قطب الدین عزیز کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔ وہ لکھنؤ میں پیدا ہوئے، والدین کے ساتھ حیدر آباد دکن منتقل ہوئے اور وہیں پر ابتدائی تعلیم پائی ۔ پھر وہاں سے مدراس (چنائے ) اور بعد میں لندن اسکول آف اکنامکس سے اعلیٰ سند یافتہ ہوئے۔ پاکستان ہجرت کے بعدصحافت سے وابستہ ہو گئے۔ وزارت خارجہ میں اہم عہدوں پر سرفراز ہوئے اور کئی بیرونی ممالک میں پاکستان کی نمایندگی کی۔ اپنی مثبت فکر سے شغف کی بنا پر انھیں ادب، سیاست اور ثقافت کے حلقوں میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
پیش نظر کتاب خون اور آنسوؤں کا دریا کے مصنف قطب الدین عزیز نے مشرقی پاکستان کی ملک سے علیحدگی کی اَلم ناک داستان بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ: مارچ ۱۹۷۱ء میں جب عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں تحریک سول نافرمانی کا آغاز کیا اور پورے صوبے میں لاقانونیت ، آتش زنی ، لُوٹ مار اور بے قابو قتل وغارت کا سلسلہ پھیل گیا تو پاکستان میں جنرل آغا یحییٰ خان کی صدارت میں مارشل لا حکومت نے مغربی پاکستان کے ذرائع ابلاغ کو ہدایت دی کہ یہ خبریں شائع نہ کی جائیں، مبادا اس سے مغربی پاکستان میں آباد بنگالیوں کو نقصان پہنچے ۔ اس طرح ان خبروں کو دبادیا گیا۔ اگرچہ مشرقی پاکستان کے تمام ذرائع ابلاغ دہشت گرد قوم پرست بنگالیوں کے ہاتھوں اسیر تھے، مگر وہاں سے کسی طرح جان بچا کر ہجرت کرکے آنے والوں کی داستانیں رفتہ رفتہ عام ہوتی گئیں۔ غیر ملکی ذرائع ابلاغ ، جو ابتداً بنگالیوں کے ’حق خود ارادی ‘ کے تناظر میں ساری ہنگامہ آرائی کو دیکھ رہے تھے، اب ’غیر جانب دار‘ بننے لگے۔ لندن کے سنڈے ٹائمز کے نمایندے اینتھونی مسکارن ہارس ، جس نے کئی مضامین میں پاکستانی فوج کو نشانہ بنایا تھا، کہ وہ بنگالیوں پر ظلم ڈھا رہی ہے، آخر سچ کہنے پر مجبور ہوئے ۔ وہ اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں: ’’ ہزاروں بدقسمت خاندانوں کو جو ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کے وقت بہار سے ہجرت کر کے مشرقی پاکستان آئے تھے، انھیں بڑی بے رحمی سے صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ عورتوں کی آبرو ریزی کی گئی ، یا خاص طور پر بنائے گئے چاقوئوں سے ان کی چھاتیوں کو کاٹ دیا گیا۔ بچے بھی اس ظلم سے بچ نہ سکے اور جو ذرا قسمت والے تھے، ان کو ان کے والدین کے ہمراہ قتل کر دیا گیا۔ لیکن ان میں ہزاروں ایسے بھی تھے، جن کو زندگی بھر کے لیے معذور کر دیا گیا۔ ان کی آنکھیں نکال دی گئیں اور ان کے بازو اور ٹانگیں کاٹ دی گئیں۔ غیر بنگالیوں کی ۲۰ ہزار سے زائد لاشیں بڑے بڑے شہروں جیسے چٹاگانگ ، کھلنا اور جیسور میں پائی گئی ہیں۔ اصل تعداد جو مجھے مشرقی بنگال میں بتائی گئی وہ ایک لاکھ سے زیادہ ہو سکتی ہے، کیوں کہ ہزاروں غیر بنگالی بغیر کسی نا م ونشان کے غائب کر دیے گئے ہیں‘‘۔ (ص ۱۹ )
