا ہے جن کے جواب ابھی سامنے نہیں آئے۔
اس پورے واقعے نے سوچ بچار کے لیے کئی موضوعات نمایاں کردیے ہیں جن کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگر فیصل شہزاد نے یہ سب کچھ خود کیاہے تو پھر امریکی دانش وروں اور دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی وضع کرنے والوں کو اپنے بنیادی مفروضوں پر ازسرنو غور کرنا ہوگا۔ ان کی نگاہ میں اس وقت امریکا میں کی جانے والی دہشت گردی کا اصل محرک مذہبی عناصر ہیں، اور القاعدہ اس کی پشت پر ہے۔ دینی مدرسوں کے طلبہ اس فکر کی وجہ سے انسانی میزائل بن گئے ہیں۔ بالعموم غریب اور محروم طبقات کے نوجوانوں کو اس کام کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ’مسلمان دہشت گرد‘ کی جو تصویر امریکا، یورپ اور خود ہمارے اور دوسرے مسلمان ملکوں میں پیش کی گئی ہے، فیصل شہزاد اس میں کہیں جچتا دکھائی نہیں دیتا۔ اسی لیے حقائق کی تہ تک پہنچنے میں سرگرداں تجزیہ نگار بڑے بنیادی سوال اُٹھا رہے ہیں۔ اگر ان سوالات کا حقیقت پسندی سے جائزہ لیا جائے تو امریکا کی ۱۰سالہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اختیار کردہ حکمت عملی کے غیرحقیقت پسند ہونے کے وجوہ کو سمجھا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں نیویارک ریویو آف بکس کے تازہ شمارے میں جو مضمون شائع ہوا ہے، اس کے چند اقتباسات اس لائق ہیں کہ ان پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔ خصوصیت سے امریکا اور پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو دہشت گردی کے پورے مسئلے کے بارے میں حکمت عملی پر ازسرِنو غور کرنا چاہیے، تاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دنیا کو جس دہشت گردی کے جہنم میں دھکیل دیا گیا ہے، اس سے نکلنے کی کوئی صورت بن سکے:
گذشتہ چند مہینوں میں، یہ اور جو دوسرے ممکنہ دہشت گرد گرفتار کیے گئے ہیں، ان میں اس کے علاوہ بہت کم کوئی بات مشترک ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ امریکا کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے یہ لوگ ٹیکسی ڈرائیوروں اور خوانچا فروشوں سے لے کر مالیاتی تجزیہ نگاروں تک، مختلف معاشرتی اور معاشی طبقات سے وابستہ ہیں۔ اسلامی انقلابیت اور بیرونی انتہاپسند گروپوں سے ان کے اپنے رابطے کی نوعیت میں فرق ہے۔ ہم یہ فرض کرسکتے ہیں کہ جو چیز ان کو متحد کرتی ہے، وہ امریکا اور اس کی خارجہ پالیسی سے ایک بامقصد نفرت ہے، جس نے بتدریج انقلابیت کی جڑ پکڑی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ایک بڑی امریکا مخالف تحریک میں شامل ہونے کی خواہش کو بھی تیز کیا ہے۔
