جون ۲۰۱۰

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| جون ۲۰۱۰ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

مہمان داری

سوال: میں اور میرے چند دوست اس بات کے قائل ہیں کہ مہمان کے لیے گھر میں جو کچھ حاضر ہو،لے آنا چاہیے۔ اس سے مہمان داری آسان ہوجاتی ہے (اگر میں خود کہیں مہمان بنوں تو بھی میزبان سے یہی توقع رکھتا ہوں)۔ لیکن احادیث میں تین دن تک مہمان کی خصوصی میزبانی کی تاکید آئی ہے۔ کیا ان احادیث کی روشنی میں ہمارے رویّے کو درست قرار دیا جاسکتا ہے؟ اگرچہ معقول آمدنی بھی ہو لیکن مہنگائی کا مسئلہ بھی اپنی جگہ ہے اور وقت کی کمی بھی آڑے آتی ہو؟

جواب: مہمان داری کی حدود کیا ہیں اور قرآن وسنت اس سلسلے میں کیا رہنمائی فراہم کرتے ہیں، ایک تفصیل طلب سوال ہے۔ جو نکات آپ نے اپنے سوال میں اٹھائے ہیں ان پر اختصار کے ساتھ یوں غور کیا جاسکتا ہے:

اوّلاً: مہمان یا سفر کر کے آنے والے مہمان کے لیے کھانے پینے کا معقول بندوبست کرنا۔ حضرت ابراہیم ؑ کے پاس جب دو مہمان آئے تو ان کے لیے دُنبے کا ذبح کرنا اور ان کے سامنے وافر مقدار میں کھانا پیش کرنا سنت ِ ابراہیمی ؑاور ان کی اُمت کے لیے ایک عملی مثال ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ گو حضرت ابراہیم ؑ ہماری طرح گھر میں جو دال دلیہ موجودہوتا پیش کرسکتے تھے لیکن انھوں نے مہمانوں کے اکرام اور تواضع کے لیے خصوصی طور پر دُنبے ذبح کروا کے کھانا تیار کرایا۔ گویا عام روزمرہ کے کھانے کے مقابلے میں زیادہ اہتمام کیا گیا۔

یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ موجودہ دور میں جب وقت میں برکت نہیں رہی، اور معاشی مسائل نے افراد کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، ایسے میں روز مہمانوں کے لیے بڑے پیمانے پر تواضع کا اہتمام کرنا مشکل ہے، تاہم یہاں اس پہلو سے بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ وقت اور مال کی برکت میں کمی کیوں آئی ہے؟ کیا اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے بھائی کے لیے وہ پسند نہیں کرتے جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ اپنی ضروریات کا معاملہ ہو تو دل کھول کر خرچ کریں لیکن اگر کوئی مہمان آئے تو سادگی کی دلیل کے سہارے کم سے کم اہتمام کیا جائے۔ بلاشبہہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اسراف کو پسند نہیں فرماتے اور کھانے پینے کے حوالے سے یہ اصول بیان کردیا گیا کہ کھائو پیو لیکن اسراف نہ کرو (الاعراف ۷:۳۱)۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات پھر بھی ثابت نہیں ہوتی کہ مہمان کو صرف دال دلیہ پر ٹرخا دیا جائے اور خود لذیذ کھانے کھائے جائیں۔ ہمارے ہاں تو مہمان نوازی کرتے ہوئے خود بھوکا رہنے، بچوں کو بھوکا سُلانے کی روایت بھی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے سراہا ہے۔

تین دن تک مہمان داری کا مفہوم بھی یہی سمجھ میں آتا ہے کہ اس عرصے میں مقابلتاً زیادہ اہتمام کیا جائے، اور پھر مہمان کو گھر کے افراد کی طرح سے عزت و احترام کے ساتھ اکل و شرب میں شریک کیا جائے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ تین دن بعد مہمان کو چلے جانے کے لیے کہا جائے۔

