پاکستان میں اس وقت جو نظریاتی ، فکری اور تہذیبی چیلنجز درپیش ہیں ان کا ماخذ اور منبع ہمارا نظامِ تعلیم ہے۔ نظامِ تعلیم میں گہری جڑیں رکھنے والے ان چیلنجوں کی وجہ سے پاکستانی معاشرہ بہت تیزی کے ساتھ تغیر کا شکار ہو رہا ہے۔ بدقسمتی سے اس تغیر و تبدیلی کی سمت اور رحجان مغربی افکار، مغربی فلسفۂ حیات ، مغربی رہن سہن اور مغربی طرزِ زندگی کی طرف ہے۔ ہمارے نظامِ تعلیم کو درپیش چیلنجوں میں سے کچھ داخلی ہیں اور کچھ خارجی ۔ خارجی چیلنجوں میں مغربی استعماری ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کام کرنے والی قوتیں اور ایجنسیاں ، گلوبلائزیشن اور نیو لبرلزم کے بین الاقوامی ہتھکنڈے، جمہوری لبادے میں چھپی سیکولرزم کی زہرناکی اور ان سب کی سر پرست اعلیٰ عالمی صہیونیت شامل ہیں۔ داخلی چیلنجوں میں اپنے آپ کو مغربی اور لبرل قوتوں کے لیے ’قابلِ قبول‘ بنانے کی خواہش، اپنے فکر و عمل کی قوتوں پر بے اعتمادی اور اُن کی اثر پذیری کو قبول کرنا ہے۔ جاہ پسندی اور مال و دولت کے حصول کی اندھی خواہش اور سب سے بڑھ کر دینی وابستگی کا اظہار کرنے والوں میں گھسے ہوئے ایسے پُرکشش چہرے ہیں، جو اکثر و بیش تر بااثر بھی ہیں اور باصلاحیت بھی۔
خارجی چیلنجوں میں سب سے پہلے ہم مغربی استعماری ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کام کرنے والی قوتوں اور ایجنسیوں کو لیتے ہیں۔ ان قوتوں اور ایجنسیوں کی باگ ڈور یک قطبی عالمی طاقت امریکا نے اپنے ہاتھوں میں لے رکھی ہے۔ امریکا نے بزعم خود کافی حد تک دنیا کو عسکری طورپر قابو میں لے لیا ہے۔ اگرچہ افغانستان اور عراق کا تجربہ اس کے لیے سخت پریشانی اور ہزیمت کا باعث ہے، تاہم عسکری قوت کے لحاظ سے فی الوقت امریکا اپنے غلبے کو دوام اور استحکام بخشنے کے لیے ذہنوں کو تسخیر کرنا چاہتا ہے۔ عالمی میڈیا ذہنوں کی تسخیر کا سب سے بڑا ہتھیار ہے اور یہ ہتھیار بھی تقریباً امریکا کے ہاتھوں میں ہے۔ اِدھراُدھر سے اُٹھنے والی اختلافی اور حریت فکر کا رنگ لیے دبی دبی آوازیں میڈیا کے امریکی ہتھیار کو اعتبار(credibility)دیتی ہیں اور اُسے بالکل بے نقاب ہونے سے بچاتی ہیں۔
اگرچہ میڈیا کا اثر بہت وسیع اور گہرا ہے، تا ہم یہ قلیل المیعاد ہتھکنڈا ہے۔ طویل المیعاد اثرات صرف اور صرف کلاس روم کو کنٹرول میں لینے سے حاصل ہوتے ہیں۔ امریکا نے پچھلے ۵۰،۶۰ برسوں میں کئی تجربات کیے ہیں اور اب آخر اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ پری سکول (Pre-school) ہی سے اس کام کو ہاتھ میں لے لینا چاہیے، تاکہ بچے ابتدائی تشکیلی دور ہی سے قابو میں آجائیں اور اُن کی شخصیت و ذہن کی طبعی اُٹھان مطلوبہ سانچے کے مطابق ہو۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے امریکی کار پردازوں نے بڑا مربوط اور تسلسل کا حامل ایک ڈھانچا تشکیل دیا ہے، جو واشنگٹن سے اسلام آباد اور اسلام آباد سے صوبہ سندھ، صوبہ بلوچستان، صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبرپختونخوا کے دُور دراز کے پرائمری مدارس تک پھیلا ہو ا ہے۔
