’’ایک ،دو، تین___ نہیں، یہ تو چار، پانچ، چھے درجن سے بھی زیادہ ہیں، جنھوں نے بی اے کی جعلی ڈگری کی بنیاد پر صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے انتخابات میں نشستیں حاصل کی ہیں‘‘۔ یقینی بات ہے کہ خود ہارنے والے امیدواروں کی بھی ایک بڑی تعداد نے ایسے ہی حلفیہ بیان داخل کرائے ہوں گے، جس میں غلط اعداد و شمار کے سچا ہونے کی قسم کھائی گئی تھی۔ یاد رہے کہ ایسے جھوٹے ارکانِ اسمبلی کی ایک قابلِ لحاظ تعداد کے ساتھ گذشتہ اسمبلیاں (۰۷-۲۰۰۲ئ) پانچ سال مکمل کرچکی ہیں، اور دوسری اسمبلیوں نے دو سال پورے کرلیے ہیں۔
یہ امر جس قدر افسوس ناک ہے، اپنے نتائج کے اعتبار سے اس سے بہت زیادہ سنگین ہے۔ جعلی ڈگریوں کے اجرا سے پیدا شدہ جرائم کا یہ سلسلہ، ان جعلی اور جھوٹے دعووں سے جاملتا ہے، جنھیں بعض مہاجرین نے متروکہ املاک کو ہتھیانے کے لیے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد استعمال کرنا شروع کیا تھا۔ اس لوٹ کھسوٹ میں چند بااثر تو مال و متاع لے اُڑے، مگر مہاجرین کی بہت بڑی تعداد اپنے جائز حق سے بھی محروم رہ گئی۔ نتیجہ یہ کہ حسرت، ناکامی اور محرومی کے اس زہر نے ہزاروں خاندانوں کے مستقبل کو ڈس لیا۔ جھوٹ کے اس کاروبار نے آنے والے دنوں میں قسم قسم کی سماجی بیماریاں پیدا کیں۔ مثال کے طور پر:
۱- پس ماندہ علاقوں کے بچوں کے لیے کوٹے کی محفوظ نشستوں پر شب خون مارنے کے لیے جعلی ڈومیسائل تیار کر کے اپنے بچوں کو ڈاکٹر، انجینیریا سول سرونٹ بنانا۔
۲- پی ایچ ڈی کی جعلی ڈگریاں حاصل کر کے معاشرے پر دھونس جمانا، ملازمت میں ترقیاں پانا، گریڈ حاصل کرنا، اور ماہانہ دس پندرہ ہزار روپے بھتہ وصول کرنا (اس قماش کی دھاندلی زدہ ڈگریوں میں خون پسینہ ہمسایے کا، سفارش دوست کی، ماہانہ وظیفہ ریاست کا اور صرف نام اپنا استعمال ہوتا ہے)۔
۳- صوبائی اور قومی اسمبلی کے لیے ۲۰۰۲ء میں لازم کیا گیا کہ کم از کم گریجوایٹ فرد اس انتخاب میں حصہ لے سکے گا۔ اس قانون کا احترام کرنے اور معقول طریقے سے اس کو تبدیل کرانے کے بجاے، قومی قیادت کے لیے سامنے آنے والوں کی ایک تعداد نے جعل سازی کا ارتکاب کیا اور جعلی ڈگریوں کے ساتھ کاغذات نامزدگی داخل کرائے اور الیکشن میں کامیابی حاصل کی۔
خاص طور پر ۱۹۵۵ء کے بعد وحدتِ مغربی پاکستان (ون یونٹ) کے زمانے سے، اور پھر بعد میں بھی جعلی ڈومیسائل کی بنیاد پر، پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں میں داخلہ حاصل کرنے کے لیے، سیاست دانوں اور اعلیٰ سرکاری ملازمین کی ملی بھگت نے پس ماندہ علاقوں میں احساسِ محرومی کو نہ صرف بڑھایا، بلکہ اس کے نتیجے میں مرکز گریز قوتوں کو وجود بخشا اور تقویت دی۔ دیکھا جائے تو اس دھاندلی سے محض چند سو طالب علموں نے حق داروں کی حق تلفی کی، لیکن جوابی ردعمل میں وہاں سے ملک کے کروڑوں شہریوں کو نفرت کا پیغام ملا۔ جن لوگوں نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی ہے، اور جو ریاست کے معاملات کے امین ہیں، ان کا یہ اقدام ملک سے بے وفائی، اختیارات کے ناجائز استعمال اور دھاندلی کا مرتکب قرار پایا، مگر قوم بے بسی میں ان کا احتساب تک نہ کرسکی۔
