بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
قُلْ یٰٓـاََیُّھَا الَّذِیْنَ ھَادُوْٓا اِِنْ زَعَمْتُمْ اَنَّکُمْ اَوْلِیَـآئُ لِلّٰہِ مِنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ o وَلاَ یَتَمَنَّوْنَـہٗٓ اَبَدًام بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْھِمْط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌم بِالظّٰلِمِیْنَ o (الجمعۃ ۶۲: ۶-۷) اِن سے کہو، اے لوگو جو یہودی بن گئے ہو، اگر تمھیں یہ گھمنڈ ہے کہ باقی سب لوگوں کو چھوڑ کر بس تم ہی اللہ کے چہیتے ہو تو موت کی تمنا کرو۔ اگر تم اپنے اس زعم میں سچے ہو۔ لیکن یہ ہرگز اس کی تمنا نہ کریں گے۔ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے جو یہ کرچکے ہیں، اور اللہ ان ظالموں کو خوب جانتا ہے۔
وَ قَالَتِ الْیَھُوْدُ وَ النَّصٰرٰی نَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اللّٰہِ وَ اَحِبَّـآؤُہٗ ط (المائدہ ۵:۱۸) یہودی اور عیسائی کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے ہیں اور اس کے چہیتے ہیں۔
وَ قَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّآ اَیَّامًا مَّعْدُوْدَۃً ط (البقرہ ۲:۸۰) اور وہ (یہودی) کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ہرگز چھونے والی نہیں، اِلا.ّ یہ کہ چند روز کی سزا مل جائے تو مل جائے۔
آج بھی یہودی اپنے آپ کو خدا کے چہیتے (chosen people) کہتے ہیں، یعنی ہم خدا کی چُنیدہ مخلوق ہیں۔ اسی طرح وہ خود کو children of Godبھی کہتے ہیں، یعنی ہم خدا کی اولاد ہیں۔ یہاں یہ فرمایا گیا کہ اگر تمھارا یہ زعم درست ہے کہ صرف تم اللہ کے ولی ہو اور کوئی دوسرا اللہ کی ولایت نہیں پاسکتا ہے اور جو قرب تمھیں اللہ کا حاصل ہے وہ کسی اور کو حاصل نہیں ہے تو پھر تمھیں موت کی تمنا کرنی چاہیے۔ اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو۔
موت کی تمنا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم واقعی اللہ کے محبوب ہو، اور وہ بھی تمھیں چاہتا ہے تو پھر تمھیں موت سے بھاگنا نہیں چاہیے۔ پھر تو تمھیں تمنا کرنی چاہیے کہ جلدی سے جلدی اپنے خدا کے ہاں پہنچو تاکہ تم اس کا حقیقی قرب حاصل کرسکو اور اُن انعامات سے بھی محظوظ ہوسکو جو اس نے اپنے چنیدہ بندوں کے لیے مخصوص کر رکھے ہیں۔ جو آدمی حقیقتاً اللہ تعالیٰ سے قرب رکھتا ہو اور فی الواقع اس کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ گہرا تعلق ہو تو وہ موت سے ڈرتا اور گھبراتا نہیں۔ اس کے لیے تو موت ایسی ہے جیسے اس کو وصالِ محبوب کا موقع مل رہا ہو۔ اس لیے یہ فرمایا گیا کہ اگر تم واقعی اللہ کے چہیتے ہو تو پھر تمھارے اندر موت سے گھبراہٹ کیوں ہے؟موت سے بھاگتے کیوں ہو؟ تمھیں تو اس کے لیے تیار ہونا چاہیے کہ جلدی سے جلدی اپنے رب کے پاس پہنچو لیکن اس کے برعکس قرآن کے الفاظ میں ان کا حال یہ ہے کہ: وَلاَ یَتَمَنَّوْنَـہٗٓ اَبَدًام بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْھِمْ، یعنی یہ ہرگز اس کی تمنا نہیں کریں گے، ان اعمال کی وجہ سے جو وہ اس سے پہلے کرچکے ہیں۔ اُن کے کرتوتوں کی بنا پر ان کے دلوں میں کبھی موت کی تمنا پیدا نہیں ہوسکتی۔ دوسرے الفاظ میں جو آدمی دنیاپرستی میں مبتلا ہو اور دنیا کے فوائد اور لذتوں کی طلب میں غرق ہو اور دنیا کے عشق میں مبتلا ہو، ایسا آدمی کبھی موت کے لیے تیار نہیں ہوسکتا۔ وہ تو موت کے تصور ہی سے بھاگے گا، کجا یہ کہ وہ اپنے رب سے ملاقات کی تمنا کرے، کیوں کہ موت اس کے لیے وصالِ محبوب نہیں ہے بلکہ ہجرِ محبوب ہے۔ وہ دنیا کی محبت میں مرا جاتا ہے، وہ وصالِ محبوب کی طرف توجہ اور اس کی تمنا کیسے کرے گا۔ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌم بِالظّٰلِمِیْنَ o ’’اور اللہ تعالیٰ (ان) ظالموں کو خوب جانتا ہے‘‘۔
