مسئلہ فلسطین اور خاص طور پر بیت المقدس کے بارے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ۶دسمبر ۲۰۱۷ء کا شرم ناک اعلان، جہاں فلسطین اور عالمِ اسلام کے خلاف ایک اعلانِ جنگ کی حیثیت رکھتا ہے، وہیں بین الاقوامی قانون، جنیوا معاہدات (جنیوا کنونشن) اور اقوامِ متحدہ اور اس کے چارٹر سے بھی عملاً امریکا کی لاتعلقی کا اعلان ہے۔ فکری اور عملی، ہردواعتبار سے اس کے بڑے دُور رس اثرات ہیں جن کو سمجھنا اور ان کے شرسے بچنے کے لیے صحیح اور مؤثر حکمت عملی اور لائحۂ عمل بنانا وقت کا اصل چیلنج ہے۔
عالمِ اسلام کے لیے خاص طور پر اور عالمی برادری کے لیے عام طور پر، اس ضمن میں افسوس اور غصے کا اظہار بالکل فطری چیز ہے، لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس خطرناک اعلان کے جو تباہ کن اثرات اور نتائج و عواقب (consequences) ہیں، ان کا صحیح ادراک پیدا کیا جائے۔ ہم کوشش کریں گے کہ اس سلسلے کے چند اہم ترین پہلوئوں کی نشان دہی کریں اور مسلم اُمت اور عالمی برادری کو اس طرف متوجہ کریں کہ امریکا کی موجودہ قیادت، قیامت کی جو چال چل گئی ہے، اس کا کس طرح مقابلہ کیا جائے؟
درحقیقت صدر ٹرمپ سے بالکل ایسی ہی عاقبت نااندیشی، حماقت اور سفاکی کے اقدام کا خطرہ تھا، اس لیے یہ بیان کسی پہلو سے بھی غیرمتوقع نہیں ہے۔ جو اہلِ قلم ، دانش ور اور سیاست دان اس سے کسی بھلے اقدام کی توقع رکھتے تھے یا سمجھتے تھے کہ عالمی سوپرپاور کا صدر اتنا غیرذمہ دار نہیں ہوسکتا، وہ صدر ٹرمپ اور اسرائیل کے اصل ایجنڈے کا اِدراک ہی نہیں رکھتے اور نوشتۂ دیوار کو پڑھنے میں غلطی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ اسرائیل اور شرقِ اوسط کے بارے میں صدر ٹرمپ کے اصل بھروسے کے لوگوں میں تین افراد بہت اہم ہیں: ۱- جیسن گرین بی لاٹ (صدر ٹرمپ کے ڈپلومیٹک ایڈوائزر)،۲- ڈیوڈ فریڈمین (اسرائیل میں امریکا کے سفیر اور ایک مدت سے سرزمینِ فلسطین پر صہیونی آبادکاری کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کرنے والے)، ۳- جارید کشنر (موصوف کے داماد، نیتن یاہو کے وفادار اور صدر امریکا کے دست ِ راست)۔ یہ تثلیث مسئلہ فلسطین کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے ایک خطرناک منصوبے پر کاربند ہے۔
اس منصوبے کے مطابق شرقِ اوسط میں سُنّی اور شیعہ تصادم کا فروغ، اسرائیلی اور ’سُنّی اسلام‘ کا متحدہ محاذ، فلسطین کی آزاد ریاست کے تصور کو دفن کر کے بیت المقدس کو اسرائیل کا مستقل دارالحکومت بنانا اور فلسطینیوں کے لیے ایک ایسی بے معنی ضمنی ریاست کا قیام جو چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں پر مشتمل ہو، جس کی کوئی مستقل فوج نہ ہو، جس کا دارالحکومت بیت المقدس سے چندکلومیٹر کے فاصلے پر ایک گائوں ابودیس (Abu Dis) ہو، اور جو ایسی کٹی پھٹی، لولی لنگڑی اور کمزور (نام نہاد) ریاست ہو، جو معاشی طور پر کبھی خودکفیل نہ ہوسکے اور جو ہمیشہ مالی اعتبار سے امریکا اور چند دوسرے ممالک پر منحصر رہے۔
