عصرحاضر کے معاشی، سیاسی، معاشرتی اور قانونی معاملات کے حوالے سے عموماً مغربی تعلیم یافتہ طبقے کی طرف سے یہ سوال گاہے بہ گاہے اٹھتا رہتا ہے کہ قرآن و سنت کے وہ قوانین جو ایک بدویانہ معاشرے میں آج سے ۱۵۰۰ سال پہلے نافذ کیے گئے تھے آج کس طرح نافذ کیے جاسکتے ہیں؟ یہ اور اس قبیل کے بہت سے سوالات جن میں اسلامی قوانین میں شدت کا عنصر، عورت کی گواہی خصوصاً حدود کے معاملات میں، عورت کا ووٹ کاحق ، خود اسلامی حکومت کا شرعی جواز وغیرہ شامل ہیں، کوئی نوزائیدہ سوالات نہیں ہیں۔ ان پر مختلف ادوار میں مختلف زایوں اور لہجوں میں بات ہوتی رہی ہے اور ان سوالات کا بار بار اٹھنا ایک لحاظ سے بہت مفید بھی ہے کہ اس طرح اہلِ فکر کو مزید غور اور تحقیق کرنے کا داعیہ ہوتا ہے اور اسلام کے روشن اور عملی پہلو مزید اُجاگر ہوکر سامنے آتے ہیں۔ اس نوعیت کے سوال اٹھنے کا ایک سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی فکر اور فقہ کی تدوین کن بنیادوں پر ہوئی اور آج بھی ہوسکتی ہے، اس پہلو پر ہمارے نظامِ تعلیم میں کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ دینی مدارس بھی اس اہم پہلو کو نظرانداز کرجاتے ہیں۔
اسلامی فقہ اور قانون میں ایک بہت اہم شعبہ مقاصد الشریعہ کا ہے جس کی نسبت حضرت عمرؓ کے علم اسرار دین کے حوالے سے کی جاتی ہے۔ معروف مسلم فقہا نے اس موضوع پر براہِ راست اور بالواسطہ غیرمعمولی تحقیقی کام کیے ہیں جنھیں امام غزالی کی المُصتسفٰیاور امام الشاطبی کی الموافقات کا تذکرہ کیے بغیر اس علم کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ دورِ جدید میں محمد الطاہر ابن عاشور (۱۸۶۸ء-۱۸۱۵ء) کی معرکہ آرا تصنیف مقاصد الشریعۃ (جس کا انگریزی ترجمہ ابھی حال ہی میں لندن اور واشنگٹن سے بین الاقوامی ادارہ فکراسلامی ، ہرنڈن ورجینیا، امریکا سے طبع ہوا ہے) گذشتہ معروف کتب سے استفادہ کرتے ہوئے نئی راہوں کی نشان دہی کرنے والی ایک تصنیف ہے۔
اُردو میں اس موضوع پر تراجم کو چھوڑتے ہوئے غالباً یہ پہلی طبع زاد تصنیف ہے جو معروف ماہرِ معاشیات ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کے مقالات پر مبنی کتابی شکل میں شائع کی گئی ہے۔
اس موضوع پر تعارفی اور اعلیٰ تحقیقی مواد کی ضرورت ایک عرصے سے شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی تھی۔ برادر محترم نجات اللہ صاحب نے اس کمی کو پورا کرتے ہوئے اس موضوع پر مزید توجہ اور تحقیق کی طرف اُمت مسلمہ کو متوجہ کیا ہے۔ کتاب ۸ ابواب پر مشتمل ہے جن میں مقاصد شریعت کا ایک عصری مطالعہ، مقاصد شریعۃ اور معاصر اسلامی فکر، مقاصد شریعت کی پہچان اور تطبیق، مقاصد کے فہم و تطبیق میں اختلاف کا حل، مقاصد کی روشنی میں اجتہاد کی حالیہ کوششیں، مقاصد کی روشنی میں معاصر اسلامی مالیاتی مسائل کا جائزہ، مقاصد اور مستقبلِ انسانیت اور مقاصد اور فہم و تطبیق شامل ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو اس علم کے صحیح طور پر فہم و عبور کے بغیر کسی بھی دور میں پیدا ہونے والے مسائل کا حل مناسب انداز میں نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے یہ ایک بنیادی علم ہے۔ لیکن نہ صرف برعظیم بلکہ عالمِ اسلام کی دینی جامعات میں اس پر وہ توجہ نہیں دی جاتی جس کا یہ مستحق ہے۔ عموماً تاریخ، فقہ اسلامی، فقہ الطہارہ، فقہ العبادات، فقہ المعاملات، فقہ العقود، فقہ الاسرہ وغیرہ کی تعلیم بقدر ضرورت دے دی جاتی ہے اور کئی سال کے دورانیے میں ایک ضمنی موضوع کے طور پر مقاصد کی طرف بھی اشارہ کردیا جاتا ہے۔ ایک طالب علم یہ جاننے کے باوجود کہ حفظِ نفس کا تعلق قصاص و دیت کے باب سے ہے، بہت کم غور کرتا ہے کہ حُرمتِ نفس جو شریعت کا ایک بنیادی مقصد ہے اس کے براہِ راست اثرات کن کن شعبوں پر پڑتے ہیں، کیا ماحولیاتی آلودگی کو اس سے الگ کیا جاسکتا ہے، کیا غذا میں ملاوٹ سے اس کا براہِ راست تعلق نہیں ہے، کیا دواساز اداروں میں ایسے کیمیاوی اجزا کا استعمال جو طویل مدت میں انسانی جان کے وجود کے لیے خطرہ ہو اس بحث سے خارج ہوں گے؟
حقیقت یہ ہے کہ فقہ کے وجود میں آنے کا براہِ راست تعلق مقاصد شریعہ سے ہے اور اس علم سے کماحقہ، واقفیت اور عبور کے بغیر ایک فقیہہ فتاویٰ اور معروف کتب فقہ، مثلاً البدائع والصنائع یا ھدایہ اور قدوری کی بنیاد پر ایک مستند راے تو دے سکتا ہے لیکن جدید مسائل کا صحیح فہم اور حل پیش نہیں کرسکتا۔
نجات اللہ صاحب شکریے کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اُردو خواں طبقہ کے لیے ایک انتہائی اہم موضوع پر غوروفکر کا مواد فراہم کیا ہے۔
تجدید و احیاے دین کی اسلامی تحریکوں کے حوالے سے جائزہ لیتے ہوئے (ص ۵۶) مصنف نے سیاست میں حصہ لینے اور حکمران وقت کے خلاف قوت کے استعمال کی طرف اشارہ کرنے کے بعد بعض عصری مسائل کا تذکرہ کیا ہے جن میں کرنسی نوٹ کی شرعی حیثیت، عورت کا بغیر محرم سفر کرنا، صدقہ فطر کی نقد ادایگی، قطبین میں نماز روزہ کے اوقات، لیزنگ وغیرہ سے بحث کی ہے، اور عصرِحاضر کے معروف مفکرین کی آرا بھی نقل کی ہیں جن میں شیخ یوسف قرضاوی، مفتی محمدشفیع، شیخ بن باز، شیخ غزالی اور حسن ترابی بھی شامل ہیں۔ لیکن ۲۰ویں صدی کے ایک ایسے مفکر کا نام اشارتاً بھی کہیں نظر نہیں آیا جس نے شاید ان سب سے زیادہ مقاصد شریعہ کی بنیاد پر نصوص پر مبنی سیاسی، معاشرتی، معاشی، اخلاقی اور تعلیمی مسائل پر لکھا۔ بلاشبہہ عورت کی سربراہی کے معاملے میں جب سیدابوالاعلیٰ مودودی نظربند تھے، مفتی محمد شفیع مرحوم نے فتویٰ دیا لیکن اس فتوے کی توثیق کرتے ہوئے پشاور سے کوئٹہ تک دلائل کے ساتھ جو کام استاذ مودودی نے کیا، اس کا ذکر نہ آنا ایک غیرمعمولی اور غالباً غیرشعوری بھول ہے۔
کتاب کی ایک بڑی خوبی سلاست بیان ہے، چنانچہ ایک علمی موضوع پر ہونے کے باوجود ایک عام قاری اسے بوجھل محسوس نہیں کرے گا۔ تحریکاتِ اسلامی کے کارکنان کے لیے اس کا مطالعہ دعوتی مقاصد کے لیے بہت مفید ہے۔(ڈاکٹر انیس احمد)
زیرنظر کتاب ڈاکٹر طٰہٰ جابر فیاض علوانی کی کتاب آداب الاختلاف فی الاسلام کا اُردو ترجمہ ہے۔ اس کتاب میں شیخ عبداللہ بن محمد الغنیمان کا کتابچہ اختلافی مسائل میں ذاتی میلانات و رجحانات کا اثر اور ڈاکٹر صالح بن عبداللہ بن حمید کا مقالہ ’سلیقۂ اختلاف‘ بھی شامل کیا گیا ہے۔
مؤلف نے اختلافات کی حقیقت، عہدِرسالت میں اختلافات، استنباط میں مناہج ائمہ کے اختلافات بیان کیے ہیں۔ مزیدبرآں وہ ایمان افروز واقعات ذکر کیے گئے ہیں جن کو پڑھ کر بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ ائمہ کرام رحمہم اللہ کے درمیان علمی اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کے لیے کتنا احترام تھا اور پھر محبت و مودت کی یہ فضا اُن کے شاگردوں میں بھی قائم رہی۔
فقہ اور فروعی مسائل میں اختلافی مسائل کو کفر اور اسلام کا مسئلہ سمجھنے والوں اور اس بنیاد پر تکفیروتفسیق کی روش اختیار کرنے والوں کے لیے اس میں بہترین درس موجود ہے۔ ڈاکٹر طٰہٰ جابر فیاض علوانی رقم طراز ہیں: ’’مسلمانوں کا عموماً اور داعیانِ دین کا خصوصاً سب سے اہم فریضہ یہ ہے کہ اسلامی جماعتوں اور ان کے داعیوں کو متحد رکھنے کا عمل شروع کریں اور سارے باہمی اسبابِ اختلاف ختم کرڈالیں۔ اگر کہیں اختلاف ضروری ہو جب بھی اس کا دائرہ محدود رکھیں اور سلف صالحین کے آداب کا ہرطرح خیال رکھیں۔ (ص ۱۳۶)
مجموعی طور پر یہ کتاب اس اہم موضوع پر مفید اضافہ ہے، تاہم اس موضوع پر مزید تفصیل کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ بعض مقامات پر پروف کی غلطیاں توجہ طلب ہیں، مثلاً واصل بن عطاء کو واصل بن عطار (ص ۱۳)، محمد بن حنیفہ کو جعفر بن محمد بن حنیفہ (ص ۷۹) لکھا گیا ہے۔ (ساجد انور)
بچوں کے لیے مجلد خوب صورت گردپوش کے ساتھ مکی اور مدنی زندگی پر ۲ جلدوں پر مشتمل سیرت النبیؐ کی یہ کتاب مؤلف نے مستند مآخذ سے بہت ہی سہل انداز میں مرتب کی ہے۔ کتاب حُسنِ طباعت کے لحاظ سے اعلیٰ معیار کی ہے۔ اہم مقامات کی تصاویر بھی دی گئی ہیں۔ بہترین کاغذ پر کھلے کھلے الفاظ میں تحریر نگاہوں کو کھینچتی ہے۔ یہ مضامین پہلے ہفت روزہ بچوں کا اسلام میں شائع ہوکر مقبولیت حاصل کرچکے ہیں۔ کردار کی تعمیر اور شخصیت کے نکھار میں سیرت پاکؐ کے مطالعے کی اہمیت محتاجِ بیان نہیں۔ آج ہم دورِ نبوتؐ سے صدیوں کے فاصلے پر ہیں لیکن اس طرح کی کتابوں میں حالات پڑھ کر اپنے کو دورِ نبویؐ میں محسوس کرتے ہیں۔ پیارے نبیؐ سے محبت کا رشتہ استوار ہوتا ہے اور اتباع کا شوق بھی پیدا ہوتا ہے۔
ایم آئی ایس پبلشرز نے روشن ستارے کے نام سے صحابہؓ کے حالات پر بھی کتابیں شائع کی ہیں، نیز بچوں کے لیے کیسٹ اورسی ڈی وغیرہ بھی پیش کی ہیں۔ (مسلم سجاد)
ان دنوں عربی میں ایسی بہت سی کتابیں لکھی جارہی ہیں جن میں دین کی تعلیمات کو موجودہ دور کے لحاظ سے عملی انداز میں پیش کیا گیا ہے، اور اچھی بات یہ ہے کہ ان کے ترجمے شائع کیے جا رہے ہیں۔
عائلی زندگی اور میاں بیوی کے تعلقات کے بارے میں قرآن میں اور بالخصوص حدیث میں جو چھوٹی چھوٹی باتیں آئی ہیں،اس ۲۰۰ صفحے کی کتاب میں مرتب کرکے پیش کردی گئی ہیں۔ کتاب کی خاص بات عنوان قائم کرنا اور ان سب کو فہرست میں لکھ دینا ہے۔ اسی لیے فہرست ۶صفحات پر مبنی ہے۔ چند عنوانات سے اندازہ ہوگا کہ کتاب میں کیا کچھ ہے، ہر بات کی سند دی گئی ہے: شوہر کو بیوی کی بعض بدذوقیوں پر صبر کرنا چاہیے، بیوی کی تفریح کے لیے بعض تفریحی امور کا اہتمام کرنا چاہیے، بیوی خاوند کی شکایتیں لگانے سے پرہیز کرے وغیرہ۔
آخر میں سعودی عرب کے مشہور فقیہہ محمد بن صالح العثیمین کے دو مقالے شامل کیے گئے ہیں: ’نوجوانوں کی مشکلات اور اس کا حل‘ اور دوسرا :’اصلاحِ معاشرے میں عورت کا کردار‘ جس میں تربیت اور دعوت کے ضمن میں عورت کی ذمہ داری بتائی گئی ہے۔ (م - س)
زیرتبصرہ کتاب عزام تمیمی کی انگریزی کتاب Hamas: Unwritten Chapters کا ترجمہ ہے جو بزرگ صحافی محمد یحییٰ خاں نے کیا ہے۔ کتاب حماس کے بارے میں صحیح نقطۂ نظر، آگہی اور شعور کا مرقع ہے۔ حماس کے بارے میں تازہ ترین معلومات، موقف، مقاصد کا تذکرہ، حماس کے قائدین،معتقدین کی سوچ، اقدار، جدوجہد اور نظریات کی تفصیل دی گئی ہے۔ پیش آمدہ چیلنجوں سے کیسے عہدہ برآ ہوئے، دوست اور دشمن کے ساتھ رویہ کیا رہا، ناکامیوں کا سامنا کس طرح کیا؟ غرضیکہ حماس کو عالمی سیاق و سباق اور تناظر میں جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔
۲۰۰۳ء میں انگریزی میں لکھی جانے والی یہ کتاب حماس کی جدوجہد کا حقیقی اور صحیح رُخ پیش کرتی ہے۔ آغاز میں مترجم نے فلسطین کی ابتدائی تاریخ ، برطانوی قبضہ، پہلی جنگ ِ فلسطین، سویز سنائی جنگ، ۶روزہ جنگ اور جنگ اکتوبر کے نام سے چند نقشہ جات کا اضافہ بھی کیا ہے۔ کتاب میں واضح کیا گیا ہے کہ مغرب، حماس اور حزب اللہ جیسی تحریکوں کے بارے میں اپنے غیرمنصفانہ موقف کے باعث شدید غلط فہمیوں کا شکار ہے اور ’حماس‘ کو القاعدہ سے جوڑنا شدید قسم کی بے انصافی اور انتہاپسندی ہے۔ کتاب ۱۰ ابواب، ۶ ضمیموں اور چند نقشوں پر مشتمل ہے اور مسئلہ فلسطین اور اسرائیل کی حالیہ جارحیت کو سمجھنے کے لیے مفید ہے۔ ترجمے سے اُردوخواں طبقے تک بھی رسائی ممکن ہوگئی ہے جو مفید کاوش ہے۔ (عمران ظہور غازی)
اسلامی تحقیقاتی اور دعوتی اداروں کی جانب سے اعلیٰ معیار کے مجلے اُردو میں کمیاب اور انگریزی میں نایاب ہیں۔ اس صورت حال میں ۷ معیاری مقالات کا یہ مجموعہ خوش گوار ہوا کا جھونکا ہے جو نہ صرف پاکستان میں بلکہ عالمی منظر پر اسلام کو پیش کرے گا۔ حجۃ الوداع پر ظفراسحاق انصاری کا مقالہ ہے۔ ایازافسر نے انگریزی کی درسی کتب میں مناسب اسلامی، ثقافتی پس منظر پیش کرنے کے بارے میں تجاویز دی ہیں۔ عبدالجبار شاکر نے سیرتِ نبویؐ پر رحمت کے حوالے سے لکھا ہے۔ ترکی کے محمود عائیدین نے ویٹی کن کونسل اور عیسائی مسلم تعلقات پر معلومات دی ہیں۔ ایک مضمون حضرت عمر فاروقؓ کے بیت المقدس کے لوگوں کے ساتھ معاہدے پر ہے۔ آسٹریا میں اسلام پر ۲۵صفحے کے مقالے میں تازہ تفصیلی معلومات ملتی ہیں۔ مراد ہوفمین کی ڈائری سے بنیادی مسائل پر روشنی پڑتی ہے۔ برنارڈ لیوس کی The Crisis of Islam: Holy War and Unholy Terrorپر امتیاز ظفر نے تبصرہ کیا ہے۔ مجموعی طور پر جیساکہ موضوعات سے اندازہ ہوتا ہے، ایک وقیع رسالے کا اضافہ ہوا ہے۔ امید ہے ہر سہ ماہی پر آتا رہے گا۔
انگریزی میں دعوتی رسالوں کا ذکر ہے تو دو دوسرے رسالوں کا ذکر بھی مناسب ہوگا۔ یہ بھی سہ ماہی ہیں۔ ایک INTELLECT بڑے سائز کے ۸۲ صفحات، آرٹ پیپر پر بہترین معیار پر طبع شدہ۔ مدیرہ: بنت زاہد۔ (مکتبہ فہم دین نزد مسجد دارالسلام، فیزIV، ڈی ایچ اے، کراچی-۷۵۵۰۰، فون: ۴۲۵۱۶۵۳-۰۲۱) ۔دوسرا خواتین کے لیے HIBA کے نام سے ہے جس کی چھٹی جِلد کا پہلا شمارہ میرے سامنے ہے۔ یہ ۴۸ صفحات کا ہے، آرٹ پیپر پر، قیمت : ۱۵۰ روپے، مدیرہ: رانا رئیس خان (یونٹ نمبر۲، بلڈنگ سی/۲۲، اسٹریٹ ۱۴، آف خیابان شمشیر، فیزV ، ڈی ایچ اے، کراچی، فون: ۵۳۴۳۷۵۷-۰۲۱)۔ اس شمارے میں شیطان کو موضوع بناکر مؤثرانداز سے تذکیر کی گئی ہے کہ گھر میں کس طرح آتا ہے، عورتوں پر کس طرح حملہ کرتا ہے وغیرہ۔ دونوں رسالے پڑھنے کے ساتھ دیکھنے سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔ اچھا کام اچھے معیار پر دیکھ کر دلی خوشی ہوئی۔ (م - س)