بسم اللہ الرحمن الرحیم
کسی ملک میں جمہوری نظام کے قیام اور استحکام کے لیے اوّلین شرط یہ ہے کہ وہاں انتخابات آزاد اور شفاف طریقے سے، اور مقررہ وقت پر ہوں۔ لیکن اس سے بڑی مبالغہ آمیزی بلکہ خودفریبی ممکن نہیں کہ محض انتخابات کو جمہوریت کے لیے کافی سمجھ لیا جائے۔ پھر ’عوامی عدالت‘ کے گمراہ کن نعرے کا سہارا لے کر یہ دعویٰ کیا جائے کہ: ’’انتخاب جیتنے کے بعد حکمرانوں کو اپنی من مانی کا کُلی اختیار حاصل ہوگیا ہے، اور ہرقیمت پر انھیں ایک متعین مدت کے لیے حکمرانی کے غیرمحدود اختیارات حاصل ہوگئے ہیں‘‘۔ ایسی سوچ نہ تو جمہوری ہے اور نہ دیانت و شائستگی کی عکاس۔
جمہوریت کی اصل بنیاد: قانون کی حکمرانی، مسلسل مشاورت کا نظام اور ہرقدم پر دستور، قانون، پارلیمنٹ اور عوام کے سامنے جواب دہی کے اصولوں پر قائم ہے۔ خصوصیت سے جن ممالک میں تحریری دستور ہے، ان کے بارے میں تو اس معاملے میں دو آرا ممکن نہیں کہ دستور ہی مملکت کا اساسی قانون ہے اور ریاست کا ہر ادارہ دستور کی تخلیق (creation) اور دستور کے مقرر کردہ حدود کا پابند اور اختیارات کا امین ہے۔
یہ عوام کا حق ہے اور ان کی ذمہ داری بھی، کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے پارلیمنٹ کا انتخاب کریں اور ارکانِ پارلیمنٹ اس دستور کی حدود میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔ ریاست کے تمام ادارے بشمول پارلیمنٹ، انتظامیہ، عدلیہ، فوج اور ذرائع ابلاغ اپنے اپنے دائرے میں پوری آزادی، ذمہ داری اور جواب دہی کے ساتھ اپنا منصبی کردار ادا کریں۔ پارلیمنٹ کا کام یہ ہے کہ وہ قانون سازی، ملک کی خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کی صورت گری، انتظامیہ کا انتخاب اوراس کی کارکردگی کی نگرانی کرے۔ اسی طرح انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون کی پاس داری اور پالیسی سازی کے ساتھ، پارلیمنٹ اور عدلیہ کے فیصلوں کی مکمل تنفیذ کا اہتمام کرے۔ عدلیہ انصاف کی فراہمی، قانون پر عمل درآمد، اور دستور اور قانون کی تعبیر وتشریح کا فریضہ انجام دے، نیز عوام اور تمام اداروں کے بنیادی حقوق کی حفاظت اور نگہبانی کی ذمہ دار ہو۔ میڈیا کی آزادی اور بنیادی حقوق کی ضمانت ہی وہ ماحول پیدا کرتے ہیں جس میں جمہوریت پھل پھول سکتی ہے۔
ایک مہذب معاشرے میں کسی ایک ادارے کی دوسرے پر بالادستی کوئی مسئلہ نہیں ہوتی، بلکہ دستور کی بالادستی کی حدود میں ہر ادارے کو اپنا اپنا وظیفہ، آزادی اور ذمہ داری سے اداکرنے کا موقع فراہم کرنا چاہیے۔ اس تناظر میں موجودہ وفاقی حکومت نے جو طریق کار اپنایا ہے، وہ جمہوریت کے مستقبل کے لیے گوناگوں مشکلات اور خطرات کو جنم دے رہا ہے۔ اس لیے یہ بے حد ضروری ہے کہ ملک کی تمام جمہوری قوتیں ہوش مندی کا مظاہرہ کریں اور دستور کی پاس داری اور جمہوریت کے حقیقی فروغ کے لیے سینہ سپر ہوجائیں کہ اس نازک وقت میں معمولی سی لغزش بھی بڑے بھیانک اور خطرناک نتائج کا سبب بن سکتی ہے۔ گویا ع
یک لحظہ غافل گشتم و صدسالہ راہم دور شد
جنرل پرویز مشرف کا نوسالہ دورِ اقتدار (۱۹۹۹ئ-۲۰۰۸ئ) پاکستان کی تاریخ کا تاریک ترین دور ہے۔ اس زمانے میں جمہوریت کے ہراصول کو بڑی بے دردی سے پامال کیا گیا۔ دستور کی شکل بگاڑ دی گئی اور تمام دستوری و آئینی اداروں کو اپنی اپنی قانونی حدود میں کام کرنے کے مواقع سے محروم کر دیا گیا۔ فوج کی قوت کے ناجائز استعمال کے ذریعے شخصی آمریت کا نظام قائم کیا گیا۔ پارلیمنٹ، عدلیہ اور معاشرے کے اجتماعی اداروں کو غیرمؤثر کردیا گیا۔ فیڈریشن کے مسلّمہ اصولوں کے برعکس ایک طرز کا وحدانی نظام ملک پر مسلط کردیا گیا۔ دو صوبوں میں فوجی آپریشن کے ذریعے دستوری انتظام اور وسیع علاقوں کے امن و سکون کو درہم برہم کر دیا گیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک طرف پاکستان کے نظریاتی، تہذیبی اور اخلاقی تشخص کو تباہ و برباد کیا گیا، تو دوسری طرف امریکا کی محکومی کا وہ راستہ اختیار کیا گیا جس کے نتیجے میں سیاست، معیشت، ثقافت، تعلیم، غرض زندگی کا ہر شعبہ امریکا اور اس کے کارپردازوں کی گرفت میں آگیا۔ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر امریکی شعلہ باری نے پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ امریکی حکام اور سفارت کار ہرمعاملے میں دخیل اور ہرپالیسی پر اثرانداز ہوگئے اور قوم عملاً اپنی آزادی سے محروم ہوگئی، نیز سالہا سال سے فوج اور قوم کے درمیان اعتماد اور محبت کا جو رشتہ تھا، اسے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ معاشی اعتبار سے بھی ملک ایسی صورت حال سے دوچار ہوگیا جس میں ترقی کا عمل منجمدہوکر رہ گیا۔ مالی نقصانات ۴۵سے ۵۰ بلین ڈالر کی حدوں کو چھونے لگے اور ملک بیرونی اور ملکی قرض کے پہاڑ تلے دبتا ہی چلاگیا۔ ان حالات میں طاقت کے نشے میں مست جنرل پرویز مشرف نے ۹مارچ ۲۰۰۷ء اور پھر ۳نومبر ۲۰۰۷ء کو ملک کی اعلیٰ عدلیہ پر بھرپور وار کیے، اور اس زعم پر کیے کہ وہ بلاشرکت غیرے حاکمِ مطلق ہے اور ہر ادارے کو اپنی مٹھی میں لے کر اپنے لامتناہی اقتدار کو مستحکم کرسکتا ہے، مگر اللہ کا منصوبہ کچھ اور تھا اور چیف جسٹس، اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان، ملک کی وکلابرادری، سیاسی کارکن، سول سوسائٹی اور میڈیا کے پُرعزم کارکنوں کی عوامی تحریک نے حالات کا رُخ تبدیل کر دیا۔
جنرل پرویز مشرف نے ایک آخری وار، سیاسی قوتوں کو تقسیم کرنے، بدعنوانیوں اور کرپشن کی دھلائی (laundering) کے لیے این آر او کی شکل میں کیا۔ ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کو اپنے ساتھ ملا کر شراکت ِاقتدار کا ایک نیا بندوبست کرنے کی کوشش کی۔ مئی ۲۰۰۶ء میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے ایک اہم معاہدہ ’میثاقِ جمہوریت‘ کی شکل میں کیا تھا، جسے جمہوری جدوجہد کی تاریخ میں ایک سنگِ میل قرار دیا جا رہا تھا۔ اس کے ذریعے ان دو بڑی جماعتوں نے نہ صرف یہ کہ ماضی میں اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا بلکہ آیندہ کے لیے ایک جمہوری لائحہ عمل (روڈمیپ) قوم کو دینے کی کوشش کی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ اور جمہوریت کی طرف سفر کے باب میں یہ دستاویز چند جزوی کمزوریوں کے باوجود، ایک بڑا مثبت قدم تھی۔ اس میثاق میں ان دونوں جماعتوں نے خود آپس میں اور پوری قوم سے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ آیندہ ان میں سے کوئی بھی فوجی طالع آزمائوں سے کسی طرح کا معاملہ نہیں کرے گا، اختلافِ راے کے باوجود ایک دوسرے کو برداشت کریں گے اور ملک میں حقیقی جمہوریت، یعنی قانون کی حکمرانی، بنیادی حقوق کی پاس داری، دستور کی ۱۹۹۹ء کی شکل میں بحالی، آزاد اور شفاف انتخابات اور عدلیہ کی آزادی کے لیے جدوجہد کریں گے۔
حالات کی ستم ظریفی ہے کہ ادھر یہ معاہدہ ہو رہا تھا اور دوسری طرف جنرل پرویز مشرف اور پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کے درمیان خفیہ ملاقاتوں میں شراکتِ اقتدار کے نئے شاطرانہ انتظام کے تانے بانے ’این آر او‘ کی شکل میں مرتب کیے جا رہے تھے۔ اس انتظام میں امریکا اور برطانیہ دونوں کی حکمران قیادتیں شریک اور ضامن تھیں۔ اس سیاسی بندوبست کو آخری مراحل تک خفیہ رکھنے کی کوشش کی گئی، لیکن بالآخر بلی تھیلے سے باہر آگئی۔ اب تو بے نظیر بھٹو صاحبہ کے قتل کے بارے میں اقوامِ متحدہ کے کمیشن کی رپورٹ میں ہرچیز بہت ہی صاف لفظوں میں ساری دنیا کے سامنے رکھ دی گئی ہے۔ اس داستان سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت نے ’میثاقِ جمہوریت‘ کی کھلی خلاف ورزی کی اور جنرل مشرف کے ساتھ اشتراکِ اقتدار کا بندوبست کیا، جسے تاریخ نے درہم برہم کردیا۔ انجامِ کار پیپلزپارٹی پر سیاسی بے اعتمادی اور اصول فروشی کا ایسا دھبّا لگ گیا،جسے مٹایا نہیں جاسکے گا۔
اس پس منظر میں ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات ہوئے، جن میں عوام نے ایک طرف جنرل پرویز مشرف اور اس کے سیاسی حلیفوں کو یکسر مسترد کر دیا۔ دوسری طرف بنیادی تبدیلی کی توقع پر سیاسی جماعتوں کو اس طرح ووٹ دیا کہ کوئی ایک جماعت واضح اکثریت میں نہ آسکی۔ یوں سیاسی جماعتوں کے پاس مخلوط حکومت کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ رہا۔ شروع میں ایک بار پھر میثاقِ جمہوریت پر دستخط کرنے والی جماعتوں نے مل کر حکومت قائم کرنے کی کوشش کی مگر نت نئی وعدہ خلافیوں اور سیاسی چال بازیوں سے ساجھے کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹ گئی۔ یہاں سے مفادپرستی کی سیاست کا نیا دور شروع ہوگیا۔ تمام ہی سیاسی جماعتوں نے، بشمول ان جماعتوں کے جنھوں نے اپنے اصولی موقف کی وجہ سے انتخابات میں شرکت نہیں کی تھی، مگر سب یہ چاہتے تھے کہ آمریت سے نجات، فوج کی سیاست میں عدم مداخلت اور نئے جمہوری سفر کی پیش رفت کی جائے۔ جس کی منزل دستور اور قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی، پارلیمنٹ کی بالادستی، بنیادی حقوق کی پاس داری، سماجی انصاف اور معاشی خوش حالی کا حصول ہو۔ اس کے لیے اختلافات کی آگ کو ٹھنڈا کیا جائے اور قومی یک جہتی کی فضا پیدا کی جائے۔ جو بھی حکومت اس جمہوری دور کے آغاز میں قائم ہوگئی، اسے کام کرنے کا موقع دیا جائے۔ مشترکہ نکات میں تعاون کی راہیں تلاش کی جائیں اور انھیں کشادہ بھی کیا جائے، تاکہ ملک میں حقیقی جمہوریت کی طرف پیش رفت کا باب کھل سکے۔
یہی وجہ تھی کہ وزیراعظم کے انتخاب کے موقع پر سب جماعتوں نے اتفاق راے سے جناب سید یوسف رضا گیلانی کی تائید کی اور ۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ء کو پارلیمنٹ نے آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل، قومی سلامتی کے نئے مثالیہ (paradigm) کی تشکیل اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے نمٹنے کے لیے نئی حکمت عملی کے متفقہ خطوط مرتب کیے۔ پھر اسی اسپرٹ میں تمام جماعتوں نے مکمل اتفاق راے سے دستور کو ۱۹۹۹ء کی صورت سے قریب ترین شکل میں بحال کرنے کے لیے اٹھارھویں دستوری ترمیم تیار کی اور اسے متفقہ طور پر منظور کیا۔
گذشتہ ۲۷ مہینوں میں یہ مثبت پیش رفت ہوئی، لیکن ہمیں بہت دکھ سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ مرکز میں جو حکومت اس زمانے میں برسرِاقتدار رہی ہے، اس نے یکسوئی اور اصول پرستی کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ خصوصیت سے پیپلزپارٹی اور اس میں بھی جناب آصف علی زرداری اور ان کے منظورِنظر گروہ نے ایک متوازی حکمت عملی پر عمل کیا۔ اپنے مخصوص مفادات کے تحفظ کے لیے عوام کے مینڈیٹ اور پارلیمنٹ کے متفقہ موقف کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے جو راستہ اختیار کیا، اس نے جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی پر چلنے کے مواقع سے محروم کر دیا۔ نتیجہ یہ سامنے آیا کہ ملک کو اداروں اور سیاسی اور دینی قوتوں کے درمیان کش مکش، ٹکرائو اور تصادم کی راہ پر ڈال دیا گیا۔ اس سلسلے میں جو رجحانات بہت کھل کر سامنے آگئے ہیں، ان میں سے اہم ترین یہ ہیں:
مفاہمت کے نام پر صرف مفادات کے تحفظ کا کھیل کھیلا گیا اور جو وعدے عوام سے کیے گئے تھے، ان سے سوچے سمجھے انداز میں انحراف کا راستہ اختیار کیا گیا۔ چونکہ حکومت کمزور تھی، اس لیے جب حالات نے مجبور کیا تو پسپائی اختیار کی، لیکن کج روی کی مسلسل روش کوترک نہیں کیا۔ اس کی سب سے اہم مثال عدلیہ کے ساتھ اس حکومت کا رویہ ہے۔ وزیراعظم نے حلف اٹھاتے ہی ججوں کی حراست کو ختم کر دیا جس سے بڑی توقعات پیدا ہوئیں، لیکن پھر طرح طرح کے شوشے چھوڑ کر عدلیہ کی بحالی کو معرضِ التوا میں ڈال دیا گیا۔ کبھی دستور میں ترمیم کی بات کی، کبھی پارلیمنٹ کی قرارداد کا فسانہ گھڑا، کبھی وکلا کو تقسیم کرنے کا کھیل کھیلا اور ان چال بازیوں میں ایک سال ضائع کر دیا۔ بالآخر عوامی تحریک کے نتیجے میں جب ۱۵ مارچ ۲۰۰۹ء کو حالات حکومت کی گرفت سے نکلتے نظر آئے، اور مقتدر قوتوں نے بھی تعاون سے دست کش ہونے کا عندیہ دیا تو ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے عدلیہ کو بحال کر دیا گیا، اس طرح ایک طوفان ٹل گیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ماضی کی سیاسی قوتوں کی طرح اس حکومت نے بھی یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ آزاد عدلیہ سے خائف ہے اور ہرممکن طریقے سے عدلیہ کو اپنے دبائو میں رکھنے کی بار بار کوشش کرتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اللہ کی مشیت کے تحت اس کی ہرچال ناکام ہوئی، اور اسے ہر بار پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ عدلیہ میں تقرریوں کے معاملے پر جو تنازع کھڑا کیا گیا اس کے دوران دھمکی آمیز انداز میں یہاں تک کہہ دیاگیا کہ عدلیہ کو محض ایک نوٹیفیکیشن سے بحال کیا گیا ہے، پارلیمنٹ نے تو ابھی قرارداد منظور نہیں کی۔