اس شیطانی منصوبے کے لیے امریکا اور اسرائیل نے جو لائحۂ عمل بنایا ہے اور امریکی اخبارات کے مطابق جس کے سلسلے میں کچھ عرب ممالک کو بھی اعتماد میں لے لیا گیا ہے، اسے ۲۰۱۸ء کے شروع میں ارضِ فلسطین پر مسلط کرنے کا پروگرام ہے۔ اس اصل پروگرام کے پیش خیمہ کے طور پر ہی ۶دسمبر کا اعلان کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کی بیت المقدس میں منتقلی کے بارے میں ۱۹۹۵ء کا جو امریکی قانون ہے، اس کے تحت ہر چھے مہینے گزرنے پر صدر کو سفارت خانہ منتقل نہ کرنے کے لیے مزید مہلت کی دستاویز پر دستخط کرنا پڑتے ہیں اور اس مشق پر ۲۲سال سے عمل ہورہا تھا۔ اسی تسلسل میں خود صدر ٹرمپ نے جون ۲۰۱۷ء میں سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا۔ اب اس روش کو تبدیل کرکے نئے منصوبے کی طرف پیش رفت کے لیے سفارت خانے کی منتقلی کا لائحہ عمل دینا مطلوب ہے۔
ٹرمپ اور اس کے حواریوں کا خیال تھا کہ یہ پہلا قدم، مختصر نمایشی احتجاج کے ساتھ قبول کرلیا جائے گا اور پھر جنوری/فروری ۲۰۱۸ء میں پورے منصوبے کا اعلان ہوگا۔ لیکن صدر ٹرمپ اور اسرائیل کا یہ خطرناک کھیل پہلے ہی قدم پر زمین بوس ہوتا نظر آرہا ہے۔ اسے فلسطینیوں، اُمت مسلمہ اور عالمی برادری کی بڑی اکثریت نے جارحانہ اقدام اور ’ریڈلائن‘ کو روندنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ اس اعلان کو عملاً بیت المقدس کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرنے اور اسرائیلی جارحیت کو سند ِ جواز فراہم کرنے کی جارحانہ کارروائی قرار دیا، نیز فلسطین اور اُمت مسلمہ نے اسے اقدامِ جنگ کے مترادف قرار دیا ہے۔ مزیدبرآں اقوامِ متحدہ میں امریکا کو منہ کی کھانا پڑی۔ ساری دھونس، دھمکی اور سامراجی فرعونیت کے اظہار کے باوجود،سلامتی کونسل میں امریکا بالکل تنہا رہ گیا اور باقی چودہ کے چودہ ارکان نے اس اقدام کو غلط، غیرقانونی اور ناقابلِ قبول قرار دیا، البتہ امریکی ’ویٹو‘ (حقِ استرداد)کی وجہ سے قرارداد نامنظور ہوگئی۔ اس کے جواب میں جنرل اسمبلی نے ۹ کے مقابلے میں ۱۲۸ووٹوں کی اکثریت سے امریکا کے اس اقدام کی نہ صرف مذمت کی بلکہ اسے باطل اور بے اثر (null and void) قرار دیا، جو امریکا کے منہ پر ایک بھرپور طمانچا ہے۔ عرب لیگ نے کمزور الفاظ میں، جب کہ ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) نے استنبول میں منعقدہ سربراہی اجلاس میں دوٹوک الفاظ میں اسے رد کر دیا۔
عیسائی دُنیا کے اہم ترین اداروں اور شخصیات بشمول رومن کیتھولک سربراہ پوپ فرانسس، گریک آرتھوڈوکس کے سربراہ پیٹریارک تھیوفیلوس سوم اور مصر کے قبطی چرچ کے سربراہ نے نہ صرف اس کی مذمت کی، بلکہ امریکی نائب صدر سے ملنے سے بھی اسی طرح انکار کر دیا، جس طرح فلسطین اتھارٹی کے سربراہ محمودعباس نے انکار کیا ہے۔ فلسطین کی عیسائی قیادت نے بھی اس اقدام کو تسلیم کرنے سے صاف لفظوں میں انکار کر دیا۔ یروشلم کے آرچ بشپ عطالاحنا کے الفاظ ہیں: ’’ہم فلسطینی، مسیحی اور مسلمان، امریکا کی جانب سے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت بنانے کے فیصلے کو مسترد کرتے ہیں‘‘۔