پہلی یہ کہ کچھ لوگوں کو وہم ہے کہ نام کے ساتھ ’ڈاکٹر‘ لگانے سے غالباً عزت میں اضافہ ہوتا ہے یا اس سے زندگی ذرا لمبی ہوجاتی ہے۔ حالانکہ یہ دونوں فضول وہم ہیں۔ جنرل محمد ضیا الحق مرحوم کی حکومت میں وزیرخزانہ ڈاکٹر محبوب الحق مرحوم نے پی ایچ ڈی کرنے والوں کے لیے چند ہزار روپوں کا اضافی الائونس دینے کا اعلان کیا، تو اس چیز نے ’عزت‘ کے بحران پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ ’جیب‘ گرم کرنے کا دروازہ بھی کھول دیا۔ یوں جائز، اہل اور محنتی محققین کے ساتھ فراڈ، نالائق اور جعلی ’ڈاکٹروں‘ کی بھی ایک فصل تیزی سے پک پک کر تیار ہونا شروع ہوئی۔
حکومت نے لوگوں کو تحقیق کے راستے پر چلنے کے لیے اُبھارا مگر یونی ورسٹیوں کے بعض اساتذہ نے یہاں بھی جرم کا ارتکاب کیا، انھوں نے اپنے ہاتھوں سے متعدد جعل سازوں کو ڈاکٹریٹ کی عباے فضیلت پہنانے کا گناہ کیا۔ اس ضمن میں اپنے گروہ کو نوازنے کے ’بے لوث‘ جذبے اور تعلقات کی برکھا نے جل تھل کردیا۔ ایسی ’پی ایچ ڈیوں‘ میں عموماً شعبہ ہاے اسلامیات، اور شعبہ ہاے ادبیات، پھر سماجیات، نمایاں نظر آتے ہیں۔ اگر گہرائی میں جاکر دیکھا جائے تو مذہبی طبقے کے ایک گروہ نے ایسی ڈاکٹریٹ حاصل کرنے میں زیادہ سرگرمی دکھائی ہے۔ بعض مقالے تو کسی ’گھوسٹ محقق‘ نے لکھے، پروف دوسرے لوگوں نے پڑھا اور بعض مقالے دس بارہ لوگوں نے انٹ شنٹ ٹکڑے جوڑ کر تیار کیے اور مستقبل کے ڈاکٹر صاحب نے، محض کمپوزنگ کرانے اور جِلد بنوانے کا کرب برداشت کیا۔ دوسری طرف ۵سو ڈالرفیس دے کراسپین یا امریکا سے ڈگریاں حاصل کرنے کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ طرفہ تماشا دیکھیے کہ ایسے مقالات پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری کا اعلان کرنے کے ساتھ، مقالے کی قدروپیمایش کرنے والے محققین کی اس راے کا پورا احترام کیا جاتاہے: ’’ڈگری دے دی جائے، مقالہ شائع کرنے کی اجازت نہ دی جائے‘‘۔ کیا ایسے مقالات میں ریاست کا کوئی خفیہ راز پوشیدہ ہوتا ہے یا کوئی مخرب اخلاق حوالہ؟ اصل میں یہ مقالے اس قابل نہیں ہوتے کہ اشاعت کے بعد یونی ورسٹی کی نیک نامی کا سبب بن سکیں۔ بعض دُوراندیش ڈاکٹر صاحبان تو انتظامیہ سے ملی بھگت کرکے اپنے مقالے کی کاپی لائبریری تک پہنچنے ہی نہیں دیتے، اور مقالے کا اسقاط اپنے یا یونی ورسٹی کلرکوں سے کراد یتے ہیں۔ اسی کو کہتے ہیں: آزادی! کس وقت شوکت تھانوی کا افسانہ ’سودیشی ریل‘ یاد آیا ہے۔