اس طرح یہ تاثر دیا گیا کہ ہم کسی وقت بھی پانسہ پلٹ سکتے ہیں۔ لیکن حکمران یہ بھول گئے کہ عدلیہ کی بحالی محض ان کے نوٹیفیکیشن سے نہیں، عوامی تحریک کے دبائو کے نتیجے میں واقع ہوئی تھی، یعنی پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار عدلیہ اپنی استقامت اور عوام کی تائید اور اعتماد سے بحال ہوئی ہے اور اب وہ ایک محکوم عدلیہ نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں آزاد عدلیہ ہے، جس نے ۳۱جولائی ۲۰۰۹ء اور ۱۶دسمبر ۲۰۰۹ء کے فیصلوں کی شکل میں اپنی خودمختار اور آزادانہ حیثیت کو منوا لیا ہے۔ نیز عدلیہ نے انتظامیہ کی مداخلت کی بھی مزاحمت کی ہے اور عوام کے حقوق اور شکایات کے ازالے کے لیے احتیاط کے ساتھ مگر مؤثر کردار ادا کیا ہے۔ مارچ ۲۰۰۹ء سے اس وقت تک کی عدلیہ کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو بحیثیت مجموعی اس کا کردار بہت مثبت، باوقار اور دستور اورقانون کی حکمرانی کو مستحکم کرنے والا نظر آتا ہے۔ عدالتی فعالیت (judicial activism) اور عدالتی احتیاط کے درمیان ایک مناسب توازن نظر آتا ہے، جو ملک کے حالات اور عالمی تجربات دونوں کی روشنی میں لائق تحسین ہے۔ اس کے برعکس حکومت کا رویہ نہایت غیرتسلی بخش بلکہ اشتعال انگیز محسوس ہوتا ہے، اور انگریزی محاورے میں ’ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے‘ کی نظیر پیش کرتا ہے۔
l ۳نومبر ۲۰۰۷ء کی عدلیہ کو بحال کرنے میں جس لیت و لعل کا مظاہرہ کیا گیا اور جس طرح بار بار موقف تبدیل کیا گیا اور پھر مجبور ہوکر اسے بحال کیا گیا، اس سے پہلی غلط مثال قائم ہوئی، اور اس کے نتیجے میں حکومت کے خلوص اور اصول پرستی کے باب میں شدید بے اعتمادی کی فضا قائم ہوئی۔
دستور کی بحالی کے مسئلے کو بھی حکومت نے مسلسل ٹال مٹول کا شکار کیے رکھا۔ مارچ ۲۰۰۸ء سے لے کر مئی ۲۰۰۹ء تک ۱۴ مہینے ضائع کیے اور صرف ضائع ہی نہیں کیے، اس زمانے میں اپنا ایک مسودّۂ ترمیم دستور تیار کیا، جو دستور کی بحالی سے زیادہ اس کا حلیہ مزید بگاڑنے کی ایک کوشش تھی۔ پارلیمنٹ، عوام اور میڈیا کے پُرزور ردِّعمل کی وجہ سے اس مسودّے کا پیدایش سے پہلے ہی اسقاط ہوگیا اور حکومت مجبور ہوئی کہ کُل جماعتی پارلیمانی کمیٹی قائم کرے، جسے مئی ۲۰۰۹ء میں قائم کیا گیا اور جس نے دو ماہ کے بعد اپنے کام کا آغاز کر کے مارچ ۲۰۱۰ء میں اٹھارھویں ترمیم کا مسودہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پیش کر دیا۔
این آر او کے قانون کے بارے میں حکومت نے بہت ہی متضاد رویے اختیار کیے۔ اس سیاہ اور شرمناک قانون سے سب سے زیادہ فائدہ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی قیادت، کارکنوں اور ان سرکاری افسروں نے اٹھایا، جن پر کرپشن اور قتل و غارت گری یا ان میں معاونت کے سنگین الزامات تھے۔ عدالت نے اپنے ۳۱جولائی ۲۰۰۹ء کے فیصلے میں جنرل پرویزمشرف کے تمام آرڈی ننسوں کو خلافِ قانون قرار دیا، مگر عملی مشکلات سے ملک کو بچانے کے لیے ان آرڈی ننسوں کو بشمول این آراو پارلیمنٹ کی طرف لوٹا دیا، کہ اگر ان کو جاری رکھنا چاہتی ہے تو چار مہینے کے اندر قانون سازی کے ذریعے انھیں حیاتِ نو دے دے۔
حکومت نے این آر او کو پارلیمنٹ میں پیش کیا، مگر اسے منظور نہ کراسکی۔ نتیجہ یہ کہ عدالت کو اس کے بارے میں فیصلہ کرنا پڑا۔ اس لیے کہ عدالت میں اکتوبر ۲۰۰۷ء سے اس کے خلاف رٹ کا مقدمہ موجود تھا۔ حکومت نے عدالت میں این آر او کا دفاع نہیں کیا اور حکومت کے وکیل جناب کمال اظفر نے اپنے تحریری بیان میں صاف لفظوں میں کہا : ’’این آر او کے تحت تمام مقدمات کو اس کے نفاذ سے پہلے کی صورت میں بحال کیے جانے پر حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا‘‘۔ جب عدالت نے اس بدنامِ زمانہ قانون کو اس کی تاریخِ پیدایش سے کالعدم قرار دیا، اور اس کے نتیجے میں احتساب، کرپشن پر گرفت، قوم کی لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے کے بارے میں گیارہ احکام جاری کیے تو حکومت کے ہوش اُڑ گئے۔ اس لیے کہ اس کے نتیجے میں جناب آصف زرداری کے خلاف سارے مقدمات بھی کُھل رہے تھے اور خصوصیت سے سوئس عدالت میں مقدمات کی بحالی اس کا لازمی تقاضا تھا۔ یہ وہ موقع ہے کہ حکومت نے عدالت کے خلاف نئی محاذآرائی کا آغاز کیا اور حکومت کے وزرا، سرکاری ترجمان اور پارٹی کے زیراثر وکلا نے بھانت بھانت کی بولیاں بولنا شروع کردیں۔ یہ سلسلہ اس وقت زور شور سے جاری ہے، اور وزیرقانون اس یورش کی قیادت بھی کررہے ہیں۔ گو ۲۵مئی کو عدالت ِ عظمیٰ میں جو معرکہ وہ سر کرنا چاہتے تھے، اور ان کے حواری جس طرح انصاف کی مشینری کو اپنی ایک ہی ضرب سے پاش پاش کرنے کی فضا بنا رہے تھے، وہ تو ٹائیں ٹائیں فش ہوگئی، اور بقول غالب ؎