مسلم اُمت نے پوری یک جہتی سے اور عالمی برادری کی عظیم اکثریت نے امریکا کے اس جارحانہ قدم کو رد کیا ہے۔ الحمدللہ، یہ اقدام بیداری کی ایک سبیل (wake up call) بن گیا ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ امریکا اور اسرائیل کے ہاتھوں مسئلہ فلسطین کوتتربتر( liquidate ) کرنے کے منصوبے کو خاک میں ملانے اور اس کے خلاف صف آرا ہونے کی تحریک کو قوت اور تحرک عطا کرنے کا باعث ہوگا۔ انسان کیا سوچتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی حکمت کیا ہوتی ہے؟
فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ یَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًاO (النساء ۴:۱۹) ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔
یہاں چند بنیادی حقائق بہت ہی اختصار کے ساتھ پیش نظر رہیں، تاکہ درپیش چیلنج کی وسعت اور حقیقی نوعیت کو بہتر طورپر سمجھا جاسکے اور آگے کی حکمت عملی کے خدوخال طے کیے جاسکیں:
بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کے انعامات اور بنی اسرائیل کی نافرمانیاں نہ صرف تاریخ کا حصہ ہیں بلکہ خود ان کی مقدس کتب اور قرآنِ پاک ان پر شاہدہیں۔ بنی اسرائیل کو ارضِ فلسطین پر کم از کم گذشتہ دوہزار سال میں کبھی اقتدار حاصل نہیں رہا اور ان کا یہ دعویٰ کہ: ’’یروشلم تین ہزار سال سے ان کا دارالحکومت ہے‘‘، اور صدرٹرمپ کا اسے ایک حقیقت (reality) کے طور پر پیش کرنا تاریخی بددیانتی کی بدترین مثال ہے۔ صہیونی تحریک ایک سیکولر، خالص سیاسی اور اپنی اصل کے اعتبار سے سامراجی تحریک ہے، جس نے مذہب کی اصطلاحات اور جذبات کو استعمال کیا ہے اور آج کے منظرنامے کو سمجھنے کے لیے اس پہلو کی تفہیم ضروری ہے۔
مسلمانوں کے ۱۳سو سالہ دورِ حکومت میں، ارضِ فلسطین میں جو یہودی بھی آباد تھے وہ ریاست کے شہریوں کی حیثیت رکھتے تھے۔ پھر یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ۱۹ویں صدی کے اواخر میں جب صہیونی تحریک نے ارضِ فلسطین میں دَراندازی شروع کی، تو فلسطین کے مسلمان ہی نہیں، وہاں کے نسلاً بعد نسلاً رہنے والے یہودی بھی اس کے مخالف تھے۔ ہماری اس گزارش کا مقصد بھی دو اُمور کی وضاحت ہے: ایک یہ کہ ارضِ فلسطین پر یہودیوں کا وجود نہ کبھی مسئلہ تھا اور نہ آج کوئی قضیہ ہے۔ دوسرا یہ کہ فطری انداز میں انتقالِ آبادی پر بھی کبھی کسی کو اعتراض نہیں ہوا۔ لیکن صہیونی تحریک نے سامراجی انداز میں، قوت اور دولت کی بنیاد پر پہلے دولت ِ عثمانیہ کی قیادت کو رشوت کی پیش کش کی گئی، لیکن وہ قبول نہ کی گئی، پھر سلطنت ِ عثمانیہ کے خلاف سازشیں کیں، اور بعدازاں ارضِ فلسطین پر فرانسیسی اور برطانوی سامراج کے قبضے کے بعد ان کی سرپرستی میں ایسی منظم انتقالِ آبادی کی، جس نے فلسطین میں آبادی کے تناسب (demographic composition ) کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا۔ اس کے بعد یہ افسانہ وضع کیاکہ: ’’فلسطین ، وہ سرزمین ہے جہاں انسان نہیں ہیں، اور یہودی وہ قوم ہیں جنھیں زمین میسر نہیں‘‘___ دراصل یہ حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے کہ فلسطین کی آبادکاری اور بازیافت یہودیوں کا تاریخی مشن ہے۔ یہ صریح جھوٹ ہے جس کا پردہ چاک ہونا چاہیے۔ ۱۹۱۷ء میں اعلانِ بالفور کے وقت فلسطین کی آبادی ۸لاکھ افراد سے زیادہ تھی ، جب کہ کُل یہودی ۵۳ہزار کے قریب تھے، اس طرح یہود، کُل آبادی کا ساڑھے تین فی صد تھے.