مصنف نے ’’ مشرقی پاکستان کے ۳۳ ؍اضلاع اور شہروں ڈھاکہ ، نارائن گنج، چٹاگانگ ، چندرا گھونا اور رنگامتی ، کھلنا ، ست خیرہ ، دیناج پور، پاربتی پور، ٹھاکر گائوں ، لکشم ، راج باڑی، گو لندو، فرید پور کشتیا، چوا ڈنگا، مہر پور اور ظفر کنڈی ، اشوردی ، پاکسے ، نواکھالی، سلہٹ مووی بازار، بہراماڑا، نارکل ڈنگا، رنگ پور، نیلفاماری، سید پور، لال منیر ہاٹ، جیسور ، نریل ، باجر ڈنگا، جہنی ڈاہ، نواپاڑا، باری سال، میمن سنگھ ، راج شاہی اور ناٹور ، پبنہ اور سراج گنج ، کومیلا، برہمن باڑیا ، بوگرا اور نو گائوں ، سنتھارکے الگ عنوانات کے تحت ابواب میں ان علاقوں اور شہروں اور شہریوں کی دُکھ بھری داستانیں بیان کی ہیں، جو انھوں نے چشم دید گواہوں یا آپ بیتی بیان کرنے والوں سے خود سنیں اور ریکارڈ کیں۔ مصنف نےایک ٹیم کے ذریعے مشرقی پاکستان کے ۵۵ شہروں /قصبوں سے تعلق رکھنے والے گواہوں کے بیانات / شہادتیں اکٹھی کیں، اور بڑی احتیاط اور دیانت سے اسے رپورٹ کیا گیا ہے۔
مصنف کہتے ہیں کہ ’’میں اس وقت حواس باختہ ہو گیا اور اپنا خون رگوں میں جمتا ہوا محسوس کیا ، جب میں نے اپریل ۱۹۷۱ء کے وسط میں چٹاگانگ سے جان بچا کر کراچی آنے والے غیربنگالی پاکستانیوں سے ان کی رُوداد سنی ۔ ان کے کہنے کے مطابق : عوامی لیگ کے منظم دہشت گردوں اور باغیوں نے غیر بنگالیوں کو قصابوں کی طرح کاٹا ۔ یہ تفصیلات سن کر میری روح کانپ اُٹھی اور اپنی اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے آج بھی میرے پاس الفاظ نہیں ہیں، کیوں کہ میں تو بنگالیوں کو نہایت شائستہ اور فن وادب کے ذوق کی وجہ سے پسند کرتا تھا ‘‘۔ (ص ۱۹)
امریکا اور یورپ میں بھارت نے منفی پروپیگنڈے کے لیے جنگی بنیادوں پر سیلابی ریلے کی طرح بے شمار کتابیں اور پمفلٹ شائع کیے۔ جن میں پاکستانی فوج پر لاکھوں بنگالیوں کو قتل کرنے کا الزام لگایا گیا۔ حکومت پاکستان مؤثر اور جوابی کارروائی نہ کرسکی ، اور جیسا کہ اُوپر بیان کیا گیا ہے، اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ مغربی پاکستان میں ردّ ِ عمل کے طور پر بنگالیوں پر ظلم نہ ہونے پائے۔
مشرقی پاکستان کے اس المیے میں جنرل یحییٰ خان (اس وقت کے صدر پاکستان ) اور ذوالفقار علی بھٹو کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ۷دسمبر۱۹۷۰ء کے انتخابات نے عملی طور پر ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ دھونس ، دھاندلی اور تشدد کی سیاست نے قومی اسمبلی کی ۳۰۰ نشستوں میں مشرقی پاکستان کی مجیب پارٹی (عوامی لیگ) نے ۱۶۰ نشستیں جیت لیں اور ملک کی اکثریتی پارٹی بن گئی۔ مغربی پاکستان میں بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی نے ۸۱ نشستیں جیتیں۔ صدرجنرل یحییٰ خان نے انتخابات کے بعد دو ماہ تک تو اسمبلی کا اجلاس ہی نہ بلایا ۔ آخر ۳ مارچ ۱۹۷۱ء کو ڈھاکہ میں اجلاس طلب کیا گیا۔ لیکن مغربی پاکستان سے اکثریتی لیڈر بھٹو صاحب نے اصرار کیا کہ: ’’دستوری فارمولا اسمبلی اجلاس سے باہر طے کیا جائے، اور اگر دستور سازی کے لیے مقرر کردہ ۱۲۰دنوں میں دستور نہ بنا تو دستور ساز اسمبلی کا وجود خطرے میں پڑجائے گا‘‘۔ جب انھیں اس ضمن میں کامیابی حاصل نہ ہوسکی تو انھوں نے اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنے کا مطالبہ کر دیااور کہا کہ مغربی پاکستان سے کوئی منتخب رکن ڈھاکہ جائے گاتو اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ اور اس طرح ’اِدھر ہم ، اُدھر تم‘ کی بنیاد پڑگئی۔ اسمبلی کے اجلاس کے التوا سے مشرقی پاکستان میں ہنگامہ شروع ہو گیا۔ جس کو دبانے کے لیے وہاں ۲۵مارچ ۱۹۷۱ء کو فوجی ایکشن شروع کر دیا گیا۔مجیب کو گرفتار کر کے مغربی پاکستان لایا گیا اور بھٹو نے کہا : ’’خدا کا شکر ہے ، پاکستان بچ گیا‘‘ ۔ لیکن ’پاکستان ‘ کا مطلب صرف اس کا مغربی بازو تو نہیں تھا ! دراصل یہ پاکستان کے انہدام کی ابتدا تھی ، لیکن فاضل مصنف نے اس پوری کہانی سے صرفِ نظر اور بوجوہ اغماز کیا ہے۔
کتاب کے اختتامیےکے پہلے مضمون میں سیّدخالد کمال نے بنگلہ دیش میں بسنے اور اُردو بولنے والے بے وطن پاکستانیوں کے کرب اور المیے کو بڑی خوبی سے بیان کیا ہے۔ اسی حصے کے دوسرے مضمون میں مترجم سلیم منصور خالد نے ’۳۰ لاکھ کے قتل کا افسانہ …‘ کے عنوان سے ایک تفصیلی تحقیقی مقالے کا اضافہ کیا ہے ۔ علیحدگی پسند بنگالیوں نے پاکستانی فوج اور اُردو بولنے والے شہریوں پر یہ الزام لگایا تھا کہ انھوں نے ۳۰ لاکھ بنگالیوں کو قتل کیا اور ہزاروں بنگالی خواتین کو بے آبرو کیا ہے، مگر غیر جانب دار صحافیوں اور خود مشرقی پاکستان کے محاذ پر ہندستان کے فوجی کمانڈر جگجیت سنگھ اروڑا تک نے اس مبالغہ آمیزی کی نفی کی ہے۔ اس طرح دیگر بہت سے غیر ملکی اور خود ہندستانی صحافیوں اور تحقیق کاروں نے بھی پاکستانی فوج کے ہاتھوں بنگالیوں کے قتلِ عام کی تردید کی۔
تاریخ کو مسخ کرنے والے اس جھوٹ کا مقصد پاکستان کی یک جہتی کی حامی جماعت اسلامی اور پاکستانی فوج کے خلاف نفرت کو ہوا دینے کے سوا کچھ نہیں ۔ اس جلتی آگ کو سرد ہوتا دیکھ کر ۲۰۱۰ء کے بعد، عوامی لیگ کی حکومت نے ۳۸سال بعد ’جنگی ٹریبونل ‘ جیسی ’نام نہاد عدالتوں‘ کے ذریعے جماعت اسلامی اور البدر کے بنگالی ہم وطنوں پر، جو ۱۹۷۱ء میں متحدہ پاکستان کے حامی تھے ، مقدمے چلانے اور سزاے موت دینے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے (اسی ظالمانہ عدالتی ڈرامے کے نتیجے میں ۹۲سالہ پروفیسر غلام اعظم، سابق امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش جیل میں انتقال کر گئے)۔ دراصل جماعت اسلامی بنگلہ دیش میں ہونے والے تمام انتخابات میں بڑھتی ہوئی مقبولیت کے اشارے دے رہی تھی۔ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد کے ہاتھوں ان مظالم کی لہر نہ جانے کہاں رُکے گی۔ بہر حال صاحب ِمقالہ سلیم منصور خالد کی خواہش ہے کہ :’’ بنگلہ دیش: دو قومی نظریے کی بنیاد پر ایک آزاد، خود مختار، اسلامی اور خوش حال ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر سرفراز رہے‘‘۔ (ص ۴۵۸)
کتاب کے آخر میں ۳۳ صفحے کا تفصیلی اشاریہ بڑی محنت سے مرتب کیا گیا ہے۔ اس اہتمام سے یہ کتاب اپنے موضو ع پر حوالے کی ایک نہایت مستند اور بہترین کتاب بن گئی ہے: خون اور آنسوؤں کا دریا، قطب الدین عزیز/ ترجمہ و تدوین :سلیم منصور خالد ، ظہور احمد قریشی، ناشر : منشورات، پوسٹ بکس: ۹۰۹۳، علّامہ اقبال ٹاؤن، لاہور۔ فون:۰۰۳۴۹۰۹- ۰۳۳۲۔ صفحات :۴۹۶، قیمت (مجلد): ۶۰۰ روپے۔