چند سال قبل راقم کو بھارتی صحافیوں کے ایک وفد کے ہمراہ اسرائیل (مقبوضہ فلسطین ) جاننے کا موقع ملا ۔ وفد میں بھارت کے میڈیا اداروں ٹائمز آف انڈیا ، دی ٹیلی گراف ، ٹربیون، اے این آئی وغیرہ سے وابستہ ایسے مدیران شامل تھے جنھیں سفارتی اور بین الاقوامی امور پر دسترس حاصل ہے۔ دس دن کے اس سفر میں تل ابیب ، حیفہ، سدرت اور لبنان کی سرحد سے متصل ناحارجہ، فلسطینی علاقوں رملہ، بیت اللحم ، بحیرۂ مُردار، دشت جودی کے علاوہ یروشلم کے دورے کا بھی موقع ملا۔
میں تو مسجد اقصیٰ کی زیارت کے لیے بے تاب تھا، مگر یروشلم میں ہمیں آخری تین دن گزارنے تھے۔ دورے کے اگلے دن ہمیں تل ابیب سے غزہ سرحد سے متصل اسرائیلی قصبہ سدرت جانا تھا، جو ایک ثقافتی مرکز کی شہرت رکھتا ہے اور اکثر غزہ کی طرف سے داغے گئے راکٹوں کی زد میں آتا ہے۔ خیر تل ابیب سے ہمیں چارہیلی کاپٹروں میں سوار کیا گیا ۔ میں پائلٹ کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ پائلٹ خاصا ہنس مکھ اور باتونی قسم کا شخص تھا۔ وہ راستے میں گائیڈ کا کام بھی کررہا تھا۔
ایک خاص بات دیکھنے میں آئی کہ یہودی بستیوں میں تقریباً سبھی مکان صاف شفاف چمک دار اور ہرے بھرے باغات اور درختوں سے گھرے دکھائی دے رہے تھے۔ ان کی چھتوں کو لال رنگ سے پینٹ کیا گیا تھا۔ دوسری طرف عرب بستیوں میں مکانات اگرچہ بڑے مگر بے کیف اور ان کے آس پاس زمین بھی نظر آ رہی تھی۔ اس لال رنگ کا راز جاننے کی میں نے بعد میں بڑی کوشش کی، مگر کہیں سے تشفی بخش جواب نہیں ملا۔ وجہ شاید یہی ہو گی کہ ہوائی حملوں کے وقت یہودی اور عرب علاقوں کا تعین کیا جا سکے۔
آدھے گھنٹے کے بعد پائلٹ نے اعلان کیا کہ: ’’اب ہم یروشلم شہر کے اوپر سے گزر رہے ہیں‘‘ اور ساتھ اس نے روایتی گائیڈوں کی طرح تاریخ کے اوراق سامعین کو دیکھ کر پلٹنے شروع کیے۔ جب میں نے اس کو ایک دو بار ٹوکا تب اس کو معلوم ہوا کہ اس کے پاس ایک مسلمان صحافی براجمان ہے۔ ہیلی کاپٹر سے مسجد اقصیٰ، اس کا صحن اور گنبد صخریٰ یا قبۃ الصخرہ (Dome of Rock)کا سنہری گنبد واضح نظر آ رہا تھا۔ میں اس نظارے میں محو ہو گیا۔ پائلٹ نے میری کیفیت دیکھ کر صحن کے اوپر کئی چکر کاٹے ۔ خیر سفر کے اختتام سے چار روز قبل ہم حیفہ سے تل ابیب اور فلسطین اتھارٹی کے دارالحکومت رملہ سے ہوتے ہوئے بذریعہ بس یروشلم آن پہنچے۔
خوش قسمتی سے یہ جمعے کا دن تھا۔ میں نے میزبانوں کو پہلے ہی تاکید کی تھی کہ میں کسی اور پروگرام میں شرکت نہیں کروںگااور جمعہ کی نماز مسجد اقصیٰ میں ادا کروں گا۔ پروگرام کے مطابق وفد کے باقی اراکین تو ہولو کاسٹ میوزیم دیکھنے چلے گئے اور مجھے ایک فلسطینی گائیڈ کے حوالے کیا گیا، جس نے پرانے فصیل بند شہر کے باب دمشق تک میری رہنمائی کی۔ مسجد فصیل سے ابھی بھی تقریباً آدھا کلو میٹر دُور تھی۔ پیچ در پیچ گلیوں اور سوق، یعنی چھت والے روایتی عربی بازار سے گزرتے ہوئے آخرکار مسجد کا گیٹ نظر آیا۔ مسجد اقصیٰ کا حرم ایک وسیع احاطے پر مشتمل ہے۔ شمال میں چاندی کے گنبد والی مسجد ہے۔ جمعہ کو احاطے میں غیرمسلموں کا داخلہ ممنوع ہے۔ دیگر دنوں میں غیر مسلم سیاح احاطے میں تو داخل ہو سکتے ہیں، مگر مسجد اور قبۃ الصخرہ کے اندر ان کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ احاطے کی مغربی دیوار یہودیوں کے لیے مخصوص ہے، اس کو ’دیوار گریہ‘ کہتے ہیں۔
اگرچہ یروشلم شہر اسرائیلوں کے قبضے میں ہے، مگر حرم کا انتظام وانصرام اردن کے اوقاف اور وہاں کی ہاشمی باد شاہت کے پاس ہے۔ جون ۱۹۶۷ء کی جنگ میں جب اسرائیلی فوجیں شہر میں داخل ہو گئیں ، تو قبۃ الصخرہ پر اسرائیلی پرچم لہرایا گیا، مگر بیس منٹ بعد ہی اسرائیلی وزیر دفاع موشے دایان نے اس پرچم کو اتارنے اور اس کا انتظام دوبارہ اردن کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔ ہماری گائیڈ بتا رہی تھی کہ وہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے غصے سے خائف تھے۔ گنبد پر اسرائیلی پرچم جوابی کارروائی کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔
خیر، مجھے بتایا گیا تھا کہ مسجد میںداخلے کے لیے مجھے اپنے آپ کو مسلمان ثابت کروانا پڑے گا۔ گیٹ کے باہر اسرائیلی سیکورٹی کا ہتھیار بند دستہ موجود تھا، بالکل سرینگر کی جامع مسجد کا سین لگ رہا تھا۔ ایک اہلکار نے مجھے کوئی سورۃ سنانے کے لیے کہا۔ اس امتحان کو پاس کرنے کے بعد اہلکار نے قرآن شریف اٹھا کر اس سے آیات پڑھنے کے لیے کہا۔ تسلی وتشفی کرنے کے بعد مجھے گیٹ کی طرف جانے کی اجازت مل گئی، مگر ابھی فلسطینی سیکورٹی کا سامنا کرنا باقی تھا۔ گیٹ کے اندر فلسطینی اہلکاروں نے پاسپورٹ مانگا۔ میں نے دیکھا وہاں بھی قرآن شریف رکھا ہوا تھا اور شناخت کا مرحلہ کچھ زیادہ ہی سخت تھا۔ ملایشیا کے ایک زائر کا ایک طرح سے انٹروگیشن ہو رہا تھا۔ اب شاید میری باری تھی ۔ میں نے پوری عربی صرف کر کے فلسطینی اہلکار کو بتایا کہ میں انڈین پاسپورٹ پر کشمیر سے تعلق رکھتا ہوں۔ پاسپورٹ میں میری جاے پیدایش دیکھ کر پلک جھپکتے ہی اس کا موڈ بدل گیا۔ کرسی سے کھڑا ہو کر گلے لگا کر اس نے اپنے افسر کو آواز دی اور عربی میں شاید میرے کشمیری ہونے کا اعلان کیا۔ مقبوضہ علاقوں کا مکین ہونے کا کنکشن بھی کیا عجیب ہوتا ہے ! بعد میں بھی فلسطینی علاقوں میں گھومنے کے دوران اس کا قدم قدم پر احساس ہوا۔ افسر نے بھی مصافحہ اور معانقہ کرنے کے بعد حکم دیا کہ نماز ادا کرنے کے بعد اس کے کیبن میں حاضر ہو جائوں۔