۱۱ستمبر کے بعد کے برسوں میں بہت سے اہلِ دانش اور صحافیوں نے کہا ہے کہ یورپ میں مسلم آبادیوں کے برعکس جہاں انتہاپسندی سے متعلق مسائل کو بہت شہرت ملی ہے، امریکا کی اپنی مسلمان آبادی اس انقلابیت سے محفوظ رہی ہے۔ لیکن ۱۰ برس بعد واضح تبدیلی نظر آرہی ہے۔ اس عمل کو سمجھنے اور اس کی گہرائی میں جانے کی کوشش کرنے کے بجاے امریکی صحافی اور امریکی حکومت بھی صرف اس فکر میں غلطاں دکھائی دیتے ہیں کہ معلوم کریں کون سا پاکستانی گروپ شہزاد کی تربیت کا ذمہ دار ہے، اور کیا اس کے القاعدہ سے روابط تھے؟ اس دوران میں امریکی سرزمین پر دہشت گردی کی ہر ناکام کوشش، درجنوں نوجوان امریکی مسلمانوں کو نت نئی کوشش کرنے اور کامیابی حاصل کرنے پر اُبھار سکتی ہے۔ جب تک اس طرح کی انقلابیت کی جانب لے جانے والے مسائل کے بہتر فہم اور ان کے حل کی کوشش نہ ہو تو ہم مستقبل میں ایسے حملوں کو روکنے کی منزل کے قریب بھی نہ آسکیں گے۔ (نیویارک ریویو بکس بحوالہ ڈیلی ٹائمز، ۱۶ مئی ۲۰۱۰ئ)
دہشت گردی کے مسئلے کے مختلف پہلوئوں پر ازسرِنو غور کرنے کے ساتھ پاکستان کے حکمرانوں اور فوجی قائدین کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے معاملات کو امریکا کی آنکھ سے دیکھنے کا رویہ ترک کریں اور امریکی مطالبات پر نئے محاذ کھولنے کی خطرناک حماقت سے باز رہیں۔ بدقسمتی سے سیاسی قیادت اور فوج نے امریکا کی جنگ میں شرکت اور پھر کمال تابع داری سے امریکا کی جنگ کو اپنی جنگ قرار دے کر جو نقصانات اٹھائے ہیں، ان کے پیش نظر اس دلدل میں اور بھی دھنستے چلے جانے کے راستے کو ترک کیا جائے۔ پارلیمنٹ نے ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ء کی مشترکہ قرارداد میں دہشت گردی کے مسئلے کا مقابلہ کرنے کے لیے واضح الفاظ میں جس حکمت عملی کی نشان دہی کی ہے، اس کو دیانت داری سے قبول کر کے اس نہ ختم ہونے والی اور کبھی نہ جیتی جانے والی جنگ سے اپنے آپ کو نکالنے کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ پاکستان نے اس جنگ میں امریکا کے چوکیدار کا کردار ادا کرکے سیاسی، معاشی، اخلاقی اور تہذیبی اعتبار سے جو نقصانات برداشت کیے ہیں، وہ تباہ کن رہے ہیں۔ جتنی جلد اس خسارے کے سودے سے جان چھڑا لی جائے، اتنا ہمارے لیے بہتر ہے۔
دودھ میں ملاوٹ، کھانے پینے کی چیزوں اور مسالوں میں ملاوٹ، حتیٰ کہ دوائیوں میں ملاوٹ تو سنی تھی، لیکن موجودہ حکومت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے اعداد وشمار میں ملاوٹ کے ذریعے معاشی ترقی کا ایک نادر کارنامہ انجام دیا ہے۔
معاشیات کے سارے ماہرین عام آدمی کے تجربات کی گواہی کی روشنی میں، یہ کہہ رہے تھے کہ ۲۰۱۰ئ-۲۰۰۹ء پاکستان کی معاشی تاریخ میں بہت ہی مشکل سال رہا ہے۔ معیشت، جن مشکلات سے دوچار رہی، ان میں بجلی اور گیس کا بحران، صنعتی پیداوار اور برآمدات میں کمی، سرمایہ کاری کی سست روی، مہنگائی کا طوفان، بے روزگاری میں اضافہ، روپے کی عالمی قیمت میں کمی قابلِ ذکر ہیں، اور ان سب عوامل کی وجہ سے خود اسٹیٹ بنک کی مارچ ۲۰۱۰ء تک کی تمام ہی رپورٹوں میں معیشت میں شرحِ نمو (growth rate) کے بارے میں اندازہ تھا کہ وہ ۵ئ۲ اور ۳فی صد کے درمیان ہوگی اور بہت زور لگایا تو شاید ۵ئ۳ فی صد ہوجائے۔ لیکن کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ بجٹ سے ایک ماہ پہلے مئی ۲۰۱۰ء میں حکومت یہ انکشاف کرے گی کہ سالِ رواں میں جی ڈی پی میں اضافہ ۱ئ۴ فی صد ہوگا۔ نیشنل اکائونٹس کمیٹی نے یہ اعلان کر کے سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا لیکن جب اس محیرالعقول تبدیلی کا سبب دریافت کیا گیا تو یہ حیران کن بات سامنے آئی کہ اس سال شرحِ نمو میں اضافہ دکھانے کے لیے گذشتہ دو سالوں کی شرحِ نمو پر نظرثانی کی گئی ہے تاکہ اس کی بنیاد (base) کو نیچے لے جاکر سالِ رواں میں ترقی کی رفتار کو زیادہ دکھایا جاسکے۔