عرب ممالک کی کمزوری اور اہلِ فلسطین سے بے وفائی کے نتیجے میں، ۱۹۴۵ء-۱۹۴۷ء کی جنگ کے دوران اسرائیل نے ارضِ فلسطین کے ۷۵ فی صد حصے پر قبضہ کرلیا۔ پھر جون ۱۹۶۷ء کی جنگ کے نتیجے میں پوری ارضِ فلسطین اور اس کے علاوہ سطح مرتفع گولان (Golan Heights) اور صحراے سینا کے پورے علاقے پر قبضہ کرلیا۔ اس طرح علمِ سیاست کی اصطلاح میں اسرائیل متعین سرحدیں رکھنے والی ریاست نہیں ہے، بلکہ یہ قابض اور وضع کردہ جارح ریاست ہے۔
طرفہ تماشا دیکھیے کہ صدر ٹرمپ نے اس قرارداد اور اس کے بعد کی قراردادوں کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے ۶دسمبر کا اعلان کیا ہے، جو صریح طور پر بین الاقوامی قانون، اقوامِ متحدہ کے واضح قانونی اور قابلِ تنفیذ احکام اور خود امریکا کی اپنی قبول کردہ پالیسی کے خلاف ہے۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کا خلاصہ یہ ہے:
قرارداد کے یہ پانچوں نکات بہت واضح (incisive) اور قطعی (categorical) ہیں۔ امریکی صدر نے ۶دسمبر کے اعلان کے ذریعے ان سب کی خلاف ورزی کی ہے، جس سے امریکا اقوامِ متحدہ ہی نہیں عالمی قانون اور پوری عالمی برادری کی عدالت میں ایک مجرم بن گیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی نے اس اعلان کے بعد اپنی ۱۹۸۰ء کی قرارداد کا اعادہ کیا ہے، اور جنرل اسمبلی نے ۲۱دسمبر ۲۰۱۷ء کو ۹ کے مقابلے میں ۱۲۸ ووٹوں کی اکثریت سے امریکی اقدام کی جو مذمت کی ہے اور اسے غلط اور غیرقانونی قراردیا ہے، وہ اسی پوزیشن کا تازہ ترین اظہار و اعلان ہے۔
ان گزارشات کی روشنی میں اگر امریکی صدر کے اس اعلان کا جائزہ لیا جائے تو درج ذیل اُمور واضح ہوتے ہیں:
اقوامِ متحدہ کے ارکان کو ڈرانے، دھمکانے اور امداد کی چھڑی استعمال کرنے کے جو بھونڈے ہتھکنڈے انھوں نے خود اور ان کی بھارتی النسل اقوام متحدہ میں مستقل نمایندہ ’نِکی ہیلی‘ نے استعمال کیے ہیں، اس سے امریکا کے چہرے سے وہ نقاب اُترگئی، جو اس کے بدنما داغوں کو ڈھانپے ہوئے تھی۔امریکا نے کہا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے لیے اپنی مالی اعانت میں ۲۸کروڑ ۵۰لاکھ ڈالر کی کٹوتی کرے گا اور خلاف ووٹ دینے والے ممالک کو بھی بیرونی امداد بندکرنے یا کم کرنے کی دھمکی دے رہا ہے۔
بین الاقوامی مسائل کے بارے میں اپنے تعصبات کو دوسروں پر مسلط کرنے کے لیے مالی ہتھیار کا اس طرح استعمال امریکا کی خارجہ پالیسی اور اس کے اندازِ حکمرانی کی بڑی مکروہ شکل پیش کرتا ہے، اور معاشی ترقی اور انسانی ہمدردی کے تمام دعوئوں کی قلعی کھول دیتا ہے۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے اس کا بڑا مؤثر جواب دیا ہے کہ: ’’ہماری راے اور عزت کوئی قابلِ فروخت شے نہیں ہے‘‘، اور دولت کے بھروسے پر ضمیر خریدنے کا یہ کاروبار کسی بھی قوم کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہے۔ امریکی صدر، امریکا کے چہرے کو اور بھی داغ دار کررہے ہیں۔