قُلْ اِِنَّ الْمَوْتَ الَّذِیْ تَفِرُّوْنَ مِنْہُ فَاِِنَّہٗ مُلٰقِیْکُمْ ثُمَّ تُرَدُّوْنَ اِِلٰی عٰلِمِ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ o (۸) ان سے کہو، جس موت سے تم بھاگتے ہو، وہ تو تمھیں آکر رہے گی۔ پھر تم اُس کے سامنے پیش کیے جائو گے جو پوشیدہ و ظاہر کا جاننے والا ہے، اور وہ تمھیں بتا دے گا کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو۔
گویا تم موت سے خواہ کتنا ہی بھاگو اور کتنا ہی گھبرائو، اس کو تو اپنے مقررہ وقت پر لازماً آنا ہے، اور تم لازماً اپنے اُس رب کے سامنے پیش ہونے والے ہو جو ہر پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے، اور اپنے جن اعمال کی وجہ سے تم موت سے گھبراتے ہو، وہ سارے اعمال تمھارے رب کے علم میں ہیں۔ وہ تمھارے سارے اعمال تمھارے سامنے لاکر رکھ دے گا۔ اس وقت تمھارا کوئی باطل زعم اور جھوٹا دعویٰ تمھارے کسی کام نہ آئے گا۔ اس وقت تمھاری قسمت کا فیصلہ سراسر تمھارے اعمال کی بنیاد پر ہوگا۔
ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوا ط الْبَیْعَ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ o (۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو، یہ تمھارے لیے زیادہ بہتر ہے۔ اگر تم جانو۔
یہاں سے سورئہ جمعہ کا دوسرا رکوع شروع ہو رہا ہے۔ پہلے رکوع میں یہودیوں کے متعلق یہ فرمایا گیا کہ یہ لوگ اہلِ عرب کو وحشی اور جاہل سمجھتے ہیں، اُن کو اُمّی کہتے ہیں۔ وہ عام اہلِ عرب کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی (نعوذباللہ) حقیر سمجھتے تھے۔ ان کے زعمِ باطل میں حضوؐر کو نبوت حاصل نہیں ہوسکتی تھی۔ اس پر فرمایا گیا: ہاں، ہم نے اسی قوم کے اندر اپنا نبیؐ مبعوث کیا ہے جو ان کے سامنے کتاب اللہ کی آیات سناتا ہے، اُن کا تزکیۂ نفس کرتا ہے، اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ تمھارے اس زعمِ باطل کے برعکس کہ عرب کے لوگ جاہل اور غیرمہذب ہیں اور تم حاملِ کتاب ہو لیکن تمھارا حال یہ ہے کہ تم نے اس کتاب کو پسِ پشت ڈال رکھا ہے، اس لیے تمھاری مثال اس گدھے کی طرح ہے جس پر کتابیں لدی ہوں اور اسے کچھ خبر نہ ہو کہ ان کتابوں میں کیا لکھا ہے۔ دوسری طرف تمھارے اخلاق کا حال یہ ہے کہ تم دنیا پر مر مٹتے ہو، موت کے تصور ہی سے گھبراتے ہو اور دعویٰ یہ کرتے ہو کہ تم اللہ کے برگزیدہ اور چُنیدہ لوگ ہو، اور تم اللہ کو بہت محبوب ہو۔
ان کو حقائق کا آئینہ دکھانے کے بعد اب خطاب کا رُخ مسلمانوں کی طرف ہو رہا ہے اور نمازِ جمعہ کے حوالے سے ان کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ جب جمعہ کی نماز کے لیے تمھیں پکارا جائے تو اللہ کی یاد کی طرف دوڑو۔
نماز کے لیے پکارے جانے سے مراد اذان ہے۔ قرآن مجید میں دو مقامات پر اذان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یہاں ایک بات سمجھنے کی ہے۔ اس زمانے میں جن الفاظ میں لوگوں کو نماز کے لیے پکارا جاتا تھا اور آج بھی پکارا جاتا ہے، وہ الفاظ قرآن مجید میں بیان نہیں کیے گئے ہیں، البتہ ان کی طرف دو مقامات پر اشارہ موجود ہے۔ ایک تو یہ مقام ہے جس میں فرمایا گیا کہ جب نماز کے لیے پکارا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو، اور دوسری جگہ سورئہ مائدہ میں فرمایا گیا:
اِذَا نَادَیْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ اتَّخَذُوْھَا ھُزُوًا وَّ لَعِبًا ط (المائدہ ۵:۵۸) جب تم نماز کے لیے منادی کرتے ہو تو وہ (اہلِ کتاب اور کفار) اس کا مذاق اُڑاتے ہیں اور اس سے کھیلتے ہیں۔
گویا قرآن مجید میں کہیں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ نماز کے لیے منادی کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ اذان کے الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مسلمانوں کو سکھائے ہیں۔ اس سے یہ اندازہ ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شریعت کے نظام میں کیا مقام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک طریقہ مقرر کرتے ہیں اور قرآن مجید میں اس کا ذکر کر کے اس طریقے کی صحت کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ گویا وہ ایک مسلّمہ چیز اور شریعت میں طے شدہ امر ہے۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کی اذان کے الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کیے ہوئے ہیں۔ اس کا پورا قصہ احادیث میں موجود ہے، چنانچہ اذان حضوؐر کے حکم سے جاری ہوئی اور اب اس کو شرعی اور قانونی حیثیت حاصل ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ قانون اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا۔ وہ (نعوذ باللہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ذاتی فعل نہیں تھا۔
یہ نِدا جس کا ذکر یہاں نمازِ جمعہ کے لیے کیا گیاہے، دوسری اذان ہے جو خطبے کے وقت دی جاتی ہے۔ پہلی اذان حضوؐر کے زمانے اور حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے زمانے میں رائج نہیں تھی۔ اس کو حضرت عثمانؓ نے اپنے زمانے میں اس لیے رائج کیا کہ مدینے کی آبادی بہت بڑھ گئی تھی اور مسجد کے اندر خطبے کے وقت جو اذان دی جاتی تھی وہ پوری آبادی تک نہیں پہنچ سکتی تھی جس سے لوگ بروقت خبردار ہو جائیں کہ نماز کا وقت آگیا ہے۔ چنانچہ حضرت عثمانؓ نے مدینۂ طیبہ کے ایک اُونچے مکان کے اُوپر خطبے سے کافی دیر پہلے اذان دلوانے کا طریقہ مقرر کیا تاکہ پوری آبادی کو بروقت اطلاع ہوجائے کہ نمازِ جمعہ کا وقت قریب آگیا ہے اور وہ اس کے لیے تیار ہوجائے۔
اس واقعے سے بدعت کے مفہوم پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ بدعت ہر اُس چیز کو نہیں کہتے جو نئی نکالی گئی ہو۔ ہر چیز جو پہلے سے شریعت میں موجود نہ ہو اور بعد میں مفادِ اُمت کے لیے رائج کی جائے، اس کو بدعت کہنا صحیح نہیں ہے۔ دراصل بدعت اور سُنت کے درمیان ایک بڑا نازک اور لطیف فرق ہے۔ اگر ایک آدمی شریعت کے قواعد کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور شریعت کے مقاصد کو سمجھتے ہوئے کوئی ایسا نیا کام کرے (جو شریعت کے ان مقاصد کو جو شریعت میں اہمیت رکھتے ہیں) پورا کرنے میں مددگار ہوتا ہو تو وہ کام نیا ہونے کے باوجود بدعت نہیں ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی چیز ایسی ہے جو شریعت کے نظام کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتی ہے بلکہ اس کی ضد میں پڑتی ہے اور شریعت کے مقاصد کو پورا کرنے کے بجاے اُن مقاصد کو نقصان پہنچاتی ہے اور اس کو اُٹھا کر مسلمانوں کی زندگی میں رائج کر دیا جائے، تو یہ بدعت ہے۔
دوسرے لفظوں میں ایک چیز شریعت کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے اور ایک چیز مناسبت نہیں رکھتی۔ چنانچہ جو چیز مناسبت نہیں رکھتی، وہ بدعت ہے اور جو چیز مناسبت رکھتی ہے وہ بدعت نہیںہے۔ جمعہ کے وقت پہلی اذان کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ یہ حضوؐر کے زمانے میں رائج نہیں تھی اور شیخین حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ دونوں کے زمانے میں بھی نہیں تھی۔ لیکن حضرت عثمانؓ نے اس کو جاری کیا۔ اب یہ بھی معلوم ہے کہ صحابۂ کرام نے اس وجہ سے اس کو قبول کیا اور اس پر اعتراص نہیں کیا، کیونکہ یہ اس مقصد کے خلاف نہیں بلکہ اُس مقصد کو پورا کر رہی تھی، جس مقصد کے لیے اذان کا طریقہ مقرر کیا گیا تھا۔ اس وجہ سے صحابہ کرامؓ میں سے کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا کہ آپ یہ کیا بدعت نکال رہے ہیں۔