میں جب صف میں جگہ بنا رہا تھا تو امام صاحب خطبہ دے رہے تھے۔ اس کا ایک ایک لفظ دل ودماغ کو جیسے جھنجھوڑ رہا تھا۔ مجھے یقین ہی نہیں آ رہا تھاکہ میں ملت اسلامیہ کی مظلومیت کی نشانی مسجد اقصیٰ کے اندر اللہ کے رو برو کھڑا ہوں۔ نماز اور دعا کے بعد نعرۂ تکبیر کی صدائیں بھی بلند ہو رہی تھیں۔ صحن میں کئی مقرر زور وشور سے تقریریں کر رہے تھے ۔ بعد میں جمع ہو کر اپنے اپنے حامیوں کے ساتھ تبادلۂ خیال کرتے ہیں۔ مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنے اور دعا مانگنے کا احساس لفظوں میں بیان کرنا نا ممکن ہے۔
میں ایک کونے میں مسجد کی تاریخ کو کرید رہا تھا۔ بچپن میں سلاتے ہوئے دادی کی سنائی ہوئی پیغمبروں اور غازیوں کی کہانیاں دماغ میں گونج رہی تھیں کہ فلسطینی سیکورٹی افسر مجھے تلاش کرتے ہوئے آپہنچا۔ مجھے رقت آمیز دیکھ کر وہ بھی آب دیدہ ہو گیا۔ آخر میرا ہاتھ پکڑ کر مجمعے کے بیچ سے گزار کر وہ مجھے امام وخطیب اورمفتی اعظم محمد احمد حسین کے پاس لے گیا۔ وہ جنوبی ایشیا خاص طور پر کشمیر کے بارے میں استفسار کرتے رہے اور خاصی دعائیں دے کر رخصت کیا۔ بعد میں سیکورٹی افسر نے ایک انگریزی جاننے والے فلسطینی کے حوالے کیا، جو مجھے قبۃ الصخرہ کے اندر لے گیا۔
یہ دراصل ایک بڑی چٹان ہے جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم یہیں سے معراج کے سفر پر تشریف لے گئے، اور یہیں انھوں نے دیگر پیغمبروں کی امامت کرکے نماز پڑھائی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور دیگر پیغمبروں علیہم السلام نے بھی یہاں قیام کیا ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ چٹان کو کاٹ کر نیچے ایک خلا میں جانے کا راستہ بنایا گیا ہے جہاں پر زائرین دورکعت نفل نماز پڑھتے ہیں۔ میرا گائیڈ بتا رہا تھا آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج پر جاتے ہوئے یہ چٹان بھی اوپر اٹھ گئی تا آنکہ اس کو ٹھیرنے کا حکم ہوا۔ تب سے یہ چٹان اسی پوزیشن میں ہے اور اس کے نیچے ایک خلا پیدا ہو گیا ۔ گائیڈ واقعات کو دہراتے ہوئے واللہ ھو اعلم بالصواب بھی ساتھ ساتھ کہتا جا رہا تھا۔
حضرت عمر فاروقؓ جب اس شہر میں داخل ہوئے تو اس مقام پر بس چند کھنڈ ر باقی تھے۔ ہیکل سلیمانی کب کا تباہ ہو چکا تھا۔ اس چٹان کے شمال میں جہاں اب چاندی کے گنبد والی مسجد ہے، ایک چبوترا بچا تھا، جو ابھی بھی مسجد کے تہہ خانے میں موجود ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہی قبلۂ اوّل ہے۔ مسجد کے تہہ خانہ کے اندر جا کر پتا چلتا ہے کہ اس کی عمارت پتھر کے بنے لا تعداد دیو ہیکل ستونوں پر ٹکی ہے۔ یہیں محراب مریمؑ ہے،جہاں حضرت جبریل ؑ ان کے رُوبرو حاضر ہوئے۔ اس تہہ خانے میں ۱۰۹۹ء سے ۱۱۸۷ء تک کے مسیحی دور کی یادیں بھی تازہ ہیں، جب صلیبیوں نے ۸۸ برسوں تک اس کو ایک اصطبل بنایا تھا۔ ستونوں میں گھوڑوں کو باندھنے کے لیے گاڑی گئی میخوں کے نشانات ابھی بھی واضح ہیں۔