امریکا کے تشکیل کردہ اس ڈھانچے میں عمل تعلیم کے سارے عناصر، یعنی معلم، متعلّم، نصاب، کتاب، امتحان، حتیٰ کہ والدین تک کو زیر اثر لانے کی تدابیر اختیار کی گئی ہیں ۔ یو ایس ایڈ کی چھتری تلے اور ’ایجوکیشن سیکٹر ریفارمز اسسٹنس پروگرام‘(ESRAP)کی تنظیم کے تحت اور چلڈرن ریسورسز انٹرنیشنل جیسے پری سکول ایجوکیشن کے لیے کام کرنے والے اداروں کے توسط اور عملی شرکت سے ایک نفوذ ی حکمت عملی اختیار کی گئی ہے۔
اساتذہ کی تربیت کا ایک وسیع پروگرام ہے جس میں بڑی کلاسوں کے اساتذہ کی تربیت کے تربیت کار امریکا میں، جب کہ اسکولوں کے اساتذہ کے لیے اپنے اپنے علاقے میں دورانِ ملازمت تربیت کا اہتمام کیا گیا ہے۔ دیگر مغربی ایجنسیاں جن میں یورپین کمیشن، کینیڈین ایجنسی براے انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ، برطانیہ کا بین الاقوامی ترقی کا امدادی ادارہ (DFID)،جرمنی کا بین الاقوامی معاونت کا ادارہ (GIZ)اور دیگر یورپی ملکوں کے امدادی ادارے، بین الاقوامی این جی اوز اور اقوام متحدہ کے ادارے شامل ہیں۔ یہ سب ایک مربوط حکمتِ عملی اور پاکستان میں اپنے اپنے قائم کردہ انتظامی و نگرانی کے اداروں کے ذریعے سے تعلیم کی اصلاح اور تعمیر نو کے پروگراموں پر عمل پیرا ہیں۔ بین الاقوامی امدادی اور ترقیاتی اداروں کا جہاں ایک مثبت کردار ہے، وہاں اُن کا ایک اپنا باطنی ایجنڈا بھی ہوتا ہے۔ اور کچھ بھی نہ ہو تو ثقافتی اور نظریاتی تبدیلی تو بہرحال اُن کے پیش نظرہوتی ہے۔
گلوبلائزیشن اور نیو لبر لزم کے تحت زیر تشکیل نئے عالمی نظام کی طرف سے آنے والے علیحدہ چیلنج ہیں، جو معاشرے کے پورے ڈھانچے کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم کے شعبے کو بھی بُری طرح مسخ کر رہے ہیں۔پرائیویٹائزیشن (privatization)،مارکیٹ اکانومی ، تعلیم بطور جنس بازار، تعلیم کے سلسلے میں بین الاقوامی سرحدوں کا انہدام اور منڈی کی ضروریات کے تحت تعلیمی پروگراموں کی تشکیل، وہ اثرات ہیں جس سے ’تعلیم سب کے لیے‘کا تصور دھند لا رہاہے۔ طبقاتی تفریق بڑھ رہی ہے۔ تعلیم میں اخلاقی اقدار زوال پذیر ہیں۔ یونی ورسٹی میں سماجی علوم کی تعلیم ختم ہو رہی ہے۔ اساتذہ اور ماہرین تعلیم کا کردار تعلیمی پالیسیوں کی تشکیل کے حوالے سے بہت پیچھے چلا گیا ہے اور سرمایہ دار تعلیمی پالیسیوں کی تشکیل پر حاوی ہو گیا ہے۔
