حضور ِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ناموسِ رسالتؐ کو ہدف بنانے والوں کی جانب سے سوشل میڈیا (فیس بک ، ای میل وغیرہ) پر نازیبا، رکیک حملوں کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی عدالت میں مقدمہ پیش کیا گیا ۔ انھوں نے ۳۱ مارچ ۲۰۱۷ء کو ایک تفصیلی فیصلہ سنایا ۔ پیشِ نظر کتاب میں ۱۷۴ صفحات پر مشتمل اس فیصلے کے ساتھ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ،مفتی محمد تقی عثمانی، جسٹس فدا محمد خاں، عرفان صدیقی___ اور پھر مفتی منیب الرحمٰن، سیّد ساجد علی نقوی ، سیّد حسین مقدسی، الطاف حسن قریشی ، ڈاکٹر محسن نقوی، انصار عباسی، مولانا زاہد الراشدی ، ہارون الرشید ، اوریا مقبول جان، جاوید صدیق ،خورشید احمد ندیم ، جاوید چودھری ، حفیظ اللہ خاں نیازی، بابراعوان، محمدا عجاز الحق، حافظ ابتسام الٰہی ظہیر، ارشاد بھٹی، اسلم خان، اسرار احمد کسانہ، شاہد حنیف کے مضمون بھی شامل ہیں۔
پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی وہ انگریزی تقریر (مع اُردو ترجمہ)بھی کتاب میں شامل ہے، جو انھوں نے قومی اسمبلی میں متفقہ قرار داد کے ذریعے قادیانیوں کو دائرۂ اسلام سے خارج قرار دینے کے فیصلے اور دستوری ترمیم کے موقعے پر کی تھی۔
ناموسِ رسالتؐ کے اس تاریخی مقدمے کی رُوداد کچھ اس طرح ہے کہ درخواست گزار سلمان شاہد نے وفاقِ پاکستان اور چھے دوسروں کے خلاف جو درخواست دی، اس کی سماعت ۷مارچ ۲۰۱۷ء سے شروع ہوئی اور ۳۱ مارچ کو تاریخی فیصلہ آگیا۔
فیس بک (برقی میڈیا )پر بعض لوگوں نے جو نام نہاد مسلمان تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، اُمّہات المومنینؓ ،صحابہ کرامؓ، قرآن مجید اور حد یہ کہ اللہ تعالیٰ کی شان میں انتہائی گستاخانہ مواد ، خاکے، تصاویر ، تحریروں اور ویڈیوز کی شکل میں نشر کرنا شروع کر دیا تھا۔ درخواست گزارنے ڈائرکٹر جنرل ایف آئی اے کو اس توہین کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست کی، مگر اس پر مذکورہ محکمے کی طرف سے کوئی خاص کارروائی نہیں ہوئی۔
جسٹس شوکت صدیقی لکھتے ہیں: ’’عدالت ہذا کے رُو برو ایک ایسا مقدمہ پیش کیا گیا ہے کہ جس کی تفصیلات نے میرے رونگٹے کھڑے کر دیے ۔ آنکھوں کی اشک باری تو ایک فطری تقاضا تھا۔ میری روح بھی تڑپ کر رہ گئی۔ اس مقدمے کی سماعت کے دوران اپنے دل ودماغ پر گزرنے والی کیفیت الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں‘‘۔ (کتابِ مذکور:ص۴۸-۴۹)
عدالت نے چیمبر میں متعلقہ حکام کے سامنے مذکورہ قابلِ اعتراض مواد پیش کیا تو وہ بھی حیران رہ گئے۔ حکومت ِ پاکستان کے سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ: ’’ ذاتِ باری تعالیٰ ، قرآنِ مجید اور دنیا کی معزز ترین ہستی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، آپ ؐ کے صحابہ رضی اللہ عنہم ، اہلِ بیت اور ازواجِ مطہراتؓ کے خلاف گھٹیا، اور شرم ناک مہم چلانے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی‘‘۔ (ایضاً،ص ۵۴)
۳۱ مارچ ۲۰۱۷ء کو مقدمے کی آخری سماعت ہوئی اور جسٹس صدیقی صاحب نے فیصلہ سنا دیا۔ پانچ بلاگرز ، جو ملک سے فرار ہو چکے تھے، انھیں پاکستان واپس لا کر ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی ہدایت کی گئی۔ وزارتِ داخلہ کو ہدایت کی گئی کہ ملک میں کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیموں (NGOs) کی نشان دہی کریں، جو ملک میں گستاخانہ اور فحش مواد کی اشاعت وتشہیر کر رہی ہیں، تا کہ ان کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔ محترم جج صاحب نے لکھا ہے: ’’عدالت کسی بھی غیر قانونی فعل اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی حوصلہ افزائی نہیں کر سکتی، لیکن ایسے واقعات اسی صورت میں رک سکتے ہیں، جب گستاخی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتکب عناصر کے خلاف بروقت اور دیانت دارانہ کارروائی ہو۔ ایسے مکروہ فعل کے خلاف پوری پاکستانی قوم مدّعی ہوتی ہے اور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار‘‘۔(ایضاً،ص۶۴)
فیصلے میں مختلف اخباروں کے اقتباسات اور مفتی منیب الرحمٰن صاحب کا یہ بیان بھی پیش کیا گیا کہ: ’’قبل اس کے کہ مسلمان سڑکوں پر آجائیں اور ان کے جذبات بے قابو ہو جائیں۔ آئی ٹی کی وزارت کے حکام ، انٹیلی جنس ادارے اور دیگر حساس مراکز فوری اقدام کر کے عوام کے جذبات مشتعل ہونے سے بچائیں‘‘۔ (ایضاً،ص۷۴)
فیصلے میں پاکستان کی مجلس شوریٰ کے ایوان بالا (سینیٹ ) میں ۱۰ مارچ ۲۰۱۷ء اور ایوانِ زیریں (پارلیمنٹ ) کے ۱۴ مارچ ۲۰۱۷ء کی قرار دادوں کا بھی حوالہ دیا گیا، جن میں: ’’دین اور پیغمبر خاتم النبیین ؐ ، نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف توہین آمیز مواد کی اشاعت کو روکنے کے لیے فوری اقدامات‘‘ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔(ایضاً،ص۷۶)
جہاں تک اس جرم کی سزا کا تعلق ہے ، فاضل جج نے قرآنِ مجید سے سورئہ احزاب (۳۳:۵۷) اور سورۂ توبہ (۹:۶۱-۶۹) کی آیات سے بھی فیصلے میں استشہاد کیا ہے۔ ’’مدینہ کے منافقین کی حرکات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیّت پہنچاتی تھیں، ان کی طعنہ زنی، اور بے ہودہ گفتگو جو وہ لوگ آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کرتے تھے، انھیں کفروالحاد کی گہرائیوں میں گرا دیتی تھی، جس پر وہ سزا کے مستوجب تھے۔ انھیں آگاہ کیا گیا کہ ان کے اعمال وافعال کو اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی بے ثمر قرار دیے گئے کہ وہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تضحیک کرتے تھے۔ مسلم قانون داں اس فیصلے پر پہنچے ہیں کہ اچھے اعمال وافعال کو اس دنیا میں اور آخرت میں بے ثمر بنادیا جانا بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے، اگر اس فوجداری جرم کو سزاے موت کا مستوجب قرار نہ دیا جائے۔ گویا ان مسلم قانون دانوں کے نزدیک آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر طعنہ زنی کرنے کے فعل کی سزا ، سزاے موت سے کم نہیں ہونی چاہیے‘‘ (ایضاً،ص۷۹-۸۰)۔ امام ابن تیمیہؒ نے بھی ایسے شخص کو کافر اور ’مباح الدّم‘ قرار دیاہے۔ گویا وہ سزاے موت کا مستوجب ہے (ایضاً،ص۸۱)۔ یہی موقف امام فخرالدین رازی، امام عمادالدین ابن کثیر ، علامہ شمس الدین قطبی، امام احمد بن علی ابوبکر جصاص ، ابولیث بن سعد کا بھی ہے، جن کے حوالے ڈاکٹر محمود احمد غازی کی تحریر سے لیے گئے ہیں۔
خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دینِ اسلام کے مخالف اور آپؐ کو ایذا پہنچانے والوں کے قتل کا حکم دیا تھا۔ جن میں کعب بن اشرف، یہود کا سرغنہ، ابورافع (حجاز کا بڑا سوداگر )، ابن خطل(بدگو) شامل تھے۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی اپنے فیصلے میں لکھتے ہیں: ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ادنیٰ سی بھی بے ادبی، توہین وتنقیص ، تحقیرواستخفاف، خواہ بالواسطہ ہو یا بلا واسطہ ، باالفاظِ صریح ہو یا بااندازِ اشارہ وکنایہ ، تحقیر کی نیت سے ہو یا بغیر نیت تحقیر کے، یہ تمام صورتیں گستاخی میں شامل ہیں۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات وعادات ، اخلاق واطوار ، آپ ؐ کے اسماے گرامی، اور ارشادات ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلقہ کسی بھی چیز کی ادنیٰ اور معمولی سی تحقیر، یا اس میں کوئی عیب نکالنا بھی گستاخی اور موجب کفر ہے۔ ہر شخص جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس میں عیب اور نقص کا متلاشی ہو، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق وکردار ، خصائل اور اوصافِ حمیدہ ، نسبِ پاک کی طہارت وپاکیزگی ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت وحرمت کی طرف عیب منسوب کرتا ہو، تو نہ صرف یہ کہ ضلالت وگمراہی اُس کا مقدر بن جاتی ہے، بلکہ ایسے بدبخت وجود سے اس زمین کو پاک کرنا بھی ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فقہاے اُمت ایسے بدبخت کے واجب القتل ہونے پر متفق ہیں‘‘۔ (ایضاً،ص ۱۰۵-۱۰۶)
اس مسئلے پر اجماع امت کا حوالہ دیتے ہوئے فاضل منصف نے مسلکِ مالکیہ کے قاضی عیاض اندلسی، حنابلہ کے ابن تیمیہ ، شافعیہ کے تقی الدین علی السبکی اور احناف کے محمد امین شامی کے حوالے دیے ہیں۔ ’اسلام میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی و قانونی حیثیت‘ کے عنوان سے قرآنِ مجید کی آیات وا حادیث، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم واحترام کے بارے میں احکام تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔
فاضل منصف نے برطانوی ہند میں مروجہ تعزیرات کے حوالوں سے بھی توہین مذہب کے قوانین کے حوالے دیے ہیں: ’’بین الاقوامی انجمنوں واداروں، بین الاقوامی معاہدات، بین الاقوامی اعلامیے ،اور یورپ کے مختلف ممالک کے قانون سے یہ واضح کیا ہے کہ توہین مذہب ، توہین مقدس شخصیات اور افراد واجتماع کے مذہبی جذبات واحساسات کا لحاظ اور اس ضمن میںاظہار ِ راے وتقریروبیان پر مناسب قانونی قدغن دنیا کے تمام مہذب ممالک کا خاصّہ ہے‘‘۔ (ایضاً،ص۱۹۰)
تا ہم، توہین مذہب ومذہبی شخصیت کے الزام پر کسی فرد کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لے کر خود فیصلہ کرے اور اپنے خیال کے مطابق ’مجرم‘ کو سزا دے ڈالے۔ کسی کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا: ’’___محض ایک جملے میں بیان کردہ وضاحت کو جانچے ، اور بغیر کسی فردِ جرم عائد کیے، بغیر شہادت قلم بند کیے، اسی موقعے پر اپنے تئیں یہ فیصلہ بھی کرے کہ مقتول واجب القتل ہے، اور پھر اسی لمحے اسی مقام پر فی الواقع اپنے ہاتھوں سے سزا کا نفاذ بھی کر ڈالے۔ کوئی معقول انسان مجرم --- کے اس اقدام کا دفاع نہیں کر سکتا، کیوںکہ ہم ایک ایسی ریاست کے باشندے ہیں ، جو ایک دستور ، ایک قانون ، ایک ضابطہ اور ایک طریقِ کار کے ما تحت ہے، اور ہر باشندہ اس امر کا پابند ہے کہ ریاست کی وضع کردہ حدود کے اندر رہے‘‘۔ (ایضاً،ص۲۰۲)
فاضل منصف نے عدالتِ عالیہ لاہور کے ۲۰۱۲ء کے فیصلوں کی طرف توجہ دلائی اور ان کے فوری نفاذ کا مطالبہ کیا:
فیصلے میں کہا گیا: [توہین مذہب و توہین اکابرین مذہب کا] ’’گھنائونا فعل ایک سازش کے تحت مسلسل جاری ہے۔ اس لیے وزارت ِ داخلہ اور دیگر متعلق اداروں کو یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ ’فیس بک‘ انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کر کے اس شرانگیزی کا مکمل خاتمہ کرائے ، اور یہ مطالبہ کرے کہ توہین اللہ رب العزت ، توہین رسالتؐ ،توہین امہات المومنین ؓ، توہین اہل بیت اطہارؓ، توہین صحابہ کرامؓ ، اور توہین قرآن پاک کی ناپاک جسارت کرنے والے صفحات کو نہ صرف بند کیا جائے ، بلکہ فیس بک ، انتظامیہ ایسے مواد کو اپنی منفی فہرست میں شامل کرے‘‘۔ (ایضاً،ص۲۱۶)
فاضل منصف کے اس تاریخی فیصلے کی ایک منفرد خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں انھوں نے کئی مقامات پر اپنی قلبی کیفیت کے اظہار کے لیے عربی ، فارسی اور اُردو کے نعتیہ اشعار (بعض جگہ پوری نعتیں ) سے استشہاد کیا ہے۔ ان شعراے کرام میں حسّان بن ثابت ، ابوطالب، عبدالرحمٰن جامی، شیخ سعدی، الطاف حسین حالی، ڈاکٹر محمد اقبال ، عبدالستار خاں نیازی، خالد محمود خالد، نعیم صدیقی اور مظفروارثی شامل ہیں۔ اس سیاق میں حالی کی مُسدّس کے اشعار ’’وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا ، مرادیں غریبوں کی بَر لانے والا‘‘ ، ہمارے خیال میں نعت کے بہترین اشعار میں سے ہیں، لیکن فاضل منصف کی نظروں سے رہ گئے ہیں۔
فیصلے کا اختتام بھی چند اشعار پر ہوتا ہے :
میں نہ زاہد ، نہ مجاہد، نہ مفسر ، نہ حکیم
میری ذات دلِ شرمندۂ عصیاں ہی سہی
کوئی نسبت تو ہوئی رحمتِ عالمؐ سے مجھے
آخری صَف کا مَیں ادنیٰ سا مسلماں ہی سہی
’ناموسِ رسالت ؐ ، جیسے بنیادی اور حساس مسئلے پر اس تاریخی فیصلے اور دوسری تحریروں کو مرتب کر کے کتابی شکل دینے ، صحت کے ساتھ بعض عربی یا انگریزی عبارتوں کے تراجم کا اہتمام کرنے، تفصیلی اشاریے مرتب کرنے کے لیے کتاب کے مرتب اور ان کے ہم کار شکریے کے مستحق ہیں۔ اس موضوع پر ایک ایسی کتاب منصہ شہود پر آگئی ہے، جو ہمیشہ حوالے کی کتاب تصوّر کی جائے گی۔ (ناموسِ رسالت ؐ : اعلٰی عدالتی فیصلہ، از جسٹس شوکت عزیز صدیقی ، مرتب : سلیم منصور خالد۔ ناشر:منشورات منصورہ لاہور۔ فون: ۳۵۲۵۲۲۱۱-۰۴۲۔صفحات:۳۴۸۔ قیمت:۴۸۰ روپے )
قطب الدین عزیز کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔ وہ لکھنؤ میں پیدا ہوئے، والدین کے ساتھ حیدر آباد دکن منتقل ہوئے اور وہیں پر ابتدائی تعلیم پائی ۔ پھر وہاں سے مدراس (چنائے ) اور بعد میں لندن اسکول آف اکنامکس سے اعلیٰ سند یافتہ ہوئے۔ پاکستان ہجرت کے بعدصحافت سے وابستہ ہو گئے۔ وزارت خارجہ میں اہم عہدوں پر سرفراز ہوئے اور کئی بیرونی ممالک میں پاکستان کی نمایندگی کی۔ اپنی مثبت فکر سے شغف کی بنا پر انھیں ادب، سیاست اور ثقافت کے حلقوں میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
پیش نظر کتاب خون اور آنسوؤں کا دریا کے مصنف قطب الدین عزیز نے مشرقی پاکستان کی ملک سے علیحدگی کی اَلم ناک داستان بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ: مارچ ۱۹۷۱ء میں جب عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں تحریک سول نافرمانی کا آغاز کیا اور پورے صوبے میں لاقانونیت ، آتش زنی ، لُوٹ مار اور بے قابو قتل وغارت کا سلسلہ پھیل گیا تو پاکستان میں جنرل آغا یحییٰ خان کی صدارت میں مارشل لا حکومت نے مغربی پاکستان کے ذرائع ابلاغ کو ہدایت دی کہ یہ خبریں شائع نہ کی جائیں، مبادا اس سے مغربی پاکستان میں آباد بنگالیوں کو نقصان پہنچے ۔ اس طرح ان خبروں کو دبادیا گیا۔ اگرچہ مشرقی پاکستان کے تمام ذرائع ابلاغ دہشت گرد قوم پرست بنگالیوں کے ہاتھوں اسیر تھے، مگر وہاں سے کسی طرح جان بچا کر ہجرت کرکے آنے والوں کی داستانیں رفتہ رفتہ عام ہوتی گئیں۔ غیر ملکی ذرائع ابلاغ ، جو ابتداً بنگالیوں کے ’حق خود ارادی ‘ کے تناظر میں ساری ہنگامہ آرائی کو دیکھ رہے تھے، اب ’غیر جانب دار‘ بننے لگے۔ لندن کے سنڈے ٹائمز کے نمایندے اینتھونی مسکارن ہارس ، جس نے کئی مضامین میں پاکستانی فوج کو نشانہ بنایا تھا، کہ وہ بنگالیوں پر ظلم ڈھا رہی ہے، آخر سچ کہنے پر مجبور ہوئے ۔ وہ اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں: ’’ ہزاروں بدقسمت خاندانوں کو جو ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کے وقت بہار سے ہجرت کر کے مشرقی پاکستان آئے تھے، انھیں بڑی بے رحمی سے صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ عورتوں کی آبرو ریزی کی گئی ، یا خاص طور پر بنائے گئے چاقوئوں سے ان کی چھاتیوں کو کاٹ دیا گیا۔ بچے بھی اس ظلم سے بچ نہ سکے اور جو ذرا قسمت والے تھے، ان کو ان کے والدین کے ہمراہ قتل کر دیا گیا۔ لیکن ان میں ہزاروں ایسے بھی تھے، جن کو زندگی بھر کے لیے معذور کر دیا گیا۔ ان کی آنکھیں نکال دی گئیں اور ان کے بازو اور ٹانگیں کاٹ دی گئیں۔ غیر بنگالیوں کی ۲۰ ہزار سے زائد لاشیں بڑے بڑے شہروں جیسے چٹاگانگ ، کھلنا اور جیسور میں پائی گئی ہیں۔ اصل تعداد جو مجھے مشرقی بنگال میں بتائی گئی وہ ایک لاکھ سے زیادہ ہو سکتی ہے، کیوں کہ ہزاروں غیر بنگالی بغیر کسی نا م ونشان کے غائب کر دیے گئے ہیں‘‘۔ (ص ۱۹ )
مصنف نے ’’ مشرقی پاکستان کے ۳۳ ؍اضلاع اور شہروں ڈھاکہ ، نارائن گنج، چٹاگانگ ، چندرا گھونا اور رنگامتی ، کھلنا ، ست خیرہ ، دیناج پور، پاربتی پور، ٹھاکر گائوں ، لکشم ، راج باڑی، گو لندو، فرید پور کشتیا، چوا ڈنگا، مہر پور اور ظفر کنڈی ، اشوردی ، پاکسے ، نواکھالی، سلہٹ مووی بازار، بہراماڑا، نارکل ڈنگا، رنگ پور، نیلفاماری، سید پور، لال منیر ہاٹ، جیسور ، نریل ، باجر ڈنگا، جہنی ڈاہ، نواپاڑا، باری سال، میمن سنگھ ، راج شاہی اور ناٹور ، پبنہ اور سراج گنج ، کومیلا، برہمن باڑیا ، بوگرا اور نو گائوں ، سنتھارکے الگ عنوانات کے تحت ابواب میں ان علاقوں اور شہروں اور شہریوں کی دُکھ بھری داستانیں بیان کی ہیں، جو انھوں نے چشم دید گواہوں یا آپ بیتی بیان کرنے والوں سے خود سنیں اور ریکارڈ کیں۔ مصنف نےایک ٹیم کے ذریعے مشرقی پاکستان کے ۵۵ شہروں /قصبوں سے تعلق رکھنے والے گواہوں کے بیانات / شہادتیں اکٹھی کیں، اور بڑی احتیاط اور دیانت سے اسے رپورٹ کیا گیا ہے۔
مصنف کہتے ہیں کہ ’’میں اس وقت حواس باختہ ہو گیا اور اپنا خون رگوں میں جمتا ہوا محسوس کیا ، جب میں نے اپریل ۱۹۷۱ء کے وسط میں چٹاگانگ سے جان بچا کر کراچی آنے والے غیربنگالی پاکستانیوں سے ان کی رُوداد سنی ۔ ان کے کہنے کے مطابق : عوامی لیگ کے منظم دہشت گردوں اور باغیوں نے غیر بنگالیوں کو قصابوں کی طرح کاٹا ۔ یہ تفصیلات سن کر میری روح کانپ اُٹھی اور اپنی اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے آج بھی میرے پاس الفاظ نہیں ہیں، کیوں کہ میں تو بنگالیوں کو نہایت شائستہ اور فن وادب کے ذوق کی وجہ سے پسند کرتا تھا ‘‘۔ (ص ۱۹)
امریکا اور یورپ میں بھارت نے منفی پروپیگنڈے کے لیے جنگی بنیادوں پر سیلابی ریلے کی طرح بے شمار کتابیں اور پمفلٹ شائع کیے۔ جن میں پاکستانی فوج پر لاکھوں بنگالیوں کو قتل کرنے کا الزام لگایا گیا۔ حکومت پاکستان مؤثر اور جوابی کارروائی نہ کرسکی ، اور جیسا کہ اُوپر بیان کیا گیا ہے، اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ مغربی پاکستان میں ردّ ِ عمل کے طور پر بنگالیوں پر ظلم نہ ہونے پائے۔
مشرقی پاکستان کے اس المیے میں جنرل یحییٰ خان (اس وقت کے صدر پاکستان ) اور ذوالفقار علی بھٹو کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ۷دسمبر۱۹۷۰ء کے انتخابات نے عملی طور پر ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ دھونس ، دھاندلی اور تشدد کی سیاست نے قومی اسمبلی کی ۳۰۰ نشستوں میں مشرقی پاکستان کی مجیب پارٹی (عوامی لیگ) نے ۱۶۰ نشستیں جیت لیں اور ملک کی اکثریتی پارٹی بن گئی۔ مغربی پاکستان میں بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی نے ۸۱ نشستیں جیتیں۔ صدرجنرل یحییٰ خان نے انتخابات کے بعد دو ماہ تک تو اسمبلی کا اجلاس ہی نہ بلایا ۔ آخر ۳ مارچ ۱۹۷۱ء کو ڈھاکہ میں اجلاس طلب کیا گیا۔ لیکن مغربی پاکستان سے اکثریتی لیڈر بھٹو صاحب نے اصرار کیا کہ: ’’دستوری فارمولا اسمبلی اجلاس سے باہر طے کیا جائے، اور اگر دستور سازی کے لیے مقرر کردہ ۱۲۰دنوں میں دستور نہ بنا تو دستور ساز اسمبلی کا وجود خطرے میں پڑجائے گا‘‘۔ جب انھیں اس ضمن میں کامیابی حاصل نہ ہوسکی تو انھوں نے اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنے کا مطالبہ کر دیااور کہا کہ مغربی پاکستان سے کوئی منتخب رکن ڈھاکہ جائے گاتو اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ اور اس طرح ’اِدھر ہم ، اُدھر تم‘ کی بنیاد پڑگئی۔ اسمبلی کے اجلاس کے التوا سے مشرقی پاکستان میں ہنگامہ شروع ہو گیا۔ جس کو دبانے کے لیے وہاں ۲۵مارچ ۱۹۷۱ء کو فوجی ایکشن شروع کر دیا گیا۔مجیب کو گرفتار کر کے مغربی پاکستان لایا گیا اور بھٹو نے کہا : ’’خدا کا شکر ہے ، پاکستان بچ گیا‘‘ ۔ لیکن ’پاکستان ‘ کا مطلب صرف اس کا مغربی بازو تو نہیں تھا ! دراصل یہ پاکستان کے انہدام کی ابتدا تھی ، لیکن فاضل مصنف نے اس پوری کہانی سے صرفِ نظر اور بوجوہ اغماز کیا ہے۔
کتاب کے اختتامیےکے پہلے مضمون میں سیّدخالد کمال نے بنگلہ دیش میں بسنے اور اُردو بولنے والے بے وطن پاکستانیوں کے کرب اور المیے کو بڑی خوبی سے بیان کیا ہے۔ اسی حصے کے دوسرے مضمون میں مترجم سلیم منصور خالد نے ’۳۰ لاکھ کے قتل کا افسانہ …‘ کے عنوان سے ایک تفصیلی تحقیقی مقالے کا اضافہ کیا ہے ۔ علیحدگی پسند بنگالیوں نے پاکستانی فوج اور اُردو بولنے والے شہریوں پر یہ الزام لگایا تھا کہ انھوں نے ۳۰ لاکھ بنگالیوں کو قتل کیا اور ہزاروں بنگالی خواتین کو بے آبرو کیا ہے، مگر غیر جانب دار صحافیوں اور خود مشرقی پاکستان کے محاذ پر ہندستان کے فوجی کمانڈر جگجیت سنگھ اروڑا تک نے اس مبالغہ آمیزی کی نفی کی ہے۔ اس طرح دیگر بہت سے غیر ملکی اور خود ہندستانی صحافیوں اور تحقیق کاروں نے بھی پاکستانی فوج کے ہاتھوں بنگالیوں کے قتلِ عام کی تردید کی۔
تاریخ کو مسخ کرنے والے اس جھوٹ کا مقصد پاکستان کی یک جہتی کی حامی جماعت اسلامی اور پاکستانی فوج کے خلاف نفرت کو ہوا دینے کے سوا کچھ نہیں ۔ اس جلتی آگ کو سرد ہوتا دیکھ کر ۲۰۱۰ء کے بعد، عوامی لیگ کی حکومت نے ۳۸سال بعد ’جنگی ٹریبونل ‘ جیسی ’نام نہاد عدالتوں‘ کے ذریعے جماعت اسلامی اور البدر کے بنگالی ہم وطنوں پر، جو ۱۹۷۱ء میں متحدہ پاکستان کے حامی تھے ، مقدمے چلانے اور سزاے موت دینے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے (اسی ظالمانہ عدالتی ڈرامے کے نتیجے میں ۹۲سالہ پروفیسر غلام اعظم، سابق امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش جیل میں انتقال کر گئے)۔ دراصل جماعت اسلامی بنگلہ دیش میں ہونے والے تمام انتخابات میں بڑھتی ہوئی مقبولیت کے اشارے دے رہی تھی۔ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد کے ہاتھوں ان مظالم کی لہر نہ جانے کہاں رُکے گی۔ بہر حال صاحب ِمقالہ سلیم منصور خالد کی خواہش ہے کہ :’’ بنگلہ دیش: دو قومی نظریے کی بنیاد پر ایک آزاد، خود مختار، اسلامی اور خوش حال ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر سرفراز رہے‘‘۔ (ص ۴۵۸)
کتاب کے آخر میں ۳۳ صفحے کا تفصیلی اشاریہ بڑی محنت سے مرتب کیا گیا ہے۔ اس اہتمام سے یہ کتاب اپنے موضو ع پر حوالے کی ایک نہایت مستند اور بہترین کتاب بن گئی ہے: خون اور آنسوؤں کا دریا، قطب الدین عزیز/ ترجمہ و تدوین :سلیم منصور خالد ، ظہور احمد قریشی، ناشر : منشورات، پوسٹ بکس: ۹۰۹۳، علّامہ اقبال ٹاؤن، لاہور۔ فون:۰۰۳۴۹۰۹- ۰۳۳۲۔ صفحات :۴۹۶، قیمت (مجلد): ۶۰۰ روپے۔
صحابہ کرامؓ کی ایک مجلس میں، جہاں بہت سے صاحب ِ علم جوان اور معمراصحاب حاضر تھے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرما تھے۔ اپنے ساتھیوں سے گفتگو فرماتے ہوئے آپؐ نے پوچھا: بھلا وہ کون سا درخت ہے، جس کے پتّے جھڑتے نہیں، اور جو مومن سے مشابہت رکھتا ہے؟ مجلس میں جتنے لوگ بیٹھے تھے، وہ مختلف جنگلی درختوں کے بارے میں سوچنے لگے، کسی نے کوئی درخت بتلایا، اور کسی نے دوسرا، مگر آپؐ نے ان سب سے انکار کیا۔ حاضرین مجلس میں حضرت عمرؓ کے کمسن صاحب زادے حضرت عبداللہؓ بھی بیٹھے تھے۔ اس واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ میرے ذہن میں آیا کہ یہ کھجور کا درخت ہوگا۔ لیکن میری عمر بہت کم تھی، اس لیے مجھے بڑی عمر کے بزرگوں کے سامنے بولنے کی جرأت نہ ہوئی، اور میں خاموش رہا۔جب کوئی اس سوال کا صحیح جواب نہ دے سکا ، تو لوگوں نے عرض کیا کہ حضوؐر ہی بتا دیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔
اس تمثیلی سوال سے آپؐ یہ بتلانا چاہتے تھے کہ کھجور کا درخت ایک ایسا درخت ہے ، جس میں سراسر بھلائی ہی بھلائی ہے۔ وہ سایہ بھی دیتا ہے اور اس کا پھل بھی کھایا جاتا ہے، گٹھلیاں اُونٹوں کے کام آتی ہیں، پتّیوں سے چٹائیاں بنائی جاتی ہیں، تنے اور شاخیں مکان کی تعمیر وغیرہ کے کام آتی ہیں، اور انھیں ایندھن کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ غرض یہ درخت ہرپہلو سے نفع ہی کا باعث ہے، اور اس کی کوئی چیز بے کار نہیں۔ پھر اس کی ضروریات بھی محدود ہیں۔ نسبتاً ناموافق آب و ہوا اور نامساعد حالات میں بھی نشوونما پاتا اور پھلتا پھولتا ہے، اور کبھی عریاں نہیں ہوتا۔
یہی حال مسلمان کا ہے۔ اس کی زندگی اور شخصیت، اس کے اقوال اور افعال، کوئی بے کار اور بے معنی نہیں۔ وہ دوسروں کا مددگار اور ان کے دُکھ سُکھ میں شریک ہوتا ہے۔ دنیا کے لیے اس کا وجود سراسر رحمت کا باعث ہوتا ہے، زحمت کا نہیں۔ دوسروں کو اس سے نفع ہی پہنچتا ہے۔ جو ہدایت اُسے مل چکی ہے، وہ دوسروں کو بھی اس سے ہم کنار دیکھنا چاہتا ہے،اور مرنے کے بعد بھی اس کا فیض جاری رہتا ہے، کیوں کہ اس نے دنیا میں جو اچھے کام کیے ، لوگوں کو کوئی اچھی بات بتائی یا کسی کے کام آیا، اس کے اچھے نتائج جاری رہتے ہیں۔ نیک لوگوں اور بھلائی کے کام کرنے والوں کی مثال قرآنِ مجید میں کلمۂ طیّبہ، یعنی پاکیزہ بات سے دی گئی ہے۔ گویا وہ ایک پاکیزہ درخت ہے، جس کی جڑ مضبوط ہے، اور شاخیں آسمان میں پھیلی ہوتی ہیں، اور وہ ہمیشہ پھل دیتا رہتا ہے، یعنی اس کی فیض رسانی جاری ہے اور کبھی منقطع نہیں ہوتی۔ کھجور کے درخت کی طرح مسلمان کی دُنیوی ضروریات بھی بڑی محدود ہیں۔ وہ نامساعد حالات میں زندگی گزار لیتا ہے۔ تو یہ ایک تمثیل تھی، جو صحابہ کی ایک مجلس میں حضور اکرمؐ نے بیان کی۔ ابن عمرؓ جو اس واقعے کے راوی ہیں، تمام عمر افسوس کرتے رہے کہ وہ خاموش کیوں رہے ، اور اپنے خیال کو ظاہر کیوں نہ کر دیا۔
تعلیم کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے ہمارا ذہن اس کے تین بنیادی مباحث کی طرف منتقل ہوتا ہے، اور وہ ہیں: مقاصد تعلیم، طریق تعلیم اور نظامِ تعلیم۔ ابھی جس تمثیل کا ذکر کیا گیا ہے، اس سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصد ِ تعلیم، طریقِ تعلیم اور نظامِ تعلیم تینوں پر روشنی پڑتی ہے۔ یہاں تعلیم کا مقصد اپنے مخاطبین میں ایک مفید اور بامقصد زندگی کا شعور پیدا کرنا ہے، چاہے حالات اس کے لیے نامساعد ہی کیوں نہ ہوں۔ طریق تعلیم ایسا ہے کہ تلامذہ میں دل چسپی پیدا ہوجائے، اور وہ معلومات کے منفعل وصول کنندہ نہ بن جائیں۔ مجرد تصورات کے بجاے محسوس اور مانوس مثال سے مطلوبہ پیغام پہنچا دیا گیا۔ جہاں تک نظامِ تعلیم کا تعلق ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ وہ غیررسمی ہے۔ یہاں کوئی کمرئہ جماعت، مقررہ نصاب اور عمر کے لحاظ سے شاگردوں کی درجہ بندی نہیں ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نہ صرف طریق تعلیم آپؐ کے عہد کے تعلیمی طریقوں سے مختلف تھا، بلکہ آپؐ کی تعلیم کے مقاصد بھی عام مقاصد سے قطعی مختلف تھے، اور اس لیے یہ بات بھی بالکل فطری ہے کہ آپؐ کا نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم بھی مروجہ تعلیمی ڈھانچے سے ہٹ کر تھا۔ اگرچہ آپؐ کی ذات ہمہ پہلو اور ہمہ صفات تھی تاہم آپؐ کی بنیادی حیثیت ایک معلّم کی تھی۔ اِسی حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: اِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا ’’میں تو دراصل معلّم بناکر بھیجا گیا ہوں‘‘۔
یہ حیثیت حضراتِ ابراہیم ؑ و اسماعیل ؑ کی دُعا کے عین مطابق تھی کہ: ’’اے آقا، ان لوگوں میں انھی میں سے ایک رسول مبعو ث فرما جو انھیں تیری آیات سنائے، اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے، اور اُن کا تزکیہ کرے۔ تو ہی طاقت ور اور عقل مند ہے‘‘۔ (البقرہ۲:۱۲۹)
اس تناظر میں عرب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا واقعہ تاریخ انسانی کا ایک عجیب واقعہ ہے۔ عرب اس وقت کی معلوم اور معروف دنیا کا پس ماندہ ترین خطہ تھا۔ یہاں کے باشندے زیادہ تر جاہل اور خواندگی سے ناآشنا تھے۔ پھر انسانوں کو علم و حکمت سے بہرہ ور کرنے کے اس عظیم اعزاز کے لیے جس ذات کو منتخب کیا گیا، اس نے کسی بھی انسان کے سامنے زانوے تلمذ تہہ نہ کیا تھا، نہ کسی سے کچھ سیکھا ہی تھا۔ محمد رسولؐ اللہ کے بڑے معجزوں میں سے ایک یہ ہے کہ آپؐ ’اُمّی‘ تھے، یعنی ناخواندہ لیکن آپؐ نے دنیا کا عظیم ترین علمی، فکری اور تمدنی انقلاب برپا کیا، جس کے آگے سیاسی اور عسکری فتوحات ثانوی حیثیت اختیار کرجاتی ہیں، اور پھر آپؐ سے کسب ِ فیض کرنے والوں، آپ کے متعلّموں نے بھی علم و تہذیب کی دنیا پر نہ مٹنے والے نقوش ثبت کیے۔
قرآنِ مجید میں اسے اللہ کے انعام کے طور پر گنوایا گیا ہے کہ اس نے جاہلوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک ایسے رسولؐ کو مبعوث کیا، جو ان تک اس کے احکام پہنچاتا ہے۔ ان کی زندگی کو پاکیزہ بناتا ہے، اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ تعلیم کا مقصد یا مقاصد، کیا ہیں؟
مقاصد ِ تعلیم کو ہم دو خانوں میں تقسیم کرسکتے ہیں: فوری مقاصد، جیسے کسی حرفت یا مہارت کا حصول، کسب ِ معاش کے لیے افراد کو تیار کرنا یا قومی سطح پر مادی اور تمدنی ضروریات کی تکمیل۔ دوسری طرف تعلیم کے کچھ اصل اور بنیادی مقاصد بھی ہوسکتے ہیں، جن میں ہم فرد کی فلاح و بہبود اور معاشرے میں امن و ہم آہنگی اور خیر کی ترویج کو شامل کرسکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا تعلق فوری مقاصد سے نہیں بلکہ بنیادی مقاصد سے تھا۔ اس سلسلے میں آپؐ کے فلسفۂ تعلیم کو حکما کے قدیم و جدید تعلیمی نظریات کے تناظر میں دیکھنا ہوگا۔
حکماے قدیم میں افلاطون نے مقصد اور طریق تعلیم کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔ اس کے نزدیک تعلیم کا بنیادی مقصد ریاست کے لیے محافظین تلاش کرنا اور انھیں کاروبارِ مملکت چلانے کے لیے تیار کرنا ہے۔ اس کی مثالی ریاست ایک اشرافیہ تھی۔ اشراف کے اس طبقے کی پرورش و پرداخت اس کی تصنیف جمہوریہ کا بنیادی موضوع ہے۔ ارسطو کے نزدیک، ریاست اور فرد دونوں کی تعلیم و تربیت کا بنیادی مقصد حصولِ مسرت ہے۔ ظاہر ہے کہ تعلیم کے یہ مقاصد بہت محدود ہیں۔ ساری کی ساری آبادی کو محض حکمران اشراف کی تلاش میں کھنگال ڈالنا اور سارے نظامِ تعلیم کی اسی ایک محور کے گرد گردش، معاشرے کے سارے طبقوں کے ساتھ انصاف کا تصور نہیں دیتی۔ پھر حصولِ مسرت، اس میں شک نہیں کہ انسانی زندگی کے بنیادی داعیوں میں سے ہے، لیکن اس پر ضرورت سے زیادہ اصرار اور اسے ساری مساعی کا مرکز بنادینے سے نہ صرف ایک غیرمتوازن معاشرہ وجود میں آئے گا بلکہ وہ سارے سوال بھی پیدا ہوجائیں گے جو فلسفۂ مسرت کے ضمن میں عام طور پر اُٹھائے جاتے ہیں، مثلاً کس کی مسرت کا حصول مقصد ہونا چاہیے، اور پھر یہ کہ مسرت کی بھی اعلیٰ اور اسفل کئی اقسام ہوتی ہیں، کون سی مسرت کا حصول مطلوب ہے؟ وغیرہ۔
عہدِ جدید کے مشہور فلسفیِ تعلیم جان ڈیوی نے تعلیم کے مقصد کو عملی قرار دیا ہے۔ اس کے خیال میں تعلیم کا مقصد فرد کی نشوونما کے سوا کچھ اور نہیں مگر سوال یہ ہے کہ نشوونما کس سمت میں؟ نشوونما براے حصولِ مقاصد۔ یہ ٹھیک ہے مگر مقاصد اچھے، بُرے اور بے رنگ بھی ہوسکتے ہیں۔ دراصل ڈیوی کا نقطۂ نظر انیسویں صدی کی اس اندھی رجائیت کی پیداوار ہے، جس کے مطابق ارتقا (evolution) اور ترقی (progress) خود ’قدر‘ کی حیثیت رکھتے ہیں، اور اُنھیں مزید کسی اور پیمانے سے ناپنے کی ضرورت نہیں۔ تعلیم کے اس تصور نے مغربی ملکوں میں بے مقصد ترقی اور اس سے پیدا ہونے والی اُکتاہٹ، خلفشار اور تباہی کو جنم دیا ہے۔ دوسری طرف تعلیم کے اس تصور سے پس ماندہ ملکوں اور معاشروں میں ایک بے اطمینانی اور احساسِ محرومی کا دریچہ بھی کھل گیا ہے۔
تعلیم کے اس نام نہاد ’آزاد‘ تصور کے مقابلے میں اشتراکی فلسفۂ تعلیم کا مقصد انسان، سماج اور کائنات کے سلسلے میں مادی جدلیت کے نقطۂ نظر کا فروغ اور ایک ایسے معاشرے کا قیام ہے، جہاں فرد اپنی شخصی آزادی اور ارتقا ے ذات کے بجاے معاشرے میں معاشی اور مادی اقدار کے خالق کی حیثیت سے پروان چڑھے۔ یہاں بھی تعلیم کی کامیابی یہ ہے کہ کوئی فرد مادی تصور میں اضافے کے لیے اپنا کردار کتنے بہتر انداز میں ادا کرسکتا ہے۔ جدید سرمایہ داری سے اس کا کوئی نقطۂ تصادم ہے تو یہ کہ معاشرے میں فرد کے مقام اور کردار کے تعین کے سلسلے میں سرمایہ دار معاشرے میں جو یک گونہ آزادی نظر آئی ہے، وہ یہاں مفقود ہے۔ بہرحال دونوں نظام، فرد کی تعلیم و تربیت میں اس کے معاشی کردار کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں۔ ان دونوں کے نزدیک اچھی تعلیم وہ ہے جو مفید شہری پیدا کرے، اور وہ معاشی اقدار کے خالق کی حیثیت سے اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔ دونوں، انسانوں کو بنیادی طور پر ایک ’معاشی حیوان‘ قرار دیتے ہیں، اشیا اور خدمات کا پیدا کنندہ اور صَرف کنندہ۔پھر اشیا اور خدمات میں بھی ضروری اور غیرضروری کے درمیان کوئی واضح خطِ امتیازنہیں، کیوں کہ ایک ترقی پذیر معاشرہ وہ بتلایا جاتا ہے، جہاں نت نئی اشیا اور خدمات کی ’ضرورت‘ پیدا کردی جائے (چاہے وہ کتنی ہی مصنوعی ہو)، اور پھر ان کی تسکین کا اہتمام ہو۔
اسلام مادی اقدار اور اشیا سے الرجک نہیں، اور نہ عالمِ مادّی کو فی نفسہٖ شر پر مبنی ہی قرار دیتا ہے۔ دوسرے مذاہب کے برخلاف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا، اس کی متاع اور لذات سے بھاگنے کی تعلیم نہیں دی۔ تاہم متاعِ دنیا کی ہوس کو ضرور قابلِ مذمت ٹھیرایا ہے اور غیرضروری ’ضروریات‘ سے نفرت پیدا کی ہے۔ حضور اکرمؐ کا یہ ارشاد اس سمت اشارہ کرتا ہے کہ ابن آدم کو کوئی چیز مطمئن نہیں کرسکتی، اگر اس کے پاس دو وادیوں جتنا مال و دولت ہو، تو وہ خواہش کرے گا کہ کاش مال سے بھری ہوئی ایک اور وادی ہوتی۔ ہاں، اس کا پیٹ اگر کوئی چیز بھر سکتی ہے، تو وہ مٹھی بھر خاک ہے۔ نیز یہ کہ اللہ کے نزدیک دنیا کی وقعت مچھر کے ایک پَر جتنی بھی نہیں۔ حضور اکرمؐ فطرتِ انسانی کی گہری بصیرت رکھتے تھے۔ مناسب تعلیم و تربیت کے بغیر انسان کو لذت کوش معاشی حیوان بننے سے نہیں روکا جاسکتا۔ آپؐ اس کا پورا پورا شعور رکھتے تھے اور معاشرے پر اس کے مضمرات آپؐ پر عیاں تھے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا کہ دو بھوکے بھیڑیے جن کو بکریوں پر چھوڑ دیا جائے اتنا نقصان نہیں پہنچاتے، جتنا انسان کی طلب ِ دولت و جاہ اس کے دین کو نقصان پہنچاتی ہے۔
ہوس اور افراط و تفریط سے قطع نظر اسلام نے پاک چیزوں اور اللہ کی بنائی ہوئی نعمتوں سے فرار کو زندگی کا نصب العین کبھی قرار نہیں دیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان قابلِ غور ہے کہ ساری دنیا میرے لیے مسجد بنائی گئی ہے۔ گویا پہلے بعض مذاہب کے ماننے والوں کے لیے جس طرح عبادت گاہ ’پاک‘ اور اس سے باہر کی فتنہ پرور دنیا ’ناپاک‘ تھی، اسلام نے اس دوئی کو ختم کرکے ساری دنیا کو اللہ کی عبادت گاہ بنا دیا۔ اس طرح دین و دنیا کی تفریق ختم کر کے، یہاں بھی وحدت کا ایک تصور پیش کیا گیا، جو تصورِ توحید الٰہیہ کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ تاہم، جیساکہ ہم دیکھ چکے ہیں، دنیا اور متاعِ دنیا کو مقصود نہیں بنایا گیا، بلکہ انھیں مقصود کے تابع کر دیا گیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ مقصود کیا ہے ، اور کس طرح فرد اور معاشرے کی تعلیم و تربیت اس مقصود کے محور پر گردش کرتی ہے۔
قرآنِ مجید، انسان کو زمین پر اللہ کا خلیفہ اور نائب قرار دیتا ہے۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انسان کے ذمے یہ فریضہ عائد کیا گیا ہے کہ وہ اللہ کی منشا اور اس کی مرضی کے مطابق اس دنیا اور کائنات پر حکمرانی کرے۔ یوں تعلیم کا مقصد یہ قرار پاتا ہے کہ وہ انسان کو اللہ کی نیابت اور کائنات پر تصرف کے لیے تیار کرتی ہے۔ اب چوں کہ نیابت اور خلافت ِ الٰہی کسی فرد یا گروہ تک محدود نہیں کی گئی، بلکہ پوری نسلِ انسانی کو یہ اعزاز بخشا گیا ہے، اس لیے تعلیم کا پہلا کام یہ ہوگا کہ افراد، اور پوری نسلِ انسانی میں نیابت و خلافت کا شعور، اس کی ذمہ داریاں، فرائض اور مطلوبات کا واضح تصور پیدا کیا جائے۔ سادہ الفاظ میں یوں کہیے کہ تعلیم،انسان کو کائنات میں اپنا صحیح مقام متعین کرنے اور اُسے اپنے کردار سے آگاہی حاصل کرنے میں مدد دے گی۔ انسان کے اس کردار کا تعین خود قرآن کردیتا ہے، جس کے مطابق اپنی مرضی کو منشاے الٰہی کے تابع کرلینا ہی اسلام ہے، جس کی ضد کفر و گمراہی ہے: اور جو اللہ کے نازل کردہ احکام و ہدایت کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں۔
کائنات میں اپنے مقام کا شعور تعلیم کا بنیادی مقصد ہے۔ نہ صرف قرآن میں جگہ جگہ اس بنیادی مسئلے کی طرف مختلف انداز میں توجہ دلائی گئی ہے ، بلکہ حضور اکرمؐ، آغازِ دعوت سے آخری وقت تک بار بار اس تصور کا اعادہ فرماتے رہے۔ آپؐ کی یہ غالباً پہلی ہی تقریر ہے، جس میں آپؐ نے ایک مجمعے میں نہایت اختصار اور وضاحت کے ساتھ تعلیم و تربیت کی اس اساس کو بیان فرما دیا: ’’تمام تعریف اللہ کے لیے ہے، میں اس کی تعریف بیان کرتا ہوں، اس سے مدد کا طالب ہوں، اُس کی پناہ لیتا ہوں، اور اُس پر بھروسا کرتا ہوں۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔
’’اس میں شک نہیں کہ قافلے کا پیش رو اپنے ساتھیوں سے جھوٹ نہیں بولتا۔ اور خدا کی قسم! اگر میں تمام انسانوں سے جھوٹ بولتا بھی ہوتا، تو تم سے جھوٹ نہ بولتا۔ اور اگر میں تمام انسانوں کو دھوکا دیتا بھی ہوتا، تو تمھیں دھوکا نہ دیتا۔
’’قسم ہے اس خدا کی! جس کے سوا کوئی معبود نہیں، میں تمھاری طرف خصوصاً اور دوسرے تمام انسانوں کی طرف اللہ کا پیغام پہنچانے والا ہوں۔
’’خدا کی قسم! جس طرح تمھیں نیند آتی ہے، اُسی طرح [ایک دن] تم ضرور مرو گے، اور جس طرح [نیند کے بعد] تم جاگ اُٹھتے ہو، اُسی طرح تم دوبارہ ضرور اُٹھائے جائو گے۔ تم جو کام کرتے ہو، ان کا تم سے حساب ضرور لیا جائے گا، اور تمھیں اچھے کاموں کا اچھا بدلہ اور بُرائی کا بُرا بدلہ ضرور ملے گا۔ اور یہ بدلہ یا تو ہمیشہ رہنے والی جنت ہوگا، یا ہمیشہ کی آگ…‘‘۔
کائنات اور انسانی زندگی کی حقیقت سے آگاہی اگر تعلیم کا بنیادی مقصد ہے تو انسان کو اس مقام کے مناسب عمل کے لیے تیار کرنا، فطری طور پر، تعلیم کا دوسرا بنیادی مقصد قرار پائے گا۔ اپنے پیروکاروں کے سلسلے میں حضورِ اکرم ؐ کی کاوش و کوشش کا ہدف یہی نظر آتا ہے۔ تعلیم کا یہ عملی اور اخلاقی پہلو سرمایہ دارانہ جمہوری فلسفۂ تعلیم کے خلاف پڑتا ہے، جس کی نمایندہ فکر جان ڈیوی کے ہاں ملتی ہے۔ جان ڈیوی کے نزدیک جمہوری رہنمائی، تعلیم کا جوہر ہے، جب کہ حضور اکرمؐ نے الہامی رہ نمائی کو معیارِ عمل قرار دیا۔ غیرمذہبی جمہوری معاشرے میں ایک فرد، یا معاشرے کا دوسرے فرد کے رویّے اور طرزِ حیات کو کنٹرول کرنا نامناسب خیال کیا جاتا ہے۔ وہاں مثالی معاشرہ وہ ہے ،جہاں ہرشخص اپنے لیے غایتیں متعین کرسکتا ہے، ان کے حصول کے لیے ذرائع منتخب کرسکتا ہے، اور اپنے افعال کی خود ہی رہ نمائی کرسکتا ہے۔ آزادی کا یہ تصور بظاہر بڑا خوش نما معلوم ہوتا ہے، لیکن اس کی کمزوری اس وقت واضح ہوجاتی ہے، جب ہم دیکھتے ہیں کہ اپنی جائز و ناجائز خواہشات کے درمیان خط ِ امتیاز کھینچنا ہر انسان کے بس کی بات نہیں۔ آپؐ کا قول ہے کہ عاقل اور محتاط وہ شخص ہے ، جو اپنے نفس کو بے حقیقت جانے [اور اُسے اپنے قابو میں رکھے] اور عاجز و درماندہ وہ ہے، جو اپنے نفس کی خواہشات کا غلام ہو، اور اس کے باوجود اللہ سے بھلائی کی آرزو کرے۔
اس لیے حضور اکرمؐ کی تعلیم کا تیسرا اہم مقصد تزکیۂ نفس تھا۔ تزکیۂ نفس کسی چیز کو صاف ستھرا کردینے اور نکھار دینے کو کہتے ہیں۔ قرآنِ مجید کے مطابق انسان میں خیر اور شر دونوں کی صلاحیت اور رجحان موجود ہے۔ چنانچہ کہا گیا ہے کہ ’’ہم نے انسان کو بہترین اندازے پر پیدا کیا، پھر اُسے پست ترین نشیبوں کی طرف لوٹا دیا، سواے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک کام کیے‘‘(التین ۹۵: ۴-۶)۔ ایک دوسری جگہ انسان کو ’دو راستوں کی طرف‘ لے جانے کا ذکر ہے، ان میں سے ایک راستہ فلاح اور کامرانی کا ہے، اور دوسرا خُسران اور بربادی کا۔ دراصل انسان کے سارے محرکات اور جبلّتیں ہی اس کے رُتبے کی بلندی کا باعث ہیں، بشرطے کہ وہ اس کے قابو میں ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ کردار کی پختگی اور شرفِ انسانی، محرکات اور جبلّتوں کو قابو میں رکھنے اور انھیں حدود کو عبور کرنے سے روکنے ہی کا نام ہے۔ اس کے برخلاف کردار کی کمزوری جبلّتوں اور حیوانی خواہشات کے غلبے کا نام ہے۔ جب انسان ان کے ہاتھوں ایک بے بس کھلونا بن جاتاہے، تو انسانیت کے رُتبے سے گر کر اسفل حیوانات کی صف میں شامل ہوجاتا ہے۔ حضور اکرمؐ کے مقاصد ِ تعلیم میں حیوانی محرکات پر قابو پانے کو بڑی اہمیت دی گئی۔ چنانچہ آپؐ نے خواہشات کی اندھی پیروی، ظلم، قتلِ نفس، تکبر، غرور، دوسروں کی تحقیر اور استہزا، بسیارخوری، بے لگام جنسی تسکین، بے حیائی، فضول خرچی، بخل، غصے اور بزدلی کی بار بار مذمت کی، اور ان سے بچنے کی ہدایت فرمائی۔
تزکیۂ نفس، دراصل زبانی ہدایت اور تلقین کے بجاے ایک عملی پروگرام کا تقاضا کرتا ہے۔ تعلیم و تربیت کے وسیع مفہوم میں دیکھیں تو ساری اسلامی عبادات کسی نہ کسی طرح نفس، جبلّتوں یا محرکات پر قابو پانے کی مشقیں ہیں۔ فجر کو جب نیند کا غلبہ ہوتا ہے، تو نماز کے لیے بیدار کردیا جاتا ہے، اور اس کے لیے رغبت یوں دلائی جاتی ہے کہ جس نے عشاء اور فجر کی نماز جماعت سے ادا کرلی، اس نے گویا ساری رات عبادت میں گزاری۔ اسی طرح ظہر، عصر اور مغرب کی نمازیں ہیں، کہ ان اوقات میں لوگ اکثر اپنے کاروبار یا تفریح میں مصروف ہوتے ہیں، اور معاً نماز کا وقت ہوجاتا ہے اور اللہ کے ذکر کی طرف بلا لیا جاتا ہے، اگرچہ یہ نفس کے داعیات کو کتنا ہی نامرغوب ہو۔ ماہِ رمضان میں نہ صرف بھوکا پیاسا رکھا جاتا ہے، بلکہ اس دوران نفس کے تمام داعیات پر بھی پابندی ہوتی ہے۔ حج تو سراسر جسمانی مشقت اور راحت و آرام کی قربانی کا نام ہے۔ زکوٰۃ کی ادایگی فرض کر کے مال کی محبت کا امتحان لیا گیا، اور خیرات و صدقات کے فضائل بتلا کر بخل کا علاج کیا گیا۔ جہاد کے ذریعے نہ صرف آرام و راحت تج دینے بلکہ تکلیف و مشقت برداشت کرکے صبر کرنے، حتیٰ کہ جان تک قربان کردینے پر آمادہ کیا گیا۔ ان تمام عبادات میں سے کوئی ایسی نہیں، جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کی کثیر تعداد کے ساتھ خود حصہ نہ لیا ہو۔ اس طرح عملی تعلیم و تربیت کے نتیجے میں انسانوں کا جو گروہ تیار ہوا اس کے سبھی افراد اپنی جگہ نہایت پختہ کردار کے مالک اور نکھری ہوئی شخصیت رکھنے والے لوگ تھے، جن کا کردار خود دوسروں کے لیے نمونہ تھا۔
حضور اکرمؐ کی تعلیم کا ایک اہم مقصد فرد کی تمام صلاحیتوں کا بھرپور نشوونما تھا۔ ہر انسان میں تمام صلاحیتیں یکساں نہیں ہوتیں۔ کوئی مردِ میدان اور اچھا سپاہی ہوتا ہے، اور کوئی علم و قلم کا دھنی۔ کوئی اچھا منتظم ہوتا ہے اور کوئی اچھا مُبلّغ اور استاد۔ تاہم، آپؐ نے صحابہ کی سبھی بنیادی صلاحیتوں کی نشوونما کا اہتمام فرمایا۔ جنگوں میں اکثر کوئی استثنا نہ ہوتا تھا، اور سبھی بالغ اور صحت مند مرد شریکِ جہاد کیے جاتے تھے۔ بغیر کسی عذر کے شریکِ جنگ نہ ہونے والوں سے سختی سے بازپُرس کی گئی۔ مقصد یہ تھا کہ بنیادی جنگی مہارت و کارکردگی سے کوئی محروم نہ رہے۔ اس طرح پیشہ ور سپہ گروں سے قطع نظر پوری قوم کی عسکری تربیت کا اہتمام کیا گیا۔ اسی طرح طلب ِ علم اور حصولِ علم میں بھی کوئی استثنا نہ برتا گیا، جب ارشاد ہوا کہ علم حاصل کرنا ہرمسلمان پر فرض ہے۔ چوں کہ نماز میں قرآن کی کچھ نہ کچھ تلاوت کی جاتی ہے، اس لیے کسی نہ کسی حد تک تعلیم کتاب بھی سبھی مسلمانوں پر فرض قرار پائی۔ ہرشخص کو اپنے زیردستوں کا ذمہ دار منتظم (راعی) قرار دے کر سبھی پر یہ فرض عائد کیا کہ اپنی رعایا، حکومتوں، سپاہ، زیرکفالت افراد، بیوی بچوں وغیرہ کی دیکھ بھال اور فلاح و بہبود کا خیال رکھیں۔ اسی طرح ہرشخص پر دین کی تبلیغ فرض کی گئی، چاہے وہ ایک آیت جیسا فقرہ ہی کیوں نہ ہو۔ افراد میں قابلیت و صلاحیت کے اختلاف کے باوجود ان کی شخصیت کی ہمہ گیر تعمیر کا یہ پروگرام دراصل ایک نادر مقصد اور طریق کی پیداوار ہے، جس کی دنیا کے کسی اور نظامِ تعلیم میں مثال نہیں ملتی۔
کائنات اور انسان کا واضح شعور رکھنے والے، نفس پر قابو یافتہ، صاف ستھرے اور پاک باز لوگ،جو علم کے طالب اور جہل سے گریزاں ہوں، جن کا مقصد ِ زندگی ان کی فطرت میں واضح طور پر متعین ہو، ان کی صلاحیتوں کو مناسب انداز میں سینچا گیا ہو اور ان کی جبلّتوں اور خواہشوں کی احتیاط سے تراش خراش کی گئی ہو۔ ایسے ہی لوگ ایک مناسب اور ہم آہنگ معاشرے کی تعمیر کرسکتے ہیں۔ یہ معاشرہ مجموعی طور پر تناقض اور تضادات سے پاک ہونا چاہیے۔ اور اگر ایسے معاشرے کی تعمیر کو بھی ہم تعلیم کے مقاصد میں سے ایک مقصد شمار کرلیں، تو ہم دیکھیں گے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم کا یہ مقصد بھی نہایت خوش اسلوبی سے حاصل کرلیا تھا۔