یروشلم جو مکمل طور پر اسرائیل کے قبضے میں ہے کے آبادیاتی تناسب کو بدلنے کے لیے حکام نے کئی قوانین ترتیب دیے ہیں۔ اگر کوئی مسلمان عورت شہر سے باہر شادی کرتی ہے تو اس کی پروشلم کی شہریت ختم ہو جاتی ہے۔ یہ ان لوگوں کا قانون ہے جو جنسی برابری اور آزادی کے علَم بردار ہیں۔ خود اسرائیل کی حدود میں مسلمانوں کا تناسب ۲۲ فی صد ہے۔ یروشلم میں ان کا تناسب ۳۶ فی صد ہے۔ یہ وہ فلسطینی ہیں جو اب اسرائیلی عرب کہلاتے ہیں۔ میرے قیام کے دوران ایک اسرائیلی عرب خاندان اپنے عزیز کی شادی میں شرکت کے لیے شہر سے باہر گیا ہوا تھا ۔ واپس آئے تو پرانے شہر میں واقع گھر کے دروازے کھلے ملے اور اندر ایک یہودی خاندان قیام پذیر تھا۔ ان کا پورا سازوسامان گلی میں پڑا تھا۔ معلوم ہوا کہ ان کی غیر موجودگی میں حکومت نے ان کا یہ آبائی گھر یہودی خاندان کو الاٹ کر دیا ہے۔ کئی روز سے یہ خاندان خواتین اور بچوں کے ساتھ فٹ پاتھ پر بیٹھا تھا۔
یروشلم آنے سے قبل مائونٹ کارمل اور بحیرہ روم کے بیچ خوب صورت شہر حیفہ میں یہودی مذہب کے اعلیٰ پیشوا، یعنی چیف ربی ہوتے ہیں جو تاحیات کے بجاے دس سال کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں۔ شاید اس یہودی عالم کے پاس وفد کے کوائف پہلے ہی پہنچ گئے تھے۔ چونکہ میں واحد مسلمان صحافی تھا اس لیے اس نے علیک سلیک کے بعد کہا کہ چند لوگ دنیا سے یہودیوں کا خاتمہ چاہتے ہیں، مگر ایسا نا ممکن ہے۔ کیوںکہ دنیا بھر میں ایک ارب سے زائد مسلمان روزانہ نماز میں حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد کے لیے سلامتی کی دعائیں مانگتے ہیں اور یہ ان کے ایمان کا جز ہے۔ انھی کی دعائوں کے طفیل آل ابراہیم (یعنی یہودی ) قائم ودائم ہیں۔ چونکہ اس استعاراتی گفتگو کا محور میں ہی تھا، اس لیے میں نے جواباً کہا : ’’یہ حقیقت ہے کہ حضرت اسماعیل ؑ اور حضرت اسحاق ؑ دونوں حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد ہیں اور اگر مسلمان آل اسماعیل ہیں تو یہودی آل اسحاق ہیں، مگر یہودی صحیفوں کے اصول وراثت کی رو سے بڑے بھائی کو ہی وسائل کا حق دار تسلیم کیا جاتا ہے اور خاندان کی سربراہی بھی اسی کو منتقل ہو جاتی ہے۔ اس اصول سے تو فلسطین اور اسرائیل پر مسلمانوں کا حق تسلیم شدہ ہے‘‘۔ یہودی عالم نے مسکراتے ہوئے گفتگو کا رخ موڑ دیا۔
چند روز بعد جب ہم ٹورسٹ بس میں اسرائیلی گائیڈ کے ہمراہ یروشلم سے براستہ دشت جودی، بحیرئہ مُردار (Dead Sea )کی طرف رواں تھے تو چند مواقع پر میں نے اس بھارت نژاد اسرائیلی خاتون گائیڈ کو تاریخی حوالے توڑنے مروڑنے پر ٹوکا تو اس نے مائیک میرے حوالے کرکے بقیہ سفر میں مجھے رہنمائی کرنے کے لیے کہا۔ پہلے تو میں سمجھا کہ شاید وہ میرے ٹوکنے سے ناراض ہو گئی ہے، مگر جب اس نے کہا کہ وہ خود تاریخ کا دوسرا رخ سننے کے لیے بے تاب ہے تو میں نے مائیک لے کر دشت جودی سے گزرتے ہوئے آس پاس کھنڈرات کے وسیع وعریض علاقوں ، حضرت لوط ؑ ، حضرت یحییٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ کے واقعات بیان کرنا شروع کر دیے۔