ان دوسری قسم کا تعلق بعض مذہبی عناصر سے جڑتا ہے۔ اگرچہ دینی مدارس کے اساتذہ کرام، تقویٰ، للہیت اور علم و ایثار میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، اور یہی وجہ ہے کہ جب وہ کاغذ کے ایک ٹکڑے پر لکھ کر دے دیا کرتے تھے کہ: ’’اس برخوردار سے مَیں نے سنا اور اسے پڑھانے کی اجازت دی‘‘ تو وہ فرد علما کی صف میں شامل ہوجاتا تھا۔ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے بجاطور پر دینی مدارس سے درسِ نظامی پاس کرنے والے طالب علموں کو ایم اے عربی اور ایم اے اسلامیات کے برابر تسلیم کرنے کا اعلان کیا ، تو اس چیز پر اظہارِ تشکر کے بجاے، مختلف فرقہ وارانہ مسالک نے اپنے امتحانی نظام میں لچک پیدا کی یا نمبر دینے میں سخاوت کا مظاہرہ کیا، یا اپنے ہم مسلکوں کو ڈگری دینے میں فراخ دلی کا ثبوت دیا۔ اس طرح وہ فضا پیدا ہوئی، جس میں خود دینی مدارس کے علماے کرام کو سخت دل گرفتگی میں یہ کہنا پڑا: ’’اس ایم اے کے برابر درجے کی ڈگری نے تو ہمیں سخت نقصان پہنچایا ہے۔ اس دوڑ میں شرکت کی خواہش نے حصولِ علم کی خواہش کو بُری طرح پامال اور گریڈ ۱۷ کی نوکری حاصل کرنے کی بھوک میں اضافہ کیا ہے‘‘۔ پھر ایسا بھی ہوا کہ بعض دینی مدارس کے بورڈوں نے اور بعض منتظمین نے وہ راستہ اختیار کیا، جس پر ندامت کے پسینے کے سوا اور کیا بہایا جاسکتا ہے۔ ان جملوں سے یہ نہ سمجھا جائے کہ تمام وفاق یا دینی مدارس کا ہرطالب علم اسی طرح کر رہا ہے، حاشا وکلا ایسا نہیں ہے، مگر اُوپر جو صورت بیان کی گئی ہے، اس کے بھی خاطرخواہ شواہد موجود ہیں۔ نقل یا دھاندلی ہر جگہ جرم ہے، لیکن اگر اس بیماری کا چلن مذہبی طبقے میں جڑ پکڑ لے تو صورت حال دھماکا خیز ہوجاتی ہے۔
تیسری قسم ہماری یونی ورسٹیوں اور کالجوں کے ان پروفیسر صاحبان پر مشتمل ہے، جنھوں نے ترقیاں پانے کے لیے، ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حصول میں ایسی خیانت کاری (plagarism) کی مثالیں پیش کی ہیں کہ سر ندامت سے جھک جاتا ہے۔ ان ’ڈاکٹروں‘ نے مقالوں کی تیاری میں حددرجہ جادوگری دکھائی ہے۔ یہ ایسا موضوع ہے جس پر الگ مضمون کی گنجایش ہے۔
پھر چوتھی صورت یہ سامنے آئی کہ جب بی اے کی ضرورت پورا کرنے کے لیے براہِ راست ایم اے کی ڈگری کے برابر مذہبی وفاق کی ڈگری مل سکتی ہے تو اس سے کیوں نہ استفادہ کیا جائے۔ اسی باعث ایک تعداد نے مذہبی بورڈوں کی ڈگری سے اپنی امیدواری کو ’جائز‘ بنایا۔ اگرچہ ایسی مثالیں درجن بھر ہی کیوں نہ ہوں، مسند ِ ارشاد و تقویٰ کے وارثوں کو سوچنا چاہیے کہ ان کی ساکھ کو کن ظالموں نے نقصان پہنچا کر جگ ہنسائی کا سامان مہیا کیا ہے۔
