اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو ذہنی اور جسمانی صلاحیتیں عطا کی ہیں، وہ اس قدر ہمہ گیر ، بے پایاں اور مختلف النوع ہیں کہ انھیں پوری طرح احاطۂ تحریر میں لانا ممکن نہیں ہے۔ دیکھنے، بولنے اور چلنے پھرنے کی صلاحیت ، سننے ، چکھنے اور سونگھنے کی صلاحیت ‘ حسب منشا اُٹھنے بیٹھنے اور آزادانہ حرکت کرنے کی صلاحیت ، اپنے ذہن سے سوچنے ، طرح طرح کے منصوبے تیار کرنے اور انھیں رُوبۂ عمل لانے کی صلاحیت___ ان صلاحیتوں کا مثبت پہلو یہ ہے کہ انسان نے زمین کو گلِ گلزار بنادیا ہے۔ دورِ جدید کی راحتوں اور آسایشوں بھری زندگی، انسان کی انھی دماغی کاوشوں کی مرہونِ منت ہے ، لیکن اسی انسانی دماغ کی منفی سوچ کا نتیجہ ہے کہ انسان نے تخریب وہلاکت کے خوف ناک وسائل بھی مہیا کر لیے ہیں اور آج روے زمین کے بعض خطے جہنم زاربنے ہیں۔ اسے انسان کی بدبختی کے سوا ور کیا کہا جائے۔
تحریر ، بالفاظ دیگر فکرو سوچ یا خیالات واحساسات کو بذریعہ قلم، صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنا بھی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ، ایک بہت بڑی صلاحیت ہے اور نعمت بھی۔بیش تر انسانی صلاحیتوں کی طرح یہ بھی ایک وہبی صلاحیت ہے، تا ہم کوئی بھی شخص جو لکھنا پڑھنا جانتا ہو، مطالعے ، مشق اور کاوش وکوشش کے ذریعے ، اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کر سکتا ہے، اور اسے نشو ونما دے کر ، اس سے مفید کام لے سکتا ہے۔
جو لوگ کسی تحریک سے وابستہ ہو کر، ایک بڑے مقصد کے لیے کام کررہے ہوں، ان کے لیے تو قلم وقرطاس کا فن جاننا ازبس ضروری ہے۔ دورِحاضر میں کتابیں ، رسائل اور اخبارات مختلف نظریات وخیالات کی تبلیغ واشاعت میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ اگر آپ اپنی بات کو تحریر کا رُوپ دینے پر قادر ہیں اور آپ کی بات میں وزن ہو گا، دلیل ہو گی تو بہتوں کو متاثر کرے گی، قائل کرے گی، اورا س سے کئی ایک آپ کے ہم آواز اور ہم سفر ہو جائیں گے۔ دورِ حاضر میں تو لکھنے لکھانے کا اقتصادی پہلو بھی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اس وقت لکھنے والوں کی کثیر تعداد نے تحریر کو ذریعۂ معاش بھی بنا رکھا ہے۔ مغرب میں تو لکھنے والوں کو تحریر کا نہایت معقول معاوضہ ملتا ہے ، مگر ہمارے ہاں کتابوں اور رسالوں کی اشاعت نسبتاً کم ہے، اس لیے معاوضہ ملتا ہی نہیں یا بہت کم ملتا ہے۔ اس کے باوجود لکھنے لکھانے سے ادیب کو کچھ نہ کچھ یافت ہو سکتی ہے، اور ہمارے معاشرے میں کئی لوگ اپنے قلم کی کمائی پر گزر بسر کر رہے ہیں۔