مجھے خود بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ الفاظ کا یہ سمندر کہاں سے اُمڈ آیا ہے۔ منزل پر پہنچ کر جب میں نے مائیک واپس گائیڈ کے حوالے کیا تو کسی کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ میں اس سر زمین میں پہلی بار وارد ہوا ہوں۔ دی ٹیلی گراف کے سفارتی ایڈیٹر کے پی نیئر نے جب مجھ سے اس بارے میں استفسار کیا تو مجھ سے صرف یہی جواب بن پڑا کہ :’’ارض فلسطین دنیا بھر کے مسلمانوں کی رگوں میں خون کی طرح موجود ہے‘‘۔
حال ہی میں دہلی کی تہاڑ جیل [قیام: ۱۹۵۷ء]میں ۱۸کشمیری قیدیوں کی اذیت رسانی کی جو تصاویر سامنے آئی ہیں، وہ کسی بھی مہذب معاشرے کو شرمندہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔ دہلی ہائی کورٹ کی جانب سے قائم ایک تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی ۱۱۱صفحات پر مشتمل رپورٹ میں نہ صرف اس ٹارچر کی تصدیق کی، بلکہ یہ جملہ بھی کہا کہ: ’جیل حکام اور سیکورٹی پر مامور اسپیشل فورس نے بغیر کسی معقول وجہ کے ان قیدیوں کو تختۂ مشق بنایا‘۔ انٹیروگیشن یا تفتیش کے دوران پولیس اور دیگر تفتیشی ایجنسیاں دُنیا بھر میں ملزم سے اقبال جرم کروانے کے لیے ٹارچر کو ایک حربے کے طور پر استعمال کرتی آرہی ہیں۔ تاہم، بعد از تفتیش جب ملزم عدالتی کارروائی کا سامنا کرنے کے لیے جیل حکام کی تحویل میں ہوتا ہے تو وہاں ٹارچر کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ گو کہ بھارت میں دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح جیلیں ابھی تک بلندوبانگ دعوئوں کے باوجود ’اخلاقی تربیتی مراکز‘ کے بجاے تعذیب خانے ہی ہیں، مگر جوں ہی جیل میں کسی کشمیری یا پاکستانی قیدی کا داخلہ ہوتا ہے، تو جیل حکام، چاہے وہ سیکورٹی پر مامور اہل کار ہو یا ڈاکٹر یا سوشل ورک آفیسر میں ان قیدیوں پر ظالمانہ، شرم ناک اور حددرجہ گھٹیا طریقوں سے تشدد کرنے کی خواہش ایک دم جاگ اُٹھتی ہے۔ ’بھارت ماتا‘ کے یہ سپوت ان بدنصیب قیدیوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔
بھارت میں دہلی کی تہاڑ جیل کو ایک ماڈل جیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اکثر حکام اس کو جیل کے نام سے موسوم کرنے پر بھڑک اُٹھتے ہیں اور اس کو ’تہاڑ آشرم‘ یا ’اصلاح خانہ‘ کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ اگر تعذیب کی خبریں اس آشرم سے آرہی ہوں تو ملک کی دیگر جیلوں کا کیا حال ہوگا؟