مدینہ میں آپؐ نے جو معاشرہ تشکیل دیا،اس میں سبھی درجاتِ زندگی سے تعلق رکھنے والے مختلف قبیلوں، اور مختلف معاشی اور مالی حیثیتوں کے افراد شامل تھے۔ یہاں کاشت کار بھی تھے، اور صنّاع بھی، تاجر بھی تھے اور استاد بھی، غریب الدیار بے زر طلبہ بھی تھے اور امرا بھی، محنت کش مزدور بھی تھے اور آجر بھی۔ لیکن یہاں کوئی طبقاتی، لسانی، قبائلی کش مکش نظر نہیں آتی ۔ نہ آجر، مزدور کا حق مارتا ہے اور نہ مزدور آجر کے خلاف سرکشی پر آمادہ ہے۔ غریب اپنی محنت میں مگن ہیں، تو امرا اپنی دولت پر سانپ بن کر نہیں بیٹھے، بلکہ راہِ خدا میں بے دریغ خرچ کرتے ہیں: ’’اور ان کے مال و دولت میں سائل اور محروم کے لیے حق ہے‘‘ جسے وہ دل میں تنگی محسوس کیے بغیر ادا کرتے ہیں۔ یہاں دولت مند کی عزت اس کے مال کی بنا پر نہیں کی جاتی اور نہ غریب بے زری کی بنا پر بے وقعت ہے، بلکہ معیارِ عزت و تکریم، اللہ سے تعلق اور حُسنِ اخلاق ہے۔ عملاً ایک بلند اور پاکیزہ معاشرہ قائم کرکے دراصل حضور اکرمؐ نے مقصد ِ تعلیم کی اس بلندی کو چھو لیا، جو افلاطون سے لے کر آج تک کے فلاسفہ، معلمینِ اخلاق اور مفکرینِ سیاست کے لیے خوابِ گریزاں ہی رہی ہے۔ شاہ ولی اللہؒ اسے ’حصولِ سعادت‘ کا نام دیتے ہیں اور ایسے مثالی معاشرے کو مفید معاشرہ قرار دیتے ہیں۔
مغرب کی ایک خوبی کا اعتراف نہ کرنا، نادانی ہوگا۔ اپنے دوستوں کی طرح وہ اپنے حقیقی یا مزعومہ دشمنوں سے بھی (اپنے مخصوص زاویے سے) وابستگی رکھتے ہیں، اور ان پر گہری نظر بھی رکھتے ہیں۔ ۱۸ویں؍۱۹ ویں صدی میں مسلم دنیا کو فتح کر کے زیرنگیں لانے والے اہلِ مغرب نے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جتنا کچھ لکھا، کمیت کے اعتبار سے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ ۲۰ویں اور اب ۲۱ویں صدی میں، جب کہ رُوحِ مغرب کی اسلام سے آویزش ایک نئی شکل اختیار کر گئی ہے، وہاں کی مجالسِ دانش (think tanks) اور دانش ور، پینترے بدل بدل کر اسلام سے نبردآزما ہو رہے ہیں۔ ایسا ہی ایک مطالعہ زیڈین میری بوتے کی کتاب Islam's Fateful Path (اسلام کی پُرخطر راہ) کی صورت میں سامنے آیا ہے جو پیش نظر ہے۔ بقول اسما افسرالدین (پیش نظر کتاب کی ایک مبصرہ)، جو یونی ورسٹی آف نوٹرے ڈیم میں عربی اور اسلامیات کی استاد ہیں___ مذکورہ بالا کتاب کے مصنف کی یہ کوشش قابلِ داد ہے کہ انھوں نے اسلامی روایات کے تنوع، رواداری، حقوقِ انسانی کی پاس داری، خواتین کے مرتبے اور مذہبی حریت کی طرف بھی اشارے کیے ہیں، جب کہ مسلم اور غیرمسلم، دونوں جانب کے انتہا پسند، مشترک اقدار اور پُرامن بقاے باہمی کو نظرانداز یا مسترد کرتے نظر آتے ہیں۔
خود مصنف (ایک فرانسیسی عالم اور انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈکراس کے سینیر لیگل کنسلٹنٹ) کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ آیا اسلام، خوف، عدم برداشت، قسمت پر قناعت (fatalism)، دہشت گردی اور حقوقِ نسواں کے بارے میں حقارت و تردید کا مذہب ہے، یا اس کے برخلاف یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جسے غلط سمجھا گیا اور بدنام کیا گیا ہے۔ کیا مخالف مبصرین نے اس کے درست اخلاقی پیغام کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے؟ وجوہ سیاسی ہوں یا ذاتی (ص vii)۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ کتاب کا ذیلی عنوان The Critical Choices Facing Modern Muslims (دورِ جدید کے مسلمانوں کے لیے پُرخطر ممکنہ راستے) مصنف کے نقطۂ نظر کی غمازی کرتا نظر آتا ہے۔
مصنف کو اس بات کا شعور ہے اور ایک حد تک اعتراف بھی کہ مسلمان دانش ور جب یہ خیال کرتے ہیں کہ موجودہ دَور میں نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد مغرب نے، مشرقی دنیا (خصوصاً مسلم دنیا) کو زیرنگیں کرنے کے لیے ایک نئی حکمت عملی اپنائی ہے: اب فتوحات، ’’روحانی اور معاشی میدان میں ہوں گی‘‘___ اور یہ خیال کچھ ایسا غلط بھی نہیں، بقول مصنف: یہ حکمت عملی کوئی نئی نہیں ہے۔ فرانس کے صلیبی جنگ جُو شاہ لُوئی نہم (سینٹ لُوئی) نے ایک خفیہ دستاویز میں یہ اعتراف کرنے کے بعد کہ مسلمانوں کو جنگ کے ذریعے فتح کرلینا مشکل ہے، دوسرے حربوں سے کام لینے کی تلقین کی۔ لُوئی نہم کو ایک مقدس اور متبرک ہستی خیال کیا جاتا تھا۔ اس نے یروشلم سمیت مقاماتِ مقدسہ کو فتح کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، تاکہ انھیں ’بے دین کافروں‘ (مسلمانوں) کے ہاتھوں سے چھڑایا جاسکے۔ ۱۲۴۸ء میں اس نے مصر پر حملہ کیا۔ ناکام رہا، قیدی بنا اور بعد میں فدیہ دے کر رہا ہوا۔ دوسری کوشش میں کارتھیج (شمالی افریقہ) فتح کرنے کی مہم بھی ناکامی سے دوچار ہوئی۔ تاہم، مرنے سے پہلے اس نے اپنے ’مسلمان دشمنوں‘ کا قلع قمع کرنے کے لیے عیسائی بھائیوں کو وصیت کی کہ وہ مشرقی زبانیں سیکھیں، مسلم دینیات اور عقائد کا تنقیدی نقطۂ نظر سے مطالعہ کریں، اور اس طرح تعلیم و تلقین کے ہتھیاروں سے اپنے دشمن کو مسخر کریں۔ (ص ۳)
یوں ’مستشرقین‘ ___ عربی اور اسلامیات کے غیرملکی، غیرمسلم ماہرین کا وہ گروہ پیدا ہوا، جس نے تحقیق اور تصنیف کے ذریعے اسلام کی بیخ کنی شروع کی۔ اگرچہ شروع ہی سے علما اور مسلم دانش وروں نے ہمیشہ ان مستشرقین کی ’علمی کاوشوں‘ کو شک و شبہے ہی کی نظر سے دیکھا ہے، اور کبھی اسے قبول نہیں کیا۔ لیکن یہ کوشش جاری ہے، اور اس کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نظر نہیںآتا کہ ایک طاقت ور عقیدے پر اس کے اندر گھس کر تخریبی کارروائی کی جائے۔
کیا یہ خیال ’مسلم بنیاد پرستوں‘ کا مزعومہ ہے؟ وہم ہے یا حقیقت؟ مصنف اس سلسلے میں دوٹوک گفتگو نہیں کرتے۔ کبھی محسوس ہوتا ہے کہ وہ مغرب کی اس ’سازش‘ کو بے نقاب کر رہے ہیں، اور کبھی وہ خود اس کا ایک حصہ اور ایک کردار نظر آتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ عیسائی مغرب کی اسلام سے اس مخاصمت کے اسباب کیا ہیں؟
مصنف کے نزدیک اس سوال کا جواب صدیوں کی تاریخ پر محیط ہے۔ لیکن صورت حال بہت واضح ہے: اسلام اپنی ابتدا ہی سے ایک طاقت ور، ساری دنیا پر چھا جانے کا عزم رکھنے والی ایک تحریک کے طور پر ظہور پذیر ہوا۔ ناقابلِ مزاحمت قوت کے ساتھ وہ کرئہ ارض پر پھیلتا چلا گیا۔ عیسائیوں، ایران کے ساسانیوں، ہندوئوں اور کنفیوشسیوں سے اس نے وسیع علاقے چھین لیے۔ اس کے پھیلنے کی رفتار اور نفوذ کی صلاحیت بھی اس نفرت کا ایک سبب ہے جو عالمی سطح پر صدیوں سے اسلام کے حصے میں آئی ہے۔ ان ’’شکست خوردہ اقوام میں عیسائی متاثرین وہ واحد قوم ہیں، جو محمد [صلی اللہ علیہ وسلم] کو …………… سمجھتے ہیں‘‘ [یہاں ایسے الفاظ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں لکھے گئے ہیں، جنھیں کوئی بدبخت اور شقی القلب بددیانت ہی زیرقلم لاسکتا ہے] (ص ۴)۔ مغرب، اسلام کو ایک بے شعور، عقل سے کورا، قدامت پسند اور وحشیانہ مذہب گردانتا ہے، جو ایک دینی پاور بلاک کی حیثیت سے ساری دنیا پر اپنے غلبے کے لیے کوشاں ہے کہ یہ اسے اپنا حق سمجھتا ہے (ص ۴، ۵)۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے سے مسلم دنیا اور مغرب کی آویزش نے ایک نہایت متشددانہ صورت اختیار کرلی ہے، اور دونوں فریق ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ (ص ۵)
یہ ہے وہ مزعومہ پس منظر جس میں یہ کتاب لکھی گئی ہے۔
اہلِ مغرب کو اس جنگ میں ایک اُمیدافزا بات یہ نظر آتی ہے کہ خود مسلم دنیا بھی کوئی ایک مضبوط اکائی (monotithic block) نہیں رہی بلکہ اس میں ’بنیاد پرستوں‘ اور عقلیئین (rationalists) ___ مراد روشن خیالوں ___ لادین اور اہلِ تصوف کے درمیان ایک پُرتشدد آویزش صاف نظر آتی ہے۔ پھر صدیوں سے شیعہ سُنّی، فلسفی، صوفی، روشن خیالی اور قدامت پسندی کی خلیجیں ہیں۔ مختلف مسلم ملکوں کے درمیان جھگڑے ہیں، جنھیں بڑھانے کی ضرورت ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس نوصلیبی جنگ کا ادراک کرکے مسلمانوں کی وسیع اکثریت کے ذہن میں ایک ردعمل انگڑائی لے رہا ہے، اور وہ ہے ’اسلام کی طرف رجعت‘۔
مصنف کے خیال میں اگر مسلم عوام کے خدشات دُور نہ کیے گئے، اور خصوصی کوشش کے ذریعے اُن کے دلوں میں اعتماد نہ پیدا کیا گیا، تو اسلام پسندی کا یہ چیلنج جو مغرب (اور ساری دنیا) کو درپیش ہے، ایک ایسا فلیتہ بن جائے گا، جو پہلے تو مشرق وسطیٰ کو دہکائے گا اور پھر افریقہ، ایشیا، امریکا کے دونوں براعظموں اور جلد یا بدیر خود یورپ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ اس طرح آنے والے برسوں میں دہشت گردی اور مسلح تصادم عام ہوجائیں گے۔ مسلح جھڑپوں کے علاوہ اس جنگ کو بھڑکانے کے دوسرے ذرائع بھی اختیار کیے جائیں گے۔ بنیاد پرست مسلمان، ہتھیار سازی، خصوصاً کیمیائی، حیاتیاتی اور نیوکلیائی کی تیاری اور استعمال پر توجہ مرکوز کریں گے۔ (ص ۶)
ایک دوسرا خطرہ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کا بھی ہے۔ جنوری ۲۰۰۰ء میں دنیا میں مسلمانوں کی تعداد اندازاً ڈیڑھ ارب سے کچھ اُوپر تھی۔ مصنف کہتے ہیں کہ ’’سی آئی اے کی کتابِ حقائق‘‘ (CIA Factbook) کے اندازے کے مطابق آبادی ایک ارب ۹۰ کروڑ ۲۰لاکھ ۹۵ہزار ہے (ص ۲۱۸)۔ مصنف نے بڑی تفصیل سے یورپی ممالک اور امریکا میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کا ’تشویش ناک‘ جائزہ لیا ہے۔ فرانس میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی نے پروٹسٹنٹ عیسائیوں کی تعداد کو پیچھے چھوڑ دیا ہے (۴۰؍۵۰ ہزار مسلمانوں کے مقابل ۱۷لاکھ پروٹسٹنٹ اور ۸ لاکھ یہودی) (ص ۷)۔ مسلم ملکوں میں آبادی ۴ء۶ فی صد سالانہ کی رفتار سے بڑھ رہی ہے (ص ۲۱۲)۔ اس پر مستزاد یہ کہ بہت سے اصلی نسلی یورپی بھی اسلام قبول کرتے جارہے ہیں۔ (ص ۷)
مصنف کے خیال میں مغرب آج بھی اسلام کا مقابلہ کرنے کے لیے حسب ِ سابق ترغیب و ترہیب دونوں کا استعمال کر رہا ہے۔ مسلم دنیا اور مسلم آبادیوں پر جارحیت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو سمجھنے سمجھانے کے لیے مستشرقین کے علاوہ ’اسلامیئین‘ (ماہرین اسلامیات، Islamologists) کی ایک نئی کھیپ ظہور میں آئی ہے، جو مسلمانوں کا حلیہ بگاڑ کر اُنھیں اکثر مضحکہ خیز اور غیرانسانی ہیولوں میں پیش کرتے ہیں: یہ مسلمان کی فطرت میں داخل ہے کہ وہ سفاک اور ظالم، دغاباز، بے ایمان، منافق اور بددیانت و بدنہاد ہو (ص ۱۰)۔ ارنسٹ ریناں (Earnest Renan) نے مسلمانوں اور یہودیوں دونوں کے بارے میں ایسے ہی بے ہودہ تعصب کا اظہار کیا تھا: سامی النسل لوگ عدمِ تجسس کا شکار ہوتے ہیں۔ اُن میں رواداری کا بھی فقدان ہوتا ہے، اور یہ لوگ فتنہ انگیز ہوتے ہیں۔ مداوا؟ اسلام کو تباہ کردیا جائے۔ ریناں فرماتے ہیں: ’’جنگ کا خاتمہ اُسی وقت ہوگا جب اسماعیل [علیہ السلام] کا آخری بیٹا یا تو مرجائے یا ریگستان کی پہنائیوں میں دھکیل دیا جائے‘‘۔ (ص ۲۱۹، حاشیہ ۶)
ریناں کے پوتے ارنسٹ سیچاری (Earnest Psichari) جنھوں نے عیسائیت کو ازسرنو دریافت کیا، فرماتے ہیں کہ ’’جلد یا بدیر ہم مسلمانوں کو فتح کرلیںگے۔ ہم فاتح ہیں اور وہ فانی مفتوح۔ اور کیا درکار ہے؟‘‘ (ص ۱۹۶)، جب کہ آگست پامل (August Pomel) کے خیال :میں ’’محمدیت [اسلام] اُن معاشروں کے لیے تو ایک موزوں عقیدہ ہوسکتا ہے، جن کا سماجی ارتقا ایک وحشیانہ سطح پر آکر رک گیا ہے--- عرب معاشرہ اس کی موزوں مثال ہے--- یہ [یعنی اسلامی] معاشرہ ۳اقسام کے انسانوں پر مشتمل ہے۔ پہلی سطح پر رذیل، منافق اور کاہل مذہبی زعما کا گروہ ہے، جس کے اثرات جہالت (مذہبی عصبیت) کی پیداوارہیں۔ دوسرا گروہ پِسّو زدہ (flea bitten) اشرافیہ کا ہے جن کے نزدیک تعمیری اور پیداآوری سرگرمیاں شجرِممنوعہ ہیں۔ احمقانہ اور تخریبی سرگرمیاں ان کے معزز مشاغل ہیں۔ تیسرا طبقہ غریب، مسکین ہاریوں کا ہے، جو مندرجہ بالا دو طبقات کو پالتے ہیں، اور خود فاقہ کشی میں یا خُمس پر گزارا کرتے ہیں‘‘ (ص ۱۹۷)۔ مسلمان ’’وحشی اور بچگانہ ذہن کے لوگ ہیں… جو اپنے شان دار ماضی کی جھوٹی یادوں اور مستقبل کے بے مصرف خوابوں پر زندہ رہتے ہیں‘‘۔ (ص ۱۹۷)
مصنف کہتے ہیں کہ آج بھی مغرب کے متشدد عیسائی خود کو اعلیٰ اور مسلمانوں کو ادنیٰ خیال کرتے ہیں، اور اُن کے نزدیک مسلمانوں کا نہ کوئی ضمیر ہے نہ اخلاقیات اور نہ عزت و وقعت۔ اپنی اِنھی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے وہ مغرب کی اعلیٰ اقدار کے فہم سے عاجز ہیں۔ ان ’’لرزتے، کانپتے غلاموں‘‘ کے بالمقابل عیسائی اپنی سرشت کے اعتبار سے مخیر ہیں، اُس محبت کے امین، جو اُن کے اندر یسوع مسیح کے فیضان (grace) سے پیدا ہوگئی ہے۔ (ص ۱۹۶)
مصنف کے نزدیک قرونِ وسطیٰ سے انیسویں صدی تک کے مسلمانوں کے ہاں بھی یورپی اقوام کے لیے کوئی اچھی راے نہیں پائی جاتی اور آج بھی مغرب کے تسلط اور مزعومہ مظالم کے خلاف قدامت پسند اور عام مسلمانوں میں بھی، مغرب کے خلاف ایک نفرت واضح نظر آتی ہے۔ تاہم، ان کے خیال میں دنیا میں امن کے قیام کے لیے ’’ثقافتی اور مذہبی عدمِ اعتماد اور نفرتوں کو ختم کرنے‘ ‘کی گنجایش ابھی موجود ہے۔
اس میں شک نہیں کہ بعض مغربی علما نے مسلم فلاسفہ اور صوفیا پر تحقیقی کام کرتے ہوئے، مغربی تہذیب اور سائنس کو ان کا مرہونِ منت بھی بتایا ہے، تاہم اکثریت نے اہلِ مغرب کے ذہن میں اسلام کا وہ تصور بٹھا دیا ہے، جس کی عکاسی، بقول ان کے: قدامت پسند ابن تیمیہ، محمد بن عبدالوہاب اور موجودہ سعودی حکمراں کرتے ہیں۔ ۱۹ویں، ۲۰ویں صدی میں مسلم مفکرین میں مغرب پر تنقید اور اسلام کی طرف رجعت کا وہ عمل شروع ہوا، جس کی عکاسی ابوالاعلیٰ مودودی (جماعت اسلامی کے بانی)، حسن البنا (اخوان المسلمون کے بانی)، سید قطب اور بعض دوسرے مسلم مفکرین کرتے ہیں۔ برعظیم کے علاوہ افریقہ کے کئی ملکوں، تیونس، مراکش، الجزائر وغیرہ میں ان مفکرین کی تحریروں سے متاثر ہوکر، اسلام کی طرف رجعت کی تحریکیں اُبھریں۔ اُسامہ بن لادن کی تحریک، القاعدہ اور ’اسلامی جہاد‘ کی تحریکیں اسی ’تھیوکریٹک اسلام‘(سیاسی اسلام) کی پیداوار ہیں۔
اسلام کی ایک دوسری صورت اور جہت، جس کی جڑیں مسلمانوں کے روشن ادوار میں ملتی ہیں ’’وسیع المشربی، عقل دوستی اور روشن خیالی‘‘ کا اسلام ہے، جس کے بیج معتزلہ، ابنِ رشد، ابنِ سینا، الخوارزمی، منصور بن حلّاج، ابن عربی اور رومی نے ڈالے تھے۔بعد میں جمال الدین افغانی اور محمدعبدہٗ نے اسے بازیافت کیا۔ زمانۂ حال میں عبداللہ بدوی (مصر) اور محمدالجبری (مراکش) اس کے نمایندہ ہیں۔ لیکن قدامت پسند علما اور سیاست دان انھیںتسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ (ص ۱۲)