تھی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پُرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے، پہ تماشا نہ ہوا
حکومت نے عدلیہ کے فیصلے کے مطابق تمام مقدمات کی بحالی، نیب کی تشکیلِ نو یا احتساب کے نئے نظام کے قیام کے سلسلے میں کوئی اقدام نہیں کیا۔ دو سال سے قومی اسمبلی میں احتساب کے نام پر جو کمزور اور خامیوں سے پُر مسودّۂ قانون زیرغور ہے، اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ عدالت کے فیصلے کے بعد، اس کی روشنی میں، مقدمات کے احیا اور ان کی مؤثر پیروی حکومت ِ وقت کی ذمہ داری ہے۔ لیکن حکومت جس دلدل میں پھنس گئی، وہ یہ تھی کہ بیش تر مقدمات جن پارٹیوں کے قائدین اور کارکنان کے خلاف تھے، ان کا تعلق دو حکمران جماعتوں سے تھا، یعنی پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم اور ان کو بچانے کے لیے حکومت نے ان مقدمات میں کوئی دل چسپی نہ لی، اور جو مقدمات بحال ہوگئے، ان کے بارے میں بھی ملزموں پر گرفت کے بجاے ان کی معاونت اور گلوخلاصی کا راستہ اختیار کیا۔ نیب کے ادارے کو عضومعطل بنا دیا گیا۔ جو سرکاری وکیل اس کے تابع مہمل نہ تھے، ان کو فارغ کر دیا گیا اور اپنے من پسند افراد کو اس میں لانے کی کوشش کی گئی۔ وزیرقانون، جو خود مختلف بے قاعدگیوں اور بدعنوانیوں کے الزام میں مطلوب تھے ان کو نیب کا ذمہ دار بنا دیا گیا۔ دو اٹارنی جنرل مستعفی ہوئے، وزارتِ قانون کے دو سیکرٹری مستعفی ہوئے، جوائنٹ سیکرٹری مستعفی ہوئے، اور عدالت کے احکامات کے مطابق سوئس عدالت میں مقدمات کی بحالی کے لیے خط پانچ مہینے گزرجانے کے باوجود نہیں بھیجا گیا، بلکہ وزیرقانون نے یہ تک فرما دیا کہ ’’ایسا کوئی خط نہیں بھیجا جائے گا اور اگر کسی نے بھیجا تو وہ میری لاش سے گزر کر جائے گا‘‘ (on my dead body) ۔ یہ عدالت کے خلاف اعلانِ جنگ نہیں تو اور کیا ہے؟ عدالت نے پھر بھی پورے تحمل اور بُردباری سے اپنے احکام پر عمل درآمد کا مطالبہ جاری رکھا۔ دیکھیے اس کا انجام کیا ہوتا ہے، البتہ حکومت نے حکم عدولی کے باب میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
عدالت کے سامنے تو ان سطور کے لکھنے تک دستور کی دفعہ ۲۴۸ کے تحت صدر کے استثنا کی درخواست نہیں دی گئی تھی مگر اس پر میڈیا میں لفظی جنگ پورے زورشور سے جاری ہے، حالانکہ اگر زرداری صاحب کا دامن پاک ہے تو انھیں بڑھ کر عدالت سے صفائی کا پروانہ حاصل کرنا چاہیے۔ دفعہ ۲۴۸ کا سہارا لینے کے معنی تو یہ ہیں کہ دال میں کچھ کالا کالا موجود ہے، اور ان کا دامن پاک نہیں ہے۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مقدمے کا تعلق ان کے صدر بننے سے برسوں پہلے کے زمانے سے ہے اور مسئلہ مالی معاملات کا ہے، جب کہ دفعہ ۲۴۸ میں استثنا صرف فوجداری معاملات میں ہے اور وہ بھی ان امور کے بارے میں جو زمانۂ صدارت سے متعلق ہوں۔
یہ معاملہ ایسا ہے جس پر ساری دنیا کے اخبارات میں اور امریکا کی سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کی کارروائیوں میں سیکڑوں صفحات پر مشتمل مواد موجود ہے، اور سوئس عدالت میں بھی ابتدائی طور پر جرم ثابت ہوچکا ہے۔ اگر سوئس بنک میں ۶۰ملین ڈالر ان کے حساب میں موجود ہیں تو کیا یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ یہ رقم کہاں سے آئی؟ اگر یہ ان کی جائز کمائی ہے تو اس کی تفصیل سامنے آنی چاہیے کہ کہاں سے یہ رقم کمائی گئی؟ کیا اس پر ٹیکس ادا ہوا؟ اور یہ سوئٹزرلینڈ کے بنک میں کیسے پہنچی؟ اس وقت تو معاملہ اس ایک رقم کا ہے مگر امریکا اور یورپ کے اخبارات میں، اور سب سے بڑھ کر امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کی کارروائیوں میں خود سٹی بنک کے ذمہ دار افراد کی جو شہادتیں موجود ہیں اور بنک کے حسابات میں جو تفصیلات آئی ہیں، وہ عالمی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ امریکا، برطانیہ، سوئٹزرلینڈ، فرانس اور اسپین کے بنکوں کے حسابات کی جو تفصیل ان تمام مقامات پر موجود ہے اور جس میں سے کچھ خود پاکستان کے میڈیا خصوصیت سے جیو، آج اور اے آروائی کے چینلوں پر دکھائی جاچکی ہے۔ ان میں۵ئ۱ ارب ڈالر کی خطیر رقم موصوف کے ذاتی یا ان کمپنیوں کے حسابات میں ہے جو ان کی ملکیت ہیں یا جن میں ان کا حصہ ہے۔ تو کیا اس قوم کا یہ حق نہیں کہ اسے معلوم ہو کہ اتنی بڑی رقم اقتدار کی اتنی قلیل مدت میں (یعنی ۱۹۸۸ء سے ۱۹۹۶ء تک) ان کے قبضے میں کیسے آئی؟ اگر وہ اپنی اس جائز کمائی کو عدالت میں ثابت کردیں تو اس سے ان کو بھی سرخ روئی حاصل ہوگی اور یہ قوم بھی مطمئن ہوجائے گی لیکن اگر وہ ثابت نہیں کرسکتے تو پھر دستور کی دفعہ ۲۴۸ کا سہارا ان کے دامن کو پاک ثابت نہیں کرسکتا، بلکہ وہ اس احساس کو تقویت پہنچاتا ہے کہ یہ رقم یا اس کا بڑا حصہ قوم سے لوٹا ہوا ہے اور اسے اس غریب قوم کی طرف لوٹایا جانا چاہیے جس کی ۷۶ فی صد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔
معاملہ صرف ایک فرد کا نہیں بلکہ اصول اور قوم کی دولت اور امانت کی حفاظت کا ہے، اور پھر اس کا تعلق کرپشن کی اس لعنت سے ہے جو پاکستانی قوم اور ملک کو گُھن کی طرح کھا رہی ہے۔ ورلڈبنک کی رپورٹ یہ کہتی ہے کہ پاکستان میں گذشتہ ۱۰ برسوں میں کرپشن میں چار گنا (۴۰۰ فی صد) اضافہ ہوا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ۲۰۰۹ء کی رپورٹ کے مطابق صرف ایک سال میں کرپشن میں ۱۰۰ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ یہ قوم جس پر قرضوں کا بوجھ اس وقت ۸ ارب۹۲کروڑ روپے سے متجاوز ہے، جو صرف قرضوں پر سود کی مد میں ۷۵۰ ارب روپے سالانہ ادا کررہی ہے، اور جس کو اس کے اربابِ اقتدار اور اصحابِ ثروت کرپشن کے ذریعے ہرسال ۱۸۰۰ ارب روپے سے محروم کررہے ہیں، اس کی قسمت کو بدلنے کے لیے کرپشن کے خاتمے کے سوا اور کون سا راستہ ہے؟ اگر عدالت ِ عالیہ یہ چاہتی ہے کہ کرپشن کے ذریعے جس نے بھی جتنی دولت ہڑپ کی ہے اور قوم کو دووقت کی روٹی سے محروم کیا ہے تو کیا وہ وقت نہیں آگیا کہ اب سب کا حساب ہو اور حق کو حق دار کی طرف لوٹایا جائے۔ اب یہ مسئلہ ایک فرد کا نہیں پوری قوم کا ہے اور احتساب اُوپر سے ہو جب ہی وہ مؤثر ہوسکتا ہے۔ اس لیے این آر او کے مقدمات کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے نہیں بلکہ معاشی انصاف اور قانون کی حکمرانی کے قیام اور نظام کی اصلاح کے لیے ہیں۔ کیا یہ ظلم نہیں ہے کہ چند روپے چرانے والے کو تو جیل کی ہوا کھانی پڑے اور اربوں روپے لوٹنے والے دستور کی دفعہ ۲۴۸ کے پیچھے پناہ لے لیں، یہ انصاف نہیں کرپشن کی پشت پناہی ہے اور اس سلسلے کو اب ختم ہونا چاہیے۔
این آر او ہی کے سلسلے میں وزیرداخلہ رحمن ملک پر بھی مقدمات ہیں، اور ان کے ایف آئی اے کے دوسرے رفقاے کار بھی اس کی گرفت میں آتے ہیں۔ معاملہ چاہے ریاض شیخ کا ہو یا رحمن ملک کا، یا ان کے دوسرے معاونین کا، جن جن حضرات نے این آر او کے تحت گلوخلاصی حاصل کی ہے ان کو کھلے انداز میں عدالتوں میں اپنے خلاف الزامات کا دفاع کرنا چاہیے، اور حکومت کا فرض ہے کہ ان سب حضرات کو ان کے سرکاری عہدوں سے اس وقت تک کے لیے فارغ کر دے، جب تک ان کی بے گناہی عدالت کے ذریعے ثابت نہیں ہوتی۔ حکومت کا رویہ یہ ہے کہ وہ نہ تو ان مقدمات میں کوئی دل چسپی لے رہی ہے اور نہ آزادانہ عدالتی کارروائی کا موقع دے رہی ہے، حالانکہ یہ اس کی دستوری ذمہ داری ہے کہ جن لوگوں پر الزام ہے کہ وہ ملک اور قوم کے وسائل میں خردبرد کے مرتکب ہوئے ہیں اور ان کے خلاف جو بھی شواہد اور دستاویزات موجود ہیں ان کو دیانت داری سے عدالت کے سامنے پیش کرے اور ملزموں کی صفائی کے لیے پھرتی نہ دکھائے بلکہ ملک وقوم کے وسائل کی حفاظت کے لیے اس کا حق اداکرے۔