۲۰۱۱ء میں ڈنمارک کی ہائی کورٹ نے ۱۹۹۵ء میں بنگال کے ضلع پورنیا میں جہاز سے ہتھیار گرانے کے واقعے میں ملزم کم پیٹرڈیوی کو بھارت کے حوالے کرنے کی درخواست مسترد کردی۔ کورٹ نے کم ڈیوی کی اس دلیل کو تسلیم کیا کہ بھارت میں جیلوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ ڈیوی بھارت میں ایک انتہائی مطلوب ملزم ہے۔ بھارت کا اصرار تھا کہ ڈنمارک کی حکومت عدالتی کارروائی میں مداخلت کرکے اس کو بھارت کے حوالے کر دے، مگر اس مطالبے کو وہاں کی حکومت نے سختی کے ساتھ مسترد کر دیا۔ اسی طرح ۹۰؍ارب روپے کے مبینہ فراڈ میں ملوث لندن میں پناہ لینے والے بھارت کے ایک معروف صنعت کار وجے مالیہ نے بھی برطانوی کورٹ میں بھارت کے ایما پر دائر کی گئی حوالگی کی درخواست کے خلاف بھارتی جیلوں کی خراب حالت او ر انسانی حقوق کی زبوں حالی کی دہائی دی ہے۔
دہلی کی تہاڑ جیل کی اس ’مہمان نوازی‘ کا مجھے بھی براہِ راست تجربہ ہے۔ ۱۰ سال قبل جب جون کے جھلسا دینے والے دن مجھے عدالت نے دہلی پولیس کی مسلح بٹالین کے سپردکر کے عدالتی حراست میں بھیج دیا، تو میرے کیس کی تفتیش پر مامور دہلی پولیس کے اسپیشل سیل کے ایک افسر نے ازراہِ مروت کھانے کا ایک پیکٹ میرے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ: ’جیل میں داخلے کی خانہ پُری میں بہت وقت لگتا ہے اور کبھی کبھی تو نیا قیدی جیل میں رات کے کھانے سے محروم رہ جاتاہے۔ کھانے کا پیکٹ ہاتھ میں تھماکر مجھے پنجرے جیسی بس میں پھینک دیا گیا۔ قبل اس کے میں اپنے حواس پر قابو پاتا، بس میں موجود قیدی مجھ پر جھپٹ پڑے اور یہ سمجھنے میں مجھے کوئی مشکل پیش نہ آئی کہ وہ مجھ پر نہیں، بلکہ بندروں کی طرح کھانے پر جھپٹے تھے۔ میں نے خود کو بچانے کے لیے کھانے کا پیکٹ فرش پر پھینک دیا۔ پیکٹ پھٹ گیا۔ اس میں دال اور سبزی فرش پر بکھر گئے۔ میرے یہ ہم سفر گردوغبار سے اَٹے فرش سے اُٹھا اُٹھا کر ایک ایک دانہ چٹ کر گئے۔’’واہ کیا بات ہے۔ ایک سال بعد تڑکے والا کھانا نصیب ہوا ہے‘‘ ایک قیدی نے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔ یہ منظر واقعی قابلِ رحم اور مضحکہ خیز بھی تھا۔
اگلےآٹھ ماہ میں نے دیکھا کہ عدالت سے جیل یا واپسی کے دوران اس بس میں چاہے کتنی مارپیٹ ہو یا پھر چاہے قتل کی واردات کیوں نہ ہوجائے، پولیس والے اندر آنے کی زحمت نہیں کرتے۔ حالات اگر زیادہ ہی بے قابو ہوں تو اعصاب شل کرنے کے لیے باہر سے گیس چھوڑ کر قیدیوں کو بے ہوش کر دیا جاتا ہے۔
تہاڑ دراصل نو جیلوں کا مجموعہ ہے۔ مجھے جیل نمبر تین کے درواز ے پر اُتار کر پولیس نے دیگر نئے آنے والے قیدیوں کے ساتھ جیل حکام کے حوالے کر دیا۔ دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی ایک ڈیسک کے چاروں طرف کھڑے جیل ملازمین میں بڑبڑاہٹ سنائی دی۔ مجھے سیدھے جیل سپرنٹنڈنٹ کے دفتر سے متصل ایک کمرے میں لے جایا گیا، جہاں ۱۰، ۱۲ ؍افراد موجود تھے۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی میرا نام پوچھا گیا۔ ابھی میں نام بتا بھی نہیں پایا تھا، کہ سپرنٹنڈنٹ صاحب نے میرے منہ پر زور کا تھپڑ رسید کیا۔ یہ باقی افراد کے لیے اشارہ تھا۔ پھر کیا، وہ سبھی ایک ساتھ مجھ پر پل پڑے۔ خود اس اعلیٰ افسر نے میرے بالوں کو ہاتھ میں جکڑ کر میرا سر میز پر دے مارا۔ میرے منہ، ناک اور کان سے خون رسنے لگا۔ اس کے ساتھ ساتھ کوئی وقفہ کیے بغیر مسلسل گالیاں دی جارہی تھیں۔ میں نے دیکھا کہ وہاں کچھ لوگ قیدیوں کو ڈنڈوںسےپیٹ رہے تھے۔