نیویارک ٹائمز کے کالم نگار رک گلیڈسٹون اور مارک لینڈلرنے ۲۲دسمبر کی اشاعت میں اسے اقوامِ عالم کی طرف سے امریکا کے لیے ایک واضح سرزنش اور ملامت (rebuke) قرار دیا ہے، اور کہا ہے کہ دنیا کی اقوام نے امریکا کی دھمکیوں کو کوئی وقعت نہیں دی۔ کالم نگاروں نے اس پورے عمل کو صدرٹرمپ کے لیے ایک شکست خوردگی (setback) بھی کہا ہے۔
اسی طرح امریکا کے اہم اخبارات اور دانش وروں اور سابقہ پالیسی سازوں کی ایک تعداد نے اس فیصلے کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ Congressional Progressive Caucus کے سربراہ نے اس اقدام کو امریکا کے مفاد سے متصادم اور علاقے میں امن کے قیام کی کوششوں کی راہ میں مشکلات کے اضافے کا باعث قرار دیا ہے۔ سب سے زیادہ چشم کشا سروے وہ ہے، جو امریکی یہودیوں کے ایک نمایندہ ادارے Global Jewish Advocacy (AJC) نے ستمبر ۲۰۱۷ء میں کروایا تھا، اور جس کے مطابق اس اقدام سے پہلے، متوقع راے عامہ کو معلوم کرنے والے اس جائزے کی رُو سے ۴۴فی صد امریکی یہودیوں کا خیال ہے کہ امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل نہیں ہونا چاہیے۔۳۶ فی صد کا خیال ہے کہ اگر اسے منتقل کرنا ہی ہے تو یہ مسئلۂ فلسطین کے بارے امن مذاکرات کے حصے کے طور پر ہونا چاہیے، اور صرف ۱۶ فی صد اس راے کے حامی ہیں کہ اسے منتقل کر دینا چاہیے۔ اسی طرح دوامریکی یونی ورسٹیوں کے زیراہتمام کیے جانے والے سروے میں، عام امریکیوں کی راے کے مطابق ۶۱فی صد کے نزدیک منتقلی درست نہیں۔ اگرامریکی راے عامہ کے رجحانات کے بارے میں یہ سروے درست ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خود امریکا میں اس سلسلے میں مؤثر مزاحمتی تحریک کو فروغ دینے کے بارے میں امکانات خاصے روشن ہیں۔ (میڈابنجمن، ایریل گولڈ: Where are the Democrats? ، [ commondreams.org]بحوالہ دی نیوز، ۱۴دسمبر۱۷ء)
سی این این کے انٹرنیشنل ڈپلومیٹک ایڈیٹر نِک روبرٹسن نے بھی ۱۰دسمبر ۲۰۱۷ء کو ادارے کی ویب پر شائع کردہ مضمون: Trump has to Live with the Consequences of his Israel Decision میں فلسطین کے عوام اور سفارتی حلقوں دونوں کے ردعمل کی روشنی میں اس راے کا اظہار کیا ہے کہ: ’’ٹرمپ نے اس وقت اس مسئلے کو چھیڑ کر بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالا ہے اور امریکا کے لیے اس کے اثرات مضر ہوں گے‘‘۔