بار بار یہ کہا گیا ہے کہ یہ مقدمات سیاسی وجوہ سے بنائے گئے ہیں اور یہ کہ ان لوگوں نے جیل کی صعوبتیں برداشت کی ہیں مگر ان پر جرم ثابت نہیں ہوا۔ ہم صاف کہتے ہیں کہ جن حضرات پر سیاسی وجوہ سے مقدمہ بنایا گیا ہو اور حقائق سے یہ ثابت ہوجائے تو نہ صرف ان کو باعزت بری کیا جائے اور قومی ذمہ داریاں ان کو سونپی جائیں بلکہ جن لوگوں نے ان کے خلاف غلط مقدمات بنائے، ان کو سزا دی جائے تاکہ وہ عبرت کا نشان بنیں۔ لیکن جن کے بارے میں سارے قرائن یہ پتا دیتے ہیں کہ ان کی دولت ان کی جائز آمدنی سے کوئی مناسبت نہیں رکھتی اور جو اپنی دولت کے ذرائع کا تسلی بخش جواز پیش نہیں کرسکتے، ان کو قرارِ واقعی سزا ملنی چاہیے اور قوم کی لوٹی ہوئی دولت قومی خزانے میں واپس آنی چاہیے۔
زرداری صاحب نے اس سلسلے میں جو نیا ریکارڈ قائم کیا ہے وہ دستور کی دفعہ ۴۵ کا استعمال ہے جس کا تعلق سزا کی معافی یا تخفیف سے ہے۔ اصلاً تو یہ صدارتی اختیار دورِ بادشاہت یا سامراجی حکمرانی کے دور کی باقیات میں سے ہے اور اصولِ انصاف کے منافی ہے۔ لیکن اگر یہ تسلیم کربھی لیا جائے کہ عدل کے مقابلے میں احسان اور ترحم (mercy) کی بنیاد پر کچھ حدود کے اندر یہ اختیار صدرِمملکت استعمال کرسکتا ہے تب بھی اصولِ قانون (jurisprudence) کے مطابق چند شرائط اور ضوابط ہیں جن کی پاس داری ضروری ہے۔ یہ اختیار غیرمشروط نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تخفیف یا معافی کے لیے ضروری شواہد اور دلائل ہونے چاہییں۔
کینیڈا کے دستور میں یہ گنجایش موجود ہے لیکن وہاں ایک نیشنل پے رول بورڈ ہوتا ہے جو ہرکیس کے حالات کو سامنے رکھ کر سفارش کرتا ہے جس پر سربراہِ مملکت سزا میں تخفیف کرسکتا ہے۔ امریکا، برطانیہ اور بھارت میں معافی یا تخفیف کا یہ استعمال عدالتی محاکمے کے لیے کھلا ہے اور صدر یا ملکہ کے اعلان کو عدالتیں زیرغور لاسکتی ہیں، اورجہاں مناسب وجوہ موجود نہ ہوں اس تخفیف یا معافی کو ختم کرسکتی ہیں۔ بھارت کی سپریم کورٹ نے متعدد فیصلوں میں اس اختیار کے استعمال کے آداب و قواعد کی وضاحت کی ہے اور یہ اصول طے کیا ہے: ’’ہرامتیازی حق کو قانون کی حکمرانی کے تابع ہونا چاہیے‘‘۔( جسٹس ارجیت پسیات اور جسٹس کپادری)
معافی دینے کے لیے ذات، مذہب یا سیاسی وفاداری کا نامناسب لحاظ رکھنا ممنوع ہے۔ سیاسی مصلحت کی بنیاد پر قانون کی حکمرانی کو متاثر نہیں کیا جاسکتا۔ ان امور کا لحاظ رکھ کر چلنے سے قانون کی حکمرانی کا بنیادی اصول مسخ ہوگا اور یہ ایک خطرناک مثال قائم کرنے کے مترادف ہوگا۔
بھارت ہی کی سپریم کورٹ کے ایک اور بنچ نے جس میں چیف جسٹس بالاکرشنان، جسٹس پنچال اور جسٹس چوہان شامل تھے، لکھا ہے کہ اگر کوئی مجرم ایک منظورِ نظر فرد کی حیثیت رکھتا ہے اور اسے تخفیف یا معافی کو ایک سہولت کے طور پر دیا جاتا ہے تو یہ ’جرائم کے فروغ کے لیے ایک محرک‘ ہوگا اور وہ اسے ایک عظیم دھوکا قرار دیتے ہیں۔
ان اصولوں کی روشنی میں اگر آپ غور کریں تو زرداری صاحب نے جناب رحمن ملک اور ریاض شیخ صاحب کے سلسلے میں جو کچھ کیا ہے وہ عظیم دھوکا اور انصاف کے قتل سے کم نہیں۔ رحمن ملک صاحب کو عدالت نے مجرم قرار دیا اور قانون میں عدالت کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کے حق کی گنجایش موجود تھی، لیکن انصاف کے اس عمل کو ناکام کرتے ہوئے اور عدالت کے فیصلے کے چند گھنٹوں کے اندر اندر غالباً کسی باقاعدہ درخواست کے بغیر سزا کو معاف کر دینا اور وہ بھی اپنے ایک سیاسی وفادار ہی نہیں، اپنی ناک کے بال کو معافی دینا کسی جرم سے کم نہیں۔ اس پر وزیراعظم کا یہ ارشاد کہ ’’وزیرداخلہ کو جیل نہیں جانا چاہیے‘‘ اور بھی شرم ناک ہے، حالانکہ ان کا موقف یہ ہونا چاہیے تھا کہ ’’کسی مجرم کو وزیرداخلہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے‘‘ لیکن اس حکومت کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ کرپشن اس کے گلہاے سرسبد کے لیے تمغاے افتخار ہے، کلنک کا ٹیکا نہیں۔ جعلی ڈگریوں پر انتخاب لڑنے والے اور قوم کو دھوکا دینے والے نئے ٹکٹ کے مستحق ٹھیرتے ہیں اور وزیراعظم صاحب خود بنفس نفیس ان کی انتخابی مہم کے لیے تشریف لے جاتے ہیں اور کھلے کھلے الیکشن قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہ صرف انتخابی مہم میں سرکاری حیثیت سے حصہ لیتے ہیں بلکہ علاقے کے لیے پیکج کا اعلان (سیاسی رشوت) بھی فرماتے ہیں۔ رحمن ملک صاحب کو جس جرم کے حوالے سے مقدمے کا سامنا کرنا پڑا تھا، اس میں چند تولے سونا اور چندلاکھ روپے سے متاثرہ فریق کو محروم کرنے کا ذکر بھی تھا، اور اس پر حکومت کے ایک ترجمان کا یہ ارشاد بھی اس پارٹی کے سیاسی کلچر کاآئینہ ہے کہ صرف چند تولے سونے اور چند لاکھ روپے کے لیے، اتنے بڑے آدمی کو سزا دینا ناقابلِ فہم ہے۔