تعلیم کے لیے اندرونی چیلنج بھی کچھ کم روح فرسا نہیں ہیں۔ حکومت اپنے آمرانہ ڈنڈے کے زور پر تعلیم میں لادینیت کے فروغ کے لیے تن دہی سے کام کر رہی ہے۔ فیصلہ سازی کے اہم مناصب پر ایسے لوگ متعین کر دیے گئے ہیں جو سیکولزم اور لبرلزم کو اپنا جزو ایمان سمجھتے ہیں اور پوری ڈھٹائی کے ساتھ بیرونی آقائوں کے ایجنڈے کے لیے کوشاں ہیں۔ دوسری طرف محکمہ تعلیم کے اہل کاران ، افسران اور اساتذہ کرام ہیں جو دین و وطن کے لیے دردِ دل رکھتے بھی ہوں تو یا تو نظام کے ہاتھوں مجبور ہیں یا اپنے مفادات کی وجہ سے بے بس ہیں۔ اساتذہ کی تنظیمیں جو اپنے آپ کو نظریاتی کہتی ہیں وہ بھی اور جو اپنی پہچان پیشہ ورانہ بتاتی ہیں وہ بھی، وسیع تر قومی تقاضوں کو ایک طرف رکھ کر محض ملازمانہ معاملات و مفادات تک محدود ہیں۔بدقسمتی سے یہ سب کھلے دل و دماغ کے ساتھ تعلیمی مسائل پر غورو فکر کے لیے تیارنہیں ہیں۔
سیاسی جماعتیں حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں اُن کے لیے تعلیم کا مسئلہ یکساں طور پر ناقابلِ غور ہے ۔وہ کسی مسئلے پر بیان بازی کریں بھی تومحض حکومت کو زچ کرنے کے لیے کرتی ہیں۔ خود اُن کی فکر اور طرزِ عمل کسی طرح بھی حکومت وقت سے مختلف نہیں ہے۔ مذہبی جماعتیں بھی تعلیم کے مسئلے پر بُری طرح فکری انتشار کا شکار ہیں ۔ اُن کے پاس نعروں اور مذمتوں کے علاوہ کوئی مثبت پروگرام نہیں ہے۔ تعلیم کی پرائیویٹائزیشن ، کمرشلائزیشن اور طبقاتی تقسیم کے حوالے سے دینی جماعتوں کا کردار بھی تقریباً وہی ہے جو عموماً سیکو لر سوچ کے گروہوں کا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر بہت تیزی کے ساتھ پرَ پھیلا رہا ہے۔ سرمایے کے زور پر تعلیمی اداروں کا بے مقصد اور مغرب زدہ ڈگری کلچر فروغ پذیر ہو رہا ہے۔ غیر سرکاری تنظیمیں غیر ملکی اور حکومتی سرمایے سے مستحکم ہو کر ایک مافیا کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ جائز اور معقول تعلیمی خدمات انجام دینے والی مخیر تنظیموں کا کام مشکل تر کر دیا گیا ہے۔ کئی تنظیمیں تو ایسی ہیں جو دینی اور سیکولر دونوں طبقوں سے پیسہ بٹور رہی ہیں کیونکہ میڈیا کا استعمال انھیں ہوائوں میںاُڑائے پھرتا ہے۔ ایسی تنظیمیں برسرِزمین محض علامتی تعلیمی کردار ادا کر رہی ہیں۔
بیرونی قوتوں کا سب سے بڑا ہتھیار تحقیق ہے۔ ہمارے شعبۂ تعلیم کے مختلف پہلوئوں پر دھڑا دھٹر تحقیقی رپورٹیں آ رہی ہیں۔ کہیں نصاب ہدف ہے تو کہیں دینی مدارس ۔ کہیں نصابی کتب موضوع بحث ہیں تو کہیں ہمارا امتحانی نظام جو بلاشبہہ فرسودہ اور بے کار ہے۔سب سے بڑا چیلنج جو اس وقت درپیش ہے وہ یہ کہ مذکورہ بالا چیلنجوں کا سطحی سا ادراک بھی قوم کے ارباب بست و کشاد کو نہیں ہے۔ علما ہوں یا عوام ، اساتذہ ہوں یا والدین، اربابِ حکومت ہوں یا حزب اختلاف، کسی کو بھی فرصت نہیں کہ ان چیلنجوں پر غور و فکر کے لیے چند لمحات صرف کریں اور ان کا شعور و ادراک کرتے ہوئے اس طوفان بلا خیز کے سامنے بند باندھنے کے لیے اپنا کردار کریں۔
تعلیم و تعلم اور علم و تحقیق کو درپیش چیلنج سے عہدہ بر آ ہونے کےلیے بھی علم کا راستہ ہی اختیار کرنا پڑے گا۔ ہم ذیل میں چند ایسے اقدامات تجویز کرتے ہیں، جن پر اگر تسلسل سے عمل کیا جائے تو ان شاء اللہ طویل المیعاد بنیادوں پر ان کے اثرات مرتب ہوں گے: