معاشرے کی حقیقی ترقی، عورت کی توقیر اور خوش حالی کے بغیرممکن نہیں ہے، مگر اس حقیقت کے باوجود افسوس کا مقام ہے کہ دنیا بھر میں عورت آج بھی اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرتی نظر آتی ہے۔ عورتوں کے حقوق کے حوالے سے فی الوقت کوئی ملک بھی رول ماڈ ل نہیں حالاں کہ دنیا کے سامنے آنے والے تمام چارٹرز میں یہ فضیلت اسلام ہی کو حاصل ہے کہ اس نے عورت کو جو مقام و مرتبہ عطا کیا ہے، وہ آج کا کوئی اجتماعی نظام نہیں دے سکا۔ تاہم، اس کے باوجود یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ پاکستان کے اسلامی جمہوریہ ہونے کے باوجود یہاں پر بھی عورت اپنے بنیادی اسلامی و سماجی حقوق سے محروم ہے۔ مسائل و مشکلات کی اس دلدل سے اس کو باہر نکالنا یقینی طورپر ایک قومی ذمہ داری ہے، مگر عورت کے بہت سے مسائل اور مصائب ایسے ہیں، جن کا تعلق خود عورت ہی سے ہے، اور وہ اس کے پیدا کردہ ہیں۔ ایسے بے شمار مسائل کا تعلق معاشرے کے مردوں سے نہیں بلکہ خود خواتین ہی سے ہے۔ لہٰذا، اس کی اصلاح تو بہرحال خود عورت ہی کو کرنی ہے ۔ اور اسے اس دعوے کی تردید کرنی ہے کہ عورت، عورت کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے اور اس کا حل کیا ہے؟
عورت سے عورت کی پر خاش کا یہ مسئلہ ہمیں صرف اداروں، تنظیموںمیں ہی نہیں بلکہ گھروں اور خاندانوں میںبھی کثرت سے نظر آتا ہے۔عورت معاشرے کی عمارت کا کلیدی پتھر ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ عورت ہر حیثیت میںخواہ ماں بہن، بیوی، بیٹی، کارمند یا ملازم (employ) یا آجر اور کارفرما (employer )، ساتھی، ہر حیثیت میں اس کا کردار بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ جہاں اس معاشرے میں اس کے اس مؤثر کردار کی ادایگی میں بے شمار رکاوٹیں حائل ہیں، وہاں اس کے اتحاد کے پارہ پارہ ہونے کا نتیجہ بھی اس کو بہت پیچھے دھکیل دینے کا سبب ہے۔ اکثر خواتین مختلف اداروں میں، خاندانوں میں اپنا بیش تر وقت اس باہمی رقابت ، رسہ کشی اور کھینچا تانی میں ضائع کر دیتی ہیں۔ تعمیری کاموں کے بجاے تخریبی سرگرمیوں میں لگا دیتی ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق ۹۵ فی صد خواتین روایتی ’شہد کی ملکہ مکھی کا نشانہ‘ (کوئین بی سنڈروم) بنتی ہیں، یعنی افسر خواتین اپنی نوجوان خواتین کارکنان ہی سے عدم تحفظ (Insecurity) محسوس کرتی ہیں۔پروفیسر ہیری کوپر نے اس حوالے سے کہا کہ اس ’نشانۂ اجتماعی‘ (سنڈروم) کی وجہ سے وہ اپنے جونئیرز کی سرپرستی نہیں کر سکتیں۔ایک تحقیق نے یہ بھی بتایا ہے کہ جو عورتیںمردانہ برتری کے ماحول میں جدوجہد کرتے ہوئے ترقی کرتی ہیں، وہ اپنی ماتحت نوجوان خواتین کے لیے ’شہدکی ملکہ مکھی کے عتاب‘ کا شکار ہوتی ہیں۔ اپنی جونئیرز کے لیے ان کے اندر ہمدردی کا جذبہ کم ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہوتا ہے کہ جب ہم اتنی مشکلیں اٹھا کر کام کر سکتے ہیں تو یہ کیوں نہیں کر سکتیں۔ (دراصل وہ اپنے ماضی کے حالات کا بدلہ اپنی جونئیرز سے لیتی ہیں، اور بسا اوقات یہ صورتِ حال بالکل اسی طرح ساس بہو یا دیوارنی اور جیٹھانی کے معاملے میں بھی نظر آتی ہے۔)