’’تم جیسے لوگوں کو زندہ رہنے کا حق نہیں ہے، ان سالے غداروں کو سیدھے پھانسی دینی چاہیے‘‘۔ یہ نعرہ ایک زیرسماعت قیدی ونود پنچم کا تھا۔ بعد میں جیل کے اندر اس نے مجھے ’حب الوطنی‘ کا سبق سکھانے کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیا۔ یہ ’درس‘ میری بے ہوشی تک جاری رہا۔ ہوش میں آنے کے بعد میں نے خود کو راہداری میں پڑا پایا۔ میرا چہرہ خون سے لت پت تھا۔ حکم ہوا کہ جاکر اپنا چہرہ دھو ڈالو۔ باتھ روم میں جاتے ہوئے بھی گالیاں میرا پیچھا کر رہی تھیں۔ ابھی میں راستے ہی میں تھا کہ کرخت آواز میں حکم ملا کہ’’ٹائلٹ صاف کرو‘‘۔ یہ ٹائلٹ کسی بس اڈے کے سرکاری پاخانے کی طرح متعفن اور غلیظ تھا۔ میں اِدھر اُدھر کسی کپڑے کو تلاش کرنے کے لیے نظریں دوڑانے لگا، تو حکم ہوا کہ ’’اپنی شرٹ اُتار کر اسی سے صاف کرو‘‘۔ حکم ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا اور ٹائلٹ صاف کرنے میں تقریباً ایک گھنٹہ لگا۔
اسی دوران نئے قیدیوں کا جیل میں داخل ہونے کا عمل شروع ہوچکا تھا۔ جیل کے افسر اور ایک ڈاکٹر کے علاوہ کچھ منظورِ نظر قیدی اس کام میں معاونت کر رہے تھے۔ معائنہ کرتے ہوئے ڈاکٹر کا جذبہ ’حُب الوطنی‘ بھی جوش میں آیا۔ اس نے اپنے پیشے کا لحاظ کیے بغیر گالیوں کی بارش کرتے ہوئے پیٹنا شروع کر دیا۔ اب اس نے مجھ سے لکھ کر دینے کو کہا کہ: ’یہ زخم پولیس حراست کے دوران آئے ہیں، جیل میں نہیں آئے‘۔ میں نے پہلی بار جرأت کا مظاہرہ کرکے رپورٹ پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔
کارروائی مکمل کرتے ہی جیل افسر نے کہا:’’قمیص کہاں ہے؟‘‘ میں نے کہا: ’’باتھ روم میں پھینک آیا ہوں‘‘۔ حکم دیا گیا، ’’جائواور جیسی بھی ہے پہن کر آئو‘‘۔ قمیص اتنی گندی تھی کہ مجھے قے آنے لگی۔ پھر بھی اگلے تین روز تک جون کی جھلستی گرمی میں مجھے وہی غلاظت بھری قمیص پہننا پڑی۔ اس دوران قمیص اُتارنے کی اور نہ غسل خانے جانے ہی کی اجازت ملی۔
یہ بھارت کی ماڈرن تہاڑ جیل کے ساتھ میری ابتدائی ملاقات تھی۔ اگلے آٹھ ماہ تذلیل و تضحیک کے اَن گنت واقعات کا مَیں چشم دید گواہ بنا اور ان میں اکثر واقعات خود میرے ساتھ پیش آئے۔ ابتدائی چند ماہ چھوڑ کر عمومی طور پر بھارتی میڈیا، سیاسی پارٹیوں اور خود اس وقت کی حکومت کے اندر بھی چند خیرخواہوں نے میرے لیے آواز بلند کی اور میری رہائی کے لیے ایک طرح سے مہم چلائی۔ اس لیے اگر اس طرح کے واقعات میرے ساتھ پیش آسکتے ہیں، اندازہ کیجیے کہ ایک بے یارومددگارکشمیری یا پاکستانی قیدی کے ساتھ کس طرح کا سلوک جیل میں کیا جاتا ہوگا!