عملی طور پر اگر دیکھا جائے تو رزق کا وعدہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے نہ صرف انسانوں بلکہ پرندوں سے بھی کیا ہوا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ وہ اپنا کھانا ساتھ اٹھائے نہیں پھرتے اور گو صبح کو خالی پیٹ نکلتے ہیں لیکن شام کو بھرے پیٹ کے ساتھ اپنے مسکن پر واپس آتے ہیں۔ گویا ہر مہمان جو آتا ہے وہ اپنا رزق اللہ کی طرف سے لے کر آتا ہے اور اس کی آمد کی بنا پر گھروالوں کو بھی روز مرہ کے کھانے سے مقابلتاً بہتر کھانا مہمان کے بہانے کھانے کو مل جاتا ہے۔

مہمان داری کے لیے بنیادی شرط خلوصِ نیت ہے۔ اگر مہمان کا استقبال یہ کہہ کر کیا جاتاہے کہ اھلًا وسھلًا تو پھر اسے اپنے گھر والوں کی طرح معقول غذا اور آرام پہنچانا میزبان پر فرض ہوجاتا ہے۔ بجٹ لازمی طور پر ایک حقیقت ہے لیکن خلوصِ نیت سے مہمان داری برکت و سعادت کا باعث ہوتی ہے۔ تاہم، بے جا تکلف اور اِسراف سے بچنے کا بھی اہتمام ہونا چاہیے۔ اپنے وسائل میں رہتے ہوئے مہمان کی تواضع اور خاطرداری، اسلامی آداب میں سے شامل ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


روزمرہ استعمال کی چیزیں عاریتاً دینے میں قباحت

س: روزمرہ استعمال کی اشیا دوسروں کو نہ دینا کوئی اچھی بات نہیں اور اسلام نے اس کی ممانعت بھی کی ہے۔ وَیَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ (الماعون ۱۰۷:۷) ’’اور معمولی ضرورت کی چیزیں (لوگوں کو) دینے سے گریز کرتے ہیں‘‘۔ یہ اچھا بھی نہیں لگتا کہ استعمال کی کوئی چیز ہمارے گھر میں پڑی رہے اور کسی کے کام نہ آئے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں لوگ چیزوں کو عموماً صحیح استعمال نہیں کرتے بلکہ خراب کردیتے ہیں۔ ہماری اپنی گاڑی، اسکوٹر سے لے کر بیلچا اور کدال تک عموماً دوسروں کے ہاں سے خراب ہوکر واپس آتے ہیں، یا بروقت واپس نہیں آتے اور یوں پریشانی اٹھانا پڑتی ہے۔  پھر آج کل چیزیں خریدنا بھی مشکل ہے۔ ایسے میں کیا کرنا چاہیے؟

ج: عام استعمال کی اشیا دوسروں کو عاریتاً دینا اخوت، اتحاد اور ایثار کے جذبے کو تقویت دینے کا ایک ذریعہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی درست ہے کہ عموماً لوگ عاریتاً لی ہوئی چیز کو احتیاط سے استعمال نہیں کرتے۔ نتیجتاً چیز دینے والے کو تکلیف اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن کیا ہاتھ کی پانچوں انگلیاں برابر ہوتی ہیں؟ اگر افراد طبائع کے لحاظ سے یکساں نہیں ہوسکتے تو ہمارا یہ تصور کرنا کہ ہروہ شخص جو کوئی چیز عاریتاً لے گا، اسے خراب کرکے ہی لائے گا، درست خیال نہیں کہا جاسکتا۔

اصل مسئلہ افراد کی تعلیم و تربیت اور ان میں احساسِ ذمہ داری کے پیدا کرنے کا ہے۔ ہمارے نظامِ تعلیم اور گھر کے ماحول میں اس پہلو سے سخت کمی پائی جاتی ہے۔ عاریتاً کوئی چیز دینے سے انکار کرنے کے بجاے ہمیں دوسروں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہیے کہ جس حال میں ایک چیز دی جارہی ہے اسی میں واپس آئے۔ بتدریج افراد کی اصلاح ہوگی اور ان میں احساس ذمہ داری پیدا ہوگا۔ تاہم، اگر بار بار توجہ دلانے پر بھی کسی کی اصلاح نہ ہو تو معذرت کی جاسکتی ہے۔(ا-ا)


الوداعی پارٹی یا استقبالیہ کا جواز

س: فوجی و سرکاری ملازمین ایک دوسرے کو الوداعی پارٹی یا استقبالیہ دیتے ہیں۔ الوداعی پارٹی دینے والے حضرات جو اس کے اخراجات برداشت کرتے ہیں وہ بعد میں آنے والے لوگوں سے پارٹی اور تحفہ رخصت ہوتے ہوئے لیں گے۔ گویا جانے والوں نے جو کچھ کھایا یا جو بصورت تحفہ وصول کیا اس کا خرچ موجود لوگ دیتے ہیں اور موجودہ لوگ جب جائیں گے تو بعد میں آنے والے اس کے اخراجات برداشت کریں گے۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ کیا ایسی پارٹی یا تحفہ وصول کرنے کا شرعی جواز ہے؟

ج: فوجی یا سرکاری ملازمین کا اپنے بھائیوں کو الوداعی یا استقبالیہ پارٹی دینا ایک اچھی روایت ہے۔ اس میں ممانعت کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ اس میں صرف اس قدر احتیاط سے کام لینا چاہیے کہ یہ اسراف و تبذیر اور فخر و مباہات سے خالی ہو۔ اس میں ادلے کا بدلہ والی بات نہیں ہے۔ اس لیے کہ جانے والے کو جنھوں نے کھانا دیا ہے، جب کھانا دینے والوں کی باری آئے گی تو انھیں جانے والا نہیں بلکہ اسی پوسٹ اور منصب کے دوسرے احباب کھانا دیں گے اور وہ بھی اس نیت سے کھانا نہیں دیں گے کہ جانے والے انھیں کھانے کے بدلے میں کھانا دیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تو یہ تھا کہ کسی نے آپ کو ہدیہ دیا تو آپ اسے موقع ملنے پر ہدیہ پیش کیا کرتے تھے۔ ہدیے اور ہبہ کا بدلہ دیا کرتے تھے۔ یہ ایک اخلاقی طریقہ ہے جس کی رہنمائی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے۔ واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)


کاروبار میں والد کے ساتھ اولاد کی شرکت

اسلامی فقہ اکیڈمی کا انیسواں سیمی نار صوبہ گجرات کے ضلع بھروچ کے معروف علمی ادارہ ’جامع مظہر سعادت ہانسوٹ‘ میں ۲۷ تا ۳۰ صفرالمظفر ۱۴۳۱ھ، مطابق ۱۲ تا ۱۵ فروری ۲۰۱۰ء بروز جمعہ تا دوشنبہ منعقد ہوا۔ سیمی نار کے اختتام پر کئی اہم فقہی مسائل پر سفارشات پیش کی گئیں۔ کاروبار میںوالد کے ساتھ اولاد کی شرکت کے مسئلے پر کئی عملی مسائل پیش آتے ہیں۔ اس حوالے سے فقہی رہنمائی پیش ہے۔ (ادارہ)

شریعت اسلامیہ نے مسلمانوں کو معاملات صاف رکھنے کی طرف خاص توجہ دلائی ہے، اس لیے مسلمان اپنی معاشرت میں معاملات صاف رکھنے کا خاص اہتمام کریں، خصوصاً تجارت اور کاروبار میں اس کی اہمیت بہت ہی زیادہ ہے۔ ایک شخص تجارت کر رہا ہے، اور اس کی اولاد بھی اس کاروبار میں شریک ہے تو جو بیٹے باپ کے ساتھ کاروبار میں شریک ہورہے ہیں، ان کی حیثیت (شریک، اجیر یا معاون کے طور پر) شروع سے متعین ہوجائے تو خاندانوں میں ملکیت کے اعتبار سے جو نزاعات پیدا ہوتے ہیں ان کا بڑی حد تک سدباب ہوجائے گا۔ اس لیے اس طرح کے معاملات میں پہلے سے حیثیت متعین کرنے کا اہتمام کیا جائے۔