معروف ادیبہ کیلی ویلن نے The Twisted Sisterhood: Unraveling the Dark Legacy of Female Friendships نامی ایک دل چسپ کتاب لکھی ہے، جس میں وہ تینہزار سے زائد عورتوں سے کیے گئے ایک سروے کے بارے میں بتاتی ہے کہ:’’۹۰ فی صد سے زائد خواتین میں دوسری خواتین کے بارے میں منفی جذبات پائے گئے ہیں‘‘۔کیلی ویلن مزید بتاتی ہیں کہ: ’’۵۰سوالات پر مشتمل ایک سروے میں ۸۵ فی صد عورتوں نے کہا کہ ہم نے اپنی زندگی میں دوسری عورتوں ہی کے ہاتھو ںبہت سی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کیا ہے‘‘۔
گیٹ ہاپکن کی تحقیق یہ ہے کہ اکثر سینئر خواتین میں یہ خوف پایا جاتا ہے کہ وہ وقت کے ساتھ ساتھ غیر اہم ہو جائیں گی۔ شاید یہی خوف ان کے منفی رویے کی وجہ ہوتا ہے۔ہرچند کہ اس نوع کے مسائل مردوں کے درمیان بھی پائے جاتے ہیں، لیکن یہ خواتین میں بہت زیادہ موجود ہیں۔
کچھ نہ کچھ منفی جذبات انسانی نفسیات کا حصہ ہیںاور بنیادی طور پر انسانی سرشت میں پائے جاتے ہیں۔ بعض جذبات و خصوصیات صنفی (Gender) بنیاد پہ بھی کم یا زیادہ ہوسکتی ہیں، مگر ان کو تراش خراش کر درست سمت دینے اور شر کو خیر کے رخ پہ موڑنے کا کام گھر،مذہب ، معاشرتی اقدار اور نظام تعلیم و تربیت کرتا ہے۔ بدقسمتی سے آج کے معاشرے میںجیسے جیسے مادیت پرستی کے رجحانات میں اضافہ ہورہا ہے، ویسے ویسے اخلاقی بلندی اور اعلیٰ ظرفی کا دامن بھی ہاتھ سے چھوٹاجارہا ہے اور افراد اور معاشرے سے وہ اخلاقی صفات ختم ہوتی جارہی ہیں۔
نہایت افسوس کے ساتھ اس بات کا اقرار کرنے میں کوئی تردد نہیں ہونا چاہیے کہ ا خلاقی بہتری کے لیے تربیت کا جو کام ہمارے نظام تعلیم کوکرناچاہیے تھا، وہ اس نے تونہیں کیا، مگر سچی بات ہے کہ ہماری مساجد بھی وہ کردار ادا نہ کرسکیں جو کبھی ہمارا ورثہ تھا، حتیٰ کہ گھروں سے بھی اخلاقی بلندی کاورثہ اس طرح منتقل نہیں ہوسکا، جس طرح ہونا چاہیے تھا، جب کہ اس اخلاقی بلندی کا درس ہمیں صرف اسلام ہی نہیں دیگر الہامی مذاہب بھی دیتے ہیں۔
اسلامی اخلاقیات تو انسانی رویوں کے ہر پہلو کا احاطہ کرتی ہیں اور مسلمان ہونے کے ناطے تو ہمیںان الہامی تعلیمات پر یقین ہونا چاہیے، جو اس بارے میں ہمارا دین ہمیں بتاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی کو اس بات کا یقین ہو کہ روزی دینے والا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذاتِ بابرکات ہے اور اس نے یہ وعدہ کیا ہے کہ تم اگر مجھ پہ ایسا توکل کرو جیسا توکل کرنے کا حق ہے تو میں تم کو ایسے روزی دوں گا جیسے ہر پرندے کو دیتا ہوں، تو یہ ممکن نہیں کہ ہم کسی انسان سے عدم تحفظ کا شکار ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے: تمھاری قسمت میںجو رزق لکھا جاچکاہے اسے کوئی روک نہیں سکتااور تمھاری عزت اور ذلت بھی میرے ہاتھ میں ہے توکیوں کرکسی سے خوف کھایاجائے؟ کیوں کسی کو دبا کر رکھنے میں اپنی شان اور عزت کی ضمانت سمجھاجائے؟اگر کسی کو یہ معلوم ہوکہ حسد نہ صرف دنیا ہی میں انسان کی جڑیں کاٹتاہے بلکہ یہ بھی جاننا چاہیے کہ یہ آخرت میں بھی اُسے کنگلا کردے گا،تو وہ اس جذبے کو اپنے قریب بھی نہ پھٹکنے دے گا۔