حالاں کہ بھارت کی عدالت عظمیٰ نے اپنے بہت سے فیصلوں میں قیدیوں کے حقوق پر زور دیا ہے، لیکن جیلوں کی حالت اُس کے بالکل برعکس ہے جو قانون کی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے۔ قیدیوں پر نظررکھنے کے لیے ان کے بیچ مخبروں کی موجودگی، تہاڑ جیل کے پس منظر میں ’شعلے‘ فلم کی جیل میں واحد مماثلت نہیں ہے۔ ’شعلے‘ کا جیلر یہاں حقیقی شکل میں نظر آتاہے۔ جیل کے عملے کا رویہ بھی فلم کے جیلر سے مختلف نہیں ہے، جس کا مشہور مکالمہ تھا: ’’ہم انگریزوں کے زمانے کے جیلر ہیں۔ ہم ان لوگوں میں سے نہیں جو قیدیوں کو سدھارنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ تم کبھی نہیں سدھرو گے‘‘۔ گنجایش سے زیادہ قیدیوں کی موجودگی، اُوپر سے نیچے تک پھیلی ہوئی بدعنوانیاں، غیرتربیت یافتہ جیل اسٹاف اور جیل اسٹاف اور جیل انتظامیہ کا فرسودہ اندازِفکروعمل، استعماری دور کے جیل مینوئل آج بھی نافذالعمل ہیں۔ انھی فرسودہ قوانین کا نتیجہ ہے کہ جیل کے حکام قیدیوں کو ان کے حقوق دینے سے انکار کرتے ہیں۔
ایک دن مجھے جیل کی لائبریری کے نیم خواندہ نگران (جو خود ایک سزا یافتہ سکھ قیدی تھا) نے طلب کرکے کتابوں کی ایک فہرست تیار کرنے کے لیے کہا اور بتایا کہ حکومت نے جیل کی لائبریری کے لیے کتابیں خریدنے کے مقصد سے بجٹ فراہم کیا ہے۔ میں نے قانون، لیڈروں کی جیل ڈائریوں، اوپن یونی ورسٹی سے کورس کرنے والےقیدیوں کی ضرورت کو مدنظر رکھنے کے ساتھ ساتھ جیل مینوئل اور جیل ضابطوں سے متعلق کتابوں کو بھی شامل کر کےلسٹ تیار کرکے اس کے حوالے کی۔ نگران نے اس لسٹ کواسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ کو پیش کر کےاپنی دانش وَری کی دھاک جمانے کی کوشش کی۔ شاید یہ دھاک جم بھی جاتی، مگر فہرست میں جیل مینوئل اور قیدیوں کے حقوق سے متعلق کتابیں دیکھ کر جیل حکام کا پارہ چڑھ گیا۔ نگران نے فوراً میرا نام لیا۔ مجھے جیل کنٹرول روم میں طلب کیا گیا۔ میں نے وہاں دیکھا کہ سردارجی کو اُلٹا لٹکایا گیا ہے اور ان پر لاٹھیوں کی بارش ہورہی ہے۔ ان کی دانش وَری کا ڈبہ تو پہلے ہی گول ہوگیا تھا۔ وہ زار وقطار رحم کی بھیک مانگ کر پورا ملبہ میرے اُوپر ڈال رہے تھے۔ ساتھ ہی میرا انیٹروگیشن شروع ہوگیا۔
میں نے موقعے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے کہہ دیا کہ: ’’مجھے معلوم نہیں تھا کہ جیل کے قوانین سے متعلق کتابیں ممنوع ہیں اور معافی کا خواستگار ہوں‘‘۔ اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ نے مسکرا کر کہا: ’’میں جانتا تھا کہ یہ فہرست سردار جی تیار نہیں کرسکتے تھے‘‘۔
میرے دورِ زندان تک باقی کتابیں بھی کبھی لائبریری میں نہیں پہنچیں اور کسی کو معلوم نہیں کہ کتابوں کے لیے مختص اس بجٹ کا کیا ہوا۔ کہتے ہیں: علم آزادی کی چابی ہے۔ لیکن قیدیوں کا جیل کے قوانین کا علم حاصل کرنا جیل انتظامیہ اپنے لیے اچھا شگون نہیںسمجھتی، کیونکہ غلامی اور جہالت لازم و ملزوم ہے۔