اگر والد نے اپنے سرمایے سے کاروبار شروع کیا، بعد میں اس کے لڑکوں میں سے بعض شریک کار ہوگئے، مگر الگ سے انھوں نے اپنا کوئی سرمایہ نہیں لگایا اور والد نے ایسے لڑکوں کی کوئی حیثیت متعین نہیں کی، تو اگر وہ لڑکے باپ کی کفالت میں ہیں تو اس صورت میں وہ لڑکے والد کے معاون شمار کیے جائیں گے اور اگر باپ کی زیرکفالت نہیں ہیں تو عرفاً جو اُجرتِ عمل ہوسکتی ہے، وہ ان کو دی جائے۔

اگر والد کے ساتھ بیٹوں نے بھی کاروبار میں سرمایہ لگایا ہو اور سب کا سرمایہ معلوم ہو کہ کس نے کتنا لگایا ہے تو ایسے بیٹوں کی حیثیت باپ کے شریک کی ہوگی، اور سرمایے کی مقدار کے تناسب سے شرکت مانی جائے گی، سواے اس کے کہ سرمایہ لگانے والے بیٹے کی نیت والد کے یا مشترکہ کاروبار کے تعاون کی ہو شرکت کی نہ ہو۔

اگر کاروبار کسی لڑکے نے اپنے ہی سرمایے سے شروع کیا ہو لیکن بہ طور احترام دکان پر والد کو بٹھایا ہو یا اپنے والد کے نام پر دکان کا نام رکھا ہو، تو اس صورت میں کاروبار کا مالک لڑکا ہوگا۔ والد کو دکان پر بٹھانے یا ان کے نام پر دکان کا نام رکھنے سے کاروبار میں والد کی ملکیت و شرکت ثابت نہ ہوگی۔

باپ کی موجودگی میں اگر بیٹوں نے اپنے طور پر مختلف ذرائع کسب اختیار کیے اور اپنی کمائی کا ایک حصہ والد کے حوالے کرتے رہے تو اس صورت میں باپ کو ادا کردہ سرمایہ باپ کی ملکیت شمار کی جائے گی۔

اگر کسی وجہ سے والد کا کاروبار ختم ہوگیا لیکن کاروبار کی جگہ باقی ہو، خواہ وہ جگہ مملوکہ ہو یا کرائے پر حاصل کی گئی ہو، اور اولاد میں سے کسی نے اپنا سرمایہ لگاکر اسی جگہ اور اسی نام سے دوبارہ کاروبار شروع کیا، تو اس صورت میں جس نے سرمایہ لگاکر کاروبار شروع کیا، کاروبار اس کی ملکیت ہوگا، والد کی نہیں۔ لیکن وہ جگہ (خواہ مملوکہ ہو یا کرایے پر لی گئی ہو) دوبارہ کاروبار شروع کرنے والے کی نہیں بلکہ اس کے والد کی ہوگی۔ والد کی وفات کی صورت میں اس میں تمام ورثا کا حق ہوگا، اور اسی طرح کاروبار کی گڈوِل بھی باپ کا حق ہے اور اس کی وفات کے بعد تمام ورثا کا حق ہوگا۔

اس موضوع سے متعلق سماج میں پیش آنے والے مختلف مسائل ہیں جن کو واضح کرنے اور عام مسلمانوں کو ان سے واقف کرانے کی ضرورت ہے۔ اس لیے یہ اجتماع اکیڈمی سے اپیل کرتا ہے  کہ وہ اس سلسلے میں ایک مفصل رہنما تحریر تیار کرے اور ان میں جو مسائل قابلِ تحقیق ہوں    حسب ِ گنجایش آیندہ منعقد ہونے والے سیمی ناروں میں انھیں اجتماعی غوروفکر کے ذریعے طے کرے۔

ائمہ و خطبا اور علماے کرام سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقے میں معاملات کی بہتری کے سلسلے میں ذہن سازی کریں، اور شرکت و میراث وغیرہ کے جو شرعی اصول و احکام ہیں ان سے لوگوں کو آگاہ کریں۔ خاص طور پر والدین ، اولاد، بھائیوں اور میاں بیوی کے درمیان شرکت کے مسائل سے واقفیت ضروری ہے۔