اس کے بعد ہے باری اُس نوعیت کی، جس کے تحت بی اے کی جعلی ڈگریاں لے کر دھڑلے سے انتخابات میں حصہ لیا گیا۔ ایسے ہرکیس کو بدترین جعل سازی بلکہ ڈاکا زنی اور دہشت گردی کا کیس تصور کرتے ہوئے تحقیقات کی جانی چاہیے۔ اگر پارلیمنٹ، سقراط کے الفاظ میں: ان لوگوں کا گڑھ نہیں ہے جو عوام کے بجاے صرف اپنے ہی مفاد پر نظر رکھتے ہیں۔ تو پھر انھیں اس بارے میں قانون سازی کرنا ہوگی۔ وگرنہ عدالت، عوام اور میڈیا اپنا راستہ خود تلاش کرلیں گے۔ اس پس منظر میں صرف ۲۰۱۰ء کی چند خبریں ملاحظہ فرمایئے:
اسی طرح پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما اور وفاقی وزیر عدل و قانون جناب بابر اعوان کی ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے بارے میں قوی شکوک و شبہات موجود ہیں، جب کہ وہ اس بات سے انکاری ہیں۔ بابر اعوان نے مونٹی سیلو [Monticello] یونی ورسٹی سے ڈگری لینے کا دعویٰ کر رکھا ہے، اور صورت یہ ہے کہ امریکی ایجوکیشنل فائونڈیشن (USEF) نے تصدیق کی ہے کہ: ’’یہ یونی ورسٹی نہ تو ڈگری پروگرام کرا سکتی ہے اور نہ پی ایچ ڈی کے کورس ہی پیش کرسکتی ہے، بلکہ اس نام نہاد یونی ورسٹی کو ۲۰۰۰ء میں اس نوعیت کے فراڈ کرنے پر ۱۷ لاکھ ڈالر جرمانہ کرکے بند کر دیا گیا تھا‘‘۔ پھر ہائرایجوکیشن کمیشن بھی اس یونی ورسٹی کو جعلی قرار دیتا ہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ق) فارورڈ بلاک کے رکن قومی اسمبلی میاں طارق محمود (گجرات) کی ڈگری بھی مشکوک ہے۔ اس میں دل چسپ امر یہ ہے کہ میاں طارق محمود (پیدایش: ۵مئی ۱۹۵۵ئ) ۱۹۷۱ء میں سرگودھا بورڈ سے میٹرک کا امتحان دینے کے لیے رجسٹرڈ ہوئے، مگر وہ میٹرک کا امتحان پاس نہ کرسکے۔ انھوں نے جس طارق محمود کی ۲۰۰۳ء کی گریجوایشن کی ڈگری جمع کروا کے نامزدگی منظور کرائی، اس طارق محمود کی تاریخ پیدایش ۲مارچ ۱۹۷۸ء ہے، اور اس نے گوجرانوالہ بورڈ سے ۱۹۹۵ء میں انٹر کا امتحان پاس کیا تھا۔ یاد رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی حاجی ناصر ایسی جعلی مذہبی ڈگری لینے کے جرم میں نااہل قرار پاچکے ہیں۔ جنرل مشرف کابینہ کے دو وزراے مملکت بھی جعلی ڈگریوں سے آراستہ تھے۔ سابق سینیٹر پری گل آغا کی ڈگری کو بھی چیلنج کیا گیا، مگر کوئی جواب دینے کے بجاے ۱۷ویں ترمیم جیسا کارنامہ انجام دے کر، وہ اپنی مدت پوری کرکے ریٹائر ہوئی ہیں۔ (روزنامہ، دی نیوز انٹرنیشنل، ۲۸ مارچ ۲۰۱۰ئ)
ذرا غور کیجیے کہ جن لوگوں نے جھوٹ کے بل بوتے پر حقِ نمایندگی حاصل کیا، ان کے ہاتھوں قانون سازی کی حیثیت کیا ہوگی۔ حیرت ہوتی ہے ان لوگوں پر جو ایسے لوگوں کو دوبارہ اپنی پارٹیوں میں نہ صرف شامل کر رہے ہیں، بلکہ انھیں پارٹی ٹکٹ اور عہدے بھی دے رہے ہیں (جعل سازی پر نااہل قرار پانے والے جمشید دستی کو بڑی دیدہ دلیری سے پیپلزپارٹی نے پھر قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے نامزد کیا اور وہ جیت بھی گئے)۔ اس میں زیادہ افسوس ناک طرزِعمل الیکشن کمیشن کا رہا ہے کہ جس نے ایسی عذرداریوں کی سماعت کے لیے سال ہا سال ضائع کیے، حالانکہ یہ مقدمے دو، تین پیشیوں سے زیادہ بحث و تفتیش کے متقاضی نہ تھے۔ یعنی یہی معلوم کرنا تھا کہ فلاں فرد نے جو بی اے کی ڈگری جمع کرائی ہے، کیا متعلقہ یونی ورسٹی اسے اپنے ریکارڈ کے مطابق درست قرار دیتی ہے؟ (ارکانِ اسمبلی کی ایسی دستاویزات کے اندرجات الیکشن کمیشن اپنی ویب سائٹ پر بھی مہیا کرسکتا تھا)۔ اسی طرح مذہبی بورڈوں سے منسوب ایسے مشکوک امیدواروں سے، عدالت میں قرآن، حدیث اور سبع معلقہ سے آٹھ آٹھ سطروں کا ترجمہ سن کر ان کی اہلیت کو متعین کیا جاسکتا تھا، بلکہ خود براہِ راست دینی امور پر بحث بھی اُن کی حقیقت کو بے نقاب کرسکتی تھی۔ (یہ کوئی انہونی بات نہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے میڈیکل کالجوں اور انجینیرنگ یونی ورسٹیوں میں داخلے کے لیے حافظِ قرآن امیدواروں کی محض سند کی بنیاد پر اہلیت کا فیصلہ نہیں کیا جاتا، بلکہ تین رکنی بورڈ براہِ راست ان امیدواروں سے قرآن سن کر ان کی اہلیت کا فیصلہ کرتا ہے)۔ لیکن افسوس کہ ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا، اور یہ نمایندے فریب کاری کرتے ہوئے، عزت کے مقام اور قانون سازی کی مسند پر بیٹھے مزے اُڑاتے رہے۔
کیا جناب جاوید اقبال کی اس خواہش کا حشر بھی ’این آر او‘ والے فیصلے پر عمل درآمد کے نام پر بلی چوہے کا کھیل تو نہیں بنا دیا جائے گا؟ مگر ظاہر ہے دعوے کا جواب دعویٰ بھی ہوتا ہے اور بقول ہیگل: Thesis کا Anti-Thesis۔ اسی کا نتیجہ دیکھیے کہ چیئرمین الیکشن کمیشن کے بیان کے چھے روز بعد اسی الیکشن کمیشن کے سیکرٹری صاحب فرماتے ہیں: ’’فروری ۲۰۰۸ء کے عام انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن میں ۷۰ پیٹشنز جعلی ڈگریوں سے متعلق تھیں۔ الیکشن کمیشن ان میں سے ۲۴ پر فیصلے دے چکا ہے۔ جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر گذشتہ عام انتخابات میں حصہ لینے والے نااہل نہیں ہیں‘‘ (روزنامہ نواے وقت، لاہور، ۱۳ مئی ۲۰۱۰ئ)۔ اس اُڑتی ہوئی دھول میں چیئرمین صاحب کا فرمایا سچ سمجھا جائے یا سیکرٹری صاحب کو معتبر جانا جائے۔ قانون کا احترام کیا جائے یا احکامِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پاس داری کی جائے۔
موشگافیوں کو چھوڑ کر حکومت کو چاہیے کہ وہ ان لوگوں کو، جو جعلی ڈگریاں لے کر مسندِ تدریس پر بیٹھے ہیں یا مسندِ حکومت پر براجمان ہیں، ان کو نااہل قرار دینے کے ساتھ، ان سے تمام وصول شدہ تنخواہوں، الائونسوں اور تحفوں کو نہ صرف واپس لے، بلکہ بھاری جرمانے بھی وصول کرے۔ مزید یہ کہ فراڈ کے جرم کی جو سخت ترین سزا ممکن ہے، اسے بھی ان پر نافذ کرے۔ احتساب اور شفافیت نے آخر کہیں سے تو اپنے سفر کا آغاز کرنا ہے۔ پاکستان کے عوام اس قافلۂ عدل کے مدتوں سے منتظر ہیں۔ شاید وہ گھڑی آن پہنچی ہے ، جب کہہ سکیں کہ ’ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘۔