انسان کا سب سے بڑا دشمن اس کا اپنا نفس ہے جو اس کے اندر گھسا بیٹھا ہے۔ یہی نفس اسے برائی اور گناہ کی طرف مائل کرتا ہے۔ اسی نفس کے تزکیے اور راہِ راست پر رکھنے کا کام انسان کے سپرد ہوا ہے۔ پس اگر آپ اپنے نفس کی خبر نہ لیں تو وہ سرکش ہو جاتا ہے۔ اگر آپ اسے ملامت کرتے رہیں گے تو وہ نفسِ لوامہ بن جائے گا، اور راہِ راست پر لانے کی یہ کوشش جاری رہے تو رفتہ رفتہ نفسِ مطمئنہ بن جائے گا اور آپ ان بندگانِ خدا میں شامل ہوجائیں گے جو اللہ سے راضی ہوں اور اللہ ان سے راضی ہو۔
اپنے نفس کا تزکیہ اور محاسبہ صرف وہی کرسکتا ہے جس میں اپنے نقائص کو جاننے، اور اعتراف کرنے کا حوصلہ ہو، اور ساتھ ہی وہ اتنا اصلاح پسند بھی ہو کہ اپنے نقائص کو دُور کرنے، اور ان کی جگہ خوبیاں پیدا کرنے کی تڑپ بھی رکھتا ہو۔ ایسے ہی شخص سے توقع کی جاسکتی ہے، کہ وہ اپنے آپ کو برائیوں سے پاک کرنے کی جدوجہد کرے۔
انسان کا برائی کی طرف مائل ہونے میں سب سے بنیادی سبب اس کی غفلت ہے۔ انسان کو جب ضروریاتِ زندگی بآسانی اور کثرت سے مل رہی ہوں تو وہ آہستہ آہستہ دنیا میں کھو جاتا ہے اور دین سے غفلت برتنے لگتا ہے اور دنیا کی ہوس کا شکار ہوجاتا ہے۔ اسی غفلت کے نتیجے میں وہ یہ بات بھول جاتا ہے کہ وہ کس مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے اور کیا کر رہا ہے۔ اس غفلت سے انسان کو بیدار کرنے کے لیے انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنا ناگزیر ہے۔
انسانی زندگی میں اخلاق کی اہمیت بھی اسی وجہ سے ہے کہ انسان اخلاق کے پیمانے پر اپنے آپ کو پرکھ سکے، اچھے اخلاق اپنا لے اور بُرے اخلاق سے اجتناب کرے۔ انسان اخلاق کے بل بوتے پر دوسروں کے دلوں پر حکومت کیا کرتا ہے۔ اخلاق سے دشمن، دوست بن جاتا ہے۔ اخلاق ہی وہ شے ہے جس سے پتھر دل موم ہو جایا کرتے ہیں۔ اخلاق ایک دوسرے کے اندر انس و محبت پیدا کرتا ہے۔ اخلاق سے انقلاب آجاتا ہے۔ اخلاق سے بڑی بڑی جنگیں سر کرلی جاتی ہیں۔ جس انسان میں اخلاق جیسی کوئی صفت نہ ہو تووہ اکھڑمزاج، بدتمیز اور کھردرا کہلاتا ہے۔ اس کے رویے سے زندگی تلخ ہوجاتی ہے، تعلقات کشیدہ ہوجاتے ہیں۔ انسان تو انسان حیوان بھی خوف کھانے لگتے ہیں، لہٰذا ہمیں اپنے اخلاق کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے تاکہ بداخلاقی سے گریز کرسکیں اور لوگوں کی نظروں سے گرنے سے بچے رہیں۔
بعض لوگوں کی خودپسندی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اپنے طرزِعمل پر کسی کے ذرا سے جائز اعتراض کو بھی اپنی عزتِ نفس پر حملہ خیال کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک عزت نفس اور غیرت کا مفہوم یہی ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے۔ ایسے لوگوں کو اگر زندگی میں اپنی کسی غلطی پر معافی مانگنا پڑ جائے تو ان کے لیے یہ مرحلہ موت سے کم نہیں ہوتا۔ وہ اپنے بڑے سے بڑے دینی اور دنیوی نقصان کو گوارا کرلیں گے مگر معافی مانگنے کی ذلت کو گوارا نہیں کریں گے۔ اس کے برعکس کچھ لوگ منکسرالمزاج ہوتے ہیں۔ اپنے آپ کو غلطیوں سے بالا نہیں سمجھتے اور جھوٹی آن پر ایمان نہیں رکھتے۔ یہ لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہاں معاف کرا لینا قیامت میں سزا پا لینے سے بدرجہا بہتر ہے۔ ایسے لوگوں سے جب کوئی خطا ہوتی ہے تو وہ بآسانی معافی مانگ لیتے ہیں، اور معافی مانگنے کے بعد کافی راحت محسوس کرتے ہیں۔
نفس کے ساتھ جہاد کرنے کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ نفس سے جہاد کو جہادِ اکبر کہا گیا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ فرماتے ہیں کہ کافروں کے ساتھ جہاد کرنا چھوٹا جہاد ہے مگر نفس کے ساتھ جہاد کرنا بڑا جہاد ہے۔ حضرت شداد بن اوسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دانا وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور موت کے بعد کے لیے عمل کرے، اور عاجز وہ ہے جو اپنے نفس کی خواہشوں کے پیچھے لگا رہے اور اللہ تعالیٰ سے اُمیدیں باندھے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ جس نے اپنے نفس کا جائزہ لیا وہ نفع میں رہا، اور جس نے غفلت برتی وہ گھاٹے میں رہا، اور جو اللہ سے ڈرا وہ بے خوف ہوگیا۔ سورئہ شمس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا o وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا o (الشمس ۹۱: ۹-۱۰) یقینا فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا۔
حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن آدم علیہ السلام کے بیٹے کے پائوں اس وقت تک سرک نہیں سکتے جب تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں سوال نہ کر لیا جائے: ۱-عمر، کن کاموں میں صرف ہوئی؟ ۲- جوانی، کن مشاغل میں گزری؟ ۳-مال، کن طریقوں سے کمایا؟ ۴- مال، کن مصارف میں خرچ کیا؟ ۵- جو علم حاصل کیا تھا، اس پر کہاں تک عمل کیا؟
محاسبۂ نفس کے سلسلے میں ایک اہم بات جو پیش نظر رہنی چاہیے، وہ یہ ہے کہ ابتدا میں جب انسان یہ عمل شروع کرتا ہے تو اسے کچھ مایوسی سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ روزانہ اپنا محاسبہ کرتے ہوئے اسے یہی احساس ہوتا ہے کہ وہ تو اپنی ذرا سی بھی اصلاح نہیں کرسکا۔ اس سے دل برداشتہ ہونے کے بجاے محاسبۂ نفس کے عمل کو صبر سے برابر جاری رکھنا چاہیے اور مایوس ہوکر اسے ترک نہیں کرنا چاہیے۔
نماز کی دوسری عام آفت وسوسہ ہے۔ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہی آدمی کے ذہن پر وسوسوں اور پراگندہ خیالات کا ہجوم ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو بندے کی نماز سے جتنی محبت ہے شیطان کو اس سے اتنی ہی دشمنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دورانِ نماز ابلیس کے کارندوں کا حملہ سب سے زیادہ سخت انھی لوگوں پر ہوتا ہے جو اس کے مقابل میں قوتِ ایمانی کا ثبوت دیتے ہیں۔ وسوسوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے تین باتیں مفید ہیں:
نماز میں ایک حادثہ چوری کا بھی پیش آیا کرتا ہے۔ وہ اس طرح کہ بعض لوگ وضو اور نماز میں اتنی جلدی کرتے ہیں کہ وہ ان کے کسی بھی رکن کا حق ادا نہیں کرپاتے۔ وضو اور نماز کے ارکان اطمینان سے ادا کرنے چاہییں، ورنہ وضو اور نماز فاسد ہوجائیںگے۔
نماز کی سب سے عام اور زیادہ خطرناک آفت ریا ہے۔ ریاکاری یہ ہے کہ جب کسی کے سامنے نماز ادا کی جائے تو اس طرح گویا کوئی بہت متقی اور پرہیزگار ہے، اور جب اکیلے میں نماز پڑھی جائے تو بس دوچار ٹھونگیں مار لی جائیں۔
حضرت احنف بن قیس تابعیؒ کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ ان کی عبادت کا خاص وقت رات کو ہوتا تھا۔ جب سب لوگ میٹھی نیند کے مزے لے رہے ہوتے تو وہ اپنے رب کے حضور حاضر ہوکر اظہارِ بندگی کرتے اور اپنے اعمال کا جائزہ لیتے۔ وہ چراغ جلا کر اس کی لَو پر اپنی انگلی رکھتے اور اپنے نفس سے مخاطب ہو کے کہتے کہ فلاں فلاں کام کرنے پر کس چیز نے تجھے آمادہ کیا تھا۔
اکثر لوگ روزے کے مقصد کو ملحوظ نہیں رکھتے۔ ان کے نزدیک ماہِ رمضان خاص طور پر کھانے پینے کا مہینہ ہوتا ہے۔ ان کا یہ بھی خیال ہوتا ہے کہ اس مہینے میں کھانے پینے پر جتنا بھی خرچ کیا جائے، اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا کوئی حساب نہیں ہوگا۔ اس خیال کے لوگ اگر خوش قسمتی سے کچھ خوش حال بھی ہوں تو پھر تو فی الواقع ان کے لیے روزوں کا مہینہ کام و دہن کی لذتوں سے متمتع ہونے کا موسم بہار بن کے آتا ہے۔ وہ روزے کی پیدا کی ہوئی بھوک اور پیاس کو نفس کشی کے بجاے نفس پروری کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ وہ صبح سے لے کر شام تک طرح طرح کے پکوانوں کے پروگرام بنانے اور ان کو تیار کرانے میں اپنا وقت صرف کرتے ہیں اور افطار سے لے کر سحر تک اپنی زبان اور اپنے پیٹ کی تواضع میں وقت گزارتے ہیں۔
آدمی جب بھوکا اور پیاسا ہوتو اس کا غصہ بڑھ جاتا ہے۔ جہاں کوئی بات ذرا بھی مزاج کے خلاف ہوئی تو فوراً اس کو غصہ آجاتا ہے۔ روزے کے مقاصد میں سے یہ بھی ہے کہ جن کے مزاج میں غصہ زیادہ ہو، وہ روزے کے ذریعے سے اپنی اصلاح کریں اور غصہ کرنے سے پرہیز کریں۔
روزے کی ایک عام آفت یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ جن کی ذہنی تربیت نہیں ہوئی ہوتی کھانے پینے اور زندگی کی بعض دوسری دل چسپیوں سے علیحدگی کو ایک محرومی سمجھتے ہیں، اور اسی محرومی کے سبب سے ان کے لیے دن کاٹنے مشکل ہوجاتے ہیں۔ اس مشکل کا حل وہ یہ نکالتے ہیں کہ بعض ایسی دل چسپیاں تلاش کرلیتے ہیں جو ان کے خیال میں روزے کے مقصد کے منافی نہیں ہوتیں، مثلاً تاش کھیلنا، ڈرامے دیکھنا، گانے سننا اور بے مقصد مطالعہ کرنا۔ دوستوں میں بیٹھ کر گپیں ہانکتے ہیں جس میں وہ جھوٹ اور غیبت جیسے گناہوں کے مرتکب بھی ہوتے ہیں۔ خیال رہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو آدمی روزہ رکھتے ہوئے باطل کلام اور باطل کام نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
بہت سے لوگ اللہ کی راہ میں خرچ تو کرتے ہیں لیکن دل کی فیاضی اور حوصلے کے ساتھ نہیں بلکہ ان کے پیش نظر صرف ایک مطالبے کو کسی نہ کسی طرح پورا کر دینا ہوتا ہے۔ جس طرح وہ حکومت کا ٹیکس ادا کرتے ہیں، اسی بددلی اور افسردگی کے ساتھ کسی دینی و مذہبی کام کے لیے بھی کچھ مال نکال دیتے ہیں۔ اس بددلی کے سبب سے اللہ کی راہ میں وہ چیزیں دیتے ہیں جن کا دینا ان کے دل پر گراں نہ گزرے، جو ان کی ضرورت سے بالکل فاضل ہوں یا جس سے کم از کم ان کو کوئی بڑا فائدہ اُٹھا سکنے کی توقع نہ ہو۔ اگر قربانی کریں گے تو ایسے جانور کی جو کم قیمت اور بے حیثیت ہو۔ اس طرح کا انفاق نہ صرف یہ کہ کوئی خیر و برکت پیدا نہیں کرتا بلکہ وہ سرے سے اللہ تعالیٰ کے ہاں شرفِ قبولیت ہی نہیں پاتا۔ اس کی تائید سورۂ بقرہ کی یہ آیت کرتی ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ وَ مِمَّـآ اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَلَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ وَلَسْتُمْ بِاٰخِذِیْہِ اِلَّآ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْہِ وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ o (البقرہ ۲:۲۶۷) اے لوگو جو ایمان لائے ہو۔ جو مال تم نے کمائے ہیں اور جو کچھ ہم نے زمین سے تمھارے لیے نکالا ہے، اس میں سے بہتر حصہ راہِ خدا میں خرچ کرو۔ ایسا نہ ہو کہ اس کی راہ میں دینے کے لیے بُری سے بُری چیز چھانٹنے کی کوشش کرنے لگو، حالانکہ وہی چیز اگر کوئی تمھیں دے، تو تم ہرگز اسے لینا گوارا نہ کرو گے، الا یہ کہ اس کو قبول کرنے میں تم اغماض برت جائو۔ تمھیں جان لینا چاہیے کہ اللہ بے نیاز ہے اور بہترین صفات سے متصف ہے۔
انفاق کو برباد کرنے والی ایک بہت بڑی آفت لوگوں کے ساتھ بدسلوکی ہے۔ وہ مانگنے والوں کو دے تو دیتے ہیں مگر اتنی جھڑکیاں اور ایسا توہین آمیز سلوک کرتے ہیں کہ جتنی نیکیاں کماتے ہیں اس سے کہیں زیادہ گناہ اپنے سر مول لے لیتے ہیں۔ دوسروں کی عزتِ نفس کو مجروح کرکے انفاق کرنا اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ اہلِ ایمان تو دوسروں کی مدد اپنا فرض سمجھ کر کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے قبولیت کی دعا کرتے ہیں کہ وہ اسے شرفِ قبولیت بخشے نہ کہ کسی پر احسان جتاتے ہیں۔
روز مرہ زندگی میں جو لوگ شریعت کے احکام و آداب کی پابندیوں کے عادی نہیں ہوتے وہ حج کے موقع پر کچھ زیادہ ڈھیلے ڈھالے ہوجاتے ہیں، اور قدم قدم پر ان سے ایسی باتیں صادر ہوتی ہیں جو اس فسق کے تحت آتی ہیں جسے قرآن پاک نے حج کے سلسلے کی ایک آفت قرار دیا ہے۔ بہت سے لوگ بات بات پر لڑتے جھگڑتے ہیں۔ بے تکلفی میں گالی گلوچ کرتے ہیں اوراپنے ساتھیوں کو اذیت دیتے ہیں۔ ان امور سے اجتناب کرنا چاہیے۔
حج کے سلسلے کی ایک مشکل یہ بھی ہے کہ عام طور پر لوگ حج کے شعائر اور مناسک کی روح اور حقیقت سے بالکل بے خبر ہوتے ہیں۔ بس لوگ عقیدت کے جذبے کے ساتھ جاتے ہیں اور معلم حضرات ان سے جو رسوم ادا کرواتے ہیں، آنکھیں بند کرکے ان کو ادا کیے چلے جاتے ہیں۔ نہ حج اور عمرے کا فرق معلوم، نہ طواف کی حقیقت کاپتا، نہ حجراسود کو بوسا دینے کا مدعا واضح، نہ معلوم کہ سعی کیوں کی جاتی ہے۔قربانی کی اصلی روح کیا ہے، رمی جمرات سے ہمارے اندر کس روح کو زندہ رکھنا اور بیدار رکھنا مقصود ہے وغیرہ سے بے خبر ہوتے ہیں۔
محاسبۂ نفس کے یہ مختلف پہلو ہیں جن سے اس کی اہمیت اُجاگر ہوتی ہے۔ محاسبۂ نفس نہ صرف تزکیۂ نفس کے لیے ناگزیر ہے بلکہ ذاتی اصلاح اور خود احتسابی کے لیے بھی ضروری ہے۔ انسان چونکہ ضعیف العقل ہے اس لیے وہ بہت جلد شیطان کے وسوسوں اور ورغلانے کا شکار ہوجاتا ہے۔ اپنے محاسبے کی وجہ سے انسان اپنی عاقبت سنوارنے میں کامیاب ہوجاتا ہے، اور شیطان کے وسوسوں اور ورغلانے سے محفوظ رہتا ہے، اور ساتھ ہی ساتھ اپنے خالق و مالک کی رضامندی اور خوشنودی کے حصول کا باعث بھی بنتا ہے۔ ہمیں محاسبۂ نفس اور خود احتسابی کو اپنا معمول بنانا چاہیے۔