یہ دوسری اذان ہے جس کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے اور یہ وہ ا ذان ہے جس کے سننے کے بعد پھر خرید و فروخت حرام ہوجاتی ہے۔ پہلی اذان کو سننے کے بعد خرید و فروخت حرام نہیں ہوتی کیوں کہ اس کا اہتمام اس لیے کیاگیا ہے کہ اگر کوئی اُس کو سن کر غسل کرنا چاہے، یا اپنے کام سمیٹ کر اور وضو کرکے نماز کے لیے چلنا چاہے تو اسے اس کا موقع مل جائے اور وہ اس کے لیے تیار ہوکر نکل سکے۔ چنانچہ اگر کوئی شخص دوسری اذان سن کر، جب کہ خطبہ شروع ہونے والا ہو، اس وقت کوئی کاروبار کرے اور کسی قسم کے دنیوی کام میں لگا رہے تو پھر یہ ایک حرام فعل ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نمازِ جمعہ کے وقت کاروبار اور بیع و شراء (خرید وفروخت) کا ممنوع ہوجانا خود جمعہ کی فرضیت کی دلیل ہے۔
جمعہ کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ شریف پہنچنے کے بعد شروع کی تھی۔ مدینہ پہنچ کر آپؐ نے جو ابتدائی کام کیے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ آپ نے جمعہ کی اقامت کا اہتمام شروع فرما دیا۔ پہلے اس دن کو (جس کو اب جمعہ کہتے ہیں) یوم العروبہ کہا جاتا تھا۔ یہ اس کا قدیم نام تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کو جمعہ کی نماز کے لیے مخصوص کیا اور پوری آبادی کے لیے جمع ہوکر باجماعت نماز پڑھنے کا حکم جاری کیا، تو اس وجہ سے اس دن کا نام یوم الجمعہ قرار پا گیا۔
نمازِ جمعہ کی اذان سن کر ’’اللہ کی طرف دوڑو‘‘ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لوگ دوسری اذان سن کر بھاگنا شروع کردیں۔ شریعت کا منشا یہ نہیں ہے کہ آپ سڑکوں پر بھاگتے ہوئے نماز کے لیے جائیں، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے کہ نماز کے لیے وقار اور سکینت کے ساتھ جائو۔ پس فَاسْعَوا کا مطلب یہ ہے کہ نماز کی طرف جانے میں جلدی کرو، تساہل سے کام نہ لو۔ چنانچہ سَعی سے مراد یہاں دوڑنا نہیں ہے، بلکہ اہتمام کرنا ہے، جلدی کرنا ہے تاکہ آدمی دوسرے کاموں میں مشغول رہ کر نماز سے غافل نہ ہوجائے، اس میں دیر نہ کردے۔
ذِکْرُ اللّٰہِ سے مراد جمعہ کا خطبہ اور نماز دونوں ہیں___ دوڑو اللہ کے ذکر کی طرف، یعنی اتنی جلدی کرو کہ خطبہ کے موقع پر پہنچ کر اسے سن سکو۔
احادیث میں اس کی تفصیل یہ آئی ہے کہ جمعہ کی نماز کے وقت جو شخص خطبے سے پہلے جائے اس کی کیا حیثیت ہے، جو شخص خطبے کے دوران میں جائے اس کی کیا حیثیت ہے، اور جو خطبہ کے آخر میں جائے اس کی کیا حیثیت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جمعہ کے روز ملائکہ ہر آنے والے کا نام اس کی آمد کی ترتیب کے ساتھ لکھتے جاتے ہیں۔ پھرجب امام خطبے کے لیے نکلتا ہے تو وہ نام لکھنا بند کردیتے ہیں اور ذکر (یعنی خطبہ) سننے میں لگ جاتے ہیں‘‘۔ (متفق علیہ)
حکم ہے کہ ہرمسلمان جمعہ کا خطبہ سنے، چنانچہ یہ طے کر دیا گیا کہ جس وقت امام جمعہ کا خطبہ دینے کے لیے نکل آئے، اس وقت کوئی کام جائز نہیں ہے سواے اس کے کہ آدمی اس کو توجہ سے سنے، حتیٰ کہ آدمی نفل نماز بھی نہ پڑھے اور کسی سے کوئی بات بھی نہ کرے۔ صرف خطبے کی طرف توجہ رکھے ___ شریعت کا قاعدہ یہ ہے کہ جس وقت کے لیے جو عبادت مقرر کی گئی ہے اس وقت وہی سب سے اہم ہے۔ اس وقت کوئی دوسری عبادت کرنا، خواہ کتنی ہی بڑے درجے کی ہو، غلط ہوگا۔ چونکہ نمازِ جمعہ کے وقت مقصود یہ ہے کہ خطبہ سنا جائے، اس لیے حکم دیا گیا کہ خطبے کے دوران میں بالکل خاموش رہا جائے۔ کوئی کسی قسم کی آواز نہ نکالے اور اگر کوئی شخص بولے تواس کو زبان سے منع بھی نہ کرے، صرف اشارے سے منع کرے۔ اگر خطبے کے دوران میں کوئی شخص بول رہا ہو اور آپ نے اس کو خاموش رہنے کے لیے کہا تو آپ نے بھی وہی کام کیا جو وہ کر رہا ہے۔ اس وجہ سے خطبے کے موقع پر مکمل طور پر خاموش رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔
اس کے بعد فرمایا گیا: وَذَرُوا الْبَیْعَ ،’’اور بیع کو چھوڑ دو‘‘۔ بیع سے مراد محض خریدوفروخت نہیں ہے بلکہ تمام دنیوی کام ہیں۔ لوگوں کی توجہ صرف اس طرف ہونی چاہیے کہ جلدی سے جلدی تیار ہوکر خطبے کے وقت مسجد میں پہنچ جائیں۔ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ، ’’یہ تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو‘‘۔
اس جگہ یہ بات بھی سمجھ لیجیے کہ جمعہ فرض ہے مگر کچھ شرائط کے ساتھ۔ ہر آزاد، عاقل و بالغ مرد کے لیے جمعہ کی نماز پڑھنا اور اس کا خطبہ سننا فرض ہے۔ وہ کسی حالت میں اس کو نہیں چھوڑ سکتا، اِلا.ّ یہ کہ وہ مسافر ہو۔ گویا مسافر پر جمعہ فرض نہیں ہے۔ عورت اور بچے کے اُوپر بھی فرض نہیں ہے۔ مریض پر بھی فرض نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص کسی بیمار کی تیمارداری میں لگا ہوا ہو تو اس پر بھی فرض نہیں ہے۔ اپاہج اور معذور پر بھی فرض نہیں ہے، لیکن فرض نہ ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اگر وہ جاکر جمعہ کی نماز پڑھ لے تو اس کی نماز ادا نہیں ہوگی۔ نہیں، وہ ادا ہوجائے گی اور پھر جمعہ کی جگہ اس کے لیے ظہر کی نماز پڑھنی لازم نہیں ہوگی۔ اسی طرح غلام کے اُوپر نمازِ جمعہ فرض نہیں ہے۔ اگر وہ نماز کے لیے نہ جائے تو مضائقہ نہیں ہے، لیکن اگر نماز کے لیے چلا جائے تو اس کی نماز ہوجائے گی۔
فَاِِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo (۱۰) پھر جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں پھیل جائو اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو، شاید کہ تمھیں فلاح نصیب ہوجائے۔
یہ جو فرمایا کہ جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں پھیل جائو اور اللہ کا فضل تلاش کرو تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایسا کرنا لازم ہے، یعنی یہ کوئی حکم نہیں ہے کہ جمعہ کی نماز پڑھتے ہی لوگ نکلیں اور جاکر اپنا کاروبار شروع کر دیں۔ اس کو لازم نہیں کیا گیا بلکہ مراد صرف یہ ہے کہ اگر ایسا کیا جائے تو اس کی اجازت ہے۔ کاروبار پر پابندی صرف جمعہ کی نماز تک تھی۔ اس کے بعد آزادی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا سورئہ مائدہ میں فرمایا گیا: وَ اِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا (المائدہ ۵:۲) ’’جب تم احرام کھول دو اور احرام سے نکل آئو تو اس کے بعد شکار کرو‘‘۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ احرام کھولتے ہی پہلا کام آدمی یہ کرے کہ جاکر شکار کرے۔ گویا یہ فرض ہے کہ احرام کھول کر شکار کرو، نہیں بلکہ مدعا یہ ہے کہ پہلے تم کو حالت ِ احرام میں شکار کرنے سے منع کیا گیا تھا، لیکن اب، جب کہ تم احرام سے نکل آئے ہو تو شکار کرسکتے ہو۔
بعض لوگ اس آیت کو بنیاد بناکر یہ حکم نکالتے ہیں کہ دیکھیے صاحب، جب یہ فرمایا گیا ہے کہ نماز سے فارغ ہوکر کاروبار کے لیے زمین میں پھیل جائو تو آپ کیسے کہتے ہیں کہ جمعہ کا دن چھٹی کا دن ہونا چاہیے۔ گویا اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن میں یہ حکم تو آگیا ہے کہ اتوار کا دن چھٹی کا دن ہے، البتہ جمعہ کے روز چھٹی کرنا جائز نہیں ہے۔ ان احمقوں کو نہیں معلوم کہ قدیم ترین زمانے سے جو تین الہامی کتابیں پہلے سے موجود ہیں ان کو ماننے والوں میں سے ایک گروہ نے اپنا مذہبی دن ہفتہ کو قرار دے رکھا ہے اور وہ ہزاروں برسوں سے اس کی پابندی کر رہے ہیں، حتیٰ کہ جب پہلی جنگ ِ عظیم کے بعد امریکا و برطانیہ کی ایک سازش کے تحت اسرائیلی ریاست قائم ہوئی تو سب سے پہلے جو کام یہودیوں نے کیے، ان میں سے ایک یہ تھاکہ انھوں نے سبت (ہفتہ) کا دن ہفتہ وار چھٹی کے لیے مقرر کیا۔ اسی طرح انھوں نے عبرانی زبان کو اپنی قومی زبان اور سرکاری اور تعلیمی زبان قرار دیا۔ انبیا اور رسولوں کو ماننے والی جو دوسری قوم ہے، یعنی عیسائی، تو وہ اپنا مذہبی دن اتوار کو مانتے ہیں۔ تیسری قوم جو انبیا اوررسالت کو ماننے والی ہے، یعنی مسلمان، تو اس کا مذہبی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے جمعہ کا دن قرار دیا تھا۔ جمعہ کا دن اس لیے رکھا گیا کہ اس روز اہلِ ایمان باقی کاموں سے فارغ اور آزاد رہ کر نہائیں، صفائی کریں، غسل کر کے نماز کے لیے جائیں اور جب نماز سے فارغ ہوکر نکلیں تو شریعت نے آپ کو اجازت دی ہے کہ آپ اپنا کاروبار کرسکتے ہیں، جیساکہ وَ اِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا (المائدہ ۵:۲) کے الفاظ سے احرام کی پابندی ختم ہونے کے بعد شکار کرنے کی اجازت ظاہر ہوتی ہے۔ لیکن جمعہ کی نماز کے بعد کاروبار کرنے کی اجازت کو حکم کے معنوں میں ثابت کرنے سے جمعہ کو چھٹی قرار دینے کی بات تو غلط ہوگئی، البتہ دورِ غلامی میں انگریزوں نے مسلمانوں میں پہلے سے رائج جمعہ کی رخصت کر کے جب اپنے مذہب کے مطابق اتوار کا دن چھٹی کے لیے مخصوص کرلیا تو اب وہ ہمیشہ کے لیے فرض ہو گیا۔
انگریزوں کی غلامی سے نجات پاکر اور خیر سے آزاد ہوجانے کے باوجود یہ حماقت کی باتیں یہاں کی جاتی ہیں، جب کہ دنیا کے تمام مسلمان ملکوں میں جمعہ ہی ہفتہ وار چھٹی کے دن کے طور پر رائج ہے۔ جب کبھی ہم وہاں جاتے ہیں تو ہمیں شرمندہ ہونا پڑتا ہے کہ سواے ترکی کے باقی تمام ملکوں میں جمعہ کا دن چھٹی کا دن ہوتا ہے اورترکی کا حال آپ کو معلوم ہے کہ وہاں مصطفی کمال نے اپنی قوم کے ساتھ اور مسلمانوں کے مسلّمہ عقاید اور شعائر کے ساتھ کیا معاملہ کیا تھا۔ چنانچہ آج اگر ہم کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی ہفتہ وار تعطیل کا دن جمعہ ہونا چاہیے تو اس پر اعتراض بے معنی ہے۔ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کو اس بات کی ضرورت ہے کہ جمعہ کے روز ان کو اس غرض کے لیے کافی وقت دیا جائے تاکہ وہ اطمینان کے ساتھ نماز کے لیے تیار ہوسکیں۔
دنیا کے تمام مسلمان ملکوں میں یہی شعار رائج رہا ہے، حتیٰ کہ جیسے پہلے اشارہ کیا گیا، انگریزی حکومت کے زمانے میں تمام ہندستان میں اگرچہ اتوار کو چھٹی ہوتی تھی لیکن تمام مسلمان ریاستوں میں چھٹی کا دن جمعہ ہی تھا۔ ریاست بہاولپور، بھوپال اور حیدرآباد دکن میں بھی جمعہ چھٹی کا دن تھا۔ بھوپال اور رام پور جیسی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں جمعہ کو چھٹی ہوتی تھی۔ اس آیت کے الفاظ ’’جمعہ کی نماز سے فارغ ہوکر کاروبار کرو‘‘ سے یہ استدلال صحیح نہیں ہے کہ جمعہ کے دن چھٹی نہیں ہونی چاہیے۔
وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo اللہ کو کثرت سے یاد کرو، توقع ہے کہ تم فلاح پائوگے۔
اس حکم کا مطلب یہ ہے کہ نمازِ جمعہ سے فارغ ہوکر جب تم اپنے کاروبار پر لگو تو اس مصروفیت کے دوران میں اپنے اللہ کو یاد رکھو اور کثرت سے اس کا ذکر کرو۔ جمعہ کے دن تم کو ذکر کے لیے بلانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو تھوڑا ساوقت نماز کے لیے مقرر ہے وہ اللہ کے ذکر کے لیے رکھو اور باقی وقت میںتم اللہ سے غافل ہوسکتے ہو۔ نہیں، بلکہ مراد یہ ہے کہ جب تم نماز سے فارغ ہوکر اپنے کاروبار کے لیے نکلو تو اپنے اللہ کی طرف متوجہ رہو۔ اس وقت بھی کثرت سے اللہ کا ذکر کرتے رہو۔ پھر اس ذکرسے مرادکوئی خاص قسم کا ذکر نہیں ہے کہ آپ، مثلاً سبحان اللہ، سبحان اللہ ہی پڑھتے رہیں، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ آدمی کسی حال میں بھی اللہ کی یاد سے غافل نہ ہو، کاروبار بھی کرے تو اللہ کو یاد رکھے۔ ویسے بھی ایک مسلمان کی زبان سے اپنے دن رات کے اوقات میں، الحمدللہ، ان شاء اللہ، ماشاء اللہ وغیرہ کے جو الفاظ نکلتے ہیں، یہ سب اللہ کا ذکر ہی ہے۔ زندگی کے مختلف معاملات انجام دیتے ہوئے جب آدمی کسی نہ کسی طرح اللہ کا ذکر کرتا رہتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کو بھولا نہیں، اس سے غافل نہیں ہوا۔
وَاِِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَھْوَانِ انْفَضُّوْٓا اِِلَیْھَا وَتَرَکُوْکَ قَـآئِمًا قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّھْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِ ط وَاللّٰہُ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ o (۱۱) اور جب انھوں نے تجارت اور کھیل تماشا ہوتے دیکھا تو اس کی طرف لپک گئے اور تمھیں کھڑا چھوڑ دیا۔ ان سے کہو، جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشے اور تجارت سے بہتر ہے۔ اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔
جیساکہ آغاز میں بیان کیا گیا، یہ بالکل ابتدائی زمانے کی بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ تشریف آوری کے بعد نمازِ جمعہ کا طریقہ مقرر کیا تو مدینہ میں لوگ ابھی پوری طرح تربیت یافتہ نہیں تھے۔ وہ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور جمعہ کا طریقہ نیا نیا مقرر کیا گیا تھا۔ اس لیے لوگ ابھی پوری طرح اس کے آداب اور طور طریقوں سے واقف نہیں ہوئے تھے۔ دوسری طرف اسی زمانے میں چونکہ اہلِ مدینہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ہاں جگہ دے کر تمام کفارِ عرب سے دشمنی مول لے لی تھی، اس لیے عرب کے لوگوں نے مدینہ کے لوگوں کا ایک طرح سے معاشرتی اور معاشی مقاطعہ کر رکھا تھا۔ ان سے کاروباری تعلقات کاٹ لیے تھے جس سے مدینہ کے لوگوں کی معاشی حالت بہت خراب ہوگئی تھی۔ مہاجرین جو مکہ معظمہ اور عرب کے دوسرے حصوں سے ہجرت کر کے آئے تھے اور اُن کی اکثریت اس حال میں آئی تھی کہ اپنے گھربار، مال اسباب سب کچھ چھوڑ کر صرف تن کے کپڑوں میں نکل آئے تھے اور ان کے لیے کوئی ٹھکانہ یہاں نہیں تھا۔ ان کی معاشی حالت بھی بہت خراب تھی اور مدینہ کی ایک چھوٹی سی بستی میں ایسے خستہ حال مہاجرین کے آنے سے، اور یہاں کے لوگوں پر اُن کا بار پڑ جانے سے دونوں کی معاشی حالت پر اس کا بُرا اثر پڑا تھا۔ پیش نظر آیات میں جس واقعے کا ذکر آیا، وہ اسی زمانے میں پیش آیا تھا۔
احادیث میں یہ قصہ اس طرح آیا ہے کہ ایک تجارتی قافلہ مدینہ طیبہ میں آیا۔ تجارتی قافلوں کا جو طریقہ اُس زمانے میں رائج تھا وہ یہ تھا کہ جب قافلے والے کسی بستی میں پہنچتے تھے تو ڈھول تاشے بجاتے تھے، اور ان کے ساتھ کچھ حبشی غلام وغیرہ بھی ہوتے تھے۔ وہ اس ڈھول تاشے کے ساتھ کچھ اُچھل کود کرکے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے تھے۔ اس طرح گویا بستی کے لوگوں کو خبردار کرتے تھے کہ ایک تجارتی قافلہ آگیا ہے۔ اتفاق کی بات ہے کہ عین جمعہ کی نماز کے وقت ایک تجارتی قافلہ باہر سے آیا اور اس نے آکر ڈھول تاشے بجانے شروع کیے، تو وہ لوگ جو اس وقت مسجد میں نمازِ جمعہ کے لیے جمع تھے، اپنی پرانی عادت کی بنا پر ڈھول تاشوں کی آواز سن کر ان کی توجہ اس قافلے کی طرف ہوگئی۔ اس کے ساتھ ان کو یہ اندیشہ بھی لاحق ہوا کہ جو لوگ جمعہ کے لیے نہیں آئے ہیں، وہ اچھااچھا مال خرید کر لے جائیں گے اور خرید و فروخت کا ایک اچھا موقع ہاتھ سے نکل جائے گا۔ ابھی تک مدینہ میں غیرمسلم بھی موجود تھے۔ یہودی بھی تھے اور منافقین کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی جس کی بنا پر ان کو یہ پریشانی ہوئی کہ اگر ہم یہاں بیٹھے رہے تو دوسرے لوگ آکر اچھا اچھا مال خرید کر لے جائیں گے۔ دوسری طرف ہم اپنا مال قافلے والوں کے ہاتھ اچھے داموں بیچ بھی نہیں سکیں گے، اس طرح دوہرا نقصان ہوگا۔
