جون ۲۰۱۰

فہرست مضامین

کلام نبویؐ کے سایے میں

عبد الغفار عزیز | جون ۲۰۱۰ | فہم حدیث

Responsive image Responsive image

حضرت زیاد بن لبیدؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ اس وقت ہوگا جب علم اٹھ جائے گا۔ میں نے عرض کی: یارسولؐ اللہ! علم کیسے اٹھ جائے گا، جب کہ ہم قرآن پڑھتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی پڑھاتے ہیں اور ہماری اولاد اپنی اولاد کو پڑھائے گی اور اس طرح یہ سلسلہ قیامت تک چلتا رہے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمھاری ماں تمھیں روئے، میں تو تمھیں مدینہ کا سمجھ دار ترین شخص سمجھتا تھا۔ کیا یہ یہودی اور عیسائی تورات و انجیل نہیں پڑھتے، لیکن اس میں جو (احکامات) ہیں ان پر عمل نہیں کرتے۔ (ابن ماجہ حدیث ۴۰۴۸)

سید ابو الاعلی مودودیؒ کے الفاظ میں قرآن کریم شاہ کلید ہے جو مسائل حیات کا ہر قفل کھول دیتی ہے۔ لیکن اگر اس کتابِ حیات اور شاہ کلید کا مقصد صرف طاقوں پر سجانا اور دھو دھو کر پلانا ہی سمجھ لیا جائے، اس نسخۂ کیمیا کو صرف آواز و انداز کے حُسن اور سانس کی طوالت آزمانے کا ذریعہ سمجھ لیا جائے، تو یقینا کائنات کی عظیم ترین نعمت پاس ہوتے ہوئے بھی، بندہ علمِ حقیقی سے محروم ہوجاتا ہے۔

صحابۂ کرام کو اسی لیے حیرت ہوئی کہ یارسولؐ اللہ! کتابِ الٰہی ہمارے درمیان ہوگی اور پھر بھی علم نہ رہے گا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت و تنبیہ سے عربوں کا معروف جملہ دہراتے ہوئے فرمایا: اپنی کتاب پڑھنے کا دعویٰ تو یہودی اور عیسائی بھی کرتے ہیں لیکن پھر بھی مغضوب علیہم اور ضالین ہوگئے۔

o

حضرت ابو موسی الاشعریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے جو علم و ہدایت دے کر بھیجا ہے اس کی مثال (بابرکت) بارش کی طرح ہے۔ کچھ زمین ایسی زرخیز ہوتی ہے کہ اس بارش سے خوب سرسبز و شاداب ہوکر لہلہا اٹھتی ہے۔ کچھ زمین ایسی پتھریلی ہوتی ہے کہ اس سے وہاں کوئی فصل و شادابی تو نہیں ہوتی، البتہ وہ پانی کو محفوظ کرلیتی ہے۔ (خود تو محروم رہتی ہے) لیکن لوگ اس سے خود بھی سیراب ہوتے ہیں اور اپنی فصلوں اور مال مویشی کو بھی سیراب کرلیتے ہیں۔ لیکن کچھ زمین ایسی صحرائی ہوتی ہے کہ نہ تو خود لہلہاتی ہے اور نہ پانی ہی محفوظ کرتی ہے۔ یہی مثال انسانوں کی ہے کہ کچھ نے اللہ کے دین کو سمجھ لیا اور اللہ نے میرے ذریعے بھیجی جانے والی ہدایت کو ان کے لیے فائدہ بخش بنادیا۔ کچھ نے اس کو خودبھی اسے سیکھا اور دوسروں کو بھی سکھایا، اور کچھ نے اس کی جانب سر اٹھا کر بھی نہ دیکھا، اللہ نے جو ہدایت میرے ذریعے عطاکی ہے اسے قبول نہ کیا۔ (بخاری، حدیث ۷۹)

خیر و برکت کی موسلادھا ر بارش تو باغات، فصلوں، میدانوں، صحراؤں اور چٹانوں پر، ہر جگہ ہوتی ہے لیکن نصیب اپنے اپنے ہیں۔ معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم مثال دے کر سمجھا رہے ہیں کہ گھر آئی نعمت سے خود بھی جھولیاں بھر لو اور دوسروں کے نصیب بھی جگا دو۔

o

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کوئی بندہ بیمار پڑ جائے یا سفر میں ہو تو بھی    اس کے اُن نیک اعمال کا اجر جاری رہتا ہے جو وہ (صحت مندی اور حضر میں) کیا کرتا تھا ۔ (بخاری، حدیث ۲۹۹۶)

اللہ کے اجر و احسان کے پیمانے ہی مختلف ہیں۔ بندہ اپنے مہربان خالق کی عطائوں کا تصور تک نہیں کرسکتا۔ بندہ نیکیوں اور حسن عمل کا خوگر بن جائے، نیت خالص رکھے، تو خدانخواستہ کسی معذوری کی صورت میں بھی ان نیکیوں کا اجرجاری رہتا ہے۔ گویا صحت، عافیت اور راحت کے لمحات میں بندے کی نیکیاں دگنی اہمیت رکھتی ہیں۔ نہ صرف اس لمحۂ موجود میں کامیاب کرتی ہیں بلکہ انھی کی بنیاد پر ہنگامی حالات میں بھی نیکیوں کے کھاتے جاری رہتے ہیں۔

o

حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم روزِ محشر ننگے پاؤں، ننگے بدن اور غیر مختون اٹھائے جاؤ گے۔ حضرت عائشہؓ نے عرض کی: یارسولؐ اللہ! مرد و عورت  سب اکٹھے…؟ سب ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا: صورت حال اتنی شدید ہوگی کہ اس جانب تو کسی کا دھیان تک نہ جائے گا۔ (بخاری، حدیث ۶۵۲۷)