کتاب کے وسیع مباحث اسلام کی ابتدا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ اور آپؐ کے مشن اور خلافت (راشدہ، بنواُمیہ، بنوعباس) سے لے کر ۲۰ویں صدی تک پھیلے ہوئے ہیں۔ کتاب تین اجزا اور ایک اختتامیہ پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں مصنف نے قبلِ اسلام عرب معاشرے کی حالت، حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بعثت اور جزیرہ نماے عرب میں پہلی مرتبہ ایک باقاعدہ ریاست کی سیاسی تشکیل پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضور اکرمؐ کی وفات کے بعد ہی ’اُمہ میں مستقل انتشار‘ کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جو بنوعباس کے برسرِاقتدار آنے (۶۶۰ء) تک جاری رہا، یہاں تک کہ مرکزی ’اسلامی ریاست‘ پر بنوعباس قابض ہوئے (۷۵۰ء) اور تاتاریوں (منگول) کی یلغار (۱۲۵۸ئـ) تک برسرِاقتدار رہے۔ وحشی تاتاریوں نے بنوعباس کو چن چن کر قتل کیا، مگر انھیں بغداد کی خلافت کی خواہش نہ تھی۔ خلافت کا ادارہ مصر اور پھر ترکی میں منتقل ہوگیا اور پھر مصطفی کمال کے ’روشن خیال، جدیدیت‘ کے انقلاب کے بعد ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا (۱۹۲۴ء)۔ اس طرح مسلم دنیا کی مرکزیت ختم ہوگئی۔ شرق اوسط چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہوگیا۔ مگر اس سے پہلے ہی اُمت خوارج، شیعہ، اسماعیلی، دروزی، علوی اور زیدیہ میں منقسم ہوچکی تھی۔ اس پر مستزاد اسلامی تعلیمات اور قانون پر اختلافات جو اہلِ سنت کے چار علما کے مسالک (امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل) کی شکل میں ظاہر ہوچکے تھے۔ معتزلہ، اشاعرہ اور صوفیہ کے درمیان خلیجیں الگ تھیں۔ ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب نے ’سنتِ اسلام‘ کی طرف رجعت کی۔ انھی کے شاخسانوں میں ’رجعت پسند اور تنگ نظر‘ انتہا پسند نظریات بھی وجود میں آئے۔ سعودی عرب میں حکومت اور معاشرے پر اُن کی فکر کے اثرات نمایاں نظر آتے ہیں۔
’عصری اسلامیت‘ کے خالق حسن البنا، سید قطب اور سید مودودی بتائے گئے ہیں۔ یہ رجحان ۱۹ویں/۲۰ویں صدی میں مغرب کے تعامل سے وجود میں آنے والے ’روشن خیال‘ اور ’رواداری‘ والے اسلام سے متصادم ہے۔ مصر کے حسن البنا نے اسلام کو زندگی کے ایک مکمل نظام کے طور پر پیش کیا۔ مثالی اسلامی ریاست قائم کرنے کے لیے ان کی حکمت عملی کے دو زاویے تھے: اسلامی تعلیم و تربیت اور عوام میں نئے سیاسی شعور کی بیداری۔ انھوں نے اخوان المسلمون کی تحریک برپا کر کے ’اُسرہ‘ (خاندان) کا نظام قائم کیا۔ مدارس، جامعات، مساجد، ہسپتالوں اور پیشہ وارانہ تنظیموں اور سرکاری سماجی خدمت کے اداروں پر قبضہ کرنے کی کوشش کی، اور مسلمانوں کو ایک نیانعرہ دیا: اللہ ہمارا مقصود ہے، رسولؐ ہمارے قائد ہیں، قرآن ہمارا دستور ہے، جہاد ہمارا راستہ ہے، اور اللہ کی راہ میں شہادت ہماری اعلیٰ ترین خواہش اور تمنّا ہے‘‘۔ اگرچہ مصر میں شاہ فاروق کے زمانے میں حسن البنا اور پھر انقلابی حکومت (جمال عبدالناصر) کے دور میں ان کے جانشین سیدقطب کو شہید کردیا گیا، اور اس جماعت پر پابندی اور مظالم کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوا، تاہم آج بھی مصر میں اس کے زیراثر ۶ ہزار مساجد ہیں اور جماعۃ الشریعہ (ایک رفاہی تنظیم) کے ۲۰ لاکھ اراکین کام کر رہے ہیں۔
سیدابوالاعلیٰ مودودی کو بھی مصنف ابن تیمیہ /محمد بن عبدالوہاب کے متشددانہ اسلام کا ایک جدید ایڈیشن گردانتے ہیں (ص ۶۸)۔ سید نے ۱۹۲۰ء سے اپنے کام کا آغاز کیا۔ ’جماعت اسلامی‘ کے عنوان سے ایک تحریک برپا کی، آزاد خیالی اور لادینیت کے خلاف اور ’سلفی اسلام‘ کے حق میں علمی، عملی اور سیاسی میدان میں جہاد کیا (ص ۶۸-۸۰)
آزاد خیالی اور مغربی نظریات کے خلاف سیدمودودی کی تحریک، جسے پڑھے لکھے نوجوانوں اور طلبہ میں بھی پذیرائی حاصل ہوئی، بڑی حد تک پُرامن تحریک تھی۔ تاہم ۲۰ویں صدی کے وسط اور اواخر میں بین الاقوامی حالات، پہلی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی شکست (۱۹۶۷ء)، لبنان کی خانہ جنگی (۹۰-۱۹۷۵ء)، ایرانی انقلاب (۷۹-۱۹۷۸ء)، سوویت یونین کے افغانستان پر قبضے کی مزاحمت (۹۲-۱۹۷۹ء)، پہلی خلیجی جنگ (۹۲-۱۹۹۱ء) اور حال ہی میں عراق اور افغانستان پر امریکی یلغار نے مسلم دنیا میں مغرب کے خلاف ایک عملی فساد اور نفرت، اور نتیجتاً کچھ عملی اقدامات کی طرف رجحان کو فروغ دیا ہے، جو بقول مصنف، ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کی صورت میں سامنے آئے ہیں، جب کہ امریکا پر براہِ راست حملہ کیا گیا، خودکش حملہ آوروں نے اپنے جہاز ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون کی عمارتوں کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیے۔
اس قدامت پسند، ’سلفی‘ اور ’جہادی اسلام‘ کے خلاف اور بعض صورتوں میں اس کے متوازی دوسرے رجحان کی مصنف بار بار تکرار کرتے ہیں، جسے وہ ’عقلیئین کا اسلام‘ قرار دیتے ہیں۔ مصنف بار بار مسلم فلاسفہ اور دورِ جدید میں جمال الدین افغانی اور محمد عبدہٗ کا ذکر کرتے ہیں (وہ برعظیم پاک و ہند کے روشن خیالوں سرسیداحمد اور تشکیلِ جدید… والے ’نثری‘ محمداقبال کو فراموش کرگئے ہیں)۔ جمال الدین افغانی (م: ۱۸۹۷ء) نے برطانوی استعمار کے خلاف آواز بلند کی اور ایک انقلابی کی حیثیت سے شہرت پائی، وہ ہندستان، مصر، روس، فرانس، ایران، برطانیہ اور ترکی میں گھومتے اور درسِ حریت دیتے پھرے۔ محمد عبدہٗ (م:۱۹۰۵ء) بڑی حد تک جمال الدین افغانی کے ساتھی اور جدیدیت کے علَم بردار تھے۔ انھوں نے اپنی سرکاری حیثیت (جج ۱۸۸۱ء، مفتی مصر ۱۸۹۱ء) میں بعض ایسے فتوے دیے جو قدامت پسند علما کو پسند نہ تھے۔ انھوں نے مصر کی جامعہ الازہر میں بھی بعض اصلاحات کیں اور عقل و روایت کے درمیان اختلاف کی صورت میں عقلی بنیاد پر فیصلے کرنے پر زور دیا۔ ساتھ ہی ان کے ہاں تصوف کی طرف میلان بھی پایا جاتا ہے: ’’صوفیا میں بہت سے نبوت کے درجے کے قریب پہنچ جاتے ہیں، اور ماورا کی ایک جزوی آگاہی بھی حاصل کرلیتے ہیں‘‘ (ص ۱۵۶)۔ مصنف کو محمد عبدہٗ کی روشن خیالی، رواداری، انسان دوستی، سب کی بے لوث خدمت اور تمام مذاہب (خصوصاً اہلِ کتاب) کے لیے نرم گوشہ، اسلام کی سخت قدامت پسندی کے خلاف گفتار میں ایک مستحسن رجحان نظر آتاہے۔
ضوابط میں جکڑے ہوئے، سخت گیر اسلام کے خلاف، مصنف تکرار کے ساتھ متصوفانہ نرم اسلام سے امیدیں وابستہ کرتے دکھائی دیتے ہیں جس نے عباسی عہد میں یونانی، یہودی اور عیسائی رہبانیت، ترکِ دنیا اور زُہد کے رجحانات کو فروغ دیا۔ اس رجحان کے نمایندے انھیں منصور حلّاج، ابن عربی اور رُومی نظر آتے ہیں۔ یہاں بھی مصنف مسلم تصوف کے اہم سلاسل قادریہ (شیخ عبدالقادر جیلانی، م: ۵۶۱ھ/۱۱۶۶ء) نقش بندیہ (خواجہ بہاء الدین نقش بند، م: ۷۹۱ء) اور مجددیہ (شیخ احمد سرہندی، م: ۱۶۲۴ء) کو فراموش کر دیتے ہیں، جو اسلام کے بنیادی عقائد، عبادات اور ضوابط کے سلسلے میں کسی بھی طرح کی مداہنت کے قائل نہیں۔ اُن کی اُمید اہلِ تصوف اور روادار، روشن خیالوں کے ایسے گروہ سے ہے جو رواداری،حریت، آزاد رَوی اور ’نرم کردار‘ کے قائل ہیں۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ حال ہی میں امریکا کی ایک مجلسِ دانش (Rand Corporation) نے خیال ظاہر کیا تھا کہ مسلمانوں کو جیتنے کے لیے اُن کے ہاں مروّج ایک خاص نہج کے تصوف کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ (دی اکانومسٹ، ۲۰دسمبر ۲۰۰۸ء)
اس کے علاوہ بھی کرنے کے اور بہت سے کام ہیں، جو مصنف کتاب کے اختتام میں تجویز کرتے ہیں۔ اُن کے خیال میں اس کے لیے دوسروں کی اقدار کے لیے رواداری اور اعتماد کی فضا پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ عیسائی، یہودی، ہندو اور مسلمان مل کر ایک ضابطہ ٔ اخلاق مرتب کریں، ایک دوسرے پر حملے اور الزامات بند کریں۔ اقوامِ متحدہ، یونیسکو، ریڈکراس، ریڈ کریسنٹ، یورپی یونین، افریقی یونین، آرگنائزیشن آف دی اسلامک کانفرنس، ایکومینیکل کونسل آف چرچز اور دوسرے مل بیٹھیں، اور امن و آشتی کے لیے کوشش کریں۔ ایک اہم عملی بات: اسلامی تعلیمی اداروں میں یہودیوں کے پروٹوکول (Protocols of the Elders of Zion) کے حوالے دینے بند کیے جائیں کہ یہ یہودیوں کو بدنام کرنے والی ایک جعلی دستاویز ہے۔ تہذیبوں کے تصادم کا غلغلہ بند کیا جائے، اور عالمی مذہبی ڈپلومیسی کے زیرعنوان سارے فریق آپس کی دشمنی کو ختم کرکے باہمی رواداری اور احترام کا رویّہ اپنائیں۔ مذہبی اور سیاسی قائدین مل بیٹھ کر اپنے لیے ایک ضابطہ ٔ عمل مرتب کریں۔ القاعدہ کو بھی شریک کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ (ص ۶، ۲۰۰۵ء)
بیش تر مسلم ملکوں میں سرکاری اسکولوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے اور بہت سی مذہبی تنظیموں نے ایک متوازی نظامِ تعلیم قائم کر رکھا ہے، جو سرکاری کنٹرول سے آزاد ہے۔ مدارس، ازکار رفتہ تعلیم کے ذریعے ’یک سمتی ذہن‘ اور قدامت پرستی کو فروغ دے رہے ہیں۔ اس طرح وہ روشن خیالی کا استحصال کرتے ہیں۔ مذہب کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اسے اجتماعی زندگی سے متعلق اداروں___ ریاست، عائلی قوانین، محنت اور معاشیات میں دخل اندازی سے روک دینا چاہیے (ص ۲۱۱)۔ فرد اور خواتین کے حقوق کی پاس داری کی جائے۔ مسلمانوں کی آبادی جو ۴ء۶ فی صد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے، اُسے روکنے کی ضرورت ہے، تاکہ مسلم دنیا میں معیارِ زندگی بلند ہو۔ ’اسلامیت‘ سے تیسری دنیا میں جو مسائل پیدا ہو رہے ہیں، ان کی طرف توجہ دینا اشد ضروری ہے۔
اسلام کے لیے ایک غیر معاندانہ روش، لیکن اس کی اصل تعلیمات اور روح سے نابلد ذہن، اس دین اور اس کے وابستگان کو کس تناظر میں دیکھتا ہے___ پیش نظر کتاب، اس کی ایک اچھی مثال ہے، یا ذہنی انجینیری کی ایک کوشش۔
(Islam's Fateful Path، [اسلام کی پُرخطر راہ] مصنفہ: زیڈین میری بوتے (Zidane Meriboute)، ناشر: I.B. Tanris ،لندن، صفحات: ۲۴۶، قیمت: درج نہیں۔)
اگرچہ سوشلزم کمیونزم کا زمینی آئیڈیل منہدم ہوچکا ہے‘ لیکن جس مسئلے کے حل کرنے کا ادّعا لے کر وہ آیا تھا‘ وہ مسئلہ [جوں کا توں] باقی ہے: سماجی قوت کا بے حیائی سے اور دولت کا بے محابا استعمال‘ جو بیش تر صورتوں میں حوادث کا رُخ متعین کرتے ہیں اور اگر بیسویں صدی کا عالمی سبق ایک صحت بخش ٹیکے کے طور پر ناکام رہا‘ تو ایک وسیع سرخ بگولہ ایک دفعہ پھر [اپنی قہرسامانیوں کے ساتھ] مکمل صورت میں نمودار ہوجائے گا۔ (الیگزندر سولزنٹبین‘ نیویارک ٹائمز‘ ۲۸ نومبر ۱۹۹۳ئ)
جدید سرمایہ دارانہ نظام کی عمر اب ۴۰۰ سال ہونے کو آئی ہے۔ اس کا آغاز سترھویں صدی سے ہوتا ہے‘ جب صنعتی شعبے میں ولندیزی (ڈچ) ایجادات و اختراعات اور زرعی شعبے میں ان کی پیش رفت نے انھیں مالیات میں امامت کا مرتبہ عطا کر دیا تھا۔ اس جدید سرمایہ داری میں ان کے بعد امامت کا شرف برطانیہ کو حاصل ہوا۔ اگرچہ ایجادات اور صنعتی شعبے میں وہاں بھی پیش رفت ہوئی‘ لیکن اٹھارھویں/انیسویں صدی میں برطانیہ کی عالمی قیادت کی بڑی وجہ اس کی نوآبادیات (استعمار) تھیں۔ بیسویںصدی کے وسط تک (دوسری جنگِ عظیم کے بعد) برطانیہ اپنی پوزیشن کھوچکا تھا‘ اور عالمی سرمایہ داری کے نظام کی قیادت ریاست ہاے متحدہ امریکا کے ہاتھ میں آچکی تھی۔ بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کے آغاز میں امریکا واضح طور پر عالمی معیشت و سیاست کے فیصلہ کن قائد کے طور پر اُبھرا ہے۔ لیکن اس کی معیشت کی برتری اٹھارھویں/انیسویں صدی کے ’برطانیہ عظمیٰ‘ کے نوآبادیاتی نظام کے نمونے پر نہیں‘ بلکہ ایک آزاد (اور کارآمد) امیگریشن پالیسی (جس کے نتیجے میں محنتی‘ ہنرمند‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ افرادی قوت وافر مقدار میں مہیا ہوگئی) اور ایجادات و فنیات میں پیش رفت سے ہوئی۔
اب ہمارے ملک ‘ بلکہ شاید ساری دنیا میں ایک عام تصور یہ ہے کہ ریاست ہاے متحدہ امریکا اپنی دولت اور خوش حالی کی وجہ سے محنت کشوں کے لیے جنت ہے۔ نظامِ سرمایہ داری کے قائد نے منڈی کی معیشت‘ آزاد تجارت اور کھلی مسابقت کے ذریعے نہ صرف یہ کہ پابند معاشی نظام (اشتراکیت/سوشلزم) کو شکست دی ہے‘ بلکہ عام انسانوں اور معاشی کارکنوں کے لیے مسرت‘ خوش حالی اور ترقی کے ایسے زینے مہیا کر دیے ہیں‘ جہاں آسمان ہی رفعتوں کی حد ہے۔
Business Weaksکے چیف اکانومسٹ ولیم وُلمان اور این کولاموسکا نے اس تصور کو چیلنج کیا ہے۔ ان کی زیرنظر کتاب The Judas Economy: The Triumph of Capital and the Betrayal of Work [یہودا کی معیشت: سرمائے کی فتح اور محنت کے ساتھ دغا] تین حصوں پر مشتمل ہے: سرمائے کی فتح‘ محنت کے ساتھ دغا اور سرمایہ داری کو خود اپنے آپ سے بچانا۔
سرمائے اور مزدور کی کش مکش‘ عہد قبلِ تاریخ کے پرویز اور شیریں فرہاد کی داستان سے بھی زیادہ قدیم ہے۔ یورپ میں صنعتی انقلاب کے ساتھ ساتھ یہ آویزش اور زیادہ شدید ہوگئی‘ تاہم اختراعات اور نوآبادیاتی وفد کی لوٹ کھسوٹ کے نتیجے میں حاصل ہونے والی دولت کا کچھ حصہ محروم طبقات تک بھی پہنچا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی طباعت اور نشرواشاعت کے سیلاب کے نتیجے میں محرومی کا شعور بھی شدید ہونے لگا جس کا نقطۂ عروج کارل مارکس اور فریڈرک اینجلز کی تحریروں میں ملتا ہے۔ اگرچہ یہ داستان بھی بڑی دل چسپ اور چشم کشا ہے‘ تاہم وُلمان اور کولاموسکا نے پیش نظر کتاب میں اپنے مطالعے کو سردجنگ کے خاتمے (بیسویں صدی کے آخری عشرے) میں امریکا میں سرمائے اور محنت کے تعلقات پر مرکوز رکھا ہے۔
محنت کش سے اُن کی مراد وہ لوگ ہیں جو اپنی روزی‘ اپنی جسمانی مشقت‘ مہارت یا دماغی ریاضت سے کماتے ہیں‘ چاہے وہ مشین پر کھڑے ہوں‘ یا کسی دفتر میں اعلیٰ عہدے کی ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہوں۔ معاش کے لیے کام کرنا اُنھیں اُس گروہ سے الگ کرتا ہے‘ جن کے اپنے ’’اثاثوں‘‘ کی ملکیت سے حاصل ہونے والی آمدنی اُنھیں کسی طرح کی ’’محنت‘‘ سے مستغنی کردیتی ہے۔ بقول اُن کے ’’وہ امریکی، جو اپنی روزی کے لیے کام کرتے ہیں‘ ایک ایسی دوڑ میں مصروف ہیں‘ جس کا کوئی خطِ اختتام نہیں۔ ۱۹۸۸ء میں سردجنگ کے اختتام کے بعد سے انھوں نے بڑی سخت محنت کی ہے کہ کوئی معاشی معجزہ کردکھائیں‘ تاہم وہ ایک ایسی معیشت میں گزربسر کر رہے ہیں‘ جہاں ان کا معیار زندگی ایک ٹھیرائو کا شکار ہوگیا ہے‘ اور جہاں انھیں کوئی سکون میسر نہیں۔ سردجنگ میں یہ امریکا کی فتح کے عواقب ہیں‘‘۔ (ص ۱)
امریکی محنت کش کو اُس کے آجر اور سیاست دان جو دلاسے دیتے ہیں‘ وہ عموماً سراب ہی ثابت ہوتے ہیں۔ ۱۹۹۰ء کے بعد سے معیشت کے پھیلائو اور کارپوریٹ منافعوں میں زبردست اضافوں کے باوجود کارکنوں کی مُزد میں اضافوں کا تناسب نہایت حقیر ہے۔ یہ بات ایک عام محنت کش کے لیے تو درست ہے ہی‘ لیکن عنقریب ان اعلیٰ درجے کے ملازموں (elite workers) کے لیے بھی درست ہوگی‘ جن کی آمدنیوں نے انھیں اب تک خوش حالی کے دائرے میں رکھا ہے۔ یہ بھی مستقبل میں سخت دبائو محسوس کریں گے۔ (ص ۲)
اگرچہ دیوارِ برلن کے انہدام اور سوویت یونین کے خاتمے کو سرمایہ داری کی آخری فتح کے طور پر قبول کرلیا گیا ہے‘ اور بوڈاپسٹ سے بیجنگ تک ریاستی ملکیت میںکام کرنے والی صنعتیں‘ منڈی کی معیشت کی حامل کمپنیوں اور کارپوریشنوں کو بخشی جارہی ہیں‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ سرماے نے وہ قوت حاصل کرلی ہے‘ جو شاید ماضی میں اُسے کبھی حاصل نہیں ہوئی تھی۔ آزاد اور سریع الحرکت سرمایہ‘ دنیا میں جہاں زیادہ نفع دیکھتا ہے‘ آسانی سے منتقل ہوجاتا ہے۔ اب امریکا میں صورت حال یہ ہے کہ کارپوریٹ منافع تو بڑھ رہاہے‘ لیکن کارکنوں کے معاوضے میں اضافہ نہیں ہورہا۔ ۱۹۹۰ء کی دہائی میں فیملی انکم (ایک خاندان کی آمدنی) میں کمی ہوئی ہے۔ ملازموں کا تحفظ‘ پنشن اور علاج معالجے کی سہولتیں کم ہوئی ہیں‘اور متوسط طبقے کی دولت اور اثاثے بھی زوال پذیر ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس ’’آزاد معیشت‘‘ کی میکانیت کے تحت محنت کشوں اور کارکنوں (جسمانی اور ذہنی دونوں) کی آزادانہ نقل و حرکت کی بناپر دوسری اور تیسری دنیا کی افرادی قوت بڑی آسانی سے شمالی امریکا اور یورپ کے اُن علاقوں میں منتقل ہو رہی ہے‘ جہاں انھیں اپنے وطن کے مقابلے میں بہرحال کچھ زیادہ معاوضے اور سہولتیں دست یاب ہیں۔ مگر اس کے نتیجے میں امریکا کی افرادی قوت‘ خواہ وہ نیلی وردی والے مزدور ہوں یا اعلیٰ عہدوں پر مامور باصلاحیت‘ منتظم‘ سبھی اپنی ملازمتوں میں کٹوتی کا شکار ہورہے ہیں۔ (ص ۶)
اب صورت حال یہ ہے کہ مغربی دنیا کے محنت کشوں (بشمول اعلیٰ تعلیم‘ تربیت یافتہ طبقہ‘ اعلیٰ عہدوں پر فائز کارکنوں) کو محنت کی ایک کھلی منڈی میں مسابقت کا سامنا ہے۔ جاپان کے بعد چین‘ ہندستان‘ انڈونیشیا‘ ملایشیا‘ کوریا اور لاطینی امریکا سے ہنرمند محنت کشوں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ کارکنوں کی اتنی بڑی تعداد بازارِ معاش (job market)میں داخل ہو رہی ہے کہ امریکا اور کینیڈا‘ بلکہ مغربی یورپ کے سبھی ملکوں میں طبقۂ وسطیٰ اور خوش حال کارکنوں کو اپنے مستقبل کے بارے میں کھلے خطرات کا سامنا ہے۔ ’’ہم اب ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں‘ جہاں سرمائے کے مقابلے میں محنت کی بہتات ہے‘‘ (ص ۷۶)۔ چوں کہ اس کے نتیجے میں اُجرتیں تو منجمد ہوتی جارہی ہیں‘ اور سرمائے کا نفع بڑھتا جا رہا ہے‘ چوں کہ عوامل پیداوار میں اب طلب و رسد کے قانون کے تحت مزدور ارزاں ہے‘ اس لیے اس کا استحصال کیا جا سکتا ہے‘اُسے اپنی شرائط پر کام کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔
مصنفین دعویٰ کرتے ہیں کہ سرمایہ داری کے حالیہ فروغ کے بعد اب مغربی سرمائے کے لیے ضروری نہیں رہا کہ وہ نسلی یورپین (مغربی) آبادی کو اپنے ہمراہ لے کرچلے۔ مشرقی ایشیا میں ایسے باصلاحیت‘ منتظم اور ماہرین نسبتاً سستے داموں پر دستیاب ہوگئے ہیں۔ سرکاری خرچ پر نسبتاً سستی تعلیم‘ سخت محنت‘ غیرملکی پیشہ ورانہ تربیت اور آگے بڑھنے کے مجنونانہ جوش سے آراستہ یہ ’اعلیٰ طبقہ‘ (elite class) اب اپنی اچھی کارکردگی کے ساتھ مغربی سرمائے کو مہیا ہوگیا ہے: اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سرمائے اور محنت کے درمیان جو بقاے باہمی (symbiotic) رشتہ قائم ہوا تھا‘ ختم ہوچکا ہے۔ مغرب کے محنت کش کے لیے یہ بُری خبر ہے۔
چوں کہ بڑے صنعتی اور کاروباری ادارے بھی اپنی لاگت/منافع کے تناسب کو ہمیشہ اپنے فائدے میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں‘اس لیے یہاں بھی اس پالیسی کا بوجھ عموماً نچلے درجے کے کارکنوں ہی کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ پیداوار کے جدید طریقوں کی بنا پر چھانٹیوں (’down sizing ‘ اور ’right sizing ‘)کا شکار عموماً نچلے محنت کش ہی ہوتے ہیں‘ اور ’فربہ‘ منتظمین اعلیٰ (CEO's) کی صحت اس سے متاثر نہیں ہوتی۔ (ص ۸۱)
’’[امریکا] تاریخ کے ایک ایسے دور میں جھونکا جاچکا ہے جہاں مالیات ہی سب پر حاکم ہے۔ میوچل فنڈز اور اسٹاک ایکسچینج ریسرچ کی تجربہ گاہ اور فیکٹری کی جگہ مرکزی اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔ کاروبار کی تعلیم کے بڑے مرکزی اسکولوں سے فارغ ہونے والے اب حقیقی معیشت کے بجاے انوسٹمنٹ بینکنگ کا رخ کر رہے ہیں…‘‘ مگر ان کا انجام بھی وہی ہوگا‘ جو اٹھارھویں صدی کے ڈچ اور انیسویں /بیسویں صدی کے برطانوی سرمایہ کاروں کے نتیجے میں ان کی معیشت کا ہوا۔ ’’وال اسٹریٹ کی حیرت انگیز فراست کی خطا بھی جلد سامنے آجائے گی‘‘۔(ص ۱۴۲)
ہارورڈ یونی ورسٹی کے جوزف شوم پیٹر (Joseph A. Schumpeter) اگرچہ دائیں بازو کی سیاست کے دانش ور ماہر معاشیات ہیں‘ لیکن عالمی سرمایہ داری کے اِن رجحانات میں انھیں بھی تباہی کے آثار نظر آتے ہیں: ’’نظامِ سرمایہ داری‘ ایک عقلی ذہنی افتاد کو تشکیل دیتا ہے‘ جو دوسرے بہت سے اداروں کی اخلاقی بالادستی کو تباہ کردینے کے بعد آخرکار خود اپنی بالادستی کے بھی درپے ہوجاتی ہے‘‘ (ص ۲۲۱)۔ نیویارک ٹائمز کے ٹامس فرائیڈمین کے مطابق جو لوگ ایک ایسی یک رُخی دنیا کی تعمیر میں لگے ہوئے ہیں‘ جہاں کاروبار اور اعداد و شمار کی مالیات ہی سب کچھ ہے‘ انھیں اس عالم گیریت کے خلاف ایک شدید ردعمل کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ (ص ۲۲۱)
اس تباہی سے بچنے کے لیے کتاب کے مصنفین‘ کاروبار اور صنعت کے شعبوں میں ریاست کی زیادہ مداخلت کی تلقین کرتے ہیں۔ کارکنوں کی پیشہ ورانہ رہنمائی اور ایک پیشے سے دوسرے پیشے میں آسان منتقلی‘ اور اس سلسلے میں حکومتی امداد‘ عالمی سرمایہ داری کے منفی اثرات سے کارکنوں کی حفاظت کے لیے ریاست کے زیادہ فعال کردار‘ نیز محنت کشوں اور دوسرے کارکنوں کی صحت‘ بے روزگاری اور پنشن سے متعلق بہتر اور زیادہ مؤثر اقدامات کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ (ص ۲۱۸-۲۱۹)
یہ کتاب‘ نظامِ سرمایہ داری کو خود اپنے ستم اور اس سے جنم لینے والی بربادی سے بچانے کی ایک مخلصانہ کوشش محسوس ہوتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سرمایہ داری (جس کے ساتھ استحصال کا نظام لازم و ملزوم ہے) کو بچا لینا کسی طرح بھی مقصود اور خوش آیند قرار دیا جا سکتا ہے؟ کیا شمالی امریکا اور مغربی یورپ کے محنت کشوں کی فلاح و بہبود کو آدرش قرار دیا جا سکتا ہے؟ اب اگر ہم عالمی معیشت کا جائزہ لیں‘ تو نظر آتا ہے کہ عالم گیریت کے نتیجے میں اگرچہ تیسری دنیا کے بعض گوشوں اور طبقات (نیز افراد) میں معاشی خوش حالی نظر آتی ہے‘ لیکن وسیع تر تناظر میں واضح طور پر نظر آتا ہے کہ خطِ غربت کے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کا تناسب بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کی ایک مثال ہندستان ہے‘ جہاں کمپیوٹر اور اطلاعی فنیات میں پیش رفت سے اگرچہ ایک گونہ خوش حالی آئی ہے‘ لیکن بہار اور بنگال کے علاقوں میں شدید غربت کے مارے کروڑوں انسان ناقابلِ تصور ہلاکت کا شکار ہیں۔ کچھ اس طرح کی صورت حال انڈونیشیا‘ ملایشیا‘ فلپائن اور مشرقی یورپ کے بعض خطوں کی ہے۔ افریقہ (خصوصاً وسطی افریقہ) قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود لوٹ کھسوٹ‘ بدانتظامی‘ بھوک اور بیماری (خصوصاً ایڈز) کا اس بری طرح شکار ہے کہ وہاں آبادی کم ہوتی جارہی ہے۔ شاید عالمی سطح پر معیشت اور مالیات کو کنٹرول کرنے والوں نے یہ منصوبہ بندی کرلی ہے کہ ایک بہتر دنیا کی تشکیل یوں ہی ممکن ہے۔
عیسائی روایات کے مطابق یہودا‘ حضرت عیسٰی علیہ السلام کا وہ منافق حواری تھا‘ جس نے اپنے تھوڑے فائدے (۳۰ درہم) کے لیے آں جناب سے غداری کی۔ آخری عشائیے میں جب وہ ایک باغ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ روپوش تھے‘ اس نے آپ کی پیشانی کو بوسہ دے کر رومی سپاہیوں کو آپ کا پتا دیا اور یوں گرفتار کرایا۔ (The Judas Economy: The Triumph of Capital and the Betrayal of Work ، [یہودا کی معیشت: سرمائے کی فتح اور محنت کے ساتھ دغا]‘ ولیم وُلمان (William Wolman) اور این کولاموسکا (Anne Colamosca)‘ ایڈیسن ویزلی پبلشنگ کمپنی‘ ریڈنگ‘ میساچوسٹس‘ ۱۹۹۷ئ‘ صفحات: ۲۴۰)
مغرب (مغربی یورپ اور امریکہ) کے معاشروں کو اکیسویں صدی میں جن مسائل کا سامنا کرنا پڑا‘ ان میں سے ایک روایتی ازدواجی رشتوں کی شکست و ریخت اور نتیجتاً خاندان کی ٹوٹ پھوٹ کا مسئلہ ہے۔ ’’تغیرجنس کا معاشرہ: نسوانیت زدہ برطانیہ اور مردانگی سے محروم مرد‘‘ (The Sex Change Society - Feminized Britain and the Neutered Male)جدید دنیا کے اس رجحان کا ایک تحقیقی اور نہایت سنجیدہ مطالعہ ہے۔ مصنفہ میلینی فلپس (Melanie Phillips)نے اگرچہ اپنی اس تحقیقی کوشش کو بڑی حد تک صرف برطانوی معاشرے کے مطالعے ہی تک محدود رکھا ہے‘ لیکن یہ بات واضح ہے کہ جس رجحان کی طرف برطانوی معاشرے کی حرکت کی نشان دہی کی گئی ہے‘ وہ کسی طرح بھی صرف برطانیہ تک محدود نہیں‘ بلکہ آج کی دنیا کا قائد مغرب دنیا کے سبھی معاشروں کو اسی سمت میں کشاں کشاں لے جا رہا ہے‘ اور عموماً اس رجحان کو ’’ترقی‘‘ کی علامتوں میں سے ایک علامت کے طور پر لیا جا رہا ہے۔
آزادیِ نسواں کا تصور نیا نہیں‘ لیکن اب اس کے ساتھ جو ایک نیا تصور اُبھارا گیا ہے‘ وہ مرد کی مذمت ہے۔ جدید مغربی معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ‘ نوعِ انسانی کا ’’مذکّر‘‘ہے۔ انھیں کام اور پیشے کی پروا نہیں‘ بے روزگار‘ بے کار اور لڑکیوں اور عورتوں سے چالاکی میں فزوں‘ یہ نوجوان لڑکے اور مرد اپنے فطری رجحان‘ یعنی عصمت دری اور غارت گری میں ہر جگہ مصروف نظر آتے ہیں۔ اسکول سے نکلتے ہی وہ شراب اورمنشیات میں اور دوسرے جرائم میں مشغول اور ’’گرل فرینڈز‘‘ کو قطار اندر قطار اولاد کی نعمت سے بہرہ ور کرتے پائے جاتے ہیں۔ آج کتابوں اور مضامین کا انبار ان موضوعات (لڑکے‘ مرد اور مردانگی) سے اٹا پڑا ہے۔ ’’لونڈاپے کا رویہ (Laddish behaviour) ‘برطانوی حکومت کے لیے ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ وزیرداخلہ جیک اسٹرا (Jack Straw) فرماتے ہیں: ’’بے ہنر‘ کم تعلیم یافتہ نوجوانوں سے نمٹنا ہمارے لیے اہم ترین‘ واحد نہایت سنجیدہ مسئلہ ہے‘ جس سے ہم دوچار ہیں‘‘۔
نوجوانوں سے کہا جا رہا ہے کہ سنجیدگی اختیار کریں‘ اپنی ذمّہ داریاں محسوس کریں‘ اور اینڈی برن کے رویے سے گریز کریں‘ جس نے ۱۵ سالوں میں بے قید نکاح سے نوکم سن لڑکیوں سے نو بچے پیدا کرلیے‘ جن کی اس پر کوئی ذمّہ داری نہیں‘ کیوں کہ اس کا بوجھ تو حکومت اُٹھاتی ہے۔ اب وہ ۳۱ سال کا ہے‘ اور کہتاہے کہ ’’میں صرف بچے پیدا کرنے ہی کے کام آسکتا ہوں‘ اور کوئی کام مجھ سے ہونہیں سکتا!‘‘ اس کا خیال ہے کہ اس طرح سے وہ ایک سماجی خدمت انجام دے رہا ہے‘ کیوں کہ ’’ان مائوں‘‘ کو سرکاری فلیٹ کے حصول میں ترجیح حاصل ہو جاتی ہے۔ یہ نوجوان دوسرے کارنامے بھی انجام دیتے ہیں‘ جن میں لوٹ مار‘ نشے کی حالت میں ڈرائیونگ‘ توڑپھوڑ،’’گینگ وار‘‘ پولیس اور قانون نافذ کرنے والوں سے لڑائیاں‘ڈکیتیاں‘ اور عورتوں کو مارنا پیٹنا اور قتل جیسی وارداتیں شامل ہیں۔
اس طرح کی بہت سی کہانیاں ہر روز اخباروں میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ مرد کی تصویرکشی یوں کی جا رہی ہے کہ وہ پیدایشی طور پر عورت باز‘ سفّاک اور نامعتبر ہوتا ہے۔ یہی ان کا اصلی کردار ہے۔ اس کے مقابلے میں عورت سدا کی دکھیاری‘ صبروبرداشت کا پیکر اور مرد کی زیادتیوں کا شکار رہی ہے‘ اور ہے۔ اب خواتین مردوں کی جو تصویرکشی کر رہی ہیں بہت سے حلقے انھیں ایک فطری ردعمل قرار دیتے ہیں۔ مردوں کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ انھیں بہ نظر تحقیر دیکھا جاتا ہے: یہ معاشرے کے اُس احمق طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جسے ہر شعبے میں خواتین کے مقابلے میں شکست کا سامنا ہے۔ نہ صرف وہ خواتین کے مقابلے میں کم عقل‘ بلکہ کم تر درجے کے اخلاق کے حامل‘ کندذہن‘ اُجڈ‘ بدتمیز‘ حسِ لطیف سے عاری‘ خودغرض‘ محدود مقاصد کے پرستار‘ سماج دشمن اور حد یہ کہ جنسی طور پر بھی پس ماندہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیںاور پھر پیدایشی طور پر وہ متشدد بھی ہیں۔ گویا وہ کسی دوسری دنیا کی مخلوق ہیں‘ اور یہاں صرف انسانوں کی آبادی بڑھانے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ بھلا ہو جدید سائنس کااب ان کا یہ کردار بھی محدود ہوچلا ہے۔ نئی فنّیات نے ان کے وجود کو بے مصرف بنا دیا ہے‘ کیوں کہ نسل کو چلانے کے لیے ہمیں ’’اسپرم فارم‘‘ پر صرف چند ہی معطی درکار ہوں گے‘ جہاں انھیں تھوڑا سا پیزا‘ تھوڑی سی شراب اور ’’پلے بوائے‘‘ میگزین جیسی چند چیزوں کی ضرورت ہوگی اور بس۔ نسل کُشی کے لیے ان کروڑوں مردوں کی کیا ضرورت ہے؟
میڈیا‘غلط نہیں کہتا۔ اب لڑکیاں‘ لڑکوں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی دکھا رہی ہیں۔ (انگلستان میں) ۱۹۹۶ء میں مردوں کے مقابلے میں زیادہ خواتین طبّی تعلیم کے اداروں میں داخل ہوئیں‘ اور ۱۹۹۱ء میں قانون کے پیشے میں داخل ہونے والوں میں خواتین کی اکثریت تھی۔ سبھی تعلیمی اداروں میں لڑکیاں‘ لڑکوں کے مقابلے میں آگے ہیں‘ اب وہ کسی بھی میدان میں کیوں پیچھے رہیں؟
صاف نظرآرہا ہے کہ مرد سخت دبائو کا شکار ہیں۔ مرد محسوس کرتے ہیں کہ ان کی مردانگی خطرے میں ہے۔ مگر دبائو کا شکار تو خواتین بھی ہو رہی ہیں۔ اب ان کی ذمّہ داریاں گھر تک محدود نہیں رہیں۔ کام کرنے والی خواتین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے‘ اور ان کی ذمّہ داریاں بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔ انھیں گھر اور بچوں کو بھی دیکھنا ہوتا ہے ‘ اور اپنے کام (پیشے) کے ساتھ بھی انصاف کرنا ہوتا ہے‘ تاہم ان کی جسمانی ساخت ہی ہر ماہ انھیںیاد دلاتی ہے کہ وہ مختلف ہیں۔ پھر فطری طور پر بچے بھی انھی کو پیدا کرنے ہوتے ہیں‘ اگرچہ بہت سی خواتین اس بچے پیدا کرنے کے رول سے اب انکاری ہوتی جا رہی ہیں۔ ’ایک زمانہ تھا کہ کچھ کام مردوں کے کرنے کے ہوا کرتے تھے‘ اور کچھ عورتوں کے۔ اب عورتیں‘ مردوں کے کام کر رہی ہیں‘ مگر مرد عورتوں کے کام نہیں کر رہے‘ (ایک ۱۴ سالہ لڑکی)۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ۱۹۸۶ء سے غیرشادی شدہ تنہا مائوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ۱۹۷۶ء میں غیرشادی شدہ مائیں ۹ فی صد تھیں‘ ۱۹۹۶ء میں ۳۶ فی صد ولادتیں بلانکاح ہوئیں‘ اور اب انگلستان میں نصف حمل شادی کے بغیرہی قرار پاتے ہیں (ص ۳۶)۔ پہلے اس طرح کی مائوں کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا‘ اب اس طرح کی کوئی بات نہیں بلکہ یہ عورت کا حق ہے کہ جب چاہے اور جیسے چاہے ماں بن جائے (یا نہ بنے)۔
اکیلی مائوں (Lone mothers) کی تحقیر کی بجاے تعظیم کی جاتی ہے اور ان کی رُوح حرّیت کو بہ نظراستحسان دیکھا جاتا ہے۔ اب عورتیں یہ محسوس کرنے لگی ہیں کہ انھیں بچوں کی پرورش کے لیے مردوں کی ضرورت نہیں‘ پرورش تو بعد کا مرحلہ ہے‘ انھیں ’’بارور‘‘ہونے کے لیے بھی کسی مرد کی ضرورت نہیں۔ کیرول فاکس (Carol Fox) --- اسکاٹش پارلیمان کے لیے لیبرامیدوار --- نے خود کو دوسرے بچے کی ماں بنانے کے لیے ۱۵ ہزار پائونڈ خرچ کیے اور بارھویں کوشش کے بعد مصنوعی طور پر بارآور ہونے میں کامیاب ہوئی (اس کی پہلی بیٹی نتاشا بھی یونہی پیدا ہوئی تھی)۔بلاشوہر بچوں کی پیدایش (اگر خواہش ہو) اب شرم کی بجاے فخرکی بات ہے‘ اور مشہور خواتین اسے ایک بلند درجے کی علامت (status symbol) کے طور پر لیتی ہیں۔ بہت سی خواتین برملا کہتی ہیں کہ وہ اپنے دوستوں کو ایک ’’ذریعے‘‘ یا ’’آلۂ کار‘‘کے طور پر استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں محسوس کرتیں۔ ایک نیا رجحان یہ بھی ہے کہ مصنوعی تخم کاری سے پہلے کئی مردوں کے تخم یوں باہم آمیز کر دیے جائیں کہ پتا ہی نہ چل سکے کہ ہونے والے بچے کا باپ کون ہے!
خواتین میں آزادی کی یہ لہرکم سن لڑکیوں کو بھی اپنی آغوش میں لے چکی ہے۔ صرف انگلستان میں ہر سال (۱۹۹۹ئ) ۹۰ ہزار نوبالغ لڑکیاں (teenagers)حاملہ ہوتی ہیں‘(ان میں سے ۷ہزار ۷ سو کی عمر ۱۶ سال سے کم ہوتی ہے)‘ اور۵۶ ہزار بچے پیدا کرتی ہیں۔ ان میں سے اکثر خود بھی ’’تنہا مائوں‘‘ کی اولاد ہوتی ہیں۔ فطری طور پر وہ اپنے بچوں کی اس سماجی ماحول میں پرورش نہیں کرپاتیں (نہ انھیں اس کی تعلیم دی گئی تھی) کہ وہ متوازن ذہنی اور نفسیاتی اٹھان کے ساتھ پرورش پائیں۔ ۹ سے ۱۵ سال کی عمر کی ان مائوں کے بچے ظاہر ہے مسائل کا انبار ہوتے ہیں۔
مردوں پر انحصار سے آزادی کے نتیجے میں نہ صرف شادی کے بندھن کمزور ہوئے ہیں‘ بلکہ طلاقوں کی بھی کثرت ہوئی ہے۔ وکیلوں کے مطابق طلاق کی بڑی وجہ بُرا کردار نہیں‘ بلکہ میاں بیوی میں گفتگو اور رابطے کی کمی‘ شوہر کا توقعات پر پورا نہ اُترنا اور ایسی ہی چھوٹی موٹی اور نامعلوم وجوہ ہوتی ہیں۔ تعلیم اور ملازمتوں کے مواقع نے خواتین کی توقعات بڑھا دی ہیں‘ اور اب وہ کم پر گزارہ کرنے پر تیار نہیں۔
مابعد الطلاق کلچر میں (خصوصاً جہاں خواتین مناسب روزگار سے بہرہ ور ہوں) ’’ہم خانگی‘‘ نے بھی فروغ پایا ہے۔ ۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۵ء کے درمیان انگلستان میں غیرشادی شدہ مرد کے ساتھ ایک ہی گھر (فلیٹ) میں رہنے والی عورتوں کی تعداد ۱۱ فی صد سے بڑھ کر ۵۵ فی صد تک پہنچ گئی۔ یہ غیرشادی شدہ جوڑے میاں بیوی کے مقابلے میں خود کو زیادہ آزاد‘ زیادہ ’’محفوظ‘‘اور طلاق اور وراثت کے قانونی جھمیلوں سے دُور محسوس کرتے ہیں۔ اگرچہ ان تعلقات کا دورانیہ اوسطاً دو سال سے زیادہ نہیں ہوتا‘ لیکن اس دوران بچوں کی پیدایش سے اس تعلق کی بقا پر عموماً منفی اثرات ہی مرتب ہوتے ہیں۔ چوں کہ ہم خانگی کے اس تعلق میں دونوں فریق عموماً معاشی طور پر آزاد ہوتے ہیں‘ اور اس طرح کوئی کسی کا ’’قوام‘‘نہیں ہوتا‘ یہ تعلقات زیادہ دن نہیں چلتے۔ جہاں مرد ہی کماتے ہیں‘ وہ جلد ہی ’’نکھٹو اور بے روزگار ساتھی‘‘ سے بے زار ہوجاتے ہیں۔ اس طرح کلاسیکی عیسائیت نے ساری عمر کے لیے جس بندھن کی رِیت ڈالی تھی وہ ٹوٹ چکا ہے‘ اور اس میں نقصان عورت ہی کا ہوا ہے۔
عورت (خصوصاً ماں) تنہا اپنا اور اپنے بچوں کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتی۔ نکاح‘ صرف مردکے ساتھ اختلاط ہی نہیں۔ وہ آنے والی نسل (جس کی پیدایش صرف عورت ہی کے ذمّے ہے) کا محافظ اور ایک خاندان کا سربراہ بھی ہوتا ہے۔ لیکن ۱۹۷۲ء میں امریکی مفکرۂ سماجیات جیسی برنارڈ (Jessie Bernard) نے کہا تھا کہ ’’شادی‘ عورت کے لیے نقصان دہ‘ خطرناک ہوسکتی ہے‘‘۔ حقوقِ نسواں کی علم بردار تنظیموں نے اس کو خوب اُچھالا‘ مگر حقیقت اس کے خلاف ہے۔ شادی شدہ خواتین میں بیماریوں اور ناوقت اموات کا تناسب کم ہے۔ ذہنی‘ جسمانی اور سماجی طور پر وہ زیادہ متوازن اور خوش و خرم رہتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے بیشتر معاشروں میں مردوں اور عورتوں کے درمیان یہ فطری تقسیمِ کار ایک زمانے سے موجود اور اب بھی قائم ہے کہ مرد کو بنیادی طور پر معاشی بوجھ اُٹھانے والا‘ اور عورت کو بنیادی طور پر گھر کی دیکھ بھال اور بچوں کی پرورش کا رول دیا گیا ہے۔ یہ ان کی ذہنی‘ جسمانی اورنفسیاتی ساخت کے عین مطابق ہے۔ بدقسمتی سے غیر فطری طور پر خواتین کی آزادی کے نام پرتقسیمِ کار کے اس توازن کو بگاڑ دیا گیا ہے۔ عورتوں کو کام کرنے اور روزی کمانے پر راغب کیا جا رہا ہے کہ وہ معاشرے کی ’’مفید‘‘ اور ’’کارآمد‘‘شہری بن سکیں‘ تاہم انگلستان اور بعض دوسرے مغربی ملکوں میں بچوں کو پالنے اور اُن کا خرچ اُٹھانے کی بیشتر ذمہ داری باپ کی بجاے ریاست نے سنبھال لی ہے۔ کیوں کہ بے شوہر کی ایسی بیشتر مائیں کم یافت کے پیشوں سے منسلک ہیں‘ اور وہ بچوں والے گھر کا پورا بوجھ نہیں اُٹھا سکتیں۔ بے باپ کی ان کی یہ اولاد بھی شفقت و تربیت ِ پدری سے محروم اُٹھتی ہے‘ اور ایک ’’بے راہ رَو‘‘ اور خاطی نسل ہی کو جنم دیتی ہے۔کیوں کہ معاشی طور پر مصروف ماں کے پاس باپ کے خلا کو پُرکرنے کا وقت نہیں ہوتا‘ اور نہ وہ ایسے وسیع تر خاندان کی باسی ہوتی ہے‘ جہاں دوسرے لوگ اولاد کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داریاں لے لیں۔ اس طرح ریاست بھی اس نئے رجحان کے فروغ میں اپنا کردار اداکر رہی ہے۔
تحریکِ نسواں کے کئی رنگ ہیں۔ جیسا کہ شروع میں کہا جا چکا ہے‘ مردوں کو خلقی طور پر غیرذمّہ دار‘ بدخو‘ تُندمزاج اور غبی دکھایا گیا۔ ایک دوسرے رنگ میں ان کی تصویرکشی یوں کی گئی کہ وہ عیاری سے عورتوں کا استحصال کرنے والے‘ انھیں غلام (لونڈی؟) بنانے والے اور کسی بھی اخلاقی معیار سے عاری ایک مخلوق ہیں۔ مظلوم عورتوں کو خاندان کے ’’بیگار کیمپ‘‘ سے چھٹکارا پالینا چاہیے‘ اور اپنی خواہش اور ضرورت پر ہی ان سے مرضی کے مطابق تعلق قائم کرنا چاہیے۔ پہلے ’’مساوی حقوق‘‘ اور صنفی برابری کی بات ہوئی اور پھر ’’نسائی برتری‘‘ کا فلسفہ پیش کیا گیا‘ اور تحریک نے اب ایک جارحانہ روش اختیار کرلی ہے‘ جس میں مردوں کا مقام شہد کی مکھیوں کے نکھٹّو نر(drones) سے زیادہ نہیں ہے۔ ایک ’’معتدل‘‘رجحان یہ بھی تھا کہ صنفی رول کا اختلاف فطرت کا پیدا کردہ نہیں‘بلکہ مصنوعی اور معاشرے کا پیدا کردہ ہے۔ ’’نہ ہر زن است و نہ ہر مرد‘ مرد‘‘ (ہر عورت‘ عورت نہیں‘ اور نہ ہر مرد‘ مرد ہوتا ہے)۔ جسمانی اور خلقی فرق بہت معمولی سا ہے‘ جسے بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ بچوں اور بچیوں کو شروع سے امتیازی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے‘ جو درست نہیں۔ باروری کو مانع حمل طریقوں سے روکا جا سکتا ہے‘ اور ضرورت ہو تو مصنوعی طریقوں سے اولاد بھی پیدا کی جا سکتی ہے۔
امریکہ کے ماہرین عضویات اور ماہرین نفسیات اب انسانوں کی ایسی نوع کی بات کرنے لگے ہیں‘ جو صنفی امتیازات سے بلند ہو‘ یا جس میں دونوں اصناف کی خصوصیات موجود ہوں! اس طرح باپ اور ماں کا جھگڑا ہی ختم ہوجائے۔ اولگا سلورسٹین (Olga Silverstein) ’’صنفی اختلاف کے خاتمے‘‘ کی بات کرتی ہیں‘ اور سوسان مولر اوکن (Susan Moller Okin) ایک ایسے ’’عادلانہ مستقبل‘‘ کی نوید دیتی ہیں‘ جو ’’صنف ]کی آلایش[ سے پاک ہوگا‘‘۔ یہ تجویز بھی سامنے آئی ہے کہ مردوں کا کچھ اس طرح علاج کیا جائے کہ ان میں عورتوں کی خصوصیات پیدا ہوجائیں۔ اس طرح مردوں نے نسوانیت کے جس جال میں طبقۂ اناث کو پھانس رکھا ہے‘ اس سے آزادی‘ ایک مثالی معاشرے کے لیے ناگزیر ہے۔ (ص ۱۷۴-۱۷۵)
یہ تو تھی نسائی تحریکوں کی بات۔ مغرب میں خود ریاست اور سرکاری مشینری بھی ’’ماضی کی غلطیوں‘‘ کی اصلاح کرنے میں پیچھے نہیں۔ ۱۹۹۹ء میں برطانیہ کے وزیرخزانہ گورڈن برائون (G.Brown) نے بجٹ پیش کرتے ہوئے نوید سنائی کہ یہ ’’خواتین کے لیے بجٹ ہے‘‘۔ ساری تنہا مائیں کام کرنا چاہتی ہیں‘ اور ریاست بھی انھیں مفید کام پر لگانا چاہتی ہے۔ بے شادی والی مائیں‘ سرکاری امداد وصول کرنے والا سب سے بڑا گروہ بن چکی ہیں‘ اس لیے انھیں روزی کمانے پر آمادہ کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ اب صورت یہ ہے کہ جاب مارکیٹ میں آسامیاں تو محدود ہیں‘ اور امیدوار زیادہ۔ حکومتی پالیسی یہ ہے کہ تنہا مائوں کو شادی شدہ پر‘ اور کام کرنے والی مائوں کو خواتین خانہ پر ترجیح دی جائے۔ یہ بھی ایک طرح کی سماجی انجینیرنگ ہے۔ اگرچہ ’’قدامت پسند‘‘ اور ’’جدید لیبر‘‘ دونوں گروہ‘ شادی خانہ آبادی کی اہمیت پر وعظ کہتے رہتے ہیں‘ لیکن عملاً صورتِ حال یہ ہے کہ بقول فائننشل ٹائمز (Financial Times) حکومت کی پالیسی کے مطابق بچے کے سارے فوائد ماں ہی کے حصے میں جاتے ہیں‘ اور آج کی مائیں مردوں سے آزاد اور کل وقتی ماں کے تصور سے دُور ہٹتی جا رہی ہیں۔
مصنفہ کہتی ہیں کہ کوئی مہذب معاشرہ یہ توقع نہیں رکھے گا کہ عورت روزی کمانے اور گھر کی دیکھ بھال اور بچوں کی پرورش کی دُہری ذمہ داریوں کا بوجھ اُٹھائے۔ لاکھوں نوجوان خواتین کو روزی کمانے کے لیے بازار میں بھیج کر نہ صرف مسابقت میں اضافہ کر دیا گیا ہے ‘ بلکہ اس طرح تنخواہ/مزدوری کی شرح میں بھی کمی ہوئی ہے (سرمایہ داری میں طلب و رسد کا قانون)۔ نوجوان مردوں کی کم یافت‘ انھیں شادی کو ملتوی کرنے (یا اس سے دست بردار ہونے) پر مجبور کر دیتی ہے‘ اس سے پھر ’’بلانکاح ازدواج‘‘ اور ’’ہم خانگی‘‘، ’’یک زوجی‘‘ یا ’’تنہا مادری‘‘ کے مسائل جنم لیتے ہیں‘ اور پھر وہی سماجی اور اقتصادی مسائل پیدا ہوجاتے ہیں‘ جنھیں حل کرنے یا کم کرنے کے لیے یہ تدبیریں کی گئی تھیں۔ برطانیہ میں’’شعوری طور پر‘ تدریجاً‘ پدریّت کو تباہ کیا جارہا ہے‘‘۔اور اس کے نتیجے میں مردوں اور لڑکوں میں مایوسی‘ غیرذمّہ دارانہ رویے اور تشدد کے رجحانات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لڑکے‘ اب اسکول میں پس ماندہ ہوتے جا رہے ہیں۔ مردوں کے گروہ اور تنظیمیں وجود میں آرہی ہیں‘ جنھیں حکومت اور معاشرے سے بڑی شکایتیں ہیں۔ مردوں نے اپنی نئی نسل میں دل چسپی لیناکم کر دی ہے۔ نئی فنیّات نے خواتین کو بڑی حد تک مردوں سے مستغنی کر دیا ہے۔
’’عورتوں کی آزادی اور مردوں کی غیرذمّہ داری‘‘ ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں۔ خاندان کی شکست و ریخت‘ معاشرے کی شکست و ریخت کا پیش خیمہ ہے‘ اگرچہ اس کا اعتراف نہیں کیا جا رہا۔ خواتین کی حقیقی شکایات اور ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے تدارک نے اب نوبت یہاں تک پہنچا دی ہے کہ ریاست اور ابلاغ کے سارے ذرائع مردوں کو دوسرے‘ بلکہ تیسرے درجے کی صنف سے بڑھ کر کوئی درجہ دینے کے لیے رضامند نظر نہیں آتے۔ حقیقت یہ ہے کہ مرد اور عورت کا تعلق بہت پیچیدہ اور نازک ہے۔ انسانی معاشرے نے ہزاروں سال کے تجربے کے بعد ایک خاندانی نظام وضع کیا ہے‘ جس میں باپ کا ایک کردار ہے‘ اور ایک کردار ماں کا۔ مرد اور عورت صنفی طور پر مختلف ہیں۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے۔ دونوں کے حقوق مساوی ہیں‘ مگر یکساں نہیں۔ان کے درمیان تقسیمِ کار عین تقاضاے فطرت ہے۔ سبھی سماجوں میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ کچھ بوجھ وہ ہیں‘ جو عورتیں نہیں اُٹھا سکتیں اور کچھ وہ ہیں‘ جن کے لیے مرد بنائے ہی نہیں گئے اور صرف عورتیں ہی انھیں اٹھا سکتی ہیں۔ مردو زن کی کلّی مساوات کا تصور بھی اسی قدر احمقانہ ہے‘ جس قدر عورت کی برتری کا۔
بدقسمتی سے ’’بے خدا‘‘ معاشروں میں توازن کم ہی نظرآتا ہے۔ کہیں تو یہ کہا جا رہا تھا کہ ’اے عورت‘ تیرا ہی نام کمزوری ہے (شیکسپیئر)‘ اور ’وہ آدمی کتنا بے وقوف ہوتا ہے‘ جو ایک عیار عورت کا شکار ہو کر بیوی کا بوجھ اٹھا لیتا ہے‘ (شوپنہائر)۔ کہیں اُسے محض خادمہ اور لونڈی سے بڑھ کر کوئی درجہ نہیں دیاجاتا‘ اور حیوانوں کی طرح اس کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ اور پھر جب پنڈولم دوسری سمت میں حرکت کرتا ہے‘ تو نئی آزاد عورت وجود میں آتی ہے‘ جو قیدِنکاح ہی نہیں‘ خود کو ہرقیدسے آزاد تصور کرتی ہے--- شاید اُسے معلوم نہیں کہ اس کی یہ آزادی بھی ایک عیار اور سفاک مرد کا دامِ تزویر ہے! (Melanie Phillips: The Sex-Change Society - Feminised Britain and the Neutered Man; The Social Market Foundation, London, 1990.)
سوشل مارکیٹ فائونڈیشن‘ برطانیہ کا ایک خودمختار ادارہ ہے‘ جو معاشیات اور دوسرے سماجی مسائل پر تحقیق کے لیے اہل فکر کو دعوت دیتا ہے‘ اور ان کی نگارشات کی اشاعت کا انتظام کرتا ہے۔ میلینی فلپس ایک سماجی محقق‘ شادی شدہ اور دو بچوں کی ماں‘ ایک برطانوی شہری ہیں۔
۱۳ فروری ۱۹۹۷ء کو جب میں عالمی بنک (ورلڈ بنک) کے چیف اکانومسٹ اور سینئروائس پریذنڈنٹ کی حیثیت میں واشنگٹن میں اپنے دفترکی عظیم الشان جدید عمارت میں داخل ہوا‘ تو پہلی چیز جس پر میری توجہ مرکوز ہوئی وہ اس ادارے کا رہنما اصول تھا: ’’ہمارا خواب ہے ایک ایسی دنیا جس میں غربت نہ ہو‘‘ … سڑک کی دوسری جانب سرکاری ثروت کا ایک دوسرا تاب ناک شاہ کار سربلند تھا۔ یہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (انٹرنیشنل مانٹیری فنڈ:IMF ) کی عمارت تھی۔ سنگ مرمر اور پھولوں سے سجی ہوئی۔ اس کی اندرونی ساخت کو دیکھ کر غیرملکی وزراے خزانہ اس بات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ آئی ایم ایف دولت و حشمت اور قوت کے مراکز کی نمایندگی کرتا ہے۔ (جوزف اسٹیگ لٹز‘ Globalization and its Discontents)
۱۹۹۹ء میں سیاٹل (seattle) میں جب ورلڈ ٹریڈآرگنائزیشن (WTO) کے اجلاس کے موقع پر بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہوئے اور ہزاروں امریکی سڑکوں پر نکل آئے تو انھوں نے ساری دنیا کو چونکا دیا تھا۔ عالم گیریت٭ کی لہرکے نتیجے میں پس ماندہ اور نام نہاد ’’ترقی پذیر‘‘ ملکوں میں غلط قسم کی ’’کفایت شعاری‘‘ اور نج کاری کے پروگراموں پر عوام کے احتجاج اور مظاہرے کوئی نئی بات تو نہ تھے‘ لیکن امریکہ جیسے ’’ترقی یافتہ‘‘ اور خوش حال ملک میں عوام کو کیا پڑی تھی کہ وہ عالم گیریت کی اس علامت‘ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے تھے؟ عالم گیریت اور معاشی غلبے کی اس ظالمانہ حکمت ِ عملی کو‘ جس میں کمزور اور طاقت ور کو ایک ہی اکھاڑے میں اُتار دیا گیا ہے‘ ہزار معصومیت کے پردوں میں ملفوف کیا جائے مگر پچھلی (بیسویں) صدی کے اواخر ہی میں محسوس ہونے لگا تھا کہ دنیا کے اربوں عوام کے خلاف دنیا کے قارون اور ہامان ایسی سازشیں کر رہے ہیں جن کے خلاف مؤثر احتجاج نہ کیا گیا تو عام انسان پھر کبھی سر نہ اُٹھا سکے گا۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(IMF)‘ عالمی بنک(World Bank) اور عالمی تجارتی ادارے (WTO) کے خلاف اب ساری دنیا میں چیخ وپکار کا وہ سلسلہ شروع ہوا ہے‘ کہ ان اداروں کا جہاں بھی کوئی بڑا اجلاس ہوتا ہے‘ باشعور اور حسّاس شہری احتجاجاً سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ مگر مزے کی بات یہ ہے کہ احتجاجوں کے یہ سلسلے بڑی حد تک ’’ترقی یافتہ‘‘ اور امیرملکوں کے شہریوں ہی نے شروع کیے ہیں‘ اور پس ماندہ ملک اور ان کے شہری‘ جو ان کی پالیسیوں سے سب سے زیادہ متاثر اور ان کے غمزوں کے زیادہ گھائل ہیں اب تک خواب سے بیدار ہوتے نہیں محسوس ہوتے۔ اس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہو کہ آلامِ روزگار میں انھیں اس طرح اسیر کر دیا گیا ہے کہ انھیں ہوش ہی نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے!
یہ عالم گیریت‘ بنیادی طور پر ساری دنیا کے ملکوں اور عوام کے درمیان تجارت‘ اور مفادات (بڑی حد تک معاشی مفادات) کے انضمام اور پیوستگی (integration)کا نام ہے‘ جو رسل و رسائل اور ابلاغ کے ذرائع میں عظیم الشان انقلاب کے نتیجے میں واقع ہوئی ہے۔ کہا گیا ہے کہ آمدورفت‘ رسل و رسائل‘ ابلاغ و اطلاع کی سُرعت اور سہولت کے نتیجے میں ساری دنیا کے ملک اور ان کے شہریوں کے درمیان نہ صرف فاصلے کم ہوئے ہیں‘ بلکہ بہت سی رکاوٹیں بھی دُور ہوئی ہیں‘ اور قدغنیں ڈھیلی پڑتی جا رہی ہیں۔ ان سہولتوں سے اشیا‘ خدمات‘ سرمائے اور اطلاع و آگاہی (علم؟) کے آزادانہ ‘ بے روک ٹوک بہائو میں تیزی اور آسانی پیدا ہو گئی ہے۔ دنیا ایک ’’عالمی قصبے‘‘ (global village) میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ ملکوں کے درمیان سیاسی لکیریں دُھندلی پڑتی جا رہی ہیں ‘ اور ساری دنیا کے لوگ ایک دوسرے سے جڑتے جا رہے ہیں۔
کیا یہ سب کچھ خوش آیند نہیں؟ کون اپنے بچے کو مرتا دیکھنا چاہتا ہے‘ جب کہ اس کے مرض کو رفع کرنے کی تدبیر اور دوا دنیا میں کہیں نہ کہیں موجود ہو۔ بہتر معاشی مواقع‘ آزاد منڈی‘ اشیا اور خدمات کی آزادانہ خریدوفروخت میں ناروا پابندیوں کے ختم ہونے سے کسے خوشی نہ ہوگی؟ بہت سے دانش وروں (اور بے شعور عوام) کا کہنا ہے کہ رسل و رسائل کے جدید ذرائع اور اُن سے بڑھ کر علم و آگاہی کے نئے وسائل نے جس طرح فاصلوں کو بے معنی بنا دیا ہے‘ اور دنیا کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے‘ اس کے زیراثر عالم گیریت نہ صرف ناگزیر ہے‘ بلکہ مستحسن بھی ہے‘ جب کہ بہت سے سوچنے سمجھنے والے ذہن اس کے فوری اور دُور رس نتائج سے مطمئن نہیں۔ جوزف اسٹیگ لٹز(Joseph Stiglitz)کی تازہ ترین تصنیف ’’عالم گیریت اور اس کے اضطراب‘‘ (Globalization and its Discontents)اس نئے رجحان پر روشنی ڈالنے کی ایک وقیع کوشش ہے‘ اگرچہ بعض دفعہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس رجحان سے نہیں‘ بلکہ اس کے کارپردازوں سے غیرمطمئن ہیں۔
جوزف اسٹیگ لٹزبنیادی طور پر ’’ریاضیاتی معاشیات‘‘ کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں‘ تاہم عالمی اطلاقی معاشیات پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔ ۱۹۸۰ء میں وہ چین کے حکمرانوں کو ضابطی معیشت (command economy)سے ’’آزادمعیشت‘‘کی سمت سفر کے سلسلے میں مشورے دے رہے تھے۔ گویا تعلق ان کا بھی اسی معاشی فلسفے سے ہے‘ جس کے برگ و بار میں یہ جدید معاشی رجحان بھی شامل ہے۔ ۱۹۹۳ء میں وہ امریکی صدر کلنٹن کے مشیرانِ معاشیات کی کونسل میں شامل ہوئے‘ جس کے وہ صدرنشین بھی رہے‘ اور وہاں سے وہ ۱۹۹۷ء میں عالمی بنک کے چیف اکانومسٹ اور سینیروائس پریذیڈنٹ کے عہدے پر پہنچے۔ ۲۰۰۱ء میں انھیں معاشیات میں نوبل انعام دیا گیا۔ انھوں نے کئی امریکی اداروں بشمول جامعہ کولمبیا میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیے ہیں۔
جیساکہ اُوپر کہا جا چکا ہے ‘ اسٹیگ لٹزفی نفسہٖ عالم گیریت کے خلاف نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عالم گیریت تو آزادانہ تجارت کی راہ میں رکاوٹوں کو دُور کرنے اور قومی معیشتوں کے درمیان باہم ارتباط کا نام ہے۔ یہ تمام قوموں‘ بشمول غریب اور پس ماندہ ملکوں کی بھلائی اور خوش حالی میں ممدومعاون ہوسکتی ہے۔ لیکن عالم گیریت کو جس رُخ پر ڈالا جا رہا ہے‘ بین الاقوامی تجارت پر سے جس انداز میں پابندیاں ختم کی جا رہی ہیں‘ خصوصاً غریب ملکوں پر جو پالیسیاں تھوپی جا رہی ہیں‘ ان پر ازسرنو غور کی ضرورت ہے۔ آزاد معیشت میں بنیادی طور پر اطلاع اور آگاہی کے حق کو تسلیم کیا جاتا ہے مگر ان کا مشاہدہ ہے کہ آزاد معیشت کے علم بردار ملکوں اور وہاں کام کرنے والے تجارتی اداروں کے ہاں اطلاع کی راہیںیک طرفہ ہیں۔ کارکن اور آجر‘ قرض دار اور قرض خواہ‘ انشورنس کمپنی اور انشورنس خریدنے والے کے درمیان آگاہی کا رشتہ دوطرفہ نہیں۔اسی طرح آئی ایم ایف کی پالیسیاں بھی اس فرسودہ نظریے پر استوار ہیں کہ منڈی کی معیشت میں خود درستی کا ایک نظام موجود ہے‘ اور سرکاری دخل اندازی (حکومتوں کے کردار) کے ہٹائے بغیر ملکوں میں معیشت کی اصلاحِ احوال ممکن نہیں۔
عالم گیریت کے حامی ہمیں بتاتے ہیں کہ آزادانہ بین الاقوامی تجارت کے زیراثر ترقی پذیر ملکوں کی برآمدات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے ایشیا اور افریقہ کے بہت سے ملکوں میں برآمدی مصنوعات کی تیاری کے لیے صنعتیں وجود میں آئی ہیں‘ کارخانے لگے ہیں‘ لوگوں کو روزگار فراہم ہوئے ہیں‘ اطلاعات کی فراہمی‘ تعلیم و تربیت کے مواقع‘ بہترصحت ‘ بڑے منصوبوں کے لیے قرض اور امداد سے ترقی کی راہیں کھلی ہیں‘ پس ماندہ ممالک اور عوام نئی حرفتوں اور صنعتوں سے آشنا ہوئے ہیں‘ اور لوگوں کی آمدنیوں اور معیارِ زندگی میں اضافہ ہوا ہے۔ عالم گیریت--- جو اس سرمایہ دارانہ نظام کا عطیہ ہے‘ جس کا سرخیل امریکہ ہے--- اب ترقی کا ہم معنی لفظ بن گئی ہے۔ اس کے بغیر کوئی ملک آگے بڑھنے‘ ترقی کرنے‘ پھلنے پھولنے اور اپنے شہریوں کو بہتر زندگی سے آشنا کرنے کا تصور نہیں کر سکتا۔
ان معصوم آرزوئوں اور جائز خواہشات کا ڈول جولائی ۱۹۴۴ء میں ڈالا گیا۔ یورپ میں دوسری جنگ عظیم کا اختتام قریب نظر آرہا تھا۔ یورپ زخموں سے چور تھا‘ جس کی بحالی ضروری تھی‘اور پھر ایشیا اور افریقہ میں آزادی کی لہریں تُند ہوتی نظر آتی تھیں۔ مستقبل میں نوآبادیات کے پرانے نظام کو باقی رکھنا غیردانش مندانہ محسوس ہوتا تھا (یہ رائے صاحب ِکتاب کی نہیں ہے)۔ اب اتحادی طاقتوں کے پالیسی سازیورپ کی ’’تعمیرنو‘‘ کی منصوبہ بندی کے لیے برٹین وڈس (Bretton Woods) میں جمع ہوئے۔ اس کانفرنس میں اُس ’’بین الاقوامی بنک براے تعمیروترقی‘‘(The International Bank for Reconstruction and Development) کی بنیاد پڑی جسے اب عام طور پر ’’عالمی بنک‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ’’بین الاقوامی مالیاتی فنڈ‘‘یا آئی ایم ایف کا ڈول بھی وہیں ڈالا گیا اور اس کے ذمے یہ فریضہ تفویض ہوا کہ عالمی معاشی توازن پر نظر رکھے اور اُسے بگڑنے نہ دے۔ پچھلی صدی میں ۳۰ کے عشرے میں امریکہ سے جو عالمی کساد بازاری شروع ہوئی تھی‘ اس طرح کے معاشی جذر اور نشیب پیدا نہ ہونے پائیں۔ فلسفہ یہ تھا کہ بعض اوقات بعض ملکوں میں معاشی سرگرمیاں درست انداز میں نہیں ہوتیں۔ منڈیاں صحیح طریقے سے کام نہیں کرتیں۔ مجموعی طلب میں اگر دنیا کے ایک گوشے میں بھی کمی آنے لگے‘ تو اس کے اثرات دوسرے ملکوں پر بھی پڑتے ہیں۔ وہاں بھی پیداوار کو گھٹانا ناگزیر ہو جاتا ہے‘ اور پیداوار میں کمی کرنے کے لیے لوگوں کو بے روزگار کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ صنعتی اور پیداآوری سرگرمیوں میں پستی کے رجحان سے پھر معاشی بدحالی جنم لیتی ہے‘ اور یوں ایک طرح کا زنجیری ردّعمل شروع ہو جاتا ہے۔ کہا یہ گیا کہ ایک ایسے عالمی بنک کی ضرورت ہے جو معاشی دبائو کے شکار ملکوں کو مطلوبہ سرمایہ مہیا کرسکے‘ یعنی ان کی مالی مدد کرسکے (ایک مہاجن ہو‘ جو سود پر قرض دے سکے!)۔ رسماً توعالمی بنک ایک پبلک ادارہ ہے ‘ جس کا سرمایہ دنیا کے بہت سے ملکوں کے سرمایہ داروں نے مہیا کیا ہے ‘ اور گویا یہ ایک طرح کی ’’مالیاتی اقوامِ متحدہ‘‘ ہے۔ مگر اس میں موثر قوت اور کنٹرول صرف ’’بڑے ترقی یافتہ‘‘ ملکوں ہی کے ہاتھ میں ہے ‘اور عملاً صرف ایک ملک --- امریکہ-- موثر ویٹو کا اختیار رکھتا ہے۔
مصنف کے مطابق اگرچہ اپنی تشکیل کے وقت اس ادارے کا مقصد یہی تھا کہ خراب اقتصادی کارکردگی والے ملکوں پر دبائوڈالے کہ وہ اپنی معاشی پالیسیوں کی اصلاح کریں‘ پیداوار بڑھانے کی طرف توجہ دیں‘ ٹیکسوں میں کمی کریں‘ شرحِ سود گھٹائیں‘ عوامی خدمات پر خرچ کریں اور سرکاری اخراجات میں اضافہ کریں‘ اور یوں معاشی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے کوشش کریں‘ لیکن آج عملاً صورتِ حال یہ ہے کہ آئی ایم ایف صرف اُسی وقت کسی ملک کو فنڈ جاری کرتا ہے جب وہ ملک اس کی شرائط پر اور اس کی پالیسیوں کے مطابق کام کرنے پر آمادہ ہو‘ اپنے میزانیے کے خسارے میں کمی کے لیے سرکاری اخراجات میںکمی کے لیے راضی ہو جائے‘ یعنی تعلیم‘ صحتِ عامہ اور عوامی مفاد کی ذمّہ داریوں سے دست کش ہونے پر تیار ہو جائے‘ ٹیکسوں کو بڑھانے اور شرحِ سود میں اضافے کو قبول کرے اور یوں مفادِ عامہ کی معیشت کے بجائے ساہوکاری معیشت اپنانے پر تیار ہو جائے۔
مصنف کو اعتراف ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام واشنگٹن کے ایما پر اور اس کی خواہش کے مطابق ‘ حکماً نافذ کیے جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف اور ان جیسے بین الاقوامی اداروں کے اراکین ’’امداد‘‘ لینے والے ملکوں کے پنج ستارہ ہوٹلوں میں قیام کرتے ہیں‘ وہاں کے مرکزی بنک اور وزارتِ خزانہ کے افسران سے اعداد و شمار کی ٹھنڈی فضائوں میں گفتگو کرتے ہیں۔ انھیں نہیں معلوم کہ ’’افراطِ زر کو روکنے‘‘ اور ’’معاشی اصلاحات‘‘ اور ’’نج کاری‘‘ کے جو منصوبے وہ لے کر آئے ہیں ‘ مغربی بنکوں کے قرضوں کی وصول یابی کے جو پروگرام وہ پیش کر رہے ہیں‘ ان سے کتنے لوگ متاثر ہوں گے۔ بے روزگار ہونے والے تو انسان ہیں۔ ان کے خاندان‘ بیوی‘ بچے اور لواحقین ہیں جن کی زندگیاں اجیرن ہو جائیں گی‘ ان کی پالیسی‘ بلکہ احکام کی وجہ سے کتنے لوگ تباہ و برباد ہو جائیں گے۔ ’’جدید ہائی ٹیک جنگ اس طرح ڈیزائن کی گئی ہے کہ ]متحاربین کے درمیان[ جسمانی رابطے کی نوبت ہی نہیں آتی… ۵۰ ہزار فٹ کی بلندی سے بم گرانے والوں کو یہ ’’محسوس‘‘ نہیں ہوتا کہ ان کے اس فعل کے کیا نتائج نکل رہے ہیں۔ جدید معاشی نظم کاری اور منصوبہ بندی بھی اسی طرح کی ہے۔ اعلیٰ ترین ہوٹل کے پُرتعیش کمروں میں بیٹھ کر کروڑوں عوام کے لیے منصوبہ سازوں کو ’’محسوس‘‘ ہی نہیں ہوتا کہ جن کی قسمتوں کے فیصلے وہ کرنے جا رہے ہیں‘ وہ کس بربادی کا شکار ہوں گے۔ اگر وہ اُن کے درمیان ہوتے‘ ان کو ذاتی طور پر جانتے ہوتے‘ ان سے رابطے میں ہوتے‘ تووہ شاید یہ فیصلے نہ کرتے‘‘۔
کیا یہ مصنف کی سادگی اور بھولپن ہے یا تجاہلِ عارفانہ؟ وہ خود اس بات سے آگاہ ہیں کہ گذشتہ نصف صدی میں یہ ادارے اور ان کا تیسرا ساتھی ’’عالمی تجارتی ادارہ‘‘ (WTO) ترقی پذیر اور غیر ترقی یافتہ ملکوںپر کیا کیا ستم نہیں ڈھا چکے ہیں؟ انھیں اعتراف ہے کہ پچھلی رُبع صدی میں آئی ایم ایف کی ’’کوششوں کے باوصف‘‘ ساری دنیا میں معاشی بحرانوں میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ سرمائے کی منڈیوں کی بے لگام آزادیوں سے غریب ملکوں کی معیشت مزید زوال کا شکار ہوئی ہے‘ اور جب ایک ملک بحران کا شکار ہوتا ہے‘ تو آئی ایم ایف کے قرضے اور اس کے دیے ہوئے پروگرام نہ صرف یہ کہ ا س کے توازن کو بحال کرنے میں ناکام ہوتے ہیں‘ بلکہ ان کے نتیجے میں مرض کی شدت میں اور اضافہ ہی ہوتا ہے۔ خاص طور پر یہ پروگرام ملک کے نچلے طبقے کے لیے مزید غربت اور عذاب کا باعث ہوتے ہیں۔
عالمی تجارتی ادارے نے یہ فلسفہ دیا کہ بہت سے ملک اپنی معیشت کو بچانے یا فروغ دینے کے لیے درآمدات پر بے جا پابندیاں یا محاصل عائدکرتے ہیں‘ جو ایک غلط پالیسی ہے‘ اور اس سے ان کے ’’پڑوسیوں‘‘ کا نقصان ہوتا ہے۔ ایک ایسا بین الاقوامی ادارہ ہونا چاہیے‘ جو اشیا اور خدمات کی آزادانہ نقل و حرکت کو پروان چڑھائے۔ مگر ہوا یہ کہ اس ادارے اور ’’محصولات اور تجارت پر عمومی اتفاق‘‘ (GATT: General Agreement on Tariffs and Trade) سے خسارہ صرف غریب ملکوں ‘ خصوصاً ان کے معاشی طور پر پس ماندہ طبقوں ہی کے حصے میں آیا ہے۔ تحفظ سے محرومی کے نتیجے میں ایشیا اور افریقہ کے پس ماندہ ملک‘ خام مال پیدا اور مہیا کرنے والے اور ترقی یافتہ ملکوں کی مصنوعات کے صارف بن گئے ہیں۔ وہ مصنوعات‘ جو امریکہ‘ برطانیہ‘ جاپان‘ فرانس اور دوسرے ’’ترقی یافتہ ممالک‘‘ تیار کرتے ہیں۔ ’’ترقی پذیر‘‘ ملکوں کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ تجارتی پابندیاں ہٹائیں اور اپنے ملکوں میں درآمدات کو آزادانہ آنے دیں‘ جب کہ وہ ان کی مصنوعات پر کئی وجوہ سے پابندیاں لگا دیتے ہیں (مصنوعات غیرمعیاری ہیں‘ بچوں سے مشقت لی جا رہی ہے‘ وغیرہ)۔ غریب ملکوں کی صنعتیں دم توڑ رہی ہیں‘ کارخانے بند اور مزدور بے روزگار ہو رہے ہیں۔ کئی ملکوں میں توکسان بھی اپنے کھیت کی پیداوار اس قیمت پر فروخت نہیں کر پا رہے‘ جو امریکہ اور یورپ میں حکومتی اعانت کی وجہ سے ارزاں قیمت پر دست یاب ہو جاتی ہے۔ ان پالیسیوں کے نتیجے میں نہ صرف صنعتی سرگرمیاں ختم ہوتی جارہی ہیں‘ بلکہ کسان بھی تباہ حال ہوتے جا رہے ہیں۔ صنعتی ملکوں کو جس خام مال (بشمول زرعی اجناس روئی‘ پٹ سن‘ چمڑا‘ معدنیات‘ معدنی تیل‘ گیس وغیرہ) کی ضرورت ہے‘ اس کی قیمت کا تعین وہ خود کرلیتے ہیں‘ کیوں کہ انھیں اونے پونے برآمد کیے بغیر یہ غریب ملک وہ اشیا اور خدمات حاصل نہیں کرسکتے‘ جن کا انھیں چسکا لگا دیا گیا ہے۔ کاریں اور کمپیوٹر‘ جدید طبّی آلات و سہولیات‘ برقیات‘ تفریح اور آگاہی کے لیے نئے وسائل اور آلات اور ’’غریبوں کی بہت سی عیاشیاں‘‘ (کوکا کولا‘ پیپسی‘ کے ایف سی کی تلی ہوئی مرغیاں‘ پیزا‘ درآمد شدہ ٹافیاں‘چاکلیٹ اور کھلونے) اس وقت تک دست یاب نہیں ہوں گے جب تک آپ کے پاس زرمبادلہ نہ ہوگا۔ اور زرِمبادلہ کے لیے آپ کو اپنے اثاثے اور خود اپنے آپ کو کسی نہ کسی قیمت پر فروخت کرنا ہوگا کہ جی-سیون (سات اہم ترین (گریٹ!) ترقی یافتہ صنعتی ملکوں: امریکہ‘ جاپان‘ جرمنی‘ کینیڈا‘ اٹلی‘ فرانس اور برطانیہ) کا تقاضا یہی ہے۔
مروّجہ معاشی فلسفے کی ایک حکمت ِعملی نج کاری بھی ہے۔ خود اسٹیگ لٹزبھی اس کے حامی ہیں۔ ان کے خیال میں بہت سے پس ماندہ اور ترقی پذیر ملکوں میں حکومتیں وہ کام کر رہی ہیں جو انھیں نہیں کرنے چاہییں۔ بھلا حکومت کو فولاد کے کارخانے لگانے اور چلانے سے کیا سروکار؟ اس طرح کے بڑے منصوبوں میں وہ اپنا وقت‘ توجہ اور سرمایہ ’’ضائع‘‘ کرتی ہیں‘ اور بہت سے کرنے کے کام رہ جاتے ہیں‘ تاہم مصنف سے یہ اعتراف کیے بغیر نہیں رہا جاتا کہ دنیا میں سب سے بہتر کارکردگی دکھانے والے فولادی کارخانے وہ ہیں جو کوریا اور تائیوان کی حکومتیں چلا رہی ہیں۔ ہمارے خیال میں بات یہ نہیں کہ کوئی صنعت حکومت کی تحویل میں ہے‘ یا نجی ہاتھوں میں‘ بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ انھیں چلانے والے کتنے اہل اور دیانت دار ہیں۔
بدقسمتی سے آئی ایم ایف اور عالمی بنک نے اس مسئلے کو ٹھیٹھ سرمایہ دارانہ فلسفے اور منڈی کی معیشت کے نقطۂ نظر سے دیکھا ہے‘ اور اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ بہت سے ملکوں میں قومی اثاثے اور ’’کاروبار‘‘ جو عوام کے خون پسینے ‘ محنت اور سرمائے سے وجود میں آئے تھے‘ اونے پونے نجی پارٹیوں کو فروخت کیے جا رہے ہیں۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ نہ صرف پاکستان اور بھارت میں‘ بلکہ ان جیسے بہت سے ترقی پذیر ملکوں میں ’’کارپوریٹ گلوبلائزیشن‘‘ کی پالیسی‘ تمام معاشی‘ سماجی اور سیاسی بیماریوں کی واحد دوا کے طور پر پیش کی جا رہی ہے‘ اس کی حمایت اور وکالت کی جا رہی ہے۔ معاشی بزرجمہراور سیاسی دانش ور ’’تجارتی جسدکاری‘‘ (corporatization) اور نج کاری کے حق میں دلائل دیتے نہیں تھکتے‘ اور تیسری دنیا کے بیشتر ملکوں کے حکمراں اپنے مادرِ وطن کے قدرتی وسائل‘ اثاثے‘ اور وہ بنیادی ڈھانچے جو ایک صدی میں وجود میں آئے تھے‘ ملکی اور غیر ملکی آڑھتیوں کو بیچنے کے لیے بے قرار نظر آتے ہیں۔ ملکی تعلیم اور تعلیمی ادارے‘ صحت‘ بجلی‘ گیس‘ تیل‘ کوئلہ‘ لوہے اور فولاد کی صنعت‘ ٹیلی فون‘ رسل و رسائل‘ سڑکیں‘ ریلوے اور قومی علَم بردار فضائی کمپنیاں اور بندرگاہیں‘ حتیٰ کہ پینے کے پانی (بوتلوں کی شکل میں) نج کاری کے نتیجے میں عالمی ساہوکاروں کی نذرکیے جا رہے ہیں
کیا دنیا کے اربوں عوام کے خلاف کوئی بڑی سازش ہوئی ہے؟ مصنف کے خیال میں ایسانہیں۔ ابتدا میں نیتیں تو نیک تھیں لیکن ان بین الاقوامی اداروں کے کردار میں تبدیلیاں ۱۹۸۰ء کے عشرے سے واقع ہوئیں‘ جب امریکہ میں رونالڈ ریگن اور برطانیہ میں مارگریٹ تھیچر نہ صرف اپنے اپنے ملکوں میں بلکہ ساری دنیا میں منڈی کی معیشت کا پرچار کر رہے تھے۔ دعویٰ یہی تھا کہ یہ نظام ساری دنیا کے غریب اور ترقی پذیر ملکوں کو فلاح اور خوش حالی سے ہم کنار کرسکتا ہے۔ اگرچہ وال اسٹریٹ اور آئی ایم ایف کے خلاف ایسی شہادتیں مہیا کرنا دشوار ہے جنھیں عدالت میں ثابت کیا جا سکے‘ مگر اقوامِ عالم کے خلاف ان کی سازشوں کے انداز نہایت ’’لطیف‘‘ اور خفیہ ہیں۔بند دروازوں کے عقب میں ایک خفیہ اجلاس‘ کسی کے بیان یا گفتگو کا ایک مخصوص لہجہ‘ ایک بظاہر سادہ سی دستاویز--- کروڑوں انسانوں کی زندگی پراثراندازہو جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی نہایت شُستہ معذرت اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتی کہ ان ترقی پذیر ملکوں کے کروڑوں عوام کو جو سختیاں برداشت کرنی پڑ رہی ہیں‘ وہ بہشت کی طرف جانے والے راستے کی سختیاں اوردشواریاں ہیں۔ انھیں توانگیز کرنا ہی ہوگا۔ یا پھر وہ اس طرح کی شکایات کو ایک محکوم نوآبادی کی صداے احتجاج کے طور پر حقارت سے ردّ کر دیتے ہیں۔
یہ ایک نیا استعمار ہے ‘ جس میں حاکموں کی ذمہ داری نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر آپ نے جانور پالے ہیں کہ ان کا دودھ اور گوشت حاصل کریں‘ تو آپ کی یہ ذمہ داری بھی ہوتی ہے کہ انھیں کھلائیں پلائیں‘ اُن کی دیکھ بھال کریں اور ان کی حفاظت کریں۔ لیکن جب آپ جنگل میں شکار کے لیے نکلتے ہیں‘ توشکار ہونے والے کسی جانور کی کوئی ذمہ داری آپ پر نہیں ہوتی۔ آپ بھی آزاد ہوتے ہیں اور وہ بھی!
(Joseph E. Stiglitz, Globalization and its Discontents, London, Allen Lane, Penguin Books, 2002, pp 282, £16.99)