پہلے دعویٰ کیا گیا ۰۸-۲۰۰۷ء میں ۱ئ۴ فی صد ترقی کا جو دعویٰ کیا گیا تھا وہ صحیح نہیں تھا، بلکہ اصل اضافہ ۷ئ۳ فی صد تھا۔ پھر نیا دعویٰ کیا گیا کہ یہ ۷ئ۳ فی صد نہیں ۳ئ۳ فی صد تھا اور اسی طرح ۰۹-۲۰۰۸ء میں اضافہ ۲ فی صد نہیں تھا، بلکہ صرف ۲ئ۱ فی صد تھا۔ اعداد وشمار میں اس رد وبدل کے نتیجے میں ۱۰-۲۰۰۹ء کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ متوقع اضافہ ۳ فی صد نہیں، بلکہ ۱ئ۴ فی صد ہے۔ گویا ۰۹-۲۰۰۸ء کے مقابلے میں ساڑھے تین گنا اضافہ ہوا ہے جسے ایک ’عظیم کرشما‘ ہی کہا جاسکتا ہے۔
جب پوچھا گیا کہ معیشت کے تمام بڑے بڑے مراکز تو کوئی اچھی صورت حال ظاہر نہیں کررہے اور خصوصیت سے توانائی کے بحران کی وجہ سے پیداوار میں یہ اضافہ قابلِ فہم نہیں ہے۔ اس کے جواب میں بتایا گیا کہ اصل اضافہ تعمیرات کے شعبے (construction industry)کی وجہ سے ہوا ہے، جس نے سالِ رواں میں ۱۵ فی صد کے حساب سے ترقی کی ہے، حالانکہ اسٹیل اور سیمنٹ دونوں، جو اس صنعت کے اہم ترین بنیادی اجزا ہیں، وہ تو مشکلات کا شکار رہے ہیں، پھر اس کے باوجود اس صنعت میں ۱۵ فی صد اضافہ کیسے ہوگیا؟ اس سوال کا کوئی معقول جواب پیش نہ کیا جاسکا۔ اسی طرح لائیوسٹاک میں بھی دگنا اضافے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ یوں اعدادوشمار کے ہیرپھیر سے معاشی ترقی کی رفتار میں اضافے کا شعبدہ دکھا دیاگیا۔ پاکستان کے کئی معروف ماہرین معاشیات، مثلاً ڈاکٹر ایس اکبر زیدی (ڈان، ۲۴ مئی ۲۰۱۰ئ) اور ڈاکٹر اشفاق حسین (دی نیوز، ۱۸ مئی ۲۰۱۰ئ) اور ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی (جنگ، ۲۵ مئی ۲۰۱۰ئ)نے اس ’کارنامے‘ پر اپنی حیرت کا اظہار کیا ہے۔ ڈاکٹر زیدی نے بڑی دردمندی سے ملکی معیشت کے ذمہ داروں کو بڑا مفید مشورہ دیا ہے، جسے ہم ہدیۂ ناظرین کرتے ہوئے ہم بھی حکومت کی ٹیم کو ان کے اس طبع زاد کارنامے پر داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے:
ان تمام عوامل کو دیکھتے ہوئے جنھوں نے گذشتہ دو برسوں میں پاکستان کی معیشت کو متاثر کیا ہے۔ میں نے ان میں سے صرف چند کو بیان کیا ہے۔ کوئی ایسا راستہ نظر نہیں آتا کہ پاکستانی معیشت میں اتنی معجزانہ بہتری رونما ہوسکے۔ اگر ایسا ہوا ہے، جیساکہ پاکستانی معیشت کے ذمہ داروں کا دعویٰ ہے کہ ہوا ہے، تو ہمیں ان کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ انھوں نے معاشی انتظامیات کی بنیادی منطق ہی کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ ضروری ہے کہ وہ اپنے کارناموں کے لیے ثبوت مہیا کریں، تاکہ دوسرے بھی سیکھ سکیں۔ (روزنامہ ڈان، ۲۴ مئی ۲۰۱۰ئ)