قرآن و حدیث میں مذکور روز محشر کی تمام ہولناکیاں ذہن میں رکھتے ہوئے پھر اس حدیث کا مطالعہ کریں تو اصل بات سمجھ میں آتی ہے۔

انسان بالکل اس حالت میں اٹھائے جائیں گے کہ جس میں پہلی بار پیدا کیے گئے۔ مال و متاع، رشتے ناتے، القاب و عہدے، سب دنیا ہی میں رہ جائیں گے۔ صرف اور صرف بندے کے اعمال ساتھ دیں گے۔ ایک اور حدیث کے مطابق ساری خلقت اپنے اپنے اعمال کے مطابق، پسینے میں ڈوبی ہوگی۔ کچھ ٹخنوں تک اور کچھ لوگوں کا پسینہ ان کے ناک تک پہنچ کر لگام کی صورت میں ان کے منہ میں جارہا ہوگا۔

حیرانی و پریشانی سے پوچھا گیا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا سوال دیکھیں اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جامعیت پر مبنی جواب۔ اس قدر ہولناک صورت حال میں بھلا کس کا دھیان اس جانب جائے گا کہ سب مرد و زن عریاں ہیں۔ سب کو اپنی نجات و آخرت کی فکر لگی ہوگی۔ مطلب یہ ہوا کہ دنیا میں بھی عریانی، فحاشی اور غلاظت و تباہی کا شکار وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو آخرت کی ہولناکیوں سے غافل یا  بے خبر ہوں۔

o

حضرت ابو مسعودؓ راوی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کو گذشتہ انبیا ؑ کی جو باتیں عطا ہوئی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ: ’’اگر تم حیا نہیں کرتے تو جو چاہے کرتے پھرو‘‘۔(بخاری، حدیث ۶۱۲۰)

حیا انسان کا زیور ہی نہیں شیطان کے مقابلے کے لیے، اہم ترین ہتھیار بھی ہے۔ بندہ حیا کھودے تو اس نے سب کچھ کھودیا۔ گویا پھر وہ اللہ کے ذمے سے نکل گیا، پھر وہ جانوروں سے بدتر ہے جو چاہے کرتا پھرے۔

مختصر حدیث اسلامی تہذیب کا اہم ترین اصول ہے اور اس کا اطلاق کسی محدود اخلاقی دائرے پر نہیں، زندگی کے ہر شعبے پر ہوتا ہے۔ حیا نہ رہی تو ہرمعاملے میں حدود سے تجاوز ہوگا۔

o

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ اسے جسمانی عافیت نصیب ہو، وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ پُرامن ہو اور اس کے پاس اس روز کی خوراک ہو، تو گویا اسے ساری دنیا کی نعمتیں جمع کرکے دے دی گئیں۔ (ترمذی، حدیث ۲۳۴۶)

بندہ یہ تو محسوس ہی نہیں کرتا کہ عافیت سلامتی اور اپنوں کا ساتھ بھی کوئی نعمت ہے۔ کسی کے پاس صرف اس روز کے کھانے کا انتظام و گنجایش ہو تو لوگ اسے فقیروں میں بھی آخری درجہ دیتے ہیں۔ لیکن ارشاد نبویؐ ہے: سمجھو دنیا کی ساری نعمتیں جمع ہوگئیں۔ نعمت کا شکر ادا ہوجائے تو جو خالق آج دے رہا ہے، وہی کل بھی ضرور دے گا۔

اللہ تعالیٰ کسی دنیاوی نعمت کی نفی نہیں کرتا، نہ اس سے منع ہی کرتا ہے لیکن نعمتوں کا احساس و اہمیت،  دل و دماغ میں تازہ رہنا چاہیے تاکہ حقیقی شکر ادا ہوسکے اور دل اصل، یعنی آخرت کی کمائی سے     جڑا رہے۔

o

حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھانے کے (دوسری روایت میں ہے گندم کے) ایک ڈھیر کے پاس سے گزرے۔ آپؐ نے ڈھیر میں ہاتھ ڈالا تو انگلیوں کو نمی محسوس ہوئی۔ آپؐ  نے اس کے مالک سے پوچھا: یہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا: یارسولؐ اللہ! اس پر بارش ہوگئی تھی۔آپؐ  نے فرمایا: ’’اس گیلی (گندم) کو اوپر کیوں نہ کردیا کہ لوگ اسے دیکھ سکتے۔جس نے دھوکا دیا وہ مجھ سے نہیں ہے‘‘۔ (ترمذی، حدیث ۱۳۱۵)

واقعے کے آخر میں فرمائے گئے چند الفاظ انتہائی جامع، بنیادی اور ہلا دینے والے ہیں۔ دھوکا دہی اور جعل سازی جس نوعیت کی ہو، جس میدان میں ہو، امتی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق سے     محروم کردیتی ہے۔ ’’وہ مجھ سے نہیں‘‘ یعنی میرا اس سے کوئی تعلق نہیں‘‘--- العیاذ باللہ۔ تھوڑا سا دنیاوی مفاد اور ہمیشہ کا خسران۔ اے اللہ! ہم سب کو اس نقصان سے محفوظ رکھ!