جب قیادت کی اخلاقی حالت یہ ہوجائے تو پھر قوم کو تباہی اور ملک کو عذابِ الٰہی سے بچانے والی اور کیا چیز ہوسکتی ہے۔ ہم نے اس سلسلے میں یہ چند پہلو بڑے دکھ اور کرب کے ساتھ سپردِقلم کیے ہیں اور پوری دردمندی سے حکمرانوں سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہوش کے ناخن لیں، اللہ کے عذاب اور عوام کے غیظ و غضب اور جذبۂ انتقام سے بچنے کی کوشش کریں۔
عدالت عوام کے حقوق اور قوم کی دولت کی حفاظت کے لیے قانون کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ انتقام نہیں انصاف کی طرف ایک قدم ہے۔ اسے اداروں کا تصادم کہنا بھی صحیح نہیں۔ عدالت کا تو فرضِ منصبی ہی یہ ہے کہ مظلوم کو ظلم سے بچائے اور ظالم کا ہاتھ روکے اور اسے قرارواقعی سزا دے تاکہ دوسروں کے لیے باعثِ عبرت ہو اور معاشرہ جرائم اور ظلم سے پاک ہوسکے۔ اب تک عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ نے جو کچھ کیا ہے، اسے عدالتی تحرک کہنا صحیح نہیں۔ عدالت دستور کے مطابق بنیادی حقوق اور حقوق میں مساوات کے اصول کی روشنی میں کمزوروں کی مدد اور منہ زور طاقت ور اور قانون توڑنے والوں کو قانون کی گرفت میں لانے کی کوشش کر رہی ہے، جب کہ حکومت عدالت کے فیصلوں کی خلاف ورزی، ان کے نتائج کو ناکام کرنے اور مسخ کرنے کی ناپاک سعی میں مصروف نظر آتی ہے، یا عدالت کے فیصلوں پر عمل کرنے میں لیت و لعل سے کام لے رہی ہے اور عدالت پر جانب داری اور سیاسی محرکات کے ناقابلِ التفات الزامات لگاکر اسے بلیک میل کرنے اور دفاعی پوزیشن میں ڈالنے کا کھیل کھیل رہی ہے۔ اسے عدلیہ اور انتظامیہ کا تصادم کہنا حقیقت سے دُور کی بھی مناسبت نہیں رکھتا۔ یہ انتظامیہ کی طرف سے عدالت کی حکم عدولی کرنے (defy) اور اسے دبائو میں لانے کی یک طرفہ یورش ہے۔ یہ نہ صرف عدالت کی توہین ہے بلکہ قانون کو مسخ کرنے کی بھی کوشش ہے جو اس ملک اور جمہوریت کے مستقبل کے لیے فالِ بد ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہٗ کا ارشاد ہے کہ معاشرہ کفر کے ساتھ تو زندہ رہ سکتا ہے مگر ظلم کے ساتھ نہیں۔ نظامِ عدل معاشرے کی صحت، زندگی، ترقی اور استحکام کی ضمانت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندے اپنے نبی اور رسول بنا کر جن مقاصد کے لیے بھیجے تھے، ان میں سرفہرست مقصد انسانوں کے درمیان انصاف کا قیام تھا (لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ، الحدید)۔ ہر مہذب اور جمہوری معاشرے کے لیے قانون کی حکمرانی اور انصاف کا قیام اولین ضرورت ہے۔ اور آج ہمارا حال اگر دگرگوں ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ قانون کی حکمرانی کا فقدان، انسانوں کے درمیان عدل و انصاف کے قیام سے غفلت، دولت مند اور طاقت ور انسانوں کا قانون سے بالا ہونا اور کمزوروں اور مجبوروں پر ظلم اور ان کے حقوق اور اثاثوں پر دست درازی بگاڑ کی وجہ اور تباہی کا راستہ ہیں۔ حکومت کو اپنی روش فوری طور پر بدلنی چاہیے اور اس وقت سے ڈرنا چاہیے جب عوام کا غیظ و غضب وہ صورت اختیار کرلے جو اس ظالمانہ نظام کو تہ و بالا کرڈالے یا خدانخواستہ اللہ کا عذاب سب کو اپنی گرفت میں لے لے۔ عدالت کو انصاف اور دادرسی کا منبع ہونا چاہیے کہ اس سے معاشرے میں استحکام آتا ہے اور جمہوریت کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
ہم اپنی معروضات کو انگلستان کے ایک نام وَر ماہر قانون لارڈ جیمز برایس کے ان زریں الفاظ پر ختم کرتے ہیں اور اربابِ اقتدار کو مشورہ دیتے ہیں کہ ان الفاظ پر سنجیدگی سے غور کریں اور اس قوم اور ملک کے لیے خیر اور فلاح کا ذریعہ بنیں، ظلم، فساد اور بگاڑ کا نہیں:
کسی حکومت کی حُسنِ کارکردگی جانچنے کا پیمانہ اس کے عدالتی نظام کی مستعدی سے بہتر کوئی نہیں ہوسکتا، اس لیے کہ عام شہری کی سلامتی او رفلاح و بہبود کو کوئی چیز اس احساس سے زیادہ متاثر نہیں کرتی کہ وہ انصاف کے فوری اور یقینی حصول پر اعتماد کرسکتا ہے۔