انسان کے اندر بہت سی صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں،مگر بسا اوقات وہ پوری طرح ان سے باخبر نہیں ہوتا--- ہم میںسے ہر شخص اپنے ما فی الضمیر کو زبان پر لانے اور بذریعہ گفتگو یا اسے دوسروں کے سامنے بیان کرنے پر قادر ہے۔ عمر ، تجربے، تعلیم یا مشق کے مطابق ہر شخص کی گفتگو یا بیان کا معیار تو مختلف ہو سکتا ہے، مگر جسے خدا نے زبان دی ہے، وہ اپنی ضرورت یا احساس کو بیان کرنے پر یقینا قادر ہے۔ اب اگر آپ سے کہا جائے کہ ابھی آپ نے جو کچھ کہا ہے ، اسے لکھ کر بتائیے تو آپ کو تعمیل میں، شاید بہت مشکل پیش آئے گی۔ آپ کہیں گے میں نے تو کبھی لکھا ہی نہیں (گویا لکھنا بھی ایک لحاظ سے پیراکی کے مترادف ہوا۔ جو شخص کبھی پانی میں نہ اترا ہو، اسے کہا جائے یہ ندی نالہ پار کر کے دکھائو، تو وہ آپ کا منہ تکے گا کہ یہ فرمایش ، اور مجھ سے؟) ۔
ہم کیسے لکھیں ؟---یہ صرف آپ کا نہیں ، ان سب لوگوں کا مسئلہ ہے، جو لکھتے نہیں۔ اور جو لکھتے ہیں ان کے لیے لکھنا کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ اگر آپ بھی لکھنا شروع کر دیں تو یہ آپ کے لیے کوئی مسئلہ نہیں رہے گا،ان شا اللہ العزیز۔ لکھنا آپ کے لیے ویسا ہی روز مرہ یا روٹین کا عمل ہوگا، جیسے آپ روزانہ گھر سے نکل کر سکول یا کالج جاتے ہیں یا کپڑے بدلتے ہیں یا حسب ضرورت گفتگو کرتے ہیں۔ اگر آپ لکھنا جان جائیں ، اور آپ کے اندر یہ اعتماد پیدا ہو جائے کہ میں جو چاہوں ، جب چاہوں اور جس طرح چاہوں، لکھ سکتا ہوں تو بس یہی مطلوب ہے۔
نثر لکھنے کی صلاحیت ہر اس شخص کے اندر موجود ہوتی ہے، جو معمولی املا لکھ سکتا ہے اور یہ صلاحیت ہرتعلیم یافتہ (کم یا زیادہ)کے اندر موجود ہوتی ہے۔یہ صلاحیت یقینا آپ کے اندر بھی موجود ہے۔ سب سے پہلے تو آپ کو اپنے اندر ، تحریر کی ضرورت واہمیت کا احساس پیدا کرنا ہے۔ اگر آپ ذہناً اس کی افادیت کے قائل ہو جائیں تو پھر اس عزم کو تازہ کیجیے کہ آپ کو لکھنا سیکھنا ہے، کچھ نہ کچھ لکھنا ہے، اور بذریعہ تحریر اپنی سوچ ، اپنی بات اور اپنا تاثر دوسروں تک پہنچانا ہے۔ مثبت اقدار کی حمایت میں قلم اٹھانا ، اور کسی بھی تحریر (ناول ، افسانہ ، ڈراما، شاعری، مضمون ، تنقید، طنزومزاح، حالات حاضرہ پر تبصرہ ، حتیٰ کہ کسی اخباری مراسلے) کے ذریعے اپنے مقصد ونصب العین کو قارئین تک پہنچانے کی کوشش شہادتِ حق اور جہاد فی سبیل اللہ ہی کی ایک صورت ہے۔
اگر آپ کے اندر یہ عزم راسخ ہو جائے کہ مجھے اپنے مثبت اور سچے محسوسات دوسروں تک پہنچانے ہیں تو ہر روز دس مرتبہ آپ کا جی چاہے گا کہ یہاں مجھے اپنی بات کہنی چاہیے، اپنا موقف پیش کرنا چاہیے۔ ہم ایک نا ساز گار ماحول میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور حالات ومعاملات کو قدم قدم پر اپنی طبیعت ، اپنے مقاصد اور اپنے اصولوں کے خلاف پاتے ہیں۔ حق وانصاف کا خون ہوتا دیکھتے ہیں۔ بددیانتی اور بے اصولی فروغ پذیر ہے۔ خیرو شر کے درمیان چہارسُو، ایک معرکہ اور ایک کش مکش برپا ہے ۔ ہمارے ایمان کی کسوٹی یہ ہے کہ ہم شر اور باطل کے خلاف کس حد تک آواز بلند کرتے ہیں۔ اس کا ایک ذریعہ ، اور بہت مؤثر ذریعہ یہ ہے کہ ہم بذریعہ تحریر (اس کی کوئی بھی صورت ہو، کوئی بھی صنف سخن ہو ) حق وراستی کی حمایت میں اور باطل کے خلاف آواز بلند کریں۔ کوئی مضمون لکھیں ، یا اخبار کو ایک مختصر مراسلہ ہی بھیج دیں۔ کسی اور صنف نثر میں دسترس ہے تو اسے ذریعۂ اظہار بنائیں، یعنی آپ اپنا ردعمل ضرور ظاہر کریں۔ خبریں سنتے ہوئے یا اخبار پڑھتے ہوئے، یا اسکول کالج،ملازمت یا بازار سے واپسی پر آپ کچھ محسوس کر رہے ہیں اور ذہن میں لاوا پک رہا ہے، قلم پکڑ ئیے ، کاغذ اٹھائیے اور اپنے تاثرات قلم بندکر ڈالیے ۔ اب تو سوشل میڈیا بھی اظہار راے کا اہم ذریعہ ہے۔
جب آپ لکھنا شروع کریں گے (اور اگر آپ، لکھنے کی اچھی خاصی مشق نہیں رکھتے تو ) آپ کو کچھ دقت محسوس ہو گی۔ ممکن ہے، الفاظ ، خیالات کا ساتھ نہ دیں۔ اپنے محسوسات کے مناسب جملے بنانے میں آپ کو مشکل پیش آئے یا آپ اپنی بات کو مؤثر انداز میں اور صحیح ترتیب کے ساتھ پیش کرنے میں کامیاب نہ ہوں--- کوئی حرج نہیں ، اہم تو یہ ہے کہ آپ جو کچھ محسوس کرتے ہیں، اسے سوچ ساچ کر، اپنے تئیں بہتر سے بہتر انداز میں مناسب سے مناسب تر الفاظ کے ذریعے کاغذ پر منتقل کر دیں۔یہ عمل وقتاً فوقتاً دہرائیے ۔ رفتہ رفتہ آپ محسوس کریں گے کہ مشکلات کم ہو رہی ہیں اور اب آپ کے لیے ما فی الضمیر کو ادا کرنا آسان تر ہوتا جا رہا ہے۔
درحقیقت مشق ، تحریر کو بہتر اور مؤثر بنانے کا نہایت کار گر اور کامیاب ذریعہ ہے۔ خوش نویسی (کتابت ) کے حوالے سے ایک شعر ہے:
گر تو می خواہی کہ باشی خوش نویس
مے نویس و مے نویس و مے نویس
(اگر تو چاہتا ہے کہ خوش نویس بن جائے تو لکھتا رہ ، لکھتا رہ ، لکھتا رہ )۔
ادیب، مضمون نویس یا نثر نگار بننے کے لیے مسلسل لکھتے رہنا از بس ضروری ہے۔ بعض معروف اور نامور ادیب بھی مسلسل مشق کے اس عمل سے گزر کر ہی بلند پایہ نثرنویس بنے ہیں، مثلاً: محمد حسین آزاد کے صاحب ِطرز ادیب اور منفرد نثرنویس ہونے میں کسے کلام ہے، مگر ایک زمانے میں وہ اپنی معمولی تحریروں کو بھی لکھتے ، پھاڑ دیتے ، پھر لکھتے اور پھاڑ دیتے اور اس طرح متعدد کاوشوں کے بعد تحریر کو حتمی شکل دیتے تھے۔ اپنی تحریر کو تنقیدی نظر سے دیکھنا ، جانچنا اور اسے بہتر بنانے کے لیے اس میں ترامیم کرنا خرابی کی نہیں ، خوبی کی بات ہے۔ محنت ومشکلات کا یہ عمل ’خونِ جگر‘ صرف کرنے کے مترادف ہے۔ ادیب، بلکہ ہر فن کار خونِ جگر صرف کر کے اپنی تخلیق کو زیادہ معیاری بنا سکتا ہے۔ مشق اور محنت کے بغیر کوئی انسانی کاوش پختگی اور معیار حاصل نہیں کر سکتی ۔ بقول علامہ اقبال :
نقش ہیں سب نا تمام خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سوداے خام خون جگر کے بغیر
خود علامہ اقبال نے اپنے بعض اشعار کو تین تین چار چار بار کاٹ کر، بہتر بنایا۔ (اقبال اکادمی پاکستان لاہور میں محفوظ ان کے قلمی مسودوں سے اس بات کا ثبوت فراہم ہوتا ہے ۔ )
مشق کے مرحلے میں، اگر ممکن ہو تو اپنی تحریر کسی کو دکھا لیں۔ کسی استاد یا بزرگ کی اصلاح، آپ کے لیے مفید رہنمائی کا باعث ہوگی۔ وہ آپ کی تحریر میں جو حذف وترمیم کریں، جملوں کی ترتیب بدلیں ، لفظوں میں کانٹ چھانٹ کریں، اس پر خوب غور کر کے ، اپنی خامی کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اگر سمجھ نہ آئے تو دریافت کرنے میں عار محسوس نہ کریں۔
اب اگر آپ کچھ نہ کچھ لکھنے کی افادیت وضرورت کے قائل ہو چکے ہیں تو اللہ کا نام لے کر، آج ہی سے تحریری مشق شروع کر دیجیے ۔ لکھنے کی مشق کے ساتھ ، درج ذیل نکات بھی آپ کی توجہ کے لائق ہیں:
(الف ) جملے مختصر اور سادہ ہوں۔ طویل فقروں اور قدیم انداز کی شاعرانہ اور مسجع ومقفیٰ زبان آج کے اسلوب سے مطابقت نہیں رکھتی۔ علاوہ ازیں حتی الامکان انگریزی الفاظ وتراکیب کے استعمال سے احتراز کیجیے ، خصوصاً جہاں اُردو مترادفات موجود ہوں۔
(ب ) صحتِ زبان کا خاص خیال رکھیے ۔ اس ضمن میں یوں تو بہت سی مفید کتابیں آپ کی رہنمائی کر سکتی ہیں۔ تا ہم، پروفیسر آسی ضیائی کی کتاب درست اُردو زیر مطالعہ رکھیے ۔ اسی طرح رشیدحسن خاں کی انشاء اور تلفظ ، اور عبارت کیسے لکھیں کے مطالعے سے بھی ان شا اللہ فائدہ ہو گا۔ اشعار یا اقوال بالکل صحیح ہونا ضروری ہے۔ جہاں شبہہ ہو ، اصل کتاب دیکھ کر درست صورت اختیار کیجیے۔
(ج ) جہاں تک ممکن ہو، اختصار ملحوظ رکھیے ۔ اپنے ما فی الضمیر کو کم سے کم لفظوں میں ادا کرنے کی کوشش کیجیے۔ کفایتِ لفظی ، اچھی تحریر کی بنیادی خوبی ہے اور تکرارِ لفظی عیب ہے--- تاہم اختصار وکفایتِ لفظی کا اہتمام مناسب حد تک ہونا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ لفظوں کی کفایت کرتے کرتے عبارت چیستان بن جائے اور قاری مفہوم سمجھنے سے قاصر رہے۔
(د) تحریر کا اسلوب ، موضوع کے حسب حال ہونا چاہیے، یعنی ناول وافسانہ ہے تو افسانوی انداز، سماجی وعمرانی مسائل ہوں تو عالمانہ اسلوب ، ادبی تنقیدی موضوع ہوتو تنقیدی اسلوب ---! تحریر طلبہ کے لیے ہو تو نسبتاً آسان اور تشریحی انداز، روز مرہ کے مسائل ہوں اور اخباری تحریر ہو تو عام فہم اور سلیس عبارت ہونی چاہیے تا کہ کم پڑھے لوگ بھی سمجھ سکیں۔ پھر تحریر کے اندر مثالیں بھی حسب معیار وماحول ہونی چاہییں۔
اب اپنی تحریر کی ایک نقل بنوا کر، اسے اشاعت کے لیے بھیج دیجیے ۔ مضمون شائع ہونے میں تاخیر ہو تو گھبرائیے نہیں۔ ایک اور کاوش کیجیے،کوئی اور چیز لکھیے اور یہ سلسلہ مستقلاً جاری رکھیے۔ رفتہ رفتہ آپ کی تحریریں شائع ہونے لگیں گی، اور ایک روز آپ کا شمار لکھنے والوں کی اس فہرست میں ہو گا ، جو شاید اس وقت آپ کے لیے باعثِ رشک ہیں۔