دراصل اس زمانے میں تجارتی قافلے اس غرض کے لیے آتے تھے کہ باہر کا مال لاکر مقامی آبادی کے ہاتھ بیچیں اور ان کے ہاں اگر کوئی چیز خریدنی ہے تو خرید کر ساتھ لے جائیں۔ چنانچہ جو لوگ مسجد میں جمع تھے، وہ بالکل بے ساختہ، عین خطبے کے دوران میں اُٹھ کر مسجد سے باہر نکل گئے اور حضوؐر کھڑے رہ گئے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ صرف آٹھ آدمی مسجد میں رہ گئے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ صرف ۱۲ آدمی مسجد میں رہ گئے، اور بعض روایات میں ان کی تعداد زیادہ سے زیادہ ۴۰ کی بتائی گئی ہے۔ اگر ۴۰ کی تعداد کو بھی مان لیا جائے تب بھی بڑی اکثریت جو وہاں موجود تھی وہ اُٹھ کر چلی گئی۔ کیونکہ ظاہر بات ہے کہ مدینے میں مسلمانوں کی تعداد محض اتنی کم تو نہیں تھی۔ مہاجرین کے علاوہ انصار کی بھی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ اس لیے صورتِ واقعہ یہی نظر آتی ہے کہ ایک بڑی اکثریت اُٹھ کر چلی گئی اور بہت تھوڑے سے لوگ مسجد میں باقی رہ گئے۔ اب چونکہ یہ ایک اضطراری حرکت تھی اور لوگ بھی غیر تربیت یافتہ تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے اُوپر سخت گرفت نہیں فرمائی بلکہ صرف اس کا ذکر کردینے پر اکتفا کیا۔ اگر کہیں لوگ تربیت یافتہ ہونے کے بعد اور ایک کافی مدت اسلام میں گزار لینے کے بعد اس طرح کی حرکت کے مرتکب ہوتے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر انتہائی شدید گرفت کی جاتی، چونکہ یہ ابتدائی حالت تھی اس وجہ سے اس انداز میں توجہ دلائی گئی ہے، اور یوں ذکر کیا گیا کہ جن لوگوں نے تجارت اور لَہو کو دیکھا، یعنی وہ کھیل تماشا دیکھا جو قافلے والے کرر ہے تھے، اور تجارت کا موقع دیکھا تو حضوؐر کو خطبہ دیتے ہوئے کھڑا چھوڑ کر اس کی طرف اُٹھ کر چلے گئے۔ پھر تعلیم و تربیت کے انداز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ بات کہلوائی گئی کہ:
قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّھْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِ وَاللّٰہُ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ (اے نبیؐ!) ان لوگوں سے کہو کہ اللہ کے پاس جو کچھ ہے وہ اس لہو اور کھیل تماشے سے اور اس تجارت سے زیادہ بہتر ہے اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔
اس طرح یہ بات سمجھائی گئی کہ تم اس خیال سے کہ رزق حاصل کرنے کا ایک موقع ہاتھ سے نکل جائے گا، اللہ کے رسولؐ کو کھڑے چھوڑ کر قافلے کی طرف نکل بھاگے لیکن یہ نہ سوچا کہ رزق تو اللہ کے پاس ہے،اور بہترین رزق دینے والا وہی ہے۔ اگر یہ موقع نکل بھی جاتا، تو کیا ہوتا، تمھارا رزق تو ختم نہ ہوجاتا۔
اب دیکھیے کہ ان الفاظ سے صاف مترشح ہوتا ہے کہ یہاں انداز عتاب کا نہیں ہے، غضب اور غصے کا بھی نہیں ہے، بلکہ اس طریقے سے لوگوں کی تربیت فرمائی گئی، کیوں کہ ان سے یہ غلطی اضطرار کی بنا پر، اور تربیت یافتہ نہ ہونے کی بنا پر سرزد ہوئی تھی۔ محض اسلام کا ابتدائی عہد ہونے کی بناپر ان سے جو قصور ہوا تھا، وہ نعوذ باللہ کوئی ارتداد کا فعل نہیں تھا، یا دین سے بے پروائی کا، یا رسولؐ اللہ کے ساتھ نعوذ باللہ بے احترامی کا برتائو کرنے کا کوئی تصور دُور دُور تک ان کے ذہن میں نہیں تھا، نہ ہوسکتا تھا۔ اگر وہ رسولؐ اللہ سے معاذاللہ بے پروا ہوتے تو صرف چند ماہ قبل (ہجرت کے وقت) وہ اتنا عظیم خطرہ مول ہی کیوں لیتے کہ خود جاکر مکہ سے حضوؐر کو ساتھ لے کر آئے تھے، اور ایسے ایسے پکے عہدوپیمان کیوں کرتے کہ اگر سارا عرب بھی ہمارا دشمن ہوگا اور ہم سے لڑے گا تو ہم آپ کے لیے جانیں قربان کر دیں گے۔
ظاہر بات ہے کہ انصارِ مدینہ کی طرف سے ایسی کوئی کمزوری دکھانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ یہ کوتاہی سراسر اُن سے اضطراری حالت میں اور تربیت میں کمی کی بنا پر ہوئی تھی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان پر عتاب اور غضب کا اظہار کرنے کے بجاے ان کی بڑی شفقت کے ساتھ تربیت فرمائی اور سمجھایا کہ یہ کام تم سے درست نہیں ہوا۔ تم کو سمجھنا چاہیے کہ اللہ کے پاس جو کچھ ہے وہ اس تجارت اور کھیل کود سے زیادہ بہتر ہے جس کی طرف تم چلے گئے تھے۔ خوب سمجھ لو کہ اللہ کے ذکر سے کوئی چیز افضل نہیں اور یقین رکھو کہ اللہ ہی بہتر رزق دینے والا ہے۔ (جمع و تدوین: حفیظ الرحمٰن احسن)