حالات اور رجحانات کے اس جائزے کی روشنی میں ہم محسوس کرتے ہیں کہ امریکی صدر کے اس اقدام کے اثرات محض وقتی نہیں ہوں گے بلکہ بڑے دُور رس ہوں گے۔ بحیثیت مجموعی اس سے امریکا کو نقصان پہنچے گا۔ اس کے دوستوں میں کمی آئے گی اور مخالفت میں اضافہ ہوگا۔ ویسے بھی دنیا کے حالات بدل رہے ہیں۔ امریکا گو اب بھی دنیا کی اہم ترین عسکری اور سیاسی قوت ہے، لیکن گذشتہ ۲۰برسوں میں اس کی قوت اور اثرات میں کمی واقع ہوئی ہے، کوئی اضافہ نہیں ہوا۔
روس کے ۱۹۹۰ء کے عالمی قوت کی حیثیت سے غیرمؤثر ہونے کے بعد جو صورتِ حال پیدا ہوئی تھی، اور اس کے فوراً بعد دوعشروں میں امریکا کے نہ صرف واحد سوپر پاور ہونے اور اس حیثیت کو ۲۱ویں صدی میں بھی برقرار رکھنے کے لیے جو غوغا آرائی اور سخن سازی کی گئی تھی، وہ پادر ہوا ہو رہی ہے۔ اس زمانے میں عوامی جمہوریہ چین نے غیرمعمولی ترقی کی ہے اور وہ دوسری عالمی قوت کی حیثیت سے اُ بھرا ہے۔ روس نے بھی گذشتہ ۱۰برسوں میں نئی کروٹ لی ہے۔ امریکا اور مغربی اقوام ۲۰۰۸ء کے معاشی بحران کے اثرات سے اب تک نہیں نکل سکے۔ صدرٹرمپ نے ’سب سے پہلے امریکا‘ عالم گیریت سے شدید بے زاری، دائیں بازو کے قوم پرستانہ خیالات و اہداف کی حوصلہ افزائی، تجارت میں داخلیت کی طرف جھکائو، اقوامِ متحدہ، یورپین یونین،ناٹو اور راے عامہ کے عالمی اداروں کے بارے میں سردمہری کا جو مظاہرہ کیا ہے، اس سے امریکا کے عالمی کردار کے محدود ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔صاف نظر آرہا ہے کہ دنیا آہستہ آہستہ یک قطبی (Unilateral) نظام سے کثیر قطبی (Multilateral)نظام کی طرف بڑھ رہی ہے۔
مسلم دُنیا خصوصیت سے شرقِ اوسط، معاشی اور سیاسی اعتبار سے کمزور ہورہا ہے۔ لیکن ترکی، ایران، انڈونیشیا اورملایشیا رُوبہ ترقی ہیں اور ان کا کردار بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔ پاکستان اپنی بے پناہ استعداد (potential) کے باوجود اندرونی کمزوریوں اور خودشکنی کی وجہ سے اپنا صحیح مقام حاصل اور کردار ادا نہیں کرپا رہا۔ شام، عراق، افغانستان، لیبیا، یمن بُری طرح تباہ ہوچکے ہیں۔ مصر بھی وسائل اور امکانات کے باوجود، دوڑ میں نہ صرف بہت پیچھے بلکہ داخلی اعتبار سے تباہ کن پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ تیونس اور مراکش میں زندگی اور تبدیلی کے آثار ہیں۔ ان حالات میں سیاسی، عسکری اور معاشی، ہر میدان میں نئی صف بندی کی ضرورت ہے۔
صدرٹرمپ کے حالیہ اقدام کے منفی پہلو تو بے شمار ہیں، لیکن اس کے کچھ مثبت پہلو بھی ہوسکتے ہیں جن کی فکر کرنے کی ضرورت ہے:
ہم اپنے قارئین کو بھی دعوت دیتے ہیں کہ وہ اس سلسلے میں اپنے خیالات اور نتائجِ فکر سے ادارے کو مطلع کریں اور ہماری بھی کوشش ہوگی کہ اپنی معروضات ان شاء اللہ مستقبل قریب میں آپ کے اور اُمت مسلمہ کے غوروخوض کے لیے پیش کریں۔
اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق سے نوازے، آمین!