متذکرہ بالا اخلاقی خوبیوںکے علاوہ بھی بہت سے محاسن اخلاق ہمیں مذہبی تعلیمات اور تاریخی حوالوںمیں ملتے ہیں، جو اگرچہ مردوں اور عورتوں کے لیے یکساں ضروری ہیں۔ لیکن یہ بات کہ عورت عورت کی دشمنی سے کیسے رُکے؟ تو اس کا طریقہ یہی ہے کہ ان اخلاقیات کو اپنانے کی کوشش کی جائے اور اپنے اس یقین کو بڑھایا جائے کہ سب کچھ دینے والا اللہ ہے اور اس چھوٹی سی زندگی میں ہم جو بوئیں گے، وہ نہ صرف ہم آخرت میں کاٹیں گے بلکہ دنیا میں بھی ہم اور ہماری آیندہ نسلیں اس فصل کو کاٹیں گی۔ دراصل عورت ہی وہ کردار ہے جو معاشرے اور نسلوں کو بنانے سنوارنے کا کام کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مردانہ برتری کے معاشرے میں دراصل مرد سے عدم تحفظ کے باعث عورت کے بہت سے رویے جنم لیتے ہیں، مگرمعاشرے کا ہرمرد بھی کسی عورت کی گود ہی سے تربیت پاکر جوان ہواہوتاہے۔ماں کی گود کو بچے کا پہلا مدرسہ کہا جاتا ہے۔ نپولین نے بھی کہا تھا کہ:’’تم مجھے اچھی مائیں دو، تو میں تمھیں اچھی قوم دوںگا‘‘۔ اگر عورت ہی اخلاقی معیارسے گر جائے تو نہ صرف معاشرہ انتشار اورزوال کا شکارہوگا، بلکہ اعلیٰ اخلاقی صفات سے عاری نسلیں جنم لیں گی۔
عورت اپنے اس مقام کا ادراک کرتے ہوئے کم از کم اپنی ذات میں، جہاں جہاں وہ موجود ہے، اس ’عورت سے عورت کی دشمنی‘ جیسی بیماری کو ختم کرنے کا تہیہ کرے تو ہم دیکھیں گے کہ طبقۂ نسواں کے ۵۰ فی صد مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔اگر خواتین اپنے اندر یہ ظرف پیدا کرلیں کہ ایک دوسرے کو اپنے مدمقابل کے طور پردیکھنے کے بجاے، ایک دوسرے کو اپنے مددگار کے طور پر دیکھیں،اور ایک دوسرے کے بارے میںشک میں پڑنے کے بجاے ایک دوسرے کو سہارا دیں،تو وہ ایک ناقابل شکست اکائی ہوں گی۔ اگر آج کی مائیںیہ عزم کرلیںاور یہ طے کرلیں کہ اپنی گود میں پرورش پانے والے ہربچے کو اپنی استعداد کے مطابق بنیادی اخلاقیات سکھانے میں پوری قوت لگادیں گی۔ پھر یہ کہ اپنے ہربیٹے کو عورت کی عزت اور اس کے حقوق کے تحفظ کی تعلیم دیں گی۔ ماں اپنے بیٹے کو بیوی کے حقوق کی ادایگی کا درس دے گی اور بیوی ماں کے حقوق کی یاددہانی کرائے گی۔ اسی طرح اداروں میں بھی اگر اپنی ذات سے اوپر ہوکر اپنی ساتھی کے لیے اخلاقی سہارا بننے کا سبق دیا جائے گا تو ہمارے گھر امن وسکون کا گہوارہ ہوں گے۔ دفاترمیں ذ ہنی تھکاوٹ کے بجاے خوشی اور سکون میسر ہوگا۔ عورت کی گود میں پرورش پانے والا ہربچہ آنے والی کل میں وہ فرد ثابت ہوگا جسے اپنے فرائض اور دو سروں کے حقوق کا بخوبی ادراک ہوگا۔ ہر مرد عورت کودبانے میںاپنی برتری سمجھنے کے بجاے اس کو عزت و احترام دینے، سہولت اورتحفظ دینے کو اپنابنیادی فریضہ سمجھے گا۔