جن اصحاب پر دعوت کا یہ تصور اپنی پوری وسعتوں کے ساتھ واضح نہیں ہے، اُن کو جماعت اسلامی کی بہت سی سرگرمیاں دعوت کے ماورا بلکہ دعوت سے متضاد معلوم ہوتی ہیں، اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دعوتِ دین کو پسِ پشت ڈال کر اسے ایک گونہ کمزور کر کے کچھ دوسرے سیاسی کام کیے جا رہے ہیں۔ اس قسم کے حضرات جماعت اسلامی کی دعوت کے کسی نئے مرحلے میں داخل ہونے پر بہت اُپراتے ہیں کہ یہ کیا ہونے لگا۔ چنانچہ جب جماعت ’مطالبۂ نظامِ اسلامی‘ کی ابتدائی تحریک لے کر آگے چلی تو بھی ان کو کھٹک ہوئی، پھر جب انقلابِ قیادت کی صدا بلند کی گئی تو اُس وقت بھی ان کو الجھن ہوئی، پھر جب شرکتِ انتخاب کا فیصلہ کیا گیا تو بھی ان کو شکایت ہوئی کہ جماعت دین سے سیاست کی طرف لڑھک گئی ہے۔ علیٰ ہذا القیاس، اب جب ’احتجاجی مظاہرے‘ کا نیا مرحلہ سامنے آیا تو اس پر اِن حضرات کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ کجا دعوتِ اسلامی اور کجا احتجاجی مظاہرے، حالانکہ یہ سب کچھ عین جائز اور حق ہے، اور یہ سب کچھ دعوتِ دین سے الگ نہیں۔
یہ دعوتِ دین کا تصور جب تک درست ہوکر اپنی پوری وسعتوں کے ساتھ ذہنوں میں جاگزیں نہ ہوگا، ہمارے بہت سے معترضین اور خیرخواہ جماعت اسلامی کے بارے میں صحیح راے قائم کرنے پر قادر نہ ہوسکیں گے۔ خدا جانے کہاں سے یہ عجیب و غریب تخیل بھی دلوں میں آگھسا ہے کہ جو دین کی دعوت دے، وہ بس دعوت ہی دے، کچھ اور نہ کرے۔ ایک داعی جماعت کے لیے یہ جائز نہیں سمجھا جاتا کہ وہ اقتدار پر تنقید کرے یا اُس سے کسی اجتماعی حق کا مطالبہ کرے، یا اُس کے مظالم کے خلاف احتجاج کرے۔ اس نظریے کے لیے خود دین میں کوئی دلیل نہیں ہے، بلکہ درحقیقت یہ بھی ایک نتیجہ ہے، جامد مذہبیت سے متاثر چلے آنے کا...
درحقیقت یہ بات پلّے باندھ لینے کی ہے کہ دعوتِ دین کے معنی یہ ہیں کہ اسلام کے نظام کو برپا کرنے کے لیے جتنے لوازم درکار ہوں ان کو فراہم کیا جائے اور جتنی رکاوٹیں حائل ہوں اُن کو راستے سے ہٹا دیا جائے۔ ان دونوں مقاصد کے لیے جائز حدود میں جو جو کچھ بھی اقدام کیے جائیں گے وہ سب دعوتِ دین کی تعریف میں داخل ہوں گے۔ ان میں سے کسی کے متعلق یہ نہیں کہاجاسکتا کہ یہ اقدام دعوت کو پسِ پشت ڈالنے والا ہے۔ یہ ہے صحیح تصورِ دعوت، اور اس تصورِ دعوت کے ساتھ کام کرنے والی جماعتوں اور تحریکوں کو بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ (’اشارات‘، ادارہ، ترجمان القرآن، جلد۳۴، عدد ۱،رجب ۱۳۶۹ھ، جون۱۹۵۰ئ